کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اِس مسئلے میں کہ قادیانی اپنے مردوں کی قبروں پر لگائے گئے کتبوں پر کلمہ اِسلام ، کلمہ طیبہ :’’ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ لکھ سکتے ہیں یا نہیں؟نیز اگر کسی قادیانی کی قبر پر کلمہ طیبہ کی تختی لکھی ہوئی ہو تو اِس بابت شرعی حکم کیا ہے ؟
(سائلین:مولانا محمد عمر حیات صاحب،محافظینِ ختمِ نبوّت اور عُلماے اَہلِ سُنّت آف پنڈی گھیب، اٹک ،پنجاب)
باسمہ سبحانہ تعالی وتقدس
’’ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘مسلمانوں کامعروف کلمہِ طیّبہ اور شعائرِ اِسلا م سے ہےکہ جو چیز مسلم اور غیر مسلم کے درمیان اِمتیاز پیدا کرے، وہ شعائر اللہ میں شمار ہوتی ہے۔کلمہ طیّبہ صرف مسلمان اپنی گفتگو اور خط و کتابت میں اِستعمال کر سکتے ہیں ، قادیانیوں کو شرعاً اورقانوناً کسی بھی طرح سے اِسلامی شعائر اَپنانے،مسلمانوں کا ٹائٹل اِستعمال کرنے اور اپنی گفتگو و کتابت میں کلمہ بولنے لکھنے کی ہر گز اِجازت نہیں ہے ،لہذا ان کے لیے اپنی قبروں پر کلمہِ طیّبہ کی تختی نَصَب کرنا شرعاً ناجائز اوراَخلاقاًوقانوناً جرمِ عظیم وجسیم ہے ،اس کا مرتکب اُخروی و دُنیوی سزا کا حق دارہے۔
اور اگر کسی قادیانی کی قبر پر کلمہِ طیّبہ لکھا ہو ا ہے تو اَہلِ اسلام پر لازم ہے کہ اسے کوئی بھی مؤدّبانہ طریقہ اِختیار کر کےمٹایا یا ہٹایا جائے ۔جیسےکلر کرکے یا اس جگہ سے تختی کاٹ کر وغیرہ کوئی بھی تعظیم والا طریقہ اِختیار کیا جائے۔
چناں چہ اللہ عزّوجلّ اِرشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىٕرَ اللّٰهِ 1
’’اے ایمان والو حلال نہ ٹھہرالو اللہ کے نشان ‘‘ (کنزالایمان)
آیتِ مذکورہ کی تفسیرمیں حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیارخان نعیمی حنفی متوفّی ۱۳۹۱ھ شعائراللہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ہر وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام یا اپنی قُدرت یا اپنی رحمت کی علامت قرار دیا۔ ہر وہ چیز جس کو دینی عظمت حاصل ہو کہ اس کی تعظیم مسلمان ہونے کی علامت ہے ، وہ شعائراللہ ہے‘‘۔2
اورامام ِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں :
گائے کی قربانی شعائر اللہ سے ہے۔
قال تعالیٰ:
وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ3
(اور اونٹ ،گائے، بیل ہم نے ان کو کیا تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے)
مسلمانوں کو ہندوؤں کے ساتھ اس معاملہ کے انسداد میں شرکت نا جائز و حرام ہے۔4
شرعاً و قانوناً قادیانیوں کو شعائرِ اِسلامیہ کےاستعمال کی قطعاً اِجازت نہیں ۔
قادیانیوں کا اپنی قبروں پر لکھنا صرف شرعاً ہی نہیں بل کہ قانونا ً بھی جرم ہے۔
چناں چہ عیسائیوں نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عہد کیا تھا کہ ہم غیر مسلم، مسلمانوں کے لباس ،ٹوپی، عمامے، جوتوں اور بالوں میں مانگ نکالنے، الغرض کسی چیز میں ان کے ساتھ مشابہت اختیار نہیں کریں گےاور نہ ہم اُن کی طرح گفتگو کریں گے اور نہ ہی اُن کی طرح کُنیت رکھیں گے۔اِس حوالے سے ہمارے پاس ایک تفصیلی روایت ہے۔جسے امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ۴۵۸ھ نے بایں الفاظ نقل فرمایا:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، قَالَ: كَتَبْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ حِينَ صَالَحَ أَهْلَ الشَّامِ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ لِعَبْدِ اللهِ عُمَرَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ نَصَارَى مَدِينَةِ كَذَا وَكَذَا، إِنَّكُمْ لَمَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْنَا سَأَلْنَاكُم الْأَمَانَ لِأَنْفُسِنَا وَذَرَارِيِّنَا وَأَمْوَالِنَا وَأَهْلِ مِلَّتِنَا وَشَرَطْنَا لَكُمْ عَلَى أَنْفُسِنَا أَنْ لَا نُحْدِثَ فِي مَدِينَتِنَا وَلَا فِيمَا حَوْلَهَا دَيْرًا وَلَا كَنِيسَةً وَلَا قَلَّايَةً وَلَا صَوْمَعَةَ رَاهِبٍ وَلَا نُجَدِّدَ مَا خَرِبَ مِنْهَا وَلَا نُحْيِيَ مَا كَانَ مِنْهَا فِي خُطَطِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنْ لَا نَمْنَعَ كَنَائِسَنَا أَنْ يَنْزِلَهَا أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فِي لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ وَأَنْ نُوَسِّعَ أَبْوَابَهَا لِلْمَارَّةِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَأَنْ نُنْزِلَ مَنْ مَرَّ بِنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَنُطْعِمَهُمْ وَأَنْ لَا نُؤَمِّنَ فِي كَنَائِسِنَا وَلَا مَنَازِلِنَا جَاسُوسًا وَلَا نَكْتُمَ غِشًّا لِلْمُسْلِمِينَ وَلَا نُعَلِّمَ أَوْلَادَنَا الْقُرْآنَ وَلَا نُظْهِرَ شِرْكًا وَلَا نَدْعُوَ إِلَيْهِ أَحَدًا وَلَا نَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ قَرَابَتِنَا الدُّخُولَ فِي الْإِسْلَامِ إِنْ أَرَادَهُ وَأَنْ نُوَقِّرَ الْمُسْلِمِينَ وَأَنْ نَقُومَ لَهُمْ مِنْ مَجَالِسِنَا إِنْ أَرَادُوا جُلُوسًا وَلَا نَتَشَبَّهَ بِهِمْ فِي شَيْءٍ مِنْ لِبَاسِهِمْ مِنْ قَلَنْسُوَةٍ وَلَا عِمَامَةٍ وَلَا نَعْلَيْنِ وَلَا فَرْقِ شَعَرٍ وَلَا نَتَكَلَّمَ بِكَلَامِهِمْ وَلَا نَتَكَنَّى بِكُنَاهُمْ وَلَا نَرْكَبَ السُّرُوجَ وَلَا نَتَقَلَّدَ السُّيُوفَ وَلَا نَتَّخِذَ شَيْئًا مِنَ السِّلَاحِ وَلَا نَحْمِلَهُ مَعَنَا وَلَا نَنْقُشَ خَوَاتِيمَنَا بِالْعَرَبِيَّةِ وَلَا نَبِيعَ الْخُمُورَ وَأَنْ نَجُزَّ مَقَادِيمَ رُءُوسِنَا وَأَنْ نَلْزَمَ زِيَّنَا حَيْثُ مَا كُنَّا وَأَنْ نَشُدَّ الزَّنَانِيرَ عَلَى أَوْسَاطِنَا وَأَنْ لَا نُظْهِرَ صُلُبَنَا وَكُتُبَنَا فِي شَيْءٍ مِنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَسْوَاقِهِمْ وَأَنْ لَا نُظْهِرَ الصَّلِيبَ عَلَى كَنَائِسِنَا وَأَنْ لَا نَضْرِبَ بِنَاقُوسٍ فِي كَنَائِسِنَا بَيْنَ حَضْرَةِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنْ لَا نُخْرِجَ سَعَانِينًا وَلَا بَاعُونًا وَلَا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا مَعَ أَمْوَاتِنَا وَلَا نُظْهِرَ النِّيرَانَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ مِنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا نُجَاوِزَهُمْ مَوْتَانَا وَلَا نَتَّخِذَ مِنَ الرَّقِيقِ مَا جَرَى عَلَيْهِ سِهَامُ الْمُسْلِمِينَ وَأَنْ نُرْشِدَ الْمُسْلِمِينَ وَلَا نَطَّلِعَ عَلَيْهِمْ فِي مَنَازِلِهِمْ. فَلَمَّا أَتَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِالْكِتَابِ زَادَ فِيهِ: وَأَنْ لَا نَضْرِبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ شَرَطْنَا لَهُمْ ذَلِكَ عَلَى أَنْفُسِنَا وَأَهْلِ مِلَّتِنَا وَقَبِلْنَا مِنْهُمُ الْأَمَانَ فَإِنْ نَحْنُ خَالَفْنَا شَيْئًا مِمَّا شَرَطْنَاهُ لَكُمْ فَضَمِنَّاهُ عَلَى أَنْفُسِنَا فَلَا ذِمَّةَ لَنَا ۔5
یعنی،حضرت عبد الرحمٰن بن غنم سے روایت ہے ،فرماتے ہیں: میں نے حضرت عمر بن خطابکو ایک خط لکھا جب آپ نے اہل ِ شام کے عیسائیوں سےصلح کی تھی :’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ یہ خط فلاں فلاں شہرکے عیسائیوں کی طرف سے اللہ کے بندے عمر بن خطاب کے لیے ہے جو امیر المؤمنین ہیں کہ جب آپ ہمارے پاس آئے تھے تو آپ سے ہم نے اپنی جانوں ،اپنی اولاد اپنے اموال اپنے دین والوں کے لیے اَمان طلب کی تھی اور ہم نے اپنی جانوں کو اِس بات کا پابند کیا تھا کہ ہم اپنے شہر اور اپنے شہر کے اردگرد کسی جگہ بھی کوئی خانقاہ ،گرجا گھر اور کسی راہب کے رہنے کے لیے کوئی عبادت گاہ نہیں بنائیں گے۔اور اس میں جو چیزیں خراب ہو جائیں ،اس کی دوبارہ تعمیر نہیں کریں گے اور اس میں جو عمارتیں مسلمانوں کے علاقوں میں ہیں اُن کو ہم آباد نہیں کریں گےاور دن یا رات میں جو مسلمان بھی ہمارے گرجا گھر میں آنا چاہے ہم اُسے منع نہیں کریں گےاور ہم اپنے دروازوں کو راہ گیروں اور مسافروں کے لیے کشادہ رکھیں گےاور مسلمانوں میں سے اگر کوئی اِس کے پاس سے گزرے گا تو تین دن تک ہم اُس کی مہمان نوازی کریں گے اور اُس کو کھانا کھلائیں گےاور کسی جاسوس کو ہم اپنے گرجا گھروں اور گھروں میں پناہ نہیں دیں گے اور ہم کسی فریب کو مسلمانوں سے نہیں چھپائیں گےاور ہم اپنی اولاد کو قرآن نہیں سکھائیں گے اور ہم شرک کو ظاہر نہیں کریں گے، نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گےاور ہمارے قرابت داروں میں سے جو اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرے تو ہم اُسے روکیں گے نہیں اور ہم مسلمانوں کی تعظیم کریں گے اور اگر مسلمان ہماری جگہ بیٹھنا چاہیں گے تو ہم اپنی جگہ اُن کے لیے خالی کر دیں گےاور ہم کسی بھی چیز میں مسلمانوں کی مشابہت اختیار نہیں کریں گے نہ ہی ٹوپی میں نہ عمامے میں نہ جوتوں میں اور نہ ہی کسی اور علامت میں اور ان کی طرح ہم کلام نہیں کریں گےاور ان کی کنیت اختیار نہیں کریں گے اور ہم زِین پر سواری نہیں کریں گے اور نہ ہم تلوار لٹکائیں گے اور نہ کوئی اسلحہ لیں گے نہ اسے اپنے پاس رکھیں گے اور ہم اپنی انگوٹھیوں پر عربی الفاظ نقش نہیں کروائیں گےاور ہم شراب نہیں بیچیں گے اور ہم اپنے سروں کی چوٹیوں کو کاٹ دیں گےاور ہم جہاں بھی ہوں گے اپنا لباس ہی پہنیں گے اور ہم اپنے کمر کے گرد زُنَّار باندھیں گےاور مسلمانوں کے شہروں اور ان کے بازاروں میں اپنی صلیب اور کتابیں نہیں نکالیں گے اور مسلمانوں کی موجودگی میں اپنے گرجا گھروں میں ناقوس نہیں بجائیں گے اور ہم اپنی عید منانے کے لیے باہر نہیں نکلیں گے اور اپنے مر دوں کی اموات پر اپنی آوازوں کو بلند نہیں کریں گے اور مسلمانوں کے راستوں میں اپنے مردوں کی آگ کو نہیں جلائیں گے اور جو غلام مسلمانوں کے تیر لگنے سے ہلاک ہو جائیں گے ہم اس کے بدلے کچھ نہیں لیں گےاور مسلمانوں کی رہنمائی کریں گے اور دشمنوں کو مسلمانوں کےگھروں کے بارے میں خبر نہیں دیں گے ۔(حضرت عبد الرحمٰن بن غنم فرماتے ہیں: )پس جب میں حضرت عمر کے پاس یہ خط لے کر حاضر ہوا تو آپ نے اس میں ان باتوں کا اضافہ فرمایا :کسی مسلمان کو ہم نہیں ماریں گے اور ہم اور ہمارے دین والے تمہاری اِن شرائط کے پابند ہوں گے اور ہم نے اُن کی امان کو قبول کیا ،پس اگر ہم کسی شرط کی مخالفت کریں تو اس کا ضمان ہمارے اوپر لازم ہو گا اور مسلمان اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔
اورقادیانیوں کے لئے تعزیراتِ پاکستان ۲۹۸ (ب ) میں جو لکھا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا(جو خود کو ’’احمدی‘‘ یاکسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے، خواہ زبانی ہوں یاتحریری، یامرئی نقوش کے ذریعے:
(الف) رسول پاک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کو امیر المؤمنین ،خلیفہ مسلمین ، صحابی یا رضی اللہ عنہ کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے۔
(ب) اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح کہ مسلمان دیتے ہیں، اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا ۔ملخصاً۔
مذکورہ عبارات سے اَمس و شمس کی طرح واضح و عیاں ہو گیا کہ قادیانیوں کو اخلاقاً،قانوناً اور شرعا کسی بھی طرح کوئی بھی اسلامی ٹائٹل استعمال کرنے کی ہر گز اِجازت نہیں ہے۔
واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصّواب
کتبہ:_________________
مفتی مہتاب احمد قمرنعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
TF-3081-
۷ذی الحجۃ۱۴۴۶ھ۔۴جون۲۰۲۵م
الجواب صحیح :_________________
الدکتورالمفتی محمد عطاء اللّٰہ النّعیمی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح :_________________
المفتی محمد جنید العطاری النعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی