کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مرزائی مذہب شخص کی دختر نابالغہ سے جو عقد نکاح ہو گیا ہے وہ شرعا جائز ہے یا ناجائز ؟ دختر مذکورہ اپنے مذہب کو کچھ نہیں جانتی ہے ، والد اس کا انتقال کر چکا ہے صرف اس کی والدہ نے نکاح ایک حنفی مذہب سے کر دیا ہے ، ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے اُس کو علیحدہ کر دیا جا ئے یا وقت بلوغ رکھا جائے ۔ بینوا توجروا
از وضہ ضرت مجدد الف ثانی سر ہند شریف مسئولہ عبد القادر صاب مدرس درگاه شریف ۳۰ رمضان شریف ۱۳۳۹ھ
مرزائی مرتد ہيں كما هو مبين في حسام الحرمين (جیسا کہ حسام الحرمین میں واضح بیان کیا گیا ہے ۔ ت ) اور مرتد مرد ہو یا عورت اس کا نکاح کسی مسلمان یا کا فراصلی یا مرتد عرض انسان یا حیوان جہان بھر میں کسی سے نہیں ہو سکتا، جس سے ہو گا زنا ئے محض ہو گا۔ عالمگیری میں ہے :
لا يجوز للمرتد ان يتزوج مرتدة ولا مسلمة ولا كافرة اصلية وكذلك لا يجوز نكاح المرتدة مع احد كذا في المبسوط 1
مرتد کے لیے مرتدہ ، مسلمہ یا اصلی کا فرہ عورت سے نكاح جائز نہیں ، اور اسی طرح مرتدہ عورت کا بھی کسی مرد سے نکاح جائز نہیں ، جیسا کہ مبسوط میں ہے ۔ (ت)
عورت اگر چہ نابالغہ ہے سال دو سال کی نا عاقلہ بچی نہ ہوگی اور عقل و تمیز کے بعد اسلام و ارتداد صحیح ہیں ۔
تنویر الابصار میں ہے :
اذا ارتد صبي عاقل صح كاسلامه2
بچہ اگر مرتد ہو جائے تو اس کا ارتداد صحیح ہے جیسے اس کا اسلام لانا صحیح ہے (ت)
سمجھ والا ہونے کی حالت میں اگر اس نے مرزائیت قبول کی یا اتنا ہی جانا کہ مرزا نبی یا س مسیح یا مہدی تھا تو اسی قدر اس کے مرتدہ ہونے کو بس ہے ۔ تجربہ ہے کہ یہ مرتد لوگ بہت بچپن سے اپنی اولاد کو اپنے عقائد کفریہ سکھاتے ہیں تو سائل کا کہنا کہ اپنے مذہب کو کچھ نہیں جانتی ہے بعید از قیاس ہے ۔ پھر ان لوگوں میں سے ایسی قرابت قریبہ رکھنا با رہا منجر بہ فتنہ و فساد مذہب ہوتا ہے، والعیاذ باللہ تعالی ، تو سلامت اسی میں ہےکہ اس کو فورا جدا کر دیا جائے ۔ واللہ تعالٰی اعلم
(فتاوی رضویہ،ج:11،ص:507،508،رضا فاؤنڈیشن لاہور)