logoختم نبوت

مرزا قادیانی کے دعوؤں کا تنقیدی جائزہ

مرزاغلام احمد قادیانی کا محاسبہ:

اب ہم ذیل میں منکرین ختم نبوت کے سر براہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوؤں کا بھی ایک تنقیدی جائزہ لینا چاہتے ہیں، تا کہ جو لوگ جہل وکفر کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں وہ ہدایت و ایمان کے اجالے میں آجائیں۔ مرزا جی کی تکذیب کے لیے جہاں قرآن وحدیث اور اجماع امت کی بو جھل شہادتیں ہمارے پاس موجود ہیں جن کے کچھ نمونے پچھلے صفحات میں آپ کی نظر سے گزر چکے ہیں، وہاں مرزا جی کے دعوؤں کی تفصیل ہی انہیں جھوٹا ثابت کرنے کے لیے بہت کافی ہے الگ سے ان کی دروغ بیانی کا ثبوت فراہم کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اپنے بارے میں انہوں نے جو عجیب و غریب دعوئے کیے ہیں۔ اب ان کی مضحکہ خیز تفصیل ملاحظہ فرمائیے:

1۔ میں نبی ہوں۔

2۔ خدا ہی نے میرا نام نبی و رسول رکھا ہے۔

3۔ میں ظلی نبی ہوں ۔

4۔میں بروزی نبی ہوں۔

5۔ میں مسیح موعود ہوں ۔

6۔میں مہدی ہوں ہے۔

7۔ میں مجدد ہوں ۔

8میں محمد کی بعثت ثانیہ ہوں، یعنی میرے پیکر میں خود محمد نے ظہور کیا ہے ؟

9۔میں مسیح کی بشارت اور اسمہ احمد کا مصداق ہوں ۔ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِک ( قادیانی رسائل و کتب سے ماخوذ)

یہ ہیں وہ کل دعوے جو مرزا جی نے اپنے متعلق کیسے ہیں۔ یہ تمام دعوے آپس میں اس طرح متصادم ہیں کہ انہیں ایک محل میں جمع کرنا ممکن نہیں ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ایک ہی منہ سے نکلے ہوئے یہ دعوتے ہیں اس لیے ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔

مرزا جی کے دعوؤں کا تنقیدی جائزہ :

کسی بھی اجنبی آدمی کو مرزا جی کے ان دعوؤں پر نظر ڈالنے کے بعد جس حیرانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے:

1۔بفرض محال اگر وہ خدا کی طرف سے انہی معنوں میں نبی اور رسول ہیں جن معنوں میں پچھلے تمام انبیاء ورسل تھے تو پھر یہ ظلی اور بروزی نبی کا پیوند کیا ہے؟ جبکہ انبیاء ماسبق میں ہر نبی حقیقی اور اصلی نبی تھا۔ کسی نے اپنے آپ کو ظلی یا بروزی نبی کی حیثیت سے ہرنبی اور نہیں پیش کیا۔

2۔اور اگر ظلی و بروزی نبی ان معنوں میں نبی ہے جن معنوں میں قرآن نبی کا لفظ استعمال کرتا ہے تو پھر قرآنی نبی کی طرح اپنے اوپر ایمان لانے کا مطالبہ کیوں ہے؟ اور پھر ایک ایسی اصطلاح جو تاریخ انبیاء میں نہیں ملتی کسی مصلحت سے تراشی گئی ہے؟

3۔پھر اپنے دعوے کے مطابق مرزا جی اگر مسیح موعود ہیں تو ظلی و بروزی نبی ہونے کا دعوئی غلط ہے کیونکہ مسیح موعود مستقل نبی ہیں ظلی و بروزی نہیں ہیں، نیز مسیح موعود صرف مسیح ہی نہیں ہیں، بلکہ صیح ابن مریم ہیں لہذا یہ سوال مزید برآں ہے کہ غلام ابن چاند بی بی مسیح مریم کیونکر ہو گئے؟

4۔اور اگر وہ مہدی ہیں تو مسیح موعود نہیں ہو سکتے کیونکہ ان دونوں اسموں کا مسمی ایک نہیں ہے الگ الگ ہے۔ یعنی مہدی اور مسیح موعود دو الگ الگ شخصیتیں اور احادیث کی روایات کے مطابق دونوں کا ظہور بھی الگ الگ ہوگا، نیز حضرت مسیح موعود sym-9 پیغمبر ہیں جبکہ حضرت امام مہدی sym-5پیغمبر نہیں ہیں، بلکہ وہ امت محمدیہ کا ایک فرد ہیں۔ اس لیے دو الگ الگ شخصیتوں کا مصداق شخص واحد کو قرار دینا کھلا ہواد جبل اور سفید جھوٹ ہے۔

5۔ اور اگر مرزا جی مجدد ہیں تو نبی ہونے کا دعوئی غلط ہے کیونکہ حدیث کی صراحت کے مطابق مجدد نبی نہیں ہوتا بلکہ افراد امت میں سے اس کی حیثیت صرف ایک دینی مصلح کی ہوتی ہے۔ لہذا مجدد ہونے کا دعوئی اگر صیح تسلیم کیا جائے تو از ما نبی ورسول ہونے کے دعوے کی تکذیب ہوگی اور بفرض محال اگر نبی و رسول ہونے کا دعوی صحیح قرار دیا جائے تو مجدد ہونے کے دعوے کو جھٹلانا ہوگا، کیونکہ دونوں دعوے ایک ساتھ ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔

6۔اور اپنے دعوے کے مطابق اگر مرزا جی محمد کی بعثت ثانیہ ہیں تو پھر معاذ اللہ وہ محمد ہی ہیں کیونکہ قیامت کے دن اولاد آدم کی جو بعثت ثانیہ ہوگی تو وہاں ہر شخص اپنے اصل وجود کے ساتھ آئے گا ، ظل کے ساتھ نہیں لہذا ایسی صورت میں یا تو ظلی اور بروزی ہونے کا دعوئی غلط ہے یا پھر محمد کی بعثت ثانیہ ہونے کی بات جھوٹی ہے۔

7۔اب رہ گیا یہ دعویٰ کہ وہ مسیح کی بشارت اور اسمہ احمد کی مصداق بھی ہیں تو اس دعوے کا تضاد بھی کسی تبصرے کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اگر وہی حضرت مسیح sym-9 کی بشارت اور اسمہ احمد کے مصداق ہیں تو پھر اپنے آپ کو غلام احمد قرار دینا غلط ہے کیونکہ یہ دعوی کر کے تو معاذ اللہ وہ خود احمد ومحمد ہونے کے مدعی ہیں۔ اور اگر وہ غلام احمد کو سیحمانا جائے تو اسمہ احمد کے مصداق ہونے کا دعوئی باطل ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مرزا جی کے ان دعوؤں کو اگر عقل و مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو ہر دعوی دوسرے دعوے کی تکذیب کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کا کوئی دعوی بھی ایسا نہیں ہے جسے صحیح تسلیم کر لینے کے بعد دو سر ادعولی دامن نہ تھا تا ہو کہ میرا انکار کرو۔

ان حالات میں یہ فیصلہ کرنا قارئین کرام کا ہی کام ہے کہ مرزا جی حقیقت میں کیا ہیں۔ نبی ہونے کی بات تو ایک خواب پریشان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابھی تو یہی سوال زیر بحث ہے کہ وہ صحیح الدماغ آدمی بھی تھے یا نہیں؟ کیونکہ عقل و فکر کی سلامتی کے ساتھ کوئی شخص بھی اس طرح کے متضاد دعوے ہرگز نہیں کر سکتا۔ گفتگو کا یہ انداز بانو چنیا بیگم سے جی بہلانے والوں کا ہے یا پاگل خانے کے دیوانوں کا یا پھر کسی ایسے سنسنی خیز شاطر کا جس کی آنکھ سے شرم وحیا کا پانی اتر گیا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ مرزا جی کے ان دعوؤں پر خود ان کے ماننے والے بھی آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایک طبقہ ان کے دعوائے نبوت کو تسلیم کرتا ہے جبکہ دوسر ا گر وہ انہیں صرف مجدد مانتا ہے۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ماننے والے ہی دعوے پر متفق نہیں تو دوسروں کے ماننے نہ ماننے کا سوال ہی کہاں باقی رہتا ہے۔

اخیر میں ان لوگوں سے جو مرزا جی کو اسی نبی مانتے ہیں چند سوال کر کے یہ بحث ختم کرتاہوں کہ ڈیڑھ ہزار بی کی بھی مد میں خاتم پیراں سرورکون ومکان حضور اکرم نے کی اطاعت و محبت کے فیضان سے امت محمدیہ میں کوئی بی پیدا ہوا ہوتو اس کا نام اور پتہ بتائیے؟ اس کے ساتھ اس سوال کا بھی جواب دیجئے کہ صحیح حدیثوں میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے میں دجالین و کذابین کی جو خبر دی گئی ہے تو اس کا مصداق مرزاغلام احمد قادیانی کیوں نہیں ہیں؟ نیز یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ احادیث کی روشنی میں مسیح موعو وطن مادر سے پیدا ہوں گے یا آسمان سے ان کا نزول ہوگا اور نزول بھی ہوگا تو قادیان میں یا جامع دمشق کے مینارے پر۔

واضح رہے کہ ان سوالات سے میرا مدعا کسی بحث و مناظرہ کا دروازہ کھولنا نہیں ہے۔ کیونکہ بحث کا سوال تو وہاں اٹھتا ہے جہاں درمیان میں عقل و استدلال کا ہاتھ ہو۔ ہوا پر پل باندھنے والوں سے کون دیوانہ ہے جو بحث کرے گا۔ بلکہ مقصد صرف اتنا ہے کہ جو لوگ غلطہ انہی کی راہ سے یا اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید میں ایک فرضی افسانے یا ایک دیوانے کی بڑ پر مذہب کی طرح یقین کیے بیٹھے ہیں، انہیں حقیقت کے عرفان کی طرف بلایا جائے اور وہ ان سوالات کی روشنی میں سچائی کی تلاش کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

(ماخوذ ۔۔۔قرآن و سنت کی روشنی میں عقیدہ ختم نبوت ۔۔۔از علامہ ارشد القادری )

Netsol OnlinePowered by