کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین بابت اس مسئلہ کے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کا قائل نہیں ہے بلکہ اب بھی بعض لوگوں کو نبی مانتا ہے لہذا نص قطعی سے جواب باصواب دے کر ماجور ہوں۔ والسلام
وهو الموفق للصواب
حامدا ومصليا ومسلما الحمد لله والصلوة على خاتم انبيائه ورسله واله و صحبه و سلم اللهم رب زدني علما
اللہ عز و جل اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے :-
ما كان محمد ابا احد من رجالكم و لكن رسول الله و خاتم النبيين1(ترجمہ:اور اے لوگو! محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ ہاں وہ اللہ تعالی کے رسول اور سب نبیوں سے آخری نبی ہیں)
لہذا جو شخص حضور ﷺ کو خاتم الانبیاء والمرسلین نہیں مانتا وہ منکر ہے اس آیت کلام اللہ کا۔ اور منکر ایک بھی آیت کلام اللہ کا کا فر ہی نہیں بلکہ مرتد ہے۔ اور مرتد کے احکام بہ نسبت کافر کے بہت سخت ہیں۔
چنانچہ فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
اذا لم يعرف الرجل ان محمدا صلى الله عليه وسلم آخر الانبياء عليهم و على نبينا السلام فليس بمسلم كذا في اليتيمة 2
( جب کوئی آدمی نہ جانتا ہو کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ اور یتیمہ میں اسی طرح ہے)
وايضا فيه و يجب اكفار الزيدية كلهم فى قولهم بانتظار نبى من العجم ينسخ دين نبينا و سيدنا محمد الله كذا في الوجيز للكردري3
( زید یہ فرقہ کے تمام افراد کو کافر قرار دینا واجب ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم عجم کے ایک نبی کے انتظار میں ہیں جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی اللہ کے دین کو منسوخ کر دے گا ۔ امام کردری کی وجیز میں اسی طرح ہے )
اور جب ایسے شخص کو کافر کہنا اور جاننا واجب ہے جو منتظر ہو اور مجوز ہو، پیغمبر جدید کے آنے کا بعد نبی کے مستقل پیغمبر ہو کر تو ایسے شخص کا کافر جاننا ضروری واجب ہے، جو بالفعل کسی بھی مستقل کی موجودگی کا معتقد ہو ۔ اور یہ جو عقیدہ اہل سنت کا ہے کہ عیسیٰ
قرب قیامت میں تشریف لائیں گئے وہ پیر و شریعت محمد رسول الله الا اللہ ہو کر آئیں گئے نہ کہ بحیثیتِ نبی مستقل کے۔
حرره: ابو محمد محمد دیدار علی الرضوی