مسئولہ : محمد اسلام، جامع مسجد سورینام (امریکہ )
ہمارے ملک میں سنی ، مرزائی اور وہابی نظریات کے کلمہ گو لوگ رہتے ہیں، جن کے درمیان تقریبا نصف صدی سے محاذ آرائی ہے، مناظرے، مجادلے اور افہام و تفہیم کی راہیں آپس میں اختیار کی گئیں شروع شروع میں مولانا عبد العلیم صدیقی اور مولانا شاہ احمد نورانی کی تقریروں اور مناظروں کا اچھا خاصہ اثر بھی ہوا اور بہت سے بد عقیدے توبہ کر کے مسلک حق اہل سنت و جماعت میں لوٹ بھی آئے اور باقی مرزائی اپنے مذہب میں رہ گئے اور اس کی ترجمانی و تبلیغ کے لیے لاہور وغیرہ سے مبلغین علما کو بھی بلایا۔ چناں چہ آج تک ان کے علما بدمذہبی اور بدگمانی کی تبلیغ کر رہے ہیں اور وہابیوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے دو فارغین دیو بند بھی چھوڑ دیا ہے جو اشرف علی تھانوی کو ولی کامل اور حضرت امام احمد رضا کو کافر کہتے رہتے ہیں جس سے یہاں پر پاکستانی مولانا کا کئی بار مناظرہ بھی ؟ بھی ہوا ہے ۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ سورینام میں ایک ایسے مولوی صاحب تشریف لائے جس کو سورینام کے مسلمان سنی عالم دین اور اپنا مقتد اسمجھتے ہیں، تشریف آوری کے بعد انھوں نے بتایا کہ ولی کامل اور سلسلہ نقشبندی بھی کہا چناں چہ کچھ سنی مسلمان ان سے بیعت بھی ہوئے ۔ سورینام کی سب سے بڑی جمعیت نے ان کی خوب عزت کی جس کی وجہ سے پورے عوام میں ان کا کا نام لیا جانے لگا اور مریدوں کا حلقہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ اب جب تشریف لائے ہیں بجائے سنی جماعت کے ایسے شخص کے یہاں قیام کیا جس کا وہابی مرزائی وغیرہ سے بہت گہرا رابطہ ہے۔ باوجو دے کہ مولوی صاحب یہاں کے حالات سے باخبر تھے وہ یہ کہتے تھے کہ نہ یہاں کوئی مرزائی ہے اور نہ یہاں کوئی وہابی جن لوگوں نے مرزائیوں، وہابیوں کو اپنے سینوں سے الگ کیا انھوں نے اچھا نہیں کیا ، ہم لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ اشرف علی تھانوی کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو انھوں نے بر سر مجلس یہ جواب دیا کہ وہ لوگ بھی عالم تھے ان کو کافر و فاسق کہنے کا حق سورینام کے ان پڑھ مسلمانوں کو نہیں ہے ۔ اس جواب پر وہابیوں نے نعرے بھی لگائے اور اسی طرح ان کی تقریر ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہوئی ہے ۔ مولوی موصوف کے اس رویہ کی بنا پر یہاں کے مسلمانوں نے ان کی بیعت فوراً توڑ دی اور مسلک کی سب سے بڑی تعظیم سے مطالبہ کیا کہ مولوی صاحب سے چند سوالات کرنے چاہیے تاکہ ان کی دینی حقیقت ظاہر ہو جائے، انھوں نے تحریری جواب دینے کا وعدہ بھی کیا اور اس کے باوجود بھی کوئی جواب نہیں دیا اور وہ یہاں سے چلے بھی گئے ۔ لہذا اب سنی مسلمان ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں ؟ کیوں کہ اب چند ماہ بعد آنے والے ہیں۔}}آیا انھیں سنی مقتد ا جان کر ان کی عزت کی جائے ؟
یا ان سے سنیوں کو کنارہ کشی کرنی چاہیے ؟
یا ان کی تردید یہاں کے سنی مسلمانوں پر ضروری ہے ؟
اکابر وہابیہ جیسے اشرف علی تھانوی، رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد انبیٹھی، قاسم نانوتوی ، نیز غلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت کو کافر جاننے اور کہنے کا حق سورینام کے مسلمانوں کو ہے یا نہیں ؟
یہ شخص ( عبد الوہاب صدیقی ) سنی مسلمان ہر گز نہیں بلکہ صلح کلی ہے یہ حقیقت میں مرزائی، قادیانی، وہابی، دیوبندی ہے، دیو بندیوں کا پرانا طریقہ ہے کہ جہاں کے اہل سنت خوش عقیدہ ہوتے ہیں اور کسی بد مذہب کو اپنے یہاں گھنے نہیں دیتے وہاں کسی انتہائی چالاک شاطر دنیا دار کو یہ ہدایت کر کے بھیجتے ہیں کہ ابتداء وہاں جاکر تقیہ کر کے اپنے آپ کو سچا پکا سنی ظاہر کرو اور اپنے ریا کارانہ عبادت و ریاضت و تقویٰ سے سنی مسلمانوں کو اپنا گرویدہ اور معتقد بناؤ اور جب دیکھ لو کہ ہمارے پاؤں خوب جم جائیں تو پھر مرزائیت ، وہابیت کا اظہار کرو۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی سے مانوس ہو جاتا ہے تو بڑی مشکل سے اس کا ساتھ چھوڑتا ہے۔ مولوی حسین احمد ٹانڈوی سابق صدر مدرسہ دیو بند نے اپنے شاگردوں ، مریدوں کو خاص طور سے اس کی ہدایت کی ہے اس فارمولے پر عمل کرتے ہوئے مولوی اشرف علی تھانوی نے کان پور میں بارہ سال تک اپنے آپ کو سنی ظاہر کیا جس کے نتیجہ میں سیکڑوں سنی وہابی ہو گئے ، اسی فارمولے کے مطابق خلیل احمد بجنوری، بدایوں آکر رہا، وہابیوں کی تکفیر کرتا رہا، ان کے ساتھ انتہائی سخت برتاؤ کرتا رہا۔ تقریبا ہیں سال تک اس کا یہی رویہ رہا، پھر اخیر میں اپنے آپ کو ظاہر کیا، سوال میں لکھے ہوئے واقعات سے ظاہر ہے کہ یہ شخص (عبد الوہاب صدیقی ) بھی اسی قسم کا در انداز ٹھس پیٹھ ہے۔ سنی مسلمانوں کو فرض ہے کہ جماعتی طور پر اس سے بیزاری کا اعلان کر دیں اور اپنی بیعت اس سے توڑ دیں ، اس کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ یہ شخص اپنے ان اقوال کی وجہ سے خود کافر مرتد ہو گیا۔ اس نے یہ کہا کہ سورینام میں نہ کوئی مرزائی ہے نہ کوئی وہابی جن لوگوں نے مرزائیوں وہابیوں کو اپنے سنیوں سے الگ کیا انھوں نے اچھا نہیں کیا۔ نیز تھانوی، گنگوہی ، نانوتوی وغیرہ کے بارے میں اس کا یہ کہنا کہ وہ لوگ بھی عالم تھے ان کو کافر و فاسق کہنے کا حق سورینام کے ان پڑھ مسلمانوں کو نہیں ہے۔ پہلے قول کی بنا پر اس وجہ سے کافر ہو گیا کہ اس نے مرزائیوں ، وہابیوں کو کافر نہیں جانا جب کہ مرزائی اور وہابی ختم نبوت کے منکر اور انبیاے کرام کی شان اقدس میں توہین کی وجہ سے کافر و مرتد ہیں اور کافروں کو کافر کہنا کافر جاننا فرض جیسا کہ ابھی آرہا ہے۔ مرزائی ، تھانوی ، گنگوہی کے بارے میں حل و حرم ، عرب و عجم ، ہندو سندھ کے علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ کافر و مرتد ہیں۔ ایسے کہ ان کے کفریات پر مطلع ہونے کے بعد جو شخص ان کے کافر ہونے میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔
الاشباہ والنظائر، پھر عالم گیری میں ہے:
إذا لم يعرف الرجل أن النبي صلى الله عليه وسلم آخر الأنبياء فليس بمسلم1
جو شخص یہ نہ جانے کہ حضور اقدس ﷺ آخر الانبیا ہیں وہ مسلمان نہیں۔
شفا اور اس کی شرح شامی میں ہے:
أجمع المسلمون أن شاتمه كافر من شك في عذابه وكفره كفر2
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ نبی کی توہین کرنے والا کافر ہے جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔
نیز در ر و غرر الاشباہ والنظائر ، در مختار وغیرہ میں کسی نبی کی توہین کرنے والے کے بارے میں ہے :
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب4
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔
یہ حکم جس طرح سے علما کے لیے ہے اسی طرح بے پڑھے لکھے عوام کے لیے بھی جو کافر ہے اسے کافر کہنا جاننا عوام پر بھی فرض ہے۔ ان کو کافر نہ کہنا بلکہ عالم و پیشوا ماننا کفر اس جاہل سے کوئی پوچھے فرعون، ہامان، ابو جہل وغیرہ کو کافر کہنا، سورینام کے بے پڑھے لکھے مسلمانوں پر فرض ہے کہ نہیں، اگر فرض اور ضرور فرض ہے تو پھر انبیاے کرام کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے مرزائی، وہابی کو کافر کہنا سورینام کے مسلمانوں پر کیوں فرض نہیں خود قرآن پاک میں حضور پیلی کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا :
قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ ايْمَانِكُمْ5
تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر
اور فرمایا:
وَكَفَرُوا بَعْدَ اسْلَامِهِمْ 6
اسلام میں آکر کا فر ہو گئے۔
کیا قرآن مجید نے جن لوگوں کو کافر کہا انھیں کافر کہنا سورینام کے بے پڑھے لکھے مسلمانوں پر فرض نہیں یہ وہی کہے گا جو گستاخ رسول ہو گا اور اپنے ہم عقیدہ، دوسرے گستاخان رسول کی پردہ پوشی کی کوشش کرے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ شخص سنی صحیح العقیدہ ہر گز نہیں۔ بظاہر صلح کلی ، بے دین ہے اور ہو سکتا ہے باطن میں مرزائی یا وہابی ہو سنی مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کا مکمل بائیکاٹ کریں اور حتی الوسع اس کا بھر پور رد کریں ہر ہر سنی مسلمان کو اس سے دور رہنے اور اس سے بچنے کی تلقین کریں ، علما پر اپنے مقدور بھر، ذی اثر، ذمہ دار افراد پر اپنے مقدور بھر اس کا رد کرنا فرض ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
(المواھب الالھیۃ فی الفتاوی الشریفۃ المعروف بہ فتاوی شارح بخاری ،ج:3 ،ص:66تا63،دائرۃ البرکات، کریم الدین پور ،گھوسی ضلع مئو)