logoختم نبوت

قادیانی اکابر ۔۔۔ مرزا ناصر احمد

خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین محمود کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے مرزا ناصر احمد 8 نومبر ۱۹۶۵ء میں احمدی جماعت کے تیسرے خلیفہ بنائے گئے ۔

ابتدائی حالات:

مرزا ناصر احمد کی پیدائش ۱۶ ارنومبر ۱۹۰۹ ء کی درمیانی شب کو قادیان میں ہوئی۔ 1

دادی نے اپنی تربیت میں رکھا، اسی لیے وہ انہیں ہی ماں کہہ کر پکارتے رہے اور ان سے بہت ہی مانوس رہتے تھے ۔ 2

باپ نے اپنے نام کے ساتھ ’’ الموعود “ کالا حقہ لگایا ، تو خاندان کے دوسرے افراد پیچھے کیوں رہتے ، انہوں نے نئی نئی ترکیبیں گڑھ کر لفظ ’’موعود “ اپنے اسماء میں شامل کر لیے ، جیسے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود ’’المصلح الموعود“ کہلائے گئے اس کے بعد ان کے صاحبزادے یعنی مرزا ناصر احمد کو ’’نافلة موعود“ کہا جانے لگا۔

مرزا غلام احمد قادیانی کے خانودے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں سارے کام الی بشارتوں سے منسوب دکھائی دیں گے ۔ کسی کی ولادت علم و عمل، شادی بیاہ اور سیر و تفریح سے لے کر موت تک ، سارے حرکات و سکنات کی بنیاد خوابوں، اور الہامات پر رکھ دی جاتی ہیں۔ کیا جوے ہے کہ مرزا ناصر احمد کی شادی کے حوالے سے یہ عبارت پڑھیے۔

’’آپ کا رشتہ حضرت سیدہ منصور بیگم صاحبہ کے ساتھ بچپن سے ہی الہی بشارتوں کے تحفہ طے ہو گیاتھا......... اسی طرح حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے بھی اس رشتہ کے بارہ میں ایک خواب دیکھا تھا۔ “ 3

حصول علم اور تدریس:

کہتے ہیں کہ مرزا ناصر احمد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی ۔ ۱۷ را پریل ۱۹۲۲ ء کو قرآن کریم حفظ کر لیا۔ پھر دینی تعلیم کے حصول کے لیے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے ۔ جولائی 1919ء جامعہ احمد یہ قادیان سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۳۴ء میں بی۔ اے کی ڈگری لی ۔ اسی سال مزید تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے اور ۱۹۳۸ء تک آکسفورڈ کے Balliol Collegeمیں زیر تعلیم رہے۔ 5

واپسی پر جامعہ احمدیہ میں استاذ مقرر ہوئے ۔ اور پھر ایک سال کے بعد ۱۹۳۹ء میں وہاں کے پرنسپل بنا دیے گئے ۔ ویسے تذکرہ نویس لکھتے ہیں:

’’یورپ سے واپسی پر ۱۹۳۸ء میں جامعہ احمدیہ کے پروفیسر مقرر کیے گئے۔“ 4

عجیب بات ہے کہ جے پڑھنے پڑھانے کا قطعی کوئی تجربہ تک نہ ہو، وہ براہ راست پروفیسر اور دوسرے ہی سال پر پل تک بنائے جاتے ہیں ۔ ویسے حیرت و استعجاب چنداں نہیں ہے کہ یہ ادارہ ھی گھر کا ہےاور وہ بھی گھر کے ہیں....... جب قادیانی خانوادے نے اپنے لیے قرآنی ہدایات ، شرعی قوانین اور اسلاف کرام کے اجتماعی افکار و خیالات کے پر نیچے اڑانے سے دریغ نہیں کیا، تو پھر دنیاوی مناصب و مراتب کے حصول کے لیے عصری علوم وفنون کے مراسم پر سے رکھ دیے جائیں ، تو وجہ حیرت و استعجاب ہی کیا ہے ؟ تاہم اس سے یہ امر آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہو گیا کہ جماعت احمد یہ اپنے آقاؤوں کے بارے میں جو کچھ کہے، وہ ضروری نہیں ہے کہ حقیقت پر پنی بھی ہو، اس لیے کہ جو لوگ مبالغہ آرائی کرتے ہوئے طے شدہ عالمی ضابطے کی پرواہ نہ کرتے ہوں ۔وہ گھر کی تنہائی میں ہونے والے معاملات میں کیوں کر بچے ہو سکتے ہیں!

ایک استاذ سے توقع یہ رہتی ہے کہ وہ ہر حال میں طلبہ وطالبات کی خبر گیری ، دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرتا رہے، تاہم مرزا ناصر احمد سے چند ایسے واقعات بھی منسوب ہیں، جو صاف دلالت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا رعب ودبدبہ برقرار رکھنے کے لیے طلبہ و طالبات کی حوصلہ شکنی کی اور مستقبل میں ان کی ناکامی کے لیے برے الفاظ تک منہ سے نکالے ۔

اس پس منظر میں یہ واقعہ خودان کی زبان سے سماعت کیجیے۔

’’......ان کا بڑا ہو شیار لڑکا تھا۔ ٹاپ کے نمبر لیے میٹرک میں ۔........۔ وہ لڑکا ہمارے کالج میں داخل ہو گیا ۔........ اس کے چند رشتہ دار غیر مبائع تھے، انہوں نے لڑکے کے باپ کا دماغ خراب کیا۔ اس سے کہنے لگے کہ اتنا ہو شیار بچہ Superior Services کے Competition میں پاس ہونے والا نہیں ۔ تم نے یہ کیا ظلم کیا اپنے بچے کو جا کر احمدیوں کے کالج میں داخل کروایا۔ چنانچہ وہ میرے پاس آگیا۔ میں نے اس کو پندرہ میں منٹ تک سمجھایا کہ اپنی جان پر ظلم نہ کرو، خدا تعالی بڑی غیرت رکھتا ہے جماعت احمد یہ اور اس کے اداروں کے لیے ۔ تمہیں سزا مل جائے گی۔ خیر وہ سمجھ گیا اور پھر چلا گیا ۔ پھر انہوں نے بھڑکا یا پھر میرے پاس آگیا۔ میں نے سمجھایا پھر تیسری دفعہ جب آیا تو میں نے سمجھا اس کے باپ کو ٹھوکر نہ لگ جائے ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں حفظ کر دیتا ہوں ، مگر تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ یہ لڑکا جس کے متعلق تم یہ خواب دیکھ رہے ہو کہ وہ سو پیر نیز سروسز کے امتحان میں پاس ہو کر ڈی سی بنے گا ، یہ ایف اے بھی نہیں پاس کر سکے گا۔“ 5

میدان عمل :

مجھے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ قادیانیت اپنے بل بوتے پر نہیں، بلکہ غلط فہمی پھیلا کر ترقی کر رہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ تحریک کے قائدین ، عمائدین اور کارکنان سے لے کر معاونین تک بھی دنیا کے سامنے اپنی تحریک کو دین اسلام کی بھی تصویری حیثیت سے پیش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عوامی خدمت گار کی طرح ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جب کہ در پردہ مقصود نہ تو دین اسلام کی اشاعت ہے اور نہ ہی عوامی خدمت بلکہ یہ سب اپنی جماعت سے قریب کرنے کے لیے خوبصورت جال ہیں۔

اس حوالے سے ایک واقعہ سن لیجیے۔ جماعت احمد یہ کے ذمہ دار کہتے ہیں کہ تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد ۱۹۷۰ء میں مغربی ممالک کا دورہ کر رہے تھے کہ اسی دوران گیمبیا ٹھہرے۔ افریقی ممالک میں پھیلی ہوئی غربت ، ناخواندگی اور علاج معالجہ کی سہولتوں کے فقدان سے بڑے افسردہ ہوئے اور انہوں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ قائم کرتے ہوئے نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم شروع کی ، تاکہ افریقہ میں ہسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کیے جاسکیں ۔ کوئی شک نہیں کہ یہ بظاہر انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے، تاہم ان کے در پردہ مقاصد کے انکشاف کے لیے عینی شاہد کا یہ بیان پڑھیے۔

چنانچہ تھوڑے سے ہی عرصہ میں ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس شان سے اس دعا اور تحریک کو قبول فرمایا اور اس منصوبے میں کس قدر برکت عطا فرمائی ۔ آپ ایک روز ڈاک ملاحظہ فرمارہے تھے ۔ نصرت جہاں کے متعلق رپورٹ پڑھی تو مجھ سے فرمانے لگے کہ دیکھو میں نے یہ منصوبہ صرف باون لاکھ (غالبا) سے شروع کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی ہے کہ اب ایک ہسپتال کی آمد ۶ الاکھ روپے (غالبا) کی رپورٹ ہے اور لکھا ہے کہ فلاں فلاں وجوہات کی وجہ سے ابھی کم آمد ہوئی ہے۔ “ 6

آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ہسپتال کے قیام کے پس پردہ خدمت انسانیت نہیں ہے، بلکہ اضافہ دولت ہے، ورنہ تو فلاح و بہبودی کے ادارے عام طور پر غیر منافع بخش ہوتے ہیں۔ امراء کے علاج پر مناسب فیس لی جاتی ہے اور غرباء ومساکین اور فقراء کا علاج مفت کیا جاتا ہے ۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ توقع کے خلاف منافع نہ ہونے کی وجہ بھی بیان کر رہے ہیں ، جو دور ہو جائے تو آمدنی بہت بڑھ جائے۔ یعنی ایک منجھے ہوئے تاجر کی طرح پوری توجہ تجارتی منافع پر نکی ہوئی ہے۔

کہتے ہیں کہ اس تحریک کے ذریعہ افریقہ میں ۲۱ ہسپتال کھولے گئے ۔ اندازہ لگائیں کہ ایک ہسپتال سے منافع کی یہ رقم ہے، تو سارے ہسپتالوں سے کس قدر دولت حاصل ہوئی ہوگی ؟

اسی طرح جناب طالب علمی کے دور سے گھوڑ سواری کے شوقین تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ دوسرے میگزین پڑھتے تھے ، وہیں گھوڑوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومت حاصل کرنے کے لیے رسائل و جرائد پڑھا کرتے تھے۔

گھوڑوں میں دلچسپی کے باعث بہت سی اعلیٰ کتب گھوڑوں سے متعلق بھی آپ کے پاس تھیں ۔ مطالعہ کرتے وقت کتب پر نشان بھی لگاتے لیکن کتاب کو گندا یا اس کے صفحات کو خراب ہرگز نہ ہونے دیتے۔ “ 7

گھوڑ سواری سے شوق رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، تاہم اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہب کا استحصال نہایت ہی مذموم ہے۔ یقین نہیں آتا تو اسے پڑھیے۔

آنحضرت ﷺ کی احادیث مبارکہ میں فرمودہ گھوڑوں کی اہمیت کے پیش نظر اور دنیا کو پیش آمدہ حالات کی روشنی میں جہاں ایٹمی جنگ کا خطرہ ہر وقت اس کے سر پر منڈلا رہا ہے ، آپ نے جماعت کو گھوڑے پالنے کی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ جشن صد سالہ تک جماعت چالیس ہزار گھوڑے تیار کرے۔ آپ نے Pak Arab نسل کی فزائش کی طرف توجہ دلائی ۔ ربوہ میں اس سلسلہ میں ایک کلب خيل للرحمن “ کے نام سے بنایا اور ہر سال اس کے زیر انتظام ربوہ میں ایک گھٹر دوڑ ٹورنا منٹ کا بندو بست فرمایا ، جس میں حضور ذاتی دلچسپی لیتے تھے ۔ “ 8

شان الوہیت:

تماشہ یہ ہے کہ نہ صرف باپ نے فرضی الہامات کے سہارے الوہیت میں شریک ہونے کی کوشش کی ہے، بلکہ اپنے پوتے کے لیے بھی ایسا لفظ استعمال کیا ہے ، جس کی ترجمانی میں اپنے الفاظ میں کرنے سے قاصر ہوں ۔ آپ خود انہیں کی زبان میں سماعت کریں۔

مرزا قادیانی اپنے پوتے کی بشارت کے حوالے سے الہام سناتے ہوئے کہتے ہیں :

تری نسلا بعيدا ، انا نبشرك بغلام مظهر الحق والعلى ، كان الله نَزَّلَ من السماء ، انا نبشرك بغلام نافلة لك 9

مصنف کتاب نے اس کا ترجمہ بھی کیا ہے ، میں کسی ممکنہ الزام سے بچنے کے لیے بہترسمجھتا ہوں کہ ترجمہ بھی انہیں کے الفاظ میں پڑھ لیجیے۔

اور تو اپنی ایک دور کی نسل کو دیکھ لے گا ، ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں ، جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگا، گویا آسمان سے خدا اترے گا ۔ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں، جو تیرا پوتا ہوگا۔

دیکھ رہے ہیں آپ عقیدہ الوہیت کی بیخ کنی کی ناپاک جسارت! پہلے تو پوتے کی بشارت ملنے کا اعلان ہوا، پھر اس پوتے کی تمثیل خدائے ذوالجلال سے دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ پوتے کی آمد ایسی ہے ، جیسے خدا تعالیٰ آسمان سے اتر آئے ۔ کسی زمانے میں غلام قادیانی نے اپنے بارے میں کہتا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں اور میں نے یقین کر لیا کہ واقعی میں وہی ہوں ۔ اور اب یہاں اپنے پوتے کے بارے میں نہایت صراحت کے ساتھ الوہیت کی نسبت کر رہے ہیں۔ 10

العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ ، کیسے بے ہنگم خیالات ہیں اور کیسی بے سروپا باتیں ہیں ... سوچتا ہوں تو دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ ایسے افکار و خیالات کے ہوتے ہوئے کس طرح لوگ اب تک جماعت احمد یہ سے وابستہ ہیں ؟ چ کہا ہے کہ جب اللہ رب العزت کسی پر ہدایت کے راستے بند کر دیتا ہے، تو سرکشی و بغاوت کے نتیجے میں اس کے لیے ملالت و گمراہی پرکشش بنادی جاتی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قادیانیت سے مسلک افراد نے خاتم النبیین ﷺ کی صاف و شفاف تعلیمات سے روگردانی کر کے اتنی بڑی سرکشی کی ہے، کہ حق و باطل ، ہدایت د گمراہی اور عدل و ظلم کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت ہی سلب کر لی گئی ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ جس دن یہ لوگ بانی قادیانیت کی ہذیان گوئی اور بے ہنگم الہامات کو غیر جانبداری کے ساتھ پر کھنے کی کوشش کریں گے ، ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر ہدایت کے اجالے میں آجائیں گے۔

اچھا یہ تو رہی ایک بات ، اب ذرا مفروضہ الہام کے الفاظ پر غور کرتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ جناب نے یہاں بغلام نافلة لك بیان کیا ہے ۔ جب نافلة کے معنی ہی پوتا کے ہیں، تو پھر لفظ غلام بہت حد تک بے محل معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر لفظ غلام کا استعمال ہوا ہے، پھر نافلة کو بجائے صفت کے تمییز ہونا چاہیے۔ یعنی عبارت یوں ہوتی بغلام نافلة لك ۔

دوسری بات یہ ہے کہ مترجم نے لکھا ہے کہ تو اپنی ایک دور کی نسل دیکھ لے گا جب کہ اپنی کے لیے عربی الہام میں کوئی لفظ ہے ہی نہیں ۔

تیسری بات یہ ہے کہ متذکرہ الہام کی مطابق مرزاغلام احمد قادیانی کو اپنے پوتے کی ولادت تک زندہ رہنا چاہیے، جب کہ تاریخی اعتبار سے مرزا قادیانی کی موت ۱۹۰۸ یہ میں ہوتی ہے اور مرزا ناصر احمد کی پیدائش ۱۹۰۹ء کو ہوتی ہے۔

لہذا دو صورتوں میں سے ایک کے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ ہے ہی نہیں ؟ یا تو متذکرہ الہام کے مصداق مرزا ناصر احمد نہیں ، بلکہ کوئی اور ہے۔

اور اگر واقعی متذکرہ الہام کے مصداق مرزا ناصر احمد ہیں ، تو پھر مرزا قادیانی کے اپنے پوتے کونہ دیکھ پانے کی صورت میں الہام جزوی طور پر نامکمل ہے۔

خیال رہے، جو بھی صورت اختیار کی جائے ، متذکرہ الہام کی صداقت و حقانیت بہر کیف مجروح ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔

خانگی حالات:

مرزا ناصر احمد نے اپنی موت سے چند ماہ قبل امراپریل ۱۹۸۲ یہ میں دوسری شادی کی ۔ ولیمہ کا اہتمام بھی کیا گیا ۔ عقیدت مند کہتے ہیں کہ یہ شادی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت کی ہے۔ یہاں پھر ایک عجیب و غریب تناقض سے سابقہ پڑتا ہے۔

شادی کے ارادہ کو حکم الہی سے جوڑتے ہوئے صاف عبارتوں میں یوں کہہ رہے ہیں: حضور نے اپنی حرم کی وفات کے بعد خالصتا دینی اغراض کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت نکاح ثانی کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس سلسلہ میں آپ نے چالیس روز دعائیں کیں ، جو کہ ۲۵ فروری ۱۹۸۳ ء تا ۵ را پر میل ۱۹۸۲ء جاری رہیں ۔ جماعت کے تین بزرگ افراد سے بھی آپ نے سات روز تک دعائیں کر کے استخارہ کرنے کے لیے فرمایا ۔ ۵ اپریل ۱۹۸۲ ء کی شام کو آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن پا کر شادی کا پیغام تحریر فرمایا اور اسے ۶ ر اپریل کے شروع ہو جانے کے بعد کھولنے کے لیے ارشاد فرمایا ۔11

کیسے ، متذکرہ اقتباس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے یا نہیں ، کہ موصوف کی دوسری شادی صرف اور صرف حکم خداوندی پر عمل کرنے کے نتیجے میں ہوئی ہے، تاہم ایک عینی شاہد کے بیان کے مطابق مرزا ناصر احمد نے شادی کے لیے سلسلہ جنبانی بہت پہلے ہی شروع کر دی تھی ۔

اس پس منظر میں یہ گفتگو سماعت کیجیے۔

فروری ۱۹۸۳ء میں حضور نے میرے بھائی کرنل ایاز محمود خاں کو، جو ان دنوں پنڈی میں قیام پذیر تھے ، اسلام آباد اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ میں نے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ اس کے لیے تمہارے ساتھ دوسٹنگ کروں گا۔ ان ملاقاتوں میں سب سے پہلے آپ نے فرمایا کہ عیسائیت میں قربانی کا تصور یہ ہے کہ عورتیں Nun بن جاتی ہیں، لیکن اسلام اس سے مختلف قربانی ، علیہ وسلم کا کا تصور پیش کرتا ہے ۔ پھر حضور نے حضرت خدیجہ کی وفات اور آنحضرت ﷺ کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمانے کا ذکر فرمایا۔ اس گفتگو کے دوران حضور نے حضرت مصلح موعود کی تمام شادیوں اور ان کے پس منظر میں موجود ضروریات کا ذکر بھی فرمایا۔

بعدہ ، حضور نے منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد اپنے لیے شادی کی ضرورت کو بیان فرمایا۔ یہ ساری باتیں تفصیلا بیان کرنے کے بعد آپ نے میرے رشتے کے لیے اپنے منشاء کا اظہار فرمایا اور میرا اور میرے والد کا متوقع جواب کیا ہوگا ، اس کے متعلق ان سے استفسار فرمایا۔ 12

”یہ بیان دوسری شریک حیات کا ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے صداقت پر منی تصور نہ کریں۔ خانوادہ قادیانیت کے طلسماتی تقدس کا یہی وہ باب ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہاں جملہ حرکات و سکنات کو کسی بھی طرح حکم خداوندی اور الہی بشارتوں سے منسوب کر دیا جاتا ہے، تاکہ ایک طرف معتقدین پر مفروضہ مذہبی رعب طاری رہے اور دوسری جانب پس پردہ یہ باور کرایا جائے کہ گھر والوں پر قدرت خداوندی ہمہ وقت مہربان رہتی ہے۔یہ بات غلط نہیں کہ میاں بیوی کو باہم شیر و شکر رہنا چاہیے ، تاہم اس رشتہ نازک کی تقویت ظاہر کرنے کے لیے بھونڈی اور بازاری مثالوں سے بہر کیف اجتناب کرنا چاہیے ۔ اس پس منظر میں دوسری شریکۂ حیات کی روایت سنیے:

حضور نے شروع دن سے ہی مجھ سے یہ فرمایا کہ دیکھو، میرے ساتھ تکلف بالکل نہیں ٹرینگ کرنا، جب تک بے تکلفی نہیں ہوگی ، ہم اپنا کام صحیح طور پر نہیں کر سکتے۔ میرے پاس تمہاری کے لیے صرف ڈیڑھ دو ماہ ہیں۔ اس عرصہ میں تمہاری مکمل تربیت کرنی ہے۔ میں تمہیں اپنی ذات کے اندر اس طرح Fit in کرلوں گا، جس طرح Nut کے اندر Screw فٹ ہو جاتا ہے۔ “13

میری رائے کی توثیق کے لیے آخری جملہ پر غور کیجیے ۔ کیا اس امر میں کوئی شبہ ہے کہ ایک دوسرے کی قربت و محبت کے اظہار کے لیے اردو زبان کا دامن قطعی تنگ نہیں ، بلکہ کہنے دیا جائے کہ اردو پیارو محبت ، حسن و دلکشی اور جذب و کشش کے لیے ہی زیادہ مشہور ہے۔

ایک بیوی اپنے شوہر کی تعریف و توصیف کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن بلا وجہ کے پہلوؤں کو توڑ مروڑ کر اسلامی شریعت سے منسوب کرنا اور پھر اسے اپنے شوہر کی دینداری و پرہیز گاری کے اثبات پر دلیل بنا کر پیش کرنے کی کوشش ، نہایت ہی عجیب و غریب ہے۔

دوسری بیوی اپنے شوہر کے قصیدے پڑھتے ہوئے کہتی ہے؟

”پردے کا انتہائی خیال تھا .......چنانچہ شادی کے بعد میں پہلی دفعہ جب اپنی امی کی طرف گئی تو واپسی پر حضور ساتھ تھے۔ میں پردے کے لیے عینک کا استعمال نہ کرتی تھی۔ حضور فرمانے گے تمہاری عینک کہاں ہے؟ میں نے کہا وہ تو گھر ہے ۔ فرمانے لگے اچھا پھر دونوں نقاب گرالو .......دستانوں کے متعلق مجھ سے فرمانے لگے کہ منصورہ بیگم صاحبہ پردے کی خاطر دستانے پہنا کرتی تھیں ۔ مجھ سے فرمایا کہ حمید (میرے بھائی جو انگلینڈ میں قیام پذیر ہیں ) سے کہو کہ وہ تمہارے لیے دستانے لے کر ائیر پورٹ پر پہنچے......میں کپڑے سلوانے کے لیے ایک انگریزی رسالے میں ڈیزائن دیکھ رہی تھی ( جو آپ نے مجھے خود دیا تھا ) آپ پاس بیٹھے ڈاک دیکھ رہے تھے، فرمایا: زیادہ ننگ دھڑنگ ڈیزائن نہ دینا۔ درزی نے بعض کپڑے زیادہ ہی کھلے سی دیے، میں نے نقص نکالتے ہوئے انہیں دیکھا تو فرمایا: اب یہ ایسے ہی پہن لو آئندہ ہدایت دے دینا ۔ “14

متذکرہ بیان میں آپ محسوس کریں گے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر پردہ کے معاملے میں انتہائی سخت تھے ، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ عینک پردے کے لیے استعمال نہیں کی جاتی ۔ اسی طرح پورے سفر میں ہاتھ کھلے ہیں ، تو کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن برطانیہ پہنچتے ہی پردہ کے لیے دستانے کی طلب ، ایک طرف یہ بات کہ کپڑے ننگ دھڑنگ ڈیزائن کے نہ ہوں ، تو دوسری طرف جناب خود ہی کپڑوں کے ڈیزائن کے لیے انگریزی رسالے لا کر دے رہے ہیں ۔ یہ بات کہنے کی نہیں کہ انگریزی رسالوں میں کس قسم کے ڈیزائن موجود رہتے ہیں۔ اور پھر زیادہ کھلے لباس کی میں خیال رکھنا ۔ ہے نا عجیب و غریب باتیں ! دیے گئے ہیں اور وہ درست نہیں ہیں، تو پھر اس میں رعایت دیتے ہوئے یہ کہنا کہ اب کی پہن لو ، بعد میں خیال رکھنا ۔ہے نا عجیب وغریب باتیں !

مرزا ناصر احمد نے اپنے بیٹے مرز القمان احمد کی شادی چارسدہ کے ایک ممتاز گھرانے کی صاحبزادی سے کر دیا۔ لڑ کی انتہائی شریف تھی۔ قصر خلافت میں آنے کے بعد اپنے ماتھے کی آنکھ سے دیکھے ہوئے حالات بڑے ہی تکلیف دہ تھے ۔ رفتہ رفتہ مرزا قادیانی کے خاندان کی حقیقت بے نقاب ہونے لگی اور تعلقات کشیدہ ہو گئے ۔ لڑکی نے لقمان احمد سے طلاق لے لی ۔ اسی دوران ان کے یہاں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی ۔ مرز القمان احمد نے اپنے والد اور تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کی شہ پر اپنے بیٹے کو اغوا کر کے لندن بھیجنے کی سازش رچی ۔ بچے کا پاسپورٹ بھی بنادیا گیا اور ویزہ بھی لگ گیا ۔ اس طرح سفر کی ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں ۔ اسی دوران کسی طرح یہ راز فاش ہو گیا اور بڑی مشکلوں سے لڑکی کے خاندان نے بچہ کو اغوا ہونے سے بچایا۔15

علیحدہ شریعت:

ویسے تو وہ عبادت ہی کسی گنتی میں ہے ، جس کی بنیاد حقائق و معلومات پر نہیں ، بلکہ مفروضات و خیالات پر ہو، تاہم ان کی اپنی صوابدید پر پڑھی جانے والی نماز کے ضابطے بھی اپنے لیے کچھ اور دوسروں کے کچھ ہوتے تھے۔یہ دلچسپ قصہ مرزا ناصر احمد کی شریک حیات سے سماعت کیجیے۔

”میں نے حضور سے شادی کے غالبا دوسرے روز کہا کہ مجھے صبح نماز کے لیے جگا دیا کریں ۔ آپ نے اگلے روز مجھے جگایا۔ میں اٹھی ، نماز پڑھی ، قرآن شریف پڑھا اور دوبارہ سوگئی ۔ بس ایک ہی روز آپ نے مجھے جگایا اور پھر نہ جگایا۔ میں صبح اپنی نیند پوری کر کے اٹھتی اور قضا نماز پڑھتی ۔ ایک روز اسلام آباد میں میں نے ان سے کہا: آپ مجھے نماز کے لیے جگاتے نہیں؟ آپ خاموشی سے میری طرف دیکھتے رہے اور پھر کچھ نہ فرمایا۔ میں بھی چپ رہی لیکن پھر اس کے بعد بھی آپ نے مجھے نہ جگایا۔ چونکہ آپ کا معمول ایسا تھا کہ آپ رات کو دیر سے سوتے تھے اور میں بھی ساتھ جاگتی رہتی تھی ۔ آپ کو کم سونے کی عادت تھی، لیکن میری نیند پوری نہ ہوتی تھی ، اس لیے آپ مجھے صبح نہ جگاتے ۔ “16

اچھا، پھر یہ رخصت خاص صرف اہلیہ تک محدود ندگی، بلکہ بسا اوقات اپنے لیے بھی بعض متفقہ ضابطے تبدیل ہو جاتے تھے۔ اس تناظر میں راوی کا بیان پڑھیے۔

”اسی طرح ایک مرتبہ حضور کے ایک غیر احمدی عزیز نے اسلام آباد میں ہماری دعوت کی ۔ وہاں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا ۔ اہل خانہ نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے ۔ حضور نے وہاں نماز نہ پڑھی اور واپس گھر آ کر عشاء کی نماز کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی اور مجھ سے فرمایا ۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے، جب اس کی طرف پوری توجہ ہو ۔ “ 17

آپ نے جماعت احمد یہ کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد ، جو مرزاغلام احمد قادیانی کے پوتے اور خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود کے بیٹے تھے ، کی حیات دنیوی کے بعض متفرق گوشے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ تیسرے خلیفہ، اپنے باپ اور دادا کے مقابلے میں مذہبی اور عصری دونوں علوم حاصل کرنے کی وجہ سے کہیں زیادہ آگے رہے لیکن فرضی الہامات، دامی بشارات اور خوابوں کی دنیا میں اپنے آباء واجداد ہی کی طرح طواف کرتے رہے اور ایک قدم بھی باہر نہ نکل سکے۔ لہذا کوئی وجہ نہیں کہ فکری پیمانے پر ہم انہیں بھی اس قادیانیت کا تسلسل قرار دیں، جس کی بنیاد ان کے دادا مرزاغلام احمد قادیانی نے رکھی تھی۔

(ماخوذ ۔۔۔ قادیانیت ایک تنقیدی مطالعہ ۔۔۔از ڈاکٹر غلام زرقانی قادری )



  • 1 دیکھیے، حیات ناصر، ص: ۲۳
  • 2 دیکھیے، حضرت مرزا ناصر احمد ، ص:11،یہ کتاب ان کی دوسری اہلیہ طاہرہ صدیقہ ناصر نے لکھی ہے ، اس لیے اسے مرزا ناصر احمد کی حیات کے حوالے سے بنیادی مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔ لہذا میں نے زیادہ تر معلومات اس کتاب سے اخذ کیے ہیں ۔ (ڈاکٹر غلام زرقانی)
  • 3 حضرت مرزا ناصر احمد، ص: ۲۱
  • 4 دیکھیے، حضرت مرزا ناصر احمد ، ص: ۱۵-۲۰
  • 5 دیکھیے، حضرت مرزا ناصر احمد ، ص: ۱۵-۲۰
  • 5 حیات ناصر، ج:۱، ص: ۱۶۸
  • 6 حضرت مرزا ناصر احمد ، ص: ۴۲
  • 7 حضرت مرزا ناصر احمد ، ص : ۲۰ ۲
  • 8 حضرت مرزا ناصر احمد ، ص : ۲۰ ۲
  • 9 حیات ناصر، ج:۱، ص:۹
  • 10 دیکھیے ،آئینہ کمالات، مندرجہ روحانی خزائن، ج ۵، ص ۵۶۴
  • 11 حضرت مرزا ناصر، ۷۵
  • 12 حضرت مرزا ناصر احمد، ۷۸
  • 13 حضرت مرزا ناصر، 82
  • 14 حضرت مرزا ناصر، ص: ۸۳-۸۶
  • 15 دیکھیے ، شہر سدوم، ص: ۱۵۹
  • 16 حضرت ناصر احمد، ص: ۱۱۰
  • 17 حضرت نا صراحمد، ص: ۱۱۱

Netsol OnlinePowered by