مسئولہ:محمد مبین ہالینڈ
اس نے (زید)اپنی تقریر کے دوران یہ بھی فرمایا: مجھ سے کسی نے مسئلہ پوچھا کہ اگر خنزیر اور مرزائی، دونوں ایک جگہ ہوں تو کیا کرنا چاہیے ؟ کسی نے کہا تھا کہ اس نے یہ سوال ایک سے پوچھا تھا کہ اگر خنزیر اور مرزائی دونوں ایک جگہ ہوں تو کیا کریں تو اس نے کہا کہ خنزیر کو بچالو اور مرزائی کو قتل کر دو۔ مجھ سے اس نے تقریر میں پوچھا آپ کیا کریں گے، میں نے کہا خنزیر، مرزائی ایک جگہ ہوں اور دونوں میں سے کسی کا قتل کرنا ہو تو میں خنزیر کو قتل کروں گا، اور مرزائی کو اپنا سچا دین سکھاؤں گا۔ (یعنی اسے بچالوں گا) اس ضمن میں اس نے یہ بھی کہا کہ کوئی مولوی اسلامک لا میں اختیار نہیں رکھ سکتا کہ جب چاہے جس کے لیے چاہے قتل کا فتویٰ دیدے۔ یہ حکومت اسلامیہ کا کام ہے یہ کورٹ آف جسٹس کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے یا حکومت اسلامیہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ فلاں شخص مرتد ہے وہ واجب القتل ہے۔ یہ ہر شخص یا مولوی اس کے پا تل ہے۔ یہ ہر شخص یا مولوی اس کے پاس یہ پاور نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو قتل کا فتویٰ دیتا رہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو نادان لوگ اس قسم کا فتوی دیتے ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اب اس سلسلے میں مندرجہ ذیل امور دریافت طلب ہیں۔
الف: قتل کا معاملہ جب خنزیر اور مرزائی کے درمیان دائر ہو جائے تو دینی اعتبار سے کسی کا قتل انفع ہے ؟
ب: اگر مرزائی کا قتل اسلامی تعزیرات کے مزاج سے ہم آہنگ ہے تو اس کے مطابق فتوی دینے والے کو جو شخص نادان کہتا ہے اس کے لیے شرع میں کیا حکم ہے ؟
ج: ضروریات دین کے منکر اور اہانت رسول کے مرتکب کا شرعی حکم کیا ہے اور حکم بتانے کا اختیار کیے ہے ؟
د: مرتد اور واجب القتل ہونے کا فتوی دینا اور فعل قتل کا حکم صادر کرنا دونوں ایک ہے یا دونوں میں فرق ہے ؟
ہ: خنزیر کے مقابلے میں مرزائی مرتد کے قتل کے فتویٰ کی بنیاد شریعت میں موجود ہے یا نہیں ؟ اگر موجود ہے تو جس شخص نے اسے چھوڑ دینے کا فتویٰ دیا ہے اس نے مرزائی کی حمایت میں شریعت کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں ؟
مرزائی یا قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کے امتیوں کو کہتے ہیں۔ اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ازالہ اوہام میں لکھا:
” خداے تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام امتی بھی رکھا اور نبی بھی۔“ 1
انجام آنہم میں آیت کریمہ:
وَمُبَشِّرًام بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَد2
( حضرت عیسی
نے کہا) اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے انکا نام احمد ہے۔
اس سے اپنی ذات مراد لیا مسلمانوں کا یہ قطعی یقینی عقیدہ ہے کہ حضور اقدس ﷺخاتم النبین ہیں۔ اس معنی کر کے کہ حضور اقدسﷺکے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی جو شخص حضور اقدس ﷺ کسی کو نبی مانے یا خود نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر و مرتد ہے۔
صرف اتنے ہی سے مرزا احمد قادیانی دجال نے دافع البلا میں لکھا:
”مجھ کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”انت مني بمنزلة أولادي أنت مني وأنا منك“ تو میری ری اولاد کی جگہ ہے تو مجھ سے ، میں تجھ سے ہوں ۔ “3یہ خود کثیر کفریات کا مرکب ہے۔}}
ازالہ اوہام میں ہے:
”حضرت رسول خدا ﷺکے الہام ووحی غلط نکلی تھی ۔“4
اسی میں ہے:
”حضرت موسیٰ کی پیشین گوئیاں بھی اس صورت پر ظہور پذیر نہیں ہوئیں جس صورت پر حضرت موسیٰ نے اپنے دل میں امید باندھی تھی۔ غایت مافی الباب۔ یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیشین گوئیاں زیادہ غلط نکلیں ۔“5
اسی میں ہے:
”ایک بادشاہ کے وقت میں چار سونبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیشین گوئیاں کیں اور وہ جھوٹی نکلیں اور بادشاہ کو شکست ہوئی بلکہ وہ اسی میدان میں مر گیا۔ “6
ازالہ اوہام میں لکھا:
” براہین احمد یہ خدا کا کلام ہے۔“ 7
اربعین میں لکھا:
” کامل مہدی نہ موسیٰ تھانہ عیسی ۔“8
دافع البلا میں لکھا:
”ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو، اس سے بہتر غلام احمد ہے ۔“ 9
ضمیمہ انجام آتہم میں لکھا:
” آپ کا کنجریوں ( رنڈیوں) سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک نوجوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر نا پاک ہاتھ لگائے، اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے ۔ سمجھنے والے یہ سمجھ لیں کہ ایسا انسان کسی چلن کا آدمی ہو سکتا ہے ۔ “10
نیز اسی رسالہ میں انھیں حضرت روح اللہ کلمہ اللہ پر نہایت سخت سخت حملے کیے مثلا:
”شریر، مکار، بد عقل، فحش گو بد زبان، جھوٹا، چور ، خلل دماغ دالا، بد قسمت، نرا فریبی، پیرو شیطان کہا۔ “ 11
ازالہ اوہام میں لکھا:
”قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآن عظیم سخت زبانی کے طریقے کو استعمال کر رہا ہے ۔ “ 12
جس مسلمان کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہے اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کفریات کی وجہ سے مرزا غلام احمد بد ترین کافر و مرتد ہے۔ کسی نبی کی ادنی سی توہین کرنے والا با جماع مسلمین کافر ہے ۔ کسی نبی کو جھوٹا کہنے والا، قرآن مجید کو عیب لگانے والا بھی، اسی طرح با جماع مسلمین کا فر ہے اور ایسا کہ اس کے کفریات پر مطلع ہو کر جو شخص اس کو کافر نہ جانے وہ بھی کافر۔ ایسے دریدہ دہنوں کے بارے میں درر غرر، الاشباہ والنظائر ، در مختار وغیرہ میں تصریح ہے :
”من شك في كفره وعذابه فقد كفر “13
جو شخص ایسے گستاخ کے کافر اور سحق عذاب ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علماے عرب و عجم ، حل و حرم ، ہندو سندھ نے اس قادیانی دجال کے بارے میں یہ متفقہ فتوی دیا کہ یہ بلا شبہ یقینا حتما کافر و مرتد ہے۔ اور جو اس کا متبع ہو اسے نبی مانے یا اسے مہدی موعود جانے یام از کم مسلمان مانے وہ بھی کافر و مرتد ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے جب قادیانی اہانت انبیا کی وجہ سے مرتد ہیں تو حاکم اسلام کو حکم ہے کہ اسے فوراً قتل کر دے۔ کر دے۔ مگر اب جب کہ حکومت اسلام نہیں، خصوصا ہالینڈ جہاں کے باشندے وہاں کے دستور کے مطابق اس کے پابند ہیں کہ وہاں کے باشندوں میں سے کسی کے جان مال سے تعارض نہ کریں گے ، اس لیے وہاں یا کہیں بھی عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی مرتد کو قتل کریں۔ اگر قتل کریں گے تو قتل کی سزا پائیں گے ، اور بد عہدی بھی ہو گی اس لیے یہ کہنا کہ میں مرزائی کو قتل کروں گا صحیح نہیں ، البتہ یہ کہنا درست ہے کہ مرزائی واجب القتل ہے۔ خنزیر نجس العین ، غلیظ کی طرح سے اس کا رواں رواں ناپاک ہے، مگر وہ غیر مسلموں کی ملک ہے اور ان کے لیے مال ہے جب ہم یہ معاہدہ کر چکے ہیں کہ اس ملک کے غیر مسلموں کے جان مال سے تعارض نہ کریں گے تو خنزیر کو قتل کرنا جائز نہیں کہ یہ بد عہدی ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسا موقع ہو کہ خنزیر اور مرزائی جمع ہوں اور دونوں خطرے میں ہوں اور ان دونوں میں سے صرف ایک کی جان بچائی جاسکے تو مرزائی کو ہلاک ہونے دیا جائے اس لیے کہ مرزائی گستاخ رسول ہے اور منکر قرآن ہونے کی وجہ سے خنزیر سے بدتر ہے۔ قرآن کریم نے عامہ کفار کے بارے میں فرمایا:
”أولئكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَل“14
وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ ۔
اور مرتد کفار کی بدترین قسم ہے اور مر قسم ہے اور مرتدین میں گستاخان رسول سب سے بدتر اس طرح مرزائی چوپایوں سے تین گنا بد تر۔ زید اہل سنت کا مذہبی رہنما بھی کہلاتا ہے اور پیر طریقت بھی۔ قادیانی نے حضرت عیسی روح اللہ ، کلمة اللہ علیہ الصلوۃ والتسلیم کی شان اشان اقدس میں جو کلمات کہے ہیں وہی کلمات، اگر کوئی زید یا اس کے باپ کے بارے میں کہ ، دے تو پھر زید کا پارہ ناپے بھی نہیں بنے گا، اتفاق و اتحاد کی وعظ گوئی ختم ہو جائے گی۔ حیرت ہے مذہبی رہنمائی اور پیر طریقت ہونے کا ادعا اور حال یہ ہے کہ انبیاے کرام علیہم الصلوۃ والتسلیم کی اتنی بھی محبت نہیں جتنی اپنی ذات اور اپنے باپ کی ہے ، زید کا یہ کہنا ”اور مرزائی کو اپنا سچا دین سکھاؤں گا۔“ سراسر فریب اور دھوکا ہے کوئی اس سے پوچھے ، اب تک کتنے مرزائیوں کو اپنا سچا دین سکھایا، اگر زید عالم ہوتا تو ایسا ہر گز نہیں کہتا۔
مرزائیوں جیسے ، دریدہ دہنوں کے بارے میں فرمایا گیا: ”ثُمَّ لَا يَعُودُونَ“
اسلام سے نکلنے کے بعد پھر اسلام میں نہیں لوٹیں گے۔ ارباب باطن نے فرمایا کہ گستاخ رسول کو تو بہ نصیب نہ ہوگی۔ واللہ تعالی اعلم
اب آپ تفصیل وار جوابات ملاحظہ فرمائیں :
جواب (الف): قتل کا معاملہ جب خنزیر اور مرزائی کے درمیان دائر ہو تو مرزائی کے قتل کو شرعاً ترجیح ہے اور یہی دینی اعتبار سے انفع بھی ہے، بلکہ واجب ہے۔ واللہ تعالی اعلم
(ب) گزر چکا کہ مرزائی کا حکم یہی ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے ۔ حتی حتی کہ اگر وہ تو بہ بھی کرلے جب بھی نہیں چھوڑا جائے گا، اس لیے کہ وہ گستاخ رسول ہے۔ تنویر الابصار و در مختار میں ہے :
”كل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلا الكافر بست نبي من الأنبياء فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقاً ومن قتل شك في عذابه وكفره كفر“15
ہر مرتد کی تو بہ مقبول ہے سوا اس کے جو کسی نبی کی توہین کی وجہ سے کافر ہو تو بہ کے بعد بھی اس کو بطور حد کیا جائے گا اور اس کی توبہ مطلقا قبول نہیں، اور جو اس کے عذاب و کفر میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔
اس حکم شرعی بتانے والے کو نادان کہنے والے پر توبہ و تجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔ جیسا کہ الاشباہ والنظائر سے گزرا۔ واللہ تعالی اعلم
(ج) ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کرنے والا یا کسی رسول کی توہین کرنے والا کا فرو مرتد ہے ۔ اور علم ہی کو حکم شرعی بتانے کا اختیار ہے کسی رہے کسی جاہل کو خواہ وہ سلطان ہو یا حاکم، پیر ہو یا واعظ ، حکم شرعی بتانے کا اختیار نہیں بلکہ حدیث میں فرمایا:
”من أفتى بغير علم لعنته ملئكة السموات والأرض“16
جو بغیر علم فتویٰ دے اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم
دونوں دو باتیں ہیں ، فتوی دینا حکم شرعی بتانا ہے۔ قتل کرنا حکم شرعی کا نفاذ ہے۔ پہلا کام علما کا ہے ، دوسرا حاکم اسلام کا ۔ واللہ تعالی اعلم
ه: گزر چکا کہ خزیر غیر مسلموں کا مال ہے اسے قتل کرنا بد عہدی اور فتنے کو ابھارنا ہے ، غیر مسلم کا مملوک خزیرہ“ واجب القتل نہیں اور مرزائی شرعا واجب القتل ہے۔ واللہ تعالی اعلم
(المواھب الالھیۃ فی الفتاوی الشریفۃ المعروف بہ فتاوی شارح بخاری ،ج:3 ،ص:55تا61،دائرۃ البرکات، کریم الدین پور ،گھوسی ضلع مئو)