ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے انبیاء کرام
تو مردوں کے باپ تھے۔ مگر حضور اقدسﷺکسی مرد کا باپ نہیں بنایا گیا۔ حالانکہ آپ سید الانبیاء ہیں۔
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین پہلے جملہ میں ابوہ جسمانیہ کی نفی فرمائی گئی اور دوسرے جملہ میں بتایا گیا ہے کہ آپ خاتم النبین ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محمد ﷺ ا یک کسی مرد کے باپ اس لئے نہیں کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ برخلاف انبیاء سابقہ کے کہ ان میں سے کوئی خاتم النبيين نہ تھا۔ اگر آپ کو کسی مرد کا باپ بنایا جاتا اور وہ نبی نہ ہوتا تو کہا جاتا کہ نبی کا بیٹا نبی نہ ہوا۔ اور نبی بھی وہ نبی جو سید الانبیاء ہیں۔ حالانکہ پہلے نبیوں کے بیٹے نبی ہوتے آئے ۔ اگر وہ نبی ہوتا تو آپ کے خاتم النبیین ہونے میں فرق آتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی مرد کا باپ بنایا ہی نہیں اور اسی لئے حضورﷺکے صاحبزادوں کو بچپن میں ہی عالم فانی سے بلا لیا۔ اور انہیں مبلغ رجال تک پہنچنے ہی نہ دیا۔ تفسیر جلالین ص ۳۵۳ پر اس آیت کے تحت لکھا ہے:
فلا يكون له ابن رجل بعده يكون نبيا کہ آپ کا کوئی ایسا بیٹا جو مبلغ رجال تک پہنچ چکا ہو نہ ہوا۔ جو آپ ﷺ کے بعد نبی ہو۔
حضرت ابن عباس
جو عالم قرآن ہیں اور جن کے حق میں اللہ کے رسول نے اللہ سے دعا فرمائی۔ جسے خود حضرت ابن عباس ﷺروایت فرماتے ہے کہ ضَمَّني النبي صلى الله عليه وسلم اليه وقال اللهم عليه الكِتاب ( بخاری ) کہ حضور
نے مجھے اپنے ساتھ لگا کر دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے قرآن سکھلا دے۔
یہی ابن عباس
فرماتے ہیں:
يُرِيدُ لَوْ لَمْ اَخْتَمْ بِهِ النبيِّينَ لَجَعَلْتُ لَهُ ابْنَاء يَكُونُ بَعْدَهُ نَبِيًّا وَعَنْهُ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَكَمَ أَنَّ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ لَمْ يُعطهُ وَلَدًا ذَكرً ا يصِيرُ رَجَلًا.1
فرماتے ہیں کہ اللہ اس آیت میں یہ ارادہ فرماتا ہے کہ اگر میں حضورﷺ کے وجود باوجود سے سلسلہ نبوت ختم نہ کرتا۔ تو آپ کو بیٹا دیتا۔ جو آپ کے بعد نبی ہوتا اور جب اللہ نے یہ فرمادیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اس لئے آپ کو ایسا بیٹاہی نہیں دیا جو مبلغ رجال تک پہنچ جاتا۔
علامہ اسمعیل حقی
روح البیان جلد ۷ ص ۷۹ میں بحوالہ مفردات فرماتے ہیں:
فَلَوْ كَانَ لَهُ اِبْن بَالِغ لَكَانَ نَبِيًّا وَلَمْ يَكُنْ هُوَ عَلَيْهِ السَّلَامِ خَاتَمَ النبيين كَمَا يُروى أَنَّهُ قَالَ فِي ابْنِهِ إِبْرَاهِيم ( لو عَاشِ لَكَانَ نَبِيًّا )وَذَلِكَ لان أولاد الرسُل كَانُوا يَرثُونَ النبوة قَبْلَه من آباءِ هِمْ وَكَانَ ذَلِكَ مِنْ امْتَنَانِ اللهِ عَلَيْهِمْ فَكَانَتْ عُلَمَاءُ أُمَّتِهِ وَرَثَتَهُ [symbol مِنْ جِهَةِ الْوَلَايَةِ وَالْقَطَعِ ارْتَ النَّبُوَّةِ بِخَتُمِيتِهِ] ترجمہ: فرمایا۔ اگر حضورﷺ کا بیٹا جو حد بلوغ تک پہنچ چکا ہوتا۔ تو وہ نبی ہوتا تو پھر حضور ﷺ خاتم النبین نہ ٹھہرتے۔ جیسے کہ حضور
نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم
کے حق میں فرمایا۔ اگر وہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے اور یہ اس لئے فرمایا کہ حضور
سے پہلے رسولوں کی اولاد کو اپنے باپ سے نبوت وراثت میں ملتی تھی اور یہ ان پر اللہ کا احسان تھا۔ اور اب حضور
کے خاتم النبین ہونے کی وجہ سے وراثت نبوت تو منقطع ہو چکی ہاں حضور ﷺکی امت کے علماء وارث ولایت ہیں ۔