کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین ان مسائل میں کہ :
ایک جگہ مسلمانوں کی عبادت گاہ(بنام مسجد و مدرسہ) پنج وقتہ نمازوں و جمعہ و عیدین کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے الاٹ ہوئی احمد ی مسلم ایسوسی ایشن کو ۱۹۶۶ میں کہ اس وقت تک قانونی طور پر ان کو کافر قرار نہیں دیا گیا تھا جبکہ بعد میں انہیں ۱۹۷۴ میں قانوناً بھی انہیں کافر قرار دیا گیا ۔اب جبکہ قانوناً انہیں کافر قرار دے دیا گیا ہے تو وہ جگہ جوکہ گورنمنٹ نے مسجد کے لئے الاٹ کی تھی جبکہ مسجد مسلمانوں کی ہوتی ہے قادیانیوں کی نہیں تو کیا احمدی مسلم ایسوسی ایشن اس مسجد کی جگہ کو قادیانیوں کا عبادت خانہ بنا سکتی ہے یا ان سے لے کر مسلمانوں کی مسجد بنائی جائے گی اور احمدی مسلم ایسوسی ایشن کے جو متولی ہیں کیا انہیں معزول کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
سوال کا جواب یہ ہے کہ گورنمنٹ نے جو جگہ مسلمانوں کی عبادت گاہ (بنام مسجد و مدرسہ) کے لئے وقف کی تھی تو یہ مسلمانوں کے لئے وقف ہو گئی اور چونکہ ۱۹۷۴ میں مرزائیوں احمدیوں کو قانوناً کافر قرار دے دیا گیا تو یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ جگہ جو مسجد کے لئے وقف کی گئی وہ تو مسجد کے لئے وقف ہو گئی لیکن چونکہ مرزائی احمدی مرتد اور کافر تھے جس کی وجہ سے وہ اس مسجد کے اہل نہیں تھے اسی لئے یہ جگہ مسلمانوں کی مسجد کے لئے ہی وقف رہے گی جس پر احمدی مسلم ایسوسی ایشن احمدیوں کی عبادت گاہ نہیں بنا سکتی اور اس جگہ کو قادیانیوں سے لے کر مسجد بنائی جائے گی اور مسلمانوں کو چاہیے کے قانونی راستہ اختیار کرے اور بااثر لیڈروں سے حکومت پر دباؤ ڈلواتے رہیں تو ان شاء اللہ یہ جگہ مسلمانوں کو مل جائے گی اور اس جگہ مسجد تعمیر ہوگی۔
چونکہ اس وقف کے متولی کافر ہیں لہذا انہیں معزول کیا جائے گا اور ایسےشخص کو مسجد کا متولی بنائے جو دین دار ہو اور دیانت دار بھی ہو، فاسقِ مُعلن نہ ہو، دینی مسائل خُصوصاً وقف کے مسائل کو بخوبی جانتا ہو، مسجد کے انتظامی اُمور کو سمجھ کر اُنہیں احسن طریقے سے سرانجام دینے کی اہلیت بھی رکھتا ہو، بہتر یہ ہے کہ اہلِ محلّہ میں سے ہو؛ تاکہ اکثر نمازوں میں مسجد میں حاضر ہوتا رہے اور مسجد اور اہلِ مسجد کے مسائل سے باخبر رہ سکے۔
گورنمنٹ جو جگہ الاٹ کرتی ہے وہ وقف ہی کے حکم میں ہوتی ہے۔
چنانچہ شرح الاشباہ محقق ہبۃ اﷲ البعلی میں ہے:
لَو وجدَ فی الدفاترِاَن المکانَ الفلانی وقفَ علی المدرسة الفلانیة مثلاً یعملُ به من غیر بینة وبذٰلك یفتی مشایخ الإسلامی كما ھو مصرّح به فیِ بھجةعبداﷲ افندي وغیرِها فلیحفظ
یعنی،اگر رجسٹروں میں مندرج ہے کہ فلاں مکان فلاں مدرسہ پر وقف ہے تو گواہوں کے بغیر اس پر عمل کیا جائے گا، اسی پر مشائخ اسلام نے فتوٰی دیا جیسا کہ عبداﷲ آفندی کی’’ بہجہ‘‘ وغیرہ میں تصریح کی گئی ہے، اس کو محفوظ کرلینا چاہئے۔
اور امام ِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں:
ارصاداتِ سلاطین حکم وقف میں ہیں نہ وہ مَورُوث ہوں نہ کسی کو ان کے بیع وانتقال کا کوئی حق ہو.1
اور ایک مقام پر لکھتے ہیں:
ارصادات وعطایا سلاطین میں زمین وآسمان کا فرق ہے جو مواضع سلاطین اپنی رعیت میں سے کسی کو جاگیر بخش دیں اُسے اس کا مالک کردیں وہ ’’عطا ‘‘ہے عربی میں اسے ’’اقطاع ‘‘کہتے ہیں اور ہماری زبان میں معافی وجاگیر اور جو مواضع سلاطینِ اسلام مصارف خیر کےلئے تعین کردیں وہ’’ ارصاد ‘‘ہیں ان کا حکم بعینہ حکمِ وقف ہے اور بعد مصارف خیر جو کچھ بچے اس میں سے کسی قوم یا کسی شیخ کی اولاد یا کسی مزار کے خُدّام کی مدد ِمعاش کرنا منافی وقف وارصاد نہیں، نہ اوقاف قدیمہ کے لئے واقف کا نام معلوم ہونا ضرور، نہ کوئی سند پیش کرنا لازم، ورنہ لاکھوں وقف خصوصاً مساجد باطل ہوجائیں۔ 2
گورنمنٹ نے چونکہ اسے کار خیر سمجھ کر وقف کیا تو وقف کی شرائط پائی جا رہی ہے اس لئے شرعی طور پر وہ جگہ مسجد کے لئے وقف ہو گئی اور اگر کوئی کافر مسجد کے لئے جگہ وقف کرے تو وہ مسجد نہیں ہوگی اس لئے کہ اس کے خیال میں مسجد کارِ ثواب نہیں ہے۔
چنانچہ امام ِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں:
اوقاف جائزہ مطلقاً اگرچہ بے نیت ثواب کئے جائیں اگرچہ وقف کرنیوالے مسلمان بھی نہ ہوں خواہ ہمارے مذہبی تعلیم اعمال، عبادات کے لئے ہوں یا غریبوں کی مدد، تعلیم، طبی امداد وغیرہا کےلئے علی العموم سب مذہبی ہیں اور ان میں دست اندازی مذہبی دست اندازی، نیت وعدم نیت یا اسلام و کُفرواقف سے یہ فرق پڑتا ہے کہ واقف اگرمسلمان ہواور ثواب کی نیت سے کرے(جیسا کہ عام اوقاف میں مسلمانوں کی یہی نیت ہوتی ہے) تو وہ اس کے لئے قربت و عمل ِصالح وباعث ثواب وقُربِ ربُّ الارباب بلکہ اطلاق عام میں عبادتِ الٰہی ہے اور ایسا نہ ہوتو واقف کو ثواب نہ ملے گا مگر وقف فی نفسہ ضرور ہمارادینی مذہبی کام ہی رہے گا ولہذا اس میں دوشرطیں مطلقاً لازم ہیں:
ایک یہ کہ وہ کام جس کےلئے یہ وقف ابتداءً ہوا یا آخر میں اس کے لئے قرار پائے گا واقف کے نزدیک کارِ ثواب ہو وہ اس ثواب کی نیت کرے یا نہ کرے یہ اس کا فعل ہے کام مذہبی حیثیت سے ثواب کا ہونا چاہئے، جیسے غرباء کی امداد اگرچہ دواوغیرہ سے ہو۔
دوسرے یہ کہ وہ کام خود ہمارے مذہب اسلام کی روسے کارِ ثواب ہو اگرچہ وقف کرنے والا مسلمان نہ ہو۔(۱) اسی لئے اگر اغنیا کے چائے پانی کے لئے ہوٹل بناکر وقف کیا وقف نہ ہوگا کہ یہ کوئی ثواب کا کام نہیں۔(۲)کافر نے مسجد کے لئے وقف کیا وقف نہ ہوگا کہ یہ اس کے خیال میں کارثواب نہیں۔3
مسلمانوں کو چاہئے کہ بااثر لیڈروں سے گورنمنٹ پر دباؤ ڈالتے ہوئے قانونی کاروائی کرے تو ان شاء اللہ یہ جگہ مسلمانوں کو مل جائے گی۔
چنانچہ مفتی جلال الدین امجدی حنفی متوفی ١٤٢٢ھ لکھتے ہیں:
غیر مسلم نے مقدمہ قائم کر کے مسجد کی تعمیر رُکوادی تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ مقدمہ کی پیروی کرتے رہیں اور بااثر لیڈروں سے حاکم پر دباؤ ڈلواتے رہیں قانون کے مطابق ان شاء اللہ مسلمانوں ہی کی ڈگری ہوگی پھر اسی جگہ پر مسجد کی تعمیر مکمل ہوگی بروقت نماز پڑھنے کے لئے مسجد کی نیت کے بغیر کوئی جگہ بنا لیں۔4
مسجد کامُتولّی نیک، دیندار ہو اور وقف کے انتظامات کو سنبھالنے کا اہل ہوناچایئےاور فاسق مُعلن نہیں ہونا چاہئے لہذا اگر کسی مسلمان متولی کا فسق ظاہر ہو جائے تو اس کو معزول کر دیا جائے گا تو جو کافر ہے اسے تو بطریق اَولیٰ معزول کیا جائے گا۔
چنانچہ مسجد کی دیکھ بھال کرنے والوں کے بارے میں اللہ عزّوجلّ قُرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
’’ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ ‘‘ 5
’’ اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ‘‘ (کنزالایمان)
اس آیتِ مُبارکہ میں اللہ عزّوجلّ نے واضح ارشاد فرمادیا کہ : مسجد کی دیکھ بھال کا حق صرف مؤمنین کو ہے ، جو نمازوں کی پابندی کرتے ہوں ، زکوٰۃ کی ادائیگی کا مکمّل اہتمام کرتے ہوں اور فرائض و واجبات کے پابند ہوں اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوں اور احکامِ شرعیہ بجالانے میں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ رکھتے ہوں،لہٰذا فاسقوں کو مسجد کی دیکھ بھال کی اجازت بالکُل بھی نہیں دی جاسکتی۔
چنانچہ اسی آیتِ مُبارکہ کی تفسیر میں صدرالافاضل سیّد محمد نعیم الدین مرادآبادی حنفی متوفی۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں:
’’ اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ مسجدوں کے آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں۔۔۔۔ یعنی کسی کی رضا کو رضائے الٰہی پر کسی اندیشہ سے بھی مقدم نہیں کرتے ۔ یہی معنی ہیں اللہ سے ڈرنے اور غیر سے نہ ڈرنے کے ‘‘6
اِسی طرح علَّامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور جماعتِ عُلمائے ہند امام کمال الدّین محمد بن عبد الواحد ابنِ ہُمّام حنفی متوفی ۸۶۱ھ کا قول لکھتے ہیں:
’’ الصالحُ للنظرِ من لم يسأل الولايةُ للوقفِ وليس فيه فسق يعرفُ هكذا في ’’فتح القدير‘‘ وفي ’’الإسعاف‘‘ لا يولى إلا أمين قادر بنفسهِ أو بنائبهِ‘‘ 6
یعنی، ’’وقف کا متولی اُسی شخص کو بنایا جائے جو صالحِ نظر ہو اور وقف کی ولایت کا سُوال نہ کرے اور اعلانیہ فسق نہ کرتا ہو، جیسا کہ ’’فتح القدیر‘‘ میں ہے اور ’’اسعاف‘‘ میں ہے کہ وقف کا متولّی صرف ایسے ایمان دار شخص کو ہی بنایا جائے گا جو خود وقف کے انتظامات سنبھالنے پر قادر ہو یا پھر اپنے نائب کے ذریعے انتظامات سنبھال سکتا ہو‘‘۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:_________________
ابو حمزہ محمد طارق النّعیمی العطاری
مُتَخصّص فِی الفِقهِ الاسلامیجمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
TF-1720
۹،جمادی الاوّل۱۴۴۵ھ،۲۴،نومبر۲۰۲۳م
الجواب صحیح :_________________
الدکتورالمفتی محمد عطاء اللّٰہ النّعیمی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح :_________________
المفتی محمد جنید العطاری المدنی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی