قرآن میں ہے جو اللہ اور اُس کے رسول کی کامل اتباع کرتا ہے، اُسے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا 1
چنانچہ اس آیت میں حضورﷺ کی کامل اتباع کرنے والوں کو خوشخبری ہے کہ وہ نبیوں میں سے ، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ معیت زمانی اور مکانی تو ممکن نہیں لازماً معیت فی المرتبت مراد ہے، یعنی مقام و مرتبہ میں اُن کے ساتھ ہوں گے۔
”نبوت“ اپنے عمل و کسب سے حاصل نہیں کی جاسکتی،
اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ2
اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے “۔
یعنی: اللہ جانتا ہے کہ نبوت کی اہلیت اور اس کا استحقاق کس کو ہے اور کس کو نہیں، عمر اور مال و دولت سے کوئی مستحق نبوت نہیں ہو سکتا اور یہ جھوٹی نبوت کے دعویدار اور طلب گار تو حسد، مگر ، بد عہدی وغیرہ شنیع افعال اور بُری عادتوں میں مبتلا ہیں، یہ کہاں اور نبوت کا منصب عالی کہاں۔۔۔!
اگر نبوت اپنے کسب و عمل سے حاصل ہوتی ہو اور اللہ ورسول کی فرمانبرداری سے کوئی شخص نبیوں میں شامل ہو سکتا ہو، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کس نبی کی پیروی سے ”نبی“ بنے، اسی طرح سب سے آخری نبی حضور اکرم صلی العلیم بھی اُس دور میں، اُس قوم میں اور اُس سر زمین میں پیدا ہوئے اور نبی ہوئے، جہاں پہلے سے کوئی نبی تھے نہ کوئی شریعت اور کتاب تھی اور نہ ہی کوئی پیغمبرانہ ماحول اور معاشرہ تھا۔ معلوم ہوا کہ حضرت آدم اور سید عالم علیہما الصلوٰۃ والسلام ، الله تعالیٰ کی عطا سے نبی ہوئے نہ کہ کسی نبی کی پیروی کر کے۔
اس آیت کا ترجمہ کرنے میں معترض نے تحریف قرآن کا ارتکاب کرتے ہوئے مع “ (بمعنی ”ساتھ“ کا ترجمہ ”من“ (بمعنی ”سے “ سے کیا ہے ۔ ”مع“ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ”ساتھ“ کے ہیں، اُردو میں بھی ”ساتھ“ ہی کے معنی میں بولا جاتا ہے جیسے : ” مع اہل و عیال“ یعنی: اہل و عیال کے ساتھ ، اسی ” مع “ سے ”مَعِيَّتُ“ کا لفظ ہے جس کے معنی ”ساتھ اور رفاقت “ ہے۔ قرآن مجید نے اس مع“ کے معنی کو آیت کے آخر میں رفیقاً کہہ کر مزید واضح کر دیا۔
عربی میں مع“ کے معنی ”من“ یعنی ” سے “ کے نہیں ہیں، اگر یہ معنی مان لیا جائے تو ان آیات کے ترجمے میں کیا ہو گا۔۔۔۔! صریح کفر و شرک۔۔۔۔
ارشاد ہوتا ہے:
1۔ا وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ3
” اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں سے ہے“۔ (نعوذ باللہ ) ( اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے“۔)
2۔ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ 4
اور بے شک اللہ مومنین سے ہے “۔ (نعوذ باللہ )( ” اور بے شک اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے “۔)
إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا 5ترجمہ : ” جب اپنے صاحب سے کہتے تھے: غم نہ کھا بیشک اللہ ہم سے ہے“۔ (نعوذ باللہ )(” جب اپنے یار سے فرماتے تھے: غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ 6
بیشک اللہ ان سے ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں ۔ (نعوذ باللہ )(بیشک اللہ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں“۔)
وَ هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ 7
” اور وہ تم سے ہے تم جہاں کہیں ہو“۔ (نعوذ باللہ ) (” اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم کہیں ہو“۔)
در اصل اس آیت میں نیز انعام یافتہ گان کے ساتھ ہونا اُس دعا کا ثمرہ ہے جس کا اللہ رب العزۃ نے ہر مومن کو حکم دیا کہ ہر نماز اور اس کی ہر رکعت میں اُس دعا کی تلاوت کریں، یعنی: سورۂ فاتحہ “ کی تلاوت کریں اور اللہ تعالی سے سیدھی راہ پر چلنے کی دُعائیں مانگیں۔ سیدھی راہ یعنی ”صراط مستقیم “ کی وضاحت بھی ساتھ ہی کر دی گئی ہے۔ یعنی: وہ راہ جس راہ پر چلنے والے اللہ تعالیٰ کے انعام کے مستحق ہیں ، اللہ کے غضب سے محفوظ ہیں اور منزل و راہ منزل سے بھٹکنے والے نہیں ہیں۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جامع اور کامل دُعا ہے۔ اس دُعا کی اہمیت اسی سے ظاہر ہے کہ عام مومن ہی نہیں بلکہ خواص مومن جن میں نبی، صدیق، شہید اور صالح شامل ہیں اس دُعا کے پابند ہیں۔ مومن مرد، مومن عورتیں اور خود حضور اکرم صلی علیم اپنی ہر نماز میں یہ دعا دھراتے رہے۔
اس دُعا کا مقصد اس میں مذکورہ دو برائیوں سے بچاؤ اور حفاظت ہے یعنی اللہ کے غضب سے محفوظ رہنا اور گمراہی سے دور رہنا۔ ان دونوں برائیوں سے محفوظ رہنے کا لازمی نتیجہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے۔
اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ اس ” دعائے نعمت“ سے مراد نبوت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت کے مقامات کا حصول ہے، تو پھر محمد رسول اللہ ﷺ نہ صرف نبی تھے بلکہ تمام انبیاء کے سردار اور اللہ رب العزة کے بعد تمام موجودات سے افضل تھے۔ اسی طرح عور تیں نبوت پر فائز نہیں ہوتیں، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مومن عورتوں کو بھی اس دُعا کا پابند بنانا بالکل لغو و غلط بات ہو گی۔
سورۂ نساء کی آیت میں انعام یافتہ لوگوں کی فہرست یوں ذکر کی گئی ہے :
وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا 8
”اور جو کوئی اللہ اور اس کےرسول کی اطاعت کرے تو وہ ساتھ ہو گا ان لوگوں کے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ لوگ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔
اس میں انبیاء کرام علیہم السلام سر فہرست ہیں اللہ اور رسول علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمانبردار قیامت میں ان لوگوں کے ساتھ ہو گا اپنے عالیشان جنتی محل میں نہ وہ قید و نظر بندی میں رہے گا اور نہ اس کے رفیق اور ساتھی بُرے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی مطیع و فرمانبردار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا وہ لازوال انعام کا حقدار ہو گیا اور ان ہی نعمتوں میں سے ” نبیین ، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت و صحبت بھی ہے۔ دنیاوی زندگی میں بیشمار مومن کاملین نے ہر دور میں اپنی طویل عمریں فرمانبرداری واطاعت میں گزار دیں، پھر بھی تمام ” نبیین تو کجا ایک نبی کی بھی رفاقت بلکہ دیدار تک میسر نہ آیا، نہ تمام صدیقین کی صحبت میسر آئی، نہ تمام شہداء کی رفاقت حاصل ہوئی، نہ حضرت آدم علیہ السلام سے اس وقت تک تمام صالحین کی ہم نشینی ملی۔
البته قیامت میں فرمانبردار مومن تمام انبیاء تمام صدیقین تمام شہداء اور تمام صالحین کی محفل میں بے روک ٹوک شریک ہوں گے اور رفیق بنیں گے۔ تمام انبیاء پر ہم ایمان لائے ہیں۔ تمام نبیوں کی رفاقت ہمارا ایمانی حق ہے۔ تمام عباد صالحین کے حق میں ہم ہمیشہ دعا و سلام بھیجتے ہیں ان کی رفاقت ہمارا حق ہے۔
نیز سورہ نساء کی اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ”صراط مستقیم پر چلنے والا انعام پانے والوں کی راہ پر چلتا ہے لہذا وہ صالح ، شہید ، صدیق ہو سکتا ہے تو اپنے کسب و محنت سے نبی بھی ہو سکتا ہے، سراسر غلط ہے ، کیونکہ اس آیت میں اللہ اور رسول کی فرمانبرداری سے قیامت میں انعام پانے والے کے لیے ان چاروں انعام یافتگان کی رفاقت و معیت کا ذکر ہے اس کا تذکرہ نہیں ہے کہ اللہ اور رسول کی فرمانبرداری سے فرمانبردار کو کیا مرتبے حاصل ہو سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر وضاحت کر دی گئی ہے کہ بندہ ایمان و عمل صالح کے نتیجے میں صالحین میں داخل ہو سکتا ہے۔ سورۂ عنکبوت میں ہے :
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصُّلِحِينَ 9
”جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں البتہ ہم ان کو صالحین کے گروہ میں داخل کریں گے“۔
اسی طرح سورۃ الحدید میں ہے :
وَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَبِكَ هُمُ الصِّدِّيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ 10
”اور جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر یہی لوگ صدیقین ہیں اور شہداء ہیں اپنے رب کے نزدیک ان کے لیے ان کا اجر ہے اور ان کا نور ہے “۔
مؤمن کے حق میں صدیقین، شہداء اور صالحین کے مقامات اور مراتب ملنے کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے، مگر ایمان و عمل صالح کے نتیجے میں ”نبوت“ ملنے کا ذکر قرآن مجید میں کہیں بھی نہیں ہے اور قرآن کے اعلانات کی بنا پر ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔
سورہ نساء کی مذکورہ آیت میں نبیوں کے علاوہ شہیدوں کی رفاقت کا بھی ذکر ہے، غور کرنا چاہیے کہ دُنیاوی زندگی میں شہیدوں کی رفاقت کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا کیونکہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو شہید کہتے ہیں، شہید قتل ہو کر دنیا والوں سے جدا ہو جاتے ہیں اور عالم ناسوت سے نکل کر عالم برزخ میں مقیم ہوتے ہیں، لہذا زندہ مومن اور شہید کی رفاقت دنیاوی زندگی میں نہیں ہوتی ہے۔ آخرت میں مومنین کو شہیدوں کی رفاقت اور یکجائی کی سعادت حاصل ہو گی۔
جن زندہ لوگوں کو حضور علیہ السلام نے شہید کہا وہ ان کی شہادت کی پیشین گوئی اور بشارت تھی یہ مبارک و سعید حضرات اس بشارت و پیشین گوئی کے وقت شہید نہیں تھے کہ اس وقت زندوں کے ساتھ ان کے رہن سہن کو شہداء کی رفاقت کہا جائے۔ لہذا یہ آیت آخرت سے متعلق ہے دُنیا سے اس کا تعلق نہیں ہے کہ نادانی سے کوئی شخص انعام پانے والوں میں اپنے آپ کو شمار کر کے ”نبی“ بن جائے انعام آخرت میں ملے گا اور نبیوں، صدیقوں ، شہیدوں اور صلحاء کی رفاقت بھی وہاں میسر آئے گی ۔ 11