logoختم نبوت

قھر الدیان علی مرتد بقادیان ۔۔۔از۔۔۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ

الحمد ﷲ وكفٰی، سمع اﷲ لمن دعا، لیس وراء اﷲ منتھٰی، ان ربی لطیف لما یشاء، صلوات العلی الاعلٰی، وتسلیماته المنزھة عن الانتھاء، وبرکاته التی تنمی وتنمٰی، علی خاتم النبیین جمیعا، فمن تنبّأ بعدہ تامّا اوناقصا فقد کفر وغوٰي ، اﷲ اکبر علٰی من عاث وعتا، ومرد وعصٰی، وفی ھوة ھواه ھوٰي، اللھم اجرنا من ان نذل ونخزٰي، او نزلّ ونشقٰی، ربنا وانصرنا بنصرك علٰی من طغٰی وبغٰی،و ضل واضل عن سبیل الاھتداء، صل علی المولٰی واٰله وصحبه ابدا ابدا، واشھد ان لا الٰه اِلَّا اﷲ وحدہ لا شریک له احدا صمدا، وان محمدا عبدہ ورسوله بالحق ودین الھدٰی، صلی اﷲ تعالیٰ علیه وعلٰی اٰلہ وصحبه دائما سرمدا
تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے، دعا کرنے والے کیلئے کفایت فرماتا اور سنتا ہے، اﷲ تعالیٰ کے بغیر کو منتہیٰ نہیں بیشک میرا رب جس پر چاہے لطف فرماتا ہے، اﷲ تعالیٰ کی صلوٰتیں، تسلیمات اور برکتیں جو بڑھتی ہیں اور انتہا سے پاک ہیں تمام انبیاء کے خاتم پر، تو جو آپ کے بعد تام یا ناقص نبوت کا مدعی ہوا تو وہ کافر ہوا اور گمراہ، اﷲ تعالیٰ ہر سرکش، باغی، کھلے نافرمان اور اپنی خواہش کے گڑھے میں گرنے والے پر غالب وبلند ہے، اے باری تعالیٰ! ہمیں ذلّت، رسوائی، پھسلنے اور بدبختی سے محفوظ فرما۔ یا اﷲ! ہماری اپنی خاص مدد فرما ہر باغی اور سرکش اور جو بھی گمراہ ہو اور گمراہ کرتا ہو سیدھے طریقے سے ان سب کے خلاف۔ اور رحمت نازل فرما ہمارے آقا پر اور ان کی آل واصحاب پر ہمیشہ ہمیشہ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں، وہ وحدہ لا شریک احد صمد ہے اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے خاص بندے اور برحق رسول ہیں اور اس کا دین ہدایت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو ان پر اور ان کے آل واصحاب پر دائمی۔ ت اﷲ اکبر علیٰ من عتا وتکبر۔ (اﷲ تعالیٰ ہر سرکش اور متکبر پر غالب وبلند ہے۔ ت)
مدّتے ایں مثنوی تا خیر شُد مُہلتے بایست تاخُوں شیر شد
(اس مثنوی کو ایک مدّت تاخیر ہوئی، خون کے دودھ بننے کے لئے مدت چاہیے۔ ت)

اﷲ عزوجل اپنے دین کا ناصر، اپنے بندوں کا کفیل، وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل، رسالہ ماہواری رد قادیانی کی ابتداء حکمتِ الہٰیہ نے اس وقت پر رکھی تھی کہ یہاں دو چار جاہلان محض اس کے مرید ہو آئے، مسلمانوں نے حسب حکم شرع شریف ان سے میل جول، ارتباط، سلام، کلام یک لخت ترک کر دیا۔ دین میں فساد، مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے والوں نے یہ

الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ 3
(بڑے عذاب سے قبل دنیاوی چھوٹا عذاب)

چکھا، مسلمانوں پر حملے میں اپنی چلتی میں کوئی گئی نہ کی، بس نہ چلا تو متواتر عرضیاں دیں کہ ہمارا پانی بند ہے، ہم پر زندگی تلخ ہے، بیدار مغز حکومت ایسی لغویات کو کب سنتی، ہر بار جواب ملا کہ مذہبی امور میں دست اندازی نہ ہوگی، سائلان آپ اپنا انتظام کریں، آخر بحکم آنکہ ع

دست بگیرد سرِ شمشیر تیز
(تیز تلوار کا سرا ہاتھ میں پکڑا۔ ت)

ایک بے قید پرچے روہیل کھنڈ گزٹ میں اشتہار چھاپا کہ عمائدِ شہر اگر علمائے طرفین سے مناظرہ کرائیں اور وہ بھی اس شرط پر کہ دونوں طرف سے خود وہی منتظم رہیں تو ہمیں اطلاع دیں کہ ہم بھی مرزائی ملانوں کو بلا لیں اور اس میں علمائے اہلسنّت کی شان میں کوئی دقیقہ بد زبانی واکاذیب بہتانی وکلماتِ شیطانی کا اٹھا نہ رکھا، یہ حرکت نہ فقط ان بے علم، بے فہم مرزائیوں بلکہبعونہٖ تعالیٰ خود مرزا کے حق میں کالباحث عن حتفہ بظلفہٖ (اس کی طرح جو اپنی موت اپنے کھُر سے کرید کر نکالے۔ ت) سے کم نہ تھی۔

ست باز و بجہل میفگند پنجہ با مردِ آہنیں چنگال
(ہر فاہم وجاہل کو چھیڑا، آہنی پنجے والے مرد سے پنجہ آزمائی کی۔ ت)

مگر از انجا کہ

عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ3
(قریب ہے کہ تم ناگوار سمجھو گے بعض چیزیں اور وہ تمہارے لئے بہتر ہوں گی۔)
ع
خدا شرّے بر انگیز د کہ خیر مَا دراں باشد
(اﷲ تعالیٰ ایسا شر لاتا ہے جس میں ہماری خیر ہو۔ ت)

یہ ایک غیبی تحریک خیر ہوگئی جس نے اس ارادہ رسالہ کی سلسلہ جنبانی فرما دی، اشتہار کا جواب اشتہاروں سے دیا گیا۔ مناظرہ کے لئے ابکار افکار مرزا قادیانی کو پیام دیا، اس کے ہولناک اقوال ادِّعائے رسالت ونبوت وافضلیت من الانبیاء وغیرہا کفر وضلال کا خاکہ اڑایا، گالیوں کے جواب میں گالی سے قطعی احتراز کیا، صرف اتنا دکھا دیا کہ تمہاری آج کی گالی نرالی نہیں، قادیانی تو ہمیشہ سے اﷲ ورسول وانبیائے سابقین وائمہ دین سب کو گالیاں سناتا رہا ہے، ہر عبارت اس کی کتابوں سے بحوالہ صفحہ مذکور ہوئی، مضمون کثیر تھا، متعدد پرچوں میں اشاعت منظور ہوئی، ’’ہدایت نوری بجواب اطلاع ضروری‘‘ نام رکھا گیا، اس میں دعوتِ مناظرہ، شرائط مناظرہ، طریق مناظرہ، مبادی مناظرہ سب کچھ موجود ہے۔

اس مختصر تحریر نے اپنی سلک منیر میں متعدد سلاسل لئے، سلسلہ دشنام ہائے قادیانی بر حضرتِ ربّانی ورسولانِ رحمانی ومحبوبانِ یزدانی، سلسلہ کفریات وضلالاتِ قادیانی، سلسلہ تناقضات وتہافتات قادیانی، سلسلہ دجّالی وتلبیساتِ قادیانی، سلسلہ جہالات وبطالاتِ قادیانی، سلسلہ تاصیلات، سلسلہ سوالات اور واقعی وقتی ضرورات مختلف مضامین پر کلام کی مقتضی ہوتی ہیں اور اس کے اکثر رسائل الٹ پھیر کر انہیں ڈھاک کے تین پات کے حامل، لہٰذا ہر رسالے کے جدا گانہ رو سے انہیں سلاسل کا انتظام احسن واولیٰ۔

اب بعونہٖ تعالیٰ اسی ہدایت نوری سے ابتدائے رسالہ ہے اور مولیٰ تعالیٰ مدد فرمانے والا ہے، اس کے بعد وقتاً فوقتاً رسائل ومضامین میں حسبِ حاجت اندراج گزین مناسب، کہ جو کلام جس سلسلے کے متعلق آتا جائے بہ شمار سلسلہ اسی کی سلک میں انسلاک پائے جو نیا کلام اس سلاسل سے جدا شروع ہو اس کے لئے تازہ سلسلہ موضوع ہو۔ اعتراضات کے تازیانے جن کا شمار خدا جانے اوّل تا آخر ایک سلسلہ میں منضود اور ہر اعتراض حاشیہ پر تازیانہ یا اس کی علامت ''ت'' لکھ کر جُدا معدود۔

مسلمانوں سے تو بفضلہٖ تعالیٰ یقینی امید مدد و موافقت ہے، مرزائی بھی اگر تعصّب چھوڑ کر خوف خدا اور روز جزاء سامنے رکھ کر دیکھیں تو بعونہٖ تعالیٰ امید ہدایت ہے وما توفیقی الاَّ باﷲ علیہ توکّلت والیہ انیب وصلی اﷲ تعالیٰ علٰی سیدنا محمد واٰلہِ وصحبہ انہ ھو القریب المجیب۔

ہدایت نوری بجواب اطلاعِ ضروری
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمده ونصلی علیٰ رسوله الکریم خاتم النبیین واٰله وصحبه اجمعین
اس میں قادیانی کو دعوتِ مناظرہ اور اس کے بعض سخت ہولناک اقوال کا تذکرہ ہے۔

اﷲ عزوجل مسلمانوں کو دین حق پر استقامت اور اعدائے دین پر فتح و نصرت بخشے، آمین!

روہیل کھنڈ گزٹ مطبوعہ یکم جولائی1905ء فقیرغفرلہ میں تصور حسین نیچہ بند کے نام سے ایک مضمون بعنوان ''اطلاع ضروری'' نظر سے گزرا جس میں اوّلاً علمائے اہلسنّت نصرھم اﷲ تعالیٰ پر سخت زبان درازی و افتراء پردازی کی ہے، کوئی دقیقہ توہین کا باقی نہ رکھا اور آخر میں عمائدِ شہر کو ترغیب دی ہے کہ علمائے طرفین میں مناظرہ کرادیں کہ حق جس طرف ہو ظاہر ہوجائے۔

ہر ذی عقل جانتا ہے کہ نیچہ بند صاحب جیسے بے علم فاضل، کیا کلام و خطاب کے قابل، بلکہ فوج کی اگاڑی آندھی کی پچھاڑی مشہور ہے، جس فوج کی یہ اگاڑی یہ ہر اوّل، اس کی پچھاڑی معلوم از اوّل، مگر اپنے دینی بھائیوں سے دفعِ فتنہ لازم، لہٰذا دونوں باتوں کے جواب کو یہ ہدایت نوری دو عدد پر منقسم، آئندہ حسبِ حاجت اس کے شمار کا اﷲ عالم (پہلے عددمیں) ان گالیوں کا جوابِ متین جو علمائے اہلسنّت کو دی گئیں۔

پیارے بھائیو! عزیز مسلمانو! کیا یہ خیال کرتے ہو کہ ہم گالیوں کا جواب گالیاں دیں؟ حاشاﷲ ہر گز نہیں بلکہ ان دل کے مریضوں اور ان کے ساختہ مسیح مرزا قادیانی کو گالی کے جواب میں یہ دکھائیں گے، ان کی آنکھیں صرف اتنا دکھا کر کھولیں گے کہ شُستہ دہنو! تمہاری گندی گالی تو آج کی نئی نرالی نہیں، قادیانی بہادر ہمیشہ سے علماء وائمہ کو سڑی گالیاں دینے کا دھنی ہے، استغفراﷲ! علماء وائمہ کی کیا گنتی، وہ کون سی شدید خبیث ناپاک گالی ہے جو اس نے اﷲ کے محبوبوں، اﷲ کے رسولوں بلکہ خود اﷲ واحد قہار کی شان میں اٹھا رکھی ہے، یہ اطلاع ضروری کی پہلی بات کا جواب ہوا۔

(دوسرے عدد) میں بعونہ تعالیٰ قادیانی مرزا کو دعوتِ مناظرہ ہے، اس میں شرائط مناظرہ مندرج ہیں اور نیز اس کا طریق مذکور ہے جو نہایت متین ومہذّب اور احتمالِ فتنہ سے یکسر دور ہے اس میں قادیانی کی طرح فریق مقابل پر شرائط میں کوئی سختی نہ رکھی گئی بلکہ قادیانی کی باگ ڈھیلی کی اور اس کی تنگی کھول دی گئی ہے، اس میں بحولہٖ تعالیٰ شرائط کے ساتھ مبادی بھی ہیں جو کمال تہذیب و متانت سے ضلالتِ ضال کے کاشف اور مناظرہ حسنہ کے بادی بھی ہیں۔

ایک مُدعی وحی کو لازم کہ اپنے وحی کنندوں کو جو رات دن اس پر اترتے رہتے ہیں جمع کر رکھے اور اپنی حال کی اور پچھلی قوت سب حق کا وارسہارنے کے لئے ملا لے۔ ہاں ہاں قادیانی کو تیار ہورہنا چاہیے اس سخت وقت کے لئے جب واحد قہار اپنی مدد مسلمانوں کے لئے نازل فرمائے گا اور جھوٹی مسیحی جھوٹی وحی کا سب جال پیچ بعونہٖ کھل جائے گا۔ وما ذٰلک علی اﷲ بعزیز لقد عز نصر من قال وقولہ الحق ان جندنا لھم الغٰلبون ولن یجعل اﷲ للکٰفرین علی المؤمنین سبیلا والحمد ﷲ ربّ العٰلمین۔ (اور یہ اﷲ تعالیٰ پر گراں نہیں، اس ذات کی مد د غالب جس نے فرمایا اور اس کا فرمان برحق ہے کہ ہمارا تیار کردہ لشکر ہی ان پر غالب رہے گا، اور اﷲ تعالیٰ کا فروں کو مومنوں پر ہر گزر اہ نہ دے گا، الحمد ﷲ رب العالمین۔ت) یہ دوسرا عدد بحولہٖ تعالیٰ اس کے متصل ہی آتا ہے، اب بعونہٖ تعالیٰ پہلے عدد کا آغاز ہوتا ہے۔ وما توفیقی الاّ باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب۔ (اور مجھے صرف اﷲ تعالیٰ سے توفیق ہے اور اسی پر بھروسا ہے اور اسی کی طرف میرا لوٹنا ہے۔ت)

عددِ اوّل:(اﷲ کے محبوبوں، اﷲ کے رسولوں حتیٰ کے خود اﷲ عزوجل پر قادیانی کی لچھے دار گالیاں)

مسلمانو! اﷲ تعالیٰ تمہارا مالک ومولیٰ تمہیں کفر و کافرین کے شر سے بچائے، قادیانی نے سب سے زیادہ اپنی گالیوں کا تختہ مشق رسول اﷲ وکلمۃ اﷲ و روح اﷲ سیدنا عیسٰی بن مریم علیہما الصلوٰۃ والسّلام کو بنایا ہے اور واقعی اسے اس کی ضرورت بھی تھی، وہ مثیل عیسٰی بلکہ نزول عیسٰی یا دوسرے لفظوں میں عیسٰی کا اتار بنا ہے، عیسٰی کے تمام اوصاف اپنے میں بتاتا ہے اور حقیقت دیکھئے تو مسیح صادق کی جمیع اوصاف حمیدہ سے اپنے آپ کو خالی اور اپنے تمام شنائع ذمیمہ سے اس پاک مبارک رسول کو منزّہ پاتا ہے لہٰذا ضرور ہوا کہ ان کے معجزات، ان کے کمالات سے یک لخت انکار اور اپنی تمام شنیع خصلتوں، ذمیم حالتوں کی ان پر بوچھاڑ کرے جب تو اتار بننا ٹھیک اترے۔ میں یہاں اس کی گالیاں جمع کروں تو دفتر ہو لہٰذا اس کی خروار سے مُشتِ نمونہ پیش نظر ہو۔


قادیانی نے حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکفیر کر دی۔

ت۵۲ (۳۳): حد یہ کہ عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکفیر کر دی۔

مسلمانو! وہ اتنا احمق نہیں کہ صاف حرفوں میں لکھ دے عیسٰی کافر تھا بلکہ اس کے مقدمات متفرق کر کے لکھے، یہ تودشنام سوم میں سن چکے کہ عیسٰی کی سخت رسوائیاں ہوئیں، اور کشتی ساختہ ص ۱۸ پر کہتا ہے'' جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے، کون خدا پر ایمان لایا صرف وہی جو ایسے ہیں''دیکھو کیسا صاف بتادیا کہ جسے خدا پر ایمان ہے ممکن نہیں کہ اسے خدا رسوا کرے لیکن عیسٰی کو رسوا کیا تو ضرور اسے خدا پر ایمان نہ تھا اور کیا کافر کہنے کے سر پر سینگ ہوتے ہیں۔الا لعنۃ اﷲ علی الکفرین ۔

قصد تھا کہ فصل اوّل یہیں ختم کی جائے کہ اتنے میں قادیانی کی ''ازالۃ الاوہام'' ملی، اس کی برہنہ گوئیاں بہت بے لاگ اور قابلِ تماشا ہیں۔

معجزات مسیح کی تحقیر وانکار۔

ت ۵۳تا۵۷ (۳۴):یہ جو مثیل مسیح بنا اور اس پر لوگوں نے مسیح کے معجزے مثلاً مردے جِلانا اس سے طلب کئے تو صاف جواب دیتا ہے ص ۳ ''

احیاء جسمانی کچھ چیز نہیں، احیاء روحانی کے لئے یہ عاجز آیا ہے''۔

دیکھو وہ ظاہر باہر قاہر معجزہ جسے قرآن عظیم نے جا بجا کمال تعظیم کے ساتھ بیان فرمایا اور آیۃ اﷲ ٹھہرایا، قادیانی کیسے کھلے لفظوں میں اس کی تحقیر کرتا ہے کہ وہ کچھ نہیں،

پھر اس کے متصل کہتا ہے ص۴،۔

''ما سوائے اس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں کو ان حواشی سے الگ کر کے دیکھا جائے جو محض افتراء یا غلط فہمی سے گھڑے ہیں تو کوئی اعجوبہ نظر نہیں آتا بلکہ مسیح کے معجزات پر جس قدر اعتراض ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خوارق پر ایسے شبہات ہوں، کیا تالاب کاقصہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا''۔

دیکھو''کوئی اعجوبہ نظر نہیں آتا'' کہہ کر ان کے تمام معجزات سے کیسا صاف انکار کیا اور تالاب کے قصّے سے اور بھی پانی پھیر دیا

اور آخر میں لکھا ص ۴ و ۵

''زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ حضرت مسیح معجزہ نمائی سے صاف انکار کر کے کہتے ہیں کہ میں ہر گز کوئی معجزہ دکھا نہیں سکتا مگر پھر بھی عوام الناس ایک انبار معجزات کا ان کی طرف منسوب کررہے ہیں۔''

غرض اپنی مسیحیت قائم رکھنے کو نہایت کھلے طور پر تمام معجزاتِ مسیح وتصریحاتِ قرآن عظیم سے صاف منکر ہے اور پھر مہدی و رسول و نبی ہونے کا ادّعا، مسلمان تو مکذّبِ قرآن کو مسلمان بھی نہیں کہہ سکتے، قطعاً کافر مرتد زندیق بے دین ہے نہ کہ نبی ورسول بن کر اور کفر پر کفر چڑھے الا لعنۃ اﷲ علی الکفرین (خبردار! کافروں پر اﷲ کی لعنت ہے۔ ت) اور اس کذاب کا کہنا کہ مسیح علیہ الصلوٰۃ و السلام خود اپنے معجزے سے منکر تھے، رسول اﷲ پر محض افتراء اور قرآنِ عظیم کی صاف تکذیب ہے، قرآنِ عظیم تو مسیح صادق سے یہ نقل فرماتا ہے کہ:

اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِكُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 1
بیشک میں تمہارے پاس تمہارے رب سے یہ معجزے لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی صورت بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں، وہ خدا کے حکم سے پرند ہوجاتی ہے اور میں بحکم خدا مادر زاد اندھے اور بدن بگڑے کو اچھا کرتا اور مردے زندہ کرتا ہوں، اور تمہیں خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے اور جو گھروں میں اٹھا رکھتے ہو، بیشک اس میں تمہارے لئے بڑا معجزہ ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

پھر مکرّر فرمایا:

وَ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ 2
میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بڑے معجزات لے کر آیا تو اﷲ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

اور یہ قرآن کا جھٹلانے والا ہے کہ انہیں اپنے معجزات سے انکار تھا۔

کیوں مسلمانو! قرآن سچا یا قادیانی؟ ضرور قرآن سچا ہے اور قادیانی کذّاب جھوٹا، کیوں مسلمانو! جو قرآن کی تکذیب کرے وہ مسلمان ہے یا کافر؟ ضرور کافر ہے، ضرور کافر بخدا۔

ت ۵۸ و۵۹ (۳۵): اسی بکر فکر قادیانی کے ازالہ شیطانی میں آخر ص ۱۶۱ سے آخر ۱۶۲ تک تو نوٹ میں پیٹ بھر کر رسول اﷲ وکلمۃ اﷲ کو وہ گالیاں دیں اور آیات اﷲ وکلام اﷲ سے وہ مسخریاں کیں جن کی حد ونہایت نہیں، صاف لکھ دیا کہ

جیسے عجائب انہوں نے دکھائے عام لوگ کر لیتے تھے، اب بھی لوگ ویسی باتیں کر دکھاتے ہیں۔

ت ۶۰ (۳۶):

بلکہ آجکل کے کرشمے ان سے زیادہ بے لاگ ہیں۔

ت ۶۱ و ۶۲ (۳۷):

وہ معجزے نہ تھے، کل کا دَور تھا عیسٰی نے اپنے باپ بڑھئی کے ساتھ بڑھئی کا کام کیا تھا، اس سے یہ کلیں بنانی آگئی تھیں۔

ت ۶۳ (۳۸) :

عیسٰی کے سب کرشمے مسمریزم سے تھے۔

(۳۹):

وہ جھوٹی جھلک تھی۔

(۴۰):

سب کھیل تھا، لہو ولعب تھا۔

ت ۶۴ (۴۱):

سامری جادوگرکے گئوسالے کے مانند تھا۔

ت ۶۵ (۴۲):

بہت مکروہ و قابلِ نفرت کام تھے۔

ت ۶۶ (۴۳):

اہل کمال کوایسی باتوں سے پرہیز رہا ہے۔

ت ۶۷ (۴۴):

عیسٰی روحانی علاج میں بہت ضعیف اورنکمّا تھا۔

ت ۶۸: وہ ناپاک عبارات بروجہ التقاط یہ ہیں ص ۱۵۱:

انبیاء کے معجزات دو قسم ہیں، ایک محض سماوی جس میں انسان کی تدبیر وعقل کو کچھ دخل نہیں جیسے شق القمر، دوسرے عقلی جو خارقِ عادت عقل کے ذریعہ سے ہوتے ہیں جو الہام سے ملتی ہے جیسے سلیمان کا معجزہ،صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ۬3 (شیشے جڑا صحن ہے۔ ت) بظاہر مسیح کا معجزہ سلیمان کی طرح عقلی تھا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ان دونوں میں ایسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات جھکے ہوئے تھے جو شعبدہ بازی اور دراصل بے سود اور عوام کو فریفتہ کرنے والے تھے، وہ لوگ جو سانپ بنا کر دکھلادیتے اور کئی قسم کے جانور تیار کر کے زندہ جانوروں کی طرح چلادیتے، مسیح کے وقت میں عام طور پر ملکوں میں تھے سو کچھ تعجب نہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا پھونک مارنے پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ یا پیروں سے چلتا ہو کیونکہ مسیح اپنے باپ (1عہ) یوسف کے ساتھ بائیس برس تک نجاری کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کا کام درحقیقت ایسا ہے جس میں کلوں کے ایجاد میں عقل تیز ہوجاتی ہے پس کچھ تعجب نہیں کہ مسیح نے اپنے دادا(2عہ) سلیمان کی طرح یہ عقلی معجزہ دکھلایا ہو، ایسا معجزہ عقل سے بعید بھی نہیں، حال کے زمانہ میں اکثر صنّاع ایسی چڑیا ں بنالیتے ہیں کہ بولتی بھی ہیں، ہلتی بھی ہیں۔ دم بھی ہلاتی ہیں، اور میں نے سنا ہے کہ بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز بھی کرتی ہیں، بمبئی اور کلکتے میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں اور ہر سال نئے نئے نکلتے آتے ہیں (3عہ ) ماسوا اس کے یہ قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز عمل الترب یعنی مسمریزی طریق سے بطور لہو ولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں کیونکہ مسمریزم میں ایسے ایسے عجائبات ہیں،سو یقینی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس فن میں مشق والا مٹی کا پرند بنا کر پرواز کرتا دکھادے تو کچھ بعید نہیں کیونکہ کچھ اندازہ کیا گیا کہ اس فن کی کہاں تک انتہا ہے ۔(4عہ) سلبِ امراض عمل الترب (مسمریزم) کی شاخ ہے، ہر زمانے میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو اس عمل سے سلب امراض کرتے ہیں اور مفلوج مبروص ان کی توجہ سے اچھے ہوتے ہیں، بعض نقشبندی وغیرہ نے بھی ان کی طرف بہت توجہ کی تھی، محی الدین ابن عربی کو بھی اس میں خاص مشق تھی، کاملین ایسے عملوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں، اور یقینی طور پر ثابت ہے کہ مسیح بحکم الہٰی اس عمل (مسمریزم) میں کمال رکھتے تھے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں، اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابلِ نفرت نہ سمجھتا تو ان عجوبہ نمائیوں میں ابن مریم سے کم نہ رہتا، اس عمل کا ایک نہایت برا خاصہ یہ ہے کہ جو اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے وہ روحانی تاثیروں میں جو روحانی بیماریوں کو دور کرتی ہیں، بہت ضعیف اور نکما ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ گو مسیح جسمانی بیماریوں کو اس عمل (مسمریزم) کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے مگر ہدایت و توحید اور دینی استقامتوں کے دلو ں میں قائم کرنے میں ان کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے، جب یہ اعتقاد رکھا جائے کہ ان پرندوں میں صرف جھوٹی حیات جھوٹی جھلک نمودار ہوجاتی تھی تو ہم اس کو تسلیم کرچکے ہیں، ممکن ہے کہ عمل الترب (مسمریزم) کے ذریعہ سے پھونک میں وہی قوت ہوجائے جو اس دخان میں ہوتی ہے جس سے غبارہ اوپر کو چڑھتا ہے۔ مسیح جو جو کام اپنی قوم کو دکھلاتا تھا وہ دعا کے ذریعہ سے ہرگز نہ تھے بلکہ وہ ایسے کام اقتداری طور پر دکھاتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرمادیا ہے کہ وہ ایک فطری طاقت تھی جو ہر فردِ بشر میں ہے، مسیح کی کچھ خصوصیت نہیں، چنانچہ اس کا تجربہ اس زمانے میں ہورہا ہے، مسیح کے معجزات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق و بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے پہلے مظہرِ عجائبات تھا جس میں ہر قسم کے بیمار اور تمام مجذوم مفلوج مبروص ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہوجاتے تھے لیکن بعض بعد کے زمانوں میں جو لوگوں نے اس قسم کے خوارق دکھلائے، اس وقت تو کوئی تالاب بھی نہ تھا، یہ بھی ممکن (5عہ) ہے کہ مسیح ایسے کام کے لئے اس تالاب کی مٹی لاتا تھا جس میں روح القدس کی تاثیر تھی، بہرحال یہ معجزہ صرف ایک کھیل تھا جیسے سامر ی کا گوسالہ۔

حاشیہ

(1عہ) اس کا باپ، دیکھئے مسیح و مریم دونوں کو سخت گالی ہے۔

(2عہ)اس کا دادا، دیکھئے وہی مسیح و مریم کو گالی ہے۔

(3عہ ) یہاں تک تو مسیح کا معجزہ کل دبانے سے تھا، اب دوسرا پہلو بدلتا ہے کہ مسمریزم تھا۔)

(4عہ) یہاں تک مسیح علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پرند بنانے پر استہزاء تھے اب اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنے پر مسخرگی کرتا ہے۔

(5عہ) یہ تیسرا پہلو ہے کہ حضرت مسیح اس مٹی کے پرند میں تالاب کی مٹی ڈال دیتے جس میں روح القدس کا اثر تھا، اس کے زور سے حرکت کرتا جیسے سامری نے اسپِ روح القدس کے پاؤں تلے کی خاک بچھڑے میں ڈال دی بولنے لگا۔

حاشیہ ختم شد

مسلمانو! دیکھا کہ اس دشمن اسلام نے اﷲ عزوجل کے سچے رسول کو کیسی مغلظ گالیاں دیں، کون سی ناگفتنی اس ناشد نی نے ان کے حق میں اٹھا رکھی، ان کے معجزوں کو کیسا صاف صاف کھیل اور لہو ولعب وشعبدہ وسحر ٹھہرایا، ابرائے اکمہ وابرص کو مسمریزم پر ڈھالا اور معجزہ پرند میں تین احتمال پیدا کئے، بڑھئی کی کل یا مسمریزم یا کراماتی تالاب کا اثر، اور اسے صاف سامری کا بچھڑا بتا دیا بلکہ اس سے بدتر کہ سامری نے جو اسپِ جبریل کی خاکِ سُم اٹھائی وہ اسی کو نظر آئی دوسرے نے اطلاع نہ پائی، قال اﷲ تعالیٰ:

قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا وَ كَذٰلِكَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ 4
سامری نے کہا میں نے وہ دیکھا جو انہیں نظر نہ آیا تو میں نے اسپِ رسول کی خاکِ قدم سے ایک مٹھی لے کر گوسالے میں ڈال دی کہ وہ بولنے لگا نفسِ امّارہ کی تعلیم سے مجھے یونہی بھلا معلوم ہوا۔

مگر مسیح کاکرتب ایک دست مال تھا جس سے دنیا جہان کوخبر تھی، مسیح پیدا بھی نہ ہوئے تھے جب تالاب کی کرامات شہرہ آفاق تھیں، تو اﷲکا رسول یقینا اس کافر جادوگر سے بہت کم رہا، اور مزہ یہ ہے کہ مسیح کے وقت میں بھی ایسے شعبد ے تماشے بہت ہوتے تھے پھرمعجزہ کدھر سے ہوا، اﷲ اﷲ رسولوں کو گالیاں، معجزات کے انکار،قرآن کی تکذیبیں اور پھر اسلام باقی ہے ع

چوں وضوئے محکم بی بی تمیزہ
(جیسے تمیزہ بی بی کا وضوئے محکم ہو۔ ت)

اس سے تعجب نہیں کہ ہر مرتد جو اتنے بڑے دعوے کر کے اٹھے اسے ایسے کفروں سے چارہ نہیں، اندھے تو وہ ہیں جو یہ کچھ دیکھتے ہیں پھر اتنے بڑے مکذبِ قرآن و دشمنِ انبیاء وعدوّ الرحمن کو امامِ وقت مسیح و مہدی مان رہے ہیں۔ ع

گر مسیح ایں ست لعنت برمسیح
(اگر یہی مسیحیت ہے ایسی مسیحیت پر لعنت۔ت)
اور ان سے بڑھ کر اندھا وہ ہے جو شد بد پڑھ لکھ کر اس کے ان صریح کفروں کو دیکھ بھال کر کہے میں جناب(عہ) مرزا صاحب کو کافر نہیں کہتا خطا پر جانتا ہوں، ہاں شاید ایسوں کے نزدیک کافر وہ ہوگا جو انبیاء اﷲ کی تعظیم کرے، کلام اﷲ کی تصدیق وتکریم کرے ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم
كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ 5
اﷲ یوں ہی مہر کر دیتا ہے متکبر سرکش کے سارے دل پر۔
حاشیہ

(عہ) ایسوں کو شاید اتنی بھی خبر نہیں کہ جو مخالفِ ضروریات دین کو کافر نہ جانے خود کافر ہے۔ مَنْ شَكَّ فِي كُفْرِهِ وَعَذَابِهِ فَقَدْ كَفَرَ6 (یعنی ) جس نے اس کے کفر اور عذاب میں شک کیا وہ خود کافر ہے۔ جب تکذیب قرآن وسب وشتم انبیاء کرام بھی کفر نہ ٹھہرے تو خدا جانے آریہ وہنود ونصاریٰ نے اس سے بڑھ کر کیا جرم کیا ہے کہ وہ کفار ٹھہرائے جائیں، یا شاید ایسوں کے دھرم میں تمام دنیا مسلمان ہے کافر کوئی تھا نہ ہے نہ ہو، یہ بھی معجزاتِ مسیح کی طر ح قرآن کے بے اصل کہ فلانا مسلم فلانا کافر، ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔)

حاشیہ ختم شد

تنبیہ:

ان عباراتِ ازالہ سے بحمداﷲ تعالیٰ اس جھوٹے عذر معمولی کا ازالہ بھی ہوگیا جو عبارات ضمیمہ انجام آتھم کی نسبت بعض مرزائی پیش کرتے ہیں کہ یہ تو عیسائیوں کے مقابلہ میں حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ و السلام کو گالیاں دی ہیں۔

اولا:

ان عبارات کے علاوہ جو گالیاں اس کے اور رسائل مثل اعجاز احمدی ودافع البلاء وکشتی نوح واربعین ومواہب الرحمن وغیرہ میں اہلی وگہلی پھر رہی ہیں، وہ کس عیسائی کے مقابلہ میں ہیں، مثل مشہور ہے، دلہن کا منہ کالا، مشاطہ کب تک ہاتھ دئے رہے گی۔

ثانیاً:

کس شریعت نے اجازت دی ہے کہ کسی بد مذہب کے مقابل اﷲ کے رسولوں کو گالیاں دی جائیں؟

ثالثاً:

مرزا کو ادعا ہے کہ اگرچہ اس پر وحی آتی ہے مگر کوئی نیا حکم جو شریعتِ محمدیہ سے باہر ہو، نہیں آسکتا، ہم تو قرآن عظیم میں یہ حکم پاتے ہیں کہ:

لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ 7
کافروں کے جھوٹے معبودوں کو گالی نہ دو کہ وہ اس کے جواب میں بے جانے بوجھے دشمنی کی راہ سے اﷲ عزوجل کی جناب میں گستاخی کریں گے۔

مرزا اپنی وہ وحی بتائے جس نے قرآن کے اس حکم کو منسوخ کر دیا۔

رابعاً:

مرزا کو ادّعا ہے کہ وہ مصطفیٰ ﷺ کے قدم بقدم چل رہا ہے، التبلیغ ص ۴۸۳ پر لکھتا ہے:

من اٰیات صدقی انه تعالیٰ وفقنی باتباع رسوله واقتداء نبیه صلی اﷲ تعالیٰ علیهہ وسلم فما رأیت اثرا من اٰثار النبی الاقفوته
(میری سچائی کی نشانی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اپنے رسول کی اتباع اور نبی کی اقتداء پر توفیق دی میں نے نبی کا جو بھی نشان دیکھا اس پر قدم رکھا۔ ت)

بتائے تو کہ مصطفیٰ ﷺ نے کس دن عیسائیوں کے مقابل معاذ اﷲ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام او ر ان کی والدہ ماجدہ کو گالیاں دی ہیں۔

خامساً:

مرزا کے ازالہ نے مرزائیوں کی اس بکر فکر کا کامل ازالہ کر دیا، ازالہ کی یہ عبارتیں تو کسی عیسائی کے مقابل نہیں، ان میں وہ کون سی گالی ہے جو ضمیمہ انجام آتھم سے کم ہے حتیٰ کہ چور اور ولد الزنا کا بھی اثبات ہے وہاں چوری کسی مال کی نہ بتائی تھی بلکہ علم کی،

ضمیمہ انجام ص۶

نہایت شرم کی یہ بات ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا کہ گویا یہ میری تعلیم ہے۔

ازالہ میں اس سے بدتر چوری معجزہ کی چوری مانی کہ تالاب کی مٹی لاکر بے پر کی اڑاتے اور اپنا معجزہ ٹھہراتے، رہی ولادتِ زنا وہ اس نے اس بائیبل محرف کے بھروسے پر لکھی، برائے نام کہہ سکتا تھا کہ عیسائیوں پر الزاماً پیش کی اگرچہ مرزا کی عملی کارروائی صراحۃً اس کی مکذّب تھی کہ وہ اپنے رسائل میں بکثرت مسلمانوں کے مقابل اسی بائیبل محرف کو نزول الیاس وغیرہ کے مسئلہ میں پیش کرتا ہے مگر ازالہ میں تو صاف تصریح کر دی کہ قرآن عظیم اسی بائیبل محرف کی طرف رجوع کرنے اور اس سے علم سیکھنے کا حکم دیتا ہے،

ازالہ ص ۳۰۸

آیت ہے فَسْئَلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ8 یعنی تمہیں علم نہ ہو تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو، ان کی کتابوں پر نظر ڈالو، اصل حقیقت منکشف ہو،ہم نے موافق حکم اس آیت کے یہود ونصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ مسیح کے فیصلے کا ہمارے ساتھ اتفاق ہے دیکھو کتاب سلاطین وکتاب ملاکی نبی اور انجیل''۔ تو ثابت ہوا کہ یہ توریت وانجیل بلکہ تمام بائیبل موجودہ اس کے نزدیک سب بحکم قرآن مستند ہیں توجو کچھ اس سے لکھا ہر گز الزاماً نہ تھابلکہ اس کے طور پر قرآن سے ثابت، اور خود اس کا عقیدہ تھا، اور اﷲ تعالیٰ دجّالوں کا پردہ یونہی کھولتا ہے والحمد ﷲ رب العٰلمین ۔


  • 1 آل عمران،49/3
  • 2 آل عمران،50/3
  • 3 القلم،68/ 33
  • 3 ابقرۃ،2/ 216
  • 3 النمل،44/27
  • 4 طہ،96/20
  • 5 المؤمن ،35/40
  • 6 درمختار باب المرتد، مطبع مجتبائی دہلی، 1/ 356
  • 7 الانعام،108/6
  • 8 النحل ،43/16

Netsol OnlinePowered by