سوال :45 کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین و مفتی اعظم پاکستان اس مسئلہ میں کہ میں مسماۃ فہمیدہ بیگم بنت اللہ دتہ قوم کمہار سکنہ وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ کا نکاح میر نے والد اللہ دتہ نے ایک لڑکے سمی محمد شرف ولد غلام احمد قوم کمہار ساکن مقام پیرم تحصیل حافظ آباد کے ساتھ میرے آبائی گاؤں باؤلے تحصیل وزیر آباد میں آج سے تقریباً تین سال پیشتر کر دیا ۔ نکاح برات کے ساتھ بڑی مجلس میں ہوا لڑکی والوں میں سے کسی کو یہ پتہ نہیں تھا کہ لڑ کا اور اس کا باپ سخت ترین مرزائی اور مزرا غلام احمد کو نبی ماننے والے ہیں۔ نکاح اس لا علمی اور دھوکے میں ہو گیا۔ اُسی دن میں اپنے سسرال چلی گئی ۔ دوسرے دن پھر اپنے میکے واپس آئی اور آٹھ دن رہ کر پھر اپنے سسرال گئی ۔ اسی طرح دو تین پھیرے کیے مگر لڑکے کے مرزائی ہونے کا کوئی پتہ نہ لگ سکا۔ اور اپنے مذہب کو انھوں نے کافی چھپایا ڈیڑھ مہینے کے بعد پھر میں اپنے سسرال میں ہی تھی کہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ ہم نے ایک جلسے میں جانا ہے۔ اور وہاں جانا ہمارا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ ہم نے منت پاتی ہے۔ اس وقت بھی مجھے نہ بتلایا گیا کہ جلسہ کہاں ہے اور کیسا ہے مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔ وہاں پہنچ کر اور راستے میں لوگوں ہے مجھے کی باتوں سے مجھے پتہ چلا کہ یہ ربوہ آئے ہیں ۔ اور مرزا غلام احمد اور مرزائیوں کا یہ جلسہ ہے۔ میرے خاوند نے مجھ پر یہ زور دیا کہ تو بھی مرزائی ہو جا اور مرزا کی بیعت کرلے مگر میں نے صاف انکار کر دیا۔ نصاف انکار کردیا اُس وقت مجھ کو پتہ لگا کہ میرا یہ خاوند ہتر لگاکہ میرایہ خاور مسلمان نہیں ہے اور میرا نکاح ایک غیر مسلم مرزائی سے ہوا ہے۔ میں نے وہاں سے اگر فوراً اپنے گھر اطلاع دی کہ فوراً مجھے آکر لے جاؤ۔ میں یہاں نہیں رہوں گی۔ میری والدہ آئیں اور کانی لڑائی جھگڑے کے بعد مجھ کو میرے سسرال سے واپس لے گئیں ۔ اب میں صرف اس لیے کہ وہ مرزائی ہے اور میں جانتی ہوں کہ مرزائی کا فر ہوتے ہیں ۔ اسی لیے میں اس کے ساتھ ہر گنہ نہیں رہنا چاہتی ۔ سارا گاؤں جانتا ہے۔ کہ محمد شرف سخت مرزائی ہے ۔ اس نے خود بھی اپنی تحریر سے انگوٹھا لگا کر اقرار کیا ہے اور اس کے چا نظام علی نے بھی اس بات پر دستخط کیے کہ وہ اور اس کا بھتیجا محمد اشرف مرزائی احمدی ہیں۔ یہ تحریر اور بہت سے گواہوں کی تحریر حاضر خدمت ہے۔ وہاں کے مرزائی امام محبوب علی محمد نے بھی اس چیز کی گواہی دی ہے کہ محمد اشرف مرزائی ہے۔ اور سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ میں اور میرا والد الله و تن صحیح العقیدہ سنی مسلمان ہیں سب گواہی دے سکتے ہیں اور اس کے آبائی گاؤں میراں پور کے لوگ عبدالرشید مرزائی اور احمد وغیرہ نے بھی تحریری گواہی دی ہے کہ محمد اشرف واقعی مرزائی احمدی ہے ۔ اور میرا والد اور چار گواہ حاضر خدمت ہیں جو با وضو کلمہ پڑھ کر حلفیہ گواہی دیتے ہیں کہ محمد اشرف مدعا علیہ مرزائی احمد کی ہے فرمایا جائے کہ کیا شریعت اسلامیہ میں میرا نکاحصحیح ہوا یا غلط۔ اور کیا محمد اشرت شرکا میرا خاوند بن سکتا ہے ؟ اور اگر نکاح غلط ہے تو کیا میں دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہوں ؟ خدا کے لیے اس مرزائی سے میری جان چھڑائی جائے اور شرعی فتواسے عطا فرمایا جائے۔
السائل
مورخہ :1۔4۔1971
بِعُونِ الْعَلامِ الْوَهَّابُ
قانون شریعت اسلامیہ اور قانون پاکستان کے تحت میں مفتی اسلام ہونے کی حیثیت سے حنفی مسلک کے مطابق فتوای جاری کرتے ہوئے سائلہ حنفیہ مسلمہ فہمیدہ بیگم بنت اللہ و تر قوم کمہار کا نکاح باطل قرار دیتا ہوں ۔ اور یہ نکاح جو دھوکہ اور فریب سے سمتی محمد اشرت مرزائی احمدی قادیانی ولد غلام احمد نے فہمیدہ بیگم سے کیا ہے وہ شرعا اور قانون گا ہوا ہی نہیں بالکل باطل محض ہے ۔ میں نے بحیثیت مفتی ہونے سے محمد اشرف کے مرزائی ہونے کی کافی تحقیق کی ہے۔ مندرجہ باں گواہوں کے حلفیہ بیان لیٹے ہیں۔ نیز محمد اشرف کے علاقے کے معتبر حضرات کے تحریری حلفیہ بیان لیے۔ خود محمد اشرف کی زیر دستخطی نشان انگوٹھے والی تحریر میرے پاس موجود ہے۔ جس میں اس نے اپنے احمد یا مرزائی ہونے کا اقرار کیا ہے۔ میں نے مدعیہ اور اس کے لواحقین کے ذریعہ مدعا علیہ محمد اشرف کو بیان صفائی دینے کی اطلاع بھیجی۔ مگر خود حاضر نہ ہوا۔ اس نے اپنی انگوٹھا شدہ تحریر میرے پاس بھیج دی۔ اس میں اپنے احمدی یعنی مرزائی ہونے کا اقرار ہے ۔ اس بستی کے مزائی اہم متعلقہ ربوہ کی تحریر بھی محمد اشرف کے احمدیت مرزائیت کے ثبوت میں میں نے مہیا کیں۔ اس کے علاوہ بہت سے مرزائی کو غیر مرزائی حضرات سے میں نے محمد اشرف کے مرزائیہونے کا ثبوت مانگا۔ سب کی حلفیہ تحریریں میرے پاس موجود ہیں۔ اتنی چھان بین اور تحقیق کے بعد یہ شرعی فتوای صادر کیا جا رہا ہے۔ چونکہ مدعیہ خود حنفی مسلمان ہے۔ اسی لیئے حنفی مسلک کے مطابق قومی دیا جا رہا ہے ۔ قانون شریعت کے مطابق تمام امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرزائی احمدی قادیانی ہرگز ہرگزہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ مزیدہ خارج از اسلام ہیں۔ اس لیے کہ تمام مرزائی احمد ی مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں اور اسلامی عقیدہ کے مطابق جو شخص بنی کریم محمد مصطفے عربی تاجدارﷺ کے بعد کسی شخص کی نبوت کو تسلیم کرے وہ سب مسلمانوں کے نزدیک کا فر ہے مجتہدین شریعت اور علمائے امت محمد رسول اللہ ﷺکا اس پر اجماع ہے کہ نبی کریم کے بعد کسی کو کسی طرح کا بنی ماننے والا کافر ہے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر جلد سوم ص۴ ۴۹ اور اسی طرح تفسیر روح البیان جلد ہفتم ص:188 پر ہے : وَمَنْ قَالَ بَعْدَ بَيْنَا بِي يَكْفُرُ لِاَنَّهُ أنكَر النص اور جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے ۔ وہ بھی قرآن و حدیث اور تمام اہل اسلام و علمائے کرام کے نزدیک کا فر گمراہ ہے۔ چنانچہ تفسیر روح البیان اسی جگہ اور دیگر تفاسیر میں ہے ۔ وَمَن ادَّعَى النُّبُوَّة بَعْدَ مَوْتِ مُحَمَّدٍ لا يَكُونُ دَعْوَاهُ إِلَّا بَاطِلاً تفسیر ابن کثیر جلد سوم ص :494 پر ہے : وَقَدَ أَخْبَرَ اللهُ فِي كَتَابِهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّنَّةِ المُتَوَاتِرَةِ عَنْهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ لِيَعْلَمُوا أَنَّ كُلَّ مَنِ ادَّعَى هَذَا المَقَامَ يَعْدَهُ فَهُوَ كَذَّابٌ أَفَاكَ دَجَّالُ قَالَ مُضِل ان ولائل و عقیدہ اسلامی سے ثابت ہوا کہ مرزائی غلام احمدی مرندو کا فر ہیں۔ ان کو اہل کتاب بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ شریعت میں اہل کتاب وہ شخص ہے کہ جو بنی کریم پر کامل ایمان نہ لائے اور ایسے نبی کو مانے جس کو سب مسلمان بھی بنی تسلیم کرتے ہوں خواہ وہ بنی صاحب کتاب ہو یا نہ ہو جیسے یہودی کہ حضرت عزیز علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں۔ حالانکہ آپ صاحب کتاب نہیں ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو کوئی مسلمان نہیں مانتا اس لیے اس کے متبعین کو اہل کتاب ہرگز نہیں کہا جا سکتا بلکہ ان کا شمار مرتدین میں ہو گا۔ اور یہ بھی محکمہ اسلامی عقیدہ ہے اور تمام امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مسلمان عورت سے کا فرمرد کا نکاح قطعا نہیں ہو سکتا ۔ خاوند کا مسلمان ہونا شرط ہے ۔ چنانچہ فتاوی فتح القدیر جلد دوم ص 422 پر ہے : لأنَّ مُطلَقَ الدِّينِ هُوَ الْإِسْلَامُ وَلَا كَلَامَ فِيهِ لِأَنَّ إِسْلَام الزَّوْجِ شَرط جَوَانِ نَكَاحِ الْمُسْلِمَةِ (ترجمه) :- اس لیے کہ مطابق دین وہ اسلام ہے اور نہیں ہے کلام اس میں اس لیئے کہ خاوند کا اسلام مسلمان عورت کے نکاح کے لیے شرط ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیر مسلم سے مسلمان ۔ عورت کا نکاح ہوتا ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کا فر مرد مسلمان عورت کا کفو نہیں ہو سکتا ۔ اگر چہ ہم قوم یا ہم قبیلہ ہو اور قانون شرع کے مطابق غیر کفو میں نکاح باطل ہے جب تک کہ ولی اللہ اور شریعت اجازت نہ دے، چنانچہ فتاوی قاضی خان جلد اول ص :۳۳۵ پر ہے : - وَإِنْ لَمْ يَكُن كُفُوًا لا يَجُوزُ النِّكَاحُ أَصْلاً اور فتاوی عالمگیری میں ہے ،ص:292 جلد اول عن أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ النِّكَاحَ لَا يَنعْقِد اور جس طرح کا فر سے مسلم کا نکاح نا جائز ہے اسی طرح مرتد سے بھی نکاح غلط ہے۔ چنانچہ فتاوی ہندیہ جلد اول ص 282 پر ہے :- لا يجونُ لِلْمُرتَد أن يَتَزَوَّجَ مُرْتَدَّةً وَلا مُسْلِمَةٌ اور فتاوی قاضی خان میں ہے جلد سوم ص 580 ومِنْهَا مَا هُوَ بَاطِلُّ بِالْإِتِّفَاقِ نَحْوَ النِّكَاحِ لَا يَجُوزُ لَهُ أَن يَتَزَوج اخرة مسلمة یعنی مرد اگر مسلمان عورت سے نکاح کرے تو وہ باطل ہے تمام فقہاء اکرام کا اس پر اتفاق ہے۔ کہ ہر مرتد کا نکاح مسلمہ سے باطل ہے کہ فاسد - کیونکہ فاسد نکاح وہ ہے جس میں علمائے کرام کا اختلاف ہو کہ جائز ہے یا ناجائز چنا نچہ فتاوی شامی جلد دوم ص ۳۳۵ پر ہے فِي الْبَحْرِ عَنِ الْمُجْتَنِي كُلِّ نِكَاحَ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوازِهِ كَالتِكَاحِ بِلا شه هُودٍ فَهُوَ فَاسِدٌ نکاح باطل وہ ہے جس کے ناجائزنہ ہونے پر سب علمائے امت کا اتفاق ہوا اور وہ نکاح سب کے نزدیک نہ ہونے کی طرح ہو۔ چنا نچہ در مختار جلد دوم ص ۲۸۲ پر ہے : والظاهر ان المراد بالباطل ما وجودها كعدمه ولذا لا يثبت النسب به صاحب رد المختار ص ۲۸ پر فرماتے ہیں کہ کا فرنے مسلمان عورت سے نکاح کیا تو وہ نکاح قطعا باطل ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے نَكَحَ كَافِرُ مُسْلِمَةً فَوَلَدَتْ مِنْهُ لَا يَثْبُتُ النَّبُ وَلَا تَجِبُّ الْعِدَّةُ لأَنَّهُ نِكَاح باطل ثابت ہوا کہ محمد اشرف مرزائی کا نکاح فہمیدہ کے ساتھ بالکل باطل ہے ۔ اس لیے کہ سب مسلمانوں کے عقیدہ سے مرزا غلام احمد کو نبی مان کر سب مرزائی مرتد کا فر ہو چکے ہیں چنا نچ جواہر البہار ص462 پر ہے ۔ فَقَدْ انْفَقَتِ الْأُمَّةُ عَلَى ذَالِكَ وَعَلَى تَكْفِيرُ مَنِ ادَّعَى النُّبُوَّةَ بَعْدَهُ اسى طرح شرح فقہ اكبر ص:150 پر ھے : وَدُعُوَى البُوَّةِ بَعْدَ نَبِيِّنَا كُفُرُ بِالإِجْمَاعِ ان تمام دلائل شرعیہ سے ثابت ہوا کہ فہمیدہ بیگم کا نکاح باطل ہے ہوا نہیں ۔ نکاح فاسد اور باطل کے حکم میں بھی فرق ہے۔ نکاح فاسد کا حکم یہ ہے کہ قاضی اسلام یا عدالت کا بیج نکاح فسخ کرے ۔ چنانچہ شامی شریف جلد دوم ص؛483 پر ہے : بَلْ يَجِبُ عَلَى الْقَاضِي التفريق بينہما لیکن نکاح باطل میں یہ بھی نہیں ۔ لہذا فہمیدہ بیگم پر نہ عدت واجب نہ طلاق نہ تفریق ۔ بلکہ وہ سابقہ باطل نکاح سے شرعا بالکل آزاد ہے اور پاکستانی عدالت کے قانون کے مطابق بھی یہ نکاح باطل ہے۔ چنانچہ ۱۹۵۵ء میں عدالت پاکستان کے ڈسٹرکٹ بیچ شیخ محمداکبر نے مرزائی فرقے کو قانونی طور پر غیرمسلم قرار دیتے ہوئے مدعیہ ام الکریم اورلیفٹینٹ مدیر الدین کے نکاح کو باطل کر دیا تھا۔ اس سے پہلے شام میں ٹرائل کورٹ کے ڈسٹرکٹ حج نے بھی ایسا ہی فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ بہاول نگر عدالت میں ہوا اور وہ دوسرا فیصلہ ۵۵-۶-۳ کو راولپنڈی میں ہوا تھا چند روز پیشتر اخبار امروز میں ستمبر کو چنیوٹ کی ایک خبر اس طرح شائع ہوئی : موضع خان کے چک ۲۰ نواب دین کے پورے خاندان نے احمدیت (مرزائیت) سے توبہ کر کے اسلام قبول کیا اور مشرف با اسلام ہوئے ان تمام باتوں اور فیصلوں اور دلائل سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے نزدیک مرزائی احمدی مسلمان نہیں۔ لہذا میں شرعی فتو اسے جاری کرتے ہوئے واضح کرتا ہوں کہ فہمیدہ بیگم چونکہ مسلمان ہے اس لیے اس کا نکاح محمد اشرف مرزائی سے قطعا باطل ہے اور فہمیدہ بیگم سابقہ نکاح سے بالکل آزاد ہے۔ محمد اشرف کا اس پر کوئی حق یا اختیار نہیں ہے۔ فہمیدہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے شریعت اسلامیہ کے مطابق نکاح کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ فتوایسے میری اسی تحقیق کے مطابق ہے جو مد عیبہ اور اس کے لواحقین کے ذریعہ کی گئی ۔ یہ فتوی تحقیق بالا کے درست ہونے کی صورت میں بالکل درست اور قابل عمل ہے ۔ واللہ ورسوله أعلم
(العطایا الاحمدیۃ فی فتاوی نعیمیہ ،ج:1،ص:319تا323، ضیاء القرآن پبلی کیشنز اردو بازار لاہور )