کیا فرماتے ہیں عُلمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے میں کہ کیا ’’گنبد ، مینار اور محراب ‘‘ شعائرِ اسلام میں سے ہیں یا کسی بھی مذہب کے ماننے والے اپنی عبادت گاہوں پر گنبد و مینار اور محراب تعمیر کرسکتے ہیں؟
(سائل:معرفت علامہ سید زمان علی جعفری زید مجدہ)
’’گنبد و مینار اور محراب‘‘ شعائرِ اسلام میں سے ہیں اور یہ فقط مسلمانوں کی مساجد ہی کے ساتھ خاص ہیں، اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہےکہ وہ اپنی عبادت گاہوں پر گنبد و مینار بنائیں یا اپنی عبادت گاہ کے اندر محراب تعمیر کریں ، اور اگر غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہوں پر ان ’’ گنبد و مینار اور محراب ‘‘ کی تعمیر کی اجازت دےدی جائے تو اس سے مسلمانوں کو دھوکہ دینا لازم آئےگا جیسا کہ زمانۂ رسالت مآب ﷺ میں منافقین نے ایک مسجد قائم کی اور اُس کی وجہ قرآنِ کریم نے ان الفاظ ’’ إن أردنا إلّا الحسنیٰ‘‘ یعنی’’ مسجد بنانے سے ہمارا مقصد مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی ہے‘‘، کے ساتھ بیان کی لیکن اس کے باوجود قرآنِ کریم نے اسے ’’مسجد ضرار یعنی مسلمانوں کو ضرر پہنچانے والی مسجد ‘‘ اور اس عمل کو ’’ تفریق بین المسلمین یعنی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا ‘‘ قرار دیا اور نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ اسے جلادیا جائے، تو بالکل اسی طرح غیر مسلموں اور قادیانیوں کا اپنی عبادت گاہوں پر گنبد و مینار اور محراب تعمیر کرنا شعائرِ اسلام کو اختیار کرنا اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہے ،کیونکہ کسی بھی علاقے میں نئے آنے والے مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد میں جانے کی حاجت درپیش ہوتی ہے اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر’’گنبد و مینار ‘‘ دیکھ کر مسافر اور علاقے سے ناواقف مسلمان انہیں مسجد سمجھ کر اُن عبادت گاہوں کی طرف رجوع کریں گے اور دھوکے کا شکار ہوں گے ، لہٰذا غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہوں پر ’’گنبد و مینار اور محراب‘‘ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔دلائل درج ذیل ہیں۔
شعائراللہ کی تعریف کرتے ہوئے امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ لکھتے ہیں:
’’ لأَنَّ كُل ذٰلك من معالمِه وشعائِره الَّتي جعلَها أماراتٍ بَين الحقِّ والباطلِ، يُعْلَم بها حلالُه وحرامُه، وأَمرُه ونهيُه ‘‘1
یعنی،’’اس لیے کہ وہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے شعائر اور نشانیوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کے درمیان فرق کی علامت بنایا ہے ،اور ان علامتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اور حرام کردہ اشیاء کو پہچانا جاتاہے اور اُس کے احکام کو جانا جاتا ہے‘‘۔
معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان امتیاز پیدا کرے وہ شعائر اللہ میں سے ہے، اور ’’گنبد و مینار اور محراب‘‘ بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں امتیاز کی علامت ہیں، لہٰذا یہ بھی شعائر اللہ میں شامل ہیں ،اور ہمارے قانون کے مطابق ، عام آدمی کیلئے افواجِ پاکستان کا شعار مثلاً ’’فوجی وردی‘‘ اپنانا جرم ہے، اور معزّز عدلیہ کے قابلِ احترام جج صاحبان کا شعار مثلاً ’’اُن کی گاڑی پر لگایا جانے والا مخصوص جھنڈا‘‘ کسی دُوسرے شخص کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں، تو یقیناً اسلام کا شعار بھی کسی غیرمسلم کو اپنانے کی اجازت نہیں ہوسکتی، کیونکہ اگر غیرمسلموں کو کسی اسلامی شعار مثلاً اپنی عبادت گاہوں پر ’’گنبد و مینار اور محراب‘‘ کی تعمیر کی اجازت دی جائے تو اسلام کا شعار مٹ جاتا ہے اور مسلم و کافر کا امتیاز اُٹھ جاتا ہے۔ اسلام اور کفر کے نشانات کو ممتاز کرنے کے لئے جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان کفر کے کسی شعار کو نہ اپنائیں، اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ غیرمسلموں کو کسی اسلامی شعار کے اپنانے کی اجازت نہ دی جائے۔
مساجد میں محراب کی تعمیر، سمتِ قبلہ کی تعیین کیلئے کی جاتی ہے اور قبلہ رُخ ہوکر نماز ادا کرنا فقط مسلمانوں ہی کے ساتھ خاص ہے ، اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے قبلہ رُخ ہوکر نماز ادا کرنے کو مسلمانوں کی علامت فرمایا ہے ،
چنانچہ امام ابوعبداللہ محمدبن اسمٰعیل بخاری متوفی ۲۵۶ھ حدیثِ مبارک روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ المُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ2
یعنی،’’جو ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رُخ کرے اور ہمارا ذبح کیا ہوا جانور کھائے پس وہ مسلمان ہے جس کیلئے اللہ اور اُس کے رسولﷺ کا عہد ہے، پس اللہ کے عہد کو نہ توڑو‘‘۔
اسی حدیث پاک کی شرح میں علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی۵۵ ۸ ھ لکھتے ہیں:
’’وإستقبال قبلتنا مخصوص بنا‘‘ 3
یعنی،’’ استقبالِ قبلہ (قبلہ رُخ ہوکر نماز پڑھنا ) ہمارے (مسلمانوں کے) ساتھ خاص ہے‘‘۔
اسلام میں سب سے پہلی محراب خود حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بنائی چنانچہ علامہ عینی لکھتے ہیں:
’’ أن جبريل عليه الصلاة والسلام وضع محراب رسول الله مسامت الكعبة، وقيل: كان ذلك بالمعاينة، بأن كشف الحال وأزيلت الحوائل، فرأى رسول الله الكعبة فوضع قبلة مسجده عليها ‘‘4
یعنی،’’ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کعبہ کی سمت میں رسول اللہ ﷺ کی محراب بنائی، اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ سارا معاملہ ، معائنہ کرکے کیا گیا اس طور پر کہ رکاوٹیں زائل ہوگئیں اور حال منکشف ہوگیا پس رسول اللہ ﷺ نے خود کعبے کو ملاحظہ فرمایا اور اپنی مسجد کا رُخ قبلے کی سمت میں رکھا‘‘۔
فی زمانہ مساجد میں جو جوف دار محراب بنائی جاتی ہے اُس کی تعمیر کا سلسلہ صحابۂ کرام اور تابعین کے دور سے چلا آرہا ہے۔
چنانچہ علامہ زین الدین بن ابراہیم ابنِ نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ’’ فتاوی قاضی خان ‘‘کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ وفي فتاوى قاضي خان: وجهة الكعبة تعرف بالدليل والدليل في الأمصار والقرى المحاريب التي نصبها الصحابة والتابعون - رضي الله عنهم أجمعين - فعلينا اتباعهم في استقبال المحاريب المنصوبة ‘‘ 5
یعنی،’’فتاویٰ قاضی خان میں ہے: سمتِ کعبہ کسی دلیل کے ذریعے ہی جانی جاسکتی ہے اور شہروں اور وادیوں میں سمتِ کعبہ پر دلیل وہ محرابیں ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین نے تعمیر فرمائیں، پس ان تعمیر شُدہ محرابوں کی جانب رُخ کرنے کے معاملے میں ہم پر اُن صحابۂ کرام اور تابعین کی اتباع لازم ہے‘‘۔
صحابیٔ رسول ﷺ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ اذان مینارے پر ہو اور اقامت مسجد میں ہو اور حضرت عبداللہ بن شقیق ایسا ہی کیا کرتے تھے۔’’ جیسا کہ امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی متوفی۴۵۸ھ لکھتے ہیں:
’’ من السنة الأذان في المنارة والإقامة في المسجد ‘‘6
یعنی،’’ اذان مینارے پر اور اقامت مسجد میں دینا سنت ہے‘‘۔
اسی طرح مساجد پر مینار اور گنبد تعمیر کرنا بھی شعائرِ اسلام میں سے ہے، مساجد پر مینار اور گنبد کی تعمیر بھی دورِ صحابہ ٔ کرام سے ہی چلا آرہا ہے ،
چنانچہ علَّامہ سید محمد امین ابنِ عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:
’’ وفي شرح الشيخ إسماعيل عن الأوائل للسيوطي: إن أول من رقى منارة مصر للأذان شرحبيل بن عامر المرادي وبنى سلمة المنائر للأذان بأمر معاوية ‘‘ 7
یعنی،’’اور شرح شیخ اسمٰعیل میں سیوطی کی الاوائل کے حوالے سے ہے:جو سب سے پہلے مصر میں اذان کیلئے مینارے پر چڑھا وہ حضرت شرحبیل بن عامر مرادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور حضرت مسلمہ بن مخلدانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہکے حکم سے اذان کیلئے مینار بنائے تھے‘‘۔
اسی طرح مشہور کتاب ’’وفاء الوفاء‘‘ میں ہے:’’ کہ سب سے پہلے مسجدِ نبوی کے مینار جس عظیم ہستی نے تعمیر کروائے وہ خلیفہ راشد امیر المؤمنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز
ہیں۔‘‘8
نیز یہ کہ میناروں کو دیکھ کر ایک انجان اور ناواقف مسلمان بھی پہچان لیتا ہے کہ یہ مسجد کی عمارت ہے اور اُسے اپنی عبادت کی ادائیگی میں آسانی ہوتی ہے ۔
کسی بھی غیر مسلم کو اسلامی شعار اپنانے کی شریعتِ مطہرہ میں بالکل اجازت نہیں ہے ۔
چنانچہ امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ۴۵۸ھ ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ شام سے جزیہ پر مصالحت کی تو ایک معاہدہ لکھوایا جس میں یہ عبارت بھی شامل تھی:
’’ ولا نتشبه بهم في شيء من لباسهم من قلنسوة ولا عمامة ولا نعلين ولا فرق شعر , ولا نتكلم بكلامهم , ولا نتكنى بكناهم ‘‘ 9
یعنی،’’اور ہم (غیر مسلم) مسلمانوں سے کسی بھی قسم کی مشابہت نہیں کریں گے، نہ ہی لباس میں ،نہ ٹوپی میں ، نہ عمامے میں، نہ جوتیوں میں ،نہ بالوں میں مانگ نکالنے میں اور نہ ہم اُن کی طرح گفتگو کریں گے اور نہ ہی اُن کی طرح (نام اور ) کُنیت رکھیں گے‘‘۔
حاصلِ کلام یہ کہ ’’گنبد و مینار اور محراب‘‘ شعائرِ اسلام میں سے ہیں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں یعنی ’’مساجد‘‘کی معروف ترین علامات میں سے ہیں اوروہ تمام اُمور جو عرفاً و شرعاً مسلمانوں کی مسجد کے لئے مخصوص ہیں، کسی غیرمسلم کو ان کے اپنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس لئے کہ اگر کسی غیرمسلم کی عبادت گاہ مسجد کی وضع و شکل پر تعمیر کی گئی ہو، مثلاً اس میں قبلہ رُخ محراب بھی ہو، مینار اور گنبد بھی ہو، تو اس سے مسلمانوں کو دھوکا اور التباس ہوگا، ہر دیکھنے والا اس کو ”مسجد“ ہی تصوّر کرے گا، جبکہ اسلام کی نظر میں غیرمسلم کی عبادت گاہ مسجد نہیں بلکہ مجمع شیاطین ہے۔
چنانچہ علّامہ شامی ، ’’تاتار خانیہ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ وفي التتارخانية يكره للمسلم الدخول في البيعة والكنيسة، وإنما يكره من حيث إنه مجمع الشياطين ‘‘ 10
یعنی،’’اورفتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ مسلمان کیلئے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں داخل ہونا مکروہ ہے اس لیے کہ وہ شیاطین کے جمع ہونے کے مقامات ہیں‘‘۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ غیر مسلم اپنی عبادت گاہوں میں ’’گنبد و مینار اور محراب‘‘کی تعمیر نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی غیر مسلم کو اپنی عبادت گاہ میں’’گنبد و مینار اور محراب‘‘ کی تعمیر کی اجازت دی جائے اور جو ایسا کرے اُس کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔
جیسا کہ مقد س شخصیات یا مقامات کے لئے مخصوص القاب، اوصاف یا خطابات وغیرہ کے ناجائز استعمال کی روک تھام کے لئے تعزیراتِ پاکستان ۲۹۸ (ب ) میں در ج ہے :
(۱)قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا(جو خود کو ’’احمدی‘‘ یاکسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے، خواہ زبانی ہوں یاتحریری، یامرئی نقوش کے ذریعے:
(الف) رسول پاک حضرتﷺکے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کو امیر المومنین ،خلیفہ مسلمین ، صحابی یا
کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے :
(ب) رسول پاک حضرت محمد ﷺ کی کسی زوجہ مطہرہ کے علاوہ کسی ذات کوام المومنین کےطور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے ؛
(ج) رسول پاک حضرتﷺکے خاندان اہلِ بیت کے کسی فرد کے علاوہ کسی شخص کو اہل بیت کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے یا
(د) اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے طور پر منسوب کرے ،یا موسوم کرے یا پکارے! اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کامستو جب ہوگا ۔
(۲) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا ( جو خود کواحمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کر تے ہیں ) کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے ، خواہ زبانی ہوں یا تحریری، یا مر ئی نقوش کے ذریعے ، اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح کے مسلمان دیتے ہیں، اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا ۔
واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:_________________
ابو عاطف محمد آصف حنیف العطاری النعیمی
مُتَخصّص فِی الفِقهِ الاسلامی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
۱۰ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ ۔۵نومبر ۲۰۲۲مTF-1420
الجواب صحیح :_________________
المفتی محمد عطاء اللّٰہ النّعیمی
رئیس دارالحدیث و رئیس دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح :_________________
المفتی محمد جنید العطاری المدنی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
مفتی شہزاد العطاری المدنی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
ابو ثوبان مفتی محمدکاشف مشتاق عطاری نعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
ابوالضیاء المفتی محمد فرحان القادری النّعیمی
رئیس دارالإفتاء الضیائیہ ،کراتشی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)
الجواب صحیح
ابو آصف مفتی محمد کاشف مدنی نعیمی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
مفتی شکیل اختر القادری النّعیمی
شیخ الحدیث بمدرسۃ اللبنات، کرناٹک، انڈیا
الجواب صحیح
مفتی مہتاب احمد نعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی