از آیت ذیل معلوم مے شود کہ پس از حضرت خاتم النبیین ﷺ رسولان تا ساعتِ قیامت خواہند آمد قال الله تعالیٰیٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ1وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَا2! چہ مراد از بنی آدم ہمہ افراد نوع انسانی اند الی یوم القیامۃ
اینجا دو عموم اند یکے عموم افراد انسانی۔ دوئم عموم واحاطہ آمدن رسل ہمہ از مان را حتیٰ کہ بعد آنحضرت ﷺ نیز الی یوم القیامۃوظاہر است کہ عموم اول مستلزم نیست عموم ثانی را بر نہجیکہ تجدد افراد انسانی مثلاً در ہر قرن ملزوم باشد برائے تجدد اتیان رسل وانزال اوشاں بلکہ ممکن بامکان وقوعی است کفایت یک رسول برائے افراد انسانی اہل قرن کثیره نمی بینی کہ مثلاً اُمتِ عیسویہ را آمدن یک رسول یعنی عیسیٰ
در قرونِ کثیره کفایت کر دو ایں امریست موقوف بر مشیت ایزدی بہر قدر کہ خواہد تحدیدش فرماید۔ بناء علیہ ممکن است کہ اتیان آنحضرت ﷺ کافی باشد برائے ہمعصراں وتابعانش الی یوم القیامۃ لا كما زعم المستدل
الحاصل آیت مسطوره بالا دلیل نیست بر عموم بلکہ ثابت است بقولہ تعالی (خاتم النبیین) انقطاعِ سلسلۂ رسالت ونبوت بعد آنحضرت ﷺ۔
سوال: سورۂ اعراف کی آیت یا بنی آدم اما یاتینكم رسل منكم الخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور پاک ﷺ کے بعد قیامت تک نبی آتے رہیں گے کیونکہ بنی آدم سے یوم قیامت تک آنے والے تمام افراد مراد ہیں۔ اُن کے انبیاء بھی قیامت تک آنے چاہئیں۔
جواب: یہاں دو عموم ہیں ایک افراد انسانی کا عموم، دوسرا اتمام اوقات میں عموم واحاطۂ رسل۔ حتیٰ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی قیامت تک، ظاہر ہے کہ پہلا عموم دوسرے عموم کو مستلزم نہیں۔ بایں طور کہ ہر دور میں نئے نئے رسول آتے رہیں بلکہ یہ چیز امکان وقوعی کے طور پر ثابت ہے کہ ایک ہی رسول قرون کثیرہ کے افراد انسانی کے لئے کافی ہو جیسا کہ عیسیٰ
اُمت عیسویہ کے قرون کثیرہ کے لئے کافی ہوئے (یعنی حضور ﷺ کی بعثت سے قبل پانچ صد سال) یہ معاملہ باری تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ ہر ایک کے لئے جس قدر چاہتا ہے حد مقرر فرماتا ہے لہٰذا عین ممکن ہے کہ حضور ﷺ اپنے ہم عصروں کے لیے اور مابعد میں قیامت تک آنے والوں کے لیے کافی ہوں۔ پس آیت مذکورہ سے مستدل کا استدلال کوئی قوت نہیں رکھتا بلکہ حضور ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت ورسالت کا انقطاع نص قرآنی (وخاتم النبیین) سے ثابت ہے۔