اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزاقادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا۔ اس کو پروان چڑھانے میں انگریزوں کا سب سے بڑا مقصد مسلمانوں کے اندر سے روحِ محمد ﷺ نکالنا اور ان میں شعلہ جوالہ کی طرح گرم جذبہ جہاد کو سرد کرنا تھا۔ کیونکہ برصغیر پر انگریزوں کے مکمل تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قومِ رسول ہاشمی ﷺ کے اس جذبہ جہادنے کھڑی کی تھی۔ اس وجہ سے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز کی نظر میں سب سے بڑے باغی، غدار اور خطرناک لوگ علمائے کرام اور مشائخ عظام ہی تھے جو تحریک آزادی کے سرپرست اور طاغوتی عسکریت پسندوں کے خلاف مصروف عمل عوام کے لیے ایک زبردست محرک تھے، اس لیے انگریز کا سب سے زیادہ عتاب بھی اسی طبقے پر نازل ہوا، چنانچہ باقاعدہ منصوبہ بندی اور سوچی سمجھی سکیم کے تحت مسلمانوں کے اندر ایک ایسے شخص کو کھڑا کرنے کا پروگرام بنایا گیا جو دین کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو گمراہ کرے اور تاویلات کا سہارا لیتے ہوئے بالآخر دین کے بنیادی رکن جہاد کو حرام قرار دے دے۔
سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں، اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم و احتیاط اور تحقیق و توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری و اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت و مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا۔
(مجموعہ اشتہارات ج:3 ص: 21)
سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں، ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔
(شہادۃ القرآن 84، روحانی خزائن ج:6 ص:380)
سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کیے جانے سے بچے ہوئے ہو، ذرا کسی اور سلطنت کے زیرسایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے، تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو۔
(مجموعہ اشتہارات ج: 3 ص:584)
مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے گن گاتے ہوئے اپنے قلبی جذبات کا یوں اظہار کیا:
میں بیس برس تک یہی تعلیمِ اطاعت گورنمنٹ انگریزی کی دیتا رہا اور اپنے مریدوں کو بھی یہی ہدایتیں جاری کرتا رہا تو کیونکر ممکن تھا کہ ان تمام ہدایتوں کے برخلاف کسی بغاوت کے منصوبے میں تعلیم کروں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے، یہ امن جو اس سلطنت کے زیر سایہ ہمیں حاصل رہا ہے نہ یہ امن مکہ مکرمہ میں مل سکتا ہے، نہ مدینہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔
(تریاق القلوب 28، روحانی خزائن ج:15 ص: 156)
برٹش گورنمنٹ ان کے لیے فضل ایزدی اور سایہ رحمت ہے اور اس کی ہستی کو وہ اپنی ہستی خیال کرتے ہیں۔
(الفضل، 13 ستمبر 1914ء صفحہ 4)
بالآخر یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر ان احسانات کے جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامہ خلائق پر وارد ہیں۔ سلطنت ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے، اس کا شکر بھی ادا کریں۔ لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گزار ہوں گے، اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے، نعمت عظمیٰ یقین نہ کریں۔
(براہین احمدیہ جلد اوّل تا چہارم صفحہ 140 مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 140 از مرزا قادیانی)
ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ اسلام کی دوبارہ زندگی انگریزی سلطنت کے امن بخش سایہ سے پیدا ہوئی ہے۔ تم چاہو، دل میں مجھے کچھ کہو، گالیاں نکالو، یا پہلے کی طرح کافر کا فتویٰ لکھو۔ مگر میرا اصول یہی ہے کہ ایسی سلطنت سے دِل میں بغاوت کے خیالات رکھنا یا ایسے خیال جن سے بغاوت کا احتمال ہوسکے، سخت بدذاتی اور خدا تعالیٰ کا گناہ ہے۔
(تریاق القلوب صفحہ 28 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15، صفحہ 156 از مرزا قادیانی)
گورنمنٹ برطانیہ …… ابر رحمت:
یہ بات قطعی اور فیصلہ شدہ ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ مسلمانان ہند کی محسن ہے کیونکہ سکھوں کے زمانہ میں ہمارے دین اور دُنیا دونوں پر مصیبتیں تھیں۔ خدا تعالیٰ اس گورنمنٹ کو دُور سے ابرِ رحمت کی طرح لایا اور ان مصیبتوں سے اس گورنمنٹ کے عہدِ دولت نے ایک دم میں ہمیں چھوڑا دیا۔ پس اس گورنمنٹ کا شکر نہ کرنا بدذاتی ہے اور جو شخص ایسے احسانات دیکھ کر پھر نفاق سے زندگی بسر کرے اور سچے دل سے شکر گزار نہ ہو تو بلاشبہ کافرِ نعمت ہے۔ ہماری ایمانداری کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ ہم تہ دل سے اقرار کریں کہ درحقیقت یہ گورنمنٹ ہماری محسن ہے۔ ہم اس گورنمنٹ کے قدوم میمنت لزوم سے ہزاروں بلائوں سے بچے اور ہمیں وہ آزادی ملی جس کے ذریعہ سے ہم دین اور دُنیا دونوں درست کر سکتے ہیں۔ پس اگر اب بھی ہم اس گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ نہ ہوں تو خدا تعالیٰ کے سامنے ناشکرے ٹھہریں گے۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کو مَیں نے مختلف کتابوں میں شائع کیا اور سولہ برس تک برابر میں اس خدمت کو بجا لاتا رہا۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 460,459 طبع جدید از مرزا قادیانی)
یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر اُن احسانات کے کہ جو سلطنتِ انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامۂ خلائق پر وارد ہیں۔ سلطنتِ ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے، اس کا شکر بھی ادا کریں۔ لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گذار ہوں گے اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے، نعمتِ عظمیٰ یقین نہ کریں۔۔۔۔۔۔ پس فی الحقیقت یہ سلطنت ان کے لیے ایک آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہیں جس کے آنے سے سب تکلیفیں ان کی دور ہوئیں ۔۔۔ پس حقیقت میں خداوند کریم و رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کے لیے ایک بارانِ رحمت بھیجا ہے جس سے پودہ اسلام کا پھر اس ملک پنجاب میں سرسبز ہوتا جاتا ہے اور جس کے فوائد کا اقرار حقیقت میں خدا کے احسانوں کااقرار ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ اول تا چہارم صفحہ140، مندرجہ روحانی خزائن جلد 1، صفحہ 140 از مرزا قادیانی)
سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کیے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے، تمہارے لیے ا یک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل وجان سے اس سپر کی قدرکرو۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 709 طبع جدید، از مرزا قادیانی)
ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے ہیں اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیر خواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ ہمارا اصول ہے۔ ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقص امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لیے طیار ہیں۔اور خدا تعالیٰ کا شکرکرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے۔
(کتاب البریہ صفحہ17، مندرجہ روحانی خزائن جلد13صفحہ18 از مرزا قادیانی)
اور ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں سلطنت برطانیہ کا عہد بخشا اور اس کے ذریعہ سے بڑی بڑی مہربانیاں اور فضل ہم پر کیے۔ ہم نے اس سلطنت کے آنے سے انواع اقسام کی نعمتیں پائیں۔ ہماری قوم نے علم اور تہذیب سیکھی اور بہائم کی زندگی سے نکلنا انہیں نصیب ہوا اور حیوانی جذبوں سے نکل کر انسانی کمالات پر پہنچنا میسر آیا۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 542 طبع جدید از مرزا قادیانی)
بعد اس کے گورنمنٹ انگریزی کا زمانہ آیا۔ یہ زمانہ نہایت پُرامن ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم خالصہ قوم کی عملداری کے دنوں کو امن عامہ اور آسائش کے لحاظ سے انگریزی عملداری کی راتوں سے بھی برابر قرار دیں تو یہ بھی ایک ظلم اور خلاف واقعہ ہوگا۔ یہ زمانہ روحانی اور جسمانی برکات کا مجموعہ ہے۔ اور آنے والی برکتیں اس کی ابتدائی بہار سے ظاہر ہیں۔
(لیکچر لاہور صفحہ 30 مندرجہ روحانی خزائن، جلد 20 صفحہ 176، از مرزا قادیانی)
گورنمنٹ کو یہ فخر ہونا چاہئے کہ اس ملک میں اور اس کے زمانہ بادشاہت میں خدا اپنے بعض بندوں سے وہ تعلق پیدا کر رہا ہے کہ جو قصوں اور کہانیوں کے طور پر کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ اس ملک پر یہ رحمت ہے کہ آسمان زمین سے نزدیک ہوگیا ہے۔ ورنہ دُوسرے ملکوں میں اس کی نظیر نہیں!
(سراج منیر صفحہ 21 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12، صفحہ 23، از مرزا قادیانی)
سرکار انگریزی اس درخت کی طرح ہے جو پھلوں سے لدا ہوا ہو۔ اور ہر ایک شخص جو میوہ چینی کے قواعد کی رعایت سے اس درخت کی طرف ہاتھ لمبا کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی پھل اس کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ ہماری بہت سی مرادیں ہیں جن کا مرجع اور مدار خدائے تعالیٰ نے اس گورنمنٹ کو بنا دیا ہے۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ وہ ساری مرادیں اس مہربان گورنمنٹ سے ہمیں حاصل ہوں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ548 )
اس مبارک گورنمنٹ کے زمانہ کو اگر اس امن کے زمانہ سے مشابہت دیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے وقت میں تھا تو یہ زمانہ بلاوجہ اس کا مثیل غالب ہوگا۔
(ازالہ اوہام ص: 58 روحانی خزائن ج:3 ص: 131)
بیشک ہم اس سلطنت برطانیہ کے زیر سایہ پوری آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس حکومت کی مہربانی سے ہمارے اموال، ہماری جانیں، ہماری ملت اور ہماری عزتیں ظالموں کے ہاتھوں سے محفوظ ہیں۔ پس ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کی مہربانی کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اس نے ہم کو اپنی عمدہ خصال کی وجہ سے راحت کا جام پلایا ہے، تہ دل سے اس کا شکریہ ادا کریں اور ہم پر یہ بھی واجب ہے کہ ہم اس کے دشمنوں (مسلمانوں) کو تلواروں کی چمک دکھائیں اور اس کے خلاف نہیں بلکہ اس کی خاطر اپنے غصہ کی آگ کو بھڑکائیں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم ص:417)
جعل لی السلطنۃ البرطانیۃ ربوۃ امنٍ و راحۃ و مستقرًا حسنا فلحمد لِلّٰہ
اللہ تعالیٰ نے میرے لیے سلطنت برطانیہ کو ربوہ، امن و راحت کی پناہ گاہ بنایا ہے اور یہ ٹھہرنے کی اچھی جگہ ہے اور اس پر خدا کی حمد و ثنا ہے۔
(حقیقت الوحی، ضمیمہ، الاستفتاء ص:46، روحانی خزائن، ج:22 ص: 668)
ہم پر محسن گورنمنٹ کا شکر ایسا ہی فرض ہے جیسا کہ خدا کا:
سو اگر ہم اس محسن گورنمنٹ کا شکر ادا نہ کریں یا کوئی شر اپنے ارادہ میں رکھیں تو ہم نے خداتعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا کیونکہ خدا تعالیٰ کا شکر اور کسی محسن گورنمنٹ کا شکر جس کو خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کو بطورِ نعمت کے عطا کرے۔ درحقیقت یہ دونوں ایک ہی چیز ہیںا ور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ایک کے چھوڑنے سے دوسری کا چھوڑنا لازم آجاتا ہے۔
(شہادۃ القرآن ص:84 روحانی خزائن ج: 6 ص:380)
ہر ایک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنی چاہیے کہ اس وقت انگریزوں کی فتح ہو۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور سلطنت برطانیہ کے ہمارے سر پر بہت احسان ہیں۔ سخت جاہل اور سخت نادان اور سخت نالائق وہ مسلمان ہے جو اس گورنمنٹ سے کینہ رکھے۔ اگر ہم ان کا شکر نہ کریں تو پھر ہم خدا تعالیٰ کے بھی ناشکر گزار ہیں۔
(ازالہ اوہام ص: 510 روحانی خزائن ج:3 ص: 373 )
سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں، یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں، دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو، … سو اگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں۔
( شہادت القرآن84، 85 روحانی خزائن ج:6 ص:380، 381 )
بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے، یا نہیں؟ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے، اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکارآدمی کا کام ہے۔
(شہادت القرآن ص:84، روحانی خزائن ج:6ص:380 )
پس میں اس جگہ پر مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان پر فرض ہے کہ وہ سچے دل سے گورنمنٹ کی اطاعت کریں۔…….یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گزار نہیںہوتا، وہ خدا تعالیٰ کا شکر بھی نہیں کرسکتا۔ جس قدر آسائش اور آرام اس زمانہ میں حاصل ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔
(لیکچر لدھیانہ ص: 23، 24روحانی خزائن ج: 20 ص: 272)
اس تمام تقریر سے جس کے ساتھ میں نے اپنی سترہ سالہ مسلسل تقریروں سے ثبوت پیش کیے ہیں، صاف ظاہر ہے کہ میں سرکار انگریزی کا بدل و جان خیر خواہ ہوں اورمیں ایک شخص امن دوست ہوں اور اطاعت گورنمنٹ اور ہمدردی بندگان خدا کی میرا اصول ہے اور یہ وہی اصول ہے جو میرے مریدوں کی شرائط بیعت میں داخل ہے۔
(کتاب البریہ ص:9 روحانی خزائن ج: 13 ص:10 )
مرزا ئیوں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ خدارا ان تمام حوالہ جات کو اصل کتابوں سے بھی دیکھو اور اپنی عقل سے سوچو کہ کیا مرزائیت کا اسلام سے دور دور کا بھی کوئی تعلق ہے۔ اﷲ مرزا ئیت کے جال میں پھنس جانے والوں کو اس سے نکلنے کی توفیق دیں ۔