عقیدہ ختم نبوت کا آسان سا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے تمام رسولوں اور نبیوں کے بعد ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور رسول بنا کر بھیجااور آپ کے بھیجنے کے بعد اب اللہ تعالی دوبارہ کسی کو نبوت عطا نہیں فرمائے گا۔ جو آخری نبی کے طور پہ آنا تھا دنیا کے اندر وہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام آ چکے ہیں تو اب آپ کے بعد آپ کے زمانے میں یا آپ کے بعد قیامت تک اب کسی نئے نبی نے نہیں آنا کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی کسی کو اس منصب کے اوپر فائز نہیں کیا جائے گا۔تو یہ ہے ہمارا بنیادی عقیدہ اور باقی رہا اس کا تعلق کہ اس کا ماننا کیا ہے اور اس کے نام ماننے کا حکم کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا ماننا تو ایسے ہی ہے کہ یہ جیسے قرآن پاک کا ماننا کیونکہ نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی جو ختم نبوت کا بیان ہے یہ قرآن پاک میں ہے اور قرآن پاک پر ایمان رکھنا فرض ہے ۔
قرآن پاک کے ایک لفظ کا بھی اگر کوئی انکار کرے گا تو وہ کا فر ہے اور وہ مسلمان نہیں ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے تو نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا آخری نبی ہونا یہ قرآن کا بیان کردہ عقیدہ ہے اب اس کا انکار کرے گا تو وہ قرآن ہی کا منکر قرار پائے گا تو قرآن کا منکر کافر ہے،قرآن میں بیان کردہ عقیدے کا منکر وہ بھی کافر ہے۔
ایک تو یہ پہلودوسرے نمبر پہ نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا جو آخری نبی ہونا ہے یہ خود نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے جتنی مرتبہ اور جتنے انداز میں بیان فرمایا ہے علماء نے جو اس کی احادیث جمع کی ہیں ان کی تعداد تقریبا تین سو سے زیادہ ہے اور یہ وہ ہیں کہ جو بالکل واضح طور پہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے آخری نبی ہونے کو بیان کرتیں ہیں۔ جس میں یا ختم نبوت کا لفظ ہے یا خاتم النبین کا لفظ ہے یا انقطاع نبوت کا لفظ ہے یا آخر الامم جیسے الفاظ ہیں اس طرح کے وہ الفاظ کہ جس میں بہت واضح طور پہ عبارت النص کے طور پہ اشارۃ النص کے طور پہ یہ موجود ہوگا کہ نبی پاک علیہ السلام آخری نبی تو اب نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک بات بھی اگر جو آپ سے قطعی یقینی طور پہ ثابت ہو اس کا انکار کرنا یہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام ہی کو جھٹلانا ہے کہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کی ثابت شدہ ایک بات کو یا آپ کی بات سمجھتے ہوئے اس کا انکار کرنا یہ سیدھا سیدھا تکذیب ہے، تکذیب رسالت ہے یہ تکذیب نبی ہے تو ایک بات کا انکار کرنے والا بھی کافر ہے جبکہ اس کی نسبت کو وہ مان لے تو یہ جو اتنی بڑی تعداد ہوتی ہے اسے اصطلاح شرح میں کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام سے تواتر کے ساتھ ہے ،تواتر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد نے ہمیشہ اس بات کو نقل کیا ہے کہ جتنی بڑی تعداد کا جھوٹ پہ جمع ہونا محال ہے ناممکن ہے ایسا ہو نہیں سکتا کہ اتنی بڑی تعداد ایک ہی بات کو یوں نقل کرے تو جو تواتر سے ثابت ہوتا ہے اس کا انکار کرنا بھی کفر ہوتا ہے اور نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی ختم نبوت کا جو بیان ہے وہ تین سو تیرہ احادیث میں ہے اور کوئی چھیالیس سےزیادہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے وہ روایات بیان کی اور اس کے بعد جو تعداد ہے وہ تو پھر بڑھتی گئی مسلسل ،تو یہ تواتر کے ساتھ منقول عقیدہ تو لہذا اس اعتبار سے بھی اس کا جو ہے انکار کفر ہے۔
تیسری بات کفر ہے کہ عقائد کے اندر مختلف درجات ہوتے ہیں کہ ایک قطعی یقینی، اجماعی عقائد ایک اس سے کچھ نیچے درجے کے ہوتے ہیں، اس سے کچھ نیچے درج کے ہوتے ہیںعقائد کا سب سے بلند درجہ کو ضروریات دین کہتے ہیں:
ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتره یا اجماع قطعی قطعی الدلالات واضحة الافادات سے ہوتا ہے۔ جن میں نہ شبہے کی گنجائش ، نہ تاویل کو راہ اور ان کا منکر ، ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :۔
پانچ وقت کی نماز ہر مسلمان عاقل و بالغ پر فرض ہے۔ اس کی فرضیت کو ہر کلمہ گو جانتا ہے۔ عالم بھی ، جاہل بھی متقی بھی اور فاسق بھی لیکن ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نماز کو فرض نہیں سمجھتا تو وہ کافر و مرتد ہے ۔ کیونکہ اس نے ایک ضرورت دینی کا انکار کیا۔
خنزیر کی حرمت ضروریات دین سے ہے۔ اگر کوئی مسلمان شخص کہے کہ میں خنزیر کو حرام نہیں سمجھتا تو وہ کافر و مرتد ہے۔ کیونکہ اس نے ایک ضرورت دینی کا انکار کیا۔ ایسے ہی خمر کی حرمت کا منکر بھی کافر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ضروریات دین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس کا نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے دین سے ہونا ہر عام و خاص کو پتہ ہے کوئی عالم ہے یا کوئی علماء کی صحبت میں بیٹھنے والا ہے جسے دین کا تھوڑا بہت بھی شغف ہے وہ یہ جانتا ہے کہ یہ اسلام کا عقیدہ ہے یہ اسلام کی بات ہےجیسے اللہ کو ماننا ،رسول اللہ کو ماننا وغیرہ وغیرہ ۔
ان عقیدوں کو سنتے ساتھ ہی ایک درمیانہ سا بھی بلکہ درمیانے سے بھی کم درجے کا دین سے تعلق رکھنے والا بندہ سمجھ لیتا ہے کہ یار یہ تو ہمارا اسلام کا عقیدہ ہے ۔ یہ تو ہمارا دین ہے نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے ختم نبوت کا عقیدہ بھی اسی درجہ میں آتا ہے اسی قسم میں آتا ہے تو یہ اس قسم کا عقیدہ ہے اور اس پر پوری امت متفق ہے یعنی یہ اجماع امت سے ہے۔ اور اجماع امت بھی اس بات کے اوپر کہ یہ دین کے مرکزی ترین عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ہے۔ تو لہذا اب جو اس کا انکار کرے گا وہ ہوگا ضروریات دین کا انکا ر۔ ضروریات دین کا ماننا فرض اور کسی ایک دینی ضروری عقیدے کا انکار کرنا کفر ہوتا ہے تو یہ ہے عقیدہ ختم نبوت کا معاملہ کہ اس کا ماننا اتنا ہی فرض ہے کہ جتنا نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کو خود نبی ماننا فرض ہے۔ نبی ماننا اور آخری نبی ماننا یہ دونوں برابر درجے کے ہیں تو لہذا ماننا اتنا فرض اور اس کا انکار کرنا اتنا ہی بڑا کفر ہے کہ جتنا نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کو نبی ماننے سے انکار کر دے،علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں کہ:
اگر کوئی شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ حضرت محمدصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان ہی نہیں کیونکہ یہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔1