کیا ہمارے نبی کریم ﷺ اپنی بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد انبیائے سابقین میں سے کسی نبی کی شریعت کے مکلف تھے یا کہ نہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ کیا حضورﷺاپنی بعثت سے پہلے سابقہ کسی شریعت کے مکلف تھے یا کہ نہیں ؟ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ آپ کسی شریعت کے مکلف نہ تھے اس پر ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو آپ ضرور نقل فرماتے کیونکہ اس کو پوشیدہ رکھنا آپ کے لئے ممکن نہ تھا اور اس طرح کی چیز کی پردہ داری عادت میں نہ تھی ، اور اگر ایسا ہوتا تو اُس سابقہ شریعت کے پیروکار آپﷺپر اس کی وجہ سے فخر کا اظہار کرتے ، اور اس کو آپ کے خلاف بطور حجت پیش کرتے ۔ جب ان میں سے کوئی چیز ثابت نہیں تو اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اپنے سے پہلے کسی نبی کی شریعت کے مکلف نہ تھے ۔
اور علماء کے ایک گروہ کا مذہب ہے کہ آپ ﷺسابقہ کسی شریعت کا مکلف ہونا عقلی طور پر ممتنع ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس کا تابع ہونا معروف ہو اس کا متبوع ہونا نا ممکن ہوتا ہے ۔ اور بعض حضرات رسول ﷺکے معاملے میں توقف اور آپ ﷺپر ان میں سے کسی چیز کا قطعی حکم سے اجتناب کے قائل ہیں ۔ کیونکہ دونوں جانب کوئی قاطع نہیں امام الحرمین کا یہی مذہب ہے۔
اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺسابقہ کسی شریعت پر عمل کرنے والے تھے ۔ پھر ان لوگوں کا تعیین شریعت میں اختلاف ہے اور ان میں سے بعض نے تعیین میں توقف کیا ہے اور بعض نے تعیین کی جسارت کی ہے ۔ پھر تعیین کرنے والوں کا اختلافی ہے کہ ایک قول میں حضرت نوح
کی شریعت کی اور ایک قول میں حضرت ابراہیم
کی اور ایک قول میں حضرت موسیٰ
کی شریعت اوربعض کے نزدیک حضرت آدم
کی شریعت تھی ، پس اس مسئلہ میں یہ جملہ مذاہب ہیں ۔ اور ان میں سب سے زیادہ ظاہر پہلا مذہب ہے اور یہی جمہور کا مذ ہب ہے اور بعید ترین مذہب شریعت کو معین کرنے والوں کا ہے کیونکہ اگر انہیں کوئی بات ہوئی تو رسول الله ﷺ ضرور اسے نقل فرماتے جیسا کہ سابقہ طور میں گزرا ہے ۔
اور جن لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسی
آخرالانبیاء میں بند ان کے بعد آنے والے لوگوں پر ان کی شریعت پرعمل کرنا لازم تھا اس قول کے قائلین کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ کونکہ حضرت عیسی
کی دعوت کا عموم ثابت نہیں بلکہ صحیح مذہب یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺکے سواکسی نبی کی دعوت عام نہیں تھی۔ سورہ احقاف کے آخری حصہ سے جو ثابت ہوتا ہے کہ جنات تو رات پر ایمان رکھتے تھے تو جنات کا تورات پر ایمان رکھنا بطور تجرع کے تھا جیسا کہ قریش وغیرہم کا انجیل پر ایمان رکھنا بطور تبرع تھاکیونکہ حضرت عیسی
صرف بنی اسرائیل اور قبط کے لئے رسول تھے ان کے علاوہ دوسری کسی قوم کی طرف آپ کو رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے اور حضرت عیسی
کو سوائے بنی اسرائیل کے اور کسی کی طرف رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا۔
اور بعض وہ لوگ جن کے ہاں تحقیق نام کی کوئی چیز نہیں اور جن کو کتاب وسنت کے حقائق کی اطلاع تیک نہیں ان کا خیال ہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ حضرت ابراہیم کی شریعت پر تھے اور آپ کی منفرد اور مستقل کوئی شریعت تھی اور آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد حضرت ابراہم کی شرعی کا احیا ء تھا۔ انہوں نے اپنے اس باطل نظریہ پرقرآن کریم کی اس آیت کے ظاہر سے استدلال کیا ہے۔
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعُ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ 1
پھر ہم نے تمہیں وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ہر باطل سے الگ تھا اور مشرک نہ تھا۔
ان لوگوں کا یہ قول کہ حضورﷺ کی شریعت حضرت ابراہیم کی شریعت ہی ہے غلط بلکہ اس کو خرافات کہنا زیادہ مناسب ہے ، اس لئے علماء اسلام نے فرمایا ہے کہ اس قسم کا قول نحیف العقل اور کثیف الطبع انسان ہی سے صادر ہو سکتا ہے ۔ ( کوئی سلیم العقل انسان اسکی جرات نہیں کر سکتا )
مذکورہ آیت کریمہ سے توحید خاص میں اس مقام خلعت کی اتباع مراد ہے جو حضرت ابراہیم
ان کا مقام ہے جس کی طرف اس آیت میں ان الفاظ کے ساتھ اشارہ فرمایا گیا ہے:
حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ2
جو ہر باطل سے الگ تھا اور مشرک نہ تھا ۔
ا یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اسلام کو اصول کی وجہ سے چھوڑا ہو اور حضرت ابراہیم
کا اس مقام خلت پر فائز ہونے کا سبب یہ ہے کہ جب ان کو آگ میں پھینکا گیا تو حضرت جبرئیل امین
انکی خدمت میں یہ کہتے ہوئے حاضر ہوئے کہ الک حاجة ( کیا آپ کو میری مدد کی ضرورت ہے؟) تو انہوں نے فرمایا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں لہذا حضرت ابراہیم تفویض مطلق یعنی آپ نے اپنا معاملہ مطلقہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جس کے سبب وہ اس مقام خلت کے مالک بن گئے ۔ اور حضرت ابراہیم
تفویض کی اس انتہاء تک پہنچ گئے تھے جس یک ہمارے نبی کریم ﷺ کے سوا کوئی حضرت ابراہیم
سے پہلے بھی نہیں پہنچا اور نہ حضرت ابراہیم
کے بعد پہنچا ہے ۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ اس انتہاء تک پہنچ گئے اور اس سے بھی کئی غایات ترقی فرمائی جن کو ان کے خالق اور ان کے مالک و منعم کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اس لئے جب قیامت کے دن لوگ شفاعت کے لئے حضرت ابراہیم
سے یہ عرض کرتے ہوئے حاضر ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلت کے لئے چنا اور آپ پچھلے لوگوں کے لئے خلیل تھے، تو حضرت ابراہیم
ان کو بتائیں گے کہ اگر چہ میں خلیل ہوں لیکن خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ میں جو مراتب محصور نہیں ان میں میرا مقام ان سے متاخر ہے یعنی جو مراتب نبی کریم ﷺ سے خاص نہیں ان میں بھی میرا مقام آپ سا کام سے متاخر ہے ۔ اور سابقہ آیت کریمہ :
أُولئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهَدَاهُمُ اقْتَدِهِ 3
یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی تو تم انہیں کی راہ چلو۔
اس آیت کریمہ میں توحید اور توحید کے لائق ان مقامات عالیہ میں اقتداء کا حکم ہے جو مقامات اصول سے تعلق رکھتے ہیں اور فروع سے تعلق رکھنے والے مقامات مراد نہیں کیونکہ ان انبیاء کرام میں وہ حضرات بھی ہیں جو اصلاً رسول نہ تھے مثلاً ایک قول کے مطابق حضرت یوسف
نبی تھے اور رسول نہ تھے اور باقی انبیاء کرام کی فروعات مختلف تھیں لہذا ان کی اقتداء کرنے کے حکم کو فروعات میں اقتداء کرنے پر محمول کرنا محال ہے۔
فتاوی حدیثیہ ،ص:435،428،مترجم مفتی شیخ فرید مدظلہ العالی ،مکتبہ اعلی حضرت