کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ
(۱) کیا ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ‘‘ اور ’’نَحْمَدُہُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ‘‘ اسلامی شعائر میں سے ہیں یا غیر مسلم بھی ان کلما ت کو اپنی گفتگو اور خط و کتابت میں استعمال کرسکتے ہیں؟
(۲) کیا کوئی غیر مسلم اپنے نام کے ساتھ ’’سیّد‘‘ لگا سکتا ہے؟
(سائل:محمد احمد، کراچی)
(۱) ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ‘‘ مسلمانوں کی مُقدّس ترین مذہبی کتاب ’’قُرآن مجید‘‘ کی آیتِ مبارکہ کا جُز ہے اور قُرآن کریم، اللہ عزّوجلّ کا مُقدس کلام اور شعائرِ اسلام میں سے ایک عظیم شعار ہے، اسی طرح’’نَحْمَدُہُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ‘‘کا مطلب اللہ عزّوجلّ کی حمد بیان کرنا اور رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہے اور اس کا حُکم بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کوہی ارشاد فرمایا ہے، لہٰذا یہ دونوں کلمات شعائرِ اسلام میں سے ہیں اور فقط مسلمانوں ہی کے ساتھ خاص ہیں، اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہےکہ وہ ان کلما ت کو اپنی گفتگو اور خط و کتابت میں استعمال کریں ؛ اس لیے کہ اگر غیر مسلموں کو ان کلمات کے استعمال کی اجازت دےدی جائے تو اس سے مسلمانوں کو دھوکہ دینا لازم آئےگا ؛کیونکہ غیر مسلموں کی زبانوں سے ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ‘‘ اور ’’نَحْمَدُہُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ‘‘ سُن کر اور اُن کی تحریروں میں موجودیہ کلمات دیکھ کر، اُن دھوکے بازوں سے ناواقف ، سادہ لوح مسلمان انہیں اپنا مسلمان بھائی سمجھ کر اُن کی طرف رجوع کریں گے اور دھوکے کا شکار ہوں گے ، لہٰذا غیر مسلموں کو اپنی گفتگو اور خط و کتابت میں’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ‘‘ اور ’’نَحْمَدُہُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ‘‘استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔دلائل درج ذیل ہیں۔
اللہ عزّوجلّ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے۔
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ ‘‘ 1
’’اے ایمان والو حلال نہ ٹھہرالو اللہ کے نشان ‘‘ (کنزالایمان)
اسی آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں شعائراللہ کی تعریف کرتے ہوئے امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ لکھتے ہیں:
’’ لأَنَّ كُلّ ذٰلك من معالمِه وشعائِره الَّتي جعلَها أماراتٍ بَين الحقِّ والباطلِ، يُعْلَم بها حلالُه وحرامُه، وأَمرُه ونهيُه ‘‘ 2
یعنی،’’اس لیے کہ وہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے شعائر اور نشانیوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کے درمیان فرق کی علامت بنایا ہے ،اور ان علامتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اور حرام کردہ اشیاء کو پہچانا جاتاہے اور اُس کے احکام کو جانا جاتا ہے‘‘۔
اسی طرح حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیارخان نعیمی حنفی متوفی۱۳۹۱ھ شعائراللہ کی تعریف میں لکھتے ہیں:
’’ہر وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام یا اپنی قُدرت یا اپنی رحمت کی علامت قرار دیا۔ ہر وہ چیز جس کو دینی عظمت حاصل ہو کہ اس کی تعظیم مسلمان ہونے کی علامت ہے ، وہ شعائراللہ ہے‘‘۔3
معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز جس کو دینی عظمت حاصل ہو ،وہ شعائر اللہ میں سے ہے اور انہیں بنیادی طور پر چار قسموں میں بیان کیا جاسکتا ہے : (۱)اَفراد و اشیاء (۲)مکانات و مقامات (۳)اوقات و لمحات اور (۴)اَفعال و عبادات۔
(۱)اَفراد و اشیاء : قرآنِ مجید ، انبیاء ، صحابہ اور اَولیاء ، انبیائے کرام کے آثار و تبرکات وغیرہ۔
(۲)مکانات ومقامات : کعبہ ، میدانِ عَرَفات ، مُزدلفہ ، تینوں جمرات، صَفا ، مَروہ ، مِنیٰ ، مسجدیں ، بزرگانِ دین کے مزارات وغیرہ ۔
(۳)اَوقات و لمحات : ماہِ رَمضان ، حُرمت والے مہینے، عیدُالفِطر ، عیدُالاَضحیٰ ، جُمعہ ، ایامِ تشریق وغیرہ ۔
(۴)ا َفعال و عبادات : اَذان ، اِقامت ، نمازِ باجماعت ، نمازِ جمعہ ، نمازِ عیدَین ، ختنہ کرنا ، داڑھی رکھنا ، گائے کی قُربانی وغیرہ،(ملخصاً) ۔
(فتاوی رضویہ، کتاب السیر، مسئلہ نمبر۱۸۵، ۱۴/۵۵۸، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
(خزائن العرفان،سورۃ البقرۃ، تحت الآیۃ۱۵۸، ص۱۰۹۶، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلیکیشنز،لاہور)
(تفسیر نعیمی، سورۃ البقرۃ، تحت الآیۃ۱۵۸، ۲/۱۰۴، مطبوعہ: نعیمی کُتب خانہ، گجرات، طباعت ۲۰۰۴م)
لہٰذا ہر وہ چیز جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان امتیاز پیدا کرے وہ شعائر اللہ میں سے ہے، اور ’’مندرجہ بالا مُقدّس کلمات‘‘ بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں میں امتیاز کی علامت ہیں، لہٰذا یہ بھی شعائر اللہ میں شامل ہیں ،اور ہمارے قانون کے مطابق ، عام آدمی کیلئے افواجِ پاکستان کا شعار مثلاً ’’فوجی وردی‘‘ اپنانا جرم ہے، اور عدلیہ کے قابلِ احترام جج صاحبان کا شعار مثلاً ’’اُن کی گاڑی پر لگایا جانے والا مخصوص جھنڈا‘‘ کسی دُوسرے شخص کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں، تو یقیناً اسلام کا شعار بھی کسی غیرمسلم کو اپنانے کی اجازت نہیں ہوسکتی، کیونکہ اگر غیرمسلموں کو کسی اسلامی شعار مثلاً ’’ بسم اللہ لکھنے پڑھنے اور اللہ عزّوجلّ کی حمد اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے‘‘ کی اجازت دی جائے تو اسلام کا شعار مٹ جاتا ہے اور مسلم و کافر کا امتیاز اُٹھ جاتا ہے۔ اسلام اور کفر کے نشانات کو ممتاز کرنے کے لئے جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان کفر کے کسی شعار کو نہ اپنائیں، اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ غیرمسلموں کو کسی اسلامی شعار کے اپنانے کی اجازت نہ دی جائے۔
چنانچہ قُرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّهٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ‘‘ 4
’’بےشک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بےشک وہ اللہ کے نام سے ہے جو نہایت مہربان رحم والا‘‘۔ (کنز الایمان)
اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘‘ 5
’’سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا‘‘۔ (کنز الایمان)
اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘ 6
’’بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘۔ (کنز الایمان)
کسی بھی غیر مسلم کو اسلامی شعار اپنانے کی شریعتِ مطہرہ میں بالکل اجازت نہیں ہےچنانچہ امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ۴۵۸ھ ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ شام سے جزیہ پر مصالحت کی تو ایک معاہدہ لکھوایا جس میں یہ عبارت بھی شامل تھی:
’’ وَلا نَتشبّهُ بهمْ فيْ شَيءٍ مِن لِباسِهمْ مِن قَلنسُوةٍ وَلا عِمامةٍ وَلا نَعلينِ وَلا فرقِ شَعرٍ , وَلا نَتكلّمُ بِكَلامِهم , وَلا نَتكنّى بِكناهمْ ‘‘ 7
یعنی،’’اور ہم (غیر مسلم) مسلمانوں سے کسی بھی قسم کی مشابہت نہیں کریں گے، نہ ہی لباس میں ،نہ ٹوپی میں ، نہ عمامے میں، نہ جوتیوں میں ،نہ بالوں میں مانگ نکالنے میں اور نہ ہم اُن کی طرح گفتگو کریں گے اور نہ ہی اُن کی طرح (نام اور ) کُنیت رکھیں گے‘‘۔
حاصلِ کلام یہ کہ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ‘‘اور ’’نَحْمَدُہُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ‘‘شعائرِ اسلام میں سے ہیں اور مسلمانوں کی گفتگو اور خط و کتابت کی معروف ترین علامات میں سے ہیں اوروہ تمام اُمور جو عرفاً و شرعاً مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں، کسی غیرمسلم کو ان کے اپنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، لہٰذا غیر مسلم اپنی گفتگو اور خط و کتابت میں’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ‘‘ اور ’’نَحْمَدُہُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ‘‘ استعمال نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی غیر مسلم کو اپنی گفتگو اور خط و کتابت میں’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرِّحِیْمِ‘‘اور ’’نَحْمَدُہُ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ‘‘کےاستعمال کی اجازت دی جائےگی اور جو ایسا کرے اُس کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ جیسا کہ مقد س شخصیات یا مقامات کے لئے مخصوص القاب، اوصاف یا خطابات وغیرہ کے ناجائز استعمال کی روک تھام کے لئے تعزیراتِ پاکستان ۲۹۸ (ب ) میں در ج ہے :
(۱)قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا(جو خود کو ’’احمدی‘‘ یاکسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے، خواہ زبانی ہوں یاتحریری، یامرئی نقوش کے ذریعے:
(الف) حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کو امیر المومنین ،خلیفہ مسلمین ، صحابی یا رضی اللہ عنہ کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے :
(ب) حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی کسی زوجہ مطہرہ کے علاوہ کسی ذات کواُمّ المومنین کےطور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے:
(ج) حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے خاندان اہل بیت کے کسی فرد کے علاوہ کسی شخص کو اہل بیت کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے یا
(د) اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے طور پر منسوب کرے ،یا موسوم کرے یا پکارے! اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کامستو جب ہوگا ۔
(۲) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا ( جو خود کواحمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کر تے ہیں ) کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے ، خواہ زبانی ہوں یا تحریری، یا مر ئی نقوش کے ذریعے ، اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح کے مسلمان دیتے ہیں، اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا ۔
(۲)غیرِ سیّد کا اپنے نام کے ساتھ ’’سیّد‘‘ لگانا بہت بڑا گناہ ہے اور حدیثِ نبوی ﷺ کی رُو سےایسے شخص پر جنّت حرام ہے اور جو شخص حقیقتاً سیّد تو ہو لیکن کافر ہو جائے تو اس کا نسب بھی منقطع ہو جاتا ہے اور وہ سیّد نہیں رہتا لہٰذا غیر مسلم کا اپنے نام کے ساتھ سیّد لگانا جائز نہیں ہے کہ غیرِ مسلم سیّد نہیں ہوسکتا۔
چنانچہ امام ابوعبداللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری متوفی ۲۵۶ھ اپنی سند سےروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےارشاد فرمایا:
’’ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ ‘ 8
یعنی، ’’جو اپنے باپ کے غیر کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنّت حرام ہے‘‘۔
اِسی طرح امام ِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں:
’’سادات کرام کی تعظیم ہمیشہ جب تک ان کی بد مذہبی حدّ کفر کو نہ پہنچے کہ اس کے بعدوہ سیدہی نہیں نسب منقطع ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ‘‘9
(اے نوح (علیہ السلام)! وہ تیرا بیٹا (کنعان) تیرے گھروالوں میں سے نہیں اس لئے کہ اس کے کام اچھے نہیں۔
جیسے نیچری ، قادیانی، وہابی غیر مقلد، دیوبندی اگر چہ سیّد مشہور ہوں نہ سیّد ہیں نہ ان کی تعظیم حلال بلکہ توہین وتکفیر فرض، اور روافض کے یہاں تو سیادت بہت آسان ہے کسی قوم کا رافضی ہوجائے، دودن بعد میر صاحب ہوجائے گا، ان کا بھی وہی حال ہے۔ کہ ان فرقوں کی طرح تبرائیان زمانہ بھی عموما مرتدین ہیں۔ 10
اور مفتی خلیل خان قادری حنفی متوفی ۱۴۰۵ھ اسی طرح کےایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
جو شخص سیّد نہ ہو اور سیّد بنے وہ نبی کریمﷺ کی لعنت کا مستحق ہے اور اُس پر جنت حرام ہے۔ 11
واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:_________________
ابو عاطف محمد آصف حنیف العطاری النعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
90 14TF-
۲۶رجب المرجب ۱۴۴۴ھ ۔۱۷فروری ۲۰۲۳م
الجواب صحیح :_________________
رئیس دارالحدیث و رئیس دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح :_________________
المفتی محمد جنید العطاری المدنی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
مفتی شہزاد العطاری المدنی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
ابو ثوبان مفتی محمدکاشف مشتاق عطاری نعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
ابوالضیاء المفتی محمد فرحان القادری النّعیمی
رئیس دارالإفتاء الضیائیہ ،کراتشی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)
الجواب صحیح
مفتی عرفان المدنی النّعیمی
دعا مسجد، آگرہ تاج کالونی، کراتشی
الجواب صحیح
مفتی شکیل اختر القادری النّعیمی
شیخ الحدیث بمدرسۃ اللبنات، کرناٹک، انڈیا