مرزا صاحب نے حین حیات متعدد پیشین گوئیاں کیں اور انہیں قطعیت کے ساتھ اپنے کذب و صدق کے پرکھنے کا پیمانہ اور دلیل کے طور پر پیش کیا۔ ان کے اس دعویٰ کا ذکر اس اشتہار میں ہے جس میں وہ اپنی ایک پیشین گوئی کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
’’بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لیے ہماری پیشین گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محکِ امتحان نہیں ہو سکتا۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام: 288، روحانی خزائن، 5: 288)
قادیانی حضرات یہ اعلان بڑے فخر سے کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے جو پیشین گوئیاں کیں وہ سچی ثابت ہوئیں۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ دو چار پیشین گوئیاں اور الہام اگر سچے بھی ہوں تو اس میں مرزا صاحب کا کیا کمال؟ کیونکہ وہ خود کہتے ہیں: ’’بلکہ بعض فاسقوں اور غایت درجہ کے بدکاروں کو بھی خوابیں آجاتی ہیں اور بعض پرلے درجے کے بدمعاش اور شریر آدمی اپنے ایسے مکاشفات بیان کیا کرتے ہیں کہ آخر وہ سچے نکلتے ہیں۔‘‘
( توضیح المرام ،ص: 84، روحانی خزائن،ج: 3،ص: 95)
’’بعض اوقات ایک نہایت درجہ کی فاسقہ عورت جو کنجریوں کے گروہ میں سے ہے جس کی تمام جوانی بدکاری میں ہی گزری ہے کبھی سچی خواب دیکھ لیتی ہے اور زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ ایسی عورت کبھی ایسی رات میں بھی کہ جب وہ بادہ بسر و آشنا ببر کا مصداق ہوتی ہے کوئی خواب دیکھ لیتی ہے اور وہ سچی نکلتی ہے۔‘‘
( توضیح المرام،ص: 84، روحانی خزائن، ج:3،ص: 95)
مرزا صاحب کو اپنی پیشین گوئیوں کے سچا ہونے کا اتنا یقین تھا کہ وہ بڑے وثوق سے کہتے ہیں:
’’اگر ثابت ہو کہ میری 100 پیشن گوئیوں میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی ہو تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں۔‘‘
(اربعین نمبر 4: 25، روحانی خزائن، ج:17،ص: 461)
’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
( چشمہ معرفت: 222، مندرجہ روحانی خزائن، 23: 231)
اب ہم ذیل میں اختصاراً بطور ثبوت مرزا کی پیشین گوئیوں میں سے چند ایک نقل کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ مرزا صاحب اپنے وضع کردہ پیمانہ کے مطابق بھی کذاب اور جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی پہلی شادی اس کے ماموں مرزا جمعیت بیگ کی بیٹی حرمت بی بی سے 1852ء میں ہوئی جس سے دو بیٹے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے۔ جب مرزا قادیانی کا حرمت بی بی سے دل بھر گیا تو اس نے دہلی کی ایک آزاد خیال فیملی سے تعلق رکھنے والی نصرت جہاں سے 17 نومبر 1884ء کو دوسری شادی رچا لی۔ قادیانی نصرت جہاں کو ’’ام المومنین‘‘ (نعوذ باللہ) کا درجہ دیتے ہیں جبکہ مرزا قادیانی کی پہلی بیوی کو حقارت سے اس کے بیٹے فضل احمد کے حوالہ سے ’’پھجیّ دی ماں‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
نصرت جہاں سے شادی کے بعد مرزا قادیانی نے مالک ارض و سما اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے مندرجہ ذیل الہام بیان کیا:
پھر خدائے کریم جل شانہٗ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا، اور خواتینِ مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا، تیریی نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھائوں گا اور برکت دوں گا۔
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات ، ص: 111)
مرزا قادیانی نے مزیدکہا:
’’اس عاجز نے 20 فروری 1886ء کے اشتہار میں یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی کہ اس نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض بابرکت عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اور ان سے اولاد پیدا ہوگی۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 113 )
لیکن افسوس! مرزا قادیانی کے نکاح میں کوئی خواتین مبارکہ یا بابرکت عورتیں نہیں آئیں۔ قادیانی کہتے ہیں کہ اس سے مراد محمدی بیگم ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ پیش گوئی 1886ء کی ہے جبکہ محمدی بیگم کا مسئلہ کئی سال بعد شروع ہوا تھا اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمدی بیگم آخر تک مرزا قادیانی کے نکاح میں آئی؟ پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکیلی محمدی بیگم، خواتین مبارکہ ہو سکتی ہے؟ سو مرزا قادیانی کی یہ پیش گوئی بھی جھوٹی ثابت ہوئی۔ حالانکہ مرزا قادیانی نے اس پیش گوئی میں واضح طور پر کہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے۔ آپ خود سوچیے! جو شخص اللہ تعالیٰ پر بہتان لگائے، وہ کتنا بڑا جھوٹا، کذاب اور دجال ہوگا۔
مرزا قادیانی نے کہا تھا:
کیا اس کے سوا کسی اور چیز کا نام ذلت ہے کہ جو کچھ اس نے کہا، وہ پورا نہ ہوا۔‘‘
(انجام آتھم ص: 27 روحانی خزائن ،ج، 11 ص:311 )
مرزا قادیانی نے اپنے ایک خدائی الہام میں اپنی موت کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا:
’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات ص: 503)
مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا مدعی نبوت تھا۔ اس نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ اے مرزا قادیانی تُو مکہ میں مرے گا یا مدینہ میں۔ یعنی (نعوذ باللہ) مرزا قادیانی کے خدا کو بھی صحیح طرح معلوم نہ تھا کہ مرزا قادیانی مکہ میں مرے گا یا مدینہ میں؟ مرزا قادیانی کی یہ پیش گوئی سراسر غلط اور عبرتناک ثابت ہوئی۔ مرزا قادیانی برانڈرتھ روڈ لاہور کی احمدیہ بلڈنگ میں 26 مئی 1908ء کو مرا اور لاش ریل گاڑی پر قادیان بھجوائی گئی جب مرزا قادیانی کی لاش لاہور ریلوے اسٹیشن لے جانے کے لیے احمدیہ بلڈنگ سے باہر نکالی گئی تو زندہ دلانِ لاہور نے اس کا بڑا ’’شاندار استقبال‘‘ کیا۔ یعنی راستے بھر مرزا قادیانی کے جنازے پر اس قدر غلاظتیں اور پاخانے پھینکے گئے کہ اس کی لاش بڑی مشکل سے ریلوے سٹیشن تک پہنچ سکی۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں موت تو درکنار مرزا قادیانی کو ساری زندگی ان مقدس مقامات میں قدم رکھنے کی توفیق تک نہ ہوئی۔ جب کبھی مرزا قادیانی سے پوچھا جاتا کہ آپ حج کرنے کیوں نہیں جاتے؟ تو مرزا قادیانی طرح طرح کی تاویلات کرتا۔ کبھی کہتا کہ صحت ٹھیک نہیں ہے (جبکہ محمدی بیگم سے شادی کرنے کے لیے آخر عمر تک سر توڑ کوشش کرتا رہا) کبھی کہا گیا کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے (جبکہ مخالفین کو 10، 10 ہزار روپے کا چیلنج دیتا) کبھی کہتا کہ میری جان کو خطرہ ہے (درآں حالیکہ اس کا کہنا تھا خدا کے مرسلین کسی سے نہیں ڈرا کرتے) سچی بات یہ ہے اللہ تعالیٰ کو منظور ہی نہ تھا کہ مرزا قادیانی حرمین شریفین کی حدود میں داخل ہو۔
مرزا قادیانی کی عمر :
مرزا قادیانی کو اپنی عمر کے بارے میں الہام ہوا:
’’تَري نَسْلاً بَعِیْدًا وَلَنُحْیِیَنَّك حَیٰوة طَیِّبَة۔ ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْ قَرِیْبًا مِنْ ذَالِك اَوْ تَزِیْدُ عَلَیْه سِنِیْنًا۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰه مَفْعُوْلاً۔
تو دور کی نسل بھی دیکھے گا اور ہم تجھے خوش زندگی عطا کریں گے۔ اسّی سال یا اس کے قریب یا اس سے چند سال زیادہ۔ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات،ص: 301 )
مرزا قادیانی نے مزید کہا:
’’خدا تعالیٰ نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسّی برس کی ہوگی اور یا یہ کہ پانچ چھ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص:97، روحانی خزائن ج:21 ص:258)
’’خدا نے مسیحؑ کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچائوں گا اور اپنی طرف تیرا رفع کروں گا، جیسا کہ ابراہیمؑ اور دوسرے پاک نبیوں کا رفع ہوا۔ سو اس طرح ان لوگوں کے منصوبوں کے برخلاف خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ میں اسّی برس یا دو تین برس کم یا زیادہ تیری عمر کروں گا تا لوگ کمی عمر سے کاذب ہونے کا نتیجہ نہ نکال سکیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ (ضمیمہ) ص:8 روحانی خزائن ج:17 ص:44 )
مرزا قادیانی اپنے خدائی الہام میں کہتا ہے:
’’ہم تجھے ایک پاک اور آرام کی زندگی عنایت کریں گے۔ اسّی برس یا اس کے قریب قریب یعنی دوچار برس کم یا زیادہ۔ اور تو ایک دُور کی نسل دیکھے گا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص: 33 روحانی خزائن ج: 17 ص:69 )
مرزا قادیانی کی اس پیش گوئی کو سچا یا جھوٹا جانچنے کے لیے بڑا آسان فارمولا ہے کہ مرزا قادیانی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات دیکھ لی جائے۔ زیادہ لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں اور قادیانیوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ مرزا قادیانی 26 مئی 1908ء کو آنجہانی ہوا۔ اب صرف یہ معلوم کرنا باقی ہے کہ مرزا قادیانی کس سال میں پیدا ہوا؟ اس کا فیصلہ خود مرزا قادیانی کی اپنی تحریروں سے کر لیتے ہیں۔ مرزا قادیانی اپنے سوانح میں لکھتا ہے:
’’میرے ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا۔‘‘
(کتاب البریہ ص:159 ، روحانی خزائن ج:13 ص: 177 )
یہ مرزا قادیانی کی اپنی واضح تحریر ہے۔ اس میں کہیں بھی کوئی ایسی مشکل بات نہیں جس کی تاویل کی جا سکے۔ مرزا قادیانی نے صریح اور صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ اس کی پیدائش 1839ء یا 1840ء میں ہوئی۔ اس بات کی مزید تصدیق خود اس کے اپنے دوسرے بیان سے بھی ہوتی ہے کہ جب اس کا والد مرزا غلام مرتضیٰ فوت ہوا تو مرزا قادیانی کی عمر 34، 35 سال تھی۔
مرزا قادیانی لکھتا ہے:
’’میری عمر قریباً چونتیس یا پینتیس برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔‘‘
(کتاب البریہ ص:174،روحانی خزائن ج:13 ص: 192 )
مرزا غلام مرتضیٰ کا انتقال 1874ء میں ہوا۔ اس کا اقرار مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ کے صفحہ 116 پر کیا ہے۔
(نزول المسیح ص:116، روحانی خزائن ج:18 ص:494 )
مرزا قادیانی کا سال ولادت 1839ء یا 1840ء تھا اور سال وفات 1908۔ قارئین کرام! آپ خود حساب کر لیں کہ مرزا قادیانی نے کتنی عمر پائی تھی؟ اگر سال ولادت 1839ء تسلیم کیا جائے تو کل عمر 69 سال بنتی ہے اور اگر 1840ء مان لیا جائے تو کل عمر 68 سال بنتی ہے۔ لہٰذا الہامی دعوؤں، خدائی وحیوں اور بشارتوں کے باوجود مرزا قادیانی کی عمر 80 سال کے قریب نہ ہوئی اور اس کی پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی۔
’’بَارَك اللّٰه فِیْ اِلْهامِك وَوَحْیك وَرُؤْیَاك
برکت دی اللہ نے تیرے الہام میں اور تیری وحی میں اور تیرے خوابوں میں۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات،ص:569)
جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی کا ایک نام نہاد ’’صحابی‘‘ میاں منظور محمد، قادیان کی ایک مشہور و معروف شخصیت تھا۔ اس کی اہلیہ کا نام محمدی بیگم تھا۔ (یہ وہ محمدی بیگم نہیں تھی جس کے عشق میں مرزا قادیانی گرفتار ہوا تھا) اس کی دو لڑکیاں تھیں، حامدہ بیگم اور صالحہ بیگم۔ حامدہ بیگم کا نکاح سردار کرم داد خاں سے ہوا جبکہ صالحہ بیگم کا نکاح مرزا قادیانی کے سالے، مرزا بشیر الدین محمود کے ماموں اور نصرت بیگم کے بھائی میر محمد اسحاق سے ہوا۔ میاں منظور محمد کی اہلیہ محمدی بیگم اپنی پہلی بیٹی حامدہ بیگم کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد 1906ء میں جب دوبارہ حاملہ ہوئی تو اس کی خبر مرزا قادیانی کو کسی طریقے سے ہو گئی۔ مرزا قادیانی کی یہ عادت تھی کہ خواہ اس کا اپنا گھر ہو یا کسی مرید کا، اگر اُسے یہ پتہ چل جاتا کہ کوئی خاتون حاملہ ہے تو وہ فوراً لڑکا ہونے کی پیش گوئی داغ دیتا۔ مگر جب لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہو جاتی تو مختلف تاویلات کا سہارا لے کر اپنی شرمندگی مٹانے کی کوشش کرتا۔ اس قسم کی پیش گوئی مرزا قادیانی نے اپنے مرید میاں منظور کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کے متعلق کی۔ مرزا قادیانی نے اپنا الہام بیان کرتے ہوئے کہا:
19 فروری 1906ء ’’دیکھا کہ منظور محمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے، اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے۔ تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا: ’’بشیر الدولہ‘‘ فرمایا: کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن ہے کہ بشیرالدولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پیدا ہوگا، جس کا پیدا ہونا موجب خوشحالی اور دولتمندی ہو جائے۔ اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ وہ لڑکا خود اقبال مند اور صاحب دولت ہو۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کس وقت یہ لڑکا پیدا ہوگا۔ خدا نے کوئی وقت ظاہر نہیں فرمایا۔ ممکن ہے کہ جلد ہو، یا خدا اس میں کئی برس کی تاخیر ڈال دے۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات ، ص: 510، 511 )
،تقریباً ساڑھے تین ماہ بعد مرزا قادیانی نے منظور محمد اور ان کی اہلیہ محمدی بیگم کا نام لے کر کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ پیدا ہونے والے لڑکے کا ایک نام نہیں بلکہ دو نام ہوں گے۔ چنانچہ مرزا قادیانی لکھتا ہے:
7 جون 1906ء ’’بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں یعنی محمدی بیگم کا ایک لڑکا پیدا ہوگا، جس کے دو نام ہوں گے۔
بشیرالدولہ (2) عالم کباب
یہ ہر دو نام بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوئے اور ان کی تعبیر اور تفہیم یہ ہے:
بشیر الدولہ سے یہ مراد ہے کہ وہ ہماری دولت اور اقبال کے لیے بشارت دینے والا ہوگا۔ اس کے پیدا ہونے کے بعد یا اس کی ہوش سنبھالنے کے بعد زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی اور دوسری پیشگوئیاں ظہور میں آئیں گی، اور گروہ کثیر مخلوقات کا ہماری طرف رجوع کرے گا۔ اور عظیم الشان فتح ظہور میں آئے گی۔
عالم کباب سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے، دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی۔ گویا دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس وجہ سے اس لڑکے کا نام عالم کباب رکھا گیا۔ غرض وہ لڑکا اس لحاظ سے کہ ہماری دولت اور اقبال کی ترقی کے لیے ایک نشان ہوگا۔ بشیرالدولہ کہلائے گا اور اس لحاظ سے کہ مخالفوں کے لیے قیامت کا نمونہ ہوگا، عالم کباب کے نام سے موسوم ہوگا۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات، ص: 533، 534 )
اسی دن اور اسی تاریخ کو مرزا قادیانی کو تازہ الہام ہوتا ہے کہ اس پیدا ہونے والے بچے کے دو نام نہیں بلکہ 4 نام ہوں گے۔ مزید یہ بھی کہا کہ جب تک ان چار ناموں والا لڑکا میاں منظور محمد کے نطفہ سے محمدی بیگم کے بطن سے حامدہ بیگم اور صالحہ بیگم کا بھائی پیدا نہیں ہوگا، اس وقت تک میاں منظور کی اہلیہ محمدی بیگم ضرور زندہ رہے گی۔لکھتا ہے:
جون 1906ء ’’اس کے بعد معلوم ہوا کہ اس لڑکے کے دو نام اور ہیں۔ (1) ایک شادی خان کیونکہ وہ اس جماعت کے لیے شادی کا موجب ہوگا۔ (2) دوسرے کلمتہ اللہ خان کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا۔ جو ابتدا سے مقرر تھا، اس زمانہ میں پورا ہو جائے گا اور ضرور ہے کہ خدا اس لڑکے کی والدہ کو زندہ رکھے، جب تک یہ پیشگوئی پوری ہو اور گذشتہ الہام ’’اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘ اسی پیشگوئی کو بیان کرتا ہے جس کے معنی ہیں، ایک کلمہ اور دو لڑکیاں۔ کیونکہ میاں منظور محمد کی دو لڑکیاں ہیں اور جب کلمتہ اللہ پیدا ہوگا، تب یہ بات پوری ہو جائے گی۔ ایک کلمہ اور دو لڑکیاں۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات ،ص:534 )
صرف گیارہ دن بعد مرزا قادیانی پھر لکھتا ہے کہ اب الہام ہوا ہے کہ میاں منظور محمد کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکے کے چار نام نہیں بلکہ 9 نام ہوں گے۔ چنانچہ لکھتا ہے:
19 جون 1906ء ’’میاں منظور محمد صاحب کے اس بیٹے کا نام جو بطور نشان ہوگا، بذریعہ الہام الٰہی مفصلہ ذیل معلوم ہوئے:۔
(1) کلمتہ العزیز (2) کلمتہ اللہ خاں (3) وارڈ (4) بشیرالدولہ (5) شادی خاں (6) عالم کباب (7) ناصرالدین (8) فاتح الدین (9) ھذا یَوْمٌ مُّبَارَکٌ
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات ص:537 )
یہ کہانی لطیفے سے کچھ کم نہیں ۔
’’وحی الٰہی قریباً چار ماہ سے اخبار بدر اور الحکم میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے اور چونکہ زلزلہ نمونۂ قیامت آنے میں تاخیر ہو گئی، اس لیے ضرور تھا کہ لڑکا پیدا ہونے میں بھی تاخیر ہوتی لہٰذا پیر منظور محمد کے گھر میں 17 جولائی 1906ء میں بروز سہ شنبہ لڑکی پیدا ہوئی اور یہ دعا کی قبولیت کا ایک نشان ہے جو لڑکی پیدا ہونے سے قریباً چار ماہ پہلے شائع ہو چکی تھی۔ مگر یہ ضرور ہوگا کہ کم درجہ کے زلزلے آتے رہیں گے اور ضرور ہے کہ زمین نمونۂ قیامت زلزلہ سے رکی رہے جب تک وہ موعود لڑکا پیدا ہو۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات، ص:557)
مرزا قادیانی کا یہ کہنا درست نہیں کہ اس نے لڑکی کی پیدائش سے چار ماہ پہلے بتا دیا تھا کہ لڑکے کا آنا موخر ہو گیا ہے۔ لڑکی کی پیدائش 17 جولائی 1906ء ہے۔ اس حساب سے مرزا قادیانی کو 17 مارچ 1906ء کو یہ بات بتانی چاہیے تھی۔ جبکہ اس نے 7 جون 1906ء کو کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ اس لڑکے کے دو نام ہوں گے اور پھر 19 جون 1906ء کو اس لڑکے کے 9 نام بتائے۔ اس وقت کیوں نہ صاف صاف کہہ دیا کہ لڑکے کے بجائے لڑکی پیدا ہوگی؟ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑکی صالحہ بیگم کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد محمدی بیگم مر گئی۔ اور اس طرح 9 نام والا لڑکا آنا تھا نہ آیا۔ مرزا قادیانی کی یہ پیش گوئی بھی غلط اور جھوٹ ثابت ہوئی۔
مرزا قادیانی کا کہنا ہے:
’’جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
(چشمۂ معرفت ص:222 روحانی خزائن ج: 23 ص: 231)
عبد اللہ آتھم:
آتھم مرنے کی بجائے بچ گیا:
مرزا صاحب نے مسٹر عبد اللہ آتھم عیسائی سے 5 جون 1893ء میں مباحثہ کرنے کے بعد پیشن گوئی کی جس کے الفاظ یہ تھے: ’’آتھم پندرہ مہینے میں ہلاک ہو گا۔‘‘
( حقیقت الوحی: 185، مندرجہ روحانی خزائن، 22: 192)
دوسری جگہ مرزا صاحب نے کہا: ’’میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پہ ہے۔ وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اُٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے اور رو سیاہ کیا جاوے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے، مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانهٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرورکرے گا، ضرور کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں گے پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی … اب ناحق ہنسنے کی جگہ نہیں۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں، بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔‘‘
( جنگ مقدس: 210۔ 211، مندرجہ روحانی خزائن، 6: 292۔ 293)
اس پیشین گوئی کے مطابق آتھم کو 5، 6 ستمبر کی درمیانی رات 1894ء میں مر جانا چاہیے تھا مگر وہ نہ مرا بلکہ مقررہ معیاد ختم ہونے کے تقریباً دو سال بعد فوت ہوا۔ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ آتھم کو مرزا کی پیشین گوئی کے مطابق مقررہ معیاد ختم ہو جانے کے بعد مر جانا تھا مگر وہ نہ مرا اور اس پیشین گوئی کی وجہ سے مرزا جھوٹا ثابت ہوا۔ اب قادیانی اس سوال کا جواب دیں کہ وہ سزائیں جو مرزا نے خود اپنے لیے تجویز کی تھیں، ان پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟
مرزا قادیانی کے بڑے بیٹے مرزا محمود کا کہنا ہے کہ اس دن ہمارے گھر ماتم برپا تھا اور عورتوں کی طرح بین جاری تھا۔
اس کا کہنا تھا:
’’جب آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب و اضطراب سے دعائیں کی گئیں۔ میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا۔۔۔تیسری طرف بعض نوجوان (جن کی اس حرکت پر بعد میں برا بھی منایا گیا) جہاں حضرت خلیفہ اول مطب کیا کرتے تھے اور آج کل مولوی قطب الدین صاحب بیٹھتے ہیں، وہاں اکٹھے ہو گئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں، اس طرح انھوں نے بین ڈالنے شروع کر دیے۔ ان کی چیخیں سو سو گز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اللہ آتھم مر جائے، یا اللہ آتھم مر جائے، مگر اس کہرام اور آہ زاری کے نتیجہ میں آتھم تو نہ مرا۔‘‘
قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اس دن کس کے گھر ماتم برپا ہونا چاہیے تھا؟ مرزا قادیانی کے گھر یا آتھم کے گھر؟ مرزا قادیانی اوراس کے مریدین و اہل خانہ کو پورے اطمینان کے ساتھ آتھم کے مرنے کی خبر کا انتظار کرنا چاہیے تھا مگر یہاں معاملہ برعکس ہوا۔ بالآخر 5 ستمبر 1894ء کا دن گزر گیا۔ مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کو شرمندگی، ذلت اور رسوائی کی وجہ سے سر چھپانے کو جگہ نہ مل رہی تھی۔ 6 ستمبر کی صبح ہوتے ہی عیسائیوں نے مرزا قادیانی کی اس پیش گوئی کے غلط اور جھوٹا ہونے پر بڑا جلوس نکالا جس کی قیادت آتھم نے کی۔ انھوں نے بڑے بڑے پوسٹر شائع کیے۔ مرزا قادیانی کا پتلا بنا کر اس پر جوتے مارے اور اسے پھانسی دی۔ بعض عیسائی رسی لے کر قادیان میں مرزا قادیانی کے گھر اُسے سولی دینے کے لیے ’’حاضر‘‘ ہو گئے تھے مگر مرزا قادیانی کو گھر سے باہر آنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اور لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو خود اس کے اپنے الفاظ میں ’’تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ لعنتی سمجھنے پر مجبور ہوئے۔
بعدازاں ڈھیٹوں او ر بے شرموں کے سردار مرزا قادیانی نے کہا کہ خدا نے اسے بتایا کہ اس نے آتھم کو مزید کچھ عرصہ کے لیے مہلت دے دی تھی، اس لیے وہ وقت میعاد میں نہیں مرا۔
مرزا قادیانی نے لکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا:
’’اطلع اللّٰہ علٰی ھمہ و غمہ‘‘
خدا تعالیٰ نے اس کے ہم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی۔
مرزا قادیانی کی کتاب ’’انوار الاسلام‘‘ 27 اکتوبر 1894ء کی تصنیف ہے جبکہ پیش گوئی کی میعاد 5 ستمبر 1894ء تھی۔ جب یہ میعاد گزر گئی تو پھر خدا نے (ڈیڑھ ماہ بعد) مرزا قادیانی کو بتایا کہ ہم نے اسے مہلت دے دی ہے، اس لیے اب وہ نہیں مرے گا۔ کاش مرزا قادیانی کا خدا اسے وقت سے پہلے بتا دیتا تو چنے خراب ہوتے اور نہ مرزائیوں کے گھر ماتم برپا ہوتا۔ مرزا قادیانی کی اس بات میں کوئی وزن نہیں۔ پھر تقریباً 8 سال بعد (1902ء میں) مرزا قادیانی نے اپنی ذلت و رسوائی پر پردہ ڈالنے کے لیے عجیب نکتہ اٹھایا کہ آتھم نے اسی مجلس (5 جون 1893ئ) میں رجوع کر لیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آتھم نے اسی مجلس میں رجوع کر لیا تھا تو پھر مرزا قادیانی کو پیش گوئی کرنے، چنے پڑھوانے، ماتم کرنے اور پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی؟
مرزا قادیانی کی پہلی شادی حرمت بی بی سے اور دوسری شادی دہلی کی خاتون نصرت جہاں سے ہوئی۔اس کے باوجود اُسے تیسری شادی کا شوق چرایا۔ اتفاق سے اس کی نظر خاندان کی ایک بچی محمدی بیگم پر پڑگئی پھر کیاجھٹ اعلان کر دیا کہ اس لڑکی سے میرا آسمان پر نکاح ہو گیا ہے۔ اگر کوئی شخص اس سے شادی کرے گا تو نہ صرف وہ مر ے گا بلکہ لڑکی کا والد بھی مر جائے گا۔مگر محمدی بیگم کے گھر والوں نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے قریبی عزیز سلطان احمد سے کر کے اس کی رخصتی کر دی۔ اس پر مرزا قادیانی نے اپنے مریدوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو، جلد ہی یہ لڑکی بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی۔ مرزا قادیانی کی خوش گمانی تھی کہ شاید محمدی بیگم کا شوہر فوت ہو جائے تو محمدی بیگم اس کے نکاح میں آ جائے گی۔ پھر لوگوں کو بتایا جائے گا کہ بیوہ عورت کے ملنے سے یہ بشارت پوری ہو گئی۔ مگر افسوس محمدی بیگم کا شوہر فوت ہوا نہ وہ بیوہ ہوئی۔ اس طرح محمدی بیگم سمیت کسی بھی بیوہ کو مرزا قادیانی کی بیوی بننے کا شرف حاصل نہ ہو سکا اور مرزا قادیانی بیوہ کا انتظار کرتے کرتے قادیان کے قبرستان میں چلا گیا۔ اب آپ مرزا قادیانی کا الہام ملاحظہ فرمائیں:
’’تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گذرا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنہ کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج کل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا تھا اور وہ یہ ہے کہ بکرو ثیب جس کے یہ معنی ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کیے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا۔ ایک بکر ہوگی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بکر کے متعلق تھا پورا ہوگیا اور اس وقت بفضلہ تعالیٰ چار پسر اس بیوی سے موجود ہیں اور بیوہ کے الہام کی انتظار ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص:73، روحانی خزائن ج:15ص:201 )
پیش گوئی بتا رہی ہے کہ مرزا قادیانی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی اور اس سے وعدہ کیا گیا کہ ’’اللہ تعالیٰ دو عورتیں تیرے نکاح میں لائے گا، ایک کنواری اور دوسری بیوہ۔‘‘ بقول مرزا قادیانی کنواری کا الہام پورا ہوگیا۔ بیوہ کے نکاح کا انتظار ہے۔ لیکن مرزا قادیانی کا تا حیات کسی بیوہ سے نکاح نہیں ہوا اور وہ اس کی حسرت لیے دنیا سے کوچ کر گیا۔ یہ پیش گوئی ایک گپ اور جھوٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
قادیانی تنخواہ یافتہ مبلغین نے مرزا قادیانی کے اس ناکام الہام سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے الٹا اس کی غلط تادیلات کرنا شروع کر دیں۔ قادیانی مناظر جلال الدین شمس لکھتا ہے:’’
یہ الہامِ الٰہی اپنے دونوں پہلوئوں سے حضرت ام المومنین کی ذات میں ہی پورا ہوا ہے، جو بکر یعنی کنواری آئیں اور ثیب یعنی بیوہ رہ گئیں۔‘‘
(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات ،ص:31 )
یہ ہے ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘! جلال الدین کہتا ہے کہ یہ الہام صرف نصرت جہاں کے بارے میں ہے۔ جب وہ مرزا قادیانی کے نکاح میں آئی تو کنواری تھی جب مرزا قادیانی مر گیا تو بیوہ ہو گئی۔ اس کے برعکس مرزا قادیانی کہتاہے کہ کنواری آ گئی ہے جبکہ بیوہ کے الہام یعنی بیوہ عورت سے شادی کا منتظر ہوں کہ کب وہ پیش گوئی پوری ہو؟ مرزا قادیانی کہہ رہا ہے کہ الہام پورا نہیں ہوا جبکہ تنخواہ یافتہ ناخلف مرید کہہ رہا ہے کہ حضرت آپ بکواس کر رہے ہیں، الہام پورا ہو چکا ہے۔ حالانکہ مرزا قادیانی کا کہنا ہے:
’’ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنی نہیں سمجھ سکتا اور نہ کسی کا حق ہے جو اس کے مخالف کہے۔‘‘
(حقیقت الوحی تتمہ ص: 7 روحانی خزائن جلد: 22 ص: 438 )
4 اپریل 1905ء کو ہندوستان میں جب بڑا زلزلہ آیا تو مرزا صاحب نے سمجھا کہ اس کے بعد بھی زلزلے آئیں گے تو میں پہلے ہی پیشگوئی کردیتا ہوں تاکہ اگر زلزلہ آجائے تو میں کہوں گا کہ دیکھو میں نے پہلے ہی پیشگوئی کی تھی۔ لیکن مرزا صاحب اپنی اس پیشگوئی میں بھی "کذاب"ثابت ہوئے۔آیئے مرزا صاحب کی اس پیشگوئی کی تفصیل دیکھتے ہیں۔
مرزا صاحب نے 8 اپریل 1905ء کو ایک اشتہار شائع کروایا جس میں لکھا تھا:
"آج رات کے تین بجے خدا کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی۔تازہ نشان کا دھکہ۔زلزلتہ الساعتہ۔خدا ایک تازہ نشان دکھائے گا۔مخلوق کو ایک نشان کا دھکہ لگے گا۔وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا۔مجھے علم نہیں دیا گیا کہ وہ زلزلے سے مراد زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے جو دنیا پر آئے گی جس کو قیامت کہہ سکیں۔اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب آئے گا۔اور مجھے علم نہیں کہ وہ چند دن تک ظاہر ہوگا یا چند ہفتوں تک ظاہر ہوگا۔یا خدا تعالٰی اس کو چند مہینوں یا چند سال کے بعد ظاہر فرمائے گا۔یا کچھ اور قریب یا بعید۔"
اس کے علاوہ 14 اپریل 1905ء کو بھی مرزا صاحب نے اپنا ایک کشف سنایا۔
"میں قادیان کے بازار میں گاڑی پر سوار ہوں۔ اس وقت زلزلہ آیا۔مگر ہم کو کوئی نقصان اس زلزلہ سے نہیں ہوا۔"
اس کے بعد 15 اپریل 1905ء کو مرزا صاحب نے آنے والے زلزلے کے بارے میں ایک پوری نظم لکھی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
ایک نشان ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد
جس سے گردش کھائینگے دیہات شہر ومرغزار
آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب
اک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تاباندھے ازار
اب ایک اور حوالہ پڑھیں جس میں مرزا صاحب نے اس زلزلے کا اپنی زندگی میں ہی آنا یقینی بتایا۔
"خدا تعالٰی کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ "پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے اور جیسا کہ بعض الہامات سے سمجھا جاتا غالبا صبح کا وقت ہوگا یا اس کے قریب۔اور غالبا وہ وقت نزدیک ہے۔ جبکہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے۔اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے (اس تاخیر کی تعیین بھی اسی صفحے میں کی گئی ہے)بار بار وحی الہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک اور میرے ہی فائدے کے لئے ظہور میں آئے گی۔ اگر خدا تعالٰی نے بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ 16 سال میں۔ضرور ہے کہ یہ میری زندگی میں ظہور میں آجائے۔"
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ یہ پیشگوئی اگر میری زندگی میں پوری نہ ہوئی تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔
"ایسا ہی آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیشگوئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں۔اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔"
ان ساری تحریرات سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
1) مرزا صاحب نے اپریل 1905ءکو ایک بہت بڑے زلزلے کی پیشگوئی کی۔
2) وہ زلزلہ بہت جلدی آنا تھا۔
3) مرزا صاحب نے اس زلزلے سے ڈر کر اپنے مریدوں کے ساتھ خیموں میں رہنا شروع کردیا۔
4) مرزا صاحب نے کہا کہ بہار کے مہینے میں زلزلہ آئے گا۔
5) اگر یہ پیشگوئی مرزا صاحب کی زندگی میں پوری نہ ہوئی تو مرزا صاحب خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ بلکہ "کذاب" ہے۔
معزز قارئین اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کو ذلیل کرنا تھا اس لئے جس زلزلے کی پیشگوئی مرزا صاحب نے کی تھی وہ زلزلہ نہیں آیا۔
مرزا کا بیٹا مبارک احمد سخت بیمار ہو گیا۔ مرزا نے پیشین گوئی کی کہ:
’’27 اگست 1907 ء صاحب زادہ میاں مبارک صاحب جو تپ سے سخت بیمار ہیں۔ اور بعض دفعہ بیہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اور ابھی تک بیمار ہیں۔ ان کی نسبت آج الہام ہوا قبول ہو گئی۔ نو دن کا بخار ٹوٹ گیا۔ یعنی یہ دعا قبول ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب موصوف کو شفا دے۔ یہ پختہ طور پر یاد نہیں رہا کہ کس دن بخار شروع ہوا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میاں کی صحت کی بشارت دی۔‘‘
(تذکرہ، مجموعہ الہامات، ص:616)
جبکہ یہ لڑکا 16 ستمبر کو صبح کے وقت فوت ہو گیا۔ مرزا بشیر احمد کا بیان ہے:
’’1907ء میں ہمارا چھوٹا بھائی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چھوٹا لڑکا مبارک احمدبیمار ہو گیا اور اسی بیماری میں بیچارہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔ مبارک احمد کی بیماری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی تیمار داری اور علاج معالجہ میں اس قدر شغف تھا کہ گویا آپ نے اپنی ساری توجہ اسی میں جما رکھی تھی اور ان ایام میں تصنیف وغیرہ کا سلسلہ بھی عملاً بند ہو گیا تھا۔‘‘
( اخبار الفضل،ص:3،کالم:3، نمبر :247، جلد: 28، مورخہ30 اکتوبر 1940ء)
اللہ تعالی اپنی جانب سے ان انبیاء کو منتخب فرماتا ہے جو عالی صفات کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی پاک دامنی اور صدق گوئی کی گواہی ان کے گردو پیش کے لوگ دیتے ہیں لیکن یہان تو حال ہی برعکس ہے کہ جو بات منہ سے نکلتی ہے وہی جھوٹ ہوتی ہے وہ نبی تو دور اچھا انسان کیسے ہوسکتا ہے۔ در اصل مرزا قادیانی نے انبیاء کرام کی طرف کذب منسوب کرنے کی کوشش کیں ہے کہ جب اس سے پوچھا جاتا کہ جو آپ نے پیش گوئی کیں وہ واقع نہیں ہوئی تو وہ کہتا کہ پہلے انبیاء کا معاملہ اسی طرح تھا ،اللہ تعالی مسلمانوں کو قادیان کے فتنوں سے محفوظ فرمائیں۔