تاریخی اعتبار سے یہ حقیقت اتنی واضح ہو چکی ہے کہ اب اس میں دورائے کی گنجائش نہیں ہے کہ قادیانی مذہب کی ولادت حکومت برطانیہ کی گود میں ہوئی اور اسی کی سر پرستی میں وہ پروان چڑھا۔ انگریزوں نے اپنے قابو کا نبی دو مقصد کے لیے مبعوث کیا تھا۔
پہلا مقصد تو یہ تھا کہ ختم نبوت کا جو عقیدہ قرآن سے ثابت ہے اسے ایک نیا نبی بھیج کر جھٹلا دیا جائے اور ساری دنیا میں اس بات کی تشہیر کی جائے کہ قرآن کی کہی ہوئی بات غلط ہوگئی۔
اس لیے وہ خدا کی کتاب نہیں ہے کیونکہ خدا کی بات ظاہر نہیں ہوسکتی اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ نبی کی زبان و قلم سے جو بات نکلتی ہے دنیا اسے وحی الہی سمجھ کر بے چون و چرا قبول کر لیتی ہے۔ اس لیے ایک ایسا نبی مبعوث کیا جائے جو حکومت برطانیہ کا قصیدہ پڑھئے مسلمانوں کو ذہنی طور پر حکومت برطانیہ کا غلام بنا کر رکھے اور مسلمانوں کے اندر سے جہاد کی اسپرٹ ختم کرائے تاکہ انگریزی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جہاد اور بغاوت کا اندیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ اس ساری باتوں کے ثبوت کے لیے ہمیں کہیں باہر سے کوئی شہادت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے قلم سے ان ساری باتوں کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔
پاسداری کے جذبے سے اوپر اٹھ کر مرزا جی کی یہ تحریریں پڑھئے اپنے آقائے نعمت سرکار برطانیہ کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے مرزا جی لکھتے ہیں:
”میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں نہ روم ہیں نہ شام میں نہ ایران میں نہ کابل میں، مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لیے دعا کرتا ہوں ۔“1
مرزا جی کا ایک اور اشتہار پڑھئے۔ اپنے منعم کی بے التفاتی کا شکوہ کتنی دردناک حیرت کے ساتھ نمایاں ہے۔
”بارہا بے اختیار دل میں یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ جس گورنمنٹ کی اطاعت اور خدمت گزاری کی نیت سے ہم نے کئی کتا بیں مخالف جہاد اور گورنمنٹ کی اطاعت میں لکھ کر دنیا میں شائع کیں اور کافر وغیرہ اپنے نام . رکھوائے اسی گورنمنٹ کو اب تک معلوم نہیں کہ ہم دن رات کیا خدمت کر رہے ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن یہ گورنمنٹ عالیہ میری خدمات کی قدر کریں گی ۔ “2
ساٹھ سالہ جو بلی کے موقع پر مرزا جی نے ملکہ وکٹوریہ کو ایک نامہ عقیدت ارسال کیا تھا اس کا جواب موصول نہ ہونے پر جذبہ شوق کی بے چینی ملاحظہ فرمائیے:
اس عاجز کو وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت جو حضور ملکہ معظمہ اور اس کے معزز افسروں کی نسبت حاصل ہے جو میں ایسے الفاظ نہیں پاتا جن میں اس اخلاص کا اندازہ بیان کر سکوں۔
اس سچی محبت اور اخلاص کی تحریک سے جشن شصت (۲۰) سالہ جو بلی کی تقریب پر میں نے ایک رسالہ حضرت قیصرہ ہند اقبالہا کے نام سے تالیف کر کے اور اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھ کر جناب ممدوحہ کی خدمت میں بطور در ذیشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا اور مجھے قوی یقین تھا کہ اس کے جواب میں مجھے عزت دی جائے گی اور امید سے بڑھ کر میری سرفرازی کا موجب ہوگا۔ مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی مجھے ممنون نہیں کیا گیا۔3
مرزا جی کی مذکورہ بالا تحریروں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ قادیانی مذہب کے یہ ساتھ انگریزوں کا سر پرستانہ تعلق کیسا تھا اور نیاز مندی کے کسی والہانہ جذبے کے ساتھ انہوں نے کے اپنی مصنوعی اور باطل نبوت کے فروغ کے لیے انگریزی حکومت کی کاسہ لیسی کی۔
(ماخوذ ۔۔۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ختم نبوت ۔۔۔از علامہ ارشد القادری صاحب )