اب میں ناظرین کی خدمت میں چند احادیث پیش کرتا ہوں۔ جن میں آقائے نامدار احمد مختار علیہ الصلوٰۃ والسلامفرمارہے ہیں کہ نبوت مجھ پر ختم ہو چکی۔ اب میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔
مسلم شریف کتاب الفضائل میں ہے۔ جبیر بن مطعم بنی امیہ
راوی کہ حضور
نے فرمایا:
إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ أَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ وَانَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحَشَرَ النَّاسُ عَلَى قَدْ مِنْ وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبی1
فرمایا: میرے لئے متعدد نام ہیں۔ میں محمد ہوں ۔ میں احمد ہوں۔ میں ماحی ہوں کہ اللہ مجھ سے کفر مٹاتا ہے۔ میں حاشر ہوں کہ بروز قیامت لوگوں کا حشر میرے قدموں پر ہوگا۔ اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے۔ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔انتھی
حضور ﷺنے خود عا تحب کی تفسیر فرمادی کہ عاقب وہ ہے۔ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ علامہ نووی
اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
اما العَاقِبُ فَفَسَّرَهُ فِي الحَدِيثِ بِأَنَّهُ لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ ايَ جَاءَ عَقْبَهُمْ ترجمہ: یعنی عاقب کی حضور
نے حدیث میں خود تفسیر فرمادی کہ عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ یعنی حضور
سب سے پیچھے تشریف لائے ۔
شیخ سلیمان جمل شافعی
محشی جلالین عاقب کا معنی کرتے ہیں ( العاقب) وَمَعْنَاهُ الآتِي بَعْدَ الأنبياء فَلَا نَبِي بَعدَهُ2 یعنی عاقب وہ ہے۔ جو سب نبیوں کے بعد آوے۔ پس حضور
کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اس لئے کہ عاقب بمعنی آخر ہے۔
یہ حدیث مشکوۃ شریف میں بھی ہے۔ اس کی شرح لمعات میں لکھا ہے کہ عاقب آخر الانبیاء کے معنی میں ہے۔ منتھی الارب والے بھی عاقب کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَمِنْهُ قَولُ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا الْعَاقِبُ يَعْنِي آخِرُ الْأَنبِيَاء
اسی سے ہے حضور
کا ارشاد کہ میں عاقب ہوں ۔ یعنی سب نبیوں سے پچھلا ہوں۔شیخ عبد الحق محدث دہلوی
مدارج النبوت ج1ص 147پر فرماتے ہیں:
عاقب پس آئندہ یعنی خاتم الانبیاءاشعتہ اللمعات میں بھی اس کا معنی یہی لکھا ہے۔ دیکھئے (ص :57،ج:4)
مسلم شریف کتاب الفضائل میں ہے۔ ابومو سی اشعری
روایت کرتے ہیں کہ حضور
نے فرمایا۔
أَنَا مُحَمَّدٌ وَاحْمَدُ وَالْمُقَفِّى وَالحَاشِرُ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ فرمایا: میں محمد ہوں ۔ احمد ہوں ۔ آخری نبی ہوں حاشر ہوں ۔ تو بہ کا نبی اور رحمت کا بنی ہوں ۔ 3
علامہ نووی
اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
أَمَّا المَقَفِي فَقَالَ شَرٌ هُوَ بِمَعْنِي الْعَاقِب یعنی معنی عاقب کے معنی ہیں۔ شیخ عبدالرؤف مناوی
شرح کبیر میں مقفی کا معنی لکھتے ہیں:
( المقفى ) بِشِدَّةِ الْفَاءِ وَكَسْرِهَا لَأَنَّهُ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ عَقْبَ الأَنْبِيَاءِ وَفِي قَفَاهم ( نقله النبہانی [symbol فی جواہر البحار] ج 1ص:52) فرمایا کہ حضور
مقفی ہیں۔ اس لئے کہ آپ سب نبیوں کے بعد اور پیچھے تشریف لائے ۔ علامہ ملا علی قاری
بھی مفتی کا معنی آخر الانبیاء لکھتے ہیں ( دیکھو مرقاۃ ص :376، ج:5)
اشعۃ اللمعات ص 504 ، جلد4 پر بھی مقفی کا معنی آخر انبیا ء خاتم ایشاں لکھا ہے۔
علامہ قسطلانی بھی مقفی کا معنی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :وَكَانَ خَاتِمَهُمْ وَاخِرَهُمْ4یعنی حضور
نبیوں کو ختم کرنے والے اور آخر انبیاء ہیں۔
مسلم شریف اور مشکوۃ میں حضرت ابو ہریرہ
راوی ۔ حضور
نے فرمایا :
فُصِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بست أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمِ وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَةً وَخُتِمَ فِي النَّبِيُّونَ5
فرمایا مجھے نبیوں پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے۔ میں کلمات جامعہ دیا گیا ہوں ۔ رعب کے ساتھ منصور ہوں۔ مال غنیمت میرے لئے حلال کیا گیا۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی کر دی گئی۔ اور میں تمام جہان کے لئے رسول بنایا گیا اور میرے وجود با وجود سے نبیوں کو ختم کر دیا گیا۔
حضرت ملاعلی قاری
مرقاۃ میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: ای وجود ہم فلا يحدث بعدی نبی یعنی سب لکھتے ہیں:ای وجود ہم فلا يحدث بعدی نبی یعنی سب نبیوں کے وجود کو ختم کر دیا گیا۔ اب بعد میں کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔
ترندی و بخاری اور مسلم نیز مشکوۃ شریف میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔
مَثَلِي وَمَثَلُ الانبياء كَمَثَل قَصْرٍ مُحْسِنَ بُنْيَانَهُ تُركَ مِنْهُ مَوْضِع لبنة فَطَافَ بِهِ النَّظَارُ يَتَعَجَّبُونَ مِنْ حُسْنِ بُنْيَانِهِ إِلَّا مَوضِعَ تِلْكَ اللَّبْنَةِ فَكُنتُ أنَا سَدَدْتُ مَوْضع اللبنةِ خُتِمَ بي البيان وَخُتِمَ فِي الرِّسل وَفِي رِوَايَةٍ فَأَنَا اللَّبْنَةُ وَانَا خَاتِمُ النبيين6
یعنی میری مثال اور نبیوں کی مثال اس محل کی سی ہے۔ جس کی تعمیر بہت اچھی کی گئی ہو۔ اور ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی ہو۔ دیکھنے والے اس کے ارد گرد پھرتے ہیں اور خوبی تعمیر سے متعجب ہوتے ہیں۔ مگر اس ایک اینٹ کی خالی جگہ سے۔ پس میں نے آکر وہ خالی جگہ بند کر دی۔ یہ کل مجھ سے پورا کیا گیا اور رسولوں کو مجھ سے ختم کیا گیا۔ میں عمارت نبوت کی وہ پچھلی اینٹ ہوں اور میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں ۔
بخاری شریف اور مسلم شریف میں ابو ہریرہ
سے حدیث شفاعت میں مروی ہے کہ عیسی
لوگوں کو کہیں گے کہ آج محمد ﷺکی طرف جاؤ۔ حضو ر
فرماتے ہیں۔ پھر لوگ میرے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے یا مُحَمَّد أَنْتَ رَسُولِ اللَّهِ وَخَاتِمُ الانبیاء7(اے محمد ﷺآپ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں )
بخاری شریف اور مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ
سے مروی ہے کہ حضور
نے فرمایا :
كَانَتْ بَنُوا إِسْرَائِيلَ تَمُوْسُهُمُ الْأَنْبِيَاءِ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي 8
فرمایا بنی اسرائیل کے انبیاء کے انبیاء سیاست فرماتے تھے۔ جب ایک نبی تشریف لے جاتے تو دوسرا ان کے بعد آجاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
مشکوۃ شریف میں حضرت جابر سے مروی ہے۔ حضور
نے فرمایا:
أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِينَ وَلَا فَخَرَ وَأَنَا خَاتِمُ النبيين وَلَا فَخَرَوَانَا أَوَّلُ شَافِعِ وَمُشَفَع وَلَا فَخَرَ9
میں پیشوا ہوں رسولوں کا اور اس میں کوئی فخر نہیں۔ میں ختم کرنے والا ہوں نبیوں کا اور اس میں کوئی فخر نہیں۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں۔ اور پہلا شفاعت مانا گیا۔ اور اس میں کوئی فخر نہیں انتھی اسے دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔
عرباض ابن ساریہ
حضور ﷺ سے راوی کہ آپ نے فرمایا:
إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ خَاتِمُ النبيين وَأَنَّ آدَمَ لَمُنْجِيلْ فِي طِينَتِهِ ترجمہ: بیشک میں اللہ کے ہاں اسوقت بھی نبیوں کا ختم کرنے والا لکھا ہوا تھا۔ جس وقت کہ آدم ابھی اپنی مٹی ہی میں تھے۔ 10
ابی امامہ باہلی
حضور
سے راوی کہ آپ نے فرمایا :
وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْامَم
اور میں سب نبیوں کا پچھلا نبی اور تم سب امتوں سے پچھلی امت ہو۔
اسے ابن ماجہ نے اپنے سخن میں باب فتنہ الد جال میں ص :307 پر روایت کیا۔
عَنْ سَعْدِ ابْنِ أَبِي وَقَاصِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِي أَنْتَ مِنِّي بِنْزَلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي 11
سعد ابن ابی وقاصفرماتے ہیں: کہ حضور
نے فرمایا (حضرت علی کو تجھے مجھ سے ایسی نسبت ہے جیسے ہارون کو موسی سے ۔ (
) مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔
اس حدیث میں ذرا سے تامل کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ حضور
نے نبی غیر تشریعی کے بھی ختم ہو جانے کی اطلاع دے دی۔ اور وہ یوں کہ آپ نے حضرت علی
کو حضرت ہارون
کے ساتھ تشبیہہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور ہارون
نبی تشریعی نہ تھے بلکہ غیر تشریعی تھے۔ تو معلوم ہوا کہ حضرت علی
کے نبی غیر تشریعی ہونے کی بھی حضور
نے نفی فرماتے ہوئے فرمایا کہ لا نبی بعدی ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ نہ تشریعی ، اور نہ ایسا جیسے ہارون
تھے یعنی غیر تشریعی ۔
مرزائیوں کا یہ کہنا کہلا نبی بعدیمیں لا نفی کمال کے لئے ہے۔ یعنی حضور
کے بعد کوئی کامل نبی نہیں۔ سراسر ایک لغو خیال ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ تم لوگ جو لا نبی بعدی میں خبر لا کامل نکالتے ہو ۔ کسی دلیل سے نکالتے ہو کیالا کی خبر ہمیشہ کامل ہی آیا کرتی ہے؟ اگر کہو کہ ہاں تو دلیل؟ اگر نہیں تو حماقت کا اقرار کرو۔ ہم مانتے ہیں کہ لا کی خبر کامل آسکتی ہے۔ مگر نہ یہ کہ ہر جگہ بلکہ موقعہ بموقعہ۔ جہاں بغیر اس کے نکالے ہوئے کلام صحیح نہ ہو سکے ۔ مثلاً حضور
کا ارشاد ہے : لا صَلوةِ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فَاقْرَاء وَامَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآن12 اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تمہیں قرآن سے جو کچھ آسان ہو پڑھو اور حضور ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ اس کی نماز نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔ قرآن کا تو یہ منشا ہے کہ جو جگہ آسان نظر آئے اسے پڑھ لو۔ چاہے سورہ فاتحہ ہو یا کوئی اور سورت مگر حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ ہی پڑھو اب یہاں قرآن وحدیث میں تطبیق دینے کے لئے ہم لا صلوة إِلَّا بِفَاتِحَةِ الكتاب میں خبر لا کاملہ نکالیں گے۔
(ماخوذ ۔۔۔ ختم نبوت ۔۔۔از علامہ ابو النور محمد بشیر کوٹلی رحمۃ اللہ علیہ )