logoختم نبوت

نظریہ ختم نبوت اور تحذیر الناس ۔۔۔ از ۔۔۔ علامہ سید محمد مدنی اشرفی

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمُ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ

یقینی باتوں کو مشکوک بنانے کا شمار اب فنون لطیفہ میں ہو چکا ہے اور اسے ریسرچ کا خوبصورت نام دیا جاتا ہے، اسی پر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔ آج ارشاد قرآنی میں مذکورہ لفظ خاتم النبین کو بے جا بحث کی سولی پر لٹکا یا جارہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حضور خاتم النبیین تو ہیں، مگر خاتم کا وہ معنی نہیں ہے جو آج تک سمجھا گیا ہے۔ بلکہ اس کا صحیح معنی وہ ہے جس کی بنیاد پر اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی آجائے ، جب بھی رسول کریم علیہ التحیۃ والتسلیمہی خاتم رہتے ہیں ۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ آنحضرت ﷺ کے اللہ کے رسول ہونے کا معنیٰ وہ نہیں ہے جو آج تک لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ اس کا صحیح معنی یہ ا ہے کہ آپ کو رسالت ملی ہی نہیں ۔ صرف لفظ خاتم ہی پر یہ طبع آزمائیاں نہیں ہو رہی ہیں بلکہ مفہوم نبوت کی بھی عجیب و غریب تشریح کی جارہی ہے۔ اور نبوت با الذات، نبوت بالعرض، حقیقی نبوت مجازی نبوت، اصلی نبوت اور ظلی نبوت و بزوری نبوت کی نئی نئی اصطلاحیں اختراع کی جارہی ہیں اور اپنی اختراعات کو منوانے کیلئے مافوق البشری لب ولہجہ اختیار کیا جا رہا ہے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان جدید محققین کے فاسد خیالات و آراء کو سامنے لانے سے پہلے ارشاد خداوندی میں مذکورہ لفظ خاتم النبیین کے معنی مراد کو تفسیر واحادیث کی روشنی میں ظاہر کر دیا جائے۔

تفسیر قرطبی :

وخاتم قرأ عاصم وحده بفتح التاء بمعنى انهم به ختموافهم كا لخاتم والطابع وقرأ الجمهور بكسر التاء بمعنى انه ختمهم اى جاء اتم والطابع وقرأ الجمهور بكي التاء آخر هم ---- قال ابن عطيه هذه الالفاظ عند جماعة علماء الامة خلف و سلفا متلقاة على العموم التام مقتضيه نصالا نبي 1
اور لفظ خاتم کو صرف حضرت عاصم نے تاؤ کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعنی انبیاء کو آپ سے ختم کر دیا گیا۔ پس آپ انبیاء کیلئے گویا مہر کی طرح ہیں۔ جمہور نے تاء کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوا کہ آپ نے انبیاء کو ختم کر دیا۔ یعنی آپ ان کے آخر میں تشریف لائے ۔ ابن عطیہ فرماتے ہیں کہ امت کے متقدمین و متاخرین، تمام علماء کے نزدیک ( خاتم النبین کے ) یہ الفاظ اس کامل عموم کے حامل ہیں جو اس نص کے مقتضی ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔

تفسیر طبری:

وخاتم النبيين الذي ختم النبوة فطبع عليها فلا تفتحلا حد بعده إلى قيام الساعة ---- ولكن رسول الله وخاتم النبيين ای آخر هم ---- واختلف القراء في قراءة قوله وخاتم النبيين فقره ذلك قراء الامصار سوى الحسن والعاصم بكسر التاء من خاتم النبيين بمعنى انه ختم النبيين ذكر ان ذلك في قرأة عبدالله ولكن نبيا ختم النبيين فذلك دليل على صحة قرأة من قرأة بكسر التاء بمعنى انه آخر النبيين
اور خاتم النبیین، جس نے نبوت تمام فرمادی اور اس پر مہر لگا دی۔ اب قیامت تک آپ کے بعد دروازہ نبوت نہیں کھولا جائے گا۔ (ارشاد الہی) و لكن رسول الله وخاتم النبیین ۔ میں خاتم النبیین کا معنی ہے انبیاء کے آخر۔۔۔۔ خاتم النبین کی قرآت میں قراء کا اختلاف ہے۔ حسن اور عاصم کے سوا جمیع حضرات قراء خاتم کی تاء کو زیر پڑھتے ہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوا کہ آپ نے انبیاء کوختم فرما دیا ۔ حضرت عبداللہ (ابن مسعود ) کی قرأت ولكن نبياختم النبيين ، ان حضرات کی قرآت کی صحت پر دلیل ہے جو خاتم کی تاء کو زیر پڑھتے ہیں۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ آپ آخری نبی ہیں۔

تفسیر جلالین :

( رسول اللہ وخاتم النبيين ) فَلَا يَكُونُ لَهُ ابْنُ رَجُلٍ بَعْدَهُ يَكُونُ نَبِيا وَ فِي قرأة بفتح التأكالة الختم اى به ختموا وَكَانَ اللهُ بَكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا مِنهُ بِأَنَّ لَا نَبِي بَعدَهُ
اللہ کے رسول اور آخری نبی ) پس آپ کو ایسا فرزند نہ ہو گا جو رجل کی عمر تک پہنچ کر نبی ہو جائے اور ایک قرآت میں (خاتم) تاء کے زیر کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں خاتم آلہ ختم کے معنی میں ہوگا ۔ ( اس کا معنی یہ ہو گا کہ ) آپ نبوت کی مہر ہیں۔ یعنی آپ سے انبیاء ختم کر دئے گئے ۔ (اور اللہ ہر چیز کا جانے والا ہے ) اسی میں یہ بھی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔

تفسیر نیشاپوری :

( خاتم المين ) لِأَنَّ النَّبِيِّ إِذَا عَلِمَ أَنَّ بَعْدَهُ نَبِيًّا أَخَرَ فَقُدَيْتُرُكُ بَعْضَ الْبَيَانِ وَالْإِرْشَادِ إِلَيْهِ بِخَلَافٍ مَا لَوْ عَلِمَ أَنَّ خَتَمَ النَّبُوَّةَ عَلَيْهِ (وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا) وَمِنْ جُمَلَةِ مِعْلُومَاتِهِ إِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ 2
اور آخری نبی ) اس لئے کہ جب نبی کو یہ علم ہو کہ اسکے بعد دوسرا نبی مبعوث ہونے والا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ارشاد و بیان کی بعض باتوں کو نظر انداز کر دے بخلاف اس کے کہ اگر اسے یہ علم ہو کہ نبوت اُس پر ختم ہے۔ (اور اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے ) اور اس کی جملہ معلومات میں سے یہ بھی ہے کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔

تفسیر کبیر:

( خاتم النبين ) وَذَالِكَ لأَنَّ النَّبِيُّ الَّذِي يَكُونُ بَعْدَهُ نَبِيُّ أَن تَرَكَ شَيَاءٌ مِنَ النَّصِيحَةِ وَالْبَيَانِ يَسْتَدْرِكُهُ مَنْ يَّاتِي بَعْدَهُ وَأَمَّا مَنُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ يَكُونُ اَشْفَقْ عَلَى أُمَّتِهِ وَأَهْدَى لَهُمْ وَأَجْدَى اذْهُوَ كَوَالِدِلْوَلَدِهِ الَّذِي لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُ مِنْ أَحَدٍ وَقُولُهُ (وَكَانَ اللَّهَ بَكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا) یعنی علمه بكل شي دخل فيه ان لا نبي بعده3
اور آخری نبی ) اور وہ اسلئے کہ وہ نبی جسکے بعد کوئی نبی ہوا گر نصیحت و بیان میں سے کچھ ترک فرمادے تو آنے والا نبی اس کی تلافی فرمادے گا۔ لیکن وہ جسکے بعد کوئی نبی آنے والا نہ ہو وہ اپنی امت پر نہایت درجہ شفیق اور کامل ہدایت فرمانے والا اور بہت زیادہ کرم فرمانے والا ہو گا اسلئے کہ وہ مثل اس باپ کے ہو گا جسکے بچے کا کوئی مربی نہ ہو اور ارشاد ربانی (اور اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے ) یعنی اسکے ہر شے کے علم میں یہ بھی داخل ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔

تفسیر ابو سعود:

( وخاتم النبیین ) أَي كَانَ آخِرُهُمُ الَّذِي خَتَمُوا بِهِ وَقُرْنِي بِكِسْرِ الْتَاءِ أي كَانَ خَاتَمُهُم وَيَوَيدُهُ قَرَاء ةُ ابْنُ مَسْعُودٍ وَلَكِن نَّبِيَّا خَتَمَ النَّبِيِّينَ . وَلَا يَقَدَحُ فِيهِ نُزُولٌ عِيسَى لِأَنَّ مَعَنِي كُوْنِهِ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ أَنَّهُ لَا يُنَبَّاءُ أَحَدٌ بَعْدَهُ وَعِيسَى مِمَّنْ نَبِيٌّ قَبْلَهُ 3
اور آخری نبی ) یعنی آپ آخر الانبیاء ہیں ، جن پر سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا ہے ۔ اور ایک قرأت میں تاء کے زیر کے ساتھ ہے، یعنی آپ انبیاء کو ختم فرمانے والے ہیں۔ خاتم میں تار پر زیر والی قرآت کی تائید حضرت ابن مسعود کی قرأت و لیکن نبیا ختم النبیین ۔۔۔۔ (لیکن ایسے نبی جنہوں نے انبیاء کو ختم فرمادیا ) سے بھی ہوتی ہے۔۔۔۔ (آنحضرت ﷺ مذکورہ بالا معنی میں خاتم الانبیاء ہیں ) حضرت عیسی کے نزول سے اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس لئے کہ آپ کے خاتم النبیین ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کے بعد کسی کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا جائے گا۔ رہ گئے حضرت عیسیٰ ، تو انہیں تو آپ ، آپ سے پہلے نبوت عطا فرمائی گئی۔

تفسیر مدارک:

( و خاتم النهمين ) بفتح التاء عاصم بمعنى الطابع ای آخر هم یعنی لا ينباء احد بعده وعيسى من نبئى قبله ---- و غیره بعمني الطابع وفاعل الختم وتقويه قرأة ابن مسعود ولكن نبياختم النبيين 4
اور آخری نبی ) قرآة عاصم میں تاء کے زیر کے ساتھ طابع کے معنی میں یعنی انبیاء کے آخر یعنی آپ کے بعد کسی کو نبوت نہ دی جائے گی۔ حضرت عیسیٰ ان میں سے ہیں جنہیں آپ سے قبل نبوت عطا کی گئی ۔۔۔ عاصم کے سوا اس کو طابع کے معنی میں ختم کا فاعل قرار دیتے ہیں ( یعنی خاتم کو تاء کے زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں ) جس کو حضرت ابن مسعود کی قرآت، ولكن نبیاء ختم النبین سے تقویت ملتی ہے۔

تفسیر روح المعانی :

و خاتم النجمين ) - - - - وَكُونه الله خَاتَمَ النَّبِيِّينَ مِمَّا نَطَقَ بِهِ الْكِتَابُ وَصَدَّعَتْ بِهِ السُّنَّةُ وَاجْمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ فَيُكْفَرُ مُدَّعِي خَلَافَهُ وَيُقْتَلُ ان اصر و من السنة ما اخرج احمد و البخاري ومسلم والنسائي وابن مردويه عن ابي هريرة أَنَّ رَسُولُ ال قَالَ مَثَلَى، وَمَثَلُ الْأَنبِيَاءِ مِن قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ نَبِي دَارًا نَبَاءَ فَأَحْسَنَهُ وَأَجِمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعُ لَبَنَةٍ مِنْ زَا وَايَاهَا فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَتَيُعَجَّبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَا وُضِعَتُ هذِهِ اللَّبَنَةُ فَأَنَا اللَبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَصَحَ عَنْ جَابِرٍ مَرْفُوعاً نَحْوَهَذَا وَ كَذَا عَنْ أَبِي ابْنِ كَعْبٍ وَأَبِي سَعِيدِ الْخِدْرِي رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمُ - وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ أَعَمٌ مِنْ أَن يَكُونَ موجوداً أو معدوماً (عَلِيماً) فيعلم سبحانه ----الحكمة في كونه عليه الصلوة والسلام خاتم النبيين5
(اور آخری نبی ) ۔۔۔۔ آپ ﷺ کا آخری ہونا ان امور میں سے ہے جن پر اللہ کی کتاب ناطق ہے اور سنت نے جسے خوب خوب ظاہر کر دیا ہے اور امت کا جس پر اجماع ہو چکا ہے۔ پس اب جو آپ کو آخری نبی نہ مانے وہ کافر ہے۔ اور اگر وہ تو بہ نہیں کرتا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ سنت سے وہ ہے جسے حضرت ابوہریرہ سے احمد و بخاری و مسلم و نسائی اور ابن مردویہ نے تخریج کی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے آنے والے انبیاء کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اس شخص کی مثال جس نے ایک بہت ہی حسین و جمیل مکان تیار کیا ، مگر اس کے گوشوں میں سے کسی ایک گوشہ ۔ ۔ میں صرف ایک اینٹ کی جگہ یوں ہی خالی رکھی ۔ جب لوگوں نے اس مکان کو دیکھنے کیلئے اس کا چکر لگا یا تو وہ اس خالی جگہ کو دیکھ کر حیرت و استعجاب میں کہہ پڑے، تو نے یہ اینٹ کیوں وں نہیں رکھ دی۔ تو میں ( خانہ نبوت کی ) آخری اینٹ ہوں ۔ حضرت جابر دے سے بھی مرفوعاً یہ روایت ہے۔ ایسے ہی حضرت ابی ابن کعب اور حضرت ابو سعید خدری نے بھی اس (حدیث لبنتہ ) کی روایت کی ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔۔۔۔ (اور اللہ ہر شے کا ) خواہ وہ موجود ہو یا معدوم ( جاننے والا ہے ) پس اللہ سبحانہ جانتا ہے ۔۔ کہ حضور کے آخری نبی ہونے میں حکمت کیا ہے۔۔۔۔

صحیح مسلم کے حوالے سے آیت خاتم النبین کے تحت تفسیر قرطبی میں بھی حضرت جابر کی مذکورہ روایت (یعنی حدیث لبنتہ ( منقول ہے ۔ مفہوم وہی ہے مگر لفظوں کا تھوڑا فرق ہے۔ اس میں حضور ﷺ کے آخری کلمات یہ ہیں ۔۔۔۔

فَأَنَا مُوضِعُ اللَّبَنَةِ جِئْتُ تَحْمَتِ الْأَنْبِيَاءُ
تو میں نے اُسی اینٹ کی جگہ تشریف لا کر انبیاء کے آنے کے سلسلے کو ختم کر دیا۔

۔۔۔ تفسیر ابن کثیر میں بخاری و مسلم اور ترمذی کے حوالے سے حضرت جابر ے کی جو روایت منقول ہے اس کے آخری الفاظ یہ ہیں ۔۔۔۔

فَأَنَا مُوضِعُ اللَّبَنَةِ خُتِمَ لِي الْأَنبِيَاءُ عَلَيْهِمُ الصَّلَواةُ وَالسَّلَامُ
تو میں اس اینٹ کی جگہ ہوں ، مجھ پر انبیاء کی آمد کے سلسلہ کو ختم کر دیا گیا ۔

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت خاتم النبین کے تحت حضرت ابی ابن کعب ، حضرت جابر ابن عبد اللہ ، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ کی روایتیں ( حدیث لبنتہ سے مت متعلق ) منقول ہیں ۔ سب کا حاصل و خلاصہ ایک ہی ہے۔ ان روایتوں سے اس بات کی وضاحت به حسن و خوبی ہو جاتی ہے کہ خود صاحب کتاب نے کتاب الہی میں ارشاد فرمودہ لفظ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہی بتایا ہے۔

تفسیر روح البیان میں ہے کہ۔۔۔۔

کمانزل قوله تعالى وخاتم النبيين استغرب الكفار كون باب النبوه مسدود افضرب النبي عليه السلام لهذا مثلا ليتقرر في نفوسهم وقال مثل الانبياء من قبلى كمثل رجل بني بيتا فاحسنه واجمله الاموضع لبنة فجعل الناس يطوفون به وتبعجبون له ويقولون هلا وضعت هذه اللبنة فانا اللبنة وانا خاتم النبيين 6
جب ارشادربانی و خاتم النبیین، نازل ہوا تو کفار کو دروازہ نبوت کا بند ہو جانا عجیب سا لگا، تو حضور ﷺ نے بطور مثال اس کو پیش کیا تاکہ ان کے نفوس میں یہ حقیقت اچھی طرح جم جائے ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے آنے والے انبیاء کی مثال اس مرد کی مثال کی طرح ہے جس نے ایک بہت ہی حسین و جمیل مکان بنایا لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی رکھی اور لوگوں نے اسے دیکھنے کیلئے چکر لگانا شروع کیا اور اس بنانے والے پر تعجب کرنے لگے اور بول پڑے، تو نے اس اینٹ کو کیوں نہیں رکھا ( اس کے بعد حضور نے فرمایا) کہ میں ہی وہ آخری اینٹ ہوں اور میں تمام انبیاء کا خاتم (یعنی آخری نبی ہوں۔

اس روایت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ قرآن کریم جس ماحول اور جس زبان میں نازل فرمایا ہا ہے، اس ماحول کے رہنے والے اور اس زبان پر کامل مہارت رکھنے والے اصحاب زبان کفار نے بھی ارشاد قرآنی میں خاتم النبیین کا معنی یہی سمجھا کہ رسول کریم ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا۔ جبھی تو ان کو دروازہ نبوت کے مسدود ہو جانے پر حیرت لاحق ہوئی۔ اور پھر سر کار رسالت ﷺ نے بھی تمثیلات کے ذریعہ اس مفہوم کو ان کے ذہنوں میں اتار گیا دیا اور اپنا خاتم النبیین، بمعنی آخری نبی ہونا ظاہر فرما دیا۔

تفسیر ابن کثیر :

فهذه الآية نص في انه لا نبي بعده واذا كان لا نبي بعده فلارسول بالطريق الأولى والأخرى لان مقام الرسالة اخص من مَقَامَ النُّبُوَّةِ فَإِنَّ كُلَّ رَسُولٍ نَبِيُّ وَلَا يَنْعَكَسُ وَبِذَالِكَ وَرَدَتِ الأحَادِيثُ الْمَتَوَاتِرَةُ عَنْ رَسُولِ اللهَ مِنْ حَدِيثِ جَمَاعَتِهِ مِنَ الصَّحَابَةِ ---- وَقَد أَخْبَرَ اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ وَرَسُولُهُ اللهِ فِي السُّنَّةِ المُتَوَاتِرَةِ عَنْهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ لِيَعْلَمُوا أَنَّ كُلَّ مَنْ أَدْعَى هَذَا الْمَقَامَ بَعْدَهُ فَهُوَا كَذَّابٌ أَفَاكَ دَجَالٌ ضَالٌ مُفَصِّلٌ ---- 7
پس یہ آیت ( آیت خاتم النبیین ) اس بات پر نص ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور جب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو پھر آپ کے بعد کسی رسول کا نہ ہونا بدرجہ اولی اور بطریق انسب ثابت ہو گیا ۔ اس لئے کہ مقام رسالت، مقام نبوت سے خاص ہے، کیونکہ ہر رسول نبی ہے اور اس کا الٹا نہیں کہ ہر نبی رسول ہو۔ آپ کے آخری نبی ہونے سے متعلق رسول کریم ﷺ سے متواتر حدیثیں مروی ہیں، جن کو صحابہ ﷺ کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے ۔۔۔۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول کریم ﷺ نے اپنی سنت متواترہ میں خبر دی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں تا کہ لوگ جان لیں کہ آپ کے بعد جس نے اس مقام کا دعویٰ کیا وہ پلے درجہ کا جھوٹا، بہتان طراز ، مکار، گمراہ اور گمراہ کنندہ ہے۔

تفسیر روح البیان :

وخاتم النبيين) قراء عاصم بفتح التاء وهو آلة الختم بمعنى ما يختم به كالطابع بمعنى ما يطبع به والمعنى وكان آخرهم الذي ختموا به وبالفارسية مهر پیغمبراں یعنی بد و مهر کرده شد در نبوت و پیغمبران را بد وختم کرده اند وقراء الباقون بكسر التاء اى كان خاتمهم اى فاعل الختم بالفارسية مهر كننده پیغمبر انت وهو بالمعنى الأول ايضا و في المفردات لانه ختم النبوة اى تممت بمجية ---- وبالجملة قوله وخاتم النبيين يفيد زيادة الشفقة من جانبه والتعظيم من جهتهم لان النبي الذي بعده نبى يجوزان يترك شيئا من النصيحة والبيان لانها مستدركة من بعده واما من لا نبي بعده فيكون اشفق على امته واهدى بهم من كل الوجوه ---- (وكان الله بكل شيء عليما فيعلم من يليق بان يختم به النبوة وكيف ينبغى نشانه ولا يعلم احد سواه ذلك قال ابن كثير في تفسير هذه آلاية هي نص على انه لا نبي بعده ---- قال في بحر الكام---- قال اهل السنة والجماعة لانبي بعد نبينا لقوله تعالى ولكن رسول الله وخاتم النبيين وقوله عليه السلام لانبی ---- بعدى ومن قال نبینا نبی ینفر لانه انكو النص وكذلك لوشك فيه لان الحجة تبين الحق من الباطل ومن ادعى النبوة بعد موت محمد لا يكون دعواه الاباطلا انتهى وتنباء رجل فى زمن ابي حنيفة وقال امها وفي حتى اجی بالعلامات فقال ابو حنيفة من طلب منه علامة فقد كفر لقوله عليه السلام لا نبی بعدی کذافی مناقب الامام و في الفتوحات المكيه -- قال في هدية المهديين اما الايمان بسيدنا محمد عليه السلام فانه يجب بانه رسولنافی الحال وخاتم الانبياء والرسل فاذا آمن بانه رسول ولم يومن بانه خاتم الرسول لا نسخ لدينه الى يوم القيامة لا يكون مومنا وقال في الاشياه في كتاب السير اذالم يعرف ان محمداً عليه السلام آخر الانبياء فليس بمسلم لانه من الضروريات8
اور آخری نبی ) قرآت عاصم میں لفظ خاتم کی تاؤ پر زبر ہے۔ خاتم فتح التاء آلہ ختم، یعنی جس سے مہر ثبت کی جاتی جیسے طالع ما طبع بہ کے معنی میں ۔ اس صورت میں ارشاد قرآنی کا معنی یہ ہے کہ حضور ﷺ آخر الانبیاء ہیں جن پر جملہ انبیاء کو ختم فرما دیا گیا۔ زبان فارسی میں قرآت عاصم کی بنیاد پر خاتم النبین کا معنی مہر پیغمبران ہے، یعنی آپ سے دروازہ نبوت پر مہر ثبت کر دی گئی ہے اور آپ کی ذات سے جملہ پیغمبروں کو ختم فرمادیا ہے۔ جمہور نے لفظ خاتم کو تاؤ کے زیر کے ساتھ پڑھا ہے، اس کا معنی بھی ایک وہ ہے جو خاتم بفتح التاء کا ہے۔ یعنی مہر کنندہ پیغمبراں ، پیغمبروں کے سلسلہ آمد پر مہر لگانے والے ۔ امام راغب کی مفردات القرآن میں ہے کہ آپ خاتم النبین ہیں۔ اسلئے کہ آپ نے نبوت کو ختم فرمادیا اور آپ کی تشریف آوری سے نبوت ، درجہ کمال تک پہنچ کر مکمل ہو گئی ۔۔۔۔

الحاصل:

ارشاد قرآنی خاتم النبیین اگر ایک طرف یہ ارشاد کر رہا ہے کہ آپ امت پر نہایت شفیق ہیں تو وہیں یہ بھی ہدایت فرما رہا ہے کہ امت کو آپ کی نہایت تعظیم کرنی چاہئے ، اس لئے کہ جس نبی کے بعد کوئی نبی ہو تو جائز ہے کہ وہ نصیحت و ارشاد سے کچھ امور سے صرف نظر کرلے، اس خیال سے کہ بعد میں آنے والا اس کی تلافی کر دے گا۔ لیکن وہ نبی جس کے بعد کسی نبی کے آنے کا سوال نہ ہو، اس کی شفقت اپنی امت پر نیز اس کی ہدایتیں من كل الوجوہ کامل و مکمل ہونگی ۔۔۔۔ (اور اللہ ہرشی جانتے والا ہے ) پس وہ جانتا ہے کہ کون اس بات کا لائق ہے کہ اس پر نبوت ختم کر دی جائے اور خاتم النبین کی کیا شان ہونی چاہئے ، یہ باتیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس آیت کی تفسیر علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ بحر الکلام میں ارشاد فرما یا اہل سنت و جماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ ہمارے نبی کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس پر ارشاد ربانی وَلَكِن رَّسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ9ناطق ہے اور ارشاد رسول لا نبی بعدی شاہد ہے ۔۔۔۔ الغرض ۔۔۔۔ قرآن وسنت دونوں سے ثابت ہے کہ ہمارے نبی آخری نبی ہیں۔ لہذا جو ہمارے نبی کے بعد کسی کو نبی کہے یا ہمارے نبی کے آخری نبی ہونے میں شک کرے ، وہ کافر ہے۔ اسلئے کہ حجت نے حق و باطل کو واضح کر دیا ہے۔ پس حضور کے بعد جو نبوت کا دعوی کرے تو اس کا دعوئی بلا شبہ باطل ہی ہے ۔۔۔ انھی ۔۔۔ امام اعظم کے عہد میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی نشانیاں پیش کروں ۔ تو حضرت امام نے فرمایا جس نے بھی اس سے اسکی نبوت کی علامت طلب کی وہ کافر ہو گیا۔ اسلئے کہ حضور فرما چکے ہیں کہ لا نبی بعدی، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ یہ واقعہ مناقب الامام اور الفتوحات المکیہ دونوں میں مذکور ہے ۔۔۔۔ ہدیہ المہدین میں فرمایا ہے کہ حضور ﷺ پر جو ایمان واجب ہے اسکی صورت یہ ہے کہ ہم آپ کو فی الحال اپنا رسول بھی مانیں اور آخری نبی اور آخری رسول بھی تسلیم کریں ۔ پس اگر کسی نے آپ کو رسول مان لیا لیکن یہ نہیں تسلیم کیا کہ آپ آخری رسول ہیں ، قیامت تک جس کا دین منسوخ نہ ہوگا، تو وہ مومن نہیں ۔ اور اسباہ میں کتاب السیر میں فرمایا کہ جس نے حضور ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کیا وہ مسلمان نہیں۔ اسلئے کہ آپ کو آخری نبی ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔

تفسیر معالم التنزیل :

(خاتم النبيين) ختم به النبوة وقراء ابن عامر و عاصم خاتم بفتح التاء اى اخرهم 10
خاتم النبیین، یعنی ان پر نبوت ختم کی گئی۔ اور ابن عامر اور امام عاصم نے خاتم کو تاء کے زیر سے پڑھا، یعنی آخر الانبیاء میں آخر نبی۔

۔۔۔۔ اسی تفسیر معالم میں سید المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس کی تفسیر نقل کی ہے۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى كَمَا حَكَمَ أَنَّ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ لَمُ يُعْطِهُ وَلَدًا ذَكَرًا11
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں، تو انہیں کوئی لڑکا عطا نہ فرمایا۔

تفسیر خازن:

(خاتم النبيين) خَتَمَ اللَّهُ بِهِ النُّبُوَّةَ فَلَا نَبِوَّةَ بَعْدَهُ وَلَا مَعَهُ (وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا أَى دَخَلَ فِي عِلْمِهِ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ 12
خاتم النبیین، یعنی اللہ نے ان سے نبوت کو ختم کیا، تو ان کے بعد کوئی نبی نہیں، اور نہ ان کے زمانے میں۔ اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ یعنی یہ اس کے علم میں ہے کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں۔

تفسیر احمدی ( ملاجیون ) :

هَذِهِ الآيَةِ فِي التَّوَا إِنَّ الْقُرْآنَ تَالُ عَلَى خَتَمِ النُّبُوَّةَ عَلَى نَبِيًّا صَرِ يُحَا وَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ أَى لَمْ يَبْعَثَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ قَطُّ وَيَخْتِمُ بِهِ أَبْوَابَ النُّبُوَّةِ وَيَغْلِقُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ملخصاً13
یہ آیت قرآن نبی ﷺ کے ختم نبوت پر صراحتہ دلالت کرتی ہے اور خاتم النہین کے یہ معنی ہیں کہ حضور کے بعد کوئی نبی ہرگز مبعوث نہ ہو گا ۔ انکے ساتھ نبوت کے دروازے قیامت تک ختم اور بند کر دیئے گئے۔

تفسیر غریب القرآن ( علامہ ابو بکر سجستانی ) :

قَوْلُهُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ آخَرَ النَّبِيِّينَ ارشاد ربانی خاتم النبیین کا ترجمہ آخرا لنبیین ہے۔ 14

۔۔۔۔ خود مفتی دیو بند محمد شفیع دیو بندی اپنے رسالہ ہدیۃ المہدین میں لکھتے ہیں۔

ان اللغته العربية حاكمة بان معنى خاتم النبيين في الآية هو آخر النبيين لا غير؎15
بے شک لغت عربی اس پر حاکم ہے کہ آیت میں جو خاتم النبین ہیں، اس کے سوا کچھ اور نہیں۔

۔۔۔۔ یہی مفتی دیو بند ، اس میں تصریح کرتے ہیں اور تفسیر روح المعانی سے ناقل ہیں کہ اسی معنی پر اجماع امت بھی منعقد ہو چکا ہے۔

أَجْمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ فَيُكْفَرُ مُدَعِي خَلَافَهُ وَيُقْتَلُ إِنْ أَصْرٌ 16
امت نے خاتم کے یہی معنی ہونے پر اجماع کیا ہے۔ اسکے خلاف کا دعوی کرنے والا کافر ہے۔ اگر اسی پر اصرار کرے، تو قتل کیا جائے۔

معتبر و مستند تفسیروں کے ضروری اقتباسات، مطلب خیز تر جموں کے ساتھ آپ نے ملاحظہ فرمالئے اور ان تفصیلات سے اچھی طرح سمجھ لیا کہ خاتم النبیین کو قاریوں نے تین طرحسے پڑھا ہے۔

1۔۔۔۔ خاتم النبیین (اسم آلہ ) بر وزن عالم یعنی جس سے کسی کو جانا جائے ۔ اسی طرحخاتم، جس سے کسی چیز کو چھاپا جائے۔

2۔۔۔۔ خاتم النبیین (اسم فاعل ) یعنی تمام نبیوں کا آخر

3۔۔۔ ختم النبین ( فعل ماضی ) یعنی حضرت پر تمام نبیوں کا خاتمہ ہوا۔

مذکورہ بالا راتوں میں، جس قرآت کو بھی اختیار کیا جائے ، پیغمبر اسلام پر سلسلہ نبوت کا خاتمہ لازم آتا ہے۔ حتی کہ خاتم (مہر) قرار دینے کی صورت میں بھی۔ اسلئے کہ مہر کسی چیز کو ختم کر دینے کے بعد ہی کی جاتی ہے تا کہ اب اُس ملفوف اور محدود شے میں کوئی اپنی طرف سے اضافہ نہ کر سکے۔ باقی دو معانی تو خود انتہاء اور خاتمہ پر صراحتہ دلالت کرتے ہیں۔۔۔۔ الغرض ۔۔۔۔ خاتم النبیین کا معنی آخر الانبیاء ہے۔ اس مطلب کے اثبات کیلئے قراتوں کا اختلاف مصر نہیں ۔ اسی طرح لفظ ختم کا طرق استعمال، مذکورہ بالا مطلب مراد لینے میں مخل نہیں ، صاحب قاموس لفظ ختم کے استعمال کے تین طریقے لکھے ہیں۔

1۔۔۔۔ختم ای طبعه ۔۔۔ یعنی کسی چیز کو چھ اسی چیز کو چھاپ دیا۔

2۔۔۔۔ ختم ای بلغ آخرہ۔۔۔۔ یعنی کسی شے کے آخری حصے پر پہنچا۔

3۔۔۔۔ ختم علیه۔۔۔۔ یعنی کسی چیز پر مہر کر دیا۔

۔ الغرض ۔۔۔۔ لفظ ختم کے موارد استعمال بھی اس امر کا ثبوت دے رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ پر سلسلہ نبوت ختم ہو گیا۔

تفسیروں نے اس بات کو واضح اور غیر مبہم الفاظ میں ظاہر کر دیا کہ ساری امت مسلمہ اور جمیع علمائے ملت اسلامیہ کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ ارشاد قرآنی میں خاتم النبیین کا معنی آخری نبی، عبارة النص سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں جس عقیدے اور جس نظریے کو دینے کیلئے یہ الفاظ موجود ہیں وہ یہی ہے کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کسی کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا جائے گا۔

۔۔۔۔ نیز ۔۔۔۔ سب کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ رسول کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے میں آپ کیلئے بڑی فضیلت ہے۔ تفسیروں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ علماء نے یہاں تک تصریحفرمادی کہ آنحضرت ﷺ کو آخر الانبیاء ماننا ضروریات دین میں سے ہے۔۔۔۔ شروع سے چلئے ، ہر ایک کی بارگاہ میں ہوتے ہوئے آیئے ، ہر ایک خاتم النبیین کا معنی مراد آخری نبی ہی بتا رہا ہے۔ ی جتا رہا ہے ۔ اس کے سوا ارشاد قرآنی میں مذکورہ لفظ خاتم النبین کا کوئی اور معنی نہ تو رسول کریم ﷺ سے منقول ہے، نہ صحابہ و تابعین سے وائمہ مجتہدین سے اور نہ ہی علمائے متقدمین و متاخرین سے۔ لہذا ارشاد قرآنی میں مذکورہ خاتم النبیین کا معنی مراد آخر الانبیاء کی صحت کو تسلیم کرنا ضروریات دین میں سے ہے۔۔۔۔ نیز ۔۔۔۔ یہ عقیدہ بھی ضروریات دین میں سے ہے کہ آخری نبی ہونے میں آپ ہے کہ آخری بھی ہونے میں آپ کیلئے عظیم فضیلت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار بھی منکر کے کافر ہونے کیلئے کافی ہے۔

صرف انہیں تفسیروں کو اٹھا کر دیکھ لیجئے جن کے حوالے گزر چکے ہیں۔ ان میں بعض تفسیروں میں آیہ خاتم النبیین کی تشریح کرتے ہوئے بعض ان حدیثوں کو بیان کیا ہے جن سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا ۔۔۔۔

الغرض ۔۔۔۔ ان احادیث کو مفسرین کرام نے آیہ خاتم النبین کی تفسیر قرار دیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب قرآن کی تفسیر احادیث سے ہو، پھر اس کی اہمیت کا کیا کہنا۔ خود مولوی قاسم نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں اس بات کا اعتراف کیا ہے۔

۔۔۔۔ چنانچہ وہ رقم طراز ہیں ۔۔۔۔

احادیث نبوی ﷺ قرآن کی اولین تفسیر ہے اور کیوں نہ ہو کلام اللہ کی شان میں خود فرماتے ہیں۔

وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ 17


۔۔ جب کلام اللہ میں سب کچھ ہو، یعنی ہر چیز بالا جمال مذکور ہوئی ، تو اب احادیث میں مجرد تفسیر قرآنی اور کیا ہوگا ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر قرآن داں بھی کوئی نہیں ہوا۔ اس صورت میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہی صحیح ہوگا۔ اگر آپ کی طرف کوئی قول منسوب ہوا اور عقل کے مخالف نہ ہو تو گو باعتبار ندا اتنا قوی نہ ہو، جیسے ہوا کرتی ہیں تب بھی اور مفسروں کے احتمالوں سے تو زیادہ ہی سمجھنا چاہئے ۔ اسلئے کہ اقوال مفسرین کی سند بھی تو اس درجہ کی کہیں کہیں ملتی ہے، پھر ان کی فہم کا چنداں اعتبار نہیں ہو سکتا ہے کہ ان سے خطا ہوئی تسپر پھر با عتبار سند بھی برابر ہوئی اور ایک آپ کا قول ہو دوسرا کسی دوسرے کا تو بیشک آپ ہی کا قول مقدم سمجھا جائے گا اور اگر سند بھی حسب قانون اصول حدیث اچھی ہو تو پھر تو تامل کا کام ہی نہیں۔ 18

لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے کی چند حدیثیں نقل کر دوں تا کہ ظاہر ہو جائے که خود صاحب قرآن نے اپنے مختلف ارشادات میں آیہ خاتم النبیین کا کیا معنی ارشاد فرمایا ہے اور اس کے مفہوم کو کن کن لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔

حدیث 1۔۔۔۔

وَأَنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَثُونَ دَجَّالُوْنَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُونَ أَنَّهُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَنَا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي (مشكوة)
میری امت میں سے تیس جھوٹے مکار ہوں گے جن میں کا ہر ایک اپنے کو اللہ کا نبی گمان کرے گا ۔ حالانکہ میں خاتم النبین ہوں۔ یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

حدیث 2۔۔۔۔

عَنِ النَّبِي ﷺ أَنَّهُ قَالَ لَا نَبُوةَ بَعْدِي إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ قَالَ ابو عمر يعني الرويا وَاللهُ أَعْلَمُ الَّتِي هِيَ جُزءُ مِنْهَا كَمَا قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامِ لَيْسَ يَبْقَى بَعْدِي مِنَ النَّبُوَّةَ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ(قرطبی، زیر آیت خاتم النبيين)
حضور کا ارشاد ہے کہ میرے بعد نبوت کا کوئی حصہ نہ رہے گا لیکن وہ جو اللہ چاہے۔ ابو عمر کہتے ہیں کہ ( ما شاء الله ) رویاء کی طرف اشارہ ہے، واللہ اعلم یہ رویاء جزء نبوت ہیں۔ جیسا کہ خود سرکار ﷺ کا ارشاد ہے کہ میرے بعد نبوت سے کچھ باقی نہیں رہے گا، رویاء صالحہ کے سوا۔

حدیث 3۔۔۔۔

قَالَ رَسُولُ الله ﷺ أَنَّ الرَّسَالَةَ وَالنَّبُوَّةَ قَد أَنقَطَعَتْ فَلَا رَسُولُ بَعْدِي وَلَا نَبِي قَالَ فَشَقَّ ذَالِكَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ وَلَكِنِ الْمُبَشِّرَاتِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ رُؤْيَا الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ وَهِيَ جِزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النَّبُوَّةِ )(وَ هَكَذَارَواه الترمذى تفسیر ابن کثیر : تحت آیت زیر بحث ، بحوالہ امام احمد)
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ رسالت و نبوت کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا نہ نبی ۔ راوی کے بیان کے مطابق لوگوں پر یہ خبر شاق گزری تو سرکار نے فرمایا لیکن مبشرات باقی رہیں گے۔ عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ﷺ یہ مبشرات کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا، مرد مسلمان کا خواب جو اجزاء نبوت کا ایک جزء ہے۔ ترمذی نے بھی ایسا ہی روایت کیا ہے۔

حدیث4 ۔۔۔۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ قِيلَ وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ الرُّويَا الْحَسَنَةُ أَوقَالَ الرُّويَا الصَّالِحَة ( تفسیر ابن کثیر : تحت آیت زیر بحث ، بحوالہ امام احمد )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد مبشرات کے سوا نبوت کا کوئی حصہ باقی نہ رہے گا۔ دریافت کیا گیا ، اے اللہ کے رسول یہ مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا: اچھے خواب یا یہ فرمایا کہ نیک خواب۔

حدیث5 ۔۔۔۔

أُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةِ وَخُتُمَ بِيَ النَّبِيُّونُ ( ابن کثیر : آیت زیر بحث، بحوالہ مسلم،ترمذی،ابن ماجه ))
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے تمام مخلوق کا رسول بنا کر بھیجا گیا اور انبیاء کی آمد کے سلسلے کو مجھ پر ختم کر دیا گیا ۔

حدیث 6۔۔۔۔

إِنِّي عِنْدِ اللَّهِ لِخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَأَنَّ آدَمَ لَمُنْجَدَلٌ فِي طِيِّنَتِهِ (ايضاً : بحوالہ امام احمد )(قرطبی، زیر آیت خاتم النبيين)
سرکار نے فرمایا میں علم الہی میں اُسی وقت آخری نبی تھا جب کہ آدم آب و گل کی منزلیں طے کر رہے تھے۔

حدیث 7۔۔۔۔

أَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَ مِي وَأَنَا الْعَاقَبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيُّ ( ايضا : بحوالہ صحیحین)
حضور نے فرمایا کہ میں حاشر ہوں کہ بروز قیامت لوگوں کا حشر میرے قدموں پر ہوگا اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔

۔۔۔۔ امام نووی نے شرح مسلم میں ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لمحات اور مدارج النبوة میں ، عاقب کا معنی یہی بتایا ہے کہ عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ منتہی الا رب و جواہر البجار میں بھی یہی معنی مذکور ہے۔

حدیث8 ۔۔۔۔

أَنَا مُحَمَّدُ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ ثَلَاثَا وَلَا نَبِيُّ بَعْدِي ( ايضاً : بحوالہ امام احمد )
ایک بار حضور بزم صحابہ میں تشریف لائے اور فرمایا، میں محمد نبی امی ہوں۔ ایسے ہی تین بار فرمایا اور پھر کہا میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

حدیث 9۔۔۔۔

أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَالْمُقَفِي وَالْحَاشِرُونَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ (مسلم شریف ، ج ۲)
حضور ﷺ نے فرمایا میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں آخری نبی ہوں ، میں حاشر ہوں، میں تو بہ کا نبی ہوں اور میں رحمت کا نبی ہوں۔

۔۔۔۔ علامہ نووی نے شرح مسلم میں ، علامہ نبہانی نے جواہر البجار میں ، ملا علی قاری نے مرقات شرح مشکوۃ میں، شیخ عبد الحق دہلوی نے اشعتہ اللمعات، میں اور علامہ قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں المقفی کا یہی معنی بتایا ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ علامہ قسطلانی کے الفاظ یہ ہیں ۔ فکان خاتمهم و آخر هم یعنی حضور انبیاء کو ختم فرمانے والے آخر الانبیاء ہیں۔

حدیث 10۔۔۔۔

كَانَتْ بَنُوَاسْرَائِيلُ تُسْوُسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كَلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِي بَعْدَهُ(بخاری و مسلم کتاب الامارة )
حضور نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے امور کی تدبیر و انتظام ان کے انبیاء فرماتے رہے۔ تو جب ایک نبی تشریف لے جاتے تو دوسرے ان کے بعد آجاتے ، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

حدیث 11۔۔۔۔

أَنَا آخِرُ الأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ(سنن ابن ماجه، باب فتنۃ الدجال )
حضور ﷺ نے فرمایا میں سب نبیوں کا پچھلا نبی اور تم سب امتوں سے پچھلی امت ہو۔

حدیث ٍ12۔۔۔۔

قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِعَلِيِّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَهِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي(بخاری ومسلم واللفظ للمسلم )
حضور ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا تجھے مجھ سے ایسی نسبت ہے جیسے ہارون کو موسیٰ سے ، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

۔۔۔۔ اس حدیث میں حضرت علی رض کو حضرت ہارون العلیا سے تشبیہ دیتے ہوئے ، حضور دا الضي عنه الله کا یہ فرمانا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، یہ اشارہ کر رہا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد میں غیر تشریعی نبی کے بھی ختم ہو جانے کی اطلاع دیدی ہے۔ اسلئے کہ حضرت ہارون العلم غیر تشریعی نبی تھے۔ اب حاصل ارشاد یہ ہوا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں نہ تشریعی ، نہ ایسا جیسے حضرت ہارون العالم تھے یعنی غیر تشریعی ۔

ارشاد قرآنی و خاتم النبیین کا معنی مراد خلف وسلف اور خود سر کار رسالت سے کیا منقول ہے؟ اسکی وضاحت کیلئے میں نے کتب احادیث و تفاسیر کا مختصر اور جامع انتخاب پیش کر دیا ہے۔ طوالت سے بچنے کیلئے احادیث کی اسناد سے کوئی تعرض نہیں کیا ہے، صرف حوالہ جات پر اکتفا کیا ہے۔ جن کتابوں کے حوالے پیش کئے گئے ہیں ، وہ خود اس قدر معتبر و مستند ہیں کہ ان میں کسی روایت کا بطور سند آجانا ہی اس کے قابل استناد ہونے کیلئے کافی ہے۔ اب جب ہم تمام ذکر کردہ تفاسیر و احادیث پر گہری نظر ڈالتے ہیں تو ، مندرجہ ذیل امور واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں۔

1۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کا خاتمہ ہونا بایں معنی کہ آپ کا زمانہ، انبیاء سابق کے زمانے کے بعد ہے۔ اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ یہ عوام کا خیال نہیں ہے بلکہ یہی رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے اور اسی پر صحابہ و تابعین اور تمام علمائے دین کا اجماع ہے۔

2۔۔ تاخر زمانی میں کسی کیلئے کوئی فضیلت ہو یا نہ ہو، مگر ایک نبی کیلئے اس میں اتنی بڑی فضیلت ہے جس کا کما حقہ ادراک ایک غیر نبی سے ناممکن ہے۔ اس لئے کہ جو آخری نبی ہو گا لازمی طور پر اس کی شریعت آخری شریعت ہوگی اور اس قدر کامل و مکمل ہوگی کہ مزید اس کی تکمیل کا سوال نہ ہوگا ۔ اس کی نبوت کا دائرہ ساری کائنات کو محیط ہوگا ۔ وہ کسی ایک قوم یا محدود زمانے کا نبی نہ ہوگا، بلکہ قیامت تک اس کی عظمت و شوکت کا پرچم لہراتا رہے گا۔ اور وہ صرف نبی ہی نہ ہوگا، بلکہ رسول بھی ہوگا ، جس کی رسالت رسالت عامہ ہوگی ۔ وہ اگر ایک طرف سارے عالم کیلئے نذیر ہوگا تو دوسری طرف سارے عالم کیلئے ہادی ، کامل اور رحمت مجسم بھی ہوگا۔

3۔۔۔۔ جب ایک نبی کیلئے تاخر زمانی میں اس قدر فضیلتیں ہیں تو پھر ولكن رسول الله وخاتم النبيين کو اوصاف مدح میں رکھتے ہوئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار دیتے ہوئے بھی خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہی ہے۔ اس کا معنی آخری نبی لینے سے نہ یہ کلمات اوصاف مدح سے نکلتے ہیں اور نہ ہی یہ مقام مقام مدح ہے۔

4۔۔۔۔ خاتم النبیین کا معنی آخر الانبیاء لینے سے نہ تو خدائے تعالیٰ پر زیادہ گوئی کا وہم ہوتا ہے اور نہ رسول کریم ﷺ کی قدرو منزلت میں کمی کا احتمال اور نہ ہی کلام الہی پر بے ارتباطی کا الزام ۔ اس لئے کہ اگر خدانخواستہ خاتم النبیین کا معنی آخر الانبیاء لینے سے یہ خرابیاں لازم آتیں، تو ناممکن تھا کہ تمام علمائے متقدمین و متاخرین بیک زبان اور بیک قلم اس بات پر اتفاق کر لیتے کہ خاتم النبین کا معنی آخر الانبیاء ہے۔ اور یہاں تو معاملہ اور بھی اہم ہے، اسلئے کہ خود سر کار رسالت نے بھی خاتم النبیین کا معنی لا نبی بعدی فرما دیا ہے۔

5 ۔۔۔ خاتم النبیین کا ایسا معنی بتانا کہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو، تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے ، قرآن کریم کے ثابت شدہ اجماعی مفہوم کو بدلنے کی شرمناک کوشش ہے، جس کا کفر ہونا اظہر من الشمس ہے۔

مذکورہ بالا نتائج کو ذہن نشین کرتے ہوئے آئے حضرت عبداللہ ابن عباس دن کی ایک اثر پر ایک تحقیقی نظر ڈالئے۔

۔۔۔۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ:

إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ سَبْعَ أَرْضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ آدَمُ كَا دَمِكُمْ وَنُوحٌ كَنُوحِكُمْ وَإِبْرَاهِيمَ كَابَرَاهِيمِكُمْ وَعِيسَى كَعِيْسَاكُمْ وَنَبِي كَنَبِيْكُمْ (در منثور وغیره )
بیشک اللہ نے سات زمینیں پیدا فرمائیں، ہر زمین میں آدم تمہارے آدم کی طرح، اور نوح تمہارے نوح کی طرح، اور ابراہیم تمہارے ابراہیم کی طرح، اور عیسی تمہارے عیسی کی طرح اور نبی تمہارے نبی کی طرح ہیں۔

۔۔۔۔ اس اثر سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جس زمین پر ہم بستے ہیں ، اس زمین کے علاوہ بھی زمین کے چھ طبقے ہیں اور ہر طبقہ میں رشد و ہدایت کا کام انجام دینے کیلئے انبیاء کرام کی بعثت ہوتی رہی۔ اور ظاہر ہے کہ ہر ہر طبقہ میں اس طبقہ کے سلسلہ نبوت کا کوئی مبدء ہوگا اور کوئی منتہی ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ہر طبقہ میں مبدء و منتہی صرف ایک ہی ایک ہونگے ۔ لہذا اثر مذکور میں ہر طبقے کے اول کو ہمارے طبقہ کے اوّل سے نفس اولیت میں اور ہر طبقے کے آخر کو ہمارے طبقے کے آخر سے آخر ہونے میں تشبیہ دے دی گئی ۔ مگر اس اثر کے کسی گوشے سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ہمارے طبقہ کے حضرت آدم و نوح و ابراہیم وغیرہ ان طبقات باقیہ کے حضرت آدم و نوح و ابراہیم وغیرہ کے ہم عصر تھے یا ان سے مقدم و موخر ۔۔۔۔ یا یہ کہ مثلاً ہمارے طبقہ کے آدم سے دوسرے بعض طبقہ کے آدم مقدم ، بعض طبقے کے آدم موخر اور بعض طبقہ کے آدم ہم عصر رہے۔ ہاں اثر مذکور کے ظاہری الفاظ یہ ضرور اشارہ کر رہے ہیں کہ جس طرح ہمارے طبقے میں تشریعی اور غیر تشریعی دونوں طرح کے نبی ہوتے رہے، یہی حال ان طبقوں کا بھی ہے ۔۔۔۔ اب رہ گئے ہمارے طبقہ کے علاوہ دوسرے طبقوں کے حضرات خاتم وہ آپس میں ایک دوسرے سے مقدم و موخر تھے یا ہم عصر ، اثر مذکور یہ بھی بتانے سے خاموش ہے ۔۔۔۔ ہمارے طبقہ کے خاتم کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اگر دوسرے طبقات کے خاتم پر غور کیا جائے تو عقلاً چار صورتیں نکلتی ہیں۔

اول ۔۔۔ یہ کہ نچلے طبقات کے خاتم کے کل ۔۔ یا۔۔ ان کا بعض آنحضرت ﷺ کے عصر کے بعد ہوئے ہوں۔

دوم ۔۔۔ یہ کہ مقدم ہوئے ہوں ، یعنی آنحضرت ﷺ کا عصر انہیں نہ ملا ہو۔

سوم ۔۔۔ یہ کہ ہم عصر بھی ہوں اور صاحب شرع جدید بھی۔

چہارم ۔۔۔ یہ کہ ہم عصر ہوں، مگر صاحب شرع جدید نہ ہوں ۔

مذکورہ بالا احتمالات میں پہلا احتمال بداهة باطل ہے۔ اسلئے کہ دلائل وضاحت کر چکے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کسی اور کو نبوت نہیں دی گئی ۔۔۔۔ دوسرے احتمال کی صورت میں آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء جميع طبقات ہو نگے ۔ لہذا ضرورت نہ ہوگی کہ کوئی لفظ 'خاتم النبین کے ظاہری اور متواتر و متوارث معنی کے بدلنے کی جسارت کرے ۔ اسی طرح تیسرا احتمال بھی باطل ہے۔ اسلئے کہ بعثت نبویہ سے متعلق جو نصوص ہیں ان کا عموم ظاہر کر رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سارے عالم کیلئے ہے اور آپ کی رسالت رسالت عامہ ہے۔ یوں ہی چوتھی صورت باطل ہے۔

اولا

۔۔۔۔ اولا ۔۔۔۔ اسلئے کہ اگر کسی طبقے کا خاتم فریضہ نبوت ادا کرنے میں عہد نبوی میں ہمارے نبی کا شریک ہوگا تو ہمارے نبی صرف اپنے ہی طبقے کے انبیاء کے خاتم ہو نگے ، جملہ انبیاء کے خاتم نہ ہونگے ۔ اس صورت میں آپ کا ختم اضافی ہو گا حقیقی نہ ہوگا ۔ حالانکہ ارشاد ربانی و خاتم النبیین اور ارشادات رسول ---- انا خاتم النبيين، ختم بی انبیاء، ختم بي النبيون، فختمت الانبياء اورانا آخر الانبياء ---- کا اطلاق و عموم واضح کر رہا ہے کہ آپ ہر ہر نبی کے خاتم ہیں ، خواہ وہ کسی طبقہ کا نبی ہو۔۔۔۔ یا نیز آپ کا ختم بہ نسبت جملہ انبیاء جميع طبقات کے حقیقی ہے۔ خود صاحب تحذیر الناس، لکھتے ہیں کہ اطلاق خاتم النبیین اس بات کو مقتضی ہے کہ اس لفظ میں کچھ تاویل نہ کیجئے اور علی العموم تمام انبیاء کا خاتم کہئے۔ 19

نیز لکھتے ہیں لفظ خاتم النبین، جس کی اطلاق اور نبین کی عموم کے باعث کسی نے آج تک ائمہ دین میں سے کسی قسم کی تاویل یا تخصیص کا کرنا جائز نہ سمجھا۔ 20

ثانیا

۔۔۔۔ ثانیا۔۔۔۔ اس لئے کہ بلا تخصیص ، جملہ انبیاء کا خاتم' ہونا نصوص کی روشنی میں آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اب اگر دوسرا بھی اس وصف میں آپ کا شریک ہے، تو پھر اس میں آپ کی خصوصیت نہیں رہ جاتی ۔

ثالثا

۔۔۔۔ ثالثا ۔۔۔۔ اسلئے کہ اگر کسی طبقہ میں ایسا خاتم ، جو فریضہ نبوت ادا کرنے میں ہمارے رسول کا شریک اور آپ کا ہم عصر ہوتا تو نصوص میں خاتم النبیین کی جگہ من خواتم النبین کالفظ ہوتا۔

اس صورت میں عقلی طور پر لفظ 'خواتم ، تمام خاتمین کو ایک منزل میں رکھ کر انکے سوا کو النبیین کے دائرے میں شامل کر لیتا ۔۔۔۔ الحاصل --- نصوص میں خواتم کے بجائے خاتم کا لفظ ظاہر کر رہا ہے کہ حقیقی آخری نبی کوئی ایک ہی ہے۔

رابعا

۔۔۔۔ رابعا ۔۔۔۔ اسلئے کہ حضور ﷺ جن کی نبوت و رسالت بالاتفاق تمام مخلوق کو عام ہے، آپ نے نبوت کو ایک مکان سے تشبیہ دی اور صرف اپنے کو اس مکان کی آخری اینٹ قرار دیا۔ اب اگر بالفرض کوئی اور رسول کریم ﷺ جیسی خاتمیت رکھتا تو سر کار صرف اپنے کو آخری اینٹ قرار نہ دیتے ۔ اور اس مکان میں اپنے ظہور سے پہلے صرف ایک ہی اینٹ کا خلا ظاہر نہ فرماتے ۔ اس مقام پر یہ کہنا کہ حضور نے صرف اپنے طبقے کو سامنے رکھ کر یہ بات فرمائی ہے، صرف یہی نہیں کہ ایک بے دلیل دعوی لی ہے، بلکہ ارشاد رسول ﷺ کے اطلاق و عموم سے متصادم بھی ہے۔

خامسا

۔۔۔۔ خامسا ۔۔۔۔ اسلئے کہ حضور ﷺ نے اپنے کو عاقب اور مقفی، فرمایا ہے اور اس کو اپنی خصوصیات میں رکھا ہے۔ اب اگر آپ جیسی خاتمیت والا کوئی اور بھی ہو تو عاقب اور متقی ہونے میں آپ کی خصوصیت نہیں رہ جاتی۔

اس مقام پر یہ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ نصوص میں حضور کو جو آخری نبی، فرمایا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو نبوت سب کے آخر میں دی گئی ہے، بلکہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ظہور میں سب انبیاء کے آخر ہیں۔ اور آپ کا زمانہ ظہور آپ کے سوا دوسرے تمام انبیاء کے زمانہ ظہور کے بعد ہے۔ نیز آپ کے بعد اب کسی تشریعی نبی کو نہ بھیجا جائے گا۔ الغرض۔۔۔ از روئے زمانہ نبی کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا مطلب وہی ہے جو او پر مذکور ہوا ۔۔۔۔ ورق الٹ کر جملہ تفاسیر و احادیث کو دیکھ ڈالئے ہر ایک ، رسول کریم ﷺ کی خاتمیت کو خاتمیت زمانی قرار دے رہا ہے۔ اور تاخیر زمانی کا خود صاحب تحذیر الناس' کے نزدیک بھی یہی مطلب ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔21

۔۔۔۔ رہ گیا حضور ﷺ کی نبوت کا مسئلہ تو آپ ﷺ نبوت سے اُسی وقت سرفراز کئے جاچکے تھے، جبکہ کسی نبی کا وجود بھی نہ تھا۔ چنانچہ حضور سے دریافت کیا گیا: متى وجبت لك النبوة ---- حضور کیلئے نبوت کسی وقت ثابت ہوئی ۔۔۔۔ آپ نے فرمایا: و آدم بین الروح والجسد۔۔۔۔ جب آدم روح و جسم کے درمیان تھے۔

اس حدیث کو حاکم ، بیہقی ، ابو نعیم اور ترمذی نے اپنی جامع میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ہے۔ الفاظ روایت ترمذی کے ہیں ۔ جنہوں نے افادہ تحسین کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔ نیز ۔۔۔۔ اسی حدیث کو امام احمد نے مسند میں، امام بخاری نے تاریخ میں، ابن سعد و حاکم اور بیہقی وابو نعیم نے حضرت میسرہ سے اور طبرانی و بزاز وابو نعیم نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے اور ابو نعیم نے امیر المومنین فاروق اعظم سے ۔۔۔۔ نیز ۔۔۔۔ ابن سعد نے حضرت ابن ابی الجد عا و حضرت مطرف بن عبد اللہ بن الشخیر اور حضرت عامر سے بآسانید متبانیہ الفاظ متقار به روایت کیا ہے ۔ امام عسقلانی نے کتاب الاصابہ میں حدیث میسرہ کی نسبت فرمایا ہے ۔۔۔۔ سنده قوی ۔۔ اسکی سند قوی ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے بھی مدارج النبوة (ص۲) میں محل استناد میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ كُنتُ نَبِيا وَ انْ آدَمَ لُمُنْجَدَلٌ فِي طِيِّنَتِهِ --- میں اس وقت نبی تھا جب آدم آب وگل کی منزلیں طے کر رہے تھے ۔ اس حدیث کی نقل سے پہلے متصلم حضرت شیخ فرماتے ہیں اولست در نبوت یعنی حضور نبوت میں اول ہیں ۔ خود مولوی قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس 22 پر مندرجہ ذیل حدیث نقل کی ہے اور اسے مقام استشہاد اور محل استناد میں رکھا ہے۔

كُنتُ نَبِيَّ وَّانُ آدَمَ بَيْنَ الْمَاءِ وَالدِّينِ

میں نبی تھا دراں حالانکہ آدم آب و گل میں تھے ۔

۔۔۔۔ ان نصوص کے پیش نظر یہ اور بھی واضح ہو جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو نبوت سب کے آخر میں دی گئی ۔ اسلئے کہ نبوت میں تو آپ اول ہیں، ہاں آپ کا ظہور سب کے آخر میں ہوا۔ اور اب آپ کے عہد میں، نیز آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ ان تفصیلات و تشریحات نے واضح کر دیا کہ خاتم النبیین کے جو اجماعی اور متواتر معنی ہیں، اس کی روشنی میں یہ ناممکن ہے کہ کسی طبقہ کا کوئی نبی آپ کا ہم عصر ہو یا آپ کے عصر کے بعد آئے ۔ اب کسی نبی کو ہمارے نبی کا ہم عصر قرار دینا یا ہمارے نبی کے عصر کے بعد کسی نبی کی تجویز کرنی، یقیناً خاتم النبین کے اجتماعی معنی کا کھلا ہوا انکار ہے ۔ اب اثر ابن عباس کے ہے۔ کو قابل قبول بنانے کی لے دے کے یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ اس اثر میں طبقات باقیہ کے جن انبیاء کا ذکر ہے، ان کے وجود کو حضور ﷺ کے وجود ظاہری کے زمانے سے پہلے ہی تسلیم کر لیا جا ۔ یا جائے تو مذکورہ بالا خرابیاں لازم نہیں آتیں ۔۔۔۔ مگر ایک عظیم خرابی یہ مان لینے کے بعد بھی رہ جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اثر مذکور میں طبقات باقیہ کے آخری نبی کو ہمارے نبی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ حالانکہ نبوت ہو یا خاتمیت ، نیز اوصاف نبوت ہوں یا کمالات رسالت، کسی بات میں بھی طبقات باقیہ کا آخری نبی ہمارے نبی کی طرح نہیں ۔ اس لئے کہ ہمارے نبی کی نبوت ، نبوت عامہ اور رسالت رسالت شاملہ ہے، جس سے دوسرے انبیاء کو مشرف نہیں کیا گیا ۔ یوں ہی ہمارے نبی کی خاتمیت ، حقیقی خاتمیت ہے۔ رہ گئی دوسرے طبقات کے آخری نبی کی خاتمیت ، وہ تو محض اعتباری اور اضافی ہے۔ پھر دونوں میں کیا مماثلت ؟ اسلئے کہ دونوں میں جوہری و حقیقی فرق ہے۔

یہ ذہن نشین رہے کہ ہمارے نبی اور دوسرے طبقات کے آخری نبی کے مابین اثر مذکور کو قابل قبول بنانے کیلئے جو بھی معقول وجہ تشبیہ نکالی جائے گی اس میں ان انبیاء کی تخصیص نہ رہ جائے گی، بلکہ ہمارے طبقہ کے انبیاء اور ہمارے نبی کے مابین بھی اسی طرح کی وجہ شبہ نکال کر انکو ہمارے نبی کی طرح کہا جا سکے گا۔ لہذا اثر ابن عباس کا مضمون مہمل و بیکار ہو کر رہ جائے گا۔ ۔۔۔۔ اور اس سلسلے کی آخری بات تو یہ ہے کہ خود صاحب تحذیر الناس کو اس بات کا اعتراف ہے کہ اگر خاتم النبیین میں خاتمیت زمانی مراد لے لی گئی تو اثر مذکور اس کے معارض ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ معنی مراد لیا جائے جو خود انھوں نے گڑھا ہے تو اثر مذکور غلط ہونے سے بچ جائے گی۔ اسی مضمون کی طرف تحذیر الناس ص (۲۴) پر اشارہ کر کے (ص ۲۵) پر صاف لفظوں میں لکھ دیا کہ:

علاوہ بریں بر تقدیر خاتمیت زمانی انکار اثر مذکور میں قدر نبی ﷺ میں کچھ افزائش نہیں ۔23

۔۔۔۔ اور جب یہ بخوبی ثابت کیا جا چکا ہے کہ خاتم النبین میں ختم سے ختم زمانی مراد لینا تمام امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے۔ تو اب اثر مذکور میں جو علت قادحہ ہے اسکو سمجھنے میں کسی معمولی فہم فہم و فراست والے انسان کو بھی کوئی دشواری نہ ہوگی ۔ اب اگر کوئی اثر مذکور کی اسناد کو صحیح ۔۔۔۔ یا ۔۔۔ حسن قرار دے رہا ہو تو ، صرف اتنی وجہ سے اس اثر کا مضمون اپنی علت قادحہ کے سبب قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اور نکتہ آفرینیوں کے سہارے اس اثر کے مضمون پر کسی عقیدے کی عمارت نہیں تعمیر کی جاسکتی۔

ان تمام مباحث کو سامنے رکھتے ہوئے ختم نبوت کے باب میں اسلام کا جو نظریہ سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کے عہد میں یا آپ کے عہد کے بعد، تا قیامت اب کوئی نیا نبی نہیں پیدا کیا جائے گا۔ نہ حقیقی ، نہ مجازی ، نہ ظلی ، نہ بزوری ، نہ تشریعی ، نہ غیر تشریعی ، نہ اسرائیلی ، نہ محمدی۔ شریعت محمد یہ ہی آخری شریعت ہے جو تا قیامت رہنے والی ہے۔ قرآن وحدیث میں آپ کو جو خاتم النبین کہا گیا ہے، اسکا یہی مطلب ہے کہ آپ زمانہ کے لحاظ سے آخری نبی ہیں۔ اب آپ کے عہد میں یا آپ کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی نہیں پیدا کیا جائے گا۔ یہ وہ اسلامی عقیدہ ہے ؟ کتاب وسنت اور اجماع امت سبھی سے ثابت ہے۔ جو ان حقائق کو ذہن نشین فرما کر اب آئیے اور عہد جدید کے تقاسم العلوم والخیرات کی بھی مزاج پرسی کرتے چلئے ۔ آپ بانی و دارالعلوم دیو بند ہیں ۔ آپ نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں لفظ خاتم النبیین میں تاویل فاسد کا سہارا لیکر غلام احمد قادیانی کیلئے دعوی نبوت کی راہ ہموار کرنے میں جو شاندار رول ادا کیا ہے ، اس کیلئے امت قادیان آپ کی بجاطور پر شکر گزار ہے۔ بعض قادیانیوں کی تحریریں نظر سے گزری ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ختم نبوت کے باب میں قادیانیوں کا موقف بالکل وہی ہے جو صاحب تحذیر الناس ، مولوی قاسم نانوتوی کا ہے ۔۔۔۔ اسکا اعتراف خود مولوی قاسم نانوتوی کے بعض بہی خواہوں نے بھی کیا ہے ۔ یقین نہ ہو تو اٹھا لیجئے شبستان اردو ڈائجسٹ ، نئی دہلی ، نومبر ۱۹۷۴ء کو مولوی فارقلیط صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے یہ فقرے ملیں گے۔

بیج بویا علماء نے اور جب وہ تناور درخت ہو گیا تو اس کا پھل کھا یا مرزا غلام احمد قادیانی نے

اپنے قلم سے اپنے قاسم العلوم کا یہ عقیدہ بتایا کہ:

اگر آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی آجائے تو پھر بھی ختم نبوت نہیں ٹوٹے گی

علمائے دیو بند کو علمائے اہل سنت کا نام دیگر یہ کہا ہے کہ:

علمائے اہل سنت اور قادیانی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔

چلتے چلتے بارگاہ خداوندی میں ان لفظوں میں دعا کی ہے کہ:

جو فتنہ علماء دیو بند اور قادیانیوں نے برپا کیا ہے اس کا خاتمہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہو جائے۔

فارقلیط صاحب نے ان باتوں کو اپنے گمنام دانشوروں کی طرف منسوب کیا ہے۔ خیر ۔۔۔۔ یہ فارقلیط صاحب کی بولی ہو یا انکے دانشوروں کی ، مگر بات تو سچی ہی ہے ۔ ہاں پہلے فقرے میں جس بیج کا ذکر ہے، فارقلیط صاحب کے دانشوروں کے خیال میں وہ نزول مسیح کا عقیدہ ہے۔۔۔۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ پیج تجذیر الناس کی عبارت ہے۔ جس کی روشنی میں مولوی قاسم نانوتوی کا یہ عقیدہ سامنے آتا ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی آجائے تو پھر بھی ختم نبوت نہیں ٹوٹے گی۔

اچھا اب آئیے اور دیکھئے یہ ہے تحذیر الناس، مطبوعہ محمدی پر نٹنگ پریس، دیو بند ، جس کو کتب خانہ رحیمیہ، دیو بند نے شائع کیا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اس کتاب کا کون سا ایڈیشن ہے۔

اولا ۔ ۔ اس کا صفحہ ۳ ملاحظہ فرمائیے :

--- صاحب تحذیر الناس رقمطراز ہیں ۔۔۔

اول معنی خاتم النبین معلوم کرنے چاہئیں، تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو۔ عوام کے خیال میں تو رسول ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں ۔ مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں وَلَكِن رَّسُولِ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اس صورت میں کیو نکر صحیح ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت با اعتبار تا خر زمانی صحیح ہو سکتی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارہ نہ ہو گی کہ اس میں ایک تو خدا کی جانب زیادہ گوئی کا وہم ہے۔ آخر اس وصف میں اور قد و قامت و شکل و رنگ و حسب و نسب و سکونت وغیرہ اوصاف میں جن کو نبوت یا اور فضائل میں کچھ دخل نہیں کیا فرق ہے جو اس کا ذکر کیا اور اُن کو ذکر نہ کیا۔ دوسرے رسول اللہ ﷺ کی جانب نقصان قدر کا احتمال کیونکہ اہل کمال کے کمالات ذکر کیا کرتے ہیں اور ایسے ویسے لوگوں کے اس قسم کے احوال بیان کیا کرتے ہیں۔ اعتبار نہ ہو تو تاریخوں کو دیکھ لیجئے ۔ باقی یہ احتمال کہ یہ دین آخری دین تھا، اسلئے سد باب اتباع مدعیان نبوت کیا ہے جو کل کو جھوٹے دعوے کر کے خلائق کو گمراہ کریں گے۔ البتہ فی حد ذاته قابل لحاظ ہے پر جملہ ما كان مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ اور جملہ وَلَكِن رَّسُولِ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين میں کیا تناسب تھا، جو ایک کو دوسرے پر عطف کیا اور ایک کو مستدرک منہ اور دوسرے کو استدراک قرار دیا۔ اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی بے ربطی بے ارتباطی خدا کے کلام معجز نظام میں متصور نہیں۔ اگر سد باب مذکور منظور ہی تھا تو اس کیلئے اور بیسیوں موقع تھے۔ بلکہ بنائے خاتمیت اور بات پر ہے، جس سے تاخر زمانی اور سد باب مذکور ، خود بخود لازم آجاتا ہے اور فضیلت نبوی دو بالا ہو جاتی ہے۔ 24

اب آئیے اس پوری عبارت کا حاصل مراد، نمبر وار ملاحظہ فرمائیے:

--- صاحب تحذیر الناس کے نزدیک ۔۔۔

1۔۔۔ خاتم النبیین کا معنی سب میں پچھلا نبی قرار دینا عوام اور جاہلوں کا خیال ہے، اہل فہم و فراست کا نہیں ۔ لہذا جن جن حضرات نے خاتم النبیین کا معنی آخر الانبیاء قرار دیا ہے ، وہ سب جاہل اور فہم و فراست سے عاری ہیں۔

2 خاتم النبین، بمعنی آخر الانبیاء ہونے میں بالذات کوئی فضیلت نہیں ۔ تھوڑی دور آگے چل کر یہ بھی کہ دیا کہ خاتم النبین ، بمعنی آخر الانبیاء ان اوصاف کی طرح ہے جن کو فضائل میں کچھ دخل نہیں ۔ لیجئے اب بالذات کے لفظ کی پیوند کاری سے جو فریب دینا تھا اس کا بھی دامن تار تار ہو گیا

3۔ بالآخر خاتم النبیین، بمعنی آخر الانبیاء کو ایسے ویسوں کے اوصاف کی طرح لکھ دیا۔

خاتم النبیین کے معنی اگر آخری نبی کیا جائے گا تو ایک طرف خدا فضول گو ٹھہرے گا اور دوسری طرف قرآن بے ربط ۔ دیکھ لیا آپ نے۔ تحذیر الناس کی عبارت منقولہ کی زہر افشانیاں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہے۔ یہی معنی صحابہ کرام بلکہ الله ساری امت مسلمہ نے سمجھا۔ خود حضور ﷺ نے متواتر حدیثوں میں خاتم النبیین کا یہی معنی ارشاد فرمایا تو قطعا بلا شبہ یہی آیت کی مراد ٹھہری۔ اب اس مراد پر جو اعتراض و ایراد ہونگے وہ یقیناً خدائے عز و جل اور قرآن کریم پر ہوں گے۔ غور تو فرمائیے کہ ساری امت ، تمام صحابہ اور خود سر کار رسالت کو جاہل و نا فہم ، اللہ کو فضول گو، اور قرآن کو بے ربط ، قرار دیتے ہوئے نانوتوی صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ کفر پر کفر بکے جا رہے ہیں۔۔۔۔ وہ بھی کوئی قلم ہے جو چلے تو بدمست شرابی کی طرح نظر آئے ۔۔۔۔ خاتم النبیین، بمعنی آخر الانبیاء کا حضور ﷺ کے اعلیٰ فضائل اور جلیل القدر کمالات و مدائح میں سے ہونا، اسی طرح ضروریات دین میں سے ہے جس طرح خاتم النبیین کا معنی آخری نبی قرار دینا ضروریات دین میں سے ہے، تو جس طرح ارشاد قرآنی خاتم النبیین کا معنی آخری نبی مراد نہ لینا ضروریات دین کا انکار ہے، بالکل اسی طرح خاتم النبیین، بمعنی آخر الانبیاء میں فضیلت سے انکار کرنا قطعاً ضروریات دین سے انکار کرنا ہے اور شانِ رسالت ماب کی سخت تو ہین و تنقیص کرنی ہے۔۔۔۔

اور آگے آئیے اور دیکھئے صاف اقرار ہے، کہ اُس معنی متواتر اور مفہوم کے جملہ مسلمین کو جاہلوں کا خیال بتا کر ، جو معنی نانوتوی صاحب نے گڑھے ہیں وہ خود ان کی اپنی ایجاد ہے۔ اکابر کا فہم وہاں تک نہیں ۔

--- چنانچہ نانوتوی صاحب رقمطراز ہیں۔۔۔

نقصان شان اور چیز ہے اور خطاء ونسیان اور چیز ہے۔ اگر بوجہ کم اتفاقی بڑوں کا فہم کسی مضمون تک نہ پہنچا تو انکی شان میں کیا نقصان آگیا اور کسی نادان نے کوئی ٹھکانے کی بات کہ دی تو کیا اتنی بات سے وہ عظیم الشان ہو گیا۔

گاه باشد که کودک ناداں

بخلط بر ہدف زند تیرے 25

مزید براں ۔۔۔۔ جو معنی نبی کریم و صحا بہ دامت نے بتائے ، سمجھے، اور جسے حضور کی مدح میں شمار کیا ، ان کے مراد ہونے پر اللہ عز وجل کی جانب زیادہ گوئی کا وہم ، رسول اللہ ﷺ کی طرف نقصان قدر کا احتمال اور قرآن عظیم پر بے ربطی کا الزام قائم کیا ۔ اور جب وہ معنی یقینا مراد ہیں اور مقام مدح میں مذکور ہیں تو پھر نانوتوی صاحب کے نزدیک اللہ و رسول اور قرآن عظیم پر ان کے لگائے ہوئے سارے الزامات ثابت ہو گئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کفر پر کفر بکنے کو نانوتوی صاحب نے ایمان سمجھ رکھا ہے ۔۔۔۔ یہ مسئلہ بھی قابل غور ہے کہ نانوتوی صاحب نے یہ تو کہہ دیا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں، مگر یہ نہیں سوچا کہ مقام مدح میں مذکور ہونے کیلئے وہی فضیلت ضروری نہیں جو بالذات ہو۔ خود انہی کے دھرم میں اگلے تمام انبیاء کی نبوت بالعرض ہے، کسی کی بالذات، نہیں، جس پر انکی یہ تحریر شاہد ہے ۔۔۔۔

بالجملہ رسول اللہ ﷺ وصف نبوت میں بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور انبیاء موصوف بالعرض 26

۔۔۔۔ باوجود اس کے قرآن عظیم میں جابجا، وصف نبوت سے ان کی مدح فرمائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں جب خاتم النبین ، بمعنی "آخر الانبیاء کا مقام مدح میں ہونا ضروریات دین سے ہے اور نانوتوی دھرم میں فضیلت بالذات نہ ہونے کے باعث یہ کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ تو قطعا ظاہر ہو گیا کہ نانوتوی صاحب نے ارشاد الہی کو غلط مانا، یہ کفر ہوا کہ نہیں؟

۔۔۔ اور آگے آئے نانوتوی صاحب رقمطراز ہیں۔۔۔

ہاں اگر خاتمیت بمعنی اوصاف ذاتی بوصف نبوت لیجئے جیسا اس ہیچمداں نے ذاتی عرض کیا ہے تو پھر سوائے رسول اللہ ﷺ اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی نہیں کہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کی افراد خارجی ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہ ہوگی افراد مقدرہ پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہو جائے گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔27

تحذیر الناس کے اوپر دئے گئے حوالے کے آخری جملہ ( بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ) پر خاص توجہ چاہوں گا۔ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ جب بعد زمانہ اقدس کوئی نبی پیدا ہو گا تو حضور سب کے آخری نبی نہ ہونگے ۔ اسلئے کہ حضور بعد اور نبی ہوا۔ اور خاتمیت زمانی، بقول تحذیر الناس 28 یہی تھی کہ آپ سب میں آخری نبی ہیں یہ تو بداہتہ گئی اور اسکے جاتے ہیں وہ جو خاتمیت ذاتی گڑھی تھی وہ بھی فنا ہو گئی اسلئے کہ خود تحذیر الناس میں ہے کہ ختم نبوت بمعنی معروض کو تاخر زمانی لازم ہے۔

خاتمیت کے باب میں نانوتوی صاحب کے قلم کی بدمستی کے دو ایک نمونے اور بھی ملاحظہ کرتے چلئے۔

--- تحذیر الناس صفحہ ۱۴ پر رقم طراز ہیں۔۔۔۔

غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جاوے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔29

۔۔۔۔ آگے چل کر رقمطراز ہیں ۔۔۔۔

اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا فرض کیجئے اس زمیں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۔ 30

اس عبارت کا ابتدائی کچھ حصہ پہلے نقل کر چکا ہوں ۔ اپنی اس عبارت میں لفظ تجویز استعمال کر کے نانوتوی صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ جہاں جہاں انہوں نے بالفرض بالفرض کہا ہے اس سے فرض اختراعی مراد نہیں بلکہ فرض بمعنی تجویز ہے اور تجویز کا تعلق اختراعات سے نہیں ہوتا بلکہ جو چیز عقلا ممکن ہو اسی کی تجویز کی جاسکتی ہے۔

میری اس پوری تحریر کا منشاء تحذیر الناس میں موجود تمام خرافات اور اس کی جملہ اہمال سرائیوں پر نقد و نظر نہیں، بلکہ معنی خاتم النبین میں معنوی تحریف کی ہے۔ اسکے اجماعی معنی کا انکار کیا ہے اور اجماعی معنی مراد لینے کو جہلا کا خیال بتا کر تمام امت مسلمہ، بلکہ خود سر کار رسالت کو جاہل، نافہم اور ایک عقیدہ ضروریہ سے کم التفات قرار دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اور خود اس کا ایک ایسا معنی بتایا ہے جس کے رو سے اگر بالفرض، بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو جائے ، جب بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے ۔ خاتم النبیین کے اس جدید معنی سے امت مسلمہ کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا لیکن امت قادیان نے خوب خوب فائدہ اٹھایا ۔ ایسا لگتا ہے کہ نانوتوی صاحب اپنی نبوت کیلئے راہ ہموار کی تھی ، مگر ذراستی کر گئے اور غلام احمد قادیانی نے بازی مارلی۔

آخر میں چلتے چلتے اس حقیقت کا بھی اظہار کرتا چلوں کہ میرے روبرو، تحذیر الناس، کا جدید ایڈیشن ہے جو قدیم ایڈیشنوں سے کچھ مختلف ہے۔ پرانے ایڈیشنوں میں تقریباً ہر جگہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ مہمل بے معنی لفظ صلعم موجود ہے۔ اس پر جب علمائے ملت اسلامیہ نے اعتراض شروع کیا تو نانوتوی صاحب کے وکیلوں نے اسے نئے ایڈیشن سے نکال کر اس کی جگہ صلی اللہ علیہ وسلم تحریر کر دیا ۔ حالانکہ یہ وکلاء بھی خوب جانتے ہیں کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ صلعم لکھ کر نانوتوی صاحب جو محرومیاں اپنے ساتھ لے گئے ہیں، بعد والوں کی اصلاح سے ان میں کمی نہ ہوگی ۔۔۔۔ یوں ہی زیر نظر ایڈیشن کے صفحہ ۱۳ اور صفحہ ۱۳ پر حاشیے بھی چڑھا دیئے گئے ہیں۔ مگر اس حاشیہ نگاری کے باوجود بھی بات جہاں پر تھی وہیں پر رہ گئی ۔ اور نانوتوی صاحب کے داغدار دامن کی صفائی نہ ہو سکی۔ بالکل واضح اور ظاہر المراد عبارتوں پر حاشیہ چڑھانا بتا رہا ہے کہ ان حواشی کا منشاء حقائق پر پردہ ڈالنا ہے۔ اچھا آئیے ان حاشیہ آرائیوں کا بھی جائزہ لیتے چلئے۔ پہلے تحذیر الناس کی (صفحہ ۳ - ۴) کی وہ عبارت نظر کے سامنے رکھ لیجئے جسکو میں نقل کر چکا ہوں ۔

--- پہلا حاشیہ: اول معنی خاتم النبیین ۔۔۔ الخ، پر ہے اور وہ یہ ہے۔۔۔

یعنی آیت کریمہ میں جو آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین، فرمایا گیا ہے۔ اوّل اس کے معنی سمجھنے چاہئیں ۔31

۔۔۔ دوسرا حاشیہ: سو عوام کے خیال ۔۔۔ الخ ، پر ہے اور وہ یہ ہے ۔۔۔

دیعنی عوام کا خیال تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ فقط اس معنی پر خاتم النبیین ہیں کہ آپ سب سے آخری ہیں۔ یعنی یہ عوام کا خیال ہے، جس میں حضور ﷺ کی فضیلت کما حقہ کا اظہار نہیں ہوتا ہے ۔32

-- تیسرا حاشیہ: مگر اہل فہم پر روشن ۔۔۔ الخ ، پر ہے اور وہ یہ ہے۔۔۔

عوام کے اس خیال کے مطابق یعنی محض تقدم و تاخر زمانی سے آنحضرت ﷺ کیلئے بالذات کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہوتی ہے حالانکہ منطوق قرآن بیان فضیلت کامل کیلئے ہے۔ لہذا خاتم النبیین کے ایسے معنی لینے چاہئیں کہ جس سے پورے طور پر کامل و اکمل فضیلت محمدی ثابت ہو۔33

۔۔۔ چوتھا حاشیہ : ص ۳ پر ہے اور وہ یہ ہے۔۔۔

دیعنی اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدیہ ﷺ میں فرق نہ آئے گا کیونکہ فخر عالم کا خاتم فقط اس معنی پر نہیں کہ آپ سب سے پچھلے زمانہ کے نبی ہیں ۔ ( جیسا عوام کا خیال ہے) بلکہ جیسے آپ خاتم زمانی ہیں ویسے ہی آپ خاتم ذاتی اور خاتم رتبی نبی تھے یعنی جس قدر کمالات اور مراتب نبوت ہیں وہ سب آپ کی ذات ستودہ صفات پر ختم ہیں زمانہ نبوت بھی آپ پر ختم ہے، مکان نبوت بھی آپ پر ختم اور مراتب نبوت بھی آپ پر ختم ہیں۔34

ان حواشی میں پہلے حاشیہ کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ اصل کتاب ہی سے یہ مفہوم بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے ۔ دوسرے حاشیہ میں لفظ فقط حاشیہ نگار نے اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے ۔ اصل عبارت کتاب میں نہ یہ موجود ہے اور نہ اس سے مفہوم یوں ہی لفظ کما حقہ بھی حاشیہ نگار ہی کا اضافہ ہے، اس کے باوجود بھی بات نہ بنی اسلئے کہ اعتراض یہی تو ہے کہ مولوی قاسم نانوتوی نے خاتم النبیین کے اجماعی معنی کو عوام و جہاں کا خیال ٹھہرا کر غلط بتایا ہے اور منکر اجماع امت ہو گئے ہیں۔ نیز تمام صحابہ و تابعین اور جمیع علمائے امت، یہاں تک کہ خود ذات رسول کریم ﷺ کو عوام کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ سلف وخلف کے عقیدے سے ہٹ کر خاتم النبین بمعنی آخر الانبیاء ہونے میں آپ کی شایان شان فضیلت سے انکار کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ اعتراضات اس دوسری حاشیہ نگاری کے بعد بھی اصل کتاب پر بدستور قائم رہتے ہیں۔ بلکہ یہ حاشیہ بھی ان اعتراضات کے پورے نشانے پر ہے۔

اب تیسرا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے ۔ اصل کتاب میں جو بالذات کچھ فضیلت نہیں، کا فقرہ ہے ، حاشیہ میں اس کا ترجمہ حاشیہ نگار نے یہ کیا ہے کہ بالذات کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہوتی، ۔۔۔ غور فرمائیے : کچھ فضیلت نہیں اور کوئی خاص فضیلت نہیں ، کیا ان دونوں کا ایک ہی مطلب ہے ؟ کیا دونوں کا دو مفہوم نہیں ہے؟ کیا پہلے فقرے میں بالذات فضیلت کا بالکل انکار اور دوسرے فقرے میں در پردہ دبے لفظوں میں بالذات فضیلت کا بہت نہیں تو کچھ ہی سہی ، خاص نہیں تو عام ہی سہی، اقرار ہے کہ نہیں؟ اس کے سوا اس حاشیہ پر یہ اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ اس پر امت کا اجماع ہے کہ خاتم النبین، بمعنی آخر الانبیاء میں رسول کریم ﷺ کیلئے بڑی فضیلت ہے۔ ۔۔۔۔ الغرض ۔۔۔ یہ وصف ، رسول کریم ﷺ کے اعلیٰ فضائل اور جلیل القدر کمالات سے ہے تو اب اس وصف میں کامل فضیلت کا انکار اجماع امت کا انکار ہوا کہ نہیں؟

اب آئیے چوتھا حاشیہ بھی دیکھ لیجئے : اس حاشیہ میں بریکٹ کے درمیان جو جمعہ ہے وہ بھی حاشیہ نگار ہی کا ہے۔ یہ حاشیہ بھی عجیب و غریب ہے جو اپنے دامن میں فریب کاریوں کا ایک طوفان لئے ہوئے ہے ۔۔۔ غور کیجئے ۔۔۔۔ اصل کتاب کی عبارت تو یہ ہے کہ :

اگر با لفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نیا پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ 35

۔۔۔۔ اور حاشیہ میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ:

با غرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمد یہ میں فرق نہ آئے گا ۔ 36

۔۔۔ غور فرمائیے کیا تعلق ہے اس حاشیہ کا ، اُس اصل سے؟ اصل میں تو با فرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو کیا بات ہے۔ لیکن حاشیہ میں بالفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی فرض کیا جائے کا ذکر ہے۔ آخرکون کی لغت ہے جس میں پیدا ہو کا ترجمہ فرض کیا جائے تحریر ہے۔ پیدا ہوتا اور ہے اور فرض کیا جاتا اور دونوں کے اثرات و نتائج بالکل الگ الگ ہیں۔ ہیں۔۔۔ ۔ مثلا ۔۔۔۔ اگر با فرض حاشیہ نگار صاحب کے گھر میںکوئی بچہ پیدا ہوتو وہ صاحب اولا د ہلائیں گے۔ لیکن اگر با غرض ان کے گھر میں کوئی بچہ فرض کیا جائے ، تو وہ لا والد کے لا ولد ہی رہیں گے۔۔۔۔

المختصر

۔۔۔۔ المختصر ۔۔۔۔ اگر با لغرض بعد زماندہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو تو یقیناً خاتمیت محمدی کے اجماعی معنی پرز بر دست اثر پڑے گا۔ ناظرین کرامہ اصل کتاب اور حاشیہ کی عبارتوں پر جس قدر غور کریں گے، حاشیہ نگار کے دجل و فریب کا دامن تار تار ہوتا جائے گا۔ اب اسی حاشیہ کی اسکے بعد کیا عبارت ملاحظہ کیجئے ۔ اس میں بھی لفظ فقط کا بیجا اضا فہ ہے ۔۔۔۔ باایں ہمہ ۔۔۔ کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ اسلئے کہ فخر دو عالم ﷺ کا اس معنی میں خاتم ہوتا کہ آپ سب سے پچھلے زمانہ کے نبی ہیں، یہ عوام کا خیال نہیں ہے بلکہ یہی رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے ۔ یہی صحابہ و تابعین کا عقید و ہے، اور یہی ساری امت مسلمہ کا نظریہ ہے۔ لہذا اس کو عوام کا خیال بھبرانا ، اس کو غیر صیح سمجھن ، انا عظیم بارگاہوں کی زبر دست تو بہین ہے اور لفظ خاتم انہین کے اجماعی معنی کا انکار ہے ۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس جرات کے بعد کوئی کچھ بھی ہو، مگر مسلمان نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ حاشیہ میں یہ کہنا کہ آپ خاتم زمانی بھی ہیں ، خاتم ذاتی بھی اور خاتم رتی بھی بحث کو ایک دوسرا رخ دینا ہے۔ سوال نہیں ہے کہ آپ کیا کیا ہیں۔ بلکہ سوال صرف اتنا ہے کہ ارشاہ الہی میں لفظ خاتم النبیین کا معنی مراد کیا ہے۔ تو اجماع امت کی طرف سے اسکا جواب ہے کہ اس لفظ قرآنی کا معنی مراد آخرال نبیاء ہے۔ یعنی حضور زمانہ کے لحاظ سے آخری نبی ہیں۔ لہذا آپ کے عہد میں یا آپ کے بعد کسی نئے نبی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔

۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ صاحب تحذیر الناس کا کہنا یہ ہے کہ حضور ایسے معنی میں خاتم النبیین ہیں کہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔۔۔۔

غور کیجئے کہ اب اگر صاحب تحذیر الناس خاتم النبیین کا معنی یہ بھی لیتے کہ حضور کا خاتم زمانی بھی ہیں، تو ہر گز یہ دعوی نہ کرتے کہ اگر بالفرض آپ کے بعد کوئی نبی پیدا ہو جب بھی آپ کا خاتمیت میں فرق نہ آئے گا ۔ خاتم النبیین کے معنی مراد میں خاتمیت زمانی کو شامل کر لینے کے بعد مذکور و بالا دعویٰ کی توقع کسی پاگل سے بھی نہیں کی جاسکتی، چہ جائیکہ ایک جماعت کے قاسم العلوم والخیرات سے کی جائے۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ خاتم النبیین کا معنی مراد تو وہی ہے جسکی طرف ہمارے قاسم العلوم صاحب نے ارشاد کیا ہے، یعنی خاتمیت ذاتی مگر خاتمیت زمانی و مکانی اسکو لازم ہے، جیسا کہ خودت نوتوی صاحب نے کہا ہے ختم نبوت بمعنی معروض کو ختم زمانی لازم ہے 37

۔۔۔۔ تو میں عرض کروں گانڈ کور و بالا دعوئی کے بعد تا نو توی صاحب رسول کریم ﷺ کی دختم زمانی اور اپنی گڑھی ہوئی ختم ذاتی دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، جیسا کہ میں اسکی طرف مفصل اشارہ کر چکا ہوں ۔۔۔ الخنصر ---- نانوتوی صاحب کے داغدار دامن کو صاف کرنے کیلئے بصورت حاشیہ نگاری جو ایک کوشش کی گئی ہے، وہ صرف یہی نہیں کہ بے سود ہے بلکہ مجرمانہ ذہنیت نا پیداوار ہے۔

بحمدہ تعالی تمام منازل تحقیقات کو طے کرتا ہوا اب میں وہاں آگیا ہوں جہاں سے مولوی قاسم نانوتوی، دار العلوم دیو بندہ کی ضیافت طبع کیلئے فتاوی دار العلوم دیو بند سے ایک تحفہ نکال کر نہیں پیش کردوں ۔ وہ تو چلے گئے جہاں جانتا تھا ، شہید کہ ان کے روحانی وارثین کا اس تحفے سے کچھ بھلا ہو جائے ۔ اچھا اٹھائیے امداد المفتین ، دارالعلوم دیوبند، جلد اول، صفحہ ۸ پر لکھا ہوا ہے۔

در اصل ملحد و زندیق ، اصطلاح میں وہ لوگ ہیں جو بظاہر تو اصول اسلام قرآن و حدیث کے ماننے کے مدعی ہوں اور مسلمان ہونے کا دعوی رکھتے ہوں مگر نصوص شرعیہ میں تحریفات کر کے انکے ظواہر کے خلاف اور جمہور سلف کے خلاف نئے نئے معنی تراشتے ہوں۔ 38

پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ صاحب تحذیر الناس' نے ارشاد قرآنی خاتم النبین کا جو معنی بتایا ہے وہ خود ان کے اعتراف کی روشنی میں ان کی اپنی ایجاد ہے۔ جو ظاہر ارشاد ربانی اور جمہور سلف کے خلاف ہے۔۔۔ اب شکل اول تیار کر لیجئے ۔۔۔ مولوی قاسم نانوتوی نے نص شرعی یعنی خاتم النبین کے معنی میں تحریف کی اور اس (لفظ خاتم النبیین ) کا ظاہر اور جمہور سلف کے خلاف معنی تر اشا۔ اور جو ایسا کرے وہ ملحد و زندیق ہے۔۔۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مولوی قاسم نانوتوی ملحد و زندیق ہیں۔

مذکورہ بالا قیاس کا صغری میں پہلے ثابت کر چکا ہوں اور کبری فتاوی دار العلوم دیو بند سے ثابت ہے، تو اب جو اس کا لازمی نتیجہ ہے اس سے انکار کی گنجائش ہی کب رہ جاتی ہے۔ ۔۔۔۔ آخر میں دو مبارک تحریر میں حصول برکت کیلئے نقل کئے دے رہا ہوں ۔ یہ مقدس تحریریں، گنبد خضری کے انوار و تجلیات کے سائے میں صفحہ قرطاس پر منتقل کی گئی ہیں۔ پہلی تحریر محقق المعی ، مدقق لوذعی، حضرت مولاناسید شریف برزنجی ( مفتی الشافعیہ، بالمدینہ المنورة ) کی ہے۔ اور دو سری تحریر، فاضل شهیر، حضرت مولانا شیخ محمد عزیز الوزیر مالکی، مغربی، اندلسی ، مدنی، تونسی کی ہے۔

(1)
وَوَقَعَ الْإِجْمَاعُ مِنْ أَوَّلِ الْامَّةِ إِلَى آخِرِهَاتِينَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنَّ نَبِيْنَا مُحَمَّدٌ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَآخِرُهُمْ لَا يَجُوزُ فِي زَمَانِهِ وَلَا بَعْدِهِ نَبُوَّةٌ جَدِيدَةٌ لِأَحَدٍ مِنِ البَشَرِ وَ إِنَّ مَنْ أَدْعَى ذَالِكِ فَقَدْ كَفَرَ وَأَمَّا الفَرْقَةُ الْمُسَمَّاةُ بِالْإِمِيُرِيَةِ وَالْفِرْقَةُ الْمُسَمَّاةُ بِالْقَاسِمِيَةِ وَقُولُهُمْ لَوْ فَرَضَ فِي زَمَنِهِ بَلْ أَو حَدَّتْ بَعْدَهُ نَبِيٌّ جَدِيدٌ لَمْ يَخْلُ ذَالِكَ بِخَاتِمَيْتِهِ الخ فَهُوَ قَولٌ صَرِيحٌ فِي تَجُوِيزِ نُبُوَّةِ جَدِيدِهِ لَا حُدٍ بَعْدَهُ وَلَا شَكٍّ أَنَّ مَنْ جوْزِ ذَالِكَ فَهُوَ كَافِرٌ بِإِجْمَاعِ عُلَمَاءِ المُسْلِمِينَ وَهُمْ عِندِ اللَّهِ مِنْ الخَسِرِينَ وَعَلَيْهَمَ وعَلَى مَنْ رَضِيَ بِمَقَالَتِهِمْ تِلْكَ إِن لَّمْ يَتُوبُوا غَضَبَ اللَّهُ وَلَعَنَتَهُ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ39
اور تمام امت اسلام کا ، اوّل سے آخر تک ، اجماع ہے کہ ہمارے نبی محمد ﷺ سب انبیاء کے خاتم اور سب پیغمبروں سے پچھلے ہیں۔ نہ ان کے زمانے میں کسی شخص کیلئے نئی نبوت ممکن اور نہ ان کے بعد۔ اور جو اس کا ادعاء کرے، وہ بلا شبہ کا فر ہے۔ اور رہے، امیر احمد نذیر احمد اور قاسم نانوتوی کے فرقے اور ان کا کہنا کہ اگر حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں کوئی نبی فرض کیا جائے بلکہ حضور کے بعد کوئی نبی پیدا ہو، تو اس سے خاتمیت محمد یہ میں کوئی فرق نہ آئے گا۔۔۔ الخ۔۔۔ تو اس قول سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ نبی ﷺ کے بعد کسی کو نبوت جدیدہ ملنی جائزمان رہے ہیں۔ اور کچھ شک نہیں جو اسے جائز مانے ، وہ باجماع علمائے امت کا فر ہے۔ اور اللہ کے نزدیک زیاں کار۔ اور ان لوگوں پر، اور جوان کی اس بات پر راضی ہو، اس پر اللہ کا غضب اور اسکی لعنت ہے قیامت تک ، اگر تائب نہ ہوں۔
(2)
وَكَذَالِكَ مَنْ أَدْعَى نُبُوَّةَ أَحَدَمَعَ نَبِيِّنَا أَوْ بَعْدَهُ أَوْ أَدْعَى النُّبُوَّةَ لِنَفْسِهِ أَوْجَوْزَ اكْتَسَابَهَا قَالَ خَلِيلٌ أَو أَدْ عَلَى شُرُ كَامَعَ نَبُوَّةَ عَلَيْهِ الصَّلوةَ وَالسَّلَامَ أَوْ بَعْدَهُ أَوْجَوْزَا كَتَسَبَهَا وَكَذَالِكَ مَنْ أَدْعَى إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ وَأَنْ لَّمْ يَدْعَ النُّبُوَّةَ قَالَ فَهُمْ لَا كَفَارَ مُكَذِّبُونَ لِلنَّبِيِّ ﷺ لِأَنَّهُ اخَبَرَانَهُ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَاجْمَعَتَ الْأُمَّةُ عَلَى أَنْ هَذَا الْكَلَامِ عَلَى ظَاهِرَهُ وَأَنَّ مَفْهُومَهُ الْمَوَادَمِنْهُ دُونَ تَأْوِيلِ وَلَا تَحْصِيصَ فَلَا شَكٍّ فِي كُفْرِ هَتُولَاءِ الطَّوَائِفِ كُلِّهَا قَطَعَا أَجْمَاعاً سِمِعاً 40
ایسے ہی جو نبی ﷺ کے زمانہ میں ، یا حضور کے بعد کسی کو نبوت ملنے کا ادعاء کرے ، یا اپنی نبوت کا دعویٰ کرے، یا کہے نبوت کسب سے مل سکتی ہے۔ علامہ خلیل نے فرمایا، جو حضور کی نبوت میں کسی کو شریک مانے یا حضور کے بعد کسی کو نبی جانے یا کہے نبوت کسی عمل سے حاصل ہو سکتی ہے، اور ایسے ہی جو اپنی طرف وحی آنے کا دعوی کرے، اگر چہ نبوت کا مدعی نہ ہو، فرمایا کہ یہ سب کے سب کا فر ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کی تکذیب کرنے والے ہیں۔ اسلئے کہ حضور نے خبر دی ہے کہ وہ سب پیغمبروں کے ختم کرنے والے ہیں۔ اور یہ کہ وہ تمام جہاں کیلئے بھیجے گئے ۔ اور تمام امت نے اجماع کیا کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر ہے۔ اور اس سے جو سمجھا جاتا ہے وہی مراد ہے۔ نہ اس میں کوئی تاویل ہے نہ خصیص۔ تو ان سب طائفوں کے کفر میں اصلا شک نہیں، یقین کی روسے، اجماع کی رو سے، اور قرآن وحدیث کے رو سے ۔
وما علينا الا البلاغ والحمد لله رب العلمين وافضل الصلوة واكمل السلام على سیدنا محمد واله وصحبه وحزبه اجمعين! (امین)


  • 1 تفسیر قرطبی ،ج:24،ص:196،197
  • 2 برہاش طبری ج: 22 ص :15
  • 3 تفسیر کبیر ، ج: 6 ص :786،787
  • 3 برہاش تفسیر کبیر ، ج: 6 ص :788
  • 4 تفسیر مدارک، ج: 3، ص :234
  • 5 تفسیر روح المعانی ، ج: 22 ص :39،40
  • 6 تفسیر روح البیان ، ج: 4 ص :612
  • 7 تفسیر ابن کثیر ، ج: 3، ص :493،494
  • 8 تفسیر روح البیان ، ج: 4، ص :612
  • 9 الاحزاب ،40/33
  • 10 رد شہاب ثاقب ، ص :253، بحوالہ معالم مصری ، ج :5، ص :218
  • 11 رد شہاب ثاقب ، ص :253، بحوالہ معالم مصری ، ج :5، ص :218
  • 12 رد شہاب ثاقب ، ص :253، بحوالہ خازن مصری ، ج :5، ص :218
  • 13 رد شہاب ثاقب ، ص :254، بحوالہمعالم مصری ، ج :5، ص :218
  • 14 رد شہاب ثاقب ، ص :257، بحوالہ غریب القرآن مصری ، ج :1، ص :247
  • 15 رد شہاب ثاقب ، ص :258، بحوالہ ہدیہ المہدین ، ص :21
  • 16 رد شہاب ثاقب ، ص :258، بحوالہ ہدیہ المہدین ، ص :21
  • 17 النحل ،89/16
  • 18 تخدير الناس ، مطبوعہ کتب خانه رحیمیه ، دیو بند،ص: ۳۳
  • 19 تحذیر الناس ،ص:13
  • 20 تحذیر الناس ،ص:15
  • 21 تحذیر الناس ،ص:3
  • 22 تحذیر الناس ،ص:7
  • 23 تحذیر الناس ،ص:25
  • 24 تحذیر الناس ،ص:473
  • 25 تحذیر الناس ،ص:26
  • 26 تحذیر الناس ،ص:8
  • 27 تحذیر الناس ،ص:25
  • 28 تحذیر الناس ،ص:3
  • 29 تحذیر الناس ،ص:25
  • 30 تحذیر الناس ،ص:25
  • 31 حاشیہ نمبر1 ،ص:3
  • 32 حاشیہ نمبر 2،ص:3
  • 33 حاشیہ نمبر3 ،ص:3
  • 34 حاشیہ نمبر 1،ص:13
  • 35 تحذیر الناس ،ص:25
  • 36 تحذیر الناس ،ص:13،بر حاشیہ
  • 37 تحذیر الناس ،ص:8
  • 38 فتاوی دار العلوم دیوبند ،ص:8
  • 39 حسام الحرمین ،ص:216،218
  • 40 حسام الحرمین ،ص:232

Netsol OnlinePowered by