logoختم نبوت

امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلی رحمۃ اللہ علیہ

وِلادت باسعادت :

اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مجدّد دین وملت شاہ احمد رضا خان sym-4کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے محلّہ جَسولی میں ۱۰ /شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو ہوئی۔ سن پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام ’’المُختار‘‘ (۱۲۷۲ھ) ہے ۔ 1

آپ کا پیدائشی نام’’محمد ‘‘ہے، اورعرفیت ’’احمد رضا‘‘ ہے،اسی سے مشہور ہیں۔

سلسلۂ نسب:

آپ کا نسبی سلسلہ افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغانوں کے جدِا مجد قیس عبد الرشید( جنہیں سرکار دو عالم ﷺکی خدمتِ عالیہ میں حاضری دی کر دینِ اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی) کے پوتے ’’شرجنون‘‘الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔(گویا آپ ایک صحابی ء رسو ل ﷺکی اولاد سے ہیں)2

رئیس المتکلمین نقی علی خان صاحب sym-4:

آپ کے والد گرامی مولانا شاہ نقی علی خان زبر دست عالمِ دین ،کثیر التصانیف بزرگ اور بڑے پائے کے عاشقِ رسول ﷺ تھے۔

حلیہ مبارکہ:

برادر زادۂ اعلیٰ حضرت مولانا حسنین رضا خان بریلوی sym-4 آ پ کا حلیۂ مبار کہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ چمکد ار گند می تھا۔

·چہر ہء مبار ک پر ہر چیز نہایت موزوں و مناسب تھی۔

·بلند پیشانی ،بینی مبارک نہایت ستواں تھی۔

·ہر دو آنکھیں بہت موزوں اور خوبصورت تھیں ۔

·نگاہ میں قدرے تیزی تھی جو پٹھان قوم کی خاص علامت ہے۔

·ہر دو ابر و کمان ابرو کے پورے مصداق تھے۔

·لاغری کے سبب سے چہر ہ میں گدازی نہ رہی تھی مگران میں ملاحت اس قد رعطا ہوئی تھی کہ دیکھنے والے کو اس لاغری کا احسا س بھی نہ ہوتا تھا۔

·کنپٹیا ں اپنی جگہ بہت مناسب تھیں ۔

·داڑھی بڑی خوبصورت گردار تھی۔

·سر مبارک پرپٹے(زلفیں) تھے جو کان کی لو تک تھے۔

·سرمبارک پر ہمیشہ عمامہ بند ھا رہتا تھا جس کے نیچے دو پلی ٹوپی ضر ور اوڑھتے تھے۔

·آپ کا سینہ باوجود اس لا غری کے خوب چوڑا محسوس ہوتا تھا۔

·گرد ن صراحی دار تھی اور بلند تھی جو سرداری کی علامت ہوتی ہے۔

·آپ کا قد میانہ تھا۔

·ہر موسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سپید(سفید) ہی کپڑ ے زیب ِ تن فرماتے ۔

·موسم سرما میں رضائی بھی اوڑھا کرتے تھے۔

·مگر سبز کا ہی اونی چادر بہت پسند فرماتے تھے اور وہ آپ کے تن ِمبارک پر سجتی بھی خوب تھی۔

·آپ بچپن ہی میں کچھ روز گداز رہے پھر تو سب نے آپ کو چھریرا اور لاغر ہی دیکھا ۔

·آپ کی آواز نہایت پر درد تھی اور کسی قدر بلند بھی تھی۔

·آپ جب اذان دیتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔

·آپ بخاری طرز پر قرآن ِپا ک پڑھتے تھے۔

·آپ کا طرز اداعام حفاظ سے جدا تھا۔

·آپ نے ہمیشہ ہندوستانی جوتا پہنا جسے سلیم شاہی جوتا کہتے ہیں ۔

·آپ کی رفتا ایسی نرم کہ برابر کے آدمی کو بھی چلتا محسوس نہ ہوتا تھا۔ 3

اساتذہ کرام:

اعلیٰ حضرت کے اساتذ ہ کی فہرست بہت مختصر ہے:۔

·حضر تِ والدِ ماجد مولانا شاہ نقی علی خان sym-4 (اور ان کے علاوہ صر ف درجہ ذیل پانچ نفوسِ قدسیہ ہیں جن سے آپ کو نسبتِ تلمذ ہے) ·جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب sym-4 (جن سے آپ نے میزانِ منشعب تک کی تعلیم حاصل کی) ·حضرت مولانا عبدا لعلی صاحب رامپوری sym-4 (ان سے اعلیٰ حضرت نے شرح چغمینی کے چند اسباق پڑھے) ·آپ کے پیر ومرشد حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی sym-4 (آپ سے تصوف و طریقت اور افکا رکی تعلیم حاصل کی ) ·حضر ت سالارِ خاندان برکاتیہ سید شاہ ابوالحسین احمدنوری sym-4 (ان سے علمِ جفر ،تکسیر اور علمِ تصوف حاصل کئے)

جب آپ زیارتِ حرمین شریفین کے لیے مکتہ المکرمہ حاضر ہوئے تو مندرجہ ذیل تین شیوخ سے بھی سند حدیث و فقہ حاصل فرمائی ۔

·شیخ احمد بن زین دحلان مکی sym-4 ·شیخ عبد الرحمن سراجِ مکیsym-4 ·شیخ حسین بن صالح مکی sym-4

فتویٰ نویسی :

پروفیسر مسعو داحمد صاحب تحر یر فرماتے ہیں: مولانا احمد رضاخان sym-4 نے تیر ہ سال دس مہینے اور چاردن کی عمر میں ۱۴شعبان ۱۲۸۶ھ کو اپنے والد مولانا نقی علی خان sym-4 کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغا ز کیا ، سات برس بعد تقریباً ۱۲۹۳ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب ۱۲۹۷میں مولانا نقی علی خان sym-4 کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے ۔4

شادی:

آپ کا نکاح سن ۱۲۹۱ھ میں جناب ِ شیخ فضل حسین صاحب (رامپور) کی صاحبزادی’’ارشاد بیگم‘‘سے ہوا ،یہ شادی مسلمانوں کے لیے ایک شرعی نمونہ تھی ،مکان تو مکان آپ نے لڑکی والے کے یہاں بھی خبر بھجوا دی تھی کہ کوئی بات شریعتِ مطہرہ کے خلاف نہ ہو ،چنانچہ اُن حضرات نے غلط رسم ورواج سے اتنا لحاظ کیا کہ لوگ ان کی دین داری اور پاسِ شرع کے قائل ہو گئے اور بڑی تعریف کی۔5

اولاد ِامجاد:

اعلیٰ حضرت sym-4 کو اللہ عزوجل نے سات اولادیں عطا فرمائیں ،دو صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں۔ ·حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان sym-4 ·مفتیٔ اعظم ِہند مولانا محمد مصطفی رضا خانsym-4

·مصطفائی بیگم·کنیزِ حسن·کنیزِ حسین·کنیزِ حسنین·مرتضائی بیگم

حیرت انگیز قُوتِ حافظہ:

حضرت ابو حامِد سیِّد محمد محدِّث کچھوچھوی sym-4 فرماتے ہیں کہ تکمیلِ جواب کے لیے جُزئِیّاتِ فِقْہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے وہ اعلیٰ حضرت sym-4 کی خدمت میں عَرض کرتے اور حوالہ جات طلب کرتے تو اُسی وقت آپ فرمادیتے کہ”رَدُّالمُحْتَار“جلد فُلاں کے فُلاں صَفَحہ پر فُلاں سَطر میں اِن الفاظ کے ساتھ جُزئِیّہ موجود ہے۔”دُرِّ مُخْتَار “کے فُلاں صَفَحے پر فُلاں سَطر میں عبارت یہ ہے۔”عالمگیری “میں بقید جلد و صَفَحہ وَسَطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہِندیہ میں خَیریہ میں مَبْسُوط میں ایک ایک کتاب فِقہ کی اصل عبارت مع صَفَحہ وسَطر بتادیتے اور جب کتابوں میں دیکھا جاتا تو وُہی صَفَحہ وسَطر و عبارت پاتے جو زَبانِ اعلیٰ حضرت sym-4 نے فرمایا تھا۔ اِس کو ہم زِیادہ سے زِیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خُداداد قوّتِ حافِظہ سے چودہ سو سال کی کتابیں حِفظ تھیں۔ 6

ترجمۂ قرآن کنز الا یمان:

اعلیٰ حضرت sym-4 کی تفسیر ی مہارت کا ایک شاہکار آپ کا ترجمہ قرآن ’’کنزالایمان ‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں محدثِ اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی sym-4 فرماتے ہیں :

علم ِقرآن کا اندازہ صر ف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثال ِسابق نہ عربی میں ہے: نہ فارسی میں ہے ، نہ اردو زبان میں ہے ، اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اُس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں قرآن(کی روح)ہے 7

پھر یہ ترجمہ کس طرح معرض ِ وجو د میں آیا، ایسے نہیں جس طرح دیگر مترجمین عام طور سے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر متعلقہ کتابوں کا انبار لگا کر اور ترجمہ تفسیر کی کتابیں دیکھ دیکھ کر معانی کا تعین کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ حضرت کی مصروف ترین زندگی عام مترجمین کی طرح ان تمام تیاریوں اور کامل اہتمامات کی متحمل کہا ں تھی ۔

’’سوانح امام احمد رضا ‘‘ میں مولانا بد ر الدین قادری صاحب تحریر فرماتے ہیں :’’صدر الشریعہ‘‘ حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی نے قرآن مجید کے صحیح ترجمہ کی ضرورت پیش کرتے ہوئے امام احمد رضا سے ترجمہ کر دینے کی گزارش کی ۔ آپ نے وعدہ فرمالیا لیکن دوسرے مشاغل ِ د ینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی ،جب حضرت ’’صدر الشریعہ‘‘کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا: چونکہ ترجمہ کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے آپ رات میں سوتے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں ۔چنانچہ حضرتِ ’’صدر الشریعہ‘‘ ایک دن کاغذ قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہو گیا۔

ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلیٰ حضرت زبانی طور پر آیات ِکریمہ کا ترجمہ بولتے جاتے اور’’ صدر الشریعہ‘‘ اس کو لکھتے رہتے ،لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب ِتفسیر و لغت کو ملاحظہ فرماتے ،بعدہٗ آیت کے معنی کو سوچتے پھر ترجمہ بیان کرتے، بلکہ آپ قرآن مجید کا فی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے جیسے کوئی پختہ یادداشت کا حافظ اپنی قوتِ حافظہ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف روانگی سے پڑھتا جاتا ہے، پھر جب حضرتِ’’ صدر الشریعہ‘‘ اور دیگر علمائے حاضر ین اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا کتب ِتفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ آ پ کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر ِمعتبرہ کے بالکل مطابق ہے۔

الغرض اِسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہاپھر وہ مبارک ساعت بھی آگئی کہ حضرتِ ’’صدر الشریعہ‘‘ نے اعلیٰ حضرت سے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کر والیا اور آپ کی کوششِ بلیغ کی بدولت دنیائے سنیت کو’’ کنز الایمان ‘‘کی دولت ِعظمیٰ نصیب ہوئی ۔ 8

تصانیف:

آپsym-4 نے مختلف عُنوانات پر کم وبیش ایک ہزار کتابیں لکھی ہیں۔یوں توآپ sym-4 نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک لاکھوں فتوے لکھے، لیکن افسوس! کہ سب کو نَقل نہ کیا جاسکا، جو نَقل کرلیے گئے تھے ان کا نام ” العطایا النبّویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘ رکھا گیا ۔ فتاویٰ رضویہ (جدید) کی ۳۰جلدیں ہیں جن کے کُل صفحات:۲۱۶۵۶، کل سُوالات وجوابات:۶۸۴۷اور کل رسائل: ۲۰۶ہیں۔ 9 ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجزن ہے۔ قرآن و حدیث ، فِقْہْ ،مَنْطِق اور کلام وغیرہ میں آپ کی وُسْعَتِ نظری کا اندازہ آپ کے فتاوٰی کے مُطالَعے سے ہی ہوسکتا ہے۔

مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام :

اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنت sym-5 کے بے مثال عشق کا اظہار آپ کے اُس منظوم سلام سے بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں علماء نے ارشاد فرمایا ہے کہ اعلیٰ حضرت اگر اور کوئی کام نہ بھی کرتے تو یہ سلام ہی آپ کی عظمت کے لیے کافی تھا ۔

جی ہاں! یہ وہ سلام ہے جس کی گونج پا ک و ہند کے گوشے گوشے میں سنائی دیتی ہے بلکہ یہاں سے نکل کر پوری دنیا میں یہ سلام پڑھا جار ہا ہے۔مساجد میں نماز ِ جمعہ کے بعد اور محافلِ میلا د کے اختتام پر اس کو بطورِخاص پڑھا جاتا ہے ،اردو جاننے والوں میں شاید ہی کو ئی ایسا ہو جسے اس سلام کا کوئی شعر یاد نہ ہو ۔

علمائے کرام ارشاد فرماتے ہیں’’دو کلام‘‘سرکارِ دوعالم ﷺکی بارگاہ میں بہت مقبول ہیں ،ایک اردو کا اور ایک عربی کا،عربی کا تو’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ہے اور اُردو کا یہی اعلیٰ حضرت کا لکھا ہوا سلام’’مصطفی جان ِرحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ہے ۔

اس کی قبولیت میں کیسے شک ہو سکتا ہے جبکہ سنہری جالیوں کے رو برو زائرین جب سلام پیش کرتے ہیں تو اس مبارک سلام کے چند اشعار بھی سرکا ر ﷺکی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں ۔

اس سلام کے والہانہ پن کی خصوصیت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے پیارے آقا و مولیٰﷺ کے ہر ہر عضوِ پاک پر الگ الگ سلام پیش کیا ہے جس سے آپ کے عشقِ رسول کا اور فناء فی الرسول ہونے کا بخوبی اندازہ ہو تا ہے۔

یہ سلام جہاں عشقِ رسولﷺ کا شاہکار ہے ،وہیں اعلیٰ حضرت کے فنی تبحر کی گواہی بھی دے رہاہے ۔آپ کا یہ سلام ایک سو بہتر اشعار پر مشتمل ہے۔10

شجرہء مبارکہ:

اعلیٰ حضرت sym-4 شرائطِ اربعہ کے جامع پیر کامل وولیِّ کامل تھے آپ کا سلسلہ حضورﷺتک متصل تھا اعلیٰ حضرت کے کمالات ِ ولایت کے بیانات سے پہلے مناسب یہ ہے کہ ہم ان کی اتصال ِسند کو جان لیں۔

اگرچہ کئی (تیرہ)سلاسل بلخصوص’’ سلاسل ِ اربعہ‘‘(قادریہ ۔چشتیہ ۔ نقشبندیہ ۔سہروردیہ) میں خلافت و اجازت حاصل تھی لیکن اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف سلسلہءعالیہ قادریہ کے مشائخ ِکرام کے اسمائے گرامی پیش کئے جاتے ہیں :

سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے مشائخِ عظام:

1.حضر ت سید المرسلین جنابِ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ

2.حضرت امیر المومینن علی ِ مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم

3.حضرت امام ِ حسین sym-5

4.حضرت امام زین العابدین sym-5

5.حضرت امام محمد الباقر sym-5

6.حضرت امام جعفر صادقsym-5

7.حضرت امام موسیٰ کاظم sym-5

8.حضرت امام علی رضاsym-5

9.حضرت شیخ معروف کرخیsym-5

10.حضرت شیخ سری سقطی sym-5

11.حضرت شیخ جیند بغدادیsym-5

12.حضرت شیخ ابوبکر شبلی sym-5

13.حضرت شیخ عبدا لواحد تمیمی sym-5

14.حضرت شیخ ا بو الفرج طرطوسیsym-5

15.حضرت شیخ ابوالحسن علی ہکاری sym-5

16.حضرت شیخ ابو سعید مخزومی sym-5

17.حضور سیدنا غوثِ اعظم شیخ عبدا لقادر حسنی حسینی جیلانیsym-5

18.حضرت سید عبدا لرزاق sym-5

19.حضرت سید ابوصالح sym-5

20.حضرت سید محی الدین ابونصر sym-5

21.حضرت سید علیsym-5

22.حضرت سید موسیٰsym-5

23.حضرت سید حسن sym-5

24.حضرت سید احمد الجیلانیsym-5

25.حضرت شیخ بہاء الدین sym-5

26.حضرت سید ابراہیم ایرجی sym-5

27.حضرت سید محمدنظام الدین بھکاریsym-5

28.حضرت شیخ محمد ضیاء الدین sym-5

29.حضرت سید شاہ جمال اولیا ءsym-5

30.حضرت سید شاہ محمد کالپوی sym-5

31.حضرت سید شاہ احمد کالپویsym-5

32.حضرت سید شاہ فضل اللہ کالپویsym-5

33.حضرت سیدشاہ برکت اللہ مارہروی sym-5

34.حضرت سیدشاہ آلِ محمد مارہرویsym-5

35.حضر ت سید شاہ حمزہ مارہروی sym-5

36.حضرت سیدنا شاہ آلِ احمد اچھے میاں مارہروی sym-5

37.حضرت سیدنا شاہ آلِ رسول مارہرویsym-5

38.اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان sym-511

‏بیعت و ارادت:

حضرت شاہ آلِ رسول sym-4 تیرھویں صدی ہجری کے اکابر اولیا ء اللہ میں سے تھے ۔آپ کی وہ عظیم شخصیت تھی جس کی مساعی و کوشش سے اسلام و مذہب ِاہلسنت وجماعت کو استحکام حاصل ہوا۔ بڑے نڈر، بے باک،شفیق اور مہربان تھے ۔ آپ کی شان بڑی ارفع و اعلیٰ ہے ۔

1294ھ جمادی الاخریٰ کا واقعہ ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت sym-5(کسی خیال سے) روتے روتے سو گئے، خواب میں دیکھا کہ آپ کے جدامجد حضرت مولانا شاہ رضاعلی خان صاحب تشریف لائے، ایک صندوقچی عطا فرمائی اور فرمایا عنقریب وہ شخص آنے والا ہے جو تمہارے درد ِدل کی دوا کرے گا۔دوسرے ہی روز تاج الفحول محب ِ رسول حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب عثمانی بدایونی علیہ الرحمہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ(بغرضِ بیعت) مارہر ہ مقدسہ لے گئے، مارہرہ مقدسہ کے اسٹیشن ہی پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا! شیخ ِکامل کی خوشبو آرہی ہے ۔ (بعد ازاں ایک سرائے میں ٹھہرے اور نہا دھو کر نئے کپڑے پہننے کے بعد خانقاہِ برکاتیہ میں بیعت کے لئے حاضر ہوئے)۔

جب امامُ الاولیاء، سلطان العارفین ،تا جدارِ مارہر ہ حضرت مولانا سید شاہ آلِ رسول صاحب حسینی sym-4 کی خدمت ِبابرکت میں پہنچے حضرت نے دیکھتے ہی فرمایا: آئیے! ہم تو کئی روز سے انتظار کر رہے ہیں ۔ پھر بیعت فرمایا اور اُسی وقت تما م سلاسل کی اجازت بھی عطا فرمادی اور خلافت بھی بخش دی نیز جو عطیات سلف سے چلے آرہے تھے وہ بھی سب عطا فرمادیئے اور ایک صندوقچی جو وظیفہ کی صندوقچی کے نام سے منسوب تھی عطا فرمائی۔آپ کو جن سلاسل ِطریقت کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی ان کی تفصیل درجہ ذیل ہے :

۱۔قادریہ برکاتیہ جدیدہ ۲۔قادریہ آبائیہ قدیمہ ۳۔قادریہ ہدایہ ۴۔قادریہ رزاقیہ ۵۔قادریہ منصوریہ ۶۔چشتیہ نظامیہ قدیمہ ۷۔چشتیہ محبوبیہ جدیدہ ۸۔سہروردیہ واحدیہ ۹۔سہروردیہ فضیلیہ ۱۰۔نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ ۱۱۔نقشبندیہ علائیہ علویہ ۱۲۔بدیعہ ۱۳۔علویہ منامیہ

اتنی عطائیں دیکھ کر تمام مریدین کو جو حاضر تھے تعجب ہوا، جن میں قطب ِدوراں تاج الاولیاء حضرت مولانا شاہ سید ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب۶۲ ۱sym-4 نے( جو حضرت کے پوتے اور جانشین تھے) اپنے جدِا مجد سے عرض کیا حضور! بائیس سال کے اس بچہ پر یہ کر م کیوں ہوا؟ جبکہ حضور کے یہاں کی خلافت و اجازت اتنی عام نہیں، برسوں ،مہینوں آپ چلّے ریاضتیں کراتے ہیں ’’جو‘‘کی روٹی کھلواکر منزلیں طے کراتے ہیں ،پھر اگر اس قابل پاتے ہیں تب بھی ایک یا دو سلسلہ کی اجازت و خلافت عطا فرماتے ہیں (نہ کہ تمام سلاسل کی)۔ حضرت نوری میاں sym-4بھی بہت بڑے روشن ضمیر وعارف باللہ تھے، اِسی لئے یہ سب کچھ دریافت کیا تاکہ زمانے کو اس بچے کا مقام ولایت و شانِ مجددیت کا پتہ چل جائے ۔ سیدناشاہ آلِ رسول نے ارشاد فرمایا اے لوگو! احمدرضا کو کیا جانو یہ فرما کر رونے لگے اور ارشاد فرمایا۔میاں صاحب! میں متفکر تھا کہ اگر قیامت کے دن رب العزت جل مجدہ ٗ نے ارشاد فرمایا کہ آلِ رسول !تو دُنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں کیا جواب دوں گا ۔الحمد للہ آج وہ فکر دور ہو گئی، مجھ سے رب تعالیٰ جب یہ پوچھے گا کہ آلِ رسول! تو دُنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں مولانا احمد رضا کو پیش کر دوں گا،اور حضرات اپنے قلب زنگ آلود لیکر آتے ہیں، اُن کو تیار ہونا پڑتا ہے ،یہ اپنے قلب کو مجلّیٰ و مصفّیٰ لے کر بالکل تیار آئے، ان کو تو صرف نسبت کی ضرورت تھی ۔

غوثِ پاک سے محبت:

سید ی اعلیٰ حضرت sym-5کو اپنے پیر و مُرشِد سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی کے ذریعے محبوبِ سبحانی ،قطبِ ربانی ،حضرت سیدنا شیخ عبدا لقادر جیلانی sym-5 کی غلامی و نسبت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کو سرکارِ بغدادِ حضور ِ غوث پاک sym-5 کی ذات ِ بابرکات سے بے پناہ عشق او روالہانہ لگاؤ تھا آ پ کی مجلس میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ حضو رِ غوث پاک sym-5 کا نام لیا جاتا اور اس غلامی کا اظہار اعلیٰ حضرت اپنے اشعار میں کس والہانہ انداز سے کرتے ہیں:

تجھ سے در،در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دُور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا

اعلیٰ حضرت کے کمالِ ادب ِ غوثِ اعظم sym-5 کی ایک جھلک آپ کے چہیتے خلیفہ و شاگرد حضرت ِ محدث اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی sym-4( جو کہ غوثِ پاک کی اولاد میں سے تھے اور آپ سے کارِ افتا ء کی تربیت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے )یوں دکھاتے ہیں ۔’’دوسرے دن کارِ افتاء پر لگانے سے پہلے خود گیارہ روپے کی شیرینی منگائی ،اپنے پلنگ پر مجھ کو بٹھا کر اور شیرینی رکھ کر فاتحہ ء غوثیہ پڑھ کر دستِ کرم سے شیرینی مجھ کو بھی عطا فرمائی اور حاضرین میں تقسیم کا حکم دیا۔(کیا دیکھتا ہوں ) کہ اچانک اعلیٰ حضرت پلنگ سے اُٹھ پڑے ۔ سب حاضرین بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے کہ شاید کسی حاجت سے اندر تشریف لے جائیں گے ۔لیکن حیرت بالائے حیرت یہ ہوئی کہ اعلیٰ حضرت زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے ۔سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ دیکھا تو یہ دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کی غفلت سے شیرینی کا ایک ذرہ زمین پر گر گیا تھا اور اعلیٰ حضرت اس ذرہ کوزبان کی نوک سے اُٹھا رہے ہیں،اور پھر اپنی نشت گاہ پر بدستور تشریف فرما ہوئے ۔

اس واقعہ کو دیکھ کر سارے حاضرین سرکارِ غوثیت sym-5 کی عظمت و محبت میں ڈوب گئے اور فاتحہءغوثیہ کی شیرینی کے ایک ایک ذرے کے تبرک ہو جانے میں کسی دوسری دلیل کی حاجت نہ رہ گئی۔

اور اب میں نے سمجھا کہ بار بار مجھ سے جو فرمایا جاتا کہ میں کچھ نہیں یہ آپ کے جد امجد (حضور ِ غوث ِ پاک sym-5)کا صدقہ ہے و ہ مجھے خاموش کر دینے کے لیے ہی نہ تھا،اور نہ صرف مجھ کو شرم دلانا ہی تھا بلکہ درحقیقت اعلیٰ حضرت حضور ِ غوث ِ پاک sym-5کے ہاتھ میں ’’چوں قلم دردستِ کاتب ‘‘(جیسے لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم) تھے، جس طرح کہ غوث ِ پا ک sym-5 سرکا ر ِ دو عالم ﷺ کے ہاتھ میں ’’چوں قلم دردستِ کاتب تھے ۔12

بارگاہ غوثیت میں مقامِ اعلیٰ حضرت:

’’علی پورسیداں‘‘ ضلع سیالکوٹ کے مشہور و معروف بزرگ امیرِ ملت حضرت مولانا الحاج پیر سید جماعت علی شاہ صاحب نقشبند ی مجددی محدث علی پوری sym-4کی ذات ِگرامی محتاج تعارف نہیں۔انہیں کا واقعہ ہے کہ اپنے نانا جا ن قطبِ اقطابِ جہاں شہنشاہِ بغداد سرکارِغوث ِ اعظم sym-5 کی زیارت کا شرف حاصل ہو اتو آ پ سے سرکارِ غوث ِ اعظم sym-5 نے فرمایا :

’’ہندوستان میں میرے نائب مولانا احمد رضا خان ہیں‘‘

چنانچہ امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب اعلیٰ حضر ت کی زیارت کے لیے بریلی تشریف لائے اور اعلیٰ حضرت سے یہ خواب بھی بیان کیا ۔ 13

خلفائے اعلیٰ حضرت:

اعلیٰ حضر ت sym-5 کے خلفاء کی صحیح تعدا د کا تعین تو نہیں کیا جا سکتا لیکن قرین ِ قیاس یہ تعد ا دسو سے اوپر تجاوز کر تی ہے۔ اعلیٰ حضرت کے خلفاء نہ صرف برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ عرب و افریقہ کے بلاد میں بھی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ حضرت sym-5 کے خلفاء کی فہرست ذیل میں پیش کی جاتی ہے:

خلفاء و پاک و ہند:

·حضرت ِ حجۃُ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان sym-4

·مفتیء اعظم ہند مولانا محمد مصطفی رضا خان sym-4

·صدر الشریعہ مولانا محمدامجد علی اعظمی sym-4

·صدرالافاضل مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی sym-4

·ملک العلماء مولانا ظفرالدین بہاری sym-4

·سیدا حمد اشرف کچھوچھوی sym-4

·سید محمد محدث کچھوچھوی sym-4

·مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی sym-4

·قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی sym-4

·مولانا شاہ عبدالسلام جبل پوری sym-4

·قاری بشیر الدین صاحب جبلپوری sym-4

·مولانا عبدالباقی برھان الحق جبلپوری sym-4

·مولانا سید سلیمان اشرف بہاری sym-4

·مولانا سید محمد دیدار علی شاہ الوری sym-4

·ابوالبرکات سید احمد قادری sym-4

·مداح الحبیب مولانا جمیل الرحمن قادری sym-4

·فقیہ اعظم مولانا محمد شریف محدث کوٹلوی sym-4

·مولانا محمد امام الدین کوٹلوی sym-4

·مولانا شاہ ہدایت رسول قادری sym-4

·مفتی محمد غلام جان ہزاروی sym-4

·سید محمد عبدالسلام باندوی sym-4

·مولانا عبد الاحد صاحب پیلی بھیتی sym-4

·سلطان الوعظین sym-4

·مولانا عبدالحق صاحب پیلی بھیتی sym-4

·مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی sym-4

·مولانا حبیب الرحمن خان صاحب پیلی بھیتی sym-4

·مولانا عبدالحئی صاحب پیلی بھیتی sym-4

·مولانا شاہ محمد حبیب اللہ قادری میرٹھی sym-4

·مولانا محمد شفیع صاحب بیسلپوری sym-4

·مولانا محمد عمرالدین ہزاروی sym-4

·مولانا احمد بخش صادق صاحب sym-4

·مولانا احمد حسین امروہوی sym-4

·مولانا رحیم بخش آروی قادری sym-4

·مولانا رحم الہٰی منگلوری sym-4

·مولانا عبدالعزیز خاں بجنوری sym-4

·مولانا عزیز الحسن پھپھوندوی sym-4

·مولانا محمد حسنین رضا خان sym-4

·مولانا احمد مختار صدیقی میرٹھی sym-4

·قاضی عبدالوحید عظیم آبادی sym-4

·قاضی شمس الدین جونپوری sym-4

·مولانا سید غلام جان جود ہپوری sym-4

·مولانا محمد اسمعیل فخری محمود آبادی sym-4

·حضرت مولانا سید محمد حسین میرٹھی sym-4

·منشی حاجی محمد لعل خان مدراسی sym-4

·مولانا مشتاق احمد کانپوری sym-4

·میر مومن علی جنیدی sym-4

·مولانا سید نور الحسن نگینوی sym-4

·مولانا نثار احمد کانپوری sym-4

·مولانا حافظ یقین الدین بریلوی sym-4

·حاجی کفایت اللہ صاحب sym-4

خلفائے عرب و افریقہ:

·سید اسمعیل خلیل مکی sym-4

·الشیخ احمد الخضراوی المکی sym-4

·الشیخ اسعد بن احمد الدھان مکی sym-4

·سید ابو بکر بن سالم البار العلوی sym-4

·مولانا شیخ بکر رفیع sym-4

·حضرت شیخ حسن العجیمی sym-4

·حضرت سید حسین جمال بن عبدالرحیم sym-4

·سید حسین بن سید عبدالقادرمدنی sym-4

·مولانا سید عبدالرشید مظفر پوری sym-4

·سید فتح علی شاہ صاحب sym-4

·حضرت شیخ عبداللہ بن ابو الخیر میرداد sym-4

·علامہ سید عبداللہ دحلان مکی sym-4

·حضرت شیخ عبداللہ فرید بن عبد القادرکردی sym-4

·شیخ علی بن حسین مکی sym-4

·سید علوی بن حسن الکاف الحضری sym-4

·حضرت شیخ عمر بن حمدان المحرسی sym-4

·حضرت شیخ مامون البری المدنی sym-4

·مولانا سید محمد ابراھیم مدنی sym-4

·ابوالحسن بن عبدالرحمن المرزوقی sym-4

·سید محمد بن عثمان دحلان sym-4

·حضرت شیخ محمد جمال بن محمد الامیر sym-4

·محمد سعید بن محمد بالصبیل مفتیء شافعیہ sym-4

·السید محمد سعید بن السید محمد المغربی sym-4

·الشیخ محمد صالح کمال مفتیء حنفیہ sym-4

·محمد عبدالحئی بن سید عبدالکبیر الکتانی sym-4

·السید محمد عمر بن ابو بکر رشیدی sym-4

·الشیخ مولانا محمد یوسف sym-4

·سید مصطفی خلیل مکی آفندی sym-4

تلامذہء اعلیٰ حضرت:

اعلیٰ حضرت sym-5 کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے،مندرجہ بالاخلفاء وخدام کے علاوہ درجہ ذیل حضرات کا ذکر بھی مولانا حسنین رضا خان نے’’سیرتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں کیا ہے،تحریر فرماتے ہیں:

حسبِ ذیل حضرات بھی اعلیٰ حضرت کے حلقہء درس میں شامل تھے :

·مولانا شاہ ابو الخیر سید غلام محمد صاحب بہاری sym-4

·مولانا سید عبدا لرشید صاحب بہاری sym-4

·مولوی حکیم عزیر غوث صاحب sym-4

·مولوی واعظ الدین صاحب چاٹگام sym-4

·مولوی سلطان الدین سلہٹ sym-4

·مولوی نوراحمد صاحب بنگال sym-4

·نواب مرزا طوسی sym-4 ۔۔۔وغیرہ

یہ حضرات آپ کے پا س خصوصیت سے توقیت ، لوگارثم ،تکسیر ، ریاضی اور کتبِ احادیث پڑھتے تھے۔

حسبِ مراتب فتاویٰ بھی اِنکے سپر د ہوتے تھے اِن دنوں اعلیٰ حضرت کو بہت کام کرنا پڑتا تھا تو اِن سب حضرات کی مشاورت سے ایک نیا نظم قائم کیا گیا۔14

رد قاديانيت:

جزاء الله عَدُوَّهُ بابائہ ختم النبوة (۱۳۱۷ھ/ ۱۸۹۹ء):

اس تصنیف لطیف کا تعارف خود حضرت مصنف قدس سرہ کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں: اللہ ورسول ﷺ نے مطلقاً نفی نبوت تازہ فرمائی۔ شریعت جدیدہ وغیرہا کی کوئی قید کہیں نہ لگائی۔ اور صراحتہً خاتم بمعنی آخر بتایا۔ متواتر حدیثوں میں اس کا بیان آیا ہے اور صحابہ کرام سے اب تک تمام امت مرحومہ نے اس معنی ظاہر ومتبادر وعموم واستغراق حقیقی تام پر اجماع کیا کہ حضور ﷺ تمام انبیاء کے خاتم ہیں اور اس بناء پر سلفا وخلفاً ائمہ مذاہب نے نبی ﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کو کافر کہا، کتب احادیث وتفسیر وعقائد وفقہ ان کے بیانوں سے گونج رہی ہیں۔

’’فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اپنی کتاب جزاء الله عَدُوَّهُ بابائہ ختم النبوة ۱۳۱۷ھ (دشمن خدا کے ختم نبوت کا انکار کرنے پر خدائی جزاء) میں اس کا مطلب ایمانی پر صحاح وسنن ومسانید ومعاجیم وجوامع سے ۱۲۰ حدیثیں اور تکفیر منکر پر ارشادات ائمہ وعلمائے قدیم وحدیث وكتب عقائد واصول فقہ وحدیث سے تیس نصوص ذکر کیے۔ وللہ الحمد ‘‘15

السوءوالعقاب على المسيح الكذاب (۱۳۲۰ھ/ ۱۹۰۲ء):

۱۳۲۰ھ میں امرتسر سے مولانا محمد عبد الغنی نے ایک استفتاء بھیجا۔ سوال یہ تھا کہ ایک مسلمان نے ایک مسلمہ عورت سے نکاح کیا۔ عرصہ تک باہمی معاشرت رہی۔ پھر مرد، مرزائی ہو گیا، تو کیا اس کی منکوحہ اس کی زوجیت سے نکل گئی ہے؟ ساتھ ہی امرتسر کے متعدد علماء کے جوابات منسلک تھے۔

امام اہلسنت نے اس کے جواب میں ایک رسالہ السُّوءُ وَالعِقَابُ عَلَى الْمَسِيحِ الكَذَّابِ (جھوٹے مسیح پر عذاب وعقاب) قلمبند فرمایا جس میں دس وجہ سے مرزائے قادیانی کا کفر بیان کر کے فتاویٰ ظہیریہ، طریقہ محمدیہ، حدیقہ ندیہ برجندی شرح نقایہ اور فتاویٰ ہندیہ (عالمگیری) کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:

’’یہ لوگ دین اسلام سے خارج ہیں اور ان کے احکام بعینہٖ مرتدین کے احکام ہیں۔‘‘ 16

پھر سوال کا جواب ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’شوہر کے کفر کرتے ہی عورت نکاح سے فوراً نکل جاتی ہے۔ اب اگر بے اسلام لائے، اپنے اس قول ومذہب سے بغیر توبہ کیے یا بعد اسلام وتوبہ بغیر نکاح جدید کئے اس سے قربت کرے زنائے محض ہو اور جو اولاد ہو، یقیناً ولد الزنا ہو۔ یہ احکام سب ظاہر اور تمام کتب میں دائر وسائر ہیں۔‘‘17

قهر الديان على مرتد بقادیان (۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء):

(عرضی نام ”ہدایت نوری بجواب اطلاع ضروری“)

یہ رسالہ بھی امام اہلسنت کے رشحات قلم سے ہے اس میں ختم نبوت کے منکر، کلمۃ اللہ حضرت عیسیٰ کے دشمن، جھوٹے مسیح، مرزائے قادیانی کے شیطانی الہاموں کا رد کر کے عظمت اسلام کو اجاگر کیا گیا ہے۔

المبین ختم النبیین (۱۳۲۶ھ/ ۱۹۰۸ء):

1326ھ میں بہار شریف سے مولانا ابو الطاہر نبی بخش نے ایک استفتاء بھیجا۔ جس میں دریافت کیا گیا کہ بعض لوگ خاتم النبین میں الف لام عہد خارجی قرار دیتے ہیں (یعنی حضور ﷺ بعض انبیاء کے خاتم ہیں) اور بعض اسے استغراقی قرار دیتے ہیں، (اب مطلب یہ ہوگا کہ آپ تمام انبیاء کے خاتم ہیں) ان میں سے کس کا قول صحیح ہے؟ امام اہلسنت نے اس کے جواب میں ایک مختصر رسالہ تحریر فرمایا، آپ فرماتے ہیں:

’’جو شخص لفظ خاتم النبیین میں النبیین کو اپنے عموم واستغراق پر نہ مانے بلکہ اسے کسی تخصیص کی طرف پھیرے اس کی بات مجنون کی بکَ یا سرسامی کی بہک ہے، اسے کافر کہنے سے کچھ ممانعت نہیں کہ اس نے نص قرآنی کو جھٹلایا، جس کے بارے میں امت کا اجماع ہے کہ اس میں نہ کوئی تاویل ہے نہ تخصیص۔‘‘18

پھر خاتم النبیین میں تاویل کی راہ کھولنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’آج کل قادیانی بک رہا ہے کہ خاتم النبیین سے ختم شریعت جدیدہ مراد ہے، اگر حضور کے بعد کوئی نبی اسی شریعت مطہرہ کا مُرَوِّجْ اور تابع ہو کر آئے ، کچھ حرج نہیں اور وہ خبیث اپنی نبوت جمانا چاہتا ہے۔‘‘19

جبل الثانوی علی کلیۃ التھانوی (۱۳۳۷ھ/ ۱۹۱۸ء):

یہ رسالہ مولوی اشرف علی تھانوی کے بارے میں ہے کہ ان کے ایک محب ومرید نے خواب میں دیکھا کہ وہ کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ کی جگہ اشرف علی رسول اللہ پڑھتا ہے اور درود شریف میں بھی نام محمد ﷺ کی جگہ تھانوی صاحب کا نام لیتا ہے۔ مرید کی اس گمراہی پر تھانوی صاحب نے اس کو تسکین دی اور اپنی بزرگی کے اظہار کے لئے اپنے ماہانہ رسالے میں اس کو شائع بھی کر دیا۔ جب اس بارے میں امام اہل سنت سے سوال کیا گیا تو آپ نے اس کا جواب جبل الثانوی کی صورت میں تحریر فرمایا اور ان کی بد عقیدگی کی گرفت فرمائی۔

الجراز الديانی على المرتد القاديانی (۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء):

یہ رسالہ امام اہلسنت کی آخری تصنیف ہے۔ پیلی بھیت سے شاہ میر خان قادری نے ۳ محرم ۱۳۴۰ھ کو ایک استفتاء بھیجا جس کے جواب میں آپ نے یہ رسالہ الجرازُ الدَّيَّانِی عَلَى الْمُرْتَدَ الْقَادِيَانِی (قادیانی مرتد پر خدائی شمشیر بُرّاں) سپرد قلم فرمایا۔ ۲۵ صفر المظفر ۱۳۴۰ھ کو آپ کا وصال ہو گیا۔

سائل نے ایک آیت اور ایک حدیث پیش کی تھی۔ جس سے قادیانی، حضرت عیسیٰ کی وفات پر استدلال کرتے ہیں اور پوچھا تھا کہ اس استدلال کا جواب کیا ہے؟

امام اہلسنت نے اعتراض کا جواب دینے سے پہلے سات فائدے بیان کیے، جن میں واضح کیا کہ مرزائی حیات عیسیٰ کا مسئلہ کیوں اٹھاتے ہیں؟ دراصل مرزا کے ظاہر وباہر کفریات پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک ایسے مسئلے میں الجھتے ہیں جس میں اختلاف آسان ہے۔ پھر بھی یہ مسئلہ ان کے لئے مفید نہیں، پھر سات وجہ سے بتایا کہ یہ آیت قادیانیوں کی دلیل نہیں بن سکی اور حدیث کو دلیل بنانے کے دو جواب دیئے۔

مرزائے قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے قصر ختم نبوت میں نقب لگانے کی کوشش کی، علمائے اسلام نے حق کو واضح کیا، اور اس کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ امام اہلسنت نے جو استفتاع حرمین شریفین کے علماء کے سامنے پیش کیا تھا اس میں مرزا کے خرافات کے ساتھ ساتھ اس قسم کی عبارات کا بھی تذکرہ تھا:

’’سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں وَلٰكِنْ رَّسُولَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ ‘‘20

اسی طرح یہ عبارت:

’’بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘21

علمائے عرب نے ان عبارات کی بنا پر بھی کفر کا فتویٰ صادر کیا۔ یہ فتاویٰ حسام الحرمین میں چھپ چکے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام اہلسنت عقیدہ ختم نبوت کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ یہ اجماعی اور قطعی عقیدہ اس قدر اہم اور نازک ہے کہ اس سلسلے میں کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہے۔

7۔ حُسام الحرمین (۱۳۲۴ ھ/ ۱۹۰۶ء):

۱۳۲۴ھ میں امام احمد رضا خاں بریلوی نے ایک استفتاء مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ کے علماء اہل سنت کی خدمت میں بھجوایا۔ جس میں چند عبارات کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کفریہ ہیں یا نہیں؟ اور ان کے قائل پر بحکم شریعت کفر کا حکم ہے یا نہیں؟ ان میں سرفہرست مرزائیوں کا ذکر تھا اس استفتاء کے جواب میں حرمین شریفین کے علماء نے بالاتفاق مرزائیوں اور مرزائی نوازوں کی تکفیر کی۔

بے بنیاد الزام:

مخالفین اہل سنت کو جب امام اہلسنت کو بدنام کرنے کے لئے کوئی بھی مواد دستیاب نہیں ہوتا تو یہاں تک کہنے سے باز نہیں آتے:

مرزا غلام قادر بیگ جو انہیں (امام احمد رضا بریلوی کو) پڑھایا کرتے تھے، نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کے بھائی تھے۔

گزشتہ صفحات میں امام اہلسنت کے فتاویٰ کی ایک جھلک پیش کی جا چکی ہے جو مرزائے قادیانی سے متعلق ہیں۔ ان کے باوجود ایسے گھناؤنے الزام لگانے والوں کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے مواد دستیاب نہیں ہے۔ ورنہ جھوٹے الزامات کا سہارا ہرگز نہ لیتے۔

اس سلسلے میں چند امور قابل توجہ ہیں ابتدائی کتابیں (میزان) منشعب وغیرہ مرزاغلام قادر بیگ سے پڑھی تھیں جبکہ مخالفین یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہی ان کے استاد تھے۔

مرزا قادیانی کا بھائی مرزا غلام قادر بیگ، دنیا نگر کا معزول تھانے دارتھا جو پچپن برس کی عمر میں ۱۸۸۳ء میں فوت ہوا۔ جبکہ امام اہلسنت کے استاد مرزا غلام قادر بیگ پہلے بریلی میں رہے، پھر کلکتہ چلے گئے اور بریلی سے بذریعہ استفتاء رابطہ رکھتے رہے۔ ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری فرماتے ہیں:

’’میں نے جناب مرزا صاحب مرحوم مغفور (مرزا غلام قادر بیگ) کو دیکھا تھا۔ گورا چٹا رنگ، عمر تقریباً اسی سال، داڑھی، سر کے بال ایک ایک کر کے سفید، عمامہ باندھے رہتے تھے۔ جب کبھی اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لاتے، اعلیٰ حضرت بہت ہی عزت وتکریم کے ساتھ پیش آتے۔ ایک زمانہ میں جناب مرزا صاحب کا قیام کلکتہ، امر تلالین میں تھا۔ وہاں سے اکثر سوالات طلب بھیجا کرتے۔ فتاویٰ میں اکثر استفتاء ان کے ہیں۔ انہیں کے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے رسالہ مبارکہ ” تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین“ تحریر فرمایا ہے۔ ‘‘

فتاویٰ رضویہ مطبوعہ مبارکپور انڈیا جلد سوم کے صفحہ ۸ پر ایک استفتاء ہے جو مرزا غلام قادر بیگ صاحب کا ۲۱ / جمادی الآخر ۱۳۱۴ھ کا بھیجا ہوا ہے۔

ان تفصیلات کے مطابق معمولی سوجھ بوجھ والا آدمی بھی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ مرزائے قادیانی کا بھائی اور امام اہلسنت کے استاد قطعاً دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ وہ قادیان کا معزول تھانیدار، یہ مدرس وعالم، وہ پچپن سال کی عمر میں مر گیا یہ اسی سال کی عمر میں حیات تھے۔ وہ ۱۳۰۰ھ / ۱۸۸۳ء میں فوت ہوا، یہ ۱۳۱۴ھ / ۱۸۹۷ء میں حیات تھے۔22

وفات حسرت آیات:

۲۵صفر الظفر ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ کو جمعۃ المبارک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق2 بج کر38 منٹ پر،عین اذان کے وقت اِدھر مؤذن نے حَیَّ عَلَی الفَلاح کہا اور اُدھر اِمامِ اَہلسُنَّت الشاہ امام اَحمد رَضا خان sym-4 داعئ اَجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون آپ sym-4 کا مزارِپُراَنوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہوا ہے۔


  • 1 حیاتِ اعلیٰ حضرت ، ج:1،ص:58
  • 2 شاہ احمد رضا خان بڑیچ افغانی،محمد اکبر اعوان، ص:35
  • 3 مجدد اسلام، از علامہ نسیم بستوی،ص:33،32
  • 4 حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی، از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد، ص:50
  • 5 مجد د اسلام ،از علامہ نسیم بستوی، ص:45
  • 6 حیاتِ اعلیٰ حضرت ،ج:1،ص ،210
  • 7 جامع الاحادیث،جلد :8،از مولانا حنیف خان رضوی،ص :101
  • 8 انوارِ رضا،ص: 81-82
  • 9 فتاویٰ رضویہ،ج، ۳۰،ص :۱۰،رضا فاؤنڈیشن لاہور
  • 10 فیضان اعلیٰ حضرت، ص:281
  • 11 حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص:728
  • 12 فیضانِ اعلیٰ حضرت، ص:322
  • 13 تجلیاتِ امام احمد رضا،از مولانا امانت رسول قادری،ص:89
  • 14 سیرتِ اعلیٰ حضرت ،ص: 133
  • 15 فتاوی رضویہ ،ج:14،ص:337،رضا فاؤنڈیشن لاہور
  • 16 فتاوی رضویہ ،ج:15،ص:590،591،رضا فاؤنڈیشن لاہور
  • 17 فتاوی رضویہ ،ج:15،ص:590،591،رضا فاؤنڈیشن لاہور
  • 18 فتاوی رضویہ ،ج:14،ص:334،335،رضا فاؤنڈیشن لاہور
  • 19 فتاوی رضویہ ،ج:14،ص:336،رضا فاؤنڈیشن لاہور
  • 20 تحذیر الناس، ص :18 ،24
  • 21 تحذیر الناس ،حاشیہ نمبر :1،ص:13
  • 22 انوار رضا ص :517

Netsol OnlinePowered by