مسئولہ : غلام محمد قادری، مقام دلیلی تھانہ، میرال ضلع پلاموں، بہار -۱۶ شوال ۱۴۰۱ھ
بسم الله الرحمن الرحيم، نحمده ونصلى على رسوله الكريم
میرے پاس جماعت احمدیہ کی پچاسوں کتابیں ہیں۔ میں نے سب کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے ارکان خمسہ (جو اسلام کی بنیاد ہیں ) سے مرزا غلام احمد قادیانی کو کلی اتفاق ہے اور مرزا کا مقصد و منشاء اسلام کی ترقی اور دنیا والوں میں حضور اکرم ﷺکی اعلی و ارفع شان کو ثابت کرنا ہے جو حضرت امام مہدی اور حضرت عیسی کا ( نزول و ظہور کے بعد کام ہے، جہاں تک میں نے اس جماعت ؟ کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اس کے اندر کہیں بھی اس کا اشارہ نہیں ملتا کہ مرزا نے نبوت کا دعویٰ کر کے کوئی نئی شریعت کی بنیاد رکھی ہو اور حضور اکرم ﷺ کی شریعت کو منسوخ قرار دیا ہو۔ جہاں تک نبوت کی بات ہے ، ان کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا کا دعویٰ نبی ہونے کا نہیں بلکہ امتی ہونے کا تھا اور حضور اکرم ﷺکے خاتم النبیین ہونے کے باوجود ایسی نبوت دنیا میں ظاہر ہونے کے ہم بھی قائل ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ
دوبارہ دنیا میں تشریف فرما ہوں گے تو نبی بھی ہوں گے اور حضورﷺ کے امتی بھی ہوں گے ۔ مرزا غلام احمد قادیانی قرآن و حدیث سے حضرت عیسی
کی وفات ثابت کرتے ہیں اور احادیث نبوی ﷺ کا مصداق خود کو قرار دیتے ہیں، جن میں حضور اکرم ﷺ نے حضرت عیسی
کا نزول اور حضرت امام مہدی کے ظہور کی پیشن گوئی فرمائی ہے ، جو بہت حد تک میری سمجھ سے معقول معلوم ہوتا ہے ۔ لہذا مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی جماعت کیوں کر دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ واضح ہو کہ جماعت احمدیہ اور مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد کو سمجھنے کے لیے مضمون مذکورہ بالا میں میں نے (۱) مرزا غلام احمد قادیانی کو اسلام کے ارکانِ خمسہ سے اتفاق رکھنا اور ان پر عامل ہونا (۲) مرزا کا مقصد اسلام کی ترقی (۳) حضور اکرمﷺکی شان کو دنیا والوں پر ثابت کرنا (۴) مرزا اور شریعت اسلام (۵) مرزا اور نئی شریعت (۶) امتی ، نبی اور ختم نبوت کا مسئلہ (۷) وفات حضرت عیسی علیہ سلام کا مسئلہ (۸) مرزا کا مہدی ہونا نہ ہونا۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ، اگر چہ مسلمان جیسا کلمہ پڑھتے ہیں، مسلمانوں جیسی نماز پڑھتے ہیں، اپنے آپ کو اسلام کا حامی اور مبلغ بتاتے ہیں ، مگر اس کے باوجود قطعا یقینا بلا شبہ کافر و مرتد ، اسلام سے خارج ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان تمام ضروریات دین کو دل سے سچا مانے اور زبان سے اس کے سچے ہونے کا اقرار کرے ۔ اگر کوئی شخص ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرے تو وہ کافر ہے ، اگر چہ بقیہ تمام ضروریات دین کو حق مانے ، شرحمقاصد مبحث سابع میں ہے :
فلا نزاع فی کفر اھل القبلۃ المواظب طول عمرہ علی الطاعات اعتقاد قدم العالم ونفی حشر الاجساد 1
اس میں کسی کا اختلاف نہیں اہل قبلہ میں سے وہ شخص کافر ہے جو عالم کو قدیم ہونے یا حشر کا انکار کرے اگرچہ عمر بھر پابندی سے تمام عبادات وطاعات ادا کرتا رہے ۔
اگر کفر کے لیے تمام ضروریات دین کا انکار لازم قرار دیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی کافر نہ رہے گا کہ ہر شخص میں کوئی ایک نہ ایک بات اسلام کی ضرور پائی جاتی ہے ، مثلاً مشرکین یہود و نصاریٰ سب خدا کے وجود کے قائل ہیں اور خدا کا موجود ہونا اسلام کا بھی عقیدہ ہے ، مگر چوں کہ دوسرے کفریات بھی وہ کرتے ہیں ، اس لیے کافر ہیں، غرض کہ مسلمان ہونے کے لیے تمام ضروریات دین کا حق ماننا ضروری ہے اور زبان سے اقرار کرنا لازم ہے ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔ قاضی عیاض خااس لیے شفا میں اور ملاعلی قاری علیہ الرحمۃ الباری اس کی شرح میں ضروریات دین کے منکرین کی تکفیر نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وإن أظهر مع ذلك الإسلام أي الإيمان و انقياد مافيه من الأحكام و اعتقده أي الإسلام و اعتقد إبطال كل مذهب سواه فهو كافر بإظهاره ما اظھر من خلاف ذلک2
ان کفریات کے ساتھ ایمان اور اسلام ظاہر کرے ، اور اسلام کے احکام کی تابع داری کرے اور اسلام کا اعتقاد رکھے اور اسلام کے سوا ہر مذہب کو باطل جانے ، پھر بھی وہ کافر ہے۔ اس لیے کہ اس نے اس کے خلاف ظاہر کردیا۔
اسی طرح قادیانی اگر چہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور اسلام کو مذہب حق کہتا ہے اور اسلام کے احکام کی پابندی بھی بظاہر کرتا ہے ، مگر چوں کہ اس نے کثیر ضروریات دین کا انکار کیا ہے ، اس ۔ دین کا انکار کیا ہے ، اس لیے وہ کافر ہے ۔ مثلاً اس نے دعوی نبوت کیا۔ اپنے رسالہ ” دافع البلاء مطبوعہ ریاض ہند ، ص: 9 پر لکھا ہے :
” سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔“
ازالہ اوہام ص: ۵۳۳ پر لکھا:
”خداے تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام امتی بھی رکھا اور نبی بھی۔
توضیح مرام ، ص : 19 پر لکھا:
”میں محدث ہوں اور محدث بھی ایک معنی میں نبی ہوتا ہے ۔“
اور اپنے رسالہ جس کا نام ”ایک غلطی کا ازالہ “ ہے اس کے ص: ۶۷۳ پر لکھا:
” میں احمد ہوں جو آیت مبشراً برسول يأتى من بعدی اسمه احمد“ میں مراد ہے ۔
مرزا غلام احمد نے پہلے مطلقار سول ہونے کا دعویٰ کیا، بعد میں جب دیکھا کہ یہ چل نہیں پائے گا تو امتی نبی ہونے کی طرف پلٹا، کبھی ظلی نبی بنا کبھی بروزی ۔ مگر اس کا یہ داؤ پیچ خود اس کے قول سے باطل ہے۔ وہ کہتا ہے آیت: ”مبشراً برسول يأتى من بعدى اسمه احمد“ سے میں مراد ہوں۔ قرآن کر قرآن کریم کی نص شاہد ہے کہ آیت کریمہ میں یہ قول حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کا ہے اور باجماع مسلمین اس سے مراد حضور ہیں اور تمام مسلمانوں کا اس پر ایمان ہے کہ حضور اقدسﷺ امتی نبی تھے، نہ ظلی، نہ بروزی بلکہ مستقل بالذات نبی تھے ۔ سارے انبیاے ما سبق کے سردار اور امام تھے۔ اس لیے اس آیت میں رسول سے مراد نہ ظلی ہے ، نہ بروزی، نہ امتی نبی بلکہ مستقل بالذات رسول مراد ہے ۔ اور جب اس دجال نے اپنے آپ کو اس آیت کا مصداق ٹھہرایا تو اس نے مستقل بالذات نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن صرف بے پڑھے لکھے عوام کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ظلی اور بروزی کی مٹی کھڑی کی، مگر پھر بھی کفر سے نہ بچ سکا۔ حضور اقدس ﷺکے بعد کوئی کسی قسم کا نی نہیں آسکتا ۔ جو شخص کسی قسم کی نبوت کا دعوی کرے خواہ ظلی، خواہ بروزی یا امتی نبی بنے یا جو کسی ایسے کو نبی مانے وہ کافر ہے ۔ آیت کریمہ: خاتم النبیین۔ اپنے ظاہر معنی اور اپنے عموم پر باقی ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاویل یا تخصیص کرنے والا کافر و مرتد ہے۔ اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ خاتم النبیین کے کے بعد کسی کو کسی قسم کی نبوت نہیں مل سکتی۔ جو شخص یہ معنی یہی ہیں کہ آنحضور علی کے تشریف لے جانے کے بعد کہے کہ آنحضور نے کے بعد کسی کو کسی قسم کی نبوت ملی ہے یا مل سکتی ہے وہ کافر ہے۔
امام قاضی عیاض شفاء میں اور ملا علی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
فهؤلاء الطوائف كلهم كفار أي فإنهم مكذبون للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم لأنه صلى الله تعالى عليه وسلم أخبر عن نفسه أنه خاتم النبيين لا نبي بعده أي ينبأ فلا يرد عيسى لأنه نبي قبله و ينزل بعده و يحكم بشريعته و يصلى إلى قبلته ويكون من جملة امته و أخبر عن الله تعالى أنه خاتم النبيين و أنه أرسل كافة أي رسالة جامعة للناس . و أجمعت الأمة على حمل هذا الكلام الذي صدر عنه عليه الصلاة والسلام على ظاهره لعدم صارف عنه و إن مفهوم المراد به هو المقصود منه دون تاويل في ظاهره ولا تخصيص في عمومه فلا شك في كفر هؤلاء الطوائف كلها أي لتكذيبهم الله و رسوله قطعاً. أي بلا شبهة إجماعاً بلا مخالفة وسمعاً أي سماعاً من الكتاب والسنة ما يدل على كفرهم بلا مرية. وكذلك وقع الإجماع على تكفير كل من دافع نص الكتاب القديم و حمله على خلاف ما ورد به من المعنى القديم أو نص حديث مجمع على نقله، مقطوع به أي بصحته مجمع على حمله على ظاهره من غير تاويله اه ملخصا 3
پس یہ تمام گروہ کافر ہیں، کیوں کہ یہ نبی پہلی والی ایم کو جھٹلانے والے ہیں، اس لیے کہ حضور لی عالم نے اپنے بارے میں یہ خبر دیا کہ وہ خاتم النبیین ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ یعنی حضور لی کے بعد کسی کو منصب نبوت نہیں ملے گا۔ اب حضرت عیسی علیہ السلام سے اعتراض نہیں پڑ سکتا ، اس لیے کہ انھیں حضور علیہ الصلاة والسلامسے پہلے منصب نبوت مل چکا ہے ، حضور کے بعد نازل ہوں گے۔ اور حضورﷺ نے یہ خبر دی کہ اللہ عز و جل نے ان کو خاتم النبیین بنایا اور سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور امت نے اجماع کیا۔ اس کلام یعنی خاتم النبیین اور لانبی بعدی کے اپنے ظاہری معنی پر محمول ہونے پر ۔ کیوں کہ اس سے کوئی صارف نہیں اور بے شک جو مفہوم اس کی مراد ہے وہی مقصود ہے نہ اس کے ظاہر معنی میں تاویل ہے اور نہ اس کے عموم میں کوئی تخصیص ہے اس لیے ان تمام گروہوں کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں کیوں کہ یہ اللہ ورسول کو جھٹلاتے ہیں یہ لوگ بلا کسی شبہہ کے قطعا اور بلا کسی مخالفت کے اجتماعا کافر ہیں اور ان کے کافر ہونے پر بلا کسی شبہہ کے قرآن و حدیث دلالت کرتے ہیں۔ اور ایسے ہی ہر اس شخص کے کافر ہونے پر اجماع ہے جو کتاب معاملہ کرے ، جس کے نقل پر کے نص سے تھی اجماع ہو جس کا صحیح ہونا قطعی ہو، جس کے بغیر کسی تاویل کے ظاہری معنی مراد ہونے پر اجماع ہو۔
اس عبارت سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوئے :
(1)آیت کریمہ خاتم النبیین اور حديث:أنا خاتم النبيين لا نبي بعدي کے بارے میں پوری امت کا اجماع ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آں حضور پیلے سب میں آخر نبی ہیں، آخر الانبیا ہیں۔ حضور اقدسﷺکے زمانے میں یا حضور اقدس کے بعد کسی کو کسی قسم کی نبوت نہیں مل سکتی، جو اس کا دعویٰ کرے وہ با جماع امت قطعا یقینا بلا شبہہ کافر ہے۔
(2)اس پر بھی امت کا اجماع ہے کہ لفظ ”خاتم النبیین“ اور ”لانبی بعدی“ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے ، اس میں جو کوئی کسی قسم کی تاویل کرے کہ یہاں مراد مستقل کرے کہ یہاں مراد مستقل بالذات نبی ہے ، ظلی، بروزی، امتی نبی مراد نہیں، یا اس میں کسی قسم کی تخصیص کرے، مثلاً یہ تخصیص کرے کہ حضور ﷺکی خاتمیت صرف زمین کے طبقہ اولی کے ساتھ خاص ہے ، وہ بھی بلا شبہہ اجتماعا کافر ہے ، اس لیے کہ یہ اللہ ورسول کو جھٹلا رہا ہے۔
(3)جو شخص قرآن کریم کی کسی آیت یا کسی حدیث متواتر کے ایسے معنی کا انکار کرے جس پر امت کا اجماع ہو وہ بھی بلا شبہ قطعا یقینا کافر ہے ۔ اس کے علاوہ کثیر احادیث کریمہ اور پوری امت کے بے شمار ارشادات اس بات میں وارد ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ حضور اقدس پیلی ہم سب میں پچھلے نبی ہیں۔ آپ کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی کو کسی قسم کی نبوت نہیں مل سکتی۔ یہ معنی تمام امت میں ایسا مشہور و معلوم ہے کہ ہر شخص کو اس بات کا یقین ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے ہیں۔ آیت کریمہ کا یہ معنی ضروریات دین میں سے ہو گیا ہے۔ غلام احمد قادیانی نے پہلے مطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ کیا، یہیں سے وہ کافر و مرتد ہو گیا۔ پھر نا واقف عوام کو دھوکا دینے کے لیے بعد میں ظلی، بروزی امتی نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یہ بھی اس کا کفر صریح ہے۔ اتنے ہی سے وہ ایسا کا فرو مرتد ہو گیا کہ جو شخص اس کے کفر وارتداد میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ حضرت عیسی
کے نزول کا بہانا بنانا اس کو کچھ کام نہیں آئے گا۔ اس کا منہ توڑ جواب حضرت ملا علی قاری نے دے دیا کہ آخر الانبیا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی اور سب جانتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کو آنحضور کے دنیا میں تشریف آوری کے پہلے نبوت ملی ہے ، بر خلاف اس دجال کے کہ وہ اس زمانہ میں پیدا ہوا اور اسی زمانہ میں اس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے علاوہ غلام احمد کے کافر ہونے کے اور بہت سے وجوہات ہیں۔
اس نے ازالہ اوہام ، ص: ۸ میں لکھا:
”حضرت موسیٰ کی پیشین گوئیاں بھی اس صورت میں ظہور پذیر نہیں ہوئیں، صورت پر حضرت موسی نے اپنے دل میں امید باندھی تھی۔ غایت ما فی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیشین گوئیاں زیادہ غلط نکلیں۔“
اس کتاب کے ص: ۶۸۸ پر ہے :
”حضرت رسول خدا کے الہام و غلط نکلی تھیں۔ “
یہ صراحة انبیاے کرام کو جھوٹا اور فریبی بنانا ہے۔ یہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ حضرت موسیٰ و حضرت مسیح بلکہ خود حضور سید الانبیا نے قوم کو فریب دینے کے لیے جھوٹ بولا، اور یہ انبیائے کرام کو صراحت جھٹلانا ہے۔
اربعین، ص:۲ رو ۱۳ار پر لکھا۔
کامل مہدی نہ موسیٰ تھا نہ عیسی ۔ “
کتنا بڑا گستاخ ہے ان اولو العزم کو راہ یافتہ پورے طور پر نہ مانا۔ مہدی کے معنی راہ یافتہ کے ہی ہیں۔
معیار ص: ۱۳-۱۴ر پر لکھا:
”خدا نے امت میں مسیح موعود بھیجا کہ اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر ہے اور اس نے اس غلام احمد رکھا تا کہ یہ اشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنی غلام سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا، یعنی وہ کیسا مسیح ہے جو اپنے قرب و شفاعت کے مرتبے میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے ۔ “
ہر ذی عقل ان عبارات کو پڑھ کر یہ یقین کرنے پر مجبور ہے کہ اس گستاخ نے حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والتسلیمکی شدید بلکہ اشد توہین کی ۔ امت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاے کرام میں سے کسی نبی کی جو کوئی توہین کرے ، ان کی شان میں ادنی سی گستاخی کرے وہ یقینا حتما کافر ہے۔
شفا قاضی عیاض اور شامی میں ہے:
واللفظ للشامي أجمع المسلمون على أن شاتمه كافرو من شك في عذابه و كفره كفر 4
در مختار میں ہے: و يجب إلحاق الاستهزاء والاستخفاف به5
کسی نبی کو گالی دینے والا، ان کی استہزا کرنے والا ، ان کی شان کو ہلکی کرنے والا کافر ہے۔ جو اس کے عذاب وکفر میں شک کرے کافر ہے۔
کثرت کار و قلت فرصت کی وجہ سے ہم نے قادیانی دجال کے چند کفریات گنائے ہیں۔ ابھی اس کے بے شمار کفریات باقی ہیں۔ انھیں کفریات کی بنا پر علمائے عرب و عجم ، حل و حرم، هند و سندھ، ہندوستان و پاکستان، سب نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا کہ غلام احمد قادیانی کافر و مرتد اسلام سے خارج ہے۔ اس فتوے کی روشنی میں پاکستان نے متفقہ طور پر طے کر دیا کہ قادیانی مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم ہیں۔ رہ گیا قادیانیوں کا یہ فریب کہ حضرت عیسی کی وفات ہو گئی ہے ، وہ زندہ نہیں، یہ بھی قرآن کی آیتوں کے ان معانی کو جھٹلانا ہے ، جن پر تمام امت کا اجماع ہے اور صدہا احادیث کریمہ کا انکار ہے ، قرآن کریم میں صاف صاف فرمایا گیا ہے:}}وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ 6
نہ تو یہودیوں نے حضرت عیسی کو شہید کیا اور نہ انھیں پھانسی دی۔
پھر اس کے بعد فرمایا:
بَل رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ7
بلکہ اللہ نے انھیں اپنی طرف اٹھا لیا۔
اس کی تفسیر میں تمام مفسرین نے متفق اللفظ یہی فرمایا کہ وہ زندہ اٹھائے گئے اور جن آیتوں کو یہ حضرت عیسی
کے مرنے کی دلیل قرار دیتا ہے ۔ ان سب میں یہی معنی مراد ہے کہ وہ اٹھا لیے گئے ۔ لفظ توفی قرآن کریم میں خود موت کے علاوہ سونے کے معنی میں آیا ہے۔ ارشاد ہے: -
اللهُ يَتَوَلَّى الاَ نُفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا8
اللہ جانوں کو لے لیتا ہے موت کے وقت اور جو نہیں مرتی انھیں سونے کی حالت میں۔
اس آیت میں یہ ” تتوفی“ مطلقا اٹھانے کے معنی میں ہے ، خواہ بذریعہ موت، خواہ بذریعہ نوم، اس لیے ”فَلَا تَوَفَّيْتَنِي“وغیرہ سے حضرت عیسی
کی موت پر استدلال درست نہیں۔ وفات وحیات کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں جتنا غلام احمد قادیانی کے دعوی نبوت اور حضرات انبیاے کرام کی توہین کا ہے۔ مسلمانانِ عالم نے مرزا غلام احمد قادیانی کی اور اس کے متبعین کی تکفیر اس بنا پر کی ہے کہ اس نے نبوت کا دعوی کیا اور انبیاے کرام کی توہین کی اور ان کے معجزات کا انکار کیا۔ اس لیے قادیانی اگر چہ نماز پڑھتا ہے ، نماز و حج و زکاة کا قائل ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، پھر بھی وہ کافر و مرتد ہے ۔ اسلام سے خارج ہے۔ واللہ تعالی اعلم
(المواھب الالھیۃ فی الفتاوی الشریفۃ المعروف بہ فتاوی شارح بخاری ،ج:3 ،ص:543تا549،دائرۃ البرکات، کریم الدین پور ،گھوسی ضلع مئو)