logoختم نبوت

مدعی نبوت سے معاملات کا شرعی حکم - (مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ)

استفتاء:

مسئلہ : مرسلہ میمن حاجی علی محمد و حاجی یعقوب از شهر بروده محلہ را جپوره ۲۷ جمادی الاولی 1940ء

اور کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ضلع سند حیدرآباد گاؤں لوہاری میں احمد زمان نام کا ایک دجال کذاب پیری کے لباس میں فرعون زماں بن گیا ہے۔ کبھی کہتا ہے احمد بلامیم ہوں اور کبھی بکتا ہے احمد رسول ہوں ، اور کبھی بھونکتا ہے کہ مہدی آخر زماں ہوں ، ہزاروں میمن اس گمراہ کے معتقد ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ جو ہمارا دجال کہتا ہے وہ سچ ہے، جو اس کا پیرو ہے وہی ناجی ہے لوہاری کو جو میمن جاوے وہ سید اور حاجی ہو جاتا ہے، وہاں کی مٹی خاک شفا ہے اور پانی زمزم ہے جو لوہاری کے دجال نشان کے نیچے پناہ گزیں ہیں۔ اسی کو ، نجات اور امن و امان ہے، باقی سب کو ہلاکت اور حرمان ہے ، خلاصہ یہ کہ اس ملعون کے کفریات کی کوئی حد و حساب نہیں ہے ، رنگ رنگ کے کفر اس شیطان میں موجود ہیں، ہزاروں اخبار و اشتہارات میں اس دجال کے ملعون عقیدے چھپ چکے ہیں۔ مگر جو لوگ اس کافر کے مرید بن چکے ہیں، اس کی پیروی سے ہرگز باز ز نہیں آتے ۔ تو اب گذارش یہ ہے کہ جو شخص اس دجال کا معتقد ہو اس کو یا لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں، اسکی لڑکی لینا جائز ہے یا نہیں، اسکی بیمار پرسی کرنا درست ہے یا نہیں۔ اسکے جنازہ میں شریک ہونا جائز ہے یا نہیں، اس کے ساتھ کھانا پینا درست ہے یا نہیں اس کے ساتھ محبت کرنا درست ہے یا نہیں، اس کو اپنے ساتھ نماز میں شریک کرناد کرنا درست ہے یا نہیں ! اس کی مدد کرنا حلال ہے یا حرام ۔ اگر یہ سب باتیں سوالات مذکورہ کی ناجائز اور حرام ہیں تو جو شخص یہ کہے کہ لوہاری کا دجال تو بیشک کا فر ہے ، مگر اس کے مرید ہمارے خویش اور بھائی بند ہیں۔ میں ان سے کبھی جدائی نہیں کرونگا یہ سب معاملات مذکورہ ان کے ساتھ کرتا رہوں گا ، اس میں کوئی حرج نہیں ان کے عقید سے ان کے ساتھ ، میرا عقیدہ میرے ساتھ ۔ اگر شریعت میں منع ہے تو ہونے دو، علماء کہتے ہیں تو کہنے دو میں ہرگز ان سے الگ نہیں ہونگا تو از روئے شرع ایسے شخص کیلئے کیا حکم ہے۔

الجواب :

یہ شخص کہ مدعی رسالت ہے بلاشبہ کا فرو مرتد ہے ایسا کہ جو اس کے اقوال خبیثہ کفریہ پر مطلع ہو کر اسے پیشوا و پر تو در کنار بلکہ جو اسے مسلمان جانے بلکہ جوا سکے کفر میں شک کرے کا فرو مرتد ہے فتاد ی بزاز یہ دور مختار وغیر ہما میں ایسونکی نسبت فرمایا: من شك في كفره وعذابه فقد کفر ، جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کا فر ہے۔ حضور اقدسﷺ ارشاد فرماتے ہیں : اياكم واياهم لا يضلونكم ولا یفتنو نکم اپنے کو ان سے دور رکھو انھیں! اپنے سے دور کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں گمراہ کر دیں تمہیں فتنہ میں ڈالدیں۔ ان لوگوں کے ساتھ میل جول اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا شادی بیاہ سب حرام، بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کی جائے، سر جائیں تو ان کے جنازہ میں جانا حرام ، ان کے جنازہ کی نماز حرام، مسلمانوں کی طرح ان کو غسل و کفن دینا یا مسلمانوں کے قبرستان میں انھیں دفن کرنا نا جائز ، الله عز و جل ارشاد فرماتا ہے .: وَلَا تَرَكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فتمسکم النار1اے ظالموں کی طرف میل نہ کرو کہ تمہیں اگ چھو ئیگی، اور فرماتاہے :وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَنُ فَلَا تَقْعُدُ بَعْدَ الذِكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ2 اگر مجھے شیطان بھلا دے تو یاد آنے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھے، حدیث میں فرمایا: لا تواکلوهم و لا تشار بوهم ولا تجالسوهم ولا تنا كحوهم وإذا مرضوا فلا تعود وهم ، واذا ما توافلا تشهد وهم ولا تصلوا عليهم ولا تصلوا معهم ان کے ساتھ نہ کھاؤ، نہ ان کے ساتھ پانی پیو، اور ان کے پاس نہ بیٹھو، اور ان کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، اور وہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جاؤ، اور جب مر جائیں تو جنازہ پر نہ جاؤ، نہ ان کی نماز پڑھو، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو، ایسوں کو لڑ کی دینا، بنا معاذ اللہ زنا کیلئے پیش کرنا ہے کہ مرتد کا نکاح کسی سے ہے ہو سکتا ہی نہیں۔ نہ ایسی عورت سے کسی کا نکاح ہوسکتا ہے۔

جس کے ایسے عقیدے ہوں یا ایسے عقیدے والوں کے کفر میں شک کرے فتاوی عالمگیری میں ہے ۔

لا يجوز للمتدان يتزوج مرتدة ولا مسلمة ولا كافرة اصلية وكذلك لا يجوز نكاح المرتد مع احد كذا في المبسوط مرتد کا نکاح نہ مرتدہ سے ہو سکتا ہے نہ مسلمان عورت سے نہ کافرہ اصلیہ ہے، یو نہیں مردہ عورت کا نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ جب اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا حرام ہوا تو محبت کا کیا ذکرالله عزوجل ارشاد فرماتا ہے : مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ3 ہے تم میں کا جو ان سے وہ لے دوستی کریگا وہ بھی انھیں میں سے ہے اور ان کی ہے اور ان کی مدد بھی حرام، کہ اس سے ان کو قوت پہونچے کی اور کفر کی بیخ کنی بقدر استطاعت فرض ، قال تعالى تَعَاوَنُوا عَلَى البَرِ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ4کے یہ امر مسلمان سے نہایت بعید ہے کہ احکام خدا اور سول جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مقابلہ میں اپنی برادری کے تعلقات کا خیال کرے اور حکم الہی سے سے اعراض کرے ، اللہ عز وجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّخِذُ ابَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنْ اسْتَحَبُّوا الكُفْرِ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ5 اے ایمان والو اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر پسند کریں، اور تم میں جو ان سے دوستی کرے تو وہی ظالم نہیں ۔ اور فرماتا ہے :لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ ورَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ6 جو لو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں او نھیں نہ پاؤ گے کہ دوستی کریں ان سے جو اللہ ورسول کی مخالفت کرتے ہیں اگر چہ وہ ان کے باپ ہوں یا انکے بیٹے ہوں۔

یا بھائی یا کہنے کے لوگ ، مسلمانوں پر لازم ہے کہ اگر ایمان عزیز ہے تو قرآن مجید کے ان ارشادات کے سامنے اپنی قرابت و تعلقات کا اصلا خیال تخریں اور بالکل ایسے لوگوں سے علیحدہ ہو جائیں کہ اسی میں نجات و فلاح و نجاح و صلاح ہے اور توفیق دینے والا الله - وهو حسبي ونعم الوكيل ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم - والله سبحانہ و تعالی اعلم و علمه جل مجدہ اتم واحکم

(فتاوی امجدیہ ،ج:4 ،ص:399،395، مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی)


  • 1 پاره ۱۲ رکوع ۱۰ سوره ہود- مصباحی
  • 2 پاره 7، رکوع ۱۴ سوره انعام- مصباحی
  • 3 پاره ۶ رکوع رکوع ۱۲ سوره مائده - مصباحی
  • 4 پاره ۶ رکوع ۵ سوره مائده - مصباحی
  • 5 پاره ۱۰ برکوع ۹ سوره توبہ- مصباحی
  • 6 پاره ۲۸ رکوع ۳ سوره مجادلہ- مصباحی

Netsol OnlinePowered by