تاریخ انبیاء کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ یہ حضرات اپنی سیرت و کردار اور اخلاق کے لحاظ سے روشنی کا ایک مینار تھے۔ وہ اپنی قوم کے لئے جن کے درمیان وہ پیدا ہوئے ایک کامل نمونہ تقلید تھے۔ انبیاء کرام کے ذاتی اخلاق وکردار پر حرف گیری کی جسارت تو کبھی ان کے جانی دشمنوں کو بھی نہ ہوئی۔ وہ خلقت کے اعتبار سے معصوم عن الخطاء تھے، گناہ وبدی کی پرچھائیں بھی ان کے قریب سے نہ گزریں۔ اس تناظر میں مرزا صاحب کے ذاتی اخلاق وکردار کو ذرا قریب سے ان کے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو وہ عام اخلاقی معیار سے بھی گرا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے لئے تو درکنار عام انسانوں کے لئے بھی قطعی طور پر قابل رشک اور قابل تقلید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سیرت وکردار کے حامل شخص کو کسی اعتبار سے ایک مصلح یا مذہبی رہنما تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مرزا صاحب کے ذاتی اخلاق وکردار کے چند حیرت انگیز گوشے درج ذیل ہیں:
مرزا صاحب شراب کا استعمال بکثرت کرتے تھے۔ اس عادتاً مے نوشی کا جواز فراہم کرنے کے لئے مرزا صاحب اور ان کے حواریوں نے اسے بھی نعوذ باللہ شریعت قرار دے ڈالا۔ ان کا ایک معتقد ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی شراب کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:
آپ کو ضعف کے دورے ایسے شدید پڑتے تھے کہ ہاتھ پاؤں سرد ہو جاتے تھے، نبض ڈوب جاتی تھی میں نے خود ایسی حالت میں آپ کو دیکھا ہے کہ نبض کا پتہ نہیں ملتا تھا تو اطباء یا ڈاکٹروں کے مشورے سے آپ نے ٹانک وائن کا استعمال اندریں حالات کیا ہوا ہو تو پس مطابق شریعت ہے، آپ تمام دن تصانیف کے کام میں لگے رہتے تھے، راتوں کو عبادت کرتے تھے، بڑھاپا بھی پڑتا تھا تو اندریں حالات اگر ٹانک وائن بطور علاج پی بھی لی ہو تو کیا قباحت لازم آگئی۔
مرزا صاحب کے ایک عقیدت مند حکیم محمد حسین قریشی نے وہ تمام خطوط جمع کر کے شائع کر دیئے جو موصوف نے اس کے نام مختلف اوقات میں لکھے، ان میں سے ایک خط یہ بھی ہے جس میں مرزا نے اسے ٹانک وائن خرید کر بھیجنے کا حکم دیا۔ خط کا متن یہ ہے: محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خریدنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ٹانک وائن ای پلومر کی دکان سے خرید دیں مگر ٹانک وائن چاہئے اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیریت ہے۔ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ
مرزا صاحب نفسانیت اور شہوت پرستی سے کبھی کبھار حظ اٹھا لیا کرتے تھے لیکن ان کے خلیفہ تو ساری حدیں پھلانگ گئے تھے۔ اس حوالے سے ماہنامہ ’’الفضل‘‘ کی ایک رپورٹ درج ذیل ہے:
حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) ولی اللہ تھے اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کر لیا کرتے تھے اگر انہوں نے کبھی کبھار زنا کر لیا تو اس میں حرج کیا ہوا پھر لکھا ہے، ہمیں حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) پر اعتراض نہیں، کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کیا کرتے تھے، ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔
مرزا صاحب غیر محرم عورتوں سے اختلاط اور قربت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، قادیانی اخبار الحکم کی ایک خبر دیکھئے:
سوال ششم: حضرت اقدس (مرزا قادیانی) غیر عورتوں سے ہاتھ پاؤں کیوں دبواتے تھے؟ جواب: وہ نبی معصوم ہیں ان سے مس کرنا اور اختلاط منع نہیں بلکہ موجب رحمت و برکات ہے۔
عشق کا روگ ہے کیا پوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا ہے میرے دل! ابھی کچھ پاؤ گے
تم بھی کہتے تھے کہ الفت میں بڑا مزا ہوتا ہے
سبب کوئی خداوند بنا دے
کسی صورت میں وہ صورت دکھا دے
کرم فرما کے آ او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہو کر
دلا اک بار شور و غل مچا دے
نہیں منظور تھی گر تم کو الفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
مری دلسوزیوں سے بے خبر ہو
مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اس کو دوں یا ہوش یا جاں
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
(بشیر احمد قادیانی، مرزا، سیرت المہدی، 1: 232، 233)
مولوی سعداﷲ لدھیانوی کے متعلق چند اشعارملاحظہ فرمائیں:
ومن اللئام اري رجیلا فاسقا
غولا لعینا نطفةالسفھاء
اور لئیموں میں سے ایک فاسق معمولی آدمی کو دیکھتاہوں کہ ایک شیطان ملعون ہے ، سفیہوں کا نطفہ ہے ۔
شکس خبیث مفسد و مزور
نحس یسمی السعد فی الجهلاء
یہ بدگو اور خبیث اور مفسد اور جھوٹ کو ملمع کرکے دکھانے والا منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعداﷲ رکھا ہے ۔
آذیتنی خبثا فلست بصادق
ان لم تمت بالخزي یا ابن بغاء
تو نے اپنی خباثت سے مجھے د کھ دیا ہے پس میں سچا نہیں ہوں گا اگر ذلت کے ساتھ تیری موت نہ ہو اے نسل بدکاراں ۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص: 14،15، روحانی خزائن ،ج:22،ص445،446)
مگر کیا یہ لوگ قسم کھا لیں گے ہر گز نہیں کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں ۔
(ضمیمہ انجام آتھم ،ص :250، ، روحانی خزائن، ج:11ص:309)
بعض جاہل اور فقیری سجادہ نشین اور مولیت کے شتر مرغ
(ضمیمہ انجام آتھم ص :180، روحانی خزائن ،ج:11ص:302)
ان العدا صاروا خنازیر الفلا
ونسائھم من دونھن الا كلب
دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔
(نجم الہدیٰ ص :53، روحانی خزائن ج:14، ص؛53)
ہر مسلمان مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعوے پر ایمان لاتا ہے مگر زناکار کنجریوں کی اولاد، جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔
لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں، مومن لعان نہیں ہوتا۔
مرزا قادیانی کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس نے کسی پر لعنت ڈالی تو بجائے یہ کہنے کے کہ تجھ پر ہزار لعنت ہو یا تحریری طور پر اسے اس طرح لکھ دیتا مگر اس نے باقاعدہ لعنت نمبر 1، لعنت نمبر 2، لعنت نمبر 3، لعنت نمبر 1000 تک لکھ دیا۔
میں اس (اللہ تعالیٰ) کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایہ رحمت کے نیچے جگہ دی، جس کے زیرسایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام نصیحت و وعظ کا ادا کر رہا ہوں اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پر رعایا میں سے شکر واجب ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصد جو جناب قیصرہ ہند کی حکومت کے سایہ کے نیچے اختتام پذیر ہو سکتے اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی۔ اب میں حضورِ ملکہ معظمہ میں زیادہ مصدع اوقات ہونا نہیں چاہتا اور اس دعا پر عریضہ ختم کرتا ہوں کہ اے قادر و کریم اپنے فضل و کریم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم اس کے سایہ عاطفت کے نیچے خوش ہیں اور اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں و احسانوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان معروضات پر کریمانہ توجہ کرنے کے لیے اس کے دل میں آپ الہام کر کہ ہر ایک قدرت و طاقت تجھی کو ہے۔ آمین ثم آمین الملتمس خاکسار: مرزا غلام احمد از قادیان
سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں، ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔
برٹش گورنمنٹ فضل ایزدی اور سایہ رحمت ہے اس کی ہستی احمدیت کی ہستی ہے۔