logoختم نبوت

نقش خاتم ۔۔۔از۔۔۔ علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ

عقیدہ ختم نبوت عقلی، تاریخی اور مذہبی دلائل کی روشنی میں

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى خَاتَمِ النَّبِيِّنَ وَعَلَى آلِهِ وَ أَصْحَابِهِ وَ حِزْبِهِ أَجْمَعِينَ

اپنے گردو پیش پر اگر آپ گہری نظر ڈالیں تو ہر پیکر وجود کی تین حالتیں آپ کو ملیں گی۔ ابتدا ارتقاء اور اختتام کیا انسان کیا حیوان کیا نباتات کیا جمادات۔ ہر شے ان ہی تین حالتوں میں محصور نظر آئے گی۔

انسان پیدا ہوتا ہے۔ جوان ہوتا ہے۔ مر جاتا ہے۔ کلی مسکراتی ہے۔ پھول بنتی ہے مرجھا جاتی ہے۔ چاند پہلے دن ہلال کی شکل میں طلوع ہوتا ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے ماہِ کامل بنتا ہے اس کے بعد غائب ہو جاتا ہے۔ غرض کا ئنات کی جس شے کو دیکھئے ابتدا ارتقاء اور اختتام کے مرحلوں سے گزرتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہاں تک کہ ایک دن یہ دنیا ہی اپنی بے شمار نیرنگیوں کے ساتھ اختتام کو پہنچ جائے گی۔ پھر جب صورت حال یہ ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ نبوت جو ایک بار آگئی اب اس کا سلسلہ کسی ذات پر ختم نہیں ہو گا ؟

پھر آخر اتنا تو سب ہی مانتے ہیں کہ ابتداء اس کرہ ارض پر کچھ نہ تھا۔ خواہ نہ ہونے کے اسباب کچھ بھی ہوں، تو جب ابتداء ایک چیز کسی وجہ سے نہیں تھی تو اب اس وجہ کے دوبارہ پیدا ہونے اور آبادی کے معدوم ہو جانے کے خلاف کون سی دلیل قائم کی جاسکتی ہے۔

لہذا یہ تسلیم کرنے میں اب کوئی امر مانع نہیں ہے کہ جس طرح اول آبادی نہیں تھی ، آخر میں بھی نہ ہو اور ایسا ہونے سے قبل جو نبوت ہو گی وہ یقیناً آخری نبوت ہو گی۔

اسی مفہوم کو سر کار ارض و سما ، صاحب لولاک ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ظاہر فرمایا ہے کہ: اَنَا و السَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ میری ان دو انگلیوں کے درمیان جس طرح کوئی فصل نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہے۔ میری نبوت بالکل آخری نبوت ہے۔

یہ بات جملہ معترضہ کے طور پر بحث کے درمیان نکل آئی ورنہ سلسلہ کلام یہ چل رہا تھا کہ جس طرح ہر چیز اپنے نقطہ ارتقاء پر پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے اسی طرح سلسلۂ نبوت بھی اگر اپنے نقطہ ارتقاء پر پہنچ کر ختم ہو جائے تو کون سی چیز مانع ہے ؟ اب رہا سوال اس کے نقطہ ارتقاء پر پہنچنے کا ! تو اس باب میں دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا یہ کہ نبوت نقطہ ارتقاء پر پہنچ گئی یا نہیں پہنچی۔ اگر پہنچ گئی تو سمجھ لیجیے کہ اختتام واقع ہو گیا۔ کیونکہ قانون فطرت کے مطابق ارتقاء کی آخری منزل اختتام ہی ہے۔

اور اگر نہیں پہنچی تو نئی نبوت کا انتظار کرنے والے انتظار کر یں لیکن پہلے اتنا بتادیں کہ کسی بھی متفقہ نبوت سے لے کر آج تک جس پر مسلم عقیدے کے مطابق چودہ سو سال عیسائی عقیدے کے مطابق دو ہزار برس اور یہودی عقیدے کے مطابق اس کے قریب یا اس سے زیادہ کی جو بارت گزر چکی ہے۔ تو اس مدت میں کوئی نیا نبی کیوں نہیں آیا ؟ کیا اس کا کھلا ہوا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھیجنے والے ہی نے دروازہ بند کر دیا۔

متفقہ نبوت سے میری مراد ایسا نبی ہے جو اپنے ملک و قوم کے علاوہ اپنی پیغمبرانہ عظمت کی تصدیق دیگر اہل مذاہب کے افراد سے بھی کراچکا ہو۔ جیسے ہمارے آقار سالت مآب ﷺ کہ جہاں مسلمانوں کے سب ہی فرقے آپ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں، وہاں دوسری اقوام کے لوگ بھی آپ کی پیغمبرانہ زندگی کی عظمت و اعجاز کے قائل ہیں۔ جیسا کہ اقوام و ممالک کی تاریخ جاننے والوں سے یہ بات مخفی نہیں ہے۔

اس سلسلے میں ایک اور سوال قابل غور ہے کہ نبوت کس پر ختم ہوئی یا ہو گی اس کے جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس کیا ہے ؟ تو اس سلسلے میں عرض کروں گا کہ جو نبوت کا مدعی ہے وہی بتائے گا کہ وہ آخری نبی ہے یا اور کوئی نبی اس کے بعد آرہا ہے۔ جیسا کہ انبیائے ما سبق کی تاریخ میں ہمیں ملتا ہے کہ ہر نبی نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت اس امر کی نشان دہی فرمائی کہ ایک نبی ہمارے بعد آرہا ہے۔ چونکہ نبوت کا تعلق ایمانیات سے ہے اس لیے اس اہم اور بنیادی سوال کو تشنہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔

پس صف انبیاء میں اگر کوئی نبی یہ کہتا ہوا مل جائے کہ وہ آخری نبی ہے تو سمجھ لیجئے کہ نبوت کا سلسلہ اس پر تمام ہو گیا اس کے اس اعلان میں اب کسی کی تاویل یا حجت کی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ کسی کے قول میں تاویل کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب وہ اصول فطرت اور مسلمات عقل کے خلاف ہو۔ لیکن اگر وہ بات خود تقاضائے قانون قدرت کے مطابق ہے تو اس میں زحمت تاویل کی ضرورت ہی کیا ہے اس لیے وہ بات ٹھیک اسی طور پر سمجھی جائے گی جس پر وہ اپنے الفاظ و عبارت سے ظاہر ہے۔

اب آئیے ان احادیث کی ہم آپ کو سیر کرائیں جن میں نہایت صراحت کے ساتھ سرور کونین، نبی عربی ﷺ نے اس امر کا اعلان فرمایا ہے کہ وہ آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

پہلی حدیث:

حضرت جبیر ابن معظم رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور سید العالمین محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :

إِنَّ لِي أَسْمَاءََ أَنَا مُحَمَّدٌ أَنَا أَحْمَدُ وَ أَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُوا اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ وَ أَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسَ عَلَى قَدَمِي وَ أَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ 1
میرے بہت سے نام ہیں۔ میں محمد ہوں میں احمد ہوں میں ماحی ہوں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹاتا ہے۔ میں حاشر ہوں کہ قیامت کے دن لوگوں کا حشر میرے قدموں پر ہوگا۔ میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔

فائدہ :

اس حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے اپنا ایک نام عاقب بھی بتایا اور عاقب کی خود تفسیر فرمائی کہ عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ اب یہ حدیث اس مفہوم میں صریح ہو گئی کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

دوسری حدیث:

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

أَنَا مُحَمَّدٌ وَاحْمَدٌ وَ الْمُقَنِّى وَ الْحَاشِرُ وَ نَبِيُّ التَّوْبَةِ وَ نَبِيُّ الرَّحْمَةِ 2
میں محمد ہوں اور احمد ہوں، آخری نبی ہوں، میں حاشر ہوں۔ میں نبی تو بہ اور نبی رحمت ہوں۔

فائدہ :

اس حدیث میں حضور نبی پاک ﷺ نے اپنا ایک نام المقفی کے معنی ہیں آخر میں آنے والا۔ جب کہ امام نووی نے شرح مسلم شریف میں ، علامہ مناوی نے شرح کبیر میں،ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اشعت اللمعات میں " مقفی کے معنی آخر انبیاء لکھا ہے۔

تیسری حدیث:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور شافع یوم النشور نے ارشاد فرمایا کہ ۔

فُضِّلْتُ عَلَى الأَنْبِيَاءِ بِستِِ أُعْطِيتُ جَوَامِعُ الْكَلِمُ وَ نُصِِرْتُ بِالرُّعْبِ وَ أُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَهُورًا وَ أُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِي النَّبِيُّونَ 3
مجھے دیگر انبیاء اور سل پر چھ چیزوں کے ذریعہ فضیلت و برتری دی گئی پہلی چیز تو یہ کہ مجھے کلمات جامعہ کی صفت عطا ہوئی دوسری چیز یہ کہ رعب و دبدبہ کے ذریعہ میری نصرت کی گئی۔ تیسری چیز یہ کہ اموال غنیمت میرے لیے حلال کیے گئے۔ چوتھی چیز یہ کہ تمام روئے زمین میرے لیے مسجد اور طاہر و مظہر بنائی گئی۔ پانچویں چیز یہ کہ مجھے تمام جہاں کے لیے رسول بنایا گیا اور چھٹی چیز یہ کہ میری ذات پر نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم کیا گیا۔

چوتھی حدیث:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر سید عالم نے ارشاد فرمایا کہ :

مَثَلِى وَ مَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمَثَلِ قَصْرٍ اُحْسِِنَ بُنْيَانَهُ وَ تُرِكَ مِنْهُ مَوْضَعُ لَبْنَةٍ فَطَافَ بِهِ النُّظَّارُ يَتَعَجَّبُونَ مِنْ حُسْنِ بُنْيَانِهِ إِلَّا مَوْضَعُ تِلْكَ اللَّبْنَةُ فَكُنْتُ أَنَا سَدَدْتُّ مَوْضِعُ اللَّبْنَةِ خُتِمَ بِي . الْبُنْيَانُ وَ خُتِمَ بِيَ الرُّسُلُ 4
میری مثال اور دیگر انبیاء کی مثال اس ایوان کی طرح ہے جس کی تعمیر بہت اچھی کی گئی لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی گئی لوگ اس عمارت کی خوبی دیکھ کر تعجب کرتے ہیں سوا اس عیب کے کہ عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے۔ تو میں نے آکر اس ایک اینٹ کی خالی جگہ کو پرکر دیا۔ وہ ایوان بھی میرے ذریعہ اتمام کو پہنچا اور رسولوں کی آمد کا سلسلہ بھی میرے اوپر اتمام کیا گیا۔
وَ فِي رِوَايَةٍ فَأَنَا تِلْكَ اللَّبْنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ 5
اور ایک روایت میں آیا ہے کہ وہ آخری اینٹ میں ہوں اور میں نبیوں کا خاتم ہوں۔

پانچویں حدیث:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور انور ﷺ نے شفاعت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ شفاعت کا سوال لے کر سارے انبیاء کے پاس جائیں گے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو وہ ارشاد فرمائیں گے کہ آج شفاعت کا تاج محبوب کبریا، محمد مصطفی ﷺ کے فرق انور پر چمک رہا ہے۔ تم لوگ ان ہی کے پاس جاؤ حضور نبی پاک ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر لوگ میرے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے۔

يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ
اے محمد ﷺ آپ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔

چھٹی حدیث:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :

كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تُسَوِّسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي 6
بنی اسرائیل کے انبیاء سیاست مدن کے بھی فرائض انجام دیتے تھے۔ جب ایک نبی دنیا سے تشریف لے جاتے تو دوسرے نبی ان کے بعد آجاتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

ساتویں حدیث:

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر تاجدار کو نین ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخْرَ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّنَ وَلَا فَخَرَ وَ أَنَا اَوَّلُ شَافِعٍ وَ مُشَفَّعِِ وَلَا فَخْرَ 7
میں پیشوا ہوں رسولوں کا اور یہ بات از راہ فخر نہیں ہے اور میں انبیاء کا خاتم ہوں اور یہ بات از راہ فخر نہیں ہے اور سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور یہ بات از راہ فخر نہیں ہے۔

آٹھویں حدیث:

حضرت عرباض ابن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَ إِنَّ ادَمُ لَمُنْجَدِلٌ في طينته 8
اسی وقت سے میرا نام خاتم الانبیاء کی حیثیت سے اللہ تعالی کے یہاں مرقوم ہے جب کہ حضرت آدم علیہ السلام آب و گل کی منزل میں تھے۔

نویں حدیث:

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور جان نور سے نے ارشاد فرمایا ہے۔

أنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ 9
میں جملہ صف انبیاء میں آخری نبی ہوں اور تم جملہ امتوں میں آخری امت ہو۔

دسویں حدیث :

حضرت سعد ابن ابی وقاص نے بیان کیا کہ حضور جان رحمت ﷺ نے ایک موقع پر حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

أَنتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَأَنَبِيَّ بَعْدِي 10
تم میرے لیے اسی درجہ میں ہو جس درجہ میں حضرت موسی علیہ السلام کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام تھے لیکن یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

گیارہویں حدیث :

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید العالمین حضور پر انور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَابُونَ تَلْثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي 11
میری امت میں تمیں جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔ حالانکہ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

یہ حدیث چند اہم ترین نکتوں پر روشنی ڈالتی ہے۔

پہلا نکتہ:

یہ ہے کہ مخبر صادق ﷺ کی خبر کے مطابق امت میں ایسے افراد ضرور پیدا ہوں گے جو نبوت کا جھوٹادعوی کریں گے بلکہ یہ اگر کہا جائے گا تو غلط نہ ہو گا کہ جھوٹے مدعیان نبوت کو دیکھ کر ہمیں اپنے نبی صادق ﷺ کی سچائی کا یقین تازہ ہو جاتا ہے۔

دوسرا نکتہ :

یہ ہے کہ یہ سارے مدعیان نبوت جھوٹے اور کذاب ہوں گے۔ ان کا دعوی صداقت پر نہیں بلکہ و جل اور غریب پر مبنی ہو گا۔ اس خبر کے بعد اب کسی مدعی نبوت کے بارے میں اس کے دعوے کی سچائی کو پرکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی کیونکہ امت کو پہلے ہی سے معلوم ہے کہ وہ جھوٹا اور کذاب ہے۔

تیسرا نکتہ :

یہ ہے کہ کسی نئے مدعی نبوت کا جھوٹ فاش کرنے کے لیے یہ دلیل بہت کافی ہے کہ حضور رحمت مجسم ﷺ آخری نبی ہیں، خاتم الانبیاء ہیں، ان کے بعد اب کوئی نبی نہیں۔ اب اس دلیل کے بعد نہ کسی بحث و حجت کی گنجائش ہے اور نہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نئے مدعی نبوت کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت میں کیا دلائل ہیں۔

مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ سارے انبیاء و مرسلین میں سید عالم محمد رسول اللہ ﷺکی ایک تنہاذات ہے جس نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ میں سارے انبیاء کا خاتم ہوں۔ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اس اعلان کے بعد اب نہ کسی نئے نبی کا ہمیں انتظار ہے اور نہ کسی مدعی نبوت کی آواز پر ہمیں کان دھرنے کی ضرورت ہے۔

اب اس بحث کا ایک آخری گوشہ اور باقی رہ گیا ہے۔ وہ بھی طے ہو جائے تو یہ بحث اپنی جملہ تفصیلات کے ساتھ مکمل ہو جائے گی اور وہ یہ ہے کہ آنے والے کا اعلان تو ہم نے سن لیا کہ وہ آخری نبی ہے۔ وہ انبیاء کا خاتم ہو کر آیا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس طرح کا کوئی اعلان بھیجنے والے کی طرف سے بھی ہے یا نہیں ؟ بھیجنے والے کی طرف سے بھی اس طرح کا کوئی اعلان ہمیں مل جاتا ہے تو اب ختم نبوت کے عقیدے پر دونوں طرف سے مہر لگ جاتی ہے۔ آپ اپنے قلوب کا دروازہ کھول کر بھیجنے والے کا اعلان سنیے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّنَ 12
محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔

احادیث میں لفظ " خاتم النبیین " کی تفسیر خود حضور نبی پاک ﷺ سے بایں الفاظ منقول ہے :

أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِی
میں انبیاء کا خاتم ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ دیگر احادیث میں آخر الانبیاء کے لفظ سے بھی خاتم النبیین کی تفسیر کی گئی ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام سے لے کر ہمارے اکابرین امت اور سلف صالحین تک سب نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہے۔

ان ہی نصوص اور اجماع امت کی بنیاد پر ختم نبوت کا یہ عقیدہ ایک ہزار چار سوبر س سے کروڑوں اربوں انسانوں کے دلوں پر چھایا ہوا ہے۔

مزید براں اس عقیدے کا ایک حیرت انگیز کرشمہ یہ بھی ہے کہ مذہب کی بے شمار شاخوں میں طرح طرح کے اختلافات کے باوجود اس عقیدے پر سب متفق ہیں کہ سرور کونین ﷺ آخری نبی ہیں ان کے بعد کوئی اور نبی نہیں ہے۔ پھر چودہ سوبرس سے اربہا ارب انسانوں کے سوچنے کا ایک ہی انداز حسن اتفاق کا نتیجہ ہر گز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ خاص کر ایسی حالت میں جب کہ حضور انور ﷺ کا یہ ارشاد بھی پیش نظر رکھا جائے کہ میری امت گمراہی پر کبھی مجتمع نہ ہو گی۔

بات اپنے سارے گوشوں کے ساتھ اگرچہ تمام ہو گئی مگر طمانیت قلب کے لیے ذرا اس پر بھی غور کرتے چلیے کہ آیا نبی خاتم ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت جاری رہنے کا کوئی قرینہ و امکان بھی ہے یا نہیں ؟ تو اس کے متعلق ہم علم و یقین کی آخری چوٹی پر کھڑے ہو کر اعلان کرتے ہیں کہ مدت ہوئی امکان کا دروازہ مقفل ہو چکا ہے اور قرینے کا فقدان تو ایسا ہے کہ دونوں جہاں میں چراغ لے کر ڈھونڈیے تو کہیں نہیں ملے گا۔

پھر امکان ہو تا تو وہ صادق وامین پیغمبر جس نے نزول مسیح کی خبر دی ہے وہ ہرگز یہ نہیں کہتا کہ مجھ پر سلسلہ نبوت ختم ہے۔ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اور میری جرات رندانہ معاف کیجئے تو دو قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ یہ ارشادات اس نبی کے ہیں جس کی زبان پر تقدیر کے نوشتے ڈھلتے ہیں ، اس لیے بالفرض اس سے پہلے امکان تھا بھی تو اب نہیں ہے کیونکہ دنیا میں ہر چیز ممکن ہو سکتی ہے پر رسول کا کذب ممکن نہیں ہے اور قرینے کے متعلق صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر وہ ہوتا تو اس کے ملنے کی بہترین جگہ کتاب الہی تھی جبکہ تمیں پارے کی ضخیم کتاب میں ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جہاں یہ قرینہ موجود ہو کہ محمد عربی ﷺ کے بعد بھی کوئی اور نبی آنے والا ہے بلکہ اس کے بر عکس قرینہ نہیں صراحت موجود ہے کہ محمد عربی ﷺ خاتم پیغمبراں ہیں:

وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ 13

مرزاغلام احمد قادیانی کا محاسبہ:

یہاں تک تو عقیدۂ ختم نبوت کے مختلف گوشوں پر بحث تھی جو عقل و نقل اور تاریخ کی روشنی میں مکمل ہو گئی۔ اب ہم ذیل میں منکرین ختم نبوت کے سربراہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں کا بھی ایک تنقیدی جائزہ لینا چاہتے ہیں تاکہ جو لوگ جہل وکفر کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں وہ ہدایت و ایمان کے اجالے میں آجائیں۔ مرزا جی کی تکذیب کے لیے جہاں قرآن و حدیث اور اجماع امت کی بو جھل شہادتیں ہمارے پاس موجود ہیں جن کے کچھ نمونے پچھلے صفحات میں آپ کی نظر سے گزر چکے ہیں وہاں مرزا جی کے دعووں کی تفصیل ہی انہیں جھوٹا ثابت کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔ الگ سے ان کی دروغ بیانی کا ثبوت فراہم کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اپنے بارے میں انہوں نے جو عجیب و غریب دعوے کیے ہیں اب ان کی مضحکہ خیز تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔ (۱) میں نبی ہوں (۲) اللہ ہی نے میرا نام نبی ورسول رکھا ہے (۳) میں ظل نبی ہوں (۴) میں بروزی نبی ہوں (۵) میں مسیح موعود ہوں (۶) میں مہدی ہوں (۷) میں مجدد ہوں (۸) میں محمد کی بعثت ثانیہ ہوں یعنی میرے پیکر میں خود محمد نے ظہور کیا ہے (۹) میں مسیح کی بشارت اور اسمہ احمد کا مصداق ہوں۔ نعوذ باللہ من ذلک ( قادیانی رسائل و کتب سے ماخوذ)

یہ ہیں وہ کل دعوے جو مرزا جی نے اپنے متعلق کیے ہیں۔ یہ تمام دعوے آپس میں اس طرح متصادم ہیں کہ انہیں ایک محل میں جمع کرنا ممکن نہیں ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ایک ہی منہ سے نکلے ہوئے یہ دعوے ہیں اس لیے ان کے درمیان کوئی تفریق بھی نہیں کی جاسکتی۔

مرزاجی کے دعووں کا تنقیدی جائزہ:

کسی بھی اجنبی آدمی کو مرزا جی کے ان دعووں پر نظر ڈالنے کے بعد جس حیرانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے۔

(1) بفرض محال اگر وہ خدا کی طرف سے ان ہی معنوں میں نبی اور رسول ہیں جن معنوں میں پچھلے تمام انبیاء و مرسلین تھے تو پھر یہ ظلی اور بروزی نبی کا پیوند کیا ہے ؟ جب کہ انبیائے ماسبق میں سے ہر نبی حقیقی اور اصلی نبی تھا۔ کسی نے بھی اپنے آپ کو ظلی یا بروزی نبی کی حیثیت سے نہیں پیش کیا۔

(2) اور اگر ظلی و بروزی نبی ان معنوں میں نبی نہیں ہے جن معنوں میں قرآن نبی کا لفظ استعمال کرتا ہے تو پھر قرآنی نبی کی طرح اپنے اوپر ایمان لانے کا مطالبہ کیوں ہے ؟ اور پھر ایک ایسی اصطلاح جو تاریخ انبیاء میں نہیں ملتی کس مصلحت سے تراشی گئی ہے۔

(3) پھر اپنے دعوے کے مطابق مرزا جی اگر مسیح موعود ہیں تو ظلی و بروزی ہونے کا دعوی غلط ہے کیونکہ مسیح موعود مستقل نبی ہیں ظلی و بروزی نبی نہیں ہیں۔ نیز مسیح موعود صرف مسیح ہی نہیں ہیں بلکہ مسیح ابن مریم ہیں۔ لہذا یہ سوال مزید بر آں ہے کہ غلام احمد ابن چاند بی بی مسیح ابن مریم کیوں کر ہو گئے۔

(4) اور اگر وہ مہدی ہیں تو مسیح موعود نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان دونوں اسموں کا مسمی ایک نہیں ہے الگ الگ ہے۔ یعنی مہدی اور مسیح موعود دو الگ الگ شخصیتیں ہیں اور احادیث کی روایات کے مطابق دونوں کا ظہور بھی الگ الگ ہوگا۔ نیز حضرت مسیح موعود پیغمبر ہیں جب کہ امام مهدی پیغمبر نہیں ہیں بلکہ وہ امت محمدیہ کے ایک فرد ہیں۔ اس لیے دو الگ الگ شخصیتوں کا مصداق شخص واحد کو قرار دینا کھلا ہوا د جل اور سفید جھوٹ ہے۔

(5) اور اگر مرزا جی مجدد ہیں تو نبی ہونے کا دعوی غلط ہے۔ کیونکہ حدیث کی صراحت کے مطابق مجد د نبی نہیں ہو تا بلکہ افراد امت میں سے اس کی حیثیت صرف ایک دینی مصلح کی ہوتی ہے۔ لہذا مجدد ہونے کا دعوی اگر صحیح تسلیم کیا جائے تو لا زمانبی ورسول ہونے کے دعوے کی تکذیب کرنی ہو گی اور بفرض محال اگر نبی ورسول ہونے کا دعوی صحیح قرار دیا جائے تو مجدد ہونے کے دعوے کو جھٹلانا ہو گا۔ کیونکہ دونوں دعوے ایک ساتھ ہر گز جمع نہیں ہو سکتے۔

(6) اور اپنے دعوے کے مطابق مرزا جی محمد کی بعثت ثانیہ ہیں تو پھر معاذ اللہ وہ محمد ہی ہیں کیونکہ قیامت کے دن اولاد آدم کی جو بعثت ثانیہ ہو گی تو وہاں موجود ہر شخص اصل وجود کے ساتھ آئے گا ظل کے ساتھ نہیں لہذا ایسی صورت میں یا تو ظلی اور بروزی ہونے کا دعوی غلط ہے یا پھر محمد کی بعثت ثانیہ ہونے کی بات جھوٹی ہے۔

(7) اب رہ گیا یہ دعوی کہ وہ مسیح کی بشارت اور اسمہ احمد کے مصداق بھی ہیں تو اس دعوے کا تضاد بھی کسی تبصرے کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اگر وہی حضرت مسیح علیہ السلام کی بشارت اور اسمہ احمد کے مصداق ہیں تو پھر اپنے آپ کو " غلام احمد " قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ یہ دعوی کر کے تو معاذ اللہ وہ خود احمد و محمد ہونے کے مدعی ہیں۔ اور اگر " غلام احمد " کو صحیح مانا جائے تو اسمہ احمد کے مصداق ہونے کا دعوی باطل ہے۔

خلاصہ یہ کہ مرزا جی کے ان دعووں کو اگر عقل و مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو ہر دعوی دوسرے دعوے کی تکذیب کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کا کوئی دعوی بھی ایسا نہیں ہے جسے صحیح تسلیم کر لینے کے بعد دوسراد عوی دامن نہ تھا متا ہو کہ میرا انکار کرو۔

ان حالات میں یہ فیصلہ کرنا قارئین کرام ہی کا کام ہے کہ مرزاجی حقیقت میں کیا ہیں۔ نبی ہونے کی بات تو ایک خواب پریشان کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابھی تو یہی سوال زیر بحث ہے کہ وہ صحیح الدماغ آدمی بھی تھے یا نہیں ؟ کیونکہ عقل و دانش کی سلامتی کے ساتھ کوئی شخص بھی اس طرح کے متضاد دعوے ہر گز نہیں کر سکتا۔ گفتگو کا یہ انداز یا تو'' چنیا بیگم " سے جی بہلانے والوں کا ہے یا پاگل خانے کے دیوانوں کا۔ یا پھر کسی ایسے سنسنی خیز شاطر کا جس کی آنکھ سے شرم و حیا کا پانی اتر گیا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ مرزا جی کے ان دعووں پر خود ان کے ماننے والے بھی آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایک طبقہ ان کے دعوائے نبوت کو تسلیم کرتا ہے جب کہ دوسرا گروہ انہیں صرف مجدد مانتا ہے کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ماننے والے ہی دعوے پر متفق نہیں ہیں۔ تو دوسروں کے ماننے نہ ماننے کا سوال کہاں باقی رہتا ہے۔

اخیر میں ان لوگوں سے جو مرزا جی کو " امتی نبی " مانتے ہیں چند سوال کر کے یہ بحث ختم کرتا ہوں کہ ڈیڑھ ہزار برس کی لمبی مدت میں خاتم پیغمبراں ، سرور کون و مکاں حضور اکرم ﷺ کی اطاعت و محبت کے فیضان سے امت محمدیہ میں کوئی نبی پیدا ہوا ہو تو اس کا نام اور پتہ بتائیے ؟ اس کے ساتھ اس سوال کا بھی جواب دیجئے کہ صحیح حدیثوں میں نبوت کا دعوی کرنے والے تیس د جالین و کذابین کی جو خبر دی گئی ہے تو اس کا مصداق مرزا غلام احمد قادیانی کیوں نہیں ہے۔ نیز یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ احادیث کی روشنی میں مسیح موعود بطن مادر سے پیدا ہوں گے یا آسمان سے ان کا نزول ہو گا۔ اور نزول بھی ہو گا تو قادیان میں یا جامع د مشق کے مینارے پر۔

واضح رہے کہ ان سوالات سے میر امد عا کسی بحث و مناظرہ کا دروازہ کھولنا نہیں ہے کیونکہ بحث کا سوال تو وہاں اٹھتا ہے جہاں درمیان میں عقل و استدلال کا ہاتھ ہو، ہوا پر پل باندھنے والوں سے کون دیوانہ ہے جو بحث کرے گا بلکہ مقصد صرف اتنا ہے کہ جو لوگ غلط فہمی کی راہ سے یا اپنے آباء واجداد کی اندھی تقلید میں ایک فرضی افسانے یا ایک دیوانے کی بڑ پر مذہب کی طرح یقین کیے بیٹھے ہیں انہیں حقیقت کے عرفان کی طرف بلایا جائے اور وہ ان سوالات کی روشنی میں سچائی کی تلاش کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

قادیانی مذہب اور حکومت برطانیہ:

تاریخی اعتبار سے یہ حقیقت اتنی واضح ہو چکی ہے کہ اب اس میں دورائے کی گنجائش نہیں ہے کہ قادیانی مذہب کی ولادت حکومت برطانیہ کی گود میں ہوئی اور اس کی سر پرستی میں وہ پروان چڑھا۔ انگریزوں نے اپنے قابو کا نبی دو مقصد کے لیے مبعوث کیا تھا۔

پہلا مقصد تو یہ تھا کہ ختم نبوت کا جو عقیدہ قرآن سے ثابت ہے اسے ایک نیا نبی بھیج کر جھٹلا دیا جائے اور ساری دنیا میں اس بات کی تشہیر کی جائے کہ قرآن کی کہی ہوئی بات غلط ہو گئی اس لیے وہ خدا کی کتاب نہیں ہے۔ کیونکہ خدا کی بات غلط نہیں ہو سکتی اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ نبی کی زبان و قلم سے جو بات نکلتی ہے دنیا اسے وحی الہی سمجھ کر بے چوں و چرا قبول کر لیتی ہے۔ اس لیے ایک ایسا نبی مبعوث کیا جائے جو حکومت بر طانیہ کا قصیدہ پڑھے مسلمانوں کو ذہنی طور پر حکومت برطانیہ کا غلام بنا کر رکھے اور مسلمانوں کے اندر سے جہاد کی اسپرٹ ختم کرائے تاکہ انگریزی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جہاد اور بغاوت کا اندیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ ان ساری باتوں کے ثبوت کے لیے ہمیں کہیں باہر سے کوئی شہادت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے قلم سے ان ساری باتوں کا ثبوت فراہم کر دیا۔ پاسداری کے جذبے سے اوپر اٹھ کر مرزا جی کی یہ تحریریں پڑھیے۔ اپنے آقائے نعمت سر کار برطانیہ کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے مزراجی لکھتے ہیں :

میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں نہ روم میں نہ شام میں نہ ایران میں نہ کابل میں مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لیے دعا کرتا ہوں۔14

مرزاجی کا ایک اشتہار اور پڑھیے اپنے منعم کی بے التفاتی کا شکوہ کتنی درد ناک حیرت کے ساتھ نمایاں ہے۔

بار ہا بے اختیار دل میں یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ جس گورنمنٹ کی اطاعت اور خدمت گزاری کی غرض سے ہم نے کئی کتابیں مخالفت جہاد اور گور نمنٹ کی اطاعت میں لکھ کر دنیا میں شائع کیں اور کا فروغیرہ اپنے نام رکھوائے اس گور نمنٹ کو اب تک معلوم نہیں کہ ہم دن رات کیا خدمت کر رہے ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن یہ گور نمنٹ عالیہ میری خدمات کی قدر کرے گی۔ 15

ساٹھ سالہ جوٹی کے موقع پر مرزا جی نے ملکہ وکٹوریہ کو ایک نامۂ عقیدت ارسال کیا تھا۔ اس کا جواب موصول نہ ہونے پر جذبہ شوق کی بے چینی ملاحظہ فرمائیے :۔

اس عاجز کو وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت جو حضور ملکہ معظمہ اور اس کے معزز افسروں کی نسبت حاصل ہے جو میں ایسے الفاظ نہیں پاتا جن میں ان اخلاص کا اندازہ کر سکوں۔

اس بچی محبت اور اخلاص کی تحریک سے جشن (۲۰) سالہ جوبلی کی تقریب پر میں نے ایک رسالہ حضرت قیصرہ ہند (1) قبالہا کے نام سے تالیف کر کے اور اس کا نام تحفہ قیصر یہ رکھ کر جناب ممدوحہ کی خدمت میں بطور درویشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا اور مجھے قوی یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی اور امید سے بڑھ کر میری سرفرازی کا موجب ہو گا مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی ممنون نہیں کیا گیا۔16

مرزا جی کی مذکورہ بالا تحریروں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ قادیانی مذہب کے ساتھ انگریزوں کا سر پرستانہ تعلق کیسا تھا اور نیاز مندی کے کس والہانہ جذبے کے ساتھ انہوں نے اپنی مصنوعی اور باطل نبوت کے فروغ کے لیے انگریزی حکومت کی کاسہ لیسی کی۔ اب چشم حیرت کھول کر عقیدہ ختم نبوت کے خلاف انگریزوں کی در پردہ سازش کی ایک دل ہلا دینے والی کہانی اور پڑھیے جس کا عنوان ہے۔

دیوبند اور قادیان :

قادیان سے ایک مصنوعی پیغمبر کو کھڑا کرنے اور اس کی دعوت کو فروغ دینے کے لیے جہاں انگریزوں نے اپنے سرکاری وسائل کا استعمال کیا وہاں علمی اور فکری طور پر نئی نبوت کا راستہ ہموار کرنے کے لیے دیوبندی اکابر کے علمی اور مذہبی اثرات سے بھی کام لیا۔ شرح اس اجمال کی یہ ہے کہ کسی جدید نبوت کی راہ میں ختم نبوت کا یہ قرآنی عقیدہ ہمیشہ حائل رہا کہ حضور اکرمﷺ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں پیدا ہو سکتا۔

اب نئی نبوت کی راہ میں قرآن کی طرف سے جو رکاوٹ کھڑی تھی اسے دور کرنے کے دو ہی راستے تھے یا تو قرآن کی اس آیت ہی کو بدل دیا جائے جس میں حضور انور ﷺکے لیے صراحت کے ساتھ خاتم النبین کا لفظ موجود ہے جس کے معنی آخری نبی کے ہیں یا پھر خاتم النبیین کا لفظ جوں کا توں رہنے دیا جائے صرف اس کا مفہوم بدل دیا جائے۔

پہلا راستہ ممکن نہیں تھا کہ روئے زمین پر قرآن کے کروڑوں نسخے اور لاکھوں حفاظ موجود تھے لفظ کی تحریف چھپائے نہیں چھپ سکتی تھی اس لیے معنوی تحریف کا راستہ اختیار کیا گیا اور طے پایا کہ لفظ خاتم النبیین کے معنی آخری نبی جو عہد صحابہ سے لے کر آج تک ساری امت میں شائع اور ذائع ہے اسے بدل دیا جائے اور اس لفظ کا کوئی ایسا معنی تلاش کیا جائے جو کسی نئے نبی کے آنے میں رکاوٹ نہ بنے چنانچہ راستے کا یہ پتھر ہٹانے کے لیے دار العلوم دیوبند کے بانی قاسم نانوتوی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ میں اپنی طرف سے کوئی الزام عائد نہیں کر رہا ہوں بلکہ خود ایک قادیانی مصنف نے اپنی کتاب " افادات قاسمیہ " میں پوری تفصیل کے ساتھ یہ قصہ بیان کیا ہے۔ یہ کتاب سالہا سال سے چھپ رہی ہے لیکن دیوبند سے اب تک اس کی کوئی تردید شائع نہیں ہوئی جس سے سمجھا جاتا کہ قادیانیوں کی طرف سے نانوتوی کے خلاف جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اب قادیانی مصنف ابو العطا جالندھری کی اس عبارت کی ایک ایک سطر خوب غور سے پڑھیے اور ذہن و فکر کے تہہ خانے میں اتر کر چھپی ہوئی سازشوں کا سراغ لگائیے۔

" یوں محسوس ہوتا ہے کہ چودھویں صدی کے سر پر آنے والا مجدد امام مہدی اور مسیح موعود بھی تھا اور اسے " امتی نبوت" کے مقام سے سرفراز کیا جانے والا تھا۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے اپنی خاص مصلحت سے حضرت مولوی محمد قاسم نانوتوی (بانی دارالعلوم دیوبند ) کو خاتمیت محمد یہ کے اصل مفہوم کی وضاحت کے لیے رہنمائی فرمائی اور آپ نے اپنی کتابوں اور اپنے بیانات میں آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی نہایت دلکش تشریح فرمائی۔

بلا شبہ آپ کی کتاب " تحذیر الناس " اس موضوع پر خاص اہمیت رکھتی ہے۔ 17

دیکھ رہے ہیں آپ ساحران افرنگ کا یہ تماشا ! کتنی خوبصورتی کے ساتھ ایک شرمناک سازش کو الہام کا رنگ دیا جارہا ہے گویا یہ سارا اہتمام خدائے قدیر کی طرف سے تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت سے پہلے نانو توی " تخدیر الناس " نام کی ایک کتاب لکھیں اور اس میں خاتم النبین کے معنی آخری نبی کا انکار کر کے ایک نئے نبی کی آمد کے لیے راستہ ہموار کریں۔ نانوتوی نے اپنی کتاب " تخدیر الناس " میں اس بات کی بھر پور کوشش کی ہے کہ " سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے " یعنی خاتم النبیین کے لفظ کا انکار بھی نہ ہو اور نئے نبی کی آمد کے لیے راستہ بھی ہموار ہو جائے۔ تاکہ انگریزوں کا حق نمک بھی ادا ہو جائے اور مسلمانوں کو بھی دھوکے میں رکھ سکیں کہ ہم لوگ ختم نبوت کے منکر نہیں ہیں لیکن خدائے پاک جزائے خیر دے ان علمائے حق کو جنہوں نے تخدیر الناس کے فریب کا پردہ چاک کر کے عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ایک گہری سازش کو ہمیشہ کے لیے بے نقاب کرایا۔

قارئین کرام اگر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تحذیر الناس نامی کتاب میں کیا ہے ، قادیانی مصنفین اس کی تعریف میں رطب اللسان کیوں ہیں ؟ اور اس کتاب کے ذریعہ نانوتوی نے نئے نبی کی آمد کے لیے راستہ کس طرح ہموار کیا ہے تو ہر طرح کی عصبیت سے بالاتر ہو کر سنجیدگی کے ساتھ آنے والی محث کا مطالعہ کریں۔ سازشوں کی یہ داستان بڑی لمبی اور پر فریب ہے۔

قصہ تخدیر الناس کی پر فریب سازش کا:

بجائے اس کے کہ ہم اپنی طرف سے کچھ کہیں آپ یہ پورا قصہ قادیانی مصنفین کی زبانی سنیئے۔ تمہید کے طور پر ایک قادیانی مصنف اس قصے کا آغاز کرتا ہے :۔

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ احمدی (یعنی قادیانی) ختم نبوت کے قائل نہیں ہیں اور رسول کریم ﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ یہ محض دھو کے اور ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ جب احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ شہادت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ وہ ختم نبوت کے منکر ہوں اور رسول کریم ﷺ کو خاتم النبیین نہ مانیں۔

قرآن کریم میں صاف طور پر اللہ تعالی فرماتا ہے :۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّنَ 18
یعنی : محمد رسول اللہ ﷺ تم میں سے کسی جوان مرد کے باپ ہیں نہ آئندہ ہوں گے لیکن اللہ تعالی کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔

قرآن کریم پر ایمان رکھنے والا آدمی اس آیت کا انکار کس طرح کر سکتا ہے۔ پس احمدیوں کا ہر گز یہ عقیدہ نہیں ہے کہ رسول کریم ﷺ نعوذ باللہ خاتم النبیین نہیں تھے۔ جو کچھ احمدی کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ خاتم النبین کے وہ معنی جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہیں نہ تو قرآن کریم کی مذکور و بالا آیت پر چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ان سے رسول کریم ﷺ کی عزت اور شان اس طرح ظاہر ہوتی ہے جس عزت اور شان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔19

اس عبارت میں خط کشیدہ سطروں کو پھر ایک بار غور سے پڑھیے کہ بحث کا ہی حصہ سازشوں کی بنیاد ہے۔ یہیں سے لفظ خاتم النبیین کے اس معنی کے انکار کار استہ کھلتا ہے، جو نئے نبی کی راہ میں حائل ہے۔

مذکورہ بالا عبارت کی روشنی میں قادیانیوں کا یہ دعوی اچھی طرح آپ کے ذہن نشین ہو گیا ہو گا کہ وہ لوگ حضور اکرم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا انکار نہیں کرتے بلکہ خاتم النبیین کے اس معنی کا انکار کرتے ہیں جو عام مسلمانوں میں رائج ہے اور اس انکار پر انہیں ختم نبوت کا منکر کہا جاتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ خاتم النبیین کا وہ کون سا معنی ہے جو عام مسلمانوں میں رائج ہے اور سب سے پہلے اس معنی کا انکار کس نے کیا ہے۔ اتنی تفصیل کے بعد اب ہر طرف سے خالی الذہن ہو کر تخدیر الناس کے مصنف محمد قاسم نانوتوی کی کارگزاریوں کے متعلق ایک قادیانی مصنف کا یہ بیان پڑھیے اور عقیدہ ختم نبوت کے انکار کے سلسلے میں اصل مجرم کا سراغ لگائیے۔

تمام امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ خاتم النبیین ہیں کیو نکہ قرآن مجید کی (نص)وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ میں آپ کو خاتم النبین قرار دیا گیا ہے۔ نیز اس امر پر بھی تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے لفظ خاتم النبیین بطور مدح و فضیلت ذکر ہوا ہے۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ لفظ خاتم النبیین کے کیا معنی ہیں۔ یقینا اس کے معنی ایسے ہی ہونے چاہئیں جن سے آنحضرت ﷺ کی فضیلت اور مدح ثابت ہو۔

اسی بنا پر جناب مولوی محمد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند نے عوام کے معنوں کو نادرست قرار دیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔ عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم اور تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں وَلكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔ 20

(رسالہ خاتم النبیین کے بہترین معنی ص ۴ شائع کردہ قادیان)

آسان لفظوں میں نانو توی کی اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ لفظ خاتم النبیین کے معنی آخری نبی قرار دینا یہ نا سمجھ عوام کا خیال ہے جو کسی بھی طرح قابل التفات نہیں ہے۔ اہل فہم طبقہ اس لفظ کے معنی آخری نبی کے نہیں سمجھتا۔ کیونکہ زمانے کے اعتبار سے کسی کا پہلے ہونا یا آخر میں ہونا کچھ خاص مدح اور فضیلت کی چیز نہیں ہے۔ اس لفظ کے معنی آخری نبی قرار دینے میں چونکہ حضور کی کوئی خاص فضیلت نہیں نکلتی اس لیے یہ معنی اگر مراد لیا جائے تو مقام مدح میں وَلكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ کا ذکر کرنا لغو ہو جائے گا۔

غور فرمائیے ! ڈیڑھ ہزار برس کی لمبی مدت میں عہد صحابہ سے لے کر آج تک کتاب و سنت کی روشنی میں ساری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے لفظ کے معنی آخری نبی کے ہیں۔ اس لفظ سے اگر حضور کو آخری نبی نہ مانا جائے تو نئے نبی کی آمد کا راستہ کس دلیل سے بند کیا جا سکتا ہے۔

ساری امت میں نانو توی وہ پہلا شخص ہے جس نے انگریزوں کا حق نمک ادا کر نے کے لیے حضور ﷺ کو آخری نبی ماننے سے انکار کیا ہے تاکہ قادیان سے ایک نئے نبی کی آمد کے لیے راستہ صاف ہو جائے۔

نانوتوی صاحب کے حامیوں کا منہ بند کرنے کے لیے میں اس مسئلے میں ان ہی کے گھر کی ایک مضبوط شہادت پیش کرتا ہوں۔ دیوبندی جماعت کے معتمد وکیل مولوی منظور نعمانی اپنی کتاب " ایرانی انقلاب" میں تحریر فرماتے ہیں :۔

یہ عقیدہ کہ ختم نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوار سول اللہ ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی آسکتا ہے ان آیات قرآنی اور احادیث متواترہ کی تکذیب ہے جن میں رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبیین اور آخری نبی ہو نا بیان فرمایا گیا ہے۔ 21

یہ عبارت چیخ رہی ہے کہ جو حضور ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتادہ آیات قرآنی اور احادیث متواترہ کا انکار کرتا ہے اور دوسرے لفظوں میں وہ نئے نبی کی آمد کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتا ہیں۔

یہی وہ گراں قدر خدمت ہے جس کے صلے میں قادیانی جماعت کی طرف سے قاسم نانوتوی کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک قادیانی، مصنف نے لکھا ہے۔

جماعت احمد یہ خاتم النبیین کے معنوں کی تشریح میں اسی مسلک پر قائم ہے جو ہم نے سطور بالا میں جناب مولوی محمد قاسم نانوتوی کے حوالہ جات سے ذکر کیا ہے۔ 22

ایک معمولی ذہن کا آدمی بھی اتنی بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی مخالف کے مسلک پر قائم رہنے کا عہد ہر گز نہیں کر سکتا۔ پیچھے چلنے کا پر خلوص جذبہ اسی شخص کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے جسے اپنا ہم سفر اور مقتدا سمجھا جائے۔

ایک ہی تصویر کے دورخ:

پچھلے اوراق میں خاتم النبیین کے معنی کے سلسلے میں قادیانی مصنفین کی عبارتیں آپ کی نظر سے گزر چکیں اور قاسم نانوتوی کی وہ تحریر بھی آپ نے پڑھ لی جسے اپنی حمایت و تائید میں قادیانی مصنف نے تخدیر الناس سے نقل کیا ہے۔ اب ان نتائج پر غور فرمائیے جوان عبارتوں کے تجزیہ کے بعد سامنے آتے ہیں تاکہ یہ حقیقت آپ پر اچھی طرح واضح ہو جائے کہ دیوبند اور قادیان کے درمیان فکر اور استدلال کی کتنی گہری یکسانیت ہے اور دیوبند صرف وہابیت ہی کا نہیں قادیانیت کا بھی محسن اعظم ہے۔

(1) پہلی بات تو یہ ہے کہ قاسم نانوتوی کی صراحت کے مطابق خاتم النبین کے الفاظ سے حضور اکرم ﷺ کو آخری نبی سمجھنا یہ معاذ اللہ نا سمجھ عوام کا شیوہ ہے۔ امت کا سمجھ دار طبقہ خاتم النبیین کے لفظ سے آخری نبی مراد نہیں لیتا۔ ان ہی سمجھ دار لوگوں میں ایک سمجھ دار قاسم نانوتوی بھی ہیں۔

(۲) دوسری بات یہ ہے کہ خاتم النبیین کے اجتماعی معنی کو مسخ کر کے حضور کے آخری نبی ہونے کا انکار سب سے پہلے قاسم نانوتوی نے کیا ہے۔ کیونکہ قادیانیوں نے اگر انکار میں پہل کی ہوتی تو وہ ہر گز یہ اعلان نہ کرتے کہ لفظ خاتم النبیین کے معنی کی تشریح کے سلسلے میں جماعت احمد یہ نانوتوی کے مسلک پر قائم ہے۔

(۳) تیسری بات یہ ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے انکار کے سلسلے میں مرزا غلام احمد قادیانی اور نانوتوی کے انداز فکر اور طریقہ استدلال میں پوری یکسانیت ہے۔

چنانچہ قادیانیوں کے یہاں بھی خاتم النبیین کے اصل مفہوم کو مسح کرنے کے لیے حضور سر ا پا نور ﷺ کی عظمت و شان ان کا سہارالیا گیا ہے اور نانوتوی بھی مقام مدح کہہ کر آخری نبی کے معنی کے انکار کے لیے حضور ﷺ کی عظمت شان ہی کو بنیاد بنارہے ہیں۔

وہاں بھی کہا گیا ہے کہ خاتم النبیین کے لفظ سے حضور کو آخری نبی سمجھنا یہ معنی عام مسلمانوں میں رائج ہیں اور یہاں بھی کہا جارہا ہے کہ یہ معنی عوام کے خیال میں ہیں۔

اتنی عظیم مطابقتوں کے بعد اب کون کہہ سکتا ہے کہ اس مسئلے میں دونوں کا نقطہ نظر الگ الگ ہے۔ دنیا سے انصاف اگر رخصت نہیں ہو گیا تو اب اس انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ قادیان اور دیوبند ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں یا ایک ہی منزل کے دو مسافر ہیں کوئی پہنچ گیا ہے۔ کوئی رہ گزر میں ہے۔

پس خاتم النبیین بمعنی آخری نبی کے انکار کی بنیاد پر اگر قادیانی جماعت کو منکر ختم نبوت کہنا امر واقعہ ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس انکار کی بنیاد پر دیوبندی جماعت کو بھی منکر ختم نبوت نہ قرار دیا جائے۔

شاید صفائی میں کوئی یہ کہے کہ قادیانی جماعت کے لوگ چونکہ حضور ﷺ کے بعد عملا ایک نیا نبی مان چکے ہیں اس لیے انہیں منکر ختم نبوت کہنا واقعہ کے عین مطابق ہے۔ میں جواباً عرض کروں گا کہ عقیدے کی حد تک یہی مسلک تو دیوبندی جماعت کا بھی ہے جیسا کہ ان کی کتاب تخدیر الناس میں لکھا ہوا ہے :

اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور قائم رہتا ہے۔23

اگر بالفرض بعد زمانہ نبوت ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمد ی میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ 24

غور فرمائیے جب دیوبندی جماعت کے یہاں بھی بغیر کسی قباحت کے حضور کے بعد کوئی نیا نبی پیدا ہو سکتا ہے تو قادیانیوں کا اس سے زیادہ اور قصور ہی کیا ہے کہ جو چیز اہل دیوبند کے یہاں جائزو ممکن تھی اسے انہوں نے واقع کر لیا۔ اصل کفر تو نئے نبی کے جواز و امکان سے وابستہ تھا۔ جب وہی کفر نہ رہا تو اب کسی نئے مدعی نبوت کو اپنے دعوے سے باز رکھنے کا ہمارے پاس ذریعہ کیا رہا۔

کیوں کہ اس راہ میں عقیدے کی جو سب سے مضبوط دیوار حائل تھی وہ تو یہی تھی کہ قرآن و حدیث کی نصوص اور اجماع امت کی روشنی میں چونکہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں اس لیے حضور ﷺ کے بعد اب کوئی نیا نبی ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب دیوبیدی جماعت کے نزدیک حضور ﷺ آخری نبی بھی نہیں ہیں اور کسی نئے نبی کے آنے کی صورت میں حضور ﷺ کی خاتمیت میں بھی کوئی فرق نہیں آسکتا تو آپ ہی انصاف کیجئے کہ اب آخر کس بنیاد پر کسی نئے مدعی نبوت کو اپنے دعوے سے باز رکھا جائے گا اور کس دلیل سے کسی نئے نبی پر ایمان لانا کفر قرار پائے گا۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ بنیادی سوال کے لحاظ سے دیوبندی جماعت اور قادیانی جماعت کے درمیان قطعاً کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔

میری اس مدلل رائے سے اگر دیوبندی مذہب کے علماء کو اختلاف ہو تو وہ کھلے بندوں یہ اعلان کر دیں کہ تخدیر الناس ان کی کتاب نہیں ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو تخدیر الناس میں کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت شدہ جن دو بنیادی عقیدوں کا انکار کیا گیا ہے اور جس کے نتیجے میں حضور خاتم پیغمبراں ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس کے خلاف فتوے کی زبان میں اپنی مذ ہبی بیزاری کا صاف صاف اعلان کریں۔

واضح رہے کہ ان کے دو بنیادی عقیدے جن کا تحذیر الناس میں انکار کیا گیا ہے یہ ہیں :

پہلا عقیدہ :۔

خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے ہیں۔

دوسر اعقیدہ :۔

کسی نئے نبی کے آنے کی صورت میں حضور کی خاتمیت باقی نہیں رہ سکتی۔

لیکن مجھے یقین ہے کہ دیوبندی علماء تخدیر الناس کے خلاف یہ اعلان ہر گز نہیں کریں گے۔ کیونکہ انہوں نے اسلام کے ان دو بنیادی عقیدوں کو اب تک تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔ بہر حال کوئی بھی وجہ ہو اگر وہ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اسلامی دنیا کا جو الزام قادیانی جماعت پر ہے وہی الزام بندی کی جماعت پر بھی عائد کیا جائے گا۔

ختم نبوت کا انکار وراثت میں

عقیدہ ختم نبوت کے انکار کا جو سنگ بنیاد قاسم نانوتوی نے رکھا تھا اسے بعد کے آنے والوں نے صرف محفوظ ہی نہیں رکھا بلکہ اس پر عمارت بھی کھڑی کر دی۔ اس سلسلے میں قاری طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم کی کارگزاری خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ انہوں نے اپنے دادا جان کے اس نظریہ کی تبلیغ و اشاعت میں ایسے ایسے گل بو ئے کھلائے ہیں کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔

نمونے کے طور پر ان کی تقریر کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے جسے مفتیان دیو بند نے انکشاف نامی کتاب میں نقل کیا ہے فرماتے ہیں :

نبی کریم ﷺ اس عالم امکاں میں سر چشمہ علوم و کمالات ہیں۔ حتی کہ انبیاء علیہم السلام کی نبوتیں بھی فیض ہیں خاتم النبیین کی امت کا۔ در حقیقت حقیقی نبی آپ ہیں۔ آپ کی نبوت کے فیض سے انبیاء بنتے چلے گئے۔25

جب حقیقی نبی آپ ہیں تو ظاہر ہے کہ دوسرے انبیاء مجازی اور ظلی نبی ہوں گے۔ یہی وہ فارمولا ہے جسے مرزا غلام احمد قادیانی نے ظلی نبی بروزی نبی اور امتی نبی کے نام سے اپنے لیے ایجاد کیا ہے۔

تقریر کے علاوہ " آفتاب نبوت " کے نام سے اس عنوان پر انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو پاکستان سے شائع ہوئی ہے اس میں ایک جگہ آپ تحریر فرماتے ہیں :

حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخش بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہو گیا۔26

اس عبارت پر مدیر تجلی آنجہانی عامر عثمانی کا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیے۔ یہ تبصرہ نہیں ہے بلکہ دیوبندی جماعت کی پشت پر قہر الہی کا ایک عبرت ناک تازیانہ ہے۔ تحریر فرماتے ہیں :

قادیانیوں کو اس سے استدلال ملا کہ روح محمدی تو بہر حال فنا نہیں ہوئی وہ آج بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ پہلے اس نے ہزاروں انسانوں کو نبوت بخشی تو اب نه بخشے۔ 27

اب اس کے ساتھ تجلی کے حوالے سے مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ دعوی بھی پڑھ لیجئے تا کہ یہ حقیقت بالکل کھل کر سامنے آجائے کہ مہتمم صاحب نے " آفتاب نبوت " لکھ کر در پردہ کس کا حق نمک ادا کیا ہے۔

اللہ جل شانہ نے آنحضرت ﷺ کو خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے آپ کا نام خاتم النبین ٹھرا، یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے۔ اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش " ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور کو نہیں لی۔28

اب عین دو پہر کے اجالے میں مہتمم صاحب کا اصل چہرہ دیکھنا چاہتے ہوں تو تم متہم صاحب موصوف اور مرزا صاحب دونوں کی تحریروں کو ایک چوکھٹے میں رکھ کر مدیر تجلی کا یہ دھماکہ خیز بیان پڑ ھئے۔

حضرت مہتمم صاحب نے حضور کو نبوت بخش کہا تھا مرزا صاحب نبی تراش کہہ رہے ہیں۔ حرفوں کا فرق ہے معنی کا نہیں ! 29

کیا سمجھے آپ ؟ دراصل کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح مرزا صاحب کا عقیدہ ہے کہ نبوت کا درواز ہ بند نہیں ہوا ہے بلکہ آج بھی حضور پاک ، نبی کریم ﷺ کی خصوصی توجہ نبوت کی استعداد رکھنے والے کسی شخص پر پڑ جائے تو وہ نبی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مہتمم صاحب بھی حضور کو " نبوت بخش " کہہ کر بالکل اسی عقیدے کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ الفاظ و بیان میں فرق ہو سکتا ہے لیکن مد عادونوں کا ایک ہے۔

واضح رہے کہ مدیر تجلی کا یہ تبصرہ الزام نہیں بلکہ عین امر واقعہ ہے۔ کیونکہ دونوں کے انداز فکر میں اتنی عظیم مطابقت ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی خط فاصل نہیں کھینچا جا سکتا۔ مثال کے طور پر مرزا نے اپنے دعوائے نبوت کے جواز میں مجازی ، ظلی اور امتی نبی کا ایک نیا فارمولا تیار کیا تھا اور مہتمم کی تقریر کا جو اقتباس مفتیان دیوبند نے " انکشاف " نامی کتاب میں پیش کیا ہے اس میں مہتمم نے بھی اس فارمولے کی زبان استعمال کی ہے جیسا کہ ان کی تقریر کا ایک فقرہ نقل کیا گیا ہے۔

در حقیقت حقیقی نبی آپ ہیں۔ آپ کی نبوت کے فیض سے انبیاء بنتے چلے گئے۔

غلط جذبہ پاسداری سے بالا تر ہو کر انصاف کیجیے کہ یہ بالکل مرزا کی زبان ہے یا نہیں ؟ در حقیقت حقیقی نبی آپ ہیں کا مدعاسوا اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کے سواد دوسرے تمام انبیاء مجازی اور ظلی نبی ہیں۔ یہی مرزا نے بار بار کہا ہے اور یہی بات متہم فرما رہے ہیں۔ دونوں کے درمیان لفظوں کا فرق ہو سکتا ہے ، معنی کا نہیں۔

آپ کی نبوت کے فیض سے انبیاء ملتے چلے گئے یہ فقرہ بھی قادیانیوں کے اس دعوے کو تقویت پہنچاتا ہے کہ جب آپ کی نبوت کے فیض سے پہلے بھی انبیاء بنتے رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اب یہ سلسلہ بند ہو جائے۔

تصویر کارخ زیبا

مدرسہ دیوبند کے سربراہوں کے ذریعے قادیانی مذہب کو کتنی تقویت ملی اسے پھولنے پھلنے کے کتنے مواقع میسر آئے اور ذہن کی فضا سازگار بنانے کے کیسے کیسے ایمان سوز نوشتے ہاتھ آئے اس کی قدرے تفصیل پچھلے اوراق میں آپ کی نگاہ سے گزر چکی اب بریلی کے مرکز رشد و ہدایت کا بھی ایک جلوہ ملاحظہ فرمائیے۔

وہ تاج برطانیہ جس کی حدود مملکت میں سورج نہیں غروب ہوتا تھا نہ وہ بریلی کا قلم خرید سکا نہ اس فتنے کی سرکوبی کے سلسلے میں حکومت کی سطوت و جبروت کا کوئی خطرہ وہاں حائل ہو سکا۔ ادھر فتنہ نے جنم لیا اور ادھر سر خیل کاروان سنت مجدد دین و ملت حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے قلم کی تلوار بے نیام ہو گئی۔ یہ پوری کہانی مولوی ابو الحسن علی ندوی کی زبانی سنیئے کہ اسے دوست کا نہیں دشمن کا اعتراف کہا جائے گا۔

موصوف اپنے پیر و مرشد شاہ عبد القادر رائے پوری کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔

حضرت نے مرزا کی تصنیفات میں کہیں پڑھا تھا کہ ان کو خدا کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ أُجِيبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلا فِي شُرَكَائِكَ (میں تمہاری ہر دعا قبول کروں گا۔ سوا ان دعاؤں کے جو تمہارے شرکت داروں کے بارے میں ہوں )۔

حضرت نے مرزا کو اسی الہام اور وعدہ کا حوالہ دے کر افضل گڑھ سے خط لکھا جس میں تحریر فرمایا کہ میری آپ سے کسی طرح کی بھی شرکت نہیں ہے اس لیے آپ میری ہدایت اور شرح صدر کے لیے دعا کریں۔ وہاں سے بھی عبدالکریم صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا جواب ملا کہ تمہارا خط پہنچا تمہارے لیے خوب دعا کرائی گئی۔ تم کبھی کبھی اس کی یاد دہانی کردیا کرو۔ حضرت فرماتے تھے کہ اس زمانے میں ایک پیسہ کا کارڈ تھا۔ میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک کارڈ دعا کی درخواست کا ڈال دیتا۔

ایک مرتبہ فرمایا کہ مولوی احمد رضا خاں صاحب نے ایک دفعہ مرزائیوں کی کتابیں منگوائی تھیں اس غرض سے کہ ان کی تردید کریں گے۔

میں نے بھی دیکھیں قلب پر اتنا اثر ہوا کہ اس طرف میلان ہو گیا اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ سچے ہیں۔ 30

اس کتاب میں لکھا ہے کہ کچھ دنوں شاہ عبد القادر صاحب اعلیٰ حضرت کی خدمت میں بھی تھے لیکن دین میں اعلیٰ حضرت کی سختی انہیں پسند نہیں آئی اور وہ دوسری جگہ چلے گئے۔

اس عبارت میں ایک طرف مرزاغلام احمد قادیانی کے ساتھ مولانا ابو الحسن علی ندوی کے پیرو مرشد کا کردار ملاحظہ فرمائیے کہ ایک کذاب مدعی نبوت کے ساتھ کتنی خوش عقیدگی ہے اور دوسری طرف اعلیٰ حضرت امام اہل سنت کے ایمان و یقین کی بصیرت، حق کا عرفان اور باطل شکنی کا حوصلہ ملاحظہ فرمائیے کہ دشمن سے لڑنے کے لیے ہتھیار جمع کر رہے ہیں۔

اور یہ بھی سچائیوں کی فیروز مندی کہی جائے گی کہ اس عبارت میں واقعہ نگار نے دونوں کا حال بیان کر دیا ہے۔ اپنا بھی اور ہمارا بھی !!۔

واقعہ کی تفصیل بتارہی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخاطبت اور نزول وحی و الہام کا دعوی کر چکے تھے اس لیے تسلیم کرنا ہو گا کہ یہ سارا تعلق بے خبری میں نہیں قائم ہوا تھا بلکہ پیر صاحب کا منہ بولا اقرار کی بیان ہے کہ مرزا صاحب کی کتابیں پڑھنے کے بعد ان کی طرف دل کا میلان اتنا بڑھ گیا کہ ایسا معلوم ہونے لگا کہ اپنے دعوائے نبوت میں وہ سچے ہیں۔

واقعات کے بطن سے پیدا ہونے والی الزام کی چٹان کیوں کر ٹوٹ سکتی ہے کہ ختم نبوت کا وہ عقیدہ جو امت کو ورثے میں ملا تھا، دیوبندی اکابر کے حلق کے نیچے نہیں اتر سکا کیونکہ ختم نبوت کا عقیدہ اگر انہوں نے دل سے تسلیم کیا ہوتا تو ایک جھوٹے مدعی نبوت کے ساتھ اس طرح کی خوش عقیدگی کا مظاہر ہ وہ کبھی نہیں کرتے۔

حقائق و واقعات کا یہ نتیجہ پڑھ کر پیشانی پر شکن نہ ڈالیے کہ عقیدۂ ختم نبوت کے انکار میں میرے پاس دیوبندی اکابر کی ایک ایسی بھی دستاویز موجود ہے جسے پڑھتے ہی پوری جماعت پر سکتہ طاری ہو جائے گا اور دیوبندی فرقے کے مہنتوں کو مسلم آبادی میں منہ چھپانے کی کوئی جگہ نہیں مل سکے گی۔

اب دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ دیوبندی فرقے کے عظیم رہنما قاری طیب صاحب کی تہلکہ خیز تحریر پڑھیے۔

ختم نبوت کے یہ معنی لینا کہ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا۔ یہ دنیا کو دھو کہ دینا ہے۔ 31

اخیر میں دیوبندی علماء سے یہ گزارش کرتے ہوئے اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں کہ خدا -کے لیے اب تو دنیا کو دھو کہ مت دیجئے۔


  • 1 مسلم شریف جلد کتاب الغنائل ص :۲۶۱
  • 2 مسلم شریف جلد دوم کتاب الفضائل ص :۲۶۱
  • 3 مشکوۃ المصابیح کتاب الفتن ص: ۵۱۲
  • 4 مسلم شریف ج:1،ص: ۲۳۸
  • 5 مشكوة المصابیح ص :۵۲ باب فضائل سید المرسلین
  • 6 مسلم شریف کتاب الامارة ص :۱۲۶
  • 7 مشکوة کتاب الفتن ص: ۵۱۴
  • 8 مشکوة شریف ص:۵۱۳
  • 9 سنن ابن ماجه فتفته الدجال ص :۲۰۷
  • 10 مسلم شریف ج :۲ ص: ۲۷۸
  • 11 مشکوة کتاب الفتن ص :۴۱۵
  • 12 المائدۃ،33/ 40
  • 13 الاحزاب،33/ 40
  • 14 اشتهار مرزاجی مندرجه تبلیغ رسالت ج :۶ ص :۶۹
  • 15 تبلیغ رسالت ج :۱۰ ص :۲۸
  • 16 ستاره قیصره ص :۲ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی
  • 17 افادات قاسمیہ ص: 1 مطبوعه ربو ہ پاکستان
  • 18 الاحزاب،40/33
  • 19 پیغام ا حدت،ص:10
  • 20 تخدیر الناس ص :3
  • 21 ایرانی انقلاب،ص:81
  • 22 افادات قاسمیہ،ص:16
  • 23 تخدیر الناس ص :12
  • 24 تخدیر الناس ص :28
  • 25 انکشاف مطبوعہ دیوبند ص: ۲۶۴
  • 26 آفتاب نبوت ص: 19
  • 27 تجلی و یو بند نقد و نظر نمبر ،ص: 7
  • 28 حقیقة الوحی بحوالہ تجلی نقد و نظر نمبر ،ص: 73
  • 29 تجلی نقد و نظر نمبر ،ص: 78
  • 30 سوانح حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری ص :۵۲تا۵۵، مرتبہ مولانا ابو الحسن علی ندوی
  • 31 خطبات حکیم الامت الاسلام ،ص: 50

Netsol OnlinePowered by