عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کی بنیاد ہے۔ پورے دین کی عمارت عقیدہ ختم نبوت پر قائم ہے۔ قرآن پاک کی ایک سو آیات میں عقیدہ ختم نبوت کو بیان کیا گیا ہے۔ سرور دو عالم ﷺ نے دو سو سے زائد احادیث میں اس عقیدہ کو بیان کیا ہے۔ امت مسلمہ کی سب سے اہم اور مقدس شخصیات صحابہ کرام نے سیدنا صدیق اکبر کے دور خلافت میں سب سے پہلا اجماع جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف اعلان جہاد پر کیا اور عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی۔ عقل صحیح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس چیز کی ابتداء ہو اس کی انتہاء بھی ہونی چاہیے۔ سلسلہ نبوت کی ابتداء حضرت آدم سے ہوئی اور انتہاء سرور دو عالم ﷺ کی ذات گرامی پر۔ چنانچہ آقائے نامدار ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
عَنْ أَبِيْ ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : نَزَلَ آدَمُ بِالْھِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادى بِالْأَذَانِ: اللهُ أَكبَرُ اللهُ أَكبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مَرَّتَيْنِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ اٰدَمُ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِیَاء1
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) آپ نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی: اَللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا: محمد (ﷺ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ۔
دینی تاریخ میں عالَم چار ہیں: عالَم ارواح، عالَم دنیا، عالَم برزخ، عالَم آخرت۔ جب ہم عالَم ارواح کو دیکھتے ہیں تو عالَم ارواح میں حضور ﷺ کی نبوت ورسالت کا پرچار ہوتا نظر آتا ہے۔ چنانچہ پروردگار عالم جل شانہ فرماتے ہیں:
"وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ"2
اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے عالم ارواح میں ہونے والے ایک عہد وپیمان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جو ازل میں اللہ پاک نے تمام انبیائے کرام سے رحمت دو عالم ﷺ کے بارے میں لیا کہ اگر آپ کی زندگی میں محمد ﷺ تشریف لائیں تو آپ ان پر ایمان بھی لائیں اور ان کی نصرت وامداد بھی کریں۔ اس عہد ومیثاق میں حضور ﷺ کی کمال درجہ کی بلندئ شان بیان کی گئی ہے کہ انبیاء بھی آپ ﷺ پر ایمان لائیں گے اور ان کی مدد ونصرت فرمائیں گے۔
چنانچہ مختلف مواقع میں یہ بلندئ شان واضح کی گئی ہے۔ جیسے لیلۃ المعراج میں تمام انبیاء کرام کا آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنا۔ عالم آخرت میں تمام انبیاء کرام کا آپ ﷺ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونا۔ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء کرام کا اپنے اپنے دور میں آپ ﷺ کی آمد کی بشارت وخبر دینا۔ مزید عملی طور پر اس عہد کی تکمیل کے لئے حضرت عیسیٰ کا آسمان پر اٹھایا جانا، قیامت کے قریب دوبارہ دنیا میں تشریف لاکر آپ ﷺ کی امت اور آپ ﷺ کے دین کی نصرت وامداد کرنا یہ سب حضور ﷺ کی بلندئ شان کو واضح کرتے ہیں۔
سب سے پہلے انسان (حضرت آدم ) جب دنیا میں تشریف لائے تو ان کے دونوں شانوں (کندھوں) کے درمیان لکھا ہوا تھا:
"بین كتفی آدم مكتوب محمد رسول الله وخاتم النبیین" 3
نیز جب آدم دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلی آواز جو ان کے کانوں سے ٹکرائی وہ حضور ﷺ کی رسالت ونبوت سے متعلق تھی۔
چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے:
"فنزل جبریل فنادي بالآذان الله اكبر مرتن اشهد ان لا اله الا الله مرتین واشهد ان محمد رسول الله مرتین قال آدم من محمد فقال هو آخر ولدك من الانبياء" 3
یعنی جب حضرت آدم ہند میں نازل ہوئے، انہوں نے وحشت (اجنبیت) محسوس کی تو حضرت جبرائیل تشریف لائے اور کلمات اذان ارشاد فرمائے۔ ان کلمات میں اشهد ان محمد رسول الله دو مرتبہ فرمایا۔ حضرت آدم نے پوچھا کہ محمد ﷺ کون ہیں؟ تو جبرائیل امین نے جواب میں فرمایا کہ وہ آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ہیں۔
عالم برزخ یعنی مرنے کے بعد قبر میں جب منکر نکیر (سوال وجواب کے فرشتے) میت کو زندہ کرتے ہیں اور اس سے تین معروف سوال کرتے ہیں۔ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ تو میت جواب میں کہتی ہے:
"ربی الله وحده لا شريك له، الاسلام دینی، ومحمد نبی وهو خاتم النبیین فیقولان صدقت 4
" یعنی میرا رب وہ اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ میرا دین اسلام ہے۔ اور حضرت محمد ﷺ میرے نبی ہیں اور وہ آخری نبی ہیں۔
چنانچہ حدیث شفاعت میں ہے جب انسان تھک ہار کر حضرت عیسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان سے شفاعت کی درخواست کریں گے تو حضرت عیسیٰ جواب میں فرمائیں گے کہ میں آج شفاعت کی پوزیشن میں تو نہیں۔ البتہ میں تمہاری رہنمائی کر سکتا ہوں:
"اذهبو الی غیري اذهبو الى محمد فياتون محمدا ﷺ فيقولون يا محمد انت رسول الله وخاتم الانبياء5
" حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں، تو لوگ حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور کہیں گے یا محمد ﷺ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔
حضرت زید بن حارثہ بچپن میں اغواء ہوئے اور فروخت ہوتے ہوئے حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ ان کے خاندان والوں کو جب پتہ چلا کہ زید حضور ﷺ کے پاس ہیں۔ وہ آئے اور آکر کہا اے زید! اٹھ اور ہمارے ساتھ چل۔ تو میں (زید) نے کہا کہ میں حضور ﷺ کی خدمت کے مقابلہ میں ساری دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا اور نہ آپ کے سوا کسی اور کا ارادہ رکھتا ہوں۔ تو میرے رشتہ دار حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس لڑکے کے بدلہ میں آپ کو بہت سارا مال دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس لڑکے کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ اس پر انہیں حضور ﷺ نے فرمایا:
"اسئلكم ان تشهدوا ان لا اله الا الله وانی خاتم الانبياء ورسله ارسله معكم"6
میں تم سے کہتا ہوں کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کے نبیوں اور رسولوں میں سے آخری ہوں تو میں اس کو تمہارے ساتھ بھیج دوں گا۔
اس حدیث پاک میں حضور ﷺ نے عقیدہ ختم نبوت کو کلمہ شہادت کی طرح ایمان کا جزو قرار دیا۔
علامہ ابن نجیم اپنی شہرہ آفاق کتاب "الاشباہ والنظائر" میں تحریر فرماتے ہیں:
"اذا لم يعرف الرجل ان رسول الله ﷺ آخر الانبياء فليس بمسلم فانه من الضروريات" 7
جس کو یہ معلوم نہیں کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں وہ مسلمان نہیں۔ کیونکہ عقیدہ ختم نبوت ضروریات دین میں سے ہے اور ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔
قرآن وسنت کی روشنی میں امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ جس طرح نبوت کا دعویٰ کرنا کفر ہے۔ ایسے ہی نبوت کی تمنا کرنا بھی کفر ہے۔
چنانچہ علامہ حلبی فرماتے ہیں:
"لو تمنى فى زمن نبیا او بعده ان لو كان نبیا فیكفر فی جمیع ذلك والظاهر لا فرق بین تمنى ذلك باللسان او القلب"
اگر کوئی انسان ہمارے نبی ﷺ کی زندگی میں یا آپ ﷺ کی وفات کے بعد نبوت کی تمنا کرے تو ان تمام امور کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ تمنا زبان کے ساتھ ہو یا دل میں اس میں کوئی فرق نہیں۔
جب ایک شخص نبوت کی تمنا سے کافر ہو جاتا ہے تو دعویٰ نبوت اس سے بھی بڑا کفر ہوگا۔ پھر مدعی نبوت پر ایمان لانا بڑی جرات کی بات ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کے بعد مدعی نبوت سے علامت نبوت طلب کرنا بھی کفر ہے۔
چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
"من طلب منه علامة فقد كفر لقول النبی لا نبی بعدي" 8
جو کسی مدعی نبوت سے نبوت کی نشانی طلب کرے تو کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ فرما چکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
الغرض عقیدہ ختم نبوت اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اس میں کسی قسم کا تامل کرنا بھی خالص کفر ہے۔ آپ خود اندازہ فرمائیں کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف حضور ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ بیسیوں دعوے کئے۔ لہٰذا مرزا قادیانی یا کسی ایسے مدعی نبوت کو نبی ماننا، مجدد، امام مہدی، مذہبی رہنما، مسیح ماننا تو در کنار اسے مسلمان سمجھنا یا اس کے کفر میں شک کرنا بھی ایک مسلمان کو کافر بنا دیتا ہے۔ عرب وعجم اور دنیا بھر کے علماء کرام کا متفقہ فتویٰ ہے ایسے مدعی نبوت کذاب ودجال، مرتد، زندیق اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
خیر القرون کے زمانہ سے امت مسلمہ عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کرتی چلی آرہی ہے اور یہاں تک حساس ہے اور اس کا متفقہ عقیدہ ہے کہ:
"من شك فى كفره وعذابه فقد کفر"
یعنی جو شخص مدعی نبوت کے کفر اور اس کے عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
غرض یہ کہ عالم ارواح ہو یا عالم دنیا، عالم برزخ ہو یا عالم آخرت، تمام جہانوں میں حضور ﷺ کی ختم نبوت کا ہی چرچا نظر آتا ہے۔ ختم نبوت پر ایمان پورے دین پر ایمان ہے۔ ختم نبوت پر ایمان قرآن پاک پر ایمان ہے۔ ختم نبوت پر ایمان احادیث نبویہ پر ایمان ہے۔ ختم نبوت پر ایمان صحابہ کرام پر ایمان ہے۔ ختم نبوت پر ایمان اہل بیت کو ماننا ہے۔ ختم نبوت کا انکار پورے دین اسلام کا انکار ہے۔ ختم نبوت کا انکار قرآن پاک کی حقانیت کا انکار ہے۔ ختم نبوت کا انکار احادیث نبویہ پر عدم اعتماد ہے۔ ختم نبوت کا انکار صحابہ کرام کی عظمت کا انکار ہے۔ گویا عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور اس کی بقا اصل الاصول اور افرض الفرائض ہے۔
علماء کرام فرماتے ہیں:
"من لم يعرف ان محمداً خاتم الانبياء فليس بمسلم"
جیسا کہ پہلے گزرا۔ یعنی مسلمان ہونے کے لئے حضور ﷺ کو آخری نبی جاننا اور ماننا دونوں ضروری ہیں۔ قصہ مختصر عقیدہ ختم نبوت قرآن پاک کی ننانوے آیات سے ثابت ہے۔ نیز یہ عقیدہ دو سو دس احادیث سے ثابت ہے۔ عقیدہ ختم نبوت تواتر سے ثابت ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اجماع امت سے ثابت ہے۔ یعنی صحابہ کرام کا سیدنا صدیق اکبر کے دور خلافت میں سب سے پہلا اجماع عقیدہ ختم نبوت پر ہوا۔ اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے سیدنا صدیق اکبر کے دور خلافت میں بارہ سو صحابہ کرام اور تابعیننے جام شہادت نوش فرمایا۔ جن میں سات سو حفاظ وقراء اور ستر بدری صحابہ کرام تھے۔ عقیدہ ختم نبوت کی برکت سے اللہ پاک نے امت مسلمہ کو "اجماع امت" کی سعادت سے سرفراز فرمایا۔
جنگ یمامہ میں بارہ سو صحابہ کرام وتابعین شہید ہونے کے بعد قرآن پاک کو کاغذ پر اتارنے اور جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ حضور ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے سے دلیل طلب کرنے کو کفر قرار دیا گیا۔
قرآن کریم کا قیامت کی صبح تک باقی رہنا بھی ختم نبوت کی دلیل ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا میں کسی آسمانی کتاب کے حافظ موجود نہیں۔ جبکہ قرآن پاک کے حفاظ دو کروڑ سے زائد موجود ہیں۔ پہلی کتابیں عارضی اور وقتی ضرورت کے لئے نازل ہوئیں۔ اس لئے اب یہ اپنی اصل شکل میں دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں۔ قرآن پاک دائمی ہے۔ اس لئے اس کے حفاظ ہر زمانے میں رہے اور رہیں گے۔ ان شاء اللہ!
پہلے انبیاء کرام کی عبادت گاہیں عارضی تھیں۔ اس لئے ان کی امتیں اپنی عبادت گاہیں بیچ دیتی ہیں۔ رحمت دو عالم ﷺ کی نبوت جس طرح دائمی اور ابدی ہے اسی طرح مساجد جس خطہ اراضی پر بن گئیں وہ بھی ختم نبوت کی برکت سے دائمی اور ابدی ہو گئیں۔ مساجد کو فروخت کرنا اور انہیں دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کرنا حرام ہے۔
اس تفصیل سے یہ سمجھ آیا کہ ختم نبوت کا عقیدہ کتنا اہم اور اس کی حفاظت کتنی ضروری ہے۔ امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ حضور ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائیں اور رحمت عالم ﷺ کی ختم نبوت پر کسی کو نقب زنی نہ کرنے دیں۔ چونکہ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے اس عقیدہ پر نقب زنی کی۔ لہٰذا مرزا قادیانی کو نبی اور مذہبی رہنما ماننے والوں سے مجلسی، اقتصادی اور عمرانی ہر قسم کا بائیکاٹ کرنا مسلمانوں کے لئے ضروری امر ہے۔