پہلا شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب فرما دیا کہ حضورﷺ کسی مرد کے باپ نہیں تو اب حضور
کی وہ شفقت امت پر ثابت نہ ہوئی جو باپ کو بیٹے کے ساتھ ہوتی ہے۔ حالانکہ لوازمات نبوت سے ایک شفقت علی الامت بھی ہے۔
دوسرا شبہ یہ پیدا ہوتا تھا کہ اس میں تائید ہے۔ عاص بن وائل کے اس بکو اس کی جو اس نے حضور
کی شان میں کیا تھا کہ (نعوذ باللہ ) آپ ابتر ہیں۔
پہلا شبہ تو یوں دور ہوا کہ ہر رسول اپنی امت کے لئے روحانی باپ ہوا کرتا ہے۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں ابوہ جسمانیہ کی نفی فرمائی گئی ہے اور دوسرے جملہ میں ولکن رسول اللہ سے ابوة روحانیہ کا اثبات ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد ﷺکسی مرد کے جسمانی باپ نہیں ۔ لیکن اپنی امت کے لئے روحانی باپ ہیں اور روحانی باپ جسمانی باپ سے افضل اور زیادہ شفیق ہوتا ہے۔ اس لئے کہ روح ایک لطیف شے ہے اور جسم کثیف ہے اور لطافت کثافت سے یقینا افضل ہے۔ لہذا جو شے متعلق بالروح ہے وہ افضل ہے اس شے سے جو متعلق بالجسم ہے۔ یہی وجہ ہے قیامت کے روز بیٹا باپ سے، باپ بیٹے سے بھاگے گا۔ وہاں ابوہ جسمانیہ ہرگز کام نہ آئے گی۔ تو ابوة روحانیہ آقائے نامدار احمد مختار شفیع المذنبین خاتم النبین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کام آئے گی ۔ ہر کوئی نفسی نفسی پکار رہا ہوگا اور حضورﷺامتی امتی فرمارہے ہوں گے!
پھر اللہ عز وجل نے ولکن رسول اللہ کے بعد و خاتم النبیین فرما کر حضورﷺ کا اپنی امت پر اس سے بھی زیادہ شفیق ہونا ظاہر فرما دیا اور وہ یوں ہے کہ جس نبی کے بعد کوئی دوسرا نبی آنے والا ہو۔ وہ اپنی امت پر اتنا شفیق نہیں ہوتا جتنا وہ نبی اپنی امت پر شفیق ہوتا ہے۔ جس کے بعد کوئی بنی نہ آسکے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ میرے بعد دوسرا نبی آنے والا ہے اگر مجھ سے کچھ پند و نصائح سے بیان کرنا رہ بھی جائے گا تو اسے میرے بعد آنے والا نبی بیان کر دے گا ۔ مگر وہ نبی جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ اسے یہ خیال ہو گا کہ اس امت کا سوا میرے اور ہے ہی کون۔ اس لئے وہ اپنی امت پر ہر طرح سے زیادہ شفیق ہوگا۔
دیکھئے امام فخر الدین رازی
تفسیر کبیر جلد ۶ ص ۷۸۶ پر اس آیت کے تحت میں فرماتے ہیں:
ثم انه تعالى لما نفى كونه أبا عقبه بما يدل على ثبوت ما هو في حكم الأبوة من بعض الوجود فقال ( ولكن رسول الله ) فان رسول الله كَالَاتِ لِلْامَّةِ فِي الشَّفْقَةِ مِنْ جَانِبِهِ وَفِي التَّعْظِيم من طرفهم بل اقوى فأن النبي اولى بالمومنين من انفسهم والاب ليس كذالكترجمہ: فرماتے ہیں پھر اللہ نے جب حضور ﷺ کے باپ ہونے کی نفی فرمائی تو اس کے بعد اس چیز کا ذکر فرمایا۔ جو اس شے پر دلالت کرے جو بعض وجوہ سے ابوہ کے حکم میں ہے۔ پس فرمایا ( ولکن رسول الله) اور تحقیق اللہ کا رس در تحقیق اللہ کا رسول اپنی طرف سے شفقت میں اور لوگوں کی جانب سے تعظیم میں امت کے لئے باپ کی مانند ہے بلکہ باپ سے بھی زیادہ کہ نبی مومنوں کو اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے اور باپ ایسا نہیں ۔
پھر فرمایا:
محمد بَيْنَ مَا يُفيد زيادة الشفقة مِنْ جَانِبِه وَالتَّعْظِيمِ مِنْ جِهَتِهِم بقوله ( وخاتم النبيين) وَذَلِكَ لِأَنَّ النَّبِي الَّذِي يَكُونُ بَعْدَه نبى ان تَرَكَ شَيْئًا مِن نَصِيحَية وَالبَيَانِ يَسْتَدْرَكُهُ مَنْ ياتي بَعْدَهُ وَامَا مَن لا نبي بعده يَكُونَ اَشْفَقٌ عَلَى امته وَأَهْدَى لَهُمْ وَأَجْدُ اِذْهُوَ كَوَالِدٍ بِوَلَدِهِ الَّذى لَيْسَ لَهُ غَيْرُه مِنْ أَحَدٍ وقوله ( وكان الله بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ) یعنی عِلْمِهِ بِكُلِّ شَيْءٍ دَخَلَ فِي عِلْمِهِ، أَنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ فرماتے ہیں۔ پھر اللہ نے اپنے قول (و خاتم النبین ) سے اس چیز کا بیان فرمایا۔ جو حضور
کے زیادہ شفیق ہونے اور لوگوں کا زیادہ عظیم کرنے کا فائدہ دے اور وہ اس لئے کہ جس نبی کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ وہ اپنی امت پر بڑا شفیق اور اپنی امت کے لئے بہت ہدایت اور عطا کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اس بیٹے کے باپ کی طرح ہے۔ جس بیٹے کا سوا اس باپ کے اور کوئی نہ ہو اور اللہ کا قول ( وكان الله بكل شئ علیها) یعنی اس کا علم ہر شے سے وابستہ ہے اور اس کے علم میں داخل ہے یہ کہ حضورﷺکے بعد کوئی نبی نہیں۔
دوسرا شبہ بھی پہلے شبہ کے ساتھ ہی ساتھ دور ہو گیا۔ اور وہ یوں کہ پہلے جملہ میں ابوق جسمانی کی نفی ہے اور دوسرے جملہ میں ( ولکن رسول اللہ ) سے حضورﷺکا اپنی ساری امت کا روحانی باپ ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ لہذا ساری امت آپ کی روحانی اولاد ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے (وخاتم النبیین) فرما کر حضور ﷺ کی روحانی اولاد کی اکثریت بیان فرمادی۔ اور وہ ایسے کہ حضور ﷺ کے بعد جب کوئی دوسرا نبی نہیں تو قیامت تک کے لئے آپ ہی نبی ہوئے ۔
لہذا قیامت تک جو بھی پیدا ہو گا ۔ وہ آپ ہی کا امتی ہو گا۔ اسی لئے حضور
نے فرمایا۔ انا اكثر الانبياء تبعا يوم القيمة ( مشکوۃ ) بایں طور حضور
کی روحانی اولاد کی اکثریت ثابت ہوئی اور کفار کی اس بکواس کی کہ (نعوذ باللہ ) آپ ابتر ہیں۔ تردید ہو گئی۔