جب قرآنِ مجید میں حضور ﷺ سے پہلے کی کتابوں کا ذکر ہے، بعد میں کسی نئی کتاب یا وحی کا نہیں، تو کیا حضور ﷺ کے بعد نئی نبوت یا نئی وحی ماننا عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف اور کفر ہے؟ (فرضی سوال)
قرآن مجید کی متعدد آیات میں پچھلی آسمانی کتابوں اور وحی پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے یعنی مسلم و مومن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺکی تشریف آوری سے قبل مخلوق کی ہدایت کے لیے جس قدر نبی ورسول فرمائے اور ان جو وحی اور کتابیں نازل فرمائیں ان سب پر ایمان لانا اسی طرح ضروری ہے جیسے حضور اکرم ﷺ کی نبوت اور آپ پر نازل کردہ وحی قرآن مجید پر ایمان لانا ضروری ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ میں فرمایا :۔
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمُ يُؤْمِنُونَ
اور وہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اُترا اور آخرت پر یقین رکھیں۔
قرآن مجید میں تقریبا چالیس پچاس آیتوں میں یہ مضمون بیان ہوا ہے مگر سب میں پہلے انبیاء، پہلی وحی اور کتابوں کا ہی ذکر ہے کہ ان پر ایمان لا د مگر کسی سورہ یا آیت میں حضور سرور عالم ﷺ کے بعد نازل ہونے ولی کتاب یا وحی کا ذکر نہیں ہے محل، زمر، نساء ، اسرائیل، مومن، روم، شوری وغیرہ آیتوں میں دیکھئے ۔مِن قَبْل اور مِن قَبْلِک کی قید ہے لیکن کہیں اور کسی جگہ بھی من بعد کا لفظ نہیں ہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ حضور
آخری نبی ہیں اور آپ پر جو وحی نازل ہوئی وہ بھی آخری وحی ہے۔