"ایک جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔" ہٹلر کے وزیر اطلاعات جوزف گوئبلز کا یہ مقولہ آج ایک ایسے مستقل شیطانی حربے کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا دائرہ کار اب سیاسی کارکنان، قائدین اور ارباب اقتدار تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ مخصوص مذہبی ودینی شخصیات، صاحب علم ودانش اور کچھ نام نہاد محققین بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اس "جھوٹ" کی شر انگیزی میں اُس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب جھوٹ بولنے والا دینی عالم وفاضل، شیخ الحدیث اور منصب افتاء پر فائز ہو اور اچھی طرح جانتا ہو کہ ایک مومن دیگر اخلاقی کمزوریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہونے کے باوجود کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے۔
دین اسلام جھوٹ، غیبت اور منافقانہ طرز عمل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے مگر ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سچائی کو چھپانے کیلئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، حقیقت کو جھٹلاتے ہیں، تاریخ کو مسخ کرتے ہیں اور لغو ومن گھڑت تاریخ سازی کر کے اپنی کوتاہیوں، بد اعمالیوں اور قومی وملی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس طبقہ فکر میں خاص طور پر وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر 1947ء میں قیام پاکستان تک، انگریز اور ہندو بنئے کی خدمت وکاسہ لیسی کی، اسلامی تعلیمات کی نت نئی توضیح وتشریح پیش کی، اسلامی نظریہ قومیت (مسلم قومیت) کے مقابلے میں "اوطان" کو قومیت کا ماخذ قرار دیا، متحد قومیت کا راگ الاپا، ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگائے، انہیں مساجد کے منبروں پر بٹھایا، ان کی خوشنودی کیلئے مسلمانوں کو شعائر اسلامی سے روکنے کے فتوے دیئے، علی الاعلان کانگریس کا ساتھ دیا، نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی بھر پور مخالفت کی اور نہ صرف مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ پاکستان کو "پلیدستان" اور قائد اعظم محمد علی جناح کو "کافر اعظم" تک قرار دیا، کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ "کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پاکستان کی "پ" بنا سکے۔"
ان لوگوں کی بد اعمالیاں کسی سے مخفی نہیں۔ تاریخ کے صفحات ان کے سیاہ کارناموں سے بھرے پڑے ہیں، مگر جب 14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان نے ان کے تمام مذموم عزائم اور ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا کہ اپنے اکابرین کے شرمناک کردار وعمل کو چھپایا جائے، ان کے منفی کردار وعمل پر پردہ ڈالا جائے۔ چنانچہ انہوں نے منظم انداز میں تاریخ کو نئے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کام شروع کر دیا اور اپنی شرمندگی، خجالت اور قومی جرائم کو چھپانے کیلئے حقائق کو مسخ کر کے نئی تاریخ سازی کی ابتداء کی جو آج بھی باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت جاری ہے۔
حال یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی نصاب میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور تعلیمی نصاب کی شکل بگاڑ دی گئی، نتیجتاً ہماری نئی نسل اپنی ہی حقیقی تاریخ سے بے بہرہ ہے، آج ہمارا تعلیمی نظام اس حد تک منقسم ہے کہ آپ اگر منظور شدہ تاریخ سے رو گردانی کے مرتکب ہوئے تو اس کی سزا امتحان میں صفر مارکس اور نتائج میں ناکامی کے مترادف ہے، المیہ یہ ہے کہ ہم نے سوال کو جرم قرار دے دیا ہے اور یہ فرض کر لیا ہے کہ اس ترکیب کے ذریعے شاید ہم سچ کو دبا پائیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ عمارت جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو وہ کب تک قائم رہ سکتی ہے، کیا جھوٹ کبھی بھی سچ کا متبادل ہو سکتا ہے؟ کیا حقیقت ہمیشہ جھوٹ کے پردوں میں دبی رہ سکتی ہے؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر سچ کبھی افشاء ہوگا تو اسکا نتیجہ کیا نکلے گا اور کیا یہ درست نہیں کہ یہ لوگ اس بات کی پرورش نہیں کر رہے کہ "جھوٹ سچ سے بہتر ہے۔"
آج یہ مخصوص مکتبہ فکر اپنے فائدے کیلئے تاریخ کے ساتھ جعلی بد دیانتی کر رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے مگر تاریخ کو دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ہے، چاہے فاتح ہی تاریخ کیوں نہ لکھے۔ آج تاریخ میں تیمور فاتح اعظم ہوکر بھی کس لقب سے مقبول ہے سب جانتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ "فاتح" لکھتا ہے۔ مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ فاتح، فتح ایک قوم یا ایک علاقے پر پاتا ہے، تاریخ پر نہیں۔
جبکہ سچ اپنا راستہ خود ڈھونڈ لیتا ہے لیکن جھوٹ کو قائم رکھنے کیلئے مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں پائے جانے والے کچھ لوگوں نے سچ کو جھوٹ کے کمبل میں لپیٹ رکھا ہے، مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حق وباطل کے معرکے میں بالآخر فتح سچ کا مقدر بنتی ہے۔ سچ کو شکست دینا، دبا دینا یا روک دینا کسی بھی قوت کیلئے ممکن نہیں ہوتا، سچ دھرتی کا سینہ چیر کر نمودار ہو جاتا ہے اور اپنے ہونے کی خود ہی گواہی بن جاتا ہے۔
قارئین محترم! آج ہم کچھ ایسی تاریخی حقیقتیں آپ کے سامنے لارہے ہیں جس کے بارے میں اک مخصوص مکتبہ فکر نے علمی بد دیانتی سے کام لیتے ہوئے حقائق کو بدلنے کی کوشش کی اور اس کا سہرا اپنے "اکابرین" کے سر باندھنا چاہا مگر سچ بالآخر سامنے آہی گیا اور اپنے ہونے کی خود ہی گواہی بن گیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی تاریخ ساز قرارداد کے حوالے سے اصل تاریخی حقائق کیا کہتے ہیں۔
7 دسمبر کا دن مسلمانان پاکستان کیلئے خصوصی طور پر اور عالم اسلام میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے عمومی طور پر ایک یادگار اور تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے، یہ دن جب ہر سال لوٹ کر آتا ہے تو ہمیں اس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت کا برملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا اور اس عظیم اور تاریخ ساز فیصلے کی رو سے مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کو ماننے والی تمام ذریت (احمدی اور لاہوری گروپ) کو کافر قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اس متفقہ فیصلے کا اصل محرک علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی تیار کردہ وہ تاریخی قرارداد تھی، جو آپ نے 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں پیش کی، چونکہ 30 جون کو قرارداد پیش ہونے سے لے کر 7 ستمبر 1974ء کو قرارداد کی منظوری
تک ہونے والے اسمبلی کے "اِن کیمرہ" اجلاس تھے اور ان کی نشر واشاعت پر پابندی تھی، اس وجہ سے عرصہ دراز تک اصل حقیقت پس پردہ رہی اور اس مخصوص مکتبہ فکر نے اس صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھا کر حقائق کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کی۔
انہوں نے اس حوالے سے کئی کتابیں شائع کیں، جن میں قرارداد کے اصل محرک اور قرارداد پر دستخط کرنے والوں کی ترتیب میں رد وبدل کر کے تاریخی حقیقت پر نہ صرف پردہ ڈالا، بلکہ اپنے لوگوں کو "ہیرو" بنا کر بھی پیش کیا گیا، جبکہ اصل حقیقت اس کے بر خلاف تھی۔
چنانچہ ذیل میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے ریکارڈ کی روشنی میں ہم آج اسی حقیقت سے پردہ اٹھا رہے ہیں مگر اس سے قبل آپ کے سامنے اس مخصوص مکتبہ فکر کے چند حوالہ جات جو کہ سراسر جھوٹ، فریب اور دروغ گوئی پر مبنی ہیں کو پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
آئیے پہلا حوالہ دیکھتے ہیں، مولوی اللہ وسایا اپنی کتاب "تحریک ختم نبوت" جلد سوم شائع کردہ عالمی مجلس ختم نبوت حضوری باغ ملتان جون 1995ء کے صفحہ 467 پر "اپوزیشن کی قرارداد" کا عنوان قائم کر کے لکھتے ہیں:
"قومی اسمبلی میں آج صبح قادیانیوں کے مسئلہ سے متعلق حزب اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی نے جو قرارداد پیش کی اور جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا، اس پر اپوزیشن کے 23 حاضر اور سرکاری پارٹی کے 3 ارکان کے دستخط ہیں، اُن کے نام یہ ہیں، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد المصطفیٰ الازہری، پروفیسر غفور احمد، مولانا سید محمد علی رضوی، مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک، چودھری ظہور الہٰی، سردار شیر باز مزاری، مولانا ظفر علی انصاری، مخدوم نور محمد ہاشمی، صاحبزاده احمد رضا قصوری، محمود اعظم فاروقی، مسٹر غلام فاروق، عبد الحمید جتوئی، حاجی مولا بخش سومرو، مولانا صدر الشہید، سردار شوکت حیات خان، مولانا نعمت الله عمراخان، راؤ خورشید علی خان، میر علی احمد تالپور ماضی میں حکومت کا ساتھ دینے والے اپوزیشن کے ان ارکان نے بھی دستخط کئے، مسلم لیگ کے نواب ذاکر قریشی، کرم بخش اعوان، غلام حسن ڈھانڈلہ، جمعیت علماء پاکستان کے غلام حیدر بھروانہ اور صاحبزادہ نذر سلطان۔ اس جماعت کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود قرارداد پر دستخط نہیں کیے۔"
قارئین محترم! مولوی اللہ وسایا صاحب کا مندرجہ بالا اقتباس آپ کے سامنے ہے، جس میں کئی غلط بیانیاں موجود ہیں۔
اللہ وسایا صاحب نے پہلی غلط بیانی یہ کی ہے کہ قرارداد پر دستخط کرنے والوں میں مولانا مفتی محمود کا نام سرفہرست لکھا ہے، جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ سرفہرست مولانا شاہ احمد نورانی کا نام ہے، اس حقیقت کا ثبوت ہم آئندہ اوراق میں پیش کر رہے ہیں۔
موصوف نے دوسری غلط بیانی یہ کی کہ قرارداد پر دستخط کرنے والے 23 اپوزیشن اور 3 سرکاری ارکانِ اسمبلی سمیت کل 26 اراکین کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا ریکارڈ (جو کہ آئندہ صفحات پر پیش خدمت ہے) یہ بتاتا ہے کہ قرارداد پر 22 ارکان اسمبلی نے دستخط کئے تھے، جناب رئیس عطا محمد خان مری بھی ان 22 اراکین پارلیمنٹ میں شامل تھے جنہوں نے اولاً اس قرارداد پر دستخط کئے، مگر مولوی اللہ وسایا کی فہرست میں رئیس عطا محمد خان مری کا نام شامل نہیں ہے، جو حیرت کی بات ہے، جبکہ 15 ارکانِ اسمبلی جن کے بارے میں (معتبر روایات موجود ہیں) کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بھی بعد میں قرارداد پر دستخط کئے تھے، اس طرح قرارداد پر دستخط کرنے والوں کی کل تعداد 37 ہو جاتی ہے، 26 نہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ نواب ذاکر قریشی، کرم بخش اعوان، غلام حسن ڈھانڈلہ، غلام حیدر بھروانہ اور صاحبزادہ نذر سلطان کا تعلق ان 15 ارکانِ اسمبلی سے ہے جنہوں نے بعد میں قرارداد پر دستخط کئے تھے۔
اس اقتباس میں تیسری اور چوتھی غلط بیانی جو کہ حقیقتاً سراسر جھوٹ، فریب اور مذہبی منافرت پر مبنی ہے، وہ یہ کہ مولوی اللہ وسایا لکھتے ہیں کہ "اس جماعت (یعنی جمعیت علماء پاکستان) کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود قرارداد پر دستخط نہیں کیے۔"
مولوی اللہ وسایا کی یہ تحقیق خود ان کی اپنی ہی کتاب "پارلیمنٹ میں قادیانی شکست" (جو کہ پہلے تاریخی قومی دستاویز 1974ء کے نام سے بھی چھپ چکی ہے) سے ہی غلط ثابت ہو جاتی ہے، جس کے صفحہ 30 پر قرارداد پر دستخط کرنے والوں کی فہرست کی ترتیب نمبر 28 پر مولانا موصوف خود لکھتے ہیں کہ "میاں محمد ابراہیم برق" بعد میں قرارداد پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں محمد ابراہیم برق نے قرارداد پر دستخط کئے تھے۔ البتہ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ مولوی اللہ وسایا کے ہم مسلک اراکینِ پارلیمنٹ مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبد الحکیم نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود اس قرارداد پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس مقام پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولوی اللہ وسایا صاحب ایک طرف تو میاں محمد ابراہیم برق کی آڑ لے کر جمعیت علماء اسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبد الحکیم کے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرارداد پر دستخط نہ کرنے والے شرمناک عمل پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں جنہوں نے محض مسلکی تعصب کی بناء پر اپنے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود آخر تک قرارداد پر دستخط نہیں کئے تھے جبکہ دوسری طرف وہ میاں محمد ابراہیم برق کو جمعیت علماء پاکستان کا ممبر اسمبلی قرار دے کر جمعیت علماء پاکستان پر الزام تراشی کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔
مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبد الحکیم کے اس طرز عمل کا اظہار محرک قرارداد مولا شاہ احمد نورانی اپنے ایک انٹرویو میں افسوس کے ساتھ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "ہزاروی اور ان کے ساتھی مولانا عبد الحکیم نے تو 30 جون والی قرارداد پر دستخط تک نہیں کیے" اور جمعیت علماء اسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبد الحکیم بار بار کہنے کے باوجود یہ سعادت حاصل نہ کر سکے۔
میاں غلام ابراہیم برق اور جمعیت علمائے پاکستان کے حوالے سے مولانا نورانی اس زمانے کی صورتحال کو یوں بیان کرتے ہیں "جمعیت علماء پاکستان کے 1970ء کے انتخابات میں کل 8 ممبر منتخب ہوئے، مولانا شفیع اوکاڑوی (جو جماعت اسلامی کے رکن محمود اعظم فاروقی کی الیکشن پٹیشن کی وجہ سے اپنی نشست کھو بیٹھے) 8 ویں رکن تھے، الیکشن پٹیشن کی کامیابی کی وجہ سے 7 ممبران رہ گئے، تین حضرات پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے باقی چار رہ گئے۔"
یہ درست ہے کہ غلام ابراہیم برق نے جمعیت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی مگر یہ بات بھی تاریخ کے اوراق پر کندہ ہے کہ ممبر اسمبلی بننے کے بعد انہوں نے بھی غلام حیدر بھروانہ اور صاحبزادہ نذر سلطان کی طرح اپنی ہمدردیاں حکومتی جماعت سے وابستہ کرلیں جس کی وجہ سے جمعیت علماء پاکستان نے ان کی بنیادی رکنیت ہی معطل کر دی تھی اور یہ حضرات جمعیت علماء پاکستان کے رکن ہی نہ رہے لیکن جمعیت علماء پاکستان کا رکن نہ ہونے کے باوجود مولانا نورانی کے کہنے پر انہوں نے قرارداد پر اپنے تائیدی دستخط کر دیے تھے، اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی مولوی اللہ وسایا کا یہ لکھنا کہ اس جماعت (جمعیت علماء پاکستان) کے غلام ابراہیم برق نے ساتھیوں کے زور دینے کے باوجود قرارداد پر دستخط نہیں کیے۔ سراسر جھوٹ پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دلی بغض اور مسلکی تعصب کا واضح آئینہ دار ہے۔
جبکہ حقائق اور دیانت داری کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ اپنے ہم مسلک مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبد الحکیم کے قرارداد پر آخر تک دستخط نہ کرنے کا برملا اعتراف کر کے کھلے دل سے حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے یہ لکھتے کہ "جمعیت علماء اسلام کے مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولویعبد الحکیم نے ساتھیوں کے اسرار کے باوجود اس قرارداد پر دستخط نہیں کیے۔ مگر افسوس انہوں نے اس تلخ حقیقت کا اظہار کرنے کے بجائے غلام ابراہیم برق پر جھوٹا الزام لگا کر ایک نئی کہانی گھڑی اور اصل حقائق کو چھپانے اور تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی۔ جو ان کو زیب نہیں دیتا۔
اسی طرح مولوی اللہ وسایا اپنی کتاب "پارلیمنٹ میں قادیانی شکست" کے صفحہ 10 پر مولانا شاہ احمد نورانی کی پیش کردہ قرارداد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ "قائد اہل سنت مولانا شاہ احمد نورانی نے پرائیویٹ بل اسمبلی میں پیش کیا، جبکہ اس کتاب کے صفحہ 29 پر "حزب اختلاف کی تاریخی قرارداد" کی سرخی قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرارداد جو پیش کی تھی، اس کا متن درج ذیل ہے۔"
ایک ہی کتاب میں دو مختلف باتیں! پہلے مقام پر قائد اہلسنت مولانا شاہ احمد نورانی قرارداد پیش کرنے والے۔ جبکہ دوسرے مقام پر وہی قرارداد اپوزیشن کی قرارداد قرار پاتی ہے، عجب مخمصہ پیدا ہوتا ہے کہ قرارداد کس نے پیش کی مولانا شاہ احمد نورانی نے یا اپوزیشن نے؟ یا یہ کہ مولانا نورانی نے اپوزیشن کی جانب سے قرارداد پیش کی؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر قرارداد مولانا نورانی کی تیار کردہ نہیں تھی بلکہ حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی گئی تھی تو پھر یہ قرارداد اپوزیشن کی جانب سے قائد حزب اختلاف خان عبد الولی خان کو پیش کرنا چاہیے تھی، مولانا نورانی کو نہیں لیکن مولانا شاہ احمد نورانی کا اس قرارداد کو اسمبلی میں پیش کرنا ثابت کرتا ہے کہ مولانا نورانی ہی قرارداد کے اصل خالق اور محرک ہیں، آپ نے خود قرارداد تیار کی، اس پر ہم خیال اراکینِ اسمبلی کے تائیدی دستخط لیے اور 30 جون 1974ء کو منعقد ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس میں یہ "تاریخ ساز قرارداد" پیش کر دی۔
مزید حقائق جاننے کیلئے اس مقام پر مولانا شاہ احمد نورانی کا ماہنامہ "ضیائے حرم لاہور" کو دیا گیا ایک انٹرویو سامنے رکھتے ہیں، جس میں آپ فرماتے ہیں:
"اس سال اپریل میں، میں ورلڈ اسلامک کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گیا، ان دنوں مکہ معظمہ میں رابطہ عالم اسلامی کا اجلاس ہو رہا تھا، ورلڈ اسلامک مشن کانفرنس کی وجہ سے میں اس وقت مکہ معظمہ نہیں جاسکا، لندن سے فارغ ہو کر میں مکہ معظمہ حاضر ہوا، حاضری کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں سے رابطہ عالم اسلامی کی وہ قرارداد حاصل کروں جو انہوں نے قادیانیوں کے بارے میں متفقہ طور پر منظور کی تھی، 26 مئی کو یہ قرارداد لے کر پاکستان پہنچا تو قادیانیوں کا مسئلہ شروع ہو چکا تھا، ہم نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد کی روشنی میں قومی اسمبلی کیلئے اپنی قرارداد مرتب کی جس میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا مشورہ شامل تھا، یہی قرارداد ہم نے 30 جون کو اسمبلی میں پیش کی جس پر 37 ارکان کے دستخط تھے۔
مولانا نورانی کا 7 ستمبر 1974ء کو قرارداد کی منظوری کے تقریباً دو ماہ بعد ماہنامہ "ضیائے حرم لاہور" کو دیا گیا انٹرویو واضح کر رہا ہے کہ یہ قرارداد صرف اور صرف مولانا شاہ احمد نورانی کی محنت اور کوشش شاقہ کا نتیجہ تھی، آپ ہی اس قرارداد کے بنانے والے اور اصل محرک ہیں، آپ ہی نے قرارداد کی تیاری کے بعد اس پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے ہم خیال اراکین سے مشورہ کیا، تائیدی دستخط لیے اور 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی اجلاس میں پیش کر دیا۔ لیکن مولوی اللہ وسایا نے علمی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کریڈٹ مولانا نورانی کو دینا پسند نہیں کیا بلکہ "اپوزیشن کی قرارداد" کا لفظ استعمال کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قراردادا پوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔
اِس مقام پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ "محرک" کے معنی تحریک دینے والے، ابھارنے والے یا اکسانے والے کے ہوتے ہیں یعنی کسی کام کا تحرک پیدا کرنے یا تحریک دینے والے اور اس کام کیلئے ابھارنے اور اُکسانے والے کو محرک کہتے ہیں، مشاہدہ شاہد ہے کہ کسی کام کیلئے تحرک پیدا کرنے والا تحریک دینے والا اور ابھارنے یا اُکسانے والا ایک ہی فرد ہوتا ہے باقی لوگ جو اس کی حمایت کرتے ہیں، وہ تائید کرنے والے کہلاتے ہیں۔ اس لحاظ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرارداد کے اصل محرک مولانا شاہ احمد نورانی ہیں، قرارداد پر دستخط کر کے مولانا نورانی کے موقف کی حمایت کرنے والے باقی سب اراکین "مؤیدین" یعنی تائید کرنے والے مددگار ومعاون ہیں، اس لیے اصولی طور پر انہیں محرکین قرارداد قرار دینا درست نہیں ہے۔
ہمارے اس موقف کی تائید مولانا شاہ احمد نورانی کے روزنامہ "نوائے وقت" کو دیئے گئے اس انٹرویو سے بھی ہو جاتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
"1974ء کے بجٹ اجلاس کے فوراً بعد میں نے قادیانیوں کو کافر ومرتد قرار دینے کیلئے قرارداد پیش کی، اسمبلی کے اندر جو دیگر علماء کرام موجود تھے یعنی مفتی محمود، علامہ عبد المصطفیٰ الازہری صاحب، مولانا سید محمد علی رضوی صاحب، مولانا عبد الحق اور پروفیسر عبد الغفور احمد صاحب وغیرہم اس کے "موئیدین" میں تھے لیکن دو دیوبندی مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولوی عبد الحکیم اس قرارداد میں شریک نہیں ہوئے اور اپنے آپ کو اس سے الگ رکھا۔
اب رہا سوال یہ کہ مولانا شاہ احمد نورانی کی قرارداد حزب اختلاف کی قرارداد کیسے بنی؟ تو اس کا جواب بھی ہفت روزہ "احوال" کراچی کو دیے گئے مولانا کے انٹرویو سے مل جاتا ہے جس میں آپ بتاتے ہیں کہ "میں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تجویز پیش کی، اس پر دو ماہ بحث ہوئی، حزب اختلاف نے اسے متفقہ قرارداد بنا دیا۔ ہم نے یہ کام بھی کروالیا اگر چہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔"
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس مخصوص مکتبہ فکر کے تمام نام نہاد محقق اور اہل قلم اس اہم اور بنیادی نکتہ کو دانستاً گول کر جاتے ہیں کہ قرارداد کا اصل محرک کون ہے، آپ کو اس موضوع پر شائع شدہ کسی بھی کتاب میں اس سوال کا جواب نہیں ملے گا نہ ہی یہ لوگ قرارداد پر دستخط کرنے والوں کے ناموں کی درست ترتیب سامنے لاتے ہیں۔ آپ کو تحریک ختم نبوت جلد سوم صفحہ 467 سے لے کر "پارلیمنٹ میں قادیانی شکست" صفحہ 30، "قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا موقف" مرتبہ مفتی محمد تقی عثمانی ومولانا سمیع الحق ادارة المعارف کراچی صفحہ 29، تاریخی دستاویز مرتبہ مولانا عبد القیوم مہاجر مدنی کے صفحہ 538 اور پارلیمنٹ میں قادیانی مقدمہ از عبد الرحمن یعقوب باوا صفحہ 25 تک ایک ہی ترتیب ملے گی۔
سب نے اصل فہرست میں من مانی تحریف کے ذریعے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اور سب نے مولانا مفتی محمود کا نام سر فہرست (پہلے نمبر پر) اور مولانا شاہ احمد نورانی کا نام تیسرے نمبر پر لکھا ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی ریکارڈ کے مطابق مولانا شاہ احمد نورانی کا نام سر فہرست (پہلے نمبر پر) اور مولانا مفتی محمود کا نام دوسرے نمبر پر ہے۔ مزید بر آں، سب کے سب 22 ارکان کو قرارداد کا محرک قرار دیتے ہیں اور مولانا شاہ احمد نورانی جو کہ قرارداد کو تیار کرنے والے پیش کرنے والے اور اصل محرک ہیں اُن کو اس اعزاز سے محروم کرنے کی شعوری کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق 30 جون 1974ء بروز اتوار، اسٹیٹ بینک بلڈنگ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس وقفے کے بعد اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان کی زیر صدارت شروع ہوتا ہے، جس میں اسپیکر قومی اسمبلی مولانا نورانی کو قرارداد پیش کرنے کیلئے کہتے ہیں اور مولانا شاہ احمد نورانی اسپیکر کی اجازت سے درج ذیل قرارداد اسمبلی میں پیش کرتے ہیں۔
· ہر گاہ کہ یہ ایک مکمل مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ نیز ہر گاہ کہ نبی ہونے کا اس کا جھوٹا اعلان، بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں، اسلام کے بڑے بڑے احکام کے خلاف غداری تھی۔
· نیز ہر گاہ کہ وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا تھا۔
· نیز ہر گاہ کہ پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار چاہے وہ مرزا غلام احمد مذکور کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اسے اپنا مصلح یا مذہبی رہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں۔ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
· نیز ہر گاہ کہ اس کے پیروکار، چاہے انہیں کوئی بھی نام دیا جائے مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کر کے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
· نیز ہر گاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس میں جو کہ مکتہ المکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ العالم الاسلامی کے زیر انتظام 6 اور 10 اپریل 1974ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں دنیا بھر کے تمام حصوں سے ایک سو چالیس (140) مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی، متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے، جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعوی کرتی ہے۔ اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہیے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار انہیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو مؤثر بنانے کیلئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے جائز حقوق ومفادات کے تحفظ کیلئے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں۔"
مولانا شاہ احمد نورانی کی پیش کردہ اس تاریخی قرارداد کو متفقہ طور پر قومی اسمبلی پاکستان میں منظور کر لیا جاتا ہے اور قومی اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق اس قرارداد پر 22 اسمبلی ممبران کے دستخط مندرجہ ذیل ترتیب سے ہیں۔
1۔ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی
2۔ مولوی مفتی محمود
3۔ مولانا عبد المصطفیٰ الازہری
4۔ پروفیسر غفور احمد
5۔ مولانا سید محمد علی رضوی
6۔ مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک
7۔ چوہدری ظہور الہٰی
8۔ سردار شیر باز خان مزاری
9۔ مولانا ظفر احمد انصاری
10۔ مولانا صدر الشہيد
11۔ صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری
12۔ جناب محمود اعظم فاروقی
13۔ مولانا نعمت اللہ صاحب
14۔ جناب عمراخان
15۔ جناب غلام فاروق
16۔ سردار مولا بخش سومرو
17۔ جناب رئیس عطا محمد مری
18۔ مخدوم نور محمد ہاشمی
19۔ سردار شوکت حیات خان
20۔ جناب میر علی احمد تالپور
21۔ جناب عبد الحمید جتوئی
22۔ راؤ خورشید علی خان
ذیل میں ہم قومی اسمبلی ریکارڈ سے مولانا شاہ احمد نورانی کی 30 جون 1974ء کی اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد اور قرارداد پر دستخط کرنے والوں کے ناموں کی اصل فہرست کا عکس ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اس عکسی ریکارڈ سے واضح ہو رہا ہے کہ یہ "محققین" کس طرح اصل حقائق مسخ کر کے اپنے مکتبہ فکر کے افراد کو اس قرارداد کا سرخیل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہمارے اس دعویٰ کی تائید مولانا عبد القیوم مہاجر مدنی کی مرتب کردہ کتاب "تاریخی دستاویز" کے اس اقتباس سے بھی ہوتی ہے، جس میں بڑی مہارت سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
مولانا عبد القیوم مہاجر مدنی لکھتے ہیں:
"اللہ رب العزت کا فضل واحسان کے بموجب 1970ء میں جمعیت علمائے اسلام کی مثالی جدوجہد سے مفکر اسلام مولانا مفتی محمود، شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی، شیخ الحدیث مولانا عبد الحق، مولانا عبد الحکیم، مولانا صدر الشہید اور دیگر حضرات قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، جناب ذو الفقار علی بھٹو مرحوم برسر اقتدار آئے، قادیانیوں نے 1970ء میں پیپلز پارٹی کی دامے، درمے اور افرادی مدد کی، قادیانیوں نے پھر پر پرزے نکالے، 29 مئی 1974ء کو چناب نگر (ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا، اس کے نتیجے میں تحریک چلی، اسلامیان پاکستان ایک پلیٹ فارم مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان پر جمع ہوئے، جس کی قیادت دیوبند کے مرد جلیل محدث کبیر مولانا سید محمد یوسف بنوری نے فرمائی اور قومی اسمبلی میں امت مسلمہ کی نمائندگی کا شرف حق تعالیٰ نے دیوبند کے عظیم سپوت مفکر اسلام مولانا مفتی محمود کو بخشا، یوں قادیانی قانونی طور پر اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔
اسی طرح عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا ترجمان ماہنامہ "لولاک" ملتان ستمبر 2013ء کے شمارے میں لکھتا ہے: "پارلیمانی محاذ پر دشمنان ختم نبوت کی شکست مفتی صاحب کی بے پناہ علمی، سیاسی اور فکری کوششوں کا نتیجہ تھی۔" عوامی تحریک کے نتیجے میں مسئلہ اسمبلی پہنچا تو اسمبلی میں علماء کی طرف سے کیس میں مکمل اور کامیاب نمائندگی حضرت مولانا مفتی صاحب مرحوم نے فرمائی، پارلیمنٹ میں مرزا ناصر کی تقریر پر جرح کرتے ہوئے دلائل وبراہین سے اس جھوٹ کو بے نقاب کیا اور چند منٹوں میں اسمبلی ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ بالآخر حکومت وقت کو مفتی صاحب کے دلائل کے سامنے جھکنا پڑا اور فیصلہ ہو گیا کہ مرزا غلام احمد اور اس کے پیروکاروں کا مسلم برادری سے کوئی تعلق نہیں۔
ملاحظہ کیا آپ نے کہ ان اقتباسات میں کس ڈھٹائی سے حقائق مسخ کرتے ہوئے مولانا مفتی محمود کو قومی اسمبلی میں امت مسلمہ کی نمائندگی کا اعزاز بخشا جارہا ہے اور انہیں 1974ء کی تحریک ختم نبوت کا فاتح قرار دیا جارہا ہے، جبکہ مولوی غلام غوث ہزاروی اور مولانا عبد الحکیم جنہوں نے اپنے ساتھیوں کی کوششوں کے باوجود قرارداد کی تائید کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا تھا، کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔
قارئین محترم! اس مکتبہ فکر کیلئے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، ان کی ساری تاریخ ہی اس قسم کے جھوٹ اور فریب کاری سے رقم ہے۔۔ یہ لوگ تحریک ختم نبوت 1974ء کی عظیم الشان کامیابی کا تمام تر کریڈٹ اور سہرا مولانا یوسف بنوری، مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی کی مرتب کردہ قرارداد پر دستخط نہ کرنے والے مولوی عبد الحکیم اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے سر باندھنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی خود 7 ستمبر 1974ء کی قرارداد کی منظوری کے فیصلے کا کریڈٹ بھٹو حکومت کو دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں کہتے ہیں۔
"مرزائیت کے بارے میں پہلی حکومتوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کیا تھا۔ یہ حکومت اور ایوان قابل مبارک باد ہے کہ اس نے لاہوری اور قادیانیوں دونوں کو غیر مسلم شہری قرار دے دیا ہے۔
کتنی تعجب خیز بات ہے کہ پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے والے مولانا غلام غوث ہزاروی خود ان حکومتوں میں ممبر اسمبلی رہے ہیں، اگر پچھلی حکومتوں نے فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کی کوئی کوشش نہیں کی تو اس اسمبلی میں موجود ان علماء کا فرض منصبی بنتا تھا کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے مگر افسوس ایسا نہیں ہوا اور اس کوتاہی میں یہ مبارک باد دینے والے بھی برابر کے شریک رہے۔
اپنے اکابرین کو تحریک کا سرخیل ثابت کرنے کی کوشش میں یہ نام نہاد محققین بڑی دور کی کوڑیاں لاتے ہیں، اخبارات کے صفحات کے صفحات سیاہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک ختم نبوت 1974ء کی کامیابی ان متذکرہ افراد کی کوششوں اور کاوشوں کی مرہون منت ہے جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے۔
محرک قرارداد مولانا شاہ احمد نورانی ان ابن الوقت لوگوں کی فطرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "در اصل یہ خوشامدیوں کا ٹولہ ہے جو اپنے مادی مفادات کی خاطر ہر دور میں چڑھتے سورج کی پوجا کرتا ہے، ان کی ساری سوچ اس لیے وقف ہوتی ہے کہ کب اور کس طرح انہیں کوئی موقع ملے اور یہ دم ہلاتے ہوئے اور زبان چاٹتے ہوئے خوشامد کیلئے پہنچ جائیں تاکہ سرکاری نظر کرم ہو جائے۔ ایسے لوگوں کو نہ اپنی عزت کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے دین وایمان کی۔ ایسے لوگوں کو تو سمجھانے کی کوشش کرنا عبث ہے۔
البتہ عوام کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے عرض ہے کہ بھٹو صاحب کے سر کوئی سہرا جاتا ہے تو وہ یہ کہ ان کی حکومت کے کارندوں نے تحریک کے دوران 50 کے قریب مسلمانوں کو شہید کر دیا، نائبین رسول یعنی علماء کرام کو منبر رسول ﷺ سے اتار کر جیلوں میں بھر دیا، ہزاروں مجاہدین ختم نبوت کو جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ لاکھوں جھوٹے مقدمات قائم کیے، دفعہ 144 کے ذریعے گلی کوچوں شاہراہوں حتیٰ کہ مساجد میں ذکر رسول ﷺ پر پابندی لگائی مستقبل میں قوم کے معمار یعنی طلباء پر ہر طرح کا علم وتشدد روا رکھا اور ان تمام ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے بعد جب دیکھا کہ مسلمانوں کے قلوب میں عشق مصطفیٰ کی جو شمع ہے اُسے بجھایا نہیں جاسکتا تو پھر مسلمانوں کے سرفروشانہ جذبے کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔
ظاہر ہے یہ تمام سختیاں اس لیے کی گئیں کہ مسلمان عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک سے دست بردار ہو جائیں لیکن خوشامدی ٹولہ یہی کہتا پھرتا ہے کہ تاریخ میں حکومت کا نام سنہری لفظوں سے لکھا جائے گا۔ ہمارے نزدیک تو کامیابی اس میں ہے کہ ہمارا نام غلامان مصطفیٰ کی فہرست میں لکھا جائے اگر بھٹو صاحب قادیانی مسئلے کو حل کرنا ہی چاہتے تھے تو انہوں نے اس قدر مظالم کو کیوں روا رکھا، بہر حال تحریک کے شب وروز بتاتے ہیں کہ حکومت نے یہ مسئلہ بخوشی حل نہیں کیا بلکہ اس سے منوایا گیا ہے۔
دسمبر 1974ء میں ماہنامہ "ضیائے حرم" کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا شاہ احمد نورانی مزید فرماتے ہیں کہ "رہا کریڈٹ کا معاملہ تو وہ سراسر عوام کو جاتا ہے اور بالخصوص علماء اور طلباء کو جنہوں نے تند وتیز ہوا میں بھی ختم نبوت کا دیا بجھنے نہیں دیا۔ جو لوگ اب قادیانی فیصلے کا کریڈٹ بھٹو صاحب کو دے رہے ہیں وہ پاکستان بنانے کا کریڈٹ غالباً ماؤنٹ بیٹن کو دیتے ہونگے، کیونکہ ماؤنٹ بیٹن بھی کہا کرتا تھا کہ پاکستان میرے دستخطوں سے وجود میں آیا ہے۔"
قرارداد پر دستخط تک نہ کرنے والے مولوی غلام غوث ہزاروی مسلکی تعصب کی بنا پر جس حکومت کو اس کی تاریخی کامیابی کا کریڈٹ دے رہے ہیں آئیے دیکھیں تحریک ختم نبوت کے دوران اس حکومت کا کردار کیا رہا؟ حکومت نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے مطالبہ کرنے والوں پر گولیاں چلائیں، ہزاروں علماء کرام کو جیلوں میں بند کیا، قومی اسمبلی کے اندر آنسو گیس کے شیل پھینکے، اخبارات میں ختم نبوت کا لفظ لکھنے پر پابندی لگائی، ہر شہر میں دفعہ 144 نافذ کی تاکہ عوام ختم نبوت سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار نہ کرسکیں، مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی تاکہ وہاں بھی کوئی جلسہ وغیرہ نہ ہو سکے (یہاں تک کہ) تحریک ختم نبوت کی حمایت کرنے والے اخبارات کے ڈیکلریشن تک منسوخ کر دیئے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے تو ان مظالم کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ اصل میں اس قسم کی باتیں اب خوشامدیوں کی طرف سے کہی جارہی ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں۔ اس پوری تحریک میں پیپلز پارٹی نے من حیث الجماعت کوئی حصہ نہیں لیا حتیٰ کہ (جن) صوبوں میں ان کی اکثریت ہے، وہاں بھی اسمبلیوں میں وہ کوئی قرارداد پاس نہیں کراسکے۔
اس مقام پر جناب ظہور الحسن بھوپالی شہید کے اس خوبصورت تبصرہ سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا: "اب بھی اگر کوئی سرکاری درباری یہ کہتا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا سہرا ذو الفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے اور جو دوسرے لوگ اس جدوجہد کا سہرا (اپنے سر) لینا چاہتے ہیں تو ان کی مثال ایک ایسے قاضی کی ہے جو کسی جگہ خوبصورت لڑکا پیدا ہونے پر پہنچ جائے کہ نکاح میں نے پڑھایا سہرا میرے سر جاتا ہے تو پھر ہم ایسے شخص کی عقل ضمیر اور علم کا ماتم کرنے کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔"
"الحمد للہ پاکستان میں یہ معجزہ خاتم الانبیا کا اور ہم عاجز وناکار غلامان مصطفیٰ کی مساعی اور پوری ملت اسلامیہ پاکستان کی تائید وحمایت اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام مکاتب فکر کے علماء کی مجھ پر جدوجہد کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا اور 7 ستمبر 1974ء کو کافر ومرتد قرار دینے کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔ اس مہم میں علماء اراکین کے علاوہ بعض دیگر اراکین مثلاً موجودہ معطل اسمبلی کے اسپیکر جناب الہٰی بخش سومرو کے والد حاجی مولا بخش سومرو کا کردار بڑا موثر اور مجاہدانہ تھا۔"
مولانا نورانی مزید فرماتے ہیں کہ ہم نے علماء دیوبند سے درخواست کی کہ وہ قادیانیوں کے مسئلے پر ہمارا ساتھ دیں، چنانچہ آپ کی کوششوں سے "9 جون 1974ء کو اٹھارہ مذہبی جماعتوں کا ایک مشترکہ کنونشن مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں منعقد ہوا۔ جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت کی اور قادیانیوں کے خلاف تحریک کو منظم وفعال بنانے کیلئے "آل پاکستان مجلس عمل تحفظ ختم نبوت" کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دے کر آئندہ کیلئے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔"
روزنامہ جنگ کے نمائندے سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا نورانی فرماتے ہیں کہ: "1974ء میں ہم نے ایک میٹنگ بلائی شیرانوالہ گیٹ میں ختم نبوت کانفرس منعقد ہوئی، اس میں مولانا یوسف بنوری صدر تھے اور علامہ سید محمود احمد رضوی جنرل سیکرٹری تھے۔ دونوں نے مشترکہ طور پر (عوامی) تحریک چلائی جبکہ قومی اسمبلی میں ہم جنگ لڑتے رہے۔"
مولانا نورانی مزید بتاتے ہیں کہ:
"ہم نے تحریک کو دو محاذوں پر منظم کیا۔ ایک پارلیمنٹ کے اندر اور دوسرا پارلیمنٹ سے باہر، بیرونی محاذ پر کام کرنے کیلئے تمام مکاتب فکر کے اتفاق رائے اور اجتماع سے مجلس عمل تحفظ ختم نبوت تشکیل دی گئی۔ جس نے ملک بھر میں مسلمانوں کو ایسا منظم کیا اور ایسی فضا پیدا ہوئی کہ حکومت کیلئے اس مسئلے کو نظر انداز کرنا ممکن نہ رہا۔"
امر واقعہ یہ ہے کہ تحریک ختم نبوت 1974ء کے دوران مولانا نورانی نے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کو ایک پلیٹ فارم "آل پاکستان مجلس عمل تحفظ ختم نبوت" پر متحد کیا، اور تحریک شروع ہوتے ہی آپ نے پنجاب کا دورہ شروع کر دیا، ان دوروں کے دوران آپ نے کم وبیش چالیس ہزار میل کا سفر طے کیا، آپ نے کم وبیش ڈیرھ سو سے زائد شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں عظیم الشان عوامی جلسوں اور تحفظ ختم نبوت کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو قادیانیوں کی فتنہ پردازیوں اور شرانگیزیوں سے آگاہ کر کے انہیں ناموس مصطفیٰ ﷺ کے تحفظ کیلئے کمر بستہ کیا۔
اس دور کے اخبارات وجرائد شاہد ہیں کہ مولانا شاہ احمد نورانی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کیلئے کس قدر مصروف رہے۔ آپ نے 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے سے 7 ستمبر 1974ء کو قرارداد کی منظوری تک قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقائدگی سے شرکت کی، اس کے علاوہ عوامی سطح پر تحریک کو منظم وفعال بنانے کیلئے مجلس عمل کے پروگراموں میں شرکت کے ساتھ ساتھ آپ نے ملک بھر کے مختلف علاقوں کے مسلسل طوفانی دورے بھی کیے اور نہایت جانفشانی سے کام کیا۔
اسمبلی کے اجلاسوں میں آپ قادیانیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرتے، اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لیتے اور حکومتی اراکین کو اسلام میں مسئلہ ختم نبوت کی شرعی اہمیت وحیثیت سے روشناس کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں قادیانیوں کی ملک دشمن سرگرمیوں، ریشہ دوانیوں اور سامراجی عزائم سے بھی آگاہ کرتے رہے۔
آپ خود فرماتے ہیں کہ:
"دوسرا کام ہم نے یہ کیا کہ قادیانیت سے متعلقہ جس قدر لٹریچر بھی دستیاب ہو سکا، وہ ہم نے اسمبلی کے ممبروں میں تقسیم کیا۔ اس کے علاوہ ہم نے ممبروں سے ذاتی رابطے بھی کیے اور ختم نبوت کے مسئلے پر انہیں آگاہ کیا۔ اسمبلی میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو امت کے اس متفقہ مسئلے کے بارے میں مداہنت سے کام لیتے ہوں لیکن جن لوگوں کے بارے میں ہمیں یقین تھا کہ وہ قادیانی لابی سے متاثر ہیں یا ربوہ کے زیر اثر ہیں، ان سے ہم نے رابطہ قائم نہیں کیا۔ کوشش یہی کی کہ جن کا تعلق مرزائیت سے نہیں ہے اُن کو ختم نبوت کی اہمیت سمجھا دی جائے۔ قادیانی بھی اس دوران اپنا کام کرتے رہے اور مسلمان ممبروں کے ذہن میں شکوک وشبہات پیدا کرتے رہے۔ چنانچہ ایک رکن اسمبلی نے مجھ سے کہا کہ مرزا ناصر کہتا ہے کہ جب کوئی مسلمان فنا فی الرسول کے جذبے سے سرشار ہو کر مقام صدیقیت پر فائز ہو جاتا ہے تو اس کیلئے نبوت کی کھڑکی کھل جاتی ہے۔ میں نے یہ بات سن کر اس ممبر سے کہا کہ مرزا ناصر کا یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ جب کوئی مسلمان مسلسل عبادت سے فنا فی اللہ کا درجہ حاصل کرلے تو اُس کیلئے الوہیت کی کھڑکی کھل جاتی ہے۔ یہ جواب اس کی سمجھ میں آگیا۔"
حاجی حنیف طیب اور احمد میاں برکاتی کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا شاہ احمد نورانی فرماتے ہیں کہ:
"اول تو پنجاب کے غیور مسلمانوں کا دباؤ اتنا تھا کہ جس کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، دوسرا یہ کہ ان اراکین اسمبلی کے حلقہ انتخاب کے لوگوں کا بھی خاصا دباؤ تھا اور سب سے بڑھ کہ یہ کہ اسمبلی میں علماء موجود تھے جو ان اراکین اسمبلی کو مسئلہ ختم نبوت کی شرعی اہمیت سے آگاہ کرتے رہتے تھے اور مرزا ناصر کی طرف سے شبہات پیدا کرنے کی کوششوں پر پانی پھیر دیتے تھے۔ خود پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو پہلی مرتبہ کھل کر اعتراف کرنا پڑا کہ اگر اسمبلی میں علماء حق موجود نہ ہوتے تو یہ مسئلہ حل کرنے میں بڑی دشواری پیش آتی۔"
قومی اسمبلی میں جن سیاسی جماعتوں نے مولانا شاہ احمد نورانی کی رہنمائی میں اس تحریک میں حصہ لیا، ان میں نیشنل عوامی پارٹی، مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام (مفتی محمود گروپ)، خاکسار پارٹی اور جماعت اسلامی شامل تھیں، ان مختلف الخیال جماعتوں کو ایک مرکز پر متحد کرنا مولانا شاہ احمد نورانی کا ہی کارنامہ تھا، آپ نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کے رکن ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی اور قومی اسمبلی میں بحث کے دوران آپ کے علاوہ مولانا عبد المصطفیٰ الازہری، مولانا محمد علی رضوی اور دیگر ارکان جمعیت نے بھی بھر پور حصہ لیا۔
آج کم وبیش 38 سال بعد سامنے آنے والا قومی اسمبلی کا خفیہ ریکارڈ (جسے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 30 سال تک خفیہ رکھا جاسکتا ہے، چنانچہ 38 سال بعد سابقہ اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اسمبلی کی اس خفیہ کارروائی کو اوپن کرنے کی منظوری دے دی) اب قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے۔
حال ہی میں قومی اسمبلی کی اس اِن کیمرہ اجلاس کی کارروائی کو مولوی اللہ وسایا نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کے زیر انتظام "قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ" کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع کیا ہے مگر ان پانچ جلدوں میں 30 جون 1974ء کے اس اہم اجلاس، جس میں مولانا شاہ احمد نورانی نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد پیش کی، جو اس تمام کارروائی کی بنیادی اساس ہے اور جس کی بنیاد پر یہ خفیہ اجلاسات منعقد ہوئے، سے جان بوجھ کر اس لیے صرف نظر کیا ہے کہ اس کے شائع کر دینے سے اس تحریک کے اصل محرک کا نام سامنے آجاتا تھا۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ 30 جون 1974ء کے اس اہم اجلاس کی کارروائی کے بغیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا پانچ جلدوں میں قادیانی مسئلہ سے متعلق 1974ء کی قومی اسمبلی کی کارروائی کو شائع کرنا بالکل ایسا ہی جیسے بغیر بنیاد کے عمارت کی تعمیر۔ جب تک اصل بنیاد واساس اور محرک سامنے نہ ہو اس وقت تک اس تمام کارروائی کا مقصد ومدعا واضح نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت وحیثیت متعین ہوتی ہے۔
قارئین محترم! یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ قومی اسمبلی کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ مولانا نورانی قومی اسمبلی میں چیئرمین کی توجہ گواہ (مرزا ناصر) کی دروغ گوئی، تضاد بیانی اور غیر ضروری حوالہ جات وجوابات میں قیمتی وقت کے ضیاع کی طرف مسلسل دلاتے رہے۔ ساتھ ہی آپ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ذریت کے کفر وارتداد کو قوم کے سامنے لانے کیلئے اٹارنی جنرل کی بھی بھر پور مدد کرتے رہے۔
"آپ نے قومی اسمبلی میں قادیانیت کو اپنی اصل شکل وصورت اور سامراجی خدوخال کے ساتھ نمایاں کرنے کیلئے اٹارنی جنرل یحیٰ بختیار کو قادیانیوں کے عقائد، ملک دشمن سرگرمیوں اور یہودیوں سے اُن کے تعلقات کے بارے میں اہم ثبوت، نکات اور سوالات کی تیاری میں مدد دی اور آپ نے مرزا ناصر قادیانی اور صدر الدین لاہوری کے محضر نامے کے جواب میں علامہ عبد المصطفیٰ الازہری، مولانا سید محمد علی رضوی اور مولانا ذاکر کے ساتھ مل کر 75 سوالات پر مشتمل ایک سوال نامہ بھی مرتب کیا۔"
ان حقائق کی روشنی میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک ختم نبوت 1974ء کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں اصل کردار علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے ادا کیا، آپ نے جس فہم وفراست اور حسن تدبر سے اس تحریک کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عوامی سطح پر منظم کیا اور پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی سمیت تمام اراکین قومی اسمبلی اور ملک کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی قرارداد کے حق میں قائل کیا، وہ صرف اور صرف آپ کا ہی کارنامہ ہے اور یہ اعزاز بھی آپ ہی کو جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھوں اس نوے سالہ فتنے کا اختتام ہوا اور تحریک ختم نبوت اپنے منطقی انجام تک پہنچی۔
مولانا نورانی تحدیث نعمت کے طور پر فرماتے ہیں؟ "اگر چہ پاکستان کی پچھلی اسمبلیوں میں بھی علماء ارکان (موجود) تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت مجھے نصیب فرمائی اور مجھے کامل یقین ہے کہ بارگاہ شفیع المذنبینا میں میرے لیے یہی سب سے بڑا وسیلہ شفاعت ونجات ہوگا۔"
قارئین محترم! یہی اصل حقیقت ہے کہ یہ اعزاز مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کو حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کا ریکارڈ شاہد ہے کہ تحریک ارتداد قادیانیت کے محرک صرف اور صرف مولانا شاہ احمد نورانی ہیں، مولانا نورانی عصر حاضر میں عاشقان مصطفیٰ کے سردار اور تحریک ختم نبوت کے سرگرم مجاہد وقافلہ سالار ہیں اور رب کریم نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے آپ کو منتخب فرمایا۔
قارئین محترم! یہ وہ تاریخی سچائی ہے، جسے مخالفین نے خضاب لگا کر جھوٹ کے پردوں میں چھپانے کی پوری کوشش کی اور اس کا سہرا اپنے لوگوں کے سر باندھا، چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مخالفین کی جانب سے ڈالے گئے جھوٹ اور مکر وفریب کے دبیز پردوں کو ہٹا کر تاریخی حقیقت کو سامنے لایا جائے اور نئی نسل کے اذہان میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کو دور کر کے انہیں بتایا جائے کہ سچ وہ نہیں جو بیان کیا گیا بلکہ وہ ہے جو چھپایا جارہا ہے۔
قرار داد ختم نبوت کا اصل محرک کون از محمد احمد ترازی