کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ایک مسلمان وکیل کا کسی قادیانی کا ذاتی یا مذہبی کیس لڑنا کیسا؟
قادیانی نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننے کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے نکل کر اَز رُوئے شریعتِ مُطہّرہ کُفر کی بدترین قسم میں ہیں یعنی مرتد ہیں۔
نبی کریمﷺ کا آخری نبی ہونا صریح نصِّ قر آنی سے ثابت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النّبِيّين وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا 1
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (کنز الایمان)
مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں علَّامہ علاء الدین علی بن محمد بغدادی متوفی ۷۴۱ھ لکھتے ہیں :
ختمَ اللهُ به النُبُوّةَ فلا نُبُوّة بعدَه أي ولا معَه قال ابنُ عباسٍ:يُريدُ لَو لمْ أختَمْ به النّبِيّين لجعَلتُ له ابناً ويكونُ بعدَه نَبِيّاً 2
یعنی :اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ پر سلسلۂ نُبُوّت ختم فرما دیا۔ پس آپ کے بعد اور آپ کے ساتھ(آپ کے زمانے میں اب ) کوئی نبوت نہیں ، ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ اگر میں آپ پر نبوت ختم نہ فرماتا تو آپ کے لیے بیٹاپیدا کرتا اور وہ آپ کے بعد نبی ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ نے خود بھی فرمایا کہ:
’’میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘
حضور ﷺ نے جھوٹے مدعیان نبوت کی خبر دی ۔
چنانچہ امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی متوفی۲۷۵ھ اور امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ۲۷۹ھ اپنی اپنی سند سے حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
’’سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘‘3
یعنی: میری امت میں تیس کذّاب (انتہائی جھوٹے) لوگ ہوں گے ، اُن میں سے ہر کذّاب نبی ہونے کا گُمان کرے گا حالانکہ میں ’’خاتم النبیّین‘‘ ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
الغرض مرتد کا وکیل بننا تو دور کی بات ہے ،اِن سے بات کرنا ، ان کے پاس بیٹھنا، ان سے کوئی بھی معاملہ کرنا ناجائز ہے و لہذا کسی قادیانی کا کیس لڑنا ناجائز اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور اگر کسی نے قادیانی کا کیس لڑا تو ایسا شخص فاسقِ معلن ہے اور ایسےشخص پر لازم ہے کہ وہ اعلانیہ توبہ کرے اور اگر کوئی مسلمان کسی قادیانی کے گمراہ کن کفریہ مسائل مثلاً انکار ختم نبوّت وغیرہ کو ثابت کرنے کے لئے اگر کیس لے گا تو فوراً دائرۂ اسلام سے باہر ہو جائے گا کہ کسی کے کفر کو درست سمجھنا اور اس کے دِفاع میں دلائل قائم کرنا اس کے کُفر پر رضامندی کی دلیل ہے اور کسی کے کفر پر راضی ہونا کفر ہے۔
مرتدوں سے دور رہنے اور انہیں اپنے سے دور رکھنے کا قرآن و حدیث میں حکم ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ4
اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔( کنز الایمان)
اور بد مذہبوں کے بارے میں امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ۲۶۱ ھ نقل کرتے ہیں:
إِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ5
یعنی: بد مذہبوں سے دور رہوں اور انہیں اپنے سے دور رکھو، وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں ۔
مرتد کے ساتھ کھانا، پینا، بیٹھنا، باتیں کرنا، کسی قسم کے معاملات کرنا ناجائز ہے۔
چنانچہ امام ِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی متوفی۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں:
قادیانی مرتدہیں،اُن کے ہاتھ نہ کچھ بیچا جائے، نہ اُن سے خریدا جائے،اُن سے بات ہی کرنے کی اجازت نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :”ایاکم وایاھم“ان سے دور بھاگو انہیں اپنے سے دور رکھو۔6
اور لکھتے ہیں:
کافر اصلی غیرمرتد کی وہ نوکری جس میں کوئی امرِناجائزشرعی کرنانہ پڑے جائز ہے اور کسی دنیوی معاملہ کی بات چیت اس سے کرنا اور اس کے لئے کچھ دیراس کے پاس بیٹھنا بھی منع نہیں اتنی بات پرکافر بلکہ فاسق بھی نہیں کہاجاسکتا، ہاں مرتد کے ساتھ یہ سب باتیں مطلقاً منع 7
اور لکھتے ہیں:
مرتدکے ساتھ کوئی معاملہ مسلمان بلکہ کافر ذمی کے مانند بھی برتنا جائز نہیں، مسلمانوں پر لازم ہے کہ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے وغیرہ تمام معاملات میں اسے بعینہ مثل ِسوئر کے سمجھیں :
قال اﷲ تعالیٰ
وَمَنْ یَّتَوَلَّهم مِّنکُمْ فَاِنَّه مِنْهم
جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی رکھے گا، تو وہ یقیناً انہی میں سے ہے ۔8
اور لکھتے ہیں:
دنیوی معاملت جس سے دین پرضَرَرْ نہ ہو سوا مرتدین مثل --کے کسی سے ممنوع نہیں9
اور مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی وقار الدین حنفی متوفی ۱۴۱۳ھ لکھتے ہیں:
’’قادیانیوں کے دونوں گروپ لاہوری اور احمدی کافر ومرتد ہیں اور مرتد کے احکام اہلِ کتاب اور مشرکین سے جداہیں ،شریعت کےمطابق مسلمان ،مرتد سے معاملات بھی نہیں کرسکتا،اس سے ملنا جُلنا کھانا پینا سب ناجائز ہے لہٰذا ان سے تجارت رکھنا ، اُٹھنا ،بیٹھنا کھانا پینا سب حرام ہے۔‘‘ (مُلتقطاً) 10
دوسرے کے کفر کو اچھا سمجھ کر راضی ہونا بھی کفر ہے ۔
چنانچہ علّامہ قاضی محمدبن فراموزحنفی متوفی۸۸۵ھ لکھتے ہیں:
وَأمّاَ الرضَا بكفرِ غيره فقد اِختلفوا فيه. وذكرَ شيخُ الإسلامِ خواهر زاده فِي ’’شرحِ السيرِ‘‘ أنَّ الرضَا بكفرِ الغيرِ إنمّاَ يكونُ كفراً إذا كانَ يستخيرَ الكفرَ أو يستحسنُه10
یعنی:اور دوسروں کے کفر سے راضی ہونا تحقیق اس میں اختلاف ہے اور شیخ الاسلام خواہر زادہ نے ’’شرح سیر‘‘ میں فرمایا کہ دوسرے کے کفر سے راضی ہونا کفر اس وقت ہے جبکہ وہ اس کے کفر کو اچھا سمجھتا ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:_________________
ابو حمزہ محمد طارق النّعیمی العطاری
مُتَخصّص فِی الفِقهِ الاسلامی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
TF-2060
۲۸،رجب المرجب۱۴۴۶ھ،۲۹،جنوری۲۰۲۵م
الجواب صحیح :_________________
الدکتورالمفتی محمد عطاء اللّٰہ النّعیمی
شیخ الحدیث جامعۃ النّور ورئیس دارالإفتاء النّور
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح :_________________
المفتی محمد جنید العطاری النّعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی