logoختم نبوت

شاہین ختم نبوت مفتی امین قادری رحمۃ اللہ علیہ

مولانا مفتی محمد امین بن محمد حسین محمد ابراہیم واڈی والا ۲۲ ، رجب المرجب ۱۳۹۲ھ بمطابق ۷، نومبر ۱۹۷۲ء کو کھا را در کراچی میں تولد ہوئے۔ آپ کا نسبی تعلق کتیا نہ میمن جماعت سے ہے۔

تعلیم وتربیت:

میٹرک کتیا نہ میمن اسکول ککری گراؤنڈ کھار ادر سے کی ،بی کام سندھ مسلم کامرس کالج کراچی اور ایم ۔ اے اسلامیات کراچی یو نیورسٹی سے کیا۔ دعوت اسلامی کے ماحول نے متاثر کیا تو اس میں شامل ہو گئے پھر دینی تعلیم کا شوق پیدا ہوا تو مولانا محمد جاوید میمن مینگھرانی سے ابتداء کی پھر نور مسجد کاغذی بازار میں مولانا محمد عثمان برکاتی سے رات میں تعلیمی سفر جاری رکھا۔ اکثر کتابیں وہیں پڑھیں اس کے بعد دار العلوم امجدیہ کراچی سے شیخ الحدیث مولانا افتخار احمد قادری سے ۱۹۹۷ء کو دورہ حدیث شریف کیا۔ اس طرح آپ نے سات سال کے قلیل عرصہ میں درس نظامی مکمل کیا ۔ ۱۹۹۸ء کو دار العلوم امجدیہ میں علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی (مبارکپور ) ، شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی اور امیر دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس قادری اور دیگر صد ہا علماء حضرات کی موجودگی میں آپ کی دستار فضیلت ہوئی ۔1

تدریس افتاء :

دوران تعلیم ہی رات میں تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔ نور مسجد ( کاغذی بازار ) سے درس و تدریس تدریس کا آغاز کیا، بعد میں ا نوار مدینہ مسجد، اسماعیل گیگا مسجد اور آرائیں مسجد ( جمشید روڈ) میں فرائض تدریس انجام دیتے رہے،آپ کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں ہیں جن میں سے کئی مختلف جامعات میں تدریس کے فرائض اور اہم دینی امور کی نگرانی میں مصروف ہیں ،چونکہ فقہ سے کافی لگاؤ تھا اس لئے دوران تعلیم وتدریس فقہ پر زیادہ توجہ رہی یہی وجہ تھی کہ بعد از فراغت پہلے دار العلوم امجدیہ میں حضرت علامہ مولانا مفتی عبد العزیز حنفی صاحب کی زیر سر پرستی میں پھر اس کے علاوہ آپ نے دارالعلوم غوثیہ فاروق آباد پرانی سبزی منڈی کراچی میں کئی سال تک تدریس کے ساتھ فتاوی نویسی کے فرائض بھی انجام د یتے رہے ۔

اپنے گھر کے قریب جامع مسجد اسماعیل گیگا جمشید روڈ کراچی میں جمعہ کو امامت و خطابت فرماتے تھے۔ مرکز فیضان مدینہ پرانی سبزی منڈی میں کئی مرتبہ اور دعوت اسلامی کے سالانہ مرکزی اجتماع ملتان شریف میں درس قرآن وحدیث دیا۔

بیعت و خلافت:

آپ ۱۹۸۵ ء کو جامع مسجد گلزار حبیب میں سلسلہ قادریہ عطاریہ میں امیر دعوت اسلامی مولانا بیعت محمد الیاس عطار قادری سے دست بیعت ہوئے ۔ شیخ العرب و العجم محمد بن علوی مالکی ، شیخ زکریا بخاری مدنی، شیخ ابو بکر صدیق الجزائری ، شیخ سید حبیب العالی یمنی کے علاوہ ہندو پاک کے کئی علماء و مشائخ نے خلافتیں سندیں اور اور ادو وظائف کی اجازتیں عطا فرمائیں۔ قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سے عقیدت رکھتے تھے۔

وعظ وتقریر:

اپنے گھر کے قریب ہی جامع مسجد اسماعیل گیگا میں جمعۃ المبارک کا بیان فرماتے چونکہ غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب سے کافی محبت وعقیدت تھی اس لئے انداز بیان واستدلال کاظمی شاہ صاحب کا اختیار فرماتے ۔جمعہ کے بیان کے علاوہ فیضان مدینہ پرانی سبزی منڈی میں اور دیگر اجتماعات میں بھی بیان کی سعادت حاصل کی ۔کئی جگہوں پر پندرہ روزہ اور ماہانہ درس قرآن کی محفلیں سجاتے اور بیان فرماتے ۔کئی موقعوں پر بڑی محافل میں اور حج کی تربیتی نشستوں میں تربیتی بیانات فرماتے اور خاص کر مکۃ المکرمۃ اور مدینہ طیبہ میں جب جاتے تو وہاں بھی نجی محفلوں میں بیان کی سعادت حاصل کرتے ۔

حج و عمرہ وزیارت مدینہ طیبہ

آپ نے تین بار حج بیت اللہ اور کئی بار عمرے کی سعادت حاصل کی ، ایک عمرہ ربیع الاول شریف میں اور باقی تمام عمرے رمضان شریف میں ادا کئے اور عمرے میں تقریبا ہر بار ہی 17 رمضان کو بدر شریف کی حاضری کی سعادت بھی حاصل کرتے ۔ مدینہ طیبہ میں ہر بدھ کو حضرت سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر شہدائے احد شریف کے مزارات پر ضرور حاضری دیتے غالبا یہی عقیدتیں تھیں کہ جس کی وجہ سے مفتی مرحوم کے وصال کا دن شہدائے بدر شریف کی سترہویں کی نسبت سے سترہ اور تدفین سید الشہداء سیدنا حمزہ کے دن بدھ کی نسبت سے شب بدھ کوہوئی ۔ مفتی صاحب کا 1426ھ( یعنی سال وفات ) کے حج کا ویزہ اور روانگی کی تاریخ بھی آچکی تھی مگر مفتی صاحب نے دیگر مصروفیات کی وجہ سے حج کا ارادہ ملتوی کردیا تھا لیکن روانگی کی تاریخ اور وقت آیا تھا وہ وہی وقت تھا جس وقت آپ کے جسد کو لحد میں اتارا جارہا تھا ۔

زیارت شام و عراق :

۱۹۹۰ء میں علامہ مفتی وقار الدین قادری (رئیس الافتاء دار العلوم امجدیہ کراچی) کی رفاقت میں بغداد شریف، کربلا معلی اور نجف اشرف میں مولائے کائنات امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ ، سید الشهداء سیدنا امام حسین شہید کر بلا ، سید التابعین سند الکاملین امام اعظم ابو حنیفہ، غوث اعظم محبوب سبحانی قطب ربانی شیخ محی الدین سید عبد القادر جیلانی مع دیگر مزارات مقدسہ پر حاضری کی سعادت اور انوار و برکات کی دولت سے مشرف ہوئے۔

تصنیف وتالیف :

(1) آپ نےامجدیہ میں دواران تعلیم سالنامہ رفیق علم کا اجراء کروایا۔ امجدیہ کے پچاس سال پورے ہونے پر رفیق علم کا گولڈن جوبلی نمبر شائع کروانے میں بھی کامیاب ہوئے ۔

(2)وفا کے پیکر ( تحریک پاکستان میں علمائے اہل سنت کا کردار )

(3)عقیدہ ختم نبوت

آپ کی زندگی کا اہم منفرد اور دلچسپ کا رنامہ ہے۔ ختم نبوت کے حوالے سے تقریباً ایک صدی کے تناظر میں علمائے و مشائخ اہل سنت احناف نے جو گراں قدر کام کیا ہے۔ افسوس! اس کی پذیرائی نہیں ہو سکی؟ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ علمائے حق نے لوجہ اللہ کام کیا تھا ، انہیں پذیرائی شہرت سے کیا تھا غرض ؟ لیکن ان کی عظیم کا وش دماغ سوزی پر مشتمل مقالات کی حفاظت و اشاعت وقت کی اہم ضرورت ہے، لہذا مفتی ابو علقمہ محمد امین نے ان نادر و نایاب کتب و رسائل کو جمع و تدوین کا منفرد کام سرانجام دیا۔ اب تک سترہ جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔

یہ وہ عظیم و منفرد کام ہے جو کہ مفتی امین کو ہمیشہ زندہ رکھے گا، جب کام سامنے آئے گا تو آپ کی محنت شاقہ ، کھو جنا، تلاش جستجو ، ذوق و شوق کا اندازہ ہوگا کہ آپ نے کہاں کہاں اور کس قدر مسافت کے سفر اختیار کئے، کن کن لائبریریوں میں راتیں جاگ کر اجالا کیا ، کن کن شخصیات سے رابطہ کر کے خانہ تلاشی کا کام کیا قلمی و بیاض سے کیسی کیسی تحریری بر آمد کیں۔

بہر حال جس قدر اہم ہے اس قدر مشکل بھی ہے جس نے اس قسم کا تحقیقی نوعیت کا کام کیا ہوگا، اسی کو قدر ہوگی ۔

(4) ختم نبوت پر ایک خوبصورت و مدلل پوسٹر بھی ترتیب دیا تھا جو کہ ہر سال شائع ہو کر ملک بھر میں تقسیم ہوتا ہے۔

بیس روزہ دورہ ختم نبوت:

مفتی محمد امین قادری نے اس دورہ کا اہتمام دار العلوم امجد یہ کراچی میں کیا اور تدریس کے فرائض شیخ التفسير والحدیث حضرت علامہ مفتی محمد منظور احمد فیضی مدظلہ العالی نے مکمل کئے ۔ اس کی مکمل ریکارڈنگ بھی محفوظ ہے۔

تلامذه:

آپ کے شاگردوں کے بعض اسماء درج ذیل ہیں:

حاجی محمد عمران عطاری (نگران مرکزی مجلس شوری دعوت اسلامی )

حاجی محمد بشیر میمن عطاری(بانی و چیئر مین سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل)

حاجی احمد عبید رضا (فرزند مولانا محمد الیاس عطار قادری)

مولا نا محمد انیس برکاتی(مدرس جامعۃ النور وخطیب و امام مبارک مسجد )

مولانا حافظ محمد سہیل رضا امجدی

مولانا محمد یونس قادری فیضی

مولانا حافظ محمد حنیف میمن قادری

شادی و اولاد :

آپ نے ایک شادی کی جس سے ایک بیٹی تولد ہوئی اور آپ کے وصال کے پندرہ دن کے بعد آپ کے گھر ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام محمد علقمہ رکھا گیا ہے۔

وصال:

مولانا ابو علقمہ محمد امین دین کے کام میں اس قدر مصروف و مشغول رہے کہ انہیں فکر ہی نہ رہی یہاں تک کہ ایک سال سے انہیں شوگر کا مرض لاحق تھا لیکن انہیں اس بات کا علم ہی نہ تھا۔ ہفتہ کو معمولی بخار ہوا، اتوار کو شدت اختیار کر گیا جس کی وجہ سے انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ آپ نے آخری کلمات اپنی زبان سے ماسوای اللہ (اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ نہیں ) اور سبحان اللہ ادا کئے اور قو ما (بے ہوشی )میں چلے گئے ۔ آئی سی یو میں بے ہوشی کی حالت میں آپ کی زبان تالو سے لگی ہوئی تھی اور دیکھنے والے لوگوں نے یہ اندازہ لگایا کہ جیسے اللہ اللہ کہ رہے ہوں ۔ دو دن بلڈ پریشر شوگر اور بخار کی کیفیت رہی ۔ ۱۸ ، ذوالقعدہ ۱۴۲۶ھ بمطابق ۲۰ دسمبر ۲۰۰۵ ء شب بدھ نماز مغرب کے وقت فقط چھتیں (۳۶) سال کی عمر میں انتقال کیا ، اسی رات بارہ بجے دار العلوم امجدیہ والے مین روڈ پر نماز جنازہ شیخ الحدیث علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی (مبارکپور، انڈیا) کی امامت میں ادا ہوئی۔ میوہ شاہ قبرستان میں مفتی قاری محبوب رضا قادری کے دائیں پہلو میں تدفین ہوئی۔

(انوار علمائے اہل سنت سندھ بتصرف وزیادۃ) (شاہین عقیدہ ختم نبوت )


  • 1 ماہنامہ تحفظ کراچی، فروری ۲۰۰۶ء

Netsol OnlinePowered by