سوال یہ ہے کہ کسی مرزائی احمدی شخص نے اپنی ذاتی جگہ احمدیوں پر وقف برائے مسجد کی احمدیوں کو کافر قرار دینے سے پہلے تو کیا اس جگہ مسجد بنائی جائے گی ؟
(سائل: محمد احمد قادری)
سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی مرزائی احمدی شخص نے اگر کسی دوسرے مرزائی احمدی شخص کو مسجد کے لئے جگہ دی تو اگرچہ مسجد مسلمانوں کے لئے ہوتی ہے لیکن کسی کافر، مرتد کا مسجد کو وقف کرنا درست نہیں ہے لہذا وہ جگہ اس کافر کی ملکیت ہی میں رہے گی۔ اب اگر وہ جگہ اس مرزائی نے مرتد ہونے سے پہلے زمانہ اسلام میں لی تھی اور وہ مرزائی مر گیا یا قتل ہو گیا یا دار الحرب چلا گیا تو پھر وہ اس کے مسلمان وارثوں کی ہو گی اور ان سے خرید کر مسجد بنائی جا سکتی ہے اور اگر وہ جگہ اس مرزائی نے مرتد ہونے کے زمانے میں ہی لی تھی تو پھر اس کے مرنے یا قتل ہونے یا دار الحرب میں چلے جانے کے بعد وہ جگہ مال غنیمت بن جائے گی اور اس جگہ کو مسلمانوں کی مرضی سے مسلمانوں کی منفعت میں صرف کیا جائے گا لہذا اگر اس علاقے میں مسجد کی ضرورت ہے تو مسلمانوں کے لئے وہاں مسجد بھی بنائی جا سکتی ہے۔
کوئی مرتد مسجد کے لئے جگہ وقف کرے تو وہ مسجد نہیں ہوگی اس لئے کہ اس کے خیال میں مسجد کار ثواب نہیں ہے۔
چنانچہ امام ِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں:
کافر نے مسجد کے لئے وقف کیا وقف نہ ہوگا کہ یہ اُس کے خیال میں کارثواب نہیں۔1
مرتد کی حالتِ ارتداد کی کمائی اس کے مرنے کے بعد مال ِغنیمت بن جائے گی اور اُسے مسلمانوں کی مرضی کے مطابق مسلمانوں کے فائدے پر صرف کیا جائے گا۔
چنانچہ علَّامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:
المرتدّ اذاقتلَ اوماتَ اولحق بدارالحرب فما اكتسبه فی حالِ اِسلامه هو میراثُ لورثة المسلمینَ اَما ما اكتسبه فی حالة الردة یکون فیئایوضع فی بیت المالِ 2
یعنی، مرتد جب قتل ہوجائے یا مرجائے یا دارالحرب سے ملحق ہوجائے تو جو کچھ اس نے حالت اسلام میں کمایا تھا وہ اس کے مسلمان وارثوں کو بطورِ میراث ملے گا اور جو کچھ بحالت ارتداد کما یا وہ مال غنیمت ہے جو بیت المال میں رکھا جائے گا۔
اور امام ِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ سے ایک سوال ہوا: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں، ایک مسجد قدیم کسی شیعہ کی تھی مگر کچھ عرصے سے ویران پڑی تھی، اسی حالت ویرانی میں چند قدم کے فاصلے پر ایک سنی نے دوسری مسجد بنوائی اور اس نئی سنی کی مسجد میں مسلمان سنی نماز پنج وقتہ پڑھنے لگے اس کے پانچ چھ برس کے بعد پرانی شیعہ کی مسجد کو ایک شخص نے ایک سنی کے ہاتھ فروخت کر ڈالا تو اس سنی نے اس کی مرمت وغیرہ کراکے پنج وقتہ اذان وجماعت کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردئے۔ اس کو بھی پانچ چھ برس کا عرصہ گزرگیا اب اس سنی مشتری مذکور نے اپنا ایک مکان مسجد کے مدرسہ اسلامیہ کے لئے وقف کردیا ہے اور مسجد مذکور میں بیٹھ کر لوگوں کو قرآن پڑھنے کی اجازت دیتا ہے، اور مسجد مذکور میں بہت سی زمین ایسی پڑی ہے جس پر جوتا پہن کے چلتے ہیں تو اس زمین پر مدرسہ کیلئے کمروں کے بنانے کی بھی اجازت دیتا ہے تو ایسی صورت میں حسب ذیل سوالات کے جوابات مرحمت ہوں:
اول : یہ دونوں مسجدیں حکم مسجد میں ہیں یانہ؟اور مسلمانوں کو دونوں مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ثواب مسجد حاصل ہوگا یانہ؟اور اگر نہ حاصل ہوگا تو پھر اس مسجد کو کس کام میں لاسکتے ہیں؟
دوم : طلبہ مدرسہ اسلامیہ کا اس مسجد کے اندر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے یانہ؟
سوم : احاطہ مسجدکے اندر جو زمین صحنِ مسجد کے علاوہ جہاں جوتا پہن کے چلتے ہیں اس پر مدرسہ کے روپیہ سے کوئی کمرہ وغیرہ طلبہ کی تعلیم کےلئے یا دفتر مدرسہ کےلئے یا طلبہ کے رہنے کےلئے بنانا جائز اور اس میں ان کاموں میں سے کوئی کام کرنا جائز ہے یانہ؟
چہارم : مشتری مسجد کی یہ بھی تجویز ہے کہ مسجد کے اندر سے جہاں جوتا پہن کے چلتے ہیں ایک راستہ مدرسہ کےاندر جانے کا نکالا جائے کہ طلبہ وملازمین مدرسہ کو مدرسہ میں جاناآسان ہوجائے ورنہ چکر کھا کے گلیوں میں سے جانا ہوگا تو آیا یہ جائز ہے یانہیں؟
آپ اس کے جواب میں لکھتے ہیں:وہ مسجد کہ سنی نے بنوائی تھی بلاشبہ مسجد ہے اور اس کا رکھنا فرض ہے اور اس میں نماز کا ثواب وہی ہے جو مسجد میں نماز کا ثواب ہے،روافض زمانہ مرتد ہیں کما حققناہ فی ردالرفضۃ (جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق ردالرفضہ میں بیان کی ہے۔ت) تو وہ مسجد بنانے کے اہل نہیں۔
قال اﷲ تعالٰی
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْر(الٰی قوله تعالٰی) اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ 3
اﷲ تعالٰی نے فرمایا مشرکوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اﷲ تعالٰی کی مساجد تعمیر کریں اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں(اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد تک کہ) بیشک اﷲ تعالٰی کی مسجدیں تو وہی لوگ تعمیرکرتے ہیں جو اﷲ تعالٰی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔(ترجمہ کنزالایمان)
خصوصاً بعد موت کے مرتد کے سب اوقاف باطل ہوجاتے ہیں کما فی الدرالمختار وغیرہ (جیساکہ درمختار وغیرہ میں ہے۔ت) تو وہ مسجد کہ سنی نے خریدی اسےمرمت وغیرہ کراکے اگر اس خیال سے نماز کے لئے دیا کہ یہ پہلے سے مسجد ہے تو وہ خیال باطل تھا اور وہ مسجد بدستور ایک مکان ہے جس میں ان تمام تصرفات مذکورہ فی السوال کا اختیار ہے، اور اگر سنی نے خرید کر از سر نو اپنی طرف سے اسے مسجد کردیا یعنی یہ سمجھ کر کہ یہ مسجد نہیں میں اسے مسجد کرتا ہوں،نہ یہ سمجھ کر کہ یہ مسجد تھی اسے کارِ مسجد کے لئے چھوڑتا ہوں، اس صورت میں اگر شرائے صحیح سے سنی کے لئےا س کی ملک ثابت ہوگئی تھی تو یہ بھی مسجد ہوگئی مگر یہ بہت بعید ہے اس کے لئے صرف ایک صورت ہے کہ غالباً وہ واقع نہ ہوئی ہوگی، وہ صورت یہ کہ زمین جسے رافضی نے مسجد کیا اس کے زمانہ اسلام کی ملک تھی، اس کے بعد اس نے رفض اختیار کیا، یہ مسجد بنائی اور مرگیا اور اس کے قریب و بعید وارثوں میں کوئی شخص سنی مسلمان ہے کہ وہی اس کے کسب اسلام کا وارث ہوکر اس مکان کا مالک ہے اور اس نے اس سنی کے ہاتھ بیچ ڈالا تو یہ شراء صحیح ہوا اور یہ سنی اس مکان کا مالک ہوگیا اور اب جو اس نے اسے اپنی طرف سے مسجد کیا مسجد ہوگئی، اس صورت بعیدہ پر وہ تصرفات مذکورہ سب ناجائز ہوں گے فانہ لایجوز تغییر الوقف عما ھولہ (کہ وقف اپنی اصلی حالت سے تبدیل کرنا جائز نہیں۔ت) مگر طلبہ کا پڑھنا جائز جبکہ اطفال نہ ہوں اور نماز کے وقت نمازکی جگہ نہ گھیریں نہ ان کے پڑھنے سے نمازیوں کو تشویش ہو اور اگر یہ صورت نہیں بلکہ وہ مکان اس کے زمانہ رفض ہی کی ملک تھا تو یہ بیع جس شخص نے کی ہر گز مثبت ملک مشتری نہیں کہ بائع خود ہی مالک نہ تھا مرتد کے زمانہ ارتداد کی ملک اسکی موت کے بعد فیئ للمسلمین ہوجاتی ہے اس کے کسی وارث کو نہیں پہنچ سکتی اگرچہ اس کا بیٹا ہو مسلم ہو خواہ اسی کی طرح مرتد یا اور قسم کا کافر، تو جب شراء صحیح نہ ہوا تواس سنی کا اسے مسجد کرنا صحیح نہ ہوا بلکہ وہ بدستور ایک زمین عام مسلمانوں کی ہے، مسلمانوں کی مرضی سے اس میں مسلمین کی منفعت کے تصرفات کرسکتے ہیں۔ 4
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:_________________
ابو حمزہ محمد طارق النّعیمی العطاری
مُتَخصّص فِی الفِقهِ الاسلامی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
TF-1720
۹،جمادی الاوّل۱۴۴۵ھ،۲۴،نومبر۲۰۲۳م
الجواب صحیح :_________________
الدکتورالمفتی محمد عطاء اللّٰہ النّعیمی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح :_________________
المفتی محمد جنید العطاری المدنی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی