logoختم نبوت

اہلسنت کے نزدیک خاتم النبیین کا مفھوم - (مفتی محمد فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ)

استفتاء:

مسئلہ38 :اہلسنت کے نزدیک خاتم النبیین کا مفہوم کیا ہے؟

سائل حبیب اللہ بہاول پور

الجواب:

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

خاتم النبین کا لغت کی جملہ کتب میں وہی معنی ہے جو اہلسنت نے بیان کیا ہے اہل لغت مذہبی تعصب سے ہٹ کر معانی بیان کرتے ہیں فقیر اس مقام پر صرف کتب لغت سے خاتم کا معنی بیان کرتا ہے:

(1) الصحاح میں ہے: ختمه الله بالخير خدا اس کا خاتمہ بالخیر فرمائے۔

(۲) ختمت القرآن ای بلغت آخرہ یعنی میں نے قرآن مجید کو آخر تک پڑھ لیا ہے۔

(۳) اختمت الشئي نقیض افتحته اختتام ، افتتاح کی نقیض ہے ۔

(۴) الخاتم بكسر التاوفتحها والختام والخاتا م كله بمعنى وخاتمة الشني آخره یعنی خاتم با لکسر و بالفتح اور ختام و خا تام سب کا ایک ہی معنی ہے اور کسی چیز کے آخر کوخاتمۃ الشئی کہتے ہیں حضور سرور عالم ﷺ اس معنی پر خاتم ہیں کہ آپ تمام انبیاء sym-3 سے آخر میں تشریف لائے ہیں ۔

صاحب الصحاح کا نام حماد بن اسماعیل الجوہری ہے ۳۹۳ھ میں وفات ہے۔ خاتم کے اسی طرحک ے معنی لسان العرب میں لکھتے ہیں: لسان العرب کے مصنف کا نام ہے ابو الفضل جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور الافریقی المصر ی وفات 711ھ میں ہیں اس کے حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

(1) ختام الوادى اقصاه وختام القوم و خاتمهم و خاتمهم آخر هم

وادی کے آخری کو نہ کو ختام الوادی اور قوم کے آخر فرد کو ختام و خاتم ( بالکسر و بالفتح) کہتے ہیں محمد ﷺ خاتم الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام اسی مناسبت سے حضور سرور عالم ﷺ کو خاتم الانبیاء علی نبینا علیہم الصلوة والسلام کہا جاتا ہے التہذیب کے حوالہ سے صاحب لسان العرب نے لکھا کہ:

(والختم والخاتم من اسماء النبي وفي التنزيل العزيز ولكن رسول الله وخاتم النبيين اى آخر هم ومن اسما نه العاقب ايضا ومعنا ہ آخر الا نبیا ء ترجمہ: ختم اور خاتم حضور نبی اکرم ﷺکے اسماء گرامی میں سے ہیں ۔ قرآن مجید میں ان کے بارے میں ارشاد ہوا، ولکن رسول الله وخاتم النبيين ترجمہ؛ یعنی سب نبیوں سے پچھلا۔ اور حضور ﷺکے اسماء گرامی میں العاقب بھی ہے اس کے معنی بھی آخر الانبیاء ہیں ۔

علامہ احمد بن علی المقری الفیومیsym-4 (770ھ) کتاب المصباح المنیر فی الشرح الکبیر میں لکھتے ہیں : ختمت القرآن، حفظت خاتمه وهي آخره ترجمہ:میں نے قرآن مجید ختم کر لیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ میں نے آخر تک قرآن مجید حفظ کرلیا ہے۔

اہل لغت کی تصریحات سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ خاتم کی تا پرز بر ہو یا زیر یعنی اسے خا تم پڑھا جائے یا خاتم دونوں صورتوں میں اس کا معنی آخری ہے ۔ اس معنی کی تائید میں قرآن مجید میں ایک اور ارشاد ربانی ہے : وختامه مسک (سوره متففين)

(ای اخرد و عاقبته مسك ، يحتم لهم في آخر مشاربهم بريح المسك (ابن جریر طبریsym-4)،ترجمہ: اہل جنت کو جو مشروب پلایا جائے گا اس کے آخر میں انہیں کستوری کی خوشبو آئے گی ۔

اہل لغت نے خاتم کا معنی مہر یا مہر لگانے والا بھی کیا ہے اس مہر یا مگانے والے سے مراد کسی منصب دار یا ڈاکیہ خانہ کی مہر نہیں کہ کسی درخواست پر لگائی یا لفافہ وکارڈ پر اور مناسب کاروائی کے لئے آگے بھیج دی اس مہر سے مراد وہ مہر ہے جس سے کسی شئی کو ختم یا بند کیا جاتا ہے ، لسان العرب میں ہے : حتمة يختمه ختما وختاما طبعہ فھو مختوم ومختم شدد للمبالغۃ ،ترجمہ: یعنی ختم کا معنی مہر لگانا ہے جس پر مہر لگادی جائے اس کو مختوم اور مبالغہ کے طور پر مختم کہتے ہیں ،مزید لکھا :

(ومعنى ختم وطبع في اللغة واحد وهو التغطية على الشي والا ستيشا ق عن ان لا بد حله شى كما قال جل وعلا ام على قلوب اقفالها

ترجمہ: طبع اور ختم کا لالغت میں ایک ہی معنی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شے کو اس طرح ڈھانپنا اور مضبوطی سے بند کر دینا کہ اس میں باہر کی چیز کا داخلہ ممکن نہ رہے۔ زمانہ سلف میں خلفا ،، امرا ، اور سلاطین اپنے خطوط کو لکھنے کے بعد کسی کاغذ یا کپڑے کی تھیلی میں رکھ کر ()کر دیتے تھے تا کہ مہر کی موجودگی میں اس میں رد و بدل ممکن نہ رہے ۔ اگر کوئی تغیر و تبدل کرنا چاہے گا تو پہلے مہر توڑے گا اور جب مہر توڑے گا تو پکڑا جائے گا۔ اس پر احکام سلطانی میں تغیر و تبدل کرنے اور امانت میں خیانت کرنے کا سنگین جرم عائد ہو گا ۔ اس صورت میں خاتم النبیین کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلے انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ جاری تھا حضور اکرم محمد مصطفی ﷺ کی تشریف آوری سے یہ سلسلہ بند ہو گیا ۔ اب اس پر مہر لگادی گئی ہے تاکہ کوئی کذاب دعوی نبوت کرکے سلسلہ انبیاء میں داخل نہ ہو سکے ۔ اگر کوئی کذاب وخائن اس زمرہ میں داخلہ کی کوشش کریگا کنا نبوت کو توڑے گا تو پہلے مہر نبوت کو توڑے گا ۔ اس طرح اللہ تعالی کی مہر کو توڑنے کی پاداش میں کذاب ،خائن اور دجال بن کر جہنم کی آگ کا ایندھن بنے گا ۔

ختم اور طبع کے اسی معنی کی تائید قرآن مجید کی ان آیات سے ہوتی ہے جن میں اللہ تعالی نے کافروں کے دلوں پر مہر لگانے کا بیان فرمایا ہے مثلا ارشاد ربانی ہے۔

ختم الله على قلو بهم وعلى سمعهم وعلى ابصارهم غشاوة ولهم عذاب عظيم 1
اللہ نے انکے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔

کفار ضلالت اور گمراہی میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ حق کے دیکھنے، سننے اور سمجھنے سے اس طرح محروم ہو گئے جیسے کسی کے دل اور کانوں پر مہر لگی ہو اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہو۔ حق ان کے دل، کان اور آنکھ میں نہیں آسکتا۔

علامہ ابن جریر طبریsym-4 اس آیت کے معنی میں لکھتے ہیں:

(اى طبع الله على قلو بهم واسما عهم فلا يكون للا يمان اليها مسلك ولا للكفر منها مخلص كما يطبع ويختم على الاوعية والظروف (مختصر تفسیر طبری )

اللہ تعالی نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کر دی۔ پس ایمان ان میں داخل نہیں ہو سکتا ، نہ کفران کے دلوں سے نکل سکتا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جس طرح برتنوں کا منہ بند کر دیا جائے تو ان میں نہ کچھ ڈالا جا سکتا اور نہ ہی ان میں سے کچھ نکل سکتا ہے۔ اس صورت میں خاتم النبیین کا معنی ہوگا کہ حضور ا کرم محمدﷺ نبوت پر ایسی مہر ہیں کہ کوئی مدعی نبوت اب زمرہ انبیاء میں داخل نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی نبی اس زمرہ سے نکالا جا سکتا۔

لغوی معنی کی تحقیق کے بعد مفسرین کبار کے چند اقوال ملاحظہ ہوں ، اجلہ علمائے تفسیر کا اس پر اجماع ہے کہ آیت مذکورہ میں خاتم النبیین سے مراد پچھلا نبی ہے۔

امام المفسر ین ابو جعفر محمد بن جریر طبری sym-4فرماتے ہیں:

(خاتم النبيين ﷺ الذي ختم الله عليه النبوة فلا تفتح لا حد بعده إلى قيام الساعة (مختصر تفسیر طبری )

ترجمه :خاتم النبیین وہ ذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ بند کر دیا ہے پس قیامت تک اب کسی کے لئے نہ کھولا جائے گا۔

اسماعیل بن کثیر ( م ٧٧٤ھ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا:

(فهذه الاية نص فى انه لا نبي بعده واذا كان لا نبي بعده فلا رسول بعده بالطريق الأولى (تفسیر ابن کثیر)

ترجمه: یہ آیت اس بارے میں نص قطعی ہے کہ حضور اکرم نور مجسم سید الکونین ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ جب آپ کے بعد کسی نبی کا آنا محال ہے تو کسی رسول کا آنا بطریق اولی محال ہے۔

امام المحققين قاضی ناصر الدین ابو الخير عبد الله بن عمر بن محمد شیرازی بیضاویsym-4 (۷۹۱ھ) اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:

(آخر هم الذي ختمهم او ختمو ابه على قراة عاصم بالفتح (تفسير بيضاوي )

ترجمہ: حضورﷺ انبیاء میں سب سے آخری ہیں ، یا حضرت عاصم کی قرآت کے مطابق ، تا کے فتح کے ساتھ ( خاتم ) اس کا معنی ہوگا کہ آپ کے آنے سے باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا۔

عمدة المفسرين امام فخر الدین رازی، امام المحد ثین امام محمد بن احمد محلی عافعی محمود آلوسیsym-4 اور دیگر مفسرین نے بھی اس آیت کا یہی معنی لکھا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ محمد فیض احمد اویسی غفر لہ

(فتاوی اویسیہ ،ج:1،ص:89تا94،صدیقی پبلیشرز کراچی )


  • 1 (پاره ۱ آیت 8 سوره البقرۃ )

Netsol OnlinePowered by