مرزا قادیانی انگریز کا ملازم تھا ساری زندگی خود بھی انگریز کی غلامی کی اوردوسرں کو بھی انگریز کی غلامی اور انگریز سے جہادکرنے کو حرام ہونے کا درس دیتا رہا اور ان کی فرمانبرداری کو اپنے چیلوں اور مریدوں میں فرض بتاتا رہا ۔
اب مرزا قادیانی کی تحریروں سے دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے مالک کی خدمت کا اعتراف کس زبان میں کرتا ہے ۔
یہ گورنمنٹ ہمارے مال اور خون اور عزت کی محافظ ہے اور اس کے مبارک قدم سے ہم جلتے ہوئے تنور میں سے نکالے گئے ہیں۔ یہ کتابیں ہیں جو مَیں نے اس ملک اور عرب اور شام اور فارس اور مصر وغیرہ ممالک میں شائع کی ہیں۔ چنانچہ شام کے ملک کے بعض عیسائی فاضلوں نے بھی میری کتابوں کے شائع ہونے کی گواہی دی ہے اور میری بعض کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کرسکتا۔
(مجموعہ اشتہارات، ج: 2،ص: 355 )
میرے اس دعویٰ پر کہ مَیں گورنمنٹ برطانیہ کا سچا خیر خواہ ہوں، دو ایسے شاہد ہیں کہ اگر سول ملٹری جیسا لاکھ پرچہ بھی ان کے مقابلہ پر کھڑا ہو، تب بھی وہ دروغگو ثابت ہوگا۔ (اوّل) یہ کہ علاوہ اپنے والد مرحوم کی خدمت کے، میں سولہ برس سے برابر اپنی تالیفات میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ مسلمانان ہند پر اطاعت گورنمنٹ برطانیہ فرض اور جہاد حرام ہے۔دوسری یہ کہ میں نے کئی کتابیں عربی فارسی تالیف کر کے غیر ملکوں میں بھیجی ہیں جن میں برابر یہی تاکید اور یہی مضمون ہے۔ پس اگر کوئی نااندیش یہ خیال کرے کہ سولہ برس کی کارروائی میری کسی نفاق پر مبنی ہے تو اس بات کا اس کے پاس کیا جواب ہے کہ جو کتابیں عربی و فارسی، روم اور شام اور مصر اور مکہ اور مدینہ وغیرہ ممالک میں بھیجی گئیں اور ان میں نہایت تاکید سے گورنمنٹ انگریزی کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں، وہ کارروائی کیونکر نفاق پر محمول ہو سکتی ہے۔ کیا ان ملکوں کے باشندوں سے بُجز کافر کہنے کے کسی اور انعام کی توقع تھی؟ کیا سول ملٹری گزٹ کے پاس کسی ایسی خیر خواہ گورنمنٹ کی کوئی اور بھی نظیر ہے؟ اگر ہے تو پیش کریں۔ لیکن مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جس قدر میں نے کارروائی گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لیے کی ہے، اس کی نظیر نہیں ملے گی ۔
(مجموعہ اشتہارات،جلد: 1،ص: 462 )
سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں، اس خودکاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اورمیری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولتمدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں تا ہر ایک شخص بے وجہ ہماری آبرو ریزی کے لیے دلیری نہ کرسکے۔
(مجموعہ اشتہارات، جلد :2،ص: 198 )
یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اُردو فارسی، عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے دو مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی بخوبی شائع کر دیں اور روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا، اشاعت کر دی گئی جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلط خیالات چھوڑ دیے جو نافہم ملائوں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا اور میں اس قدر خدمت کر کے جو بائیس برس تک کرتا رہا ہوں۔ اس محسن گورنمنٹ پر کچھ احسان نہیں کرتا کیونکہ مجھے اس بات کا اقرار ہے کہ اس بابرکت گورنمنٹ کے آنے سے ہم نے اور ہمارے بزرگوں نے ایک لوہے کے جلتے ہوئے تنور سے نجات پائی ہے۔ اس لیے میں مع اپنے تمام عزیزوں کے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہوں کہ یاالٰہی! اس مبارکہ قیصرہ ہند دام ملکہ کو دیرگاہ تک ہمارے سروں پر سلامت رکھ۔ اور اس کے ہر ایک قدم کے ساتھ اپنی مدد کا سایہ شامل حال فرما اور اس کے اقبال کے دن بہت لمبے کر۔
(ستارہ قیصرہ ،ص: 4 ، روحانی خزائن ج :15، ص: 114)
میں ایک گوشہ نشین آدمی تھا جس کی دنیوی طریق پر زندگی نہیں تھی اور نہ اس کے کامل اسباب مہیا تھے۔ تاہم میں نے برابر 16 برس سے یہ اپنے پر حق واجب ٹھہرا لیا کہ اپنی قوم کو اس گورنمنٹ کی خیر خواہی کی طرف بلائوں اور ان کو سچی اطاعت کی طرف ترغیب دوں۔ چنانچہ میں نے اس مقصد کی انجام وہی کے لیے اپنی ہر یک تالیف میں یہ لکھنا شروع کیا کہ اس گورنمنٹ کے ساتھ کسی طرح مسلمانوں کو جہاد درست نہیں۔ اور نہ صرف اس قدر بلکہ بار بار اس بات پر زور دیا کہ چونکہ گورنمنٹ برطانیہ، برٹش انڈیا کی رعایا کی محسن ہے، اس لیے مسلمانان ہند پر لازم ہے کہ نہ صرف اتنا ہی کریں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے مقابل پر بدارادوں سے رُکیں بلکہ اپنی سچی شکر گزاری اور ہمدردی کے نمونے بھی گورنمنٹ کو دکھلاویں۔
(مجموعہ اشتہارات، جلد :1،ص: 459)
یہ تو میرے باپ اور میرے بھائی کا حال ہے اور چونکہ میری زندگی فقیرانہ اور درویشانہ طور پر ہے، اس لیے میں ایسے درویشانہ طرز سے گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی اور امداد میں مشغول رہا ہوں۔ قریباً انیس برس سے ایسی کتابوں کے شائع کرنے میں، میں نے اپنا وقت بسر کیا ہے جن میں یہ ذکر ہے کہ مسلمانوں کو سچے دل سے اس گورنمنٹ کی خدمت کرنی چاہیے اور اپنی فرمانبرداری اور وفاداری کو دوسری قوموں سے بڑھ کر دکھلانا چاہیے اور میں نے اسی غرض سے بعض کتابیں عربی زبان میں لکھیں اور بعض فارسی زبان میں اور ان کو دور دور ملکوں تک شائع کیا۔ اور ان سب میں مسلمانوں کو بار بار تاکید کی اور معقول وجوہ سے ان کواس طرف جھکایا کہ وہ گورنمنٹ کی اطاعت بدل و جان اختیارکریں ۔
(کشف الغطاء، ص: 9 ، روحانی خزائن ج :14، ص:185)
سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں، یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں، دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو، جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے… سو اگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں۔
(شہادت القرآن ،ص:84، 85 ،روحانی خزائن ،ج:6 ،ص:380، 381 )
مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی، وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعا گو رہے۔
(ستارہ قیصرہ ،ص :4 ، روحانی خزائن ج: 15 ص: 114)
نبی کسی دنیاوی حکومت کی کاسہ لیسی یا اس کی اطاعت کا درس دینے نہیں آتا ۔ مرزا قادیانی کی تحریروں سے بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ کیا مرزا قادیانی محد ث ، مہدی ، مسیح موعود،ظلی ، بروزی نبی ہو سکتا ہے ؟ایسے لوگ جو مرزا قادیانی کو اپنا نبی بنا بیٹھے ہیں ان کا کیا حال ہو گا اور وہ انگریز کو اپنا کیا کچھ سمجھتے ہوں گے ۔ جن کا نبی ایسا ہو گا ان کے بارے میں یہ گمان کرنا بھی فضول ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے اسلام یا مملکت خداد پاکستان کے وفادار ہو سکتے ہیں ۔ اور جب اس گروہ کے لوگ پاکستان کے کلیدی عہدوں پر براجمان ہوں گے تو ان کی خدمات کن کے لیے ہوں گی بات صاف ظاہر ہے ۔