logoختم نبوت

عقیدہ ختم نبوت پر اعتراضات کا علمی محاسبہ ۔۔۔از۔۔۔ ڈاکٹر حامد علی علیمی

باب اول: ایمان اور کفر

فصل اول:

ایمان اور کفر کی تعریف۔

فصل دوم:

کفر کی اقسام۔

فصل سوم:

کافر کی اقسام اور اُن کے احکام۔

فصل اول: ایمان اور کفر کی تعریف

ایمان اور کفر کی تعریف:

عقیدہ ختم نبوت کے دلائل ذکر کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصرا ایمان اور گھر کی تعریف بیان کر دی جائے:

إِنَّ الإِيْمَانَ فِي الشَّرْعِ هُوَ التَّصْدِيقُ بِمَا جَاءَ بِهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِ اللهِ ، أَيْ: تَصْدِيقُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَمِيعِ مَا عُلِمَ بِالضَّرُورَةِ مَجِيتُهُ بِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ تَعَالَى إِجْمَالاً 1
یعنی: محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ہر بات میں سچا جاننا، حضور کی حقانیت کو صدق دل سے ماننا ”ایمان“ ہے جو اس کا اقرار کرے وہ ”مسلمان“ ہے، جب کہ اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار یا تکذیب یا توہین نہ پائی جائے ۔2

یا اسے یوں سمجھ لیں کہ ”سید العالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جو کچھ اپنے رب کے پاس سے لائے ان سب میں اُن کی تصدیق کرنا اور سچے دل سے اُن کی ایک ایک بات پر یقین لانا ”ایمان“ ہے اور ان میں کسی بات کا جھٹلانا اور اس میں ذرہ برابر شک لانا ” کفر “ ہے۔(معاذ اللہ )

کامل ایمان:

اُس مسلمان کا ایمان کامل ہو گا جس کے دل میں اللہ ورسول جَلَّ وَعَلَا وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا علاقہ تمام علاقوں پر غالب ہو، اللہ ورسول کے محبوں سے محبت رکھے اگر چہ اپنے دشمن ہوں اور اللہ ورسول کے مخالفوں بد گویوں سے عداوت رکھے اگر چہ اپنے جگر کے ٹکڑے ہوں، جو کچھ دے اللہ کے لیے دے جو کچھ رو کے اللہ کے لیے روکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيْمَانَ 3

فصل دوم: کفر کی اقسام

کفر کی اقسام:

پھر یہ ”انکار“ (یعنی: کفر ) جس سے اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے ، دو طرح ہوتا ہے ، ۱۔ التزامی اور ۲۔ لزومی۔

التزامی:

یہ کہ ضروریات دین سے کسی شئی کا تصریحاً خلاف کرے، یہ قطعاً اجماعاً کفر ہے اگر چہ نام کفر سے چڑے اور کمال اسلام کا دعویٰ کرے۔۔۔ جیسے نیچری فرقے کا فرشتوں، جن ، شیطان، جنت و جہنم اور معجزات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اُن معانی کا انکار کرنا اور ان معانی میں اپنی باطل تاویلات کرنا، جو معانی مسلمانوں کو نبی اکرم صلی علیم سے تواتر کے ساتھ پہنچے ہیں۔

۲- لزومی:

یہ کہ جو بات اس نے کہی عین کفر نہیں مگر منجر بکفر (کفر کی طرف لے جانے والی) ہوتی ہے یعنی مالِ سخن ولازم حکم کو ترتیب مقدمات و تمیم تقریبات کرتے لے چلیے تو انجام کار اس سے کسی ضرورت دینی کا انکار لازم آئے جیسے روافض کا خلافت حقہ راشدہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت جناب صدیق اکبر وامیر المومنین حضرت جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما سے انکار کرنا وغیرہ، اس قسم کے کفر میں علماء اہلسنت مختلف ہو گئے جنھوں نے مال مقال ولازم سخن کی طرف نظر کی حکم کفر فرمایا اور تحقیق یہ ہے کہ کفر نہیں، بلکہ بدعت و بد مذہبی و ضلالت و گمراہی ہے ، وَالْعِيَاذُ بِاللَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ4

فصل سوم: کافروں کی اقسام اور اُن کے احکام

کافروں کی کتنی اقسام ہوتی ہیں؟

کفر کی طرح کا فر بھی دو قسم کے ہوتے ہیں:

1۔ اصلی

اور۔ 2 مرتد ہے۔(مرتد کے تفصیلی احکام کے لیے ملاحظہ کریں، ”مسلمان کی تعریف اور مرتد کی سزا“، از مفتی سید شجاعت علی قادری الله ، ناشر فدائیان ختم نبوت پاکستان، کراچی)

1- اصلی: وہ کہ شروع سے کافر اور کلمہ اسلام کا منکر ہے۔

اس کی مزید دو قسمیں ہیں:

(1) مجاہر اور (2) منافق۔

(1) مجاہر وہ کہ علی الاعلان کلمہ کا منکر ہو ، جیسے دہریہ، مشرک اور مجوسی۔ ان کی عورتوں سے نکاح باطل اور ان کا ذبح کیا ہوا جانور مردار ہے ، رہے اہل کتاب یعنی یہود و نصاری تو ان کی عورتوں سے نکاح ممنوع و گناہ ہے۔

اور (2) منافق وہ کہ بظاہر کلمہ پڑھتا اور دل میں اس کا انکار کرتا ہو ، آخرت کے اعتبار سے یہ قسم سب اقسام سے بدتر قسم ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

إِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ 5
”بیشک منافقین سب سے نیچے طبقہ دوزخ میں ہیں “۔

وہ کہ کلمہ گو ہو کر کفر کرے اس کی بھی دو قسم ہیں : (1) مجاہر اور (2) منافق۔ }}

(1) مرتد مجاہر: وہ کہ پہلے مسلمان تھا پھر علانیہ اسلام سے پھر گیا کلمہ اسلام کا منکر ہو گیا چاہے دہر یہ ہو جائے یا مشرک یا مجوسی یا کتابی کچھ بھی ہو۔

(2) مرتد منافق:

وہ کہ کلمہ اسلام اب بھی پڑھتا ہے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا ہے پھر بھ بھی اللہ عز و جل یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا کسی نبی کی توہین کرتا ہے یا ضروریات دین میں سے کسی شئے کا منکر ہے۔

ان کے احکام:

حکم دنیا میں سب سے بدتر مرتد ہے ، اس کا نکاح کسی مسلم ، کافر ، مرتد اس کے ہم مذہب یا مخالف مذہب، غرض کسی سے نہیں ہو سکتا، مر تدمر د ہو خواہ عورت۔ ان میں سب سے بدتر مرتد منافق ہے ، یہی وہ ہے کہ اس کی صحبت زیادہ نقصان دہ ہے کہ یہ مسلمان بن ہے، کر کفر سکھاتا ہے، خصوصاً آج کل کے بد مذہب کہ اپنے آپ کو خاص اہلسنت کہتے ہیں، نماز روزہ ہمار ا سا ادا کرتے ہیں، ہماری کتابیں پڑھتے پڑھاتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس رسول معظم صلی الم کو گالیاں دیتے ہیں، یہ سب سے بدتر زہر قاتل ہیں، ہوشیار خبر دار ! مسلمانو ! اپنا دین بچاؤ ان سے ۔۔!6

باب دوم: عقیدہ ختم نبوت کا معنی و مفہوم

فصل اول: عقیدے کا معنی و مفہوم۔

فصل دوم: عقیدہ کس طرح ثابت ہوتا ہے؟

فصل سوم: عقیدہ ختم نبوت کا معنی و مفہوم۔

فصل اول: عقیدے کا معنی و مفہوم

کسی بھی موضوع کو آسانی سے سمجھنے کا ایک طریقہ معروضی ہوتا ہے، جو تحقیقی دنیا میں بھی بہت مشہور و مقبول ہے ، ”عقیدہ ختم نبوت“ کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بھی معروضی انداز اختیار کیا گیا ہے ، چنانچہ ۔۔۔۔۔

ا۔ ”عقیدہ“ کیا ہے ؟ ۲۔ ”عقیدہ ختم نبوت“ سے کیا مراد ہے؟

۳۔ شریعت مطہرہ میں عقیدہ ” کس طرح ثابت ہوتا ہے ؟“

۴۔ سب سے اہم یہ کہ ضروریات دین سے کیا مرا ہے؟ وغیرہ وغیرہ سوالات کے جوابات جاننا نہایت مفید ہے۔

عقیدے کی تعریف:

عقیدہ عربی زبان کے لفظ ” عقد“ سے بنا ہے جس کا لغوی معنی کسی چیز کو باندھنا“ یا گرہ لگانا “ ہے ، اس کی جمع ”عقائد “ آتی ہے۔

شریعت مطہرہ میں ”عقیدہ“ سے مراد وہ دلی بھروسا اور اعتبار ہے جو کسی امر یا شخص کو درست و حق سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے “۔ آسان الفاظ میں عقیدہ سے مراد ان دینی اُصولوں پر پختہ یقین اور اعتقاد کرنا ہے جن پر ایمان لانا ضروری ہے “۔

فصل دوم: عقیدہ کس طرح ثابت ہوتا ہے؟

جس طرح فقہ کے اصول یا مآخذ چار ہیں کہ جن سے کوئی فقہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے، اسی طرح عقائد کے اصول یا ماخذ بھی چار ہیں ، جن سے کوئی عقیدہ ثابت ہوتا ہے، یہ سب اصول و مآخذ مندرجہ ہیں :

اصول فقہ:

قرآن، سنت، اجماع، قیاس

اصول عقائد :

قرآن ،سنت، سواد اعظم، عقل صحیح

اصول عقائد کی وضاحت:

ا۔ قرآن: یعنی: اللہ تعالیٰ کا کلام جو رسول اللہ صلی علم پر نازل کیا گیا، رہا گذشتہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام کی شریعتوں کا تعلق تو وہ قرآن کریم کے تابع ہیں۔

۲۔ سنت: یعنی: مصطفی کریم صلی العلم کے اقوال، افعال اور تقریرات (تقریرات: وہ بات یا کام جو کسی نے رسول اللہ صلی علیم کی موجودگی میں کیا ہو مگر آپ علیہ السلام نے اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ اسے برقرار رکھتے ہوئے سکوت فرمایا۔ گویا یہ سکوت فرمانا ہی ”اذن“ ہے کیونکہ اگر وہ بات یا کام خلاف شرع ہوتا تو آپ صلی الم ضرور منع فرماتے ) ” سنت “ میں داخل ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے اقوال، سنت کے تابع ہیں ہے۔ 7

سواد اعظم : اس سے مراد لوگوں کی بڑی جماعت ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سواد اعظم“ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ اس سے مراد اہل سنت ہیں۔

۴۔ عقل صحیح : یعنی: عقل سلیم ۔

اصول عقائد کا ثبوت ؟

سوال یہ ہے کہ ان مذکورہ ”اصول عقائد “ کا کسی معتبر عالم دین نے ذکر بھی کیا ہے یا یہ تقسیم تقسیم بلا بلا دلیل دلیل ۔ ہے؟ چنانچہ مولانا احمد رضا خان حنفی رحمہ اللہ فتاوی رضویہ . " ایک سوال کے جواب میں تحریر کرتے ہیں:

جس طرح فقہ میں چار اُصول ہیں: کتاب، سنت، اجماع اور قیاس ، اسی طرح عقائد میں بھی چار اُصول ہیں: کتاب ، سنت ، سوادِ اعظم اور عقل صحیح۔ جو کوئی عقائد سے متعلق کسی مسئلہ کو ان چار اُصولوں کے ذریعہ جانتا ہے تو گویا وہ اس مسئلہ کو دلیل سے جانتا ہے نہ کہ بے دلیل محض کسی دوسرے کی تقلید کے ذریعے۔ اسلام میں سوادِ اعظم اہل سنت “ ہی ہیں، لہذا ان کا حوالہ دینا بھی در اصل دلیل کا حوالہ دینا ہے نہ کہ کسی کی تقلید کرنا۔ یوں ہی ائمہ کرام کے اقوال سے استدلال و استناد کا یہی معنی ہے کہ یہ اہل سنت کا مذہب ہے، لہذا ایک دو نہیں بلکہ دس بیس اکابر علماء ہی سہی اگر وہ ”جمہور علمائے کرام اور سوادِ اعظم کے خلاف لکھیں گے، تو اُس وقت اُن کے اقوال پر نہ اعتماد جائز ہے نہ استدلال و استناد ، کیونکہ اب یہ استدلال و استناد کرنا ” تقلید “ ہے اور تقلید عقائد میں جائز نہیں۔ اس دلیل شرعی یعنی سوادِ اعظم کی جانب رُشد و ہدایت کا ہونا، اللہ ورسول جل وعلا و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی کمالِ رحمت ہے، کیونکہ ہر شخص میں یہ قدرت کہاں ہے کہ وہ عقیدہ کو کتاب و سنت سے ثابت کرے۔

رہا معاملہ عقل کا ، تو یہ خود ہی سمعیات (یعنی: سُنے جانے والے امور میں کافی نہیں، لہذا ناچار عوام کو عقائد میں تقلید کرنے کی ضرورت پڑتی اور عقائد میں تقلید جائز نہیں، لہذا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خاتم النبیین ﷺنے مسلمانوں کو یہ واضح روشن دلیل عطا فرمائی کہ سوادِ اعظم مسلمین جس عقیدہ پر ہو وہ حق ہے، اس کی پہچان کچھ د ن کچھ دشوار نہیں۔“

کیا زمانہ صحابہ کرام میں بھی ”سوادِ اعظم “ تھا؟

رہا یہ سوال کہ کیا یہ ”سوادِ اعظم " زمانہ صحابہ میں بھی تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے وقت میں تو کوئی بد مذہب تھا ہی نہیں اور بعد کو اگر چہ پیدا ہوئے مگر دنیا بھر کے سب بد مذہب ملا کر کبھی اہل سنت کی گنتی کو نہیں پہنچ سکے، واللہ الحمد ۔ فقہ میں جس طرح "اجماع" ایک بڑی قوی دلیل ہے کہ اس سے اختلاف کا اختیار مجتہد کو بھی نہیں ، اگر چہ وہ اپنی رائے میں کتاب وسنت سے اس کا خلاف پاتا ہو ، یقیناً یہ سمجھا جائے گا کہ اُس مجتہد کے یا تو فہم کی خطا ہے یا یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے اور مجتہد کو اس کا ناسخ معلوم نہیں، یو نہی اجماع امت تو ایک عظیم شے ہے۔

سواد اعظم کے خلاف کوئی عقیدہ قابل قبول نہیں:

سواد اعظم یعنی اہل سنت کا عقائد کے کسی مسئلہ پر اتفاق بھی ایک بڑی تو م. بڑی قوی دلیل ہے ، لہذا اگر بالفرض کسی کو کتاب و سنت سے اس کے بر خلاف کچھ سمجھ میں آئے تو فہم کی غلطی تصور ہو گا، کیونکہ حق سوادِ اعظم کے ساتھ ہے۔ رہی عقل تو ایک معنی پر یہاں عقل بھی ایک بڑی قوی دلیل ہے ، وہ اس طرح کہ اور دلائل کی حجیت بھی اسی عقل صحیح سے ظاہر ہوئی ہے۔ یہ محال ( نا ممکن ) ہے کہ سواد اعظم کا اتفاق کسی ایسی دلیل پر ہو جو عقل صحیح کے خلاف ہو۔ یہ گنتی کے جملے ہیں مگر محمدہ تعالیٰ بہت نافع وسود مند فَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِنِ (یعنی :انہیں مضبوطی سے تھام لو) وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ8

ضروریات دین سے کیا مراد ہے؟

اقسام کفر و کافر میں ضروریات دین کا ذکر آیا ہے لہذا اسے بھی سمجھ لیجیے، ضروریات دین سے مراد وہ دینی مسائل ہیں جن کو عوام و خواص سب جانتے ہوں ، مثلاً اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، رسول اللہ کی ختم نبوت، آخرت، نماز اور روزہ وغیرہ۔

”عوام“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دینی مسائل سے ذوق و شغل رکھتے ہوں اور علماء کرام کی صحبت سے فیض یاب ہوں، عوام “ سے مراد وہ لوگ نہیں جو دینی مسائل خصوصاً ضروریات دین سے ناواقف و غافل ہیں، مثلاً بہت سے گاؤں دیہاتوں میں رہنے والے جاہل خصوصاً بر صغیر اور مشرق وغیرہ میں رہنے والے ایسے ہیں جو بہت سے ضروریات دین کے مسائل سے ناواقف اور غافل ہیں۔ ان کی ناواقفیت اور غفلت سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ یہ ضروریات دین کے منکر ہیں ، غافل ہونے اور انکار کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 9

تنبیہ ضروری:

مسلمانو! دین میں اصل مدار ”ضروریات دین “ ہیں اور ضروریات “ اپنے ذاتی روشن بدیہی ثبوت کے سبب مطلقا ہر ثبوت سے غنی ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر بالخصوص ان پر کوئی نص قطعی اصلا نہ بھی ہو جب بھی ان کا وہی حکم رہے گا کہ منکر یقینا کافر ہے۔

۔۔۔ یہی سبب ہے کہ ضروریات دین میں کسی قسم کی کوئی تاویل نہیں سنی جائے گی۔ جیسے نیچر یہ نے آسمان کو بلندی، جبرئیل و ملائکہ کو قوتِ خیر ، ابلیس و شیاطین کو قوت بدی، حشر و نشر و جنت و نار کو محض روحانی نہ جسدی بنا لیا۔

ایک بد بخت نے ” خاتم النبیین “ کو ” افضل المرسلین “ گھڑ لیا اور دوسرے شقی نے ” خاتم النبیین “ کو ”نبی بالذات“ سے بدل دیا، ایسی تاویلیں ٹن لی جائیں تو اسلام و ایمان قطعاً درہم برہم ہو جائیں گے ۔ اگر یہ باطل تاویلیں دُرست مان لی جائیں تو ثبت پرست لا اله الا اللہ کی تاویل یوں کر لیں گے کہ یہ افضل واعلیٰ “ سے مخصوص ہے یعنی : ”خدا“ کے برابر دوسرے خدا بھی ہیں، مگر وہ ”خدا“ سب دوسروں سے بڑھ کر خدا ہے، یہ معنی نہیں کہ دوسرا خدا ہی نہیں اور اس کی دلیل عرب کا یہ محاورہ ہے " لا فَتَى إِلَّا عَلِی لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الْفِقَارِ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ10۔ تو کیا اس بت پرست کی یہ باطل تاویل سنی جائے گی۔۔۔؟! یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنے کا ہے کہ بہت سے گمر اہ و بے دین مدعیان 13 اسلام کے مکر وہ اوہام سے نجات و شفا ہے ہے۔11

ایک شبہ کا ازالہ :

اگر بظاہر اکابرین امت میں سے کسی امام ، مفسر ، محدث، فقیہ یا مفتی وغیرہ کی کوئی بات خلاف شرع معلوم ہوتی ہو ، یا اُس کا موقف سوادِ اعظم کے خلاف جاتا ہوا نظر آئے، تو ایسے میں ہم کیا کریں، کس کی بات مانیں اور کس کا ساتھ دیں؟

اس سلسلے میں صحیح اور معتدل قول یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء کے سوا کوئی انسان معصوم نہیں اور غیر معصوم سے کوئی نہ کوئی کلمہ غلط یا بے جا صادر ہونا کچھ نادر کالعدم نہیں، پھر سلف صالحین و ائمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہے، جیسا کہ حضرت امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :

كُلَّ مَأْخُوْذُ مِنْ قَوْلِهِ وَمَرْدُودٌ عَلَيْهِ إِلَّا صَاحِبُ هُذَا الْقَبْرِ عَلی
یعنی: "رسول اللہ صلی الم جو اس روضہ پاک میں آرام فرما ہیں ان کے سوا ہر شخص کا قول لیا جا سکتا ہے اور رد بھی کیا جا سکتا ہے“۔

لہذا جس کی جو بات خلاف اہل حق وجمہور دیکھی وہ اُسی پر چھوڑی اور اعتقاد وہی رکھا جو جماعت یعنی سوادِ اعظم کا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ کا فرمان ہے:

يَدُ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ
یعنی : ”اللہ تعالیٰ کی حمایت، جماعت کے ساتھ ہے “

اور فرمایا:

اتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ 12
اور فرمایا: ”سواد اعظم کی پیروی کرو

فصل سوم: عقیدہ ختم نبوت کا معنی و مفہوم:

ختم نبوت کی تعریف:

ختم " کا معنی ہے اختتام اور مہر (Seal)، یعنی کسی چیز کو اس طرح بند کرنا کہ اس کے بعد نہ باہر سے کوئی چیز اندر جاسکے اور نہ اندر سے کچھ باہر نکالا جا سکے۔

نبوت کا معنی ہے نبی ہونا، لہذا ختم نبوت“ کا معنی ہو گا نبوت کا اختتام، سلسلۂ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا رک جانا ختم ہو جانا۔

عقیدہ ختم نبوت:

شریعت مطہرہ میں عقیدہ ختم نبوت“ سے مراد یہ اعتقاد اور یقین رکھنا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی علیم پر نبوت ورسالت کا سلسلہ مکمل ہو چکا ہے، اب قیامت تک کسی نئے نبی یار سول کی ضرورت نہیں رہی۔

عقیدہ ختم نبوت پر کیسا ایمان ہونا چاہیے ؟

مسلمان پر جس طرح لا إله إلا الله ماننا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اَحَدٌ صَمَدٌ لَا شَرِيكَ لَهُ جاننا فرض اول و مناط ایمان ہے یونہی مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو خاتم النبیین ماننا، ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نئے نبی یار سول کی بعثت کو یقینی طور پر محال و باطل جاننا اہم فرض اور جزء ایقان ہے:

وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّن 13
ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے “۔

نص قطعی قرآن ہے ، اس کا منکر تو منکر بلکہ شبہ کرنے والا، بلکہ اس میں شک کرنے والا کہ ادنی ضعیف احتمال کی وجہ سے اس کا خلاف کرنے والا ہو ، قطعاً اجماعا کا فر ملعون ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے والا ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو ایسے شخص کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، بلکہ جو ایسے شخص کے کافر ہونے میں شک وتر ڈر کو راہ دے وہ بھی واضح طور پر کافر ہے ۔14

امام علامہ شہاب الدین فضل اللہ بن حسین تور پشتی حنفی الله معتمد في المعتقد “ میں فرماتے ہیں: "محمد اللہ تعالیٰ ختم نبوت کا مسئلہ مسلمانوں میں روشن تر ہے کہ جس کے بیان کرنے اور وضاحت کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ لیکن بسا اوقات کھلی بات کے بجائے منکر و زندیق یوں فریب دیتے ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، لہذا آپ صلی تعلیم کے بعد کسی نئے نبی کو پیدا کر سکتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکار نہیں کر سکتا، لیکن جب اللہ تعالی کسی چیز کے متعلق خبر دے دے کہ ایسے ہو گی یا ایسے نہ ہو گی، تو اس کا خلاف نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ حضور صلی الیم کے بعد دوسرا نبی نہ ہو گا، تو اب اس بات کا منکر وہی ہو سکتا ہے جو سرے سے نبوت کا منکر ہو ، جو شخص آپ صلی الم کی رسالت کا معترف ہے وہ آپ صلی تعلیم کی بیان کردہ ہر خبر کو سچ جانے گا۔ جن دلائل سے آپ ﷺکی رسالت کا ثبوت بطریق تو اتر ہمارے لیے ثابت ہے اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد آپ صلی علیم کے زمانہ میں اور قیامت تک آپ صلی ایم کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ جو آپ صلی علی نام کی اس بات میں شک کرے گا وہ آپ صلی تعلیم کی رسالت میں شک کرے گا۔ جو شخص کہے کہ آپ صلی علی ایم کے بعد دوسرا نبی تھا یا آپ صلی اللی ایم کے بعد دوسرا نبی ہے“ یا ” آپ صلی الیم کے بعد دوسرا نبی ہو گا“ اسی طرح جو شخص کہے کہ آپ صلی ایام کے بعد کسی نبی کے آنے کا امکان ہے “ تو وہ کافر ہے، یہی خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر صحیح ایمان کی شرط ہے۔15

باب سوم: عقیدہ ختم نبوت کے دلائل

فصل اول:

قرآنی آیات کی روشنی میں۔

فصل دوم:

احادیث رسول صلی الم کی روشنی میں۔

فصل سوم:

سواد اعظم کی روشنی میں۔

فصل چهارم:

عقل صحیح کی روشنی میں۔

فصل اول: عقیدہ ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں

عقیدہ ختم نبوت سے متعلق قرآن کریم میں بے شمار صریح آیات ہیں، اُن میں سے چند حصول برکت کے لیے ذکر کی جاتی ہیں۔ الحمد للہ مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ عزوجل نے ایسا فرمایا ہے اور اس چیز کا حکم دیا ہے، یا اُس کے محبوب خاتم النبیین صلی علیم نے یہ بات یوں ارشاد فرمائی ہے یا اپنے غلاموں کو یہ حکم دیا ہے ، پھر وہ مسلمان مرد ہو خواہ عورت کسی قسم کا تامل کیے بغیر اُسے قبول کر لیتے ہیں، اُس حکم کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور مصروفِ عمل ہو جاتے ہیں، چاہے انہیں اُس کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے ، ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَلًا مُّبِينًا 16
” اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ ورسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صریح گمراہی بہکا“۔

اور فرماتا ہے:

ما اتكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهُكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ 17
اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے“۔

عقیدہ ختم نبوت کی آیات:

عقیدہ ختم نبوت سے متعلق ذیل میں چند آیات پر اکتفا کیا جاتا ہے:

1۔ قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّي الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ18
”تم فرماؤ: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جلائے اور مارے تو ایمان لاؤ اللہ اور اسکے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ“۔

تفسیر خزائن العرفان“ میں ہے:

یہ آیت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عموم رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام خلق کے رسول ہیں اور گل جہاں آپ کی اُمت۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے حضور فرماتے ہیں:

پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں ۔۔۔ انہیں میں فرمایا: ”ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔۔۔ اور میں تمام خلق کی طرف رسول بنایا گیا اور میرے ساتھ انبیاء ختم کئے گئے“۔

آیت مذکورہ پر غور فرمائیے اس سے پہلے مختلف پیغمبروں کا تذکرہ ہے ان کے مخاطب محدود تھے، اُن کی تبلیغ کا دائرہ محدود تھا۔ اپنی آبادی کو ”یا قَوْمِ “ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں اور تبلیغ کی حدود متعین کر رہے ہیں۔ اُن کے بعد حضور علیہ السلام کا ذکر آتا ہے قل“ کہہ کر حضور کی شان بڑھائی جاتی ہے دوسرے انبیاء علیہم السلام کے متعلق اللہ رب العزت صرف یہ خبر دیتا ہے کہ ہم نے اُن کو فلاں قوم اور فلاں علاقے کی طرف بھیجا اور اُنھوں نے ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا لیکن حضور علیہ السلام کی نبوت کے تذکرے میں اللہ نے پہلا انداز بیان بدل دیا، اپنی کامل نمائندگی اور نیابت عطا فرمائی۔ حاکمانہ حیثیت دے کر حاکمانہ انداز میں اعلان کرنے اور فرمان دینے کی شان ظاہر فرمائی اور اس اعلان کا حق و اختیار خود آنحضور ﷺ کو دیا کہ آپ خود کہہ دیں کہ آپکی تصدیق سے دوسرے انبیاء کی نبوتیں ثابت ہوتی ہیں۔ لہذا اپنے حق میں آپ کا اعلانِ نبوت کافی و وافی ہے۔ اور حضور علیہ السلام کے اعلان و فرمان کا مخاطب کوئی خاص علاقہ یا آبادی نہیں بلکہ تمام انسانیت کو بحکم الہی آپ اپنا مخاطب بنا رہے ہیں اور اپنے دائرہ رسالت میں لے رہے ہیں، اگرچہ النَّاسُ“ کے لفظ میں تمام انسان تا قیامت داخل ہو گئے ، پھر بھی ”جميعاً کہہ کر اپنی ”عالمگیر رسالت کی سرحدیں اور فصلیں مضبوط کر دیں کہ کوئی انسان کسی طرح اس دائرہ رسالت سے باہر نہ جا سکے۔

قرآن مجید کے اس اسلوب بیان میں بتایا گیا کہ جس طرح آسمان وزمین کی کوئی چیز اللہ جل شانہ کی ملکیت سے باہر نہیں اسی طرح نوع انسانی کا کوئی فرد رسالت محمدی کی حدود سے باہر نہیں ہے۔ آسمان اور زمین کی حدود میں اگر کوئی شخص خدائی کا دعویٰ کرے تو وہ مجرم ہو گا ، اسی طرح آسمان اور زمین کی حدود میں اگر کوئی شخص قرآن مجید کے مذکورہ اعلان کے بعد دعوائے نبوت ورسالت کرے مجرم ہو جائے گا۔ نہ کوئی لا إِلهَ إِلَّا الله کی حدیں توڑ کر الوہیت اور خُدائی میں شریک ہو سکتا ہے اور نہ حضور علیہ السلام کی آمد اور اس اعلان کے بعد محمد رسول اللہ ﷺکی نبوت و رسالت کی حدیں توڑ کر نبوت ورسالت میں شریک ہو سکتا ہے۔ وہ تمام مدعیان نبوت جو کلمہ طیبہ :لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله“ اور اس آیت کریمہ کے اعلان کے بعد ظاہر ہوئے وہ سب دائرہ ”ایھا سے باہر، کلمہ طیبہ کے مخالف اور قرآن کے باغی ہیں کیونکہ وہ مدعیان نبوت نہ آسمان والوں کی طرف نبی اور رسول ہو سکتے ہیں اور نہ زمین والوں کی طرف کیونکہ یہ تمام علاقے اللہ کی ملکیت، محمد رسول اللہﷺکی رسالت اور کلمہ طیبہلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ کے احاطے میں ہیں۔ لہذا مسیلمہ کذاب سے لے کر قیامت تک جو کوئی بھی اپنی نبوت کا دعویدار ہے وہ رسالت محمدی علیہ السلام کا باغی ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس کا ئنات میں نہ کسی کو دعوائے خدائی کا حق ہے اور نہ ظہور محمدی علیہ السلام کے بعد دعوائے رسالت کا حق ہے جو لوگ ”نبی“ بننے یا کہلانے کا حوصلہ رکھتے ہیں انھیں چاہیے کہ اللہ کی اس کائنات اور اللہ کے پیدا کئے ہوئے انسانوں سے باہر جا کر نبوت کا دعویٰ کریں۔ اگر یہ ممکن نہیں اور ہر گز ممکن نہیں ہے تو پھر اپنے کافرانہ اور باغیانہ دعوے سے باز آئیں اور کلمہ توحيدلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ “ کا دل اور زبان سے اقرار کر کے رسالت محمدی علیہ السلام کے آگے سر جھکا دیں اور اپنے دعوائے نبوت سے توبہ کریں۔19

2۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 20
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سبنبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے“۔

تفسیر خزائن العرفان “ میں ہے:

یعنی: آخر الا نبیاء ہیں کہ نبوت آپ پر ختم ہو گئی آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتی کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے، نص قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث تو حد تواتر تک پہنچتی ہیں۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم ﷺہم سب سے آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے ، وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے “۔ اس آیت کی مزید تفصیل اور اس پر اعتراضات کا ذکر باب چہارم کی فصل اول میں آئے گا۔

وَمَا أَرْسَلْتُكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ 21
”اور اے محبوب! ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیر نے والی ہے، خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے“۔

خزائن العرفان “ میں اس آیت کے تحت ہے :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت عاملہ ہے تمام انسان اس کے احاطہ میں ہیں گورے ہوں یا کالے ، عربی ہوں یا مجھی، پہلے ہوں یا پچھلے سب کے لیے آپ ”رسول“ ہیں اور وہ سب آپ کے امتی “۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے سید عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا فرمائی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئیں۔۔۔۔“ یہاں تک کہ فرمایا: ” اور انبیاء خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا“۔

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِةٍ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ 22
” پیروی کرو جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر اُتارا گیا اور نہ پیروی کرواس کے سوا دوستوں کی، بہت ہی کم سمجھتے ہو“۔

یہ حکم تمام مؤمنین کے لیے ہے کوئی ایمان کا مدعی ہے اور مومن کہلانا چاہتا ہے اس کے لیے محمد مصطفی صلی اعلی تم پر نازل شدہ وحی کے سوا اور کسی وحی کی پیروی کی ضرورت نہیں۔ بلکہ وحی محمدی کے علاوہ ہر کسی کی اتباع ممنوع ہے۔ اگر کوئی شخص وحی محمدی کے علاوہ اپنی کسی وحی کا ذکر کرے، تو مومن کا فرض ہے کہ اسے ٹھکرا دے۔ اگر کوئی شخص وحی محمدی کو پڑھ کر سنائے چونکہ وہ اپنی طرف سے کسی وحی کا دعویدار نہیں ہے، تو وہ حضور کا متبع ہے۔ وہ جب اپنے لیے وحی کا مدعی نہیں ہے تو نبوت کا بھی مدعی نہیں ہے، کیونکہ وحی و نبوت لازم و ملزوم ہیں۔ جو نبی ہے وہ صاحب وحی ہے جو صاحب وحی ہے وہ نبی ہے۔ یہاں وحی سے مراد اصطلاحی وحی ہے یعنی اللہ رب العزة کسی برگزیدہ انسان کو براہ راست یا فرشتے کے واسطے سے پیغام دے کر انسانوں کی ہدایت پر مقرر فرمائے۔ ایسی وحی کے حامل ”نبی“ کہلاتے ہیں۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا 23
”آج کے دن میں نے تمہارے لیےتمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے سے راضی ہو گیا“۔

دین کی تعریف:

”دین“ اس مجموعہ قوانین و ہدایت کا نام ہے جو عقائد واعمال کے تمام مسائل کو گھیرے ہوئے ہوں۔ دین اور اُس کے بنیادی مسائل انسانی ذہن کا نتیجہ نہیں ہوتے کیونکہ انسانی فیصلے اس کے محسوس و غیر محسوس شعوری و غیر شعوری جذبات سے متاثر ہو سکتے ہیں اور قوانین مستقبل کے لیے بنائے جاتے ہیں اور انسان مستقبل سے نا واقف ہوتا ہے لہذا انسان صحیح قانون نہیں بنا سکتا۔ بلکہ اللہ رب العزة کی طرف سے قوانین نازل ہوتے ہیں اور قوانین الہیہ کی تعلیم کے لیے نبی بھیجے جاتے ہیں کہ وہ اللہ جل مجدہ سے احکام و ہدایات لیں اور بندوں تک پہنچائیں۔ جو کوئی نبی کے لائے ہوئے دین کو بخوشی قبول کرے گا اس کا اپنا فائدہ ہے اور جو انکار کرے اپنا نقصان کرے گا ، اللہ ان سب سے قیامت میں حساب لے گا۔ دین اعمال و عقائد کا مجموعہ ہے، لہذا دین کے کامل ہو جانے کے بعد نہ اعتقادی مسائل میں کمی بیشی یا تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ عملی احکام میں کوئی رد و بدل کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے۔

آیت مذکورہ عنوان میں اللہ رب العزت نے دن اور تاریخ کی قید کے ساتھ 66 اعلان کر دیا کہ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا۔ ”اليوم “ کہہ کر اللہ نے یہ معاشرتی حقیقت بتا دی کہ جس اعلان اور دستخط کے ساتھ ان پر : ن پر تاریخ درج نہ ہو انتظامی معاملات میں وہ قانون واعلان نا مکمل ہوتا ہے اور معتبر نہیں ہوتا۔ یہ اعلان ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام کے سامنے ہوا، یعنی عرفات کے میدان میں جمعہ کے دن نو (۹) ذی الحجہ سنہ10ھ کو، لہذا دنیا و آخرت کے تمام نظام انتظام کی روشنی میں یہ فرمان بھی ہر اعتبار سے کامل و معتبر ہے۔ اس اعلان کے بعد کسی لحاظ سے بھی دین کے اندر کمی و بیشی یا تبدیلی کی کوئی گنجائش نہ حال میں ممکن ہے نہ مستقبل میں نہ اللہ کا علم غلط ہو سکتا ہے اور نہ اس کا اعلان جھوٹ ہو سکتا ہے۔

اگر اللہ کے اس اعلان کے بعد کسی نبی یا کسی نئے حکم کی گنجائش مان لی جائے تو اس سے دو اہم خرابیاں پیدا ہوں گی۔ اوّل یا تو خدا کا اعلان غلط یا جھوٹ ہو گا۔ دوم نئے آنے والے نبی کا منکر ، دین کامل پر نکر ، دین کامل پر رہتے ہوئے جہنم میں داخل ہو گا، کیونکہ اس نے اللہ کے نبی کا انکار کیا جو کفر ہے ، کمالِ دین کے ساتھ کفر کی آلودگی کا خیال جنون و دیوانگی ہے۔ کمال دین جنت میں لے جائے گا اور کفر جہنم میں دھکیلے گا، فیصلے میں اللہ تعالیٰ کیا کرے۔۔۔!؟۔ 24

اتمام نعمت اور ختم نبوت:

خوشی اور خوشی کے اسباب، خوشحالی اور خوشحالی کے اسباب کو نعمت “ کہتے ہیں۔ یہ نعمت دینی ہو دنیاوی ہو ، مالی ہو جسمانی ہو ، ماڑی ہو یا روحانی ہو، اللہ کی نعمت ہے۔ نعمتیں انفرادی اور شخصی بھی ہوتی ہیں اجتماعی اور قومی بھی۔ اجتماعی اور قومی نعمتوں میں ہر شخص کو قوم کے فرد کی حیثیت سے انعام یافتہ قرار دیا جاتا ہے اور قوم کا وہ فرد و شخص جو قومی نعمت کا مرکز و مظہر ہوتا ہے. اس کے حق میں یہ نعمت ذاتی اور شخصی بھی ہوتی ہے اور قومی اور اجتماعی بھی۔ قومی نعمتوں میں ہر شخص بالذات اور براہ راست صاحب نعمت نہیں ہوتا بلکہ صاحب نعمت کی ذات اور مظہر نعمت کا وجو دو فیضان قوم کے حق میں نعمت ہے۔

مثلاً اہل پاکستان انگریزوں کی غلامی میں تھے ، اللہ رب العزۃ نے غیروں کی غلامی سے نجات دی اور پاکستانیوں کو ہندؤوں کی ماتحتی سے بچا لیا۔ اللہ رب العزۃ کا یہ کرم تمام مسلمانان پاکستان کے حق میں نعمت “ ہے اور پوری قوم ” انعام یافتہ “ ہے، اگرچہ ہر پاکستانی کے سر پر اقتدار حکومت کا تاج نہیں رکھا گیا اور نہ یہ ممکن ہے پھر بھی پوری قوم آزادی کی نعمت سے بہرہ ور اور انعام یافتہ ہے۔ اللہ رب العزۃ نے فرمایا:

وَ إِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا 25
” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! یاد کر واللہ کی نعمت کو جو تم پر ہوئی کہ تم لوگوں میں انبیاء پیدا کیے اور تم لوگوں کو بادشاہ بنایا “۔

اس نعمت کی مخاطب موسیٰ علیہ السلام کی پوری قوم یعنی ”بنی اسرائیل “ ہیں، لیکن ان میں ہر فرد نہ نبی ہوا اور نہ ہر فرد بادشاہ ہوا۔ یہ نعمت نبوت اور نعمت بادشاہت چونکہ قومی اور اجتماعی نعمت ہے، لہذا تمام بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا احسان مند ٹھہرایا جا رہا ہے اور ان کی یاد آوری ہر ایک کا فرض ہے۔

اسی طرح اللہ رب العزۃ نے سورہ جاثیہ میں ارشاد فرمایا:

وَلَقَدْ أَتَيْنَا بَنِي إِسْرَاءِيلَ الْكِتَبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ 26
” بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکم اور نبوت عطا کی “۔

اس کے مخاطب تو تمام بنی اسرائیل ہیں اگرچہ حکم اور نبوت چند افراد کو ملی، مگر تمام بنی اسرائیل احسان مند ہیں کیونکہ یہ نعمتیں قومی اور اجتماعی ہیں، ان کا نفع چند افراد میں محدود نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزة نزول قرآن کے وقت بنی اسرائیل کو ان نعمتوں کا مخاطب اور احسان مند قرار دے رہا ہے جو نعمتیں نزول قرآن کے زمانے سے سینکڑوں ہزاروں سال پہلے بنی اسرائیل کے آباء واجداد پر ہوئی تھیں۔

ہر اسرائیلی ان نعمتوں کا انعام یافتہ قرار دیا جارہا ہے، حالانکہ ظہور اسلام کے وقت بنی اسرائیل میں نہ کوئی نبی تھا نہ کوئی بادشاہ نہ وہ فرعون کی غلامی سے نجات پانے والوں میں سے تھے نہ من و سلویٰ کھانے والے اور نہ فلسطین کے حکمراں۔

نعمت و اتمام نعمت کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعدالْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي کا مقصد سمجھنا دشوار نہیں ہے۔ اگر نعمت سے مراد نعمت نبوت“ لی جائے تو بلاشبہ یہ نعمت تمام ہو گئی، اس نعمت کے تمام ہونے کے بعد آئندہ کے لیے نبوت کا دروازہ بند ہو گیا، کیونکہ گزشتہ زمانوں میں جہاں نعمت کے تمام ہونے کا ذکر ہے وہاں مخاطب خاص افراد ہیں: مثلا ارشاد ہوتا ہے:

وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَ عَلَى آلِ يَعْقُوْبَ كَمَا أَتَتَهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ 27
اور اسی طرح تجھے تیر ارب برگزیدہ کرے گا اور تجھ کو باتوں کی تعبیر سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھ پر تمام کرے گا اور یعقوب کی اولاد (اسرائیلی انبیاء) پر جیسا نعمت کو تمام کیا پیشتر تیرے باپ ابراہیم اور اسحاق پر۔

ان کلمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن خاص افراد کے حق میں نعمت تمام ہوئی، ان سب کو کامل نبوت ملی ناقص نبوت نہیں ملی اور نبوت ناقص ہوئی بھی نہیں ہے۔ یہ حضرات کامل نبی تھے ان کے مقابلے میں پیش نظر آیت وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي کا خطاب خاص افراد کو نہیں بلکہ ساری اُمتِ محمد یہ تا قیامت اس کی مخاطب ہے، پہلے مخاطب تمام صحابة و صحابیات ہیں جو تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد میں میدان عرفات میں حجۃ الوداع کے موقع پر آیت نازل ہوتے وقت حاضر تھے۔ صحابیات عور تیں تھیں وہ نبی نہیں ہو سکتی تھیں۔ مگر صحابہ تو مرد تھے اور اس ” اتمام نعمت “ کے مخاطب اول تھے پھر ان میں سے کوئی نبی نہیں ہوا۔۔۔! حالانکہ ” اتمام نعمت “ کا اعلان ان سب کے حق میں ہو رہا ہے۔

اتمام نعمت کا یہ اعلان عہد بہ عہد تابعین اور اتباع تابعین سے آج تک اور قیامت تک قائم ہے۔ تمام صحابہ نہ شخصی نبوت کے دعویدار تھے اور نہ حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد کسی نئے نبی کے وسیلے سے اجتماعی اتمام نعمت، یعنی: نبوت کے قائل تھے ، بلکہ رسول اللہ صلی السلام کے بعد نبوت کے ہر نئے دعویدار اور اس کے متبعین کو بلا استثناء مرتد و کافر سمجھتے اور ان سے قتال کو فرض قرار دیتے تھے۔

قرآن کا اعلان واضح ہے کہ محمد رسول اللہ صلی علیم کا لایا ہو ا دین کامل ہے، جس میں ترمیم و تنسیخ اور رد و بدل نہیں ہو سکتا اور نبوت کی نعمت رسول اللہ صلی علیم کی ذات سے اُمت کے حق میں اجتماعی و قومی نعمت ہوتی ہے، وہ تمام و کامل ہو گئی۔ آپ صلی الیم کے بعد بھی اگر اُمت کے حق میں ظہور نبی کی گنجائش رہتی ہے انفرادی و اجتماعی طور پر نئے نبی کے وسیلے سے نئی نعمت کے حصول کا امکان رہتا ہے تو سوال پیدا ہو گا کہ اُمت کے حق میں نبوت کی یہ نئی نعمت نا تمام و ناقص یا تمام و کامل ہے یا پہلی نعمت سے افضل و اعلیٰ ہے؟ یہ تینوں صورتیں باطل ہیں کیونکہ نئی نبوت کی نعمت اگر اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِیکی نعمت سے افضل واعلیٰ ہے ، تو قرآن کا اعلان غلط ہوتا ہے اور اللہ رب العزة کا فرمان جھوٹا ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی حیثیت ناقص و کم رتبہ قرار پاتی ہے۔

اگر نبوت کی نئی نعمت ”محمدی نبوت“ کے مقابلے میں ناقص ناتمام ، ادھوری اور کم رتبہ ہے تو اللہ رب العزة کا نئے نبی بھیجنے کا فعل حکمت و دانائی کے خلاف ہے کہ ہفت اقلیم کے بادشاہ کو ایک ناقص سکہ یا ایک ایکڑ زمین انعام دے اور اپنا احسان جتائے اور اگر نئی نبوت کی نعمت پہلی نعمت کی طرح تمام و کامل ہے، تو اللہ رب العزۃ کا یہ فعل فضول و عبث ہو جاتا ہے اور یہ نبوت تحصیل حاصل کہلائے گی، جو محال ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِیکے اعلان کے بعد اُمت کے حق میں کسی نئے نبی کی آمد کا دروازہ بند ہو چکا ہے کیونکہ عَلَيْكُمْ( تم سب پر ) کی مخاطب پوری امت محمد یه تا قیامت ہے۔ اور آپ صلی علیہ یکم تمام کے تمام انسانوں کے لیے خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے ہیں، لہذا انوع انسانی میں اب کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہو گا ۔28

اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی پر اعتراض کا جواب:

اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی کا جملہ بھی بہت بلیغ ہے اور آئندہ کے لیے نئی وحی اور نئے نبی کی گنجائش کو ختم کر دیتا ہے، آیت مذکورہ کے نزول کے وقت سے لے کر آج تک تمام مومن اللہ کے اس انعام کے مخاطب ہیں اور ہر ایک کے حق میں اتمام نعمت کا اعلان ہے جو کوئی اللہ کا پسندیدہ دین قبول کرتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو بے شک وہ دین کامل پر ہے اور اللہ کی نعمت اس کے حق میں مکمل اور تمام ہو جاتی ہے۔

بعض لوگ نعمت سے مراد ” مقام نبوت " لیتے ہیں، یہ خود مغالطے میں مبتلا ہو کر سیدے سادھے مسلمانوں کو سورہ فاتحہ اور سورۂ نساء کی آیات پڑھ کر گمراہ کرتے ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب اس صراطِ مستقیم پر چل کر ہم زمرہ صالحین میں شہداء میں اور صدیقین میں داخل ہو سکتے ہیں تو زمرہ نبیین “ کی صف میں کیوں داخل نہیں ہو سکتے ؟

اس کا جواب تفصیل سے ” قرآنی آیات اور تفسیر پر اعتراضات کے ضمن میں آئے گا، لیکن یہاں صرف یہ بیان کرنا ہے کہ نعمت و انعام کی یہ تشریح اور اس سے نبی بن جانے کا حوصلہ محض قرآن نہ سمجھے اور زبان وادب کے شرائط و قواعد کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ دلیل کا یہ طریقہ بالکل وہی ہے جیسے کوئی کہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ترجمہ : ”اللہ اپنے نفس سے تم کو ڈراتا ہے“۔

وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ 29

اور دوسری جگہ اسی قرآن میں ہے:

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ 30
”ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے“۔

لہذا اللہ نے جب اپنے کو نفس کہا، تو اس کو بھی موت کا مزہ چکھنا ہو گا معاذ اللہ، یہ انداز فکر بالکل غلط اور سراسر کفر ہے کہ انعام پانے والوں میں نبی بھی ہیں اور اُمتی بھی لہذا امتی بھی ”نبی “ ہو جاتے ہیں اور وہ بھی حضور اکرم علیہ السلام کی تشریف آوری اور دین کے کامل ہونے کے بعد ۔۔ !

أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ کے سلسلے میں لوگوں سے جو غلطیاں ہوئیں، ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ کلام کے ان اصولوں سے غافل ہو گئے کہ ہر کلام و گفتگو کا مقصد اپنے موقع و محل اور شرائط و قواعد کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے یہ اندھے کی لاٹھی نہیں ہے کہ جدھر چاہا گھما دیا۔

آیت مبارکہ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِی وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ کے مخاطب اول صحابہ کرام اور اُن کے بعد عہد بہ عہد تمام مسلمان ہیں ۔ ”تمام نعمت“ کے معنی اگر مقام نبوت پر فائز ہونا ہے تو کم از کم تمام صحابۂ کرام جن کے ایمان و عمل کو قرآن نے سراہا اور دوسروں کے لیے معیار اور کسوٹی بنایا، اُن پر تو لا محالہ اللہ تعالیٰ کی نعمت تمام ہو چکی ہے اور وہ سب منکرین ختم نبوت کے بیان کے مطابق نبی ہو گئے ہوں گے ؟ اور اُن کے بعد تمام مومن ”نبی“ ہوں گے ؟ گویا دین کامل اسلام کا ہر پیروکار ”نبی“ ہے ، تو اس میں منکرین کے گروہ جی کی کیا خصوصیت رہی ؟ اُنھوں نے اپنے حق میں نبوت کا دعویٰ کر کے اور دوسرے تمام مومن صحابہ و تابعین سے آج تک کے مقام نبوت کا انکار کیا تو اس سے انکار نبوت کا جرم “ ان پر آتا ہے اور اگر یہ منکرین اپنی جیسی نبوت تمام مسلمانوں کے حق میں تسلیم کرتے ہیں تو پھر یہ اعلان اور دعویٰ ایک بے حیثیت ، بے حقیقت اور مذاق بن جاتا ہے۔ الغرض اسلام دین کامل ہے ، نئی وحی اور نئے نبی کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یاد رہے رفاقت سے متعلق سورۂ نساء کی آیت کا تعلق آخرت کے انعام سے ہے، دنیاوی انعام سے اس کا تعلق نہیں۔

نبی کی آمد اور نبوت و وحی کا دعوی دنیاوی زندگی سے متعلق ہے۔ لہذاوہ انعامات جن کا تعلق آخرت سے ہو ، اُن کو دنیاوی نعمتوں میں شامل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص اپنے باغ کو جنت الفردوس قرار دیدے ۔31

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ 32
” اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب ! تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اُترا اور آخرت پر یقین رکھیں“۔

ہدایت یافتہ لوگوں کی توصیف بیان کی گئی ہے کہ فلاح و ہدایت والے وہی لوگ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں رسول اللہ صلی اعلام پر نازل کردہ وحی و کتاب پر اور اُن وحی و کتاب پر جو آپ سے پہلے نازل ہوئیں اور قیامت و دار آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

یہاں دو باتیں ذہن نشین رہنی چاہئیں، اول: رسول اللہ صلی الم پر اللہ رب العزت نے وحی نازل کی اور آپ صلی العلیم سے پہلے نبیوں پر وحی نازل کی، آپ صلی الیم کے بعد وحی اترنے کا نہ کوئی ذکر ہے اور نہ فلاح و ہدایت کے لیے ایسی کسی وحی کی گنجائش ہے، ور نہ گزشتہ وحیوں کے ساتھ آپ صلی علیم کے بعد آنے والی وحی کی طرف اشارہ کر کے مومنین کو ہدایت دی جاتی اور ایمان لانے کا کہا جاتا ، اگر چہ اجمالاً ہی سہی۔

بلکہ یہاں قرآن مجید نے بالآخِرَةِ کہہ کر آئندہ کسی نئے نبی اور نئی وحی کی آمد کا تصور ہی ختم کر دیا اور صاف صاف یہ بتا دیا کہ آپ صلی الیم کے بعد کسی نبی ووحی کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ آپ صلی الیم کے بعد قیامت کی منزل ہے۔ آپ صلی الم سے پہلے نبی ووحی کی گنجائش تھی اور وحی آئی آپ صلی الیم کے بعد وحی نہیں آئے گی بلکہ قیامت آئے گی اور حدیث شریف میں بھی یہی ہے:(آنا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ)، یعنی: رسول الله ﷺنے درمیانی انگلی اور انگشت شہادت کو ملا کر فرمایا کہ میں اور قیامت ان دونوں اُنگلیوں کی طرح ملے ہوئے اور متصل ہیں، یعنی: میرے بعد قیامت ہے کوئی نیا نبی آکر درمیان میں حائل نہیں ہو گا اور نہ فاصلہ بنے گا۔ رسول اللہ ﷺہم تک نبیوں اور وحیوں پر ایمان رکھنے والے ہی ہدایت پر ہیں اور فلاح پانے والے ہیں آئندہ نہ کسی وحی کی گنجائش 23 اور نہ ان پر ایمان لانا ہدایت و فلاح ہے ۔33

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَةً لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ ايْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ34
” اور جہاں کہیں جس زمانے میں تم ہو اپنا منہ کعبہ کی طرف کرو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف حجت نہ رہے مگر وہی لوگان میں سے جنہوں نے ظلم کیا (کفار) تو تم کافروں سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو اور یہ (قبلہ) اس لیے کہ میں تم لوگوں (مسلمانوں) پر اپنی نعمت تمام کر دوں اور تم (کعبہ کو قبلہ ) بایں اُمید اختیار کرو کہ ہدایت پر رہو ، جیسا کہ ہم نے تم میں رسول بزرگ بھیجا تمہیں میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت کریں اور تمہیں پاک وصاف کریں اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں اور تمہیں وہ تعلیم دیں جو تم نہیں جانتے تھے“۔

اللہ رب العزت نے اپنے اس ابدی کلام میں دوسرے پارے کے آغاز سے قبلہ کی اہمیت کو تفصیل سے بیان کرنا شروع کیا اور بالآخر قیامت تک کے لیے یہ حکم دے دیا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی اور جس زمانے میں بھی ہوں کعبہ کی طرف رخ کریں اور ہمیشہ کے لیے کعبہ کو قبلہ بنا لیں، کعبہ ان کا دائمی قبلہ ہے جو کبھی بدلا نہ جائے گا۔ قبلہ کی ابدیت، اسلام کے دوام وابدیت کی دلیل ہے اور تمام مسلمانانِ عالم کی وحدت کا مرکز اور ایک ملت ہونے کا روشن و تابندہ ثبوت ہے۔ جو کوئی اُمت مسلمہ کی اس وحدت کو توڑے یا اس وحدت کو دیکھ کر بھی طعنہ زن ہو وہ ظالم ہے۔

اللہ رب العزت اس عالمی غیر متبدل قبلہ کو بھی ہم مسلمانوں کے لیے اپنا عظیم احسان بتارہا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ عالمی و دائمی قبلہ اس لیے عطا کیا تا کہ

وَلا تُمَّ نِعْمَتِی عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
یعنی : ”تم پر اپنی نعمت تمام کر دوں اور تاکہ اس آخری قبلہ سے وابستہ رہ کر تم ہدایت پر رہو ۔

اس اعلان کے ساتھ ہی ایک دوسرا اعلان ہوتا ہے کہ

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ
یعنی: جیسا ہم نے تم میں ایک رسول تم میں سے بھیجا۔

لفظ ”کہا" تشبیہ کے لیے ہے ، یعنی جس طرح ایک دائمی وابدی قبلہ عطا کر کے ہم نے تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسی قبلہ کی وابستگی سے تم ہمیشہ ہدایت پر رہو گے یہ آخری قبلہ ہے اس کے بعد کسی اور قبلہ کا تصور ظلم و کفر ہے۔ اسی طرح ہم نے تم میں ایک ابدی دائمی عالمی ہر زمانی و ہر مکانی رسول بھیجا، رسالت کی نعمت بھی تم پر تمام کر دی ان رسول کے ذریعے تمہیں کتاب و حکمت بخشی۔ نہ اس قبلہ کے بعد قبلہ ہے نہ ان رسول کے بعد کوئی رسول ہیں اور نہ اس کتاب و حکمت کے بعد کوئی کتاب و حکمت ہے، کیونکہ جب رسول کی آمد بند ہو گئی تو کتاب و حکمت کا نزول بھی ختم ہو گیا۔ یہی قبلہ ہر زمانہ کے لیے قبلہ ہے اور آپ صلی علیہ ہم ہر زمانے کے لیے رسول ہیں۔ قبلہ کی نعمت کعبہ پر تمام ہوئی ، وحی و کتاب کی نعمت قرآن پر تمام ہوئی، دین کی نعمت اسلام پر تمام ہوئی۔ اب کوئی شخص اللہ رب العزت کی ان کامل نعمتوں اور واضح اعلانات کو قبول نہ کرے اور اس کے خلاف حجت کرے تو وہ ظالم و کافر ہے 35

وَمَا أَرْسَلْتُكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ 36
” اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام انسانوں کے لیے خوشخبری دینے وااور ڈرانے والا مگر بہت لوگ نہیں جانتے“۔

اس آیت میں ”ما نفی کا حرف ہے اور ” لا “ حرف استثناء۔ ان دونوں حرفوں کے اجتماع سے حصر و تخصیص پیدا ہوئی یہ حصر و تخصیص بشیر و نذیر کے مفہوم میں نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید دوسرے مقامات پر واضح کر چکا ہے کہ ہر نبی بشیر و نذیر ہوتے ہیں۔

چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ الله النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ وَانْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ 37
لوگ ایک اُمت تھے تو اللہ نے نبیوں کو بھیجا بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری “۔

لہذا نبوت کی یہ دونوں صفتیں محمد رسول اللہ صلی علیم کے لیے خاص نہیں ہیں اور نہ یہ دونوں وصف آنحضرت صلی علم کی نبوت“ میں منحصر ہیں۔ لا محالہ ” وَمَا “ اور ” إِلَّا“ کا حصر و تخصیص كَافَّةً لِلنَّاسِ (تمام نوع انسانی کے لیے) کے ساتھ ہے۔ یعنی: آپ صلی الی یوم دوسرے تمام نبیوں کی طرح بشیر و نذیر ہیں، مگر آپ کی نبوت اور بشارت و نذارت گل کی گل تمام نوع انسانی کے لیے ہے۔ یہ نبوت آپ صلی ٹیم کے لیے خاص ہے آپ صلی علیم کے سوا اور کسی نبی کو عالمی نبوت حاصل نہیں ہوئی۔ جب تک علاقائی اور خاندانی نبوت کی گنجائش تھی انبیاء آتے رہے۔ جب نوعی و ہمہ انسانی نبوت کے مالک آگئے تو نبوت کا خاتمہ ہو گیا، کیونکہ اب علاقائی نبوت کی ضرورت نہیں رہی اور عالمی نبوت محمد رسول اللہ صلی اللی کیم کی خصوصیت ہے ۔ 38

فصل دوم: احادیث رسول صلی الم کی روشنی میں

مولانا احمد رضان خان حنفی حمہ اللہ نے ایک صرف رسالہ میں ”ختم نبوت“ کے بارے میں اکہتر صحابہ کرام اور گیارہ تابعین عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ایک سو میں احادیث نقل کی ہیں 39 ۔ اتنے راویان حدیث کی تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے، جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اور کسی متواتر چیز کا انکار کرنا اسلام سے خارج کر دیتا ہے، خصوصاً جبکہ وہ چیز ضروریات دین سے ہو۔ من جملہ عقیدہ ختم نبوت“ بھی انہی احکام سے ہے، جس کا ثبوت تواتر سے ہے۔ اس حدیث کے راویان کے اسمائے گرامی کا بیان فصل سوم میں آتا ہے۔ من جملہ اس باب میں مروی احادیث شریفہ سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

1- " صحیح مسلم شریف و مسند امام احمد و سنن ابو داؤد و جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ وغیر ہا میں ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَابُونَ ثَلْثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِي وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي 40
ہ:
بیشک میری اُمت میں ( یا میری اُمت کے زمانے میں ) تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

2۔ امام احمد مسند “ اور طبرانی ” معجم کبیر “ اور ضیائے مقدسی ” صحیح مختارہ“ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللیم فرماتے ہیں:

يَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ وَدَجَّالُونَ سَبْعَةَ وَعِشْرُونَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ نِسْوَةً وَأَنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي 41
میری اُمت میں ستائیس دجال کذاب ہونگے ان میں چار عور تیں ہوں گی حالانکہ بیشک میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

مذکورہ احادیث میں نئے ”نبی“ کی نفی کی گئی ہے رسول کی نہیں، تو کیا نیا ”رسول“ آسکتا ہے ؟ جواب آنے والی حدیث میں ہے:

3- احمد و ترمذی و حاکم بسند صحیح بر شرط صحیح مسلم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِي 42
بیشک رسالت و نبوت ختم ہو گئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔

4- اجله ائمه بخاری و مسلم و ترمذی و نسائی و امام مالک و امام احمد وابو داؤد طیالسی وابن سعد و طبرانی و حاکم و بیهقی وابو نعیم و غیر ہم حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَهَيَّ وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِي 43
”بیشک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے ، میں حاشر ہوں میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم 44

5- صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن ترمذی و تفسیر ابن ابی حاتم و تفسیر ابن مردویہ میں جابر رضی اللہ عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمَثَلِ رَجُلٍ ابْتَنَى دَارًا فَأَحْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ فَكَانَ مَنْ دَخَلَهَا فَنَظَرَ إِلَيْهَا قَالَ: مَا أَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ فَخُتِمَ بِيَ الْأَنْبِيَاءُ . 45
میری اور نبیوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک مکان پور ا کامل اور خوبصورت بنایا مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی تو جو اس گھر میں جاکر دیکھتا کہتا یہ مکان کس قدر خوب ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ کہ وہ خالی ہے تو اس اینٹ کی جگہ میں ہوا مجھ سے انبیاء ختم کر دئے گئے۔

6۔ مسند احمد و صحیح ترندی میں بافادہ تصحیح ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

مَثَلِي فِي النَّبِيِّينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَاراً فَأَحْسَنَهَا وَأَكْمَلَهَا وَأَجْمَلَهَا وَتَرَكَ فِيهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ لَمْ يَضَعْهَا فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُوْنَ بِالْبُنْيَانِ وَيُعْجِبُونَ مِنْهُ وَيَقُولُونَ لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ هَذِهِ اللَّبِنَةِ فَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ مَوْضِعُ تِلَكَ اللَّبِنَةِ 46
پیغمبروں میں میری مثال ایسی ہے کہ کسی نے ایک مکان خوبصورت و کامل و خوشنما بنایا اور ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی وہ نہ رکھی لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی و خوشنمائی سے تعجب کرتے اور تمنا کرتے کسی طرح اس اینٹ کی جگہ پوری ہو جاتی تو انبیاء میں اس اینٹ کی جگہ میں ہوں “۔

حضور غزالی زماں علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کا ظمی رحمہ اللہ کا عجیب استدلال :

غزالی زماں کے ایک مناظرے کی رُو داد خود غزالی زماں کی زبانی نقل کرتے ہوئے مولانا مفتی ابراہیم القادری بیان کرتے ہیں کہ ”غزالی زماں نے قادیانیوں کے خلاف اپنی خدمات کے ضمن میں ایک واقعہ ارشاد فرمایا کہ میں کم سن تھا۔ ابھی میری داڑھی نہیں تھی، کہ میں قادیان گیا اور قادیانی علما سے مناظرہ کیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ”بخاری شریف کی حدیث ہے : رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا کہ میری اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے مکان بنایا " فَأَكْمَلَهَا“ اس نے اسے مکمل کیا اور حسین بنایا مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں اس کے حسن تعمیر پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش! یہ اینٹ کی جگہ خالی نہ ہوتی۔ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ میں ہی وہ اینٹ ہوں “۔

میں نے قادیانی علما سے پوچھا کہ نبوت کی عمارت میں فقط ایک اینٹ کی گنجائش تھی جسے حضور علیہ السلام نے پورا کر دیا۔ اب تم بتاؤ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کہاں ڈالو گے ؟ وہ سب خاموش ہو گئے اور سوچ میں پڑ گئے پھر ان میں سے ایک بولا: عزیز بات یہ ہے کہ جب عمارت بنائی جاتی ہے تو اس کا پلستر کیا جاتا ہے ، ہم مرزا کا پلستر کر دیں گے۔ میں نے کہا: تم مرزا صاحب کا پلستر بھی نہیں کر سکتے سرکار صلی الم نے فرمایا: ” فَأَحْمَلَهَا “ بنانے والے نے عمارت کو مکمل کر دیا اور پلستر کے بغیر عمارت مکمل نہیں ہو سکتی۔ پھر ایک اور نے ہمت کی اور وہ کہنے لگا کہ دیکھیں عزیز ٹھیک ہے کہ پلستر کے بغیر عمارت مکمل نہیں ہوتی مگر عمارت کا رنگ و روغن بھی کیا جاتا ہے ، ہم مرزا صاحب کا رنگ وروغن کر دیں گے۔ میں نے کہا کہ تم مرزا صاحب کا رنگ و روغن بھی نہیں کر سکتے، میرے آقا ﷺنے فرمایا کہ " فَأَحْسَنَهَا" بنانے والے نے عمارت کو حسین و جمیل بنایا اور عمارت کا حسن رنگ وروغن ہے۔“ اس واقعہ کے بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ”میرے اس استدلال نے ان کی زبانوں کو بند کر دیا اور وہ لاجواب ہو گئے اور کوئی بات نہ کر سکے۔ 47

فصل سوم: سوادِ اعظم کی روشنی میں

حضرات صحابۂ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم کا ختم نبوت“ پر اجماع تھا۔ اسی طرحتبع تابعین اور اُن کے بعد سے لے کر آج تک اُمتِ مرحومہ کا یہ متفقہ اور اجماعی عقیدہ رہا ہے۔ حضرات تابعین کرام اور صحابۂ عظام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

صحابہ کرام کے اسماء:

۱۲۔ ابی بن کعب

۱۳۔ ابو امامہ باہلی

۱۴- انس بن مالک

۱۵- اسماء بنت عمیس

۱۶ - براء بن عازب

۱۷۔ بلال موذن

۱۸- ثوبان مولی رسول اللہﷺ

۱۹۔ جابر بن سمرہ

۲۰۔ جابر بن عبد الله

۲۱۔ جبیر بن مطعم

۲۲- حبیش بن جناده

۲۳۔ حذیفہ بن اسید

۲۴۔ حذیفہ بن الیمان

۲۵- حسان بن ثابت

۲۶۔ حویصہ بن مسعود

۲۷ ۔ابوذر

۲۸ ۔ابن زمل

۲۹۔ زیاد بن لبید

۳۰۔ زید بن ارقم

۳۱۔ زید بن ابی اوفی

۳۲۔ سعد بن ابی وقاص

۳۳- سعید بن زید

۳۴۔ ابو سعید خدری

۳۵ سلمان فارسی

۳۶۔ ابو الطفيل عامر بن ربیعہ

۳۷۔ ام المؤمنین ام سلمہ

۳۸۔ سہل بن سعد

۳۹۔ عامر بن ربیعہ

۴۰- عبد اللہ بن عباس

۴۱- عبد اللہ بن عمر

۴۲۔ عبد الرحمن بن غنم

۴۳۔ عدی بن ربیعہ

۴۴۔ عرباض بن ساریہ

۴۵- عصمه بن مالک

۴۶۔ عقبہ بن عامر

۴۷۔ عقیل بن ابی طالب

۴۸- امیر المؤمنین علی

۴۹- امیر المؤمنین عمر

۵۰- عوف بن مالک اشجعی

۱ ۵ - ام المؤمنین صدیقہ

۵۲ - ام کرز

۵۳۔ مالک بن حویرث

۵۴- محمد بن عدی بن ربیعہ

۵۵ - مالک بن سنان والد ابی سعید خدری

۵۶۔ معاذ بن جبل

۵۷۔ امیر معاویہ

۵۸- مغیرہ بن شعبه

۵۹۔ ابن ام مکتوم

۶۰ - ابو منظور

۶۲ - ابوہریرہ

۶۱ - ابو موسیٰ اشعری

۱۳ - حاطب بن ابی بلتعہ

۶۵- عبد اللہ بن زبیر

۶۴ - عبد اللہ ابن ابی اوفی

۶۶ - عبد اللہ بن سلام

۶۸ ۔ ہشام بن عاص

۶۷ - عبادہ بن صامت

۶۹ - عبید بن عمر ولیثی

۷۰۔ نعیم بن مسعود

۷۱۔ عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔

تابعین کرام کے اسماء:

ا۔ امام اجل محمد باقر

۲- سعد بن ثابت

۳۔ ابن شہاب زہری

۴- عامر شعبی

۵۔ عبد اللہ بن ابی الہذیل

۶- علاء بن زیاد

۷۔ ابو قلابہ

۸۔کعب احبار

۹۔ مجاہد مکی

۱۰۔ محمد بن کعب قرظی

۱۱۔ وہب بن منبہ رحمہم اللہ اجمعین

مقام غور:

مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین دین اسلام کو ہم سے زیادہ بہتر انداز سے سمجھنے والے تھے، ”ختم نبوت“ کے بارے میں ان کا اجماع بھی انہی معنوں پر ہوا کہ ” آپ صلی الم کے بعد کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا اور یہ تواتر سے مروی بھی ہے ، تو یقیناً آج یا آج کے بعد کسی بھی دور میں اگر کوئی ان معانی کے خلاف بتائے وہ آپ اپنا سر کھائے اور جہنم میں جائے، اہل ایمان کو اُس کی کسی بات پر ہر گز کان نہیں دھرنا ، اگرچہ ظاہر میں قرآن وحدیث ہی پیش کرے۔ مزید تفصیل کے لیے فتاویٰ رضویہ ، ج 15، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور کا مطالعہ کیجیے۔

فصل چہارم: عقل صحیح کی روشنی میں

گذشتہ سطور میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ عقیدہ ختم نبوت“ ضروریات دین سے ہے، جس کے لیے دلیل کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، اہل ایمان کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ عقیدہ ”ضروریات دین“ سے ہے اور بس۔ یہاں عقلی دلائل ذکر کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ”عقیدۂ ختم نبوت“ کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے دلائل نہیں ہیں یا کمزور ہیں ، اسی لیے عقل کا سہارا لیا جا رہا ہے ، بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ ”عقیدہ ختم نبوت“ عقیدۂ ختم نبوت“ جس طرح قرآن، سنت اور سوادِ اعظم سے ثابت ہے، اسی طرح عقل صحیح “ بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ صلی ایام کے دنیا میں مبعوث ہو جانے کے بعد رہتی دنیا تک کسی نئے نبی یار سول کی ضرورت نہ ہو۔ کیسے ۔۔۔؟

قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالات جن میں حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو بھیجا گیا وہ چار قسم کے تھے:

پہلی قسم :

کسی قوم میں نہ تو کوئی نبی مبعوث کیا گیا ہو اور نہ کسی نبی کی تعلیم ان لوگوں تک پہنچی ہو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی علیم سے ارشاد ہوتا ہے :

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غْفِلُونَ 48
”تاکہ (اے حبیب!) تم اُس قوم کو ڈر سناؤ ، جس کے باپ دادانہ ڈرائے گئے ، تو وہ بے خبر ہیں“۔

دوسری قسم:

کسی گروہ انسانی تک نبی تو بھیجا گیا لیکن اس کی لائی ہوئی شریعت میں تحریف ہو گئی اور نیا نبی نئی شریعت لے کر تشریف لایا ہو۔ جیسے بنی اسرائیل نے شریعت موسوی میں تحریف کر دی تھی، تو حضرت عیسی روح اللہ علیہ السلام نئی شریعت لے کر اُن میں تشریف لائے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنَا فِي الدِّينِ49
کچھ یہودی کلاموں کو اُن کی جگہ سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنیئے آپ سنائے نہ جائیں اور ” راعنا“ کہتے ہیں زبانیں پھیر کر اور دین میں طعنہ کیلیے “۔

تیسری قسم:

گزشتہ نبی کی تعلیمات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی نہ تھیں تو پچھلی شریعت کی تکمیل کے لیے نیا نبی مبعوث کیا گیا۔

اور چوتھی قسم :

کبھی ایک نبی کی زندگی ہی میں ان کی ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹانے کے ۔ دوسرا نبی بھیجا گیا۔ مثلاً حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما الصلوۃ والسلام۔

اب اگر ان حالات میں غور کریں کہ آج ان حالات میں سے کون سی حالت پائی جاتی ہے ؟ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ الحمد للہ آج مذکورہ حالات میں سے کوئی حالت نہیں پائی جاتی :

1۔ کیونکہ رسول اللہ صلی علیم کے لائے ہوئے ” دین اسلام “ کا پیغام کرہ ارضی کے گوشے گوشے میں پہنچ چکا ہے۔

2۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی شریعت انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، اس میں حیاتِ انسانی کے کسی شعبہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔

3۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل کردہ کتاب قرآن کریم آج بھی محمد اللہ تعالیٰ اُسی طرحصحیح سلامت بغیر کسی کمی بیشی کے ہمارے پاس ہے جس طرح نبی اکرم صلی الم پر نازل کیا گیا تھا۔ تقریباً دو ہزار تیرہ سال کا عرصہ گزرا لیکن انجیل کے کسی ایک متن پر اتفاق نہ ہو سکا جبکہ مسلمانوں کے اگر چہ کئی فرقے ہوئے جن میں اختلاف بھی رہا لیکن قرآن کریم پر سب کا ایمان ایک ہی رہا۔ اس میں حروف تو کیا زیر وزبر کی تبدیلی بھی نہ آئی، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ قیامت تک کے لیے یہی ایک کتاب ہدایت ہے اور کیونکہ نہ ہو کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے :

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ50
” بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں “۔

4۔ چوتھا نکتہ باقی رہتا ہے کہ اس پر تفصیل سے بحث کی جائے، یعنی کسی مدد گار نبی کی ضرورت۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ہستی کو آپ صلی الی ایم کی اعانت کے لیے نبی بنایا جانا ضروری تھا تو وہ آپ صلی تعلیم کی زندگی میں بنایا جاتا، کیونکہ اسلام کے ابتدائی دور میں کفار و مشرکین نے طرح طرح کے مظالم کیے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی الم کو مختلف قسم کی اذیتیں اور دُکھ اٹھانا پڑے۔ جب اُس دور میں آپ صلی علیم کی حیات مبارکہ میں کسی نبی کو الله آپ صلی علیہم کی مدد کے لیے ضروری نہیں سمجھا گیا تو پھر آج کے دور میں جبکہ اسلام آج غلبہ پا چکا ہے اور کرہ ارض کے کونے کونے میں رسول اللہ صلی الہام کا پیغام امن و سلامتی پہنچ چکا : ہے، کسی بھی نبی کی بعثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس سلسلے میں بعض حضرات یہ دلیل دیتے ہیں کہ حالات بگڑ چکے ہیں، بد اخلاقیاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، گناہوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ غیر شرعی باتیں تیزی سے رواج پکڑتی جارہی ہیں، تو کیا ماحول ایک نئے نبی کی بعثت کا تقاضا نہیں کرتا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ حالات کی درستگی اور اصلاحکے لیے کبھی نبی نہ آئے بلکہ مصلحین تشریف لائے، جنہوں نے معاشرے کو فساد اور بگاڑ سے پاک کیا، لوگوں کو حق پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کیا، شریعت کو اپنانے کی رغبت دلائی۔ لہذا اب بھی ایسے مصلحین کی ضرورت ہے اور رہے گی جن کی شخصیت میں قول و عمل کی موافقت ہو اور حُسن قول کے ساتھ ساتھ حُسنِ عمل بھی ہو ، تا کہ لوگوں کو رسول اللہ صلی علیم کا پیغام ایک عملی کردار کے پیکر کی صورت میں دکھا سکیں، نیز لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ یہ مصلحین نیکی کا حکم تو کرتے ہیں مگر اس پر خود عمل نہیں کرتے۔

نئے نبی کی ضرورت اور اُس کی حیثیت:

دین کے کامل ہونے کے بعد کسی نئے نبی کی آمد اگر ممکن ہو تو سوال یہ ہے نئے صاحب کس مقصد کے تحت آئیں گے ؟ اور جو وحی انکی طرف آئے گی اسکی کیا حیثیت ہو گی ؟ نئے نبی کی وحی اگر دین سے متعلق ہے تو دین کے کامل ہونے کے بعد اس نئی وحی کی کیا گنجائش رہتی ہے ؟ اور اس کا کیا مقام ہے؟ یہ وحی اگر اعتقادی اُمور میں ترمیم و اصلاح کرتی ہے تو پھر اس طرح دین کامل نہیں رہا، بلکہ اسلام کے بتائے ہوئے کامل عقیدے میں بھی ترمیم و اصلاح کی گنجائش باقی تھی۔ ایسا خیال قرآن کے سراسر خلاف ہے۔

اور اگر یہ وحی اسلام کے عملی احکام میں کوئی ترمیم و اصلاح کرتی ہے تو بھی محمد رسول اللہ صلی علیم کا لایا ہوا ” دین اسلام کامل نہیں رہا، کیونکہ اس کے عملی احکام میں بھی رد و بدل کی گنجائش تھی، لہذا جو لوگ قرآن کو حق تسلیم کرتے ہیں ان کے نزد یک عقائد واحکام کے سلسلے میں کسی نئی وحی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

اگر یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلام سیدنا محمد رسول اللہ صلی العلیم نے جو تعلیمات اور ہدایات دی ہیں، اُن میں اجمال اور پیچیدگی باقی ہے، لہذا نئی وحی کے ذریعے نیا نبی اسلامی تعلیمات کی وضاحت کرے گا۔

تو یہ خیال بھی قرآن وحدیث، اجماع امت اور عقل صحیح کے خلاف ہے ، کیونکہ دین کے کمال کا مفہوم اسی وقت صحیح ہو گا جب اعتقادی اور عملی تمام احکام واضح ہو کر محکم ہو جائیں، چنانچہ وہ قرآن جو ایک حافظ ایک نشست میں یہ تمام و کمال شروع سے آخر تک پڑھ کر سنا دیتا ہے کئی سال کی طویل مدت میں نازل ہوا تا کہ صحابۂ کرام عقیدہ و عمل سے متعلق اسلام کی تمام ہدایات کو پوری وضاحت سے سیکھ لیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ قرآن کی وضاحت اور بیان کا منصب بھی اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی الم ہی کو عطا فرمایا اور خود اپنی طرف اس بیان کو منسوب بھی کیا۔

اسلامی تعلیمات میں اگر کوئی ایسی پیچیدگی یا اجمال تسلیم کیا جائے جس کے حل کے لیے کسی نئی وحی اور نئے نبی کی ضرورت باقی تھی اور رسول اللہ صلی اللیم کے بعد جو نبوت کے دعویدار پیدا ہوئے اُنہوں نے اپنی تازہ وحی سے اس اجمال کو حل کر دیا، تو لازمی طورپر یہ ماننا پڑے گا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر آج تک تمام صحابہ اور تمام مومنین صحیح اور واضح دین سے محروم تھے اور وہ لوگ ساری زندگی اجمال و پیچیدگی میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ بعد میں آنے والے ” مدعی نبوت“ نے اس اجمال کو دور کر دیا۔

یہ صحابہ کرام اور حضور علیہ السلام پر ایک ایسا الزام ہے جس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ قرآن وحدیث نے صحابہ کے دین، ایمان اور عمل کو کسوٹی بنایا اور سراہا ہے لہذا ان کے دین میں کسی کمی کی گنجائش نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے صحابہ کرام کا ایمان ” معیار اور کسوٹی “ ہے۔ اگر صحابہ کا دین اجمال و پیچیدگی رکھتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اُسی سے راضی ہے اور اگر صحابہ کا دین کامل و واضح ہے تو اللہ کو وہی پسند ہے۔ لہذا قرآن مجید کی تفسیر کے لیے کسی نئی وحی “ اور ”نئے نبی کی بھی گنجائش نہیں، بلکہ یہ قرآن حضور علیہ السلام کی زبان و عمل سے واضح ہو چکا اس میں کسی پیچیدگی اور اجمال کے حل کے لیے نئی وحی اور نئے نبی کی ضرورت باقی نہیں ہے اور نہ گزشتہ نبیوں کے انداز پر اسلام میں کسی نئے نبی کی گنجائش ہے، کیونکہ اسلام سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا کیا اصول تھا نہ قرآن نے ہمیں بتایا اور نہ جاننے کا حکم دیا۔

ہاں قرآن میں غور و فکر سے جو نتیجہ نکالا جا سکتا ہے اس کی روشنی میں بھی نئی وحی اور نئے نبی کی ضرورت اسلام میں نہیں۔ سابق زمانے میں انسانی آبادی نخلستانوں کی طرح جابہ جا تھی اور منتشر آبادیوں کو ملانے کے لیے وسائل مواصلات اور حمل و نقل کے ذرائع جو آج پائے جاتے ہیں، مفقود تھے۔ لہذا ہر خطہ آبادی اور ہر قوم میں جداگانہ نبی بھیجے جاتے رہے تا کہ اللہ کی حجت پوری ہو اور انسانوں تک اللہ کا پیغام ہدایت پہنچے ، یا جب گذشتہ نبی کی تعلیمات مٹ جاتیں اور ان کی لائی ہوئی کتاب جعلسازی اور تحریف سے مشتبہ ہو جاتی

یہاں تک کہ علماء کی من مانیوں کو دین بنا لیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کوئی نبی بھیج کر اپنی کتاب کی تجدید فرما دیتا۔ اسلام کے دین کامل ہونے کا اعلان کر کے اللہ نے اس خطرے کو بھی دور کر دیا، کیونکہ قرآن مجید ، تورات اور انجیل کی طرح تحریف قبول کرنے والی کتاب نہیں ہے بلکہ نازل ہونے کے دن سے آج تک نقطہ نقطہ کے ساتھ محفوظ ہے اور اللہ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا اور نہ انسانی آبادی میں وہ انتشار وبے تعلقی ہے کہ مختلف آبادیوں کے لیے جدا گانہ نبی کی ضرورت ہو، بلکہ انسانیت قرآن کی پیش گوئی کے مطابق اس طرح سمٹی جا رہی ہے کہ نسل انسانی ایک قوم اور ساری زمین ایک وطن دکھائی دینے لگی۔ گذشتہ زمانے میں نئے نبی کی ضرورت اس لیے بھی ہوتی تھی کہ نئے نبی اپنے پیشرو نبی کے کام کو پورا کریں جیسے سید نا یوشع علیہ السلام نے سید ناموسیٰ علیہ السلام کے کام کو پورا کیا۔

اسلام میں اس مقصد کے لیے بھی نئے نبی اور نئی وحی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسلام کے دین کامل ہونے کے اعلان کے وقت اللہ رب العزۃ نے انسانی معاشرت کے تمام پہلوؤں کو یہاں تک کے تنظیم اور نفاذ حکومت کو بھی قائم کر دیا۔ حضور علیہ السلام نے جب وفات پائی تو وہ مسلمانوں کے امیر بھی تھے، حج بھی تھے ، سپہ سالار بھی تھے ، مسجد کے امام بھی تھے ، مفتی بھی تھے اور اللہ کے آخری نبی بھی۔ حضور علیہ السلام کی تعلیمات کا کوئی گوشہ نا مکمل نہیں تھا جس کی تکمیل کے لیے کسی نئے نبی اور نئی وحی کی ضرورت سمجھی جائے ۔51


باب چهارم: عقیدہ ختم نبوت پر اعتراضات

فصل اول:

قرآنی آیات اور تفسیر پر اعتراضات۔

فصل دوم:

احادیث و آثار پر اعتراضات۔

فصل اول: قرآنی آیات اور تفسیر پر اعتراضات

إجراء نبوت کارد:

اعتراض 1:

قرآن میں ہے جو اللہ اور اُس کے رسول کی کامل اتباع کرتا ہے، اُسے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اللہ فرماتا ہے:

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا

چنانچہ اس آیت میں حضورﷺ کی کامل اتباع کرنے والوں کو خوشخبری ہے کہ وہ نبیوں میں سے ، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ معیت زمانی اور مکانی تو ممکن نہیں لازماً معیت فی المرتبت مراد ہے، یعنی مقام و مرتبہ میں اُن کے ساتھ ہوں گے۔

جواب:

”نبوت“ اپنے عمل و کسب سے حاصل نہیں کی جاسکتی،

اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ52
اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے “۔

یعنی: اللہ جانتا ہے کہ نبوت کی اہلیت اور اس کا استحقاق کس کو ہے اور کس کو نہیں، عمر اور مال و دولت سے کوئی مستحق نبوت نہیں ہو سکتا اور یہ جھوٹی نبوت کے دعویدار اور طلب گار تو حسد، مگر ، بد عہدی وغیرہ شنیع افعال اور بُری عادتوں میں مبتلا ہیں، یہ کہاں اور نبوت کا منصب عالی کہاں۔۔۔!

اگر نبوت اپنے کسب و عمل سے حاصل ہوتی ہو اور اللہ ورسول کی فرمانبرداری سے کوئی شخص نبیوں میں شامل ہو سکتا ہو، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کس نبی کی پیروی سے ”نبی“ بنے، اسی طرح سب سے آخری نبی حضور اکرم صلی العلیم بھی اُس دور میں، اُس قوم میں اور اُس سر زمین میں پیدا ہوئے اور نبی ہوئے، جہاں پہلے سے کوئی نبی تھے نہ کوئی شریعت اور کتاب تھی اور نہ ہی کوئی پیغمبرانہ ماحول اور معاشرہ تھا۔ معلوم ہوا کہ حضرت آدم اور سید عالم علیہما الصلوٰۃ والسلام ، الله تعالیٰ کی عطا سے نبی ہوئے نہ کہ کسی نبی کی پیروی کر کے۔

اس آیت کا ترجمہ کرنے میں معترض نے تحریف قرآن کا ارتکاب کرتے ہوئے مع “ (بمعنی ”ساتھ“ کا ترجمہ ”من“ (بمعنی ”سے “ سے کیا ہے ۔ ”مع“ عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ”ساتھ“ کے ہیں، اُردو میں بھی ”ساتھ“ ہی کے معنی میں بولا جاتا ہے جیسے : ” مع اہل و عیال“ یعنی: اہل و عیال کے ساتھ ، اسی ” مع “ سے ”مَعِيَّتُ“ کا لفظ ہے جس کے معنی ”ساتھ اور رفاقت “ ہے۔ قرآن مجید نے اس مع“ کے معنی کو آیت کے آخر میں رفیقاً کہہ کر مزید واضح کر دیا۔

عربی میں مع“ کے معنی ”من“ یعنی ” سے “ کے نہیں ہیں، اگر یہ معنی مان لیا جائے تو ان آیات کے ترجمے میں کیا ہو گا۔۔۔۔! صریح کفر و شرک۔۔۔۔

ارشاد ہوتا ہے:

1۔ا وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ53
” اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں سے ہے“۔ (نعوذ باللہ ) ( اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے“۔)
2۔ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ 54
اور بے شک اللہ مومنین سے ہے “۔ (نعوذ باللہ )( ” اور بے شک اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے “۔)
إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا 55
ترجمہ : ” جب اپنے صاحب سے کہتے تھے: غم نہ کھا بیشک اللہ ہم سے ہے“۔ (نعوذ باللہ )(” جب اپنے یار سے فرماتے تھے: غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ 56
بیشک اللہ ان سے ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں ۔ (نعوذ باللہ )(بیشک اللہ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں“۔)
وَ هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ 57
” اور وہ تم سے ہے تم جہاں کہیں ہو“۔ (نعوذ باللہ )(” اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم کہیں ہو“۔)

در اصل اس آیت میں نیز انعام یافتہ گان کے ساتھ ہونا اُس دعا کا ثمرہ ہے جس کا اللہ رب العزۃ نے ہر مومن کو حکم دیا کہ ہر نماز اور اس کی ہر رکعت میں اُس دعا کی تلاوت کریں، یعنی: سورۂ فاتحہ “ کی تلاوت کریں اور اللہ تعالی سے سیدھی راہ پر چلنے کی دُعائیں مانگیں۔ سیدھی راہ یعنی ”صراط مستقیم “ کی وضاحت بھی ساتھ ہی کر دی گئی ہے۔ یعنی: وہ راہ جس راہ پر چلنے والے اللہ تعالیٰ کے انعام کے مستحق ہیں ، اللہ کے غضب سے محفوظ ہیں اور منزل و راہ منزل سے بھٹکنے والے نہیں ہیں۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک جامع اور کامل دُعا ہے۔ اس دُعا کی اہمیت اسی سے ظاہر ہے کہ عام مومن ہی نہیں بلکہ خواص مومن جن میں نبی، صدیق، شہید اور صالح شامل ہیں اس دُعا کے پابند ہیں۔ مومن مرد، مومن عورتیں اور خود حضور اکرم صلی علیم اپنی ہر نماز میں یہ دعا دھراتے رہے۔

اس دُعا کا مقصد اس میں مذکورہ دو برائیوں سے بچاؤ اور حفاظت ہے یعنی اللہ کے غضب سے محفوظ رہنا اور گمراہی سے دور رہنا۔ ان دونوں برائیوں سے محفوظ رہنے کا لازمی نتیجہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ :

اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ اس ” دعائے نعمت“ سے مراد نبوت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت کے مقامات کا حصول ہے، تو پھر محمد رسول اللہ صلی علیم نہ صرف نبی تھے بلکہ تمام انبیاء کے سردار اور اللہ رب العزة کے بعد تمام موجودات سے افضل تھے۔ اسی طرح عور تیں نبوت پر فائز نہیں ہوتیں، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مومن عورتوں کو بھی اس دُعا کا پابند بنانا بالکل لغو و غلط بات ہو گی۔

سورۂ نساء کی آیت میں انعام یافتہ لوگوں کی فہرست یوں ذکر کی گئی ہے :

وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا
”اور جو کوئی اللہ اور اس کےرسول کی اطاعت کرے تو وہ ساتھ ہو گا ان لوگوں کے جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ لوگ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔

اس میں انبیاء کرام علیہم السلام سر فہرست ہیں اللہ اور رسول علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمانبردار قیامت میں ان لوگوں کے ساتھ ہو گا اپنے عالیشان جنتی محل میں نہ وہ قید و نظر بندی میں رہے گا اور نہ اس کے رفیق اور ساتھی بُرے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی مطیع و فرمانبردار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا وہ لازوال انعام کا حقدار ہو گیا اور ان ہی نعمتوں میں سے ” نبیین ، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت و صحبت بھی ہے۔ دنیاوی زندگی میں بیشمار مومن کاملین نے ہر دور میں اپنی طویل عمریں فرمانبرداری واطاعت میں گزار دیں، پھر بھی تمام ” نبیین تو کجا ایک نبی کی بھی رفاقت بلکہ دیدار تک میسر نہ آیا، نہ تمام صدیقین کی صحبت میسر آئی، نہ تمام شہداء کی رفاقت حاصل ہوئی، نہ حضرت آدم علیہ السلام سے اس وقت تک تمام صالحین کی ہم نشینی ملی۔

البته قیامت میں فرمانبردار مومن تمام انبیاء تمام صدیقین تمام شہداء اور تمام صالحین کی محفل میں بے روک ٹوک شریک ہوں گے اور رفیق بنیں گے۔ تمام انبیاء پر ہم ایمان لائے ہیں۔ تمام نبیوں کی رفاقت ہمارا ایمانی حق ہے۔ تمام عباد صالحین کے حق میں ہم ہمیشہ دعا و سلام بھیجتے ہیں ان کی رفاقت ہمارا حق ہے۔

نیز سورہ نساء کی اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ”صراط مستقیم پر چلنے والا انعام پانے والوں کی راہ پر چلتا ہے لہذا وہ صالح ، شہید ، صدیق ہو سکتا ہے تو اپنے کسب و محنت سے نبی بھی ہو سکتا ہے، سراسر غلط ہے ، کیونکہ اس آیت میں اللہ اور رسول کی فرمانبرداری سے قیامت میں انعام پانے والے کے لیے ان چاروں انعام یافتگان کی رفاقت و معیت کا ذکر ہے اس کا تذکرہ نہیں ہے کہ اللہ اور رسول کی فرمانبرداری سے فرمانبردار کو کیا مرتبے حاصل ہو سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر وضاحت کر دی گئی ہے کہ بندہ ایمان و عمل صالح کے نتیجے میں صالحین میں داخل ہو سکتا ہے۔ سورۂ عنکبوت میں ہے :

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصُّلِحِينَ 58
”جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں البتہ ہم ان کو صالحین کے گروہ میں داخل کریں گے“۔

اسی طرح سورۃ الحدید میں ہے :

وَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَبِكَ هُمُ الصِّدِّيقُوْنَ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْ 59
”اور جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر یہی لوگ صدیقین ہیں اور شہداء ہیں اپنے رب کے نزدیک ان کے لیے ان کا اجر ہے اور ان کا نور ہے “۔

مؤمن کے حق میں صدیقین، شہداء اور صالحین کے مقامات اور مراتب ملنے کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے، مگر ایمان و عمل صالح کے نتیجے میں ”نبوت“ ملنے کا ذکر قرآن مجید میں کہیں بھی نہیں ہے اور قرآن کے اعلانات کی بنا پر ایسا ممکن بھی نہیں ہے۔

مقام غور و فکر :

سورہ نساء کی مذکورہ آیت میں نبیوں کے علاوہ شہیدوں کی رفاقت کا بھی ذکر ہے، غور کرنا چاہیے کہ دُنیاوی زندگی میں شہیدوں کی رفاقت کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا کیونکہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو شہید کہتے ہیں، شہید قتل ہو کر دنیا والوں سے جدا ہو جاتے ہیں اور عالم ناسوت سے نکل کر عالم برزخ میں مقیم ہوتے ہیں، لہذا زندہ مومن اور شہید کی رفاقت دنیاوی زندگی میں نہیں ہوتی ہے۔ آخرت میں مومنین کو شہیدوں کی رفاقت اور یکجائی کی سعادت حاصل ہو گی۔

سورہ نساء کی مذکورہ آیت میں نبیوں کے علاوہ شہیدوں کی رفاقت کا بھی ذکر ہے، غور کرنا چاہیے کہ دُنیاوی زندگی میں شہیدوں کی رفاقت کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا کیونکہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو شہید کہتے ہیں، شہید قتل ہو کر دنیا والوں سے جدا ہو جاتے ہیں اور عالم ناسوت سے نکل کر عالم برزخ میں مقیم ہوتے ہیں، لہذا زندہ مومن اور شہید کی رفاقت دنیاوی زندگی میں نہیں ہوتی ہے۔ آخرت میں مومنین کو شہیدوں کی رفاقت اور یکجائی کی سعادت حاصل ہو گی۔

جن زندہ لوگوں کو حضور علیہ السلام نے شہید کہا وہ ان کی شہادت کی پیشین گوئی اور بشارت تھی یہ مبارک و سعید حضرات اس بشارت و پیشین گوئی کے وقت شہید نہیں تھے کہ اس وقت زندوں کے ساتھ ان کے رہن سہن کو شہداء کی رفاقت کہا جائے۔ لہذا یہ آیت آخرت سے متعلق ہے دُنیا سے اس کا تعلق نہیں ہے کہ نادانی سے کوئی شخص انعام پانے والوں میں اپنے آپ کو شمار کر کے ”نبی“ بن جائے انعام آخرت میں ملے گا اور نبیوں، صدیقوں ، شہیدوں اور صلحاء کی رفاقت بھی وہاں میسر آئے گی ۔ 60

اعتراض 2:

نبوت آپ ﷺکے بعد بھی جاری ہے اور انبیاء کرام تشریف لاتے رہیں گے اور اولاد آدم سے اُن پر ایمان لانے کو کہا گیا ہے، اس کا واضح ثبوت قرآن کریم کی یہ آیت ہے:

يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ايْتِي فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ61
” اے آدم کی اولاد ! اگر تمہارے پاس تم میں کے رسول آئیں میری آیتیں پڑھتے تو جو پر ہیز گاری کرے اور سنورے تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم “۔

یعنی: اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کو حکم دیا ہے کہ جب بھی ان کے پاس ایسے رسول آئیں جو تمہارے سامنے میری آیتیں بیان کریں سو جو شخص اللہ سے ڈرا یعنی جس نے ان رسولوں کے احکام کو مانا اور ان پر ایمان لایا اس پر کوئی غم اور خوف نہیں ہو گا، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک رسول آتے رہیں گے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے آنے کا کوئی استثناء نہیں بیان فرمایا اور نہ کوئی مدت بیان فرمائی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت تک رسولوں کے مبعوث ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

جواب:

قرآن مجید میں بہت جگہ ایک حکم عام بیان کیا جاتا ہے اور دوسری کسی آیت میں اس حکم کی تخصیص بیان کر دی جاتی ہے جس سے وہ حکم عام نہیں رہتا، اسی طرح بہ ظاہر اس آیت میں قیامت تک رسولوں کی بعثت کا حکم عام بیان فرمایا ہے ، لیکن سورہ احزاب میں فرمایا کہ:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 62
ترجمہ:
"محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے“۔

یعنی: اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر فرمادیا کہ سورہ اعراف کی مذکوہ آیت میں رسولوں کی بعثت کے سلسلے کا جو ذکر ہے، وہ سلسلۂ نبوت، سیدنا محمد خاتم النبیین صلی الم کی بعثت کے بعد ختم ہو گیا ہے اور آپ صلی السلام کے بعد قیامت تک کوئی نبی آ سکتا ہے نہ رسول، تشریعی نبی نہ اُمتی نبی، کامل نبی نہ ناقص نبی ، نہ اصلی نبی ، نہ ظلی نبی اور نہ ہی بروزی نبی۔

اس دلیل پر قرآن حکیم کی کئی آیات شاہد ہیں کہ کسی آیت میں کوئی حکم عام بیان کیا جاتا ہے، پھر دوسری آیت میں اس کی تخصیص کر دی جاتی ہے، تو وہ حکم عام نہیں رہتا، مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک عام حکم یہ بیان فرمایا کہ

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ 63
”ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے “۔

اور درج ذیل آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی «نفس» فرمایا:

قُلْ لِمَنْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ للهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ 64
” آپ پوچھیے کہ جو کچھ آسمانوں اور* زمینوں میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے ؟ آپ کہیے وہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے ، اس نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم کر لیا“۔

اس کے علاوہ دیگر آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی ”نفس “ کہا ہے اور سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 57 میں فرمایا ہے کہ ”ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے“۔

اگر کوئی شخص ان کا نتیجہ یہ نکالے کہ ”اللہ تعالیٰ بھی موت کا مزہ چکھنے والا ہے “، کیونکہ اس آیت کے عام حکم کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھی موت آئے گی (معاذ اللہ)، تو ایسے مشخص پر حکم شریعت کیا ہو گا۔۔۔؟ حالانکہ دوسری آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کبھی موت نہیں آئے گی وہ آیت یہ ہے :

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ 65
اور بھروسہ کرو اُس پر جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔

اس آیت کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ حکم جس کے تحت ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، اس حکم سے اللہ تعالیٰ کی ذات مستثنی ہے اور اب یہ حکم ”عام“ بھی نہیں رہتا۔

اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی سیدنا محمد صلی علیم کو ” خاتم النبیین “ فرما دیا تو اب سورہ اعراف کی آیت نمبر 35 میں رسولوں کی بعثت کے عام حکم میں تخصیص ہو گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ اب آپ کی بعثت کے بعد کسی اور نبی کا آنا ممکن نہیں ہے ۔ 66

اعتراض :3

اجراء نبوت پر یہ آیت بھی دلیل ہے، اللہ فرماتا ہے:

اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَئِكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ 67
”اللہ منتخب کرتا ہے فرشتوں میں سے رسول اور انسانوں میں سے "۔

اس آیت میں ” يَصْطَفى " فعل مضارع ( Present indefinite Continuous) ہے، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک ”رسول“ منتخب کرتا رہے گا۔

جواب:

دھو کہ دینے کے لیے یہ آیت سیاق و سباق کے بغیر پیش کی گئی ہے ، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ مسلمانوں کو قرآن میں نماز کے قریب جانے سے روکا گیا ہے، اور دلیل میں آیت کا یہ حصہ پیش کر دے:

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ68
”اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جاؤ۔

یا کوئی شراب و جوئے کے جواز پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیش کر دے کہ

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا 69
”(اے حبیب الوگ) تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سےبڑا ہے “۔
اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نظر انداز کر دے، جس میں فرمایا گیا کہ

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 70
اے ایمان والو ! شراب اور جوا اوربُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ“۔

اس طرح کا رویہ اختیار کرنا سراسر ظلم اور کھلی بغاوت ہے اور جان بوجھ کر اس طرح کی تحریف کرنا صریح گفرار تداد “ ہے۔ رہا سورہ حج کی مذکورہ آیت کا معاملہ تو اس آیت میں يصطفی “ کا کلمہ ضرور مضارع کا صیغہ ہے، فعل مضارع کا مفہوم تین طرح پر لیا جاتاہے، اول حال ، دوم مستقبل کہ اللہ منتخب کرے گا، سوم استمرار تجد دی، یعنی اللہ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے رسول منتخب کر تا رہتا ہے۔

اس آیت میں دراصل سنتِ الہیہ کا بیان ہے اور یہودیوں کی تردید ہے۔ یہودیوں نے محمد رسول اللہ صلی علیم کی نبوت کا انکار کیا اور کہا تھا کہ اس سے پہلے تمام نبی بنی اسرائیل کے خاندان میں ہوتے رہے، بنی اسمعیل میں کوئی نبی نہیں آئے۔ اللہ رب العزت نے ان کے اس باطل خیال کی اصلاح فرمائی اور اُن کے رد میں فرمایا کہ نبوت بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص نہیں، یہ کوئی خاندانی وراثت پر موقوف نہیں ہے بلکہ نبی کی بعثت کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت جس کو چاہتا ہے اپنی طرف سے منتخب کر کے نبی بناتا ہے اور یہ طریقہ اس وقت تک ہے جب تک اللہ جل شانہ کی حکمت و مصلحت کا تقاضہ ہو ، محمد رسول اللہ صلی اللہ ہم کو بھیج کر اور خاتم النبیین بنا کر نبی بھیجنے کا سلسلہ ختم کر دیا گیا، اب نہ بنی اسرائیل میں نبی پیدا ہوں گے نہ بنی اسماعیل میں اور نہ کسی اور انسانی گھرانے میں۔

اگر يَصْطَفیٰ “ کا معنی مستقبل کا لیا جائے اور ترجمہ کیا جائے کہ اللہ فرشتوں میں سے رسول بھیجے گا اور انسانوں میں سے رسول بھیجے گا۔ تو یہ ترجمہ اس لیے غلط ہو گا کہ اس آیت کریمہ کے نزول سے پہلے جو انبیاء کرام آئے اُن کی نبوت اللہ کے اس اعلان سے خارج ہو گئی یا تو وہ نبی نہ تھے یا اللہ نے ان کو نبی منتخب نہیں کیا تھا۔ خود رسول اللہ ﷺ کی نبوت معاذ اللہ اس سنت الہیہ کے مطابق نہ رہی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا دعوائے نبوت صحیح نہیں رہا، کیونکہ آنحضرت صلی الم کی نبوت کا تعلق ماضی اور حال سے ہے،

جب کہ آیت مذکورہ میں مستقبل میں نبی بھیجنے کا اعلان ہو رہا ہے۔ لہذا اس آیت کا تعلق مستقبل نہیں ہے، بلکہ یہودیوں کے اعتراض کے جواب میں اللہ رب العزت کے اپنے اختیار سے و قدرت اور اپنی منشا کے مطابق نبی بھیجنے کے طریقے کا اعلان ہے ۔ 71

اسی طرح اس آیت میں اُن کفار کی تردید بھی ہے جو یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ رسول ”انسان“ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنی ”سنت “ کا بیان فرمایا کہ اللہ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے وہ انسانوں میں سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں سے بھی جنہیں چاہے گا۔72

(معاذ اللہ )

اعتراض 4:

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ” خَاتَمُ النَّبِينَ “ ہیں یعنی: ”نبیوں کی مہر ،

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمَا 73
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے “۔

اور آنحضرتﷺ کی مہر سے ہی ”نبی بنتے ہیں یعنی تصدیق سے اور جس پر آپﷺکی مہر تصدیق لگ جاتی ہے وہ نبی بن جاتا ہے، سو جس پر بھی یہ ”مہر “ لگ گئی وہ بھی نبی بن گیا اور دیگر بھی نبی بنتے رہیں گے۔

جواب:

اس کا جواب سمجھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لفظ ” خاتم“ سے متعلق وضاحت کر دی جائے، اس کے بعد اس آیت کی جامع تفسیر پیش کر دی جائے، تا کہ یہ اعتراض رفع ہو جائے۔ عربی زبان میں ” خاتم “ کے معنی ”ختم کرنے والا، تمام کرنے والا،

انتہا تک پہنچانے والا ہے، اس کا مصدر (Root) ”خَتْم “ ہے، اس سے اختتام “ ہے،

یعنی: کسی چیز کا اپنی آخری حد اور انتہا کو پہنچنا۔ اس لحاظ سے ” خَاتِمُ النَّبِيِّنَ “ کا معنی ہو گا: نبیوں کے ختم کرنے والے، تمام کرنے والے حد وانتہا کو پہنچانے والے“، یعنی: نبیوں کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ سید نا محمد صلی علیم پر ختم ہو گیا، آخر کو پہنچ گیا ، تمام ہو گیا۔

خاتم “ کا دوسرا معنی ”مہر کرنے والا“ ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے”خاتم" کا مصدرختام ہے، جس کے معنی ”مہر“ کے ہیں، قرآن مجید میں ہے:

ختمه مسك
اس کی مہر مشک ہے“۔

یعنی: جنتیوں کو جو مشروب ملے گا وہ سر بمہر ہو گا اور ان بھری ہوئی بوتلوں پر مشک کی مہر ہو گی۔ لازماً معنی یہ ہے کہ مہر کی وجہ سے نہ اندر کی چیز باہر آئے گی اور نہ باہر سے کوئی چیز اندر داخل ہو گی۔

خاتم “ (معاذ اللہ ) کے معنی ”آلۂ مہر ہے ، یعنی: جس سے کسی چیز پر مہر کریں، لہذا الازمی طور پر معنی یہ ہونگے کہ کسی چیز کو اپنی آخری حد پر پہنچا کر اس پر اختتام مہر لگا دی جائے۔

لہذا اگر خاتم " (زیر کے ساتھ) اور خاتم " (زبر کے ساتھ) سے مہر کرنے والا یا مہر مراد لیں جب بھی نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ جب کوئی چیز اپنی آخری حد وانتہا کو پہنچ جائے اور اس پر مہر لگ جائے تو اب نہ باہر کی چیز اندر داخل ہو گی اور نہ اندر کی چیز باہر آئے گی۔ کسی چیز پر مہر اسی وقت لگتی ہے جب وہ اپنی آخری حد کو پہنچ چکی ہو ، اب مہر توڑے بغیر کوئی چیز نہ اندر داخل ہو گی اور نہ اندر سے کسی چیز کا اخراج ممکن ہو گا۔

رسول اللہ ﷺ اعلام نبیوں کے خاتم “ ہیں، یعنی: ختم کرنے والے ہیں ان پر نبیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ دوسرا معنی میں ”نبیوں کے لیے مہر“ ہیں یا ”مہر کرنے والے ہیں “، لازمی طور پر نبیوں کے آخر ہیں اب نہ کوئی نیا شخص بعد میں آکر ” النبین“ میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ گزشتہ نبیوں میں سے کوئی نبی النَّبِینَ“ سے خارج ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ختام “ یعنی مہر کے معنی میں یہ لفظ آیا ہے تو وہاں بھی یہی مفہوم مراد ہے۔

عربی زبان کے تمام ماہرین واہل لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ ختم ، خَاتِم ختام“ کے معنی آخر انتہا اور اختتام ہے۔ مہر کا معنی لینے کی صورت میں بھی آخر وانتہا کا مفہوم بنیادی رہے گا، کیونکہ مہر بھی ہر چیز کے خاتمہ اور آخر ہونے پر لگاتے ہیں۔” خاتم النَّبِينَ “ کا معنی اگر نبیوں کی مہر “ بھی قرار دیں پھر بھی نبی کریم صلی علیم کے بعد کسی بچے نبی کی گنجائش نہیں رہتی گویا اللہ رب العزت نے اعلان کر دیا کہ جب تک رسول اللہ صلی ام دنیا میں مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ نبیوں کی یہ مہر اللہ علیم وخبیر کے پاس تھی انبیاء کرام صداقت کی مہر سے مزین ہو کر آتے رہے ، اب جب کہ اللہ جل مجدہ نے خود اپنی مہر کو زمین پر بھیج دیا، تو اب اللہ جل شانہ کے یہاں سے مہر تصدیق والے کوئی نبی نہیں آئیں گے، اب جو مدعی نبوت پیدا ہو گا، مہر تصدیق کے بغیر ہو گا اور جس فرمان پر مہر نہ ہو وہ معتبر نہیں ہوتا۔ لہذا جھوٹا اور کاذب ہو گا اگر کوئی یہ کہے کہ نبیوں اور نبوت کا خاتم و مہر زمین والوں کے پاس ہے زمین والے اس سے کام لیں گے اور نبی مقرر کریں گے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ نبی ورسول اللہ رب العزت مقرر کرتا ہے نبی ورسول کا تقرر مخلوق کے اختیار سے باہر ہے قرآن مجید میں بار بار اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ نے نبی بنایا اللہ نے رسول بنایا اللہ ہی جانتا ہے کس کو وہ رسالت سپرد کرے گا۔

اگر منکرین ختم نبوت کے دعوی کے مطابق به فرض محال ختم نبوت“ کا معنی ”مہر“ سے زیادہ ” تصدیق ہو اور اس کا معنی یہ ہو کہ جس پر آپ صلی علیہ ہم اپنی مہر لگا دیتے ہیں وہ نبی بن جاتا ہے ، تو پھر اس کا تقاضا یہ تھا کہ آپﷺکی مہر سے زیادہ زیادہ نبی بنتے ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس مہر سے صرف پنجاب کا منکر ہی نبی بنا! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کی اطاعت پر مقبولیت کی سند اللہ تعالیٰ نے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ “ فرما کر عطا کر دی وہ نبی نہیں بنے، اگر ختم نبوت کا معنی مہر تصدیق ہوتا تو وہ نبی بنتے اور جب وہ نبی نہیں بنے تو معلوم ہوا کہ ختم نبوت کا معنی ”مہر تصدیق “ نہیں ہے بلکہ وہ مہر ہے جو کسی چیز کو بند کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے، علاوہ ازیں نبی بنانا اور رسول بھیجنا اللہ کا کام ہے رسول اللہ صلی علیم کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ اپنی مہر لگا کر کسی نبی بنا کر بھیج دیں۔

نیز جب یہ کہا جاتا ہے کہ شاہ عبد العزیز ” خاتم المحد ثین ہیں، تو کیا اس کا عرف میں یہ معنی ہوتا ہے کہ شاہ عبد العزیز کی مہر سے ”محدث “ بنتے ہیں؟ اسی طرح جب یہ کہا جاتا ہے کہ علامہ شامی خاتم الفقہاء “ ہیں تو کیا اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ علامہ شامی کی ”مہر“ سے فقہاء بنتے ہیں؟ اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ علامہ آلوسی ” خاتم المفسرین “ ہیں، تو کیا اس کا یہ معنی ہوتا ہے کہ علامہ آلوسی کی ”مہر“ سے مفسرین بنتے ہیں۔۔۔! وعلى هذا القیاس۔ معلوم ہوا کہ لغت اور عرف سب کے اعتبار سے منکرین کا ” خاتھ کا اپنی من پسند کا معنی مہر کرنا صحیح نہیں ہے ۔74

آیت کی تفسیر :

اس آیت کریمہ کے بنیادی نکتے یہ ہیں: اول: حضرت محمد صلی علیم کسی بالغ مرد کے باپ نہیں ہیں۔ دوم: وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔

سوم: تمام نبیوں کے خاتم ہیں اور چہارم: یہ ساری باتیں اللہ رب العزت کے علم میں ہمیشہ سے ہیں، رسول اللہ صلی علی ایم کو خاتم النبیین بنانا کوئی ناگہانی اور نیا فیصلہ نہیں ہے۔

اللہ رب العزت نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو بالغ مرد کا باپ نہیں بنایا یہ ایک امر واقعہ اور کھلی ہوئی حقیقت ہے۔ اس آیت کریمہ کے نزول سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صاحبزادے حضرت قاسم کی وفات پر کفار مکہ نے آپ صلی الیم کو مقطوع النسل اور ابتر ہونے کا طعنہ دیا تھا اور جناب ابراہیم کے بعد آپ صلی الم یہاں کوئی نرینہ فرزند بھی پیدا نہیں ہوا۔

دنیاوی اصول اور انسانی اندازِ فکر کے لحاظ سے تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر حضور علیہ السلام اللہ کے محبوب اور پیارے تھے، تو کافروں کے طعنوں کا جواب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیم کے یہاں بکثرت بیٹے پیدا ہوتے جو بڑے ہو کر بڑے بڑے خاندانوں کے مورث بنتے لیکن ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے طعنے سننے مگر آپ صلی الیم کے یہاں اولاد ذکور کو پیدا نہیں کیا۔ آپ کی بعثت و آمد سے نوع بشر کی اصلاح مقصود تھی اس لیے آپ کو بشری پیکر میں ذاتی طور پر بشری صفات کے ساتھ پیدا کیا گیا۔

{p | حضور اکرمﷺ کی تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ” آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبيين“ یعنی تمام نبیوں کے خاتم اور آخری نبی ہیں۔ یاد رہے کہ ”خاتم النبیین“ کے ساتھ رَسُولَ اللہ کا کلمہ اس لیے آیا ہے تاکہ آئندہ اگر کوئی شخص ” خاتم“ کے معنی محاورہ عرب کے خلاف مہر “ کرے تو آپ صلی الم کی رسالت میں کوئی شک و شبہ پیدا نہ ہو، کیونکہ جس چیز سے مہر کرتے ہیں وہ مہر شدہ چیز کے علاوہ اور اس کی غیر ہوتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی علی موم کی تخلیق جن دو مقاصد کے لیے ہوئی ہے رسالت اور ختم نبوت، اُن کے لیے اولادِ نرینہ کی ضرورت نہیں ہے، اللہ جل مجدہ آپ صلی اعلام پر رسالت تمام کرنے اور آپ ﷺتعلیم کے بعد نبوت کا سلسلہ ہی بند کرنے کا فیصلہ اپنے علم قدیم میں کر چکا تھا۔{}}
وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 74
”اللہ ہر چیز کو ہمیشہ جانتا ہے “۔

لہذا دین بھی آپﷺتعلیم پر کامل کر دیا، رسالت بھی تمام کر دی اور نبوت بھی آپ صلی العلیم پر ختم ہو گئی اور یہ سب کچھ اللہ رب العزت کے ازلی علم اور ازلی فیصلے کے مطابق ہوا۔

اللہ رب العزت نے آپ ﷺتعلیم کو بیٹی دے کر اور بچپن ہی میں اولادِ نرینہ کو وفات دے کر یہ بتا دیا کہ آپ صلی ا ہم اپنی ذات میں بشری کمالات وقوت میں کوئی کمی یا نقص نہیں رکھتے اور بیٹیاں رسالت و نبوت پر فائز نہیں ہوتیں:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ ۔75
”اور ہم نے آپ سے پہلے مردوں ہی کو رسول بنایا اور ان کی طرف وحی کی “۔

کیونکہ عورتیں اپنی فطری کمزوریوں کی وجہ سے فرائض رسالت انجام نہیں دے سکتیں اور اولاد نرینہ دے کر اللہ رب العزت نے بچپن ہی میں ان کو اپنی طرف بلا لیا، س آپ کیونکہ فرائض نبوت جوانی کے بعد سپر د ہوتے ہیں۔ بالغ مرد کا باپ نہ ہونا ایک کھلی نشانی تھی کہ آپ صلی الم پر ام پر رسالت و نبوت ختم ہو رہی ہے، کوئی شخص وراثت کی بنیاد پر صلی تعلیم کے بعد نبوت کا مدعی نہیں ہو سکتا اور نص واعلان کی بنیاد پر بھی کسی اور خاندان کا کوئی شخص آپ صلی علیم کے بعد نبوت کا دعویٰ دار نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں ” خَاتَم النَّبِيِّينَ “ اور حدیث میں ”لا نَبِی بَعْدِی“ کے اعلان نے آپ صلی الیم کے بعد نص و نامزدگی کی راہ بند کر دی۔ چنانچہ مرد بالغ کے باپ ہونے کی نفی کر کے ”لیکن“ حرفِ استدراک لا کر یہ بتا دیا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺکا مقصد تخلیق صرف اللہ کا رسول اور خاتم النبیین ہونا ہے۔ استدراک کے معنی ہیں: ” ایک سابقہ معلومات میں نئی معلومات کا اضافہ جو گزشتہ بیان کے ابہام اور خفاء کو دور کر دے اور گزشتہ مفہوم کے لیے سبب و علت کا کام دے۔

خاتم النبیین کہنے کی حکمت:

اللہ رب العزت نے وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ کہا، [font ﴾ نہیں کہا، اس نکتہ بلاغت کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا ضروری ہے کہ نبی ہر اس برگزیدہ انسان کو کہتے ہیں

جس کے پاس اللہ کا فرشتہ کوئی پیغام لے کر آئے خواہ وہ وحی کامل شریعت ہو ، کوئی جزوی حکم ہو ، یا احکام شرعیہ سے علیحدہ کوئی خاص ہدایت و خبر ہو۔ لہذا ہر صاحب وحی ”نبی “ ہوئے ہیں، جب وہ نبی اللہ کی طرف سے آئی ہوئی وحی دوسروں تک پہنچانے پر مامور ہوں تو ”رسول“ کہلائیں گے۔ بعض علماء کے نزدیک صاحب کتاب نبی کو ”رسول“ کہتے ہیں۔ نبی انسانوں میں ہوتے ہیں اور رسول انسانوں اور فرشتوں دونوں میں اللہ نے مقرر فرمائے ہیں۔ انسانوں میں ہر رسول، نبی ہے لیکن ہر نبی، رسول نہیں ہے کیونکہ فرشتوں میں رسول تو ہیں نبی نہیں ہیں ، نبی صرف انسانوں مقرر ہوئے ہیں۔ اگر قرآن مجید میں ” خاتم النبیین کے بدلے ”خاتم المرسلین“ یا ” خاتم الرسل“ ہوتا تو اس کا مفہوم یہ ہوتا کہ آپ صلی ایام کے بعد نہ کوئی کتاب آئے گی اور نہ کوئی رسول آئیں گے ، مگر عام نبی جو مکمل کتاب والے اور صاحب شریعت نہ ہوں ان کی آمد ممکن ہے۔ اللہ رب العزت نے ” خاتم النبیین “ کہہ کر واضح کر دیا کہ حضرت محمد ﷺکے بعد کسی وحی و صاحب وحی کی گنجائش نہیں ہے اور اب کوئی نبی نہیں آسکتا۔ نبوت کے ختم ہونے سے لازمی طور پر رسول ، شریعت، کتاب اور صحیفہ ہر ایک بات کا اختتام ہو گیا۔

اللہ کی طرف سے وحی آنا نبی ہونا ختم ہو گیا، رہی یہ بات کہ حضور اکرمﷺ کے بعد تبلیغ دین کا فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا سلسلہ جاری ہے منصب نبوت برقرار ہے تو اس سے ختم نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:

(عَهْدِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)
یعنی: میرا دور قیامت تک ہے۔
{ {p |اب نبوت کی تمام ذمہ داریاں اور تبلیغ کے سارے فرائض بلا تعیین و تخصیص تمام اُمت پر ہیں۔ علماء، انبیاء کے وارث ہیں۔ نبوت کی ذمہ داریاں اور فرائض تبلیغ شخص واحد س واحد سے منتقل ہو کر جماعت دامت کے سپرد ہو گئیں۔ یہ الفاظ دیگر نبوت کی وراثت و مقام شخصی نہیں ہے بلکہ اجتماعی ہے کوئی خاص فرد نبی کا وارث و نائب نہیں ہے بلکہ پوری اُمت خیر امت کی حیثیت سے اجتماعی صورت میں نبی کی وارث اور قائم مقام ہے لہذا مقام نبوت کی عصمت بھی اُمت کو اپنی اجتماعی حیثیت میں حاصل ہے جو کچھ فیصلہ بھی یہ اُمت اپنے اجماع واجتماع سے کرے گی اس فیصلہ میں معصوم ہو گی اور وہ فیصلہ مقام عصمت کا فیصلہ ہو گا ۔76}}

ایک باطل تاویل کا ازالہ :

بعض لوگوں نے ”اثر ابن عباس سے یہ گھڑا ہے کہ ”خاتم النبیین کا معنی آخر النبیین“ نہیں ہے، اس لیے کہ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہو نا بائیں معنی ہے کہ آپ سب میں آخر نبی ہیں، مگر اہل فہم پر روشن کہ تقدم یا تاخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ”وَلكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ “ فرمانا کیونکر صحیح ہو سکتا، بلکہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طور پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خاتمیت کو تصور فرمائیے آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور نبی موصوف بالعرض ایں معنی جو میں نے عرض کیا آپ کا خاتم ہو نا انبیائے گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہو گا بلکہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہو نا بدستور باقی رہتا ہے بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا اسی 77 زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے ۔

اس کا جواب بحمداللہ ابتدائے کتاب میں ضروریات دین کے ضمن میں تنبیہ ضروری“ میں گزرا۔ جس میں ”خاتم النبیین“ کو ”افضل المرسلین“ گھڑنے والے اور خاتم النبیین“ کو ”نبی بالذات “ سے بدل دینے والے بد بختوں کا ذکر ہے۔ وہاں یہ بھی ذکر ہوا کہ اگر ان بد بختوں کی ایسی تاویلیں سُن لی جائیں اور درست مان لی جائیں تو اسلام و ایمان قطعاً درہم برہم ہو جائیں گے 78۔

اسی طرح اس کا جواب باب دوم کی فصل سوم میں بھی گزرا، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔

لہذا اس طرح کی تاویلیں کرنا صریح کفر ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان حنفی رحمہ اللہ کی ” حسام الحرمین “، جس میں علماء عرب و عجم نے اس طرح کی تاویلات کرنے والوں کو کا فرومرتد قرار دیا ہے۔

فصل دوم: احادیث و آثار پر اعتراضات

اس فصل میں چند احادیث ذکر کی جائیں گی، جن میں منکرین ختم نبوت، باطل تاویل و تحریف کے ذریعے اُن کا معنی بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اعتراض 1:

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

لا نَبِيَّ بَعْدِی78

اس حدیث میں کسی : رسول اللہ صلی العلیم کا نئے نبی کے آنے کی ممانعت نہیں ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی علیم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا۔۔۔ جو نئی شریعت کا اعلان کرے۔۔۔ قرآنی احکام میں رد و بدل کرے۔۔۔ الگ سے اپنی اُمت بنائے ۔۔۔ رسول اللہ صلی الم کی شریعت کو منسوخ کر دے، وغیرہ وغیرہ۔

جواب:

اعتراض کی اصل وجہ قرآن و سنت سے جاہل ہونا، یا جانتے ہوئے ہٹ دھرمی کرنا ہے، چنانچہ امام احمد رضا خان حنفی رحمہ اللہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس نے اس حدیث کا یہ معنی کیا کہ ”میرے بعد کوئی نیا نبی ایسی شریعت لے کر نہیں آئے گا، جو میری شریعت کو منسوخ کر دے“ وغیرہ۔ تو اللہ تعالی کی پناہ اس ترجمہ میں فتیح لغزش ہے، کیونکہ اس حدیث کا یہ معنی ہر گز نہیں بلکہ معنی یہ ہے کہ آپ صلی العلیم کے بعد کوئی نبی نہیں، چاہے موافق شریعت کے ساتھ ہو یا مخالف شریعت کے ساتھ ، یا موافقت و مخالفت کچھ بھی نہ ہو اور یہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ ( تعلیقات رضا بر حاشیہ طحطاوی )

اعتراض 2:

جناب مذکورہ حدیث : «لَا نَبِي بَعْدِی» میں کلمہ ”لا“ نفی کامل کے لیے ہے نہ کہ نفی جنس کے لیے۔ یعنی: ”میرے بعد کوئی کامل نبی نہیں ہو گا“ اور ناقص اور امتی نبی کی نفی نہیں ہے، جیسا کہ "لَا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ“میں ہے، یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی۔

جواب:

اگر یہ باطل تاویلیں درست مان لی جائیں تو بت پرست لا إِلهَ إِلَّا اللهکی تاویل یوں کر لیں گے کہ یہ ” افضل واعلیٰ “ سے مخصوص ہے یعنی : ”خدا“ کے برابر دوسرے خدا بھی ہیں، مگر وہ ”خدا“ سب دوسروں سے بڑھ کر خدا ہے، یہ معنی نہیں کہ دوسرا خدا ہی نہیں اور دلیل میں عرب کا یہ محاورہ پیش کرے کہ ، لَا فَتَى إِلَّا عَلَى لَا سَيْفَ إِلَّا ذُو الفقارتو کیا اس بت پرست کی یہ باطل تاویل سنی جائے گی۔۔۔ !79

رہا سورہ فاتحہ والی روایت سے استدلال تو اُس کا جواب یہ ہے کہ ”لا نفی جنس “ کا نفی کمال کے لیے ہونا اس کا مجازی معنی “ ہے اور ”نفی جنس“ کے لیے ہونا اس کا ”حقیقی معنی “ ہے۔ جب تک حقیقت محال یا متعذر نہ ہو اس کو مجاز پر محمول نہیں کیا جائے گا ، لا نبِی بَعْدِی میں حقیقت متعذر نہیں ہے اس لیے اس کا معنی ہے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور لا صَلوةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِمیں اس طرح نہیں ہے ، سورہ فاتحہ کے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے لیکن چونکہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے، اسی لیے نماز کامل نہیں ہوتی اور یہاں حقیقت متعذر ہے اس لیے ”لا“ کو نفی کمال اور مجاز پر محمول کیا ہے ۔ 80

اعتراض :3

جناب حدیث میں ہے: ”جب کسری مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہو گا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو پھر اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہو گا ۔81

ایران کے بادشاہ کو اور قیصر روم کے بادشاہ کو کہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بعد بھی ایران اور روم کے بادشاہ ہوتے رہے ہیں، لہذا الا نبی بعدی میں بھی یہی معنی ہے یعنی: نفی کمال کا۔

جواب:

علامہ نووی رحمہ اللہ اس کے جواب میں لکھتے ہیں:

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی علیم کے زمانہ میں کسری ایران کا اور قیصر روم کا بادشاہ تھا، اس طرح اور بادشاہ نہیں ہوں گے اور اسی طرح ہوا، کسری کا ملک روئے زمین سے منقطع ہو گیا اور اس کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور قیصر شکست کھا کر شام سے بھاگ گیا اور مسلمانوں نے ان دونوں ملکوں کو فتح کر لیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ بعد میں اس نام کے بادشاہ نہیں گزرے گی۔ 82

اعتراض 4:

اگر مذکورہ جوابات درست مان لیے جائیں تو حضرت اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا کیا ہو گا، جس میں آپ نے فرمایا:

«قُولُوا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلَا تَقُولُوا: لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ» 83
یعنی: حضور کو ” خاتم النبیین“ کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا “۔

جواب:

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا منشاء یہ ہے کہ چونکہ اللہ کے نبی حضرت عیسی علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہونا ہے اس لیے یوں نہ کہو کہ ”کوئی بھی نبی نہیں آئے گا بلکہ یوں کہو کہ ”کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا کیونکہ جب مطلقاً یہ کہا جائے کہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو اس کا متبادر معنی یہ ہے کہ کوئی نیا نبی آئے گا نہ پرانا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ان احادیث کے خلاف نہیں ہے جن میں یہ تصریح ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے۔84

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی الم نے فرمایا: مبشرات کے سوا میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، صحابہ نے پوچھا: مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا: ” سچے خواب جن کو کوئی شخص دیکھتا ہے یا اُس کے لیے دیکھے جائیں ۔ 85

اعتراض 5:

رسول اللہﷺ کے بعد نبوت جاری رہنے کی دلیل یہ حدیث بھی ہے:

«لو عَاشَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا»۔86

یعنی: ”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر نبی صلی علیم کے بیٹے حضرت ابراہیم زندہ ہوتے تو سچے نبی ہوتے ۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے نبی بننے سے مانع اُن کی موت تھی اگر وہ زندہ رہتے تو نبی بن جاتے، یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ چونکہ آپ صلی علی ایم کے بعد نبی کا آنا نا ممکن تھا اس لیے آپ صلی الم کے بیٹے کو زندہ نہیں رکھا گیا۔ نیز گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بیٹے بھی نبی ہوا کرتے تھے، جیسے حضرت اسماعیل اور حضرت سلیمان علیہما السلام و غیره، لہذا نبی کریم ﷺکے صاحبزادے بھی نبی ہوتے۔

جواب:

یہ اعتراض بھی قرآن وسنت کے اسلوب بیان سے جہالت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ اس سے ہر گز امکانِ نبوت نہیں نکلتا، بلکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی، ارشاد ہوتا ہے:

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَتا 87
اگر آسمان وزمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتے تو ضرور وہ ( آسمان وزمین ) تباہ ہو جاتے۔

جس طرح دو خداؤں کا ہونا اور آسمان وزمین میں فساد دونوں چیزیں ممتنع ہیں، اسی طرح اس حدیث میں بھی حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا زندہ رہنا اور اُن کا نبی ہونا دونوں چیزیں ممتنع ہیں۔ نیز اس حدیث کی تشریح دوسرے اقوال سے بھی ہوتی ہے، مثلاً صحیح بخاری شریف میں اسماعیل بن ابی خالد سے ہے:

«قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَى: رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : مَاتَ صَغِيرًا وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ وَلَكِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ ۔88
میں نے حضرت عبداللہ بن ابی ادفی رضی رضی اللہ عنہما سے پوچھا: آپ نے حضرت ابراہیم صاحبزادہ صاحبزادہ رسول ﷺکو دیکھا تھا ؟ فرمایا: ” ان کا بچپن میں انتقال ہوا اور اگر مقدر ہوتا کہ محمد ﷺکے بعد کوئی نبی ہو تو حضور کے صاحبزادے ابراہیم زندہ رہتے ۔ ، مگر حضور کے بعد نبی نہیں

کہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے

وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ نَبِيًّا لَكِنْ لَمْ يَبْقَ لِأَنَّ نَبِيَّكُمْ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ»89
یعنی: اگر حضرت ابراہیم زندہ رہتے تو نبی ہوتے، لیکن وہ باقی نہیں رہے، کیونکہ تمہارے نبی آخری نبی ہیں ۔

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

«لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ»۔90
یعنی: ” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا ۔

یہ الفاظ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں بھی ارشاد ہوئے اور وہ نبی کریم ﷺ کے بعد زندہ بھی رہے مگر نبوت کا دعویٰ نہ کیا۔۔ ! کیوں۔۔۔؟ وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی علیم کے بعد کوئی نبی نہیں۔

حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ والی روایت کے سلسلے میں حق بات یہ ہے کہ انبیاء سابقین علیہم السلام اور اُن کے بیٹوں کا قیاس ہمارے نبی سید المرسلین اور ان کے صاحبزادوں پر درست نہیں۔ پھر اگر آپ ﷺکے بعدآپ ﷺ کا بیٹا نبوت کا مستحق ٹھہرے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ باقی تمام انبیاء کرام کے بیٹے بھی نبوت کے مستحق ہوں۔

دیلمی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ہم اہل بیت پر کسی کو قیاس نہ کیا جائے ۔91 کسی کا یہ گمان کرنا کہ مذکورہ حدیث نبوت کا حکم بیان کر رہی ہے، تو یہ بات ہمیں تسلیم نہیں، بلکہ حدیث مذکور رسول ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم رضی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ خبر دے رہی ہے کہ ان میں انبیاء کرام علیہم السلام جیسے خصائل و اوصاف تھے کہ اگر رسول اللہ صلی الیم کے لیے نبوت ختم نہ ہوتی تو ابراہیم، اللہ کے فضل محض سے نبی ہوتے، نہ یہ کہ وہ بطور استحقاق نبی بن جاتے ، کیونکہ کوئی بھی اپنی ذات میں نبوت کا مستحق نہیں، اللہ تعالیٰ نبوت کے لیے اپنے بندوں میں سے ایسے کو منتخب فرماتا ہے جو صورة ، معنی، نسبا اور حسبا ہر اعتبار سے تام و کامل ہو اور ہر خیر میں انتہائی مرتبہ کو پہنچا ہو،

{p | اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{}}
اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ 92
”اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے “۔

تو حدیث مذکور کی دلالت بھی وہی ہے جولَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ والی حدیث کی دلالت ہے ، واللہ تعالیٰ اعلم ۔93

نیز ایک جواب یہ بھی ہے کہ اس حدیث کا یہ معنی نہیں کہ چونکہ حضرت ابراہیم زندہ نہیں رہے اسی لیے وہ سچے نبی نہیں ہوئے، بلکہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ چونکہ رسول الله صلی علیم کے بعد کسی سچے نبی کا آنا ممکن نہیں تھا، اسی لیے حضرت ابراہیم کو زندہ نہیں رکھا گیا ۔94

اعتراض: 6

علمائے اسلام نے اپنی کتب میں صراحت کی ہے کہ مطلق ”نبوت ختم نہیں ہوئی، بلکہ ”نبوت“ اب بھی باقی ہے، دلیل رسول ﷺ کا یہ فرمان ہے:

(لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا مُبَشِّرَاتِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوْ تُرَى لَهُ)95
یعنی: «نبوت میں سے صرف بشارتیں باقی ہیں، وہ اچھے خواب ہیں کہ نیک آدمی دیکھے یا اس کے لیے دیکھا جائے “ ۔

جواب:

دیگر روایات میں الفاظ کریمہ یوں ہیں:

ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ
یعنی: نبوت چلی گئی اور مبشرات باقی رہ گئے ۔
( ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ أَوْ تُرَى لَهُ)96
یعنی: نبوت چلی گئی پس میرے بعد نبوت نہیں مگر بشار تیں باقی ہیں، اچھا خواب کہ نیک آدمی دیکھے یا اس کیلئے دیکھا جائے ۔

در اصل نبوت نام ہے (۱) تمام اخلاق رذیلہ سے پاک اور (۲) تمام اخلاق فاضلہ سے مزین ہو کر (۳) تمام مدارج ولایت کر لینا، (۴) اپنے نسب و جسم ، (۵) قول و فعل اور (۶) حرکات و سکنات میں ہر ایسی بات سے منزہ ہونا ہے جو باعث نفرت ہو ، اس کے ساتھ ساتھ (۷) عقل کامل کا عطا کیا جانا ، ان کے علاوہ دیگر صفات کے ساتھ ساتھ بچے خواب کا آنا ۔97

ایک نبی میں مذکورہ بالا تمام صفات ہوتی ہیں، رسول اللہ صلی علیم کے بعد غیر نبی میں ان صفات میں سے کسی صفت کے ہونے سے یہ لازم کب آتا ہے کہ وہ شخص بھی ”نبی “ بن جائے گا۔ اگر یہی قاعدہ کلیہ درست ہے تو پھر تمام انبیاء کرام علیہم السلام نیک ہوتے ہیں، لہذا ان کے امتیوں میں جو بھی نیک ہے وہ اس صفت نیکی میں انبیاء کرام علیہم السلام کا شریک ہے تو کیا تمام نیک لوگ ”نبی “ ہو گئے ۔۔۔؟ سبحان اللہ ! اگر یہ درست ہے تو منکرین ختم نبوت کے ”گروجی“ کی کیا خصوصیت رہی ” دعوائے نبوت“ میں۔۔۔! نیز مذکورہ حدیث میں یہ بتانا مقصود ہے کہ صفاتِ انبیاء کرام میں جہاں دیگر امور قابلِ ذکر ہیں، وہیں سچا خواب “ بھی شامل ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مستقبل کے واقعات کی خبر دیتا ہے۔

حدیث کی تشریح سمجھے کے لیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، اسے یوں سمجھیں:

ا۔ مثلاً ” انسان فانی مخلوق ہے ، لیکن کیا ہر فانی مخلوق، انسان ہے؟ یقیناً جواب نفی میں ہوگا۔

۲۔ یا یوں سمجھ لیں مثلاً اللہ تعالیٰ دیکھنے والا سننے والا ہے، انسان بھی دیکھنے والا سننے والا ہے ، تو کیا نعوذ باللہ ” خدا، انسان اور انسان ، خُدا ہو جائے گا“۔

لطيفہ:

استدلال کا یہ طریقہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کو ا کالا ہوتا ہے، میرے سر کے بال بھی کالے ہیں ، لہذا میرے بال کو ہوئے “ یا ”ہر کالی چیز کو اہے “۔

اللہ تعالیٰ ایسی عقل رکھنے والوں سے بچائے۔ ہمیں دین و دنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ہم فدائی ختم نبوت کے

کلام: حامد علی علیمی

اللہ کے کرم سے ہم سنی ہیں فدائی ختم نبوت کے
آقا کی عنایت سے ہم ہیں شیدائی ختم نبوت کے
اللہ نے بخشی ہے ہم کو یہ اعلیٰ سعادت دنیا میں
ہم اہل سنت دنیا میں ہیں سپاہی ختم نبوت کے
ہم دعوت اُن کو دیتے ہیں، جو ظلی بروزی گھڑتے ہیں
توبہ کر کے بن جائیں وہ سب داعی ختم نبوت کے
جب قومی اسمبلی میں اُٹھا تھا مسئلہ ختم نبوت کا
اُس وقت محافظ تھے احمد نورانی ختم نبوت کے
ہے فیصلہ ساری اُمت کا، آئین ملک اور ملت کا
ہیں کافر و مرتد مرزائی انکاری ختم نبوت کے
اے مولی ! جب ہو حشر بپا، وہ سرورِ دیں ہو جب دولہا
ہوں اُس محبوب کے زیر لواسب حامی ختم نبوت کے
ہم اپنا فرض نبھائیں گے، ہر باطل سے ٹکرائیں گے
ہم دین کے خادم ہیں حامد سودائی ختم نبوت کے


  • 1 شرح عقائد نسفی “ مع ”نبر اس“، مکتبۂ حقانیہ ، محلہ جنگی پشاور ، ص 392
  • 2 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج 29، ص 254
  • 3 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج 29، ص 254
  • 4 فتاوی رضویہ ، ج 15، ص 431، ملخصا
  • 5 النساء ،145/4
  • 6 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج 14، ص 327-329
  • 7 حاشیہ طحطاوی علی الدر ، خطبه کتاب ، ج 1 ، ص 25
  • 8 فتاوی رضویہ ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور ، ج 29، ص 214-215، ملخصا
  • 9 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج 1 ، ص 239-243
  • 10 یعنی: علی کرم اللہ وجہہ جیسا کوئی بہادر جوان نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔
  • 11 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج 14، ص 266
  • 12 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج15، ص 466-467
  • 13 الاحزاب: 40/33
  • 14 ملخصا از " فتاوی رضویہ ، ج 15، ص 630
  • 15 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج15، ص :717،718
  • 16 الاحزاب: 36/33
  • 17 الحشر : 7/59
  • 18 اعراف: 158/7
  • 19 عالمگیر نبوت ، سید محمد ہاشم فاضل شمسی ، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز، کراچی ، ص 18-21
  • 20 الاحزاب: 40/33
  • 21 سبا: 28/34
  • 22 اعراف: 3/7
  • 23 مائدہ: 3/5
  • 24 عالمگیر نبوت، سید محمد ہاشم فاضل شمسی، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنرز، کراچی، ص 22-24
  • 25 مائدہ ، 20/5
  • 26 جاشیہ : 16/45
  • 27 یوسف: 6/12
  • 28 عالمگیر نبوت ، سید محمد ہاشم فاضل شمسی، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز، کراچی ، ص 32-37
  • 29 آل عمران: 28/3
  • 30 عنکبوت: 57/29
  • 31 عالمگیر نبوت ، سید محمد ہاشم فاضل شمسی ، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز، کراچی ، ص 29-32-
  • 32 بقره : 4/1
  • 33 عالمگیر نبوت ، سید محمد ہاشم فاضل شمسی، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز، کراچی ، ص 55-57
  • 34 بقرہ: 150/1-151
  • 35 عالمگیر نبوت، سید محمد ہاشم فاضل شمسی ، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز، کراچی ، ص 87-89
  • 36 سبا: 28/34
  • 37 البقرۃ،213/2
  • 38 عالمگیر نبوت، سید محمد ہاشم فاضل شمسی ، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنر، کراچی ، ص 89-90
  • 39 فتاویٰ رضویہ ، ج 14، ص 337۔
  • 40 جامع ترمذی، ابواب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعة حتى يخرج کذابون ، امین کمپنی دہلی، ج 2، ص 45
  • 41 المعجم الكبير للطبرانی، ترجمہ حذیفہ رضی اللہ عنہ ، حدیث: ۳۰۲۶، مکتبہ فیصلیہ بیروت، ج 3، ص170
  • 42 جامع الترمذی، ابواب الرؤيا، باب ذهبت النبوة الخ، امین کمپنی کتب خانہ رشید یہ دہلی ، ج 2، ص 51
  • 43 صحیح مسلم ، کتاب الفضائل، باب فی اسماء اصلی ام ، قدیمی کتب خانہ ، کراچی ج 2، ص 261،شعب الایمان للبیہقی، فصل فی اسماء رسول الله صلى ا، رقم حدیث: 1397، ج 2، ص 141 ، دار الكتب العلمیہ، بیروت۔
  • 44 فتاوی رضویہ ، ج15، ص 647
  • 45 صحیح مسلم ، کتاب الفضائل، قدیمی کتب خانہ کراچی ، ج 2، ص 248،صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبيين، قدیمی کتب خانہ کراچی ، ج 1 ، ص 501
  • 46 جامع ترمذی، ابواب المناقب، آفتاب عالم پر لیس، لاہور ، ج 2، ص 301
  • 47 محمد ارشاد عالم نعمانی، ”غزالی زماں مولانا سید احمد سعید کاظمی ، ماہنامہ جام نور ، دہلی دسمبر 2011ء، ص 21، بحوالہ حیات غزالی زماں ص 65
  • 48 یس: 6/36
  • 49 نساء : 44/4-46
  • 50 حجر، 15/9
  • 51 عالمگیر نبوت ، سید محمد ہاشم فاضل شمسی، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز، کراچی ، ص 24-26
  • 52 انعام : 124/6
  • 53 بقرۃ: 194/2
  • 54 انفال: 19/8)
  • 55 توبہ : 40/9
  • 56 نحل: 128/16
  • 57 حدید : 4/57
  • 58 عنکبوت: 9/29
  • 59 حدید:18/57
  • 60 ملخصا از تبیان القرآن، ج 9، ص 483-487، وعالمگیر نبوت، ص 38-46
  • 61 اعراف: 35/7
  • 62 الاحزاب: 40/33
  • 63 عنکبوت: 57/29
  • 64 انعام: 12/6
  • 65 فرقان: 58/25
  • 66 ملخصا از تبیان القرآن، ج 9، ص 484-486
  • 67 حج، 75/22
  • 68 نساء: 43/4
  • 69 بقرہ: 219/2
  • 70 مائده: 90/5
  • 71 عالمگیر نبوت، سید محمد ہاشم فاضل شمسی، ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز، کراچی ، ص 46-47
  • 72 دیکھیے تفسیر خزائن العرفان، زیر آیت: 75، سورۂ حج
  • 73 الاحزاب: 40/33
  • 74 ملخصا از عالمگیر نبوت، سید محمد ہاشم فاضل شمسی ، ص 70-86 ، و تبیان القرآن، ج 9، ص486-488
  • 74 احزاب: 33/ 40
  • 75 نحل: 43/16
  • 76 ملخصا از عالمگیر نبوت، سید محمد ہاشم فاضل شمسی ، ص 57-67
  • 77 تحذیر الناس، مطبوعہ دار الاشاعت کراچی، ص 18-24
  • 78 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج 14، ص 266
  • 78 المعجم الكبير للطبرانی، ترجمه حذیفہ رضی اللہ عنہ ، حدیث : ۳۰۲۶، مکتبہ فیصلیه بیروت، 170/3
  • 79 ملخصا از فتاوی رضویہ ، ج 14، ص 266
  • 80 تبیان القرآن، ج9، ص: 489-488
  • 81 صحیح مسلم ، ج 2، ص 399
  • 82 تبیان القرآن، ج9، ص: 489-488
  • 83 مصنف ابن ابی شیبہ ، ج 5، ص 337 ، رقم الحدیث : 26644، دار الکتب العلمیہ بیروت
  • 84 مسند احمد، رقم الحدیث: 24858، ج 6، ص 129 ، دار الحدیث قاہرہ،1416ھ
  • 85 مصنف ابن ابی شیبہ ، ج 5، ص 337 ، رقم الحدیث : 26644، دار الکتب العلمیہ بیروت
  • 86 مسند احمد ، ج 3، ص 133 ، طبع قدیم ، تاریخ دمشق الکبير، ج 3، ص 76 ، رقم الحديث: 579
  • 87 انبیاء: 22/21
  • 88 صحیح البخاری، کتاب الآداب، باب من سمى باسماء الانبیاء، قدیمی کتب خانہ، کراچی، ج2، ص914
  • 89 عقیدہ ختم النبوة، رسالہ: ختم النبوة، علامہ مفتی غلام مرتضی صاحب، ج 8، ص 11/223۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : عقیدہ ختم النبوة، رسالہ : ختم النبوة، علامہ مفتی غلام مرتضی صاحب، ج 8،ص 11/223،ص 20/232
  • 90 جامع الترمذی، مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب، امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ ، دہلی، ج 2، ص 209
  • 91 الفردوس بمأثور الخطاب ، رقم حديث: 6838 ، دار الکتب العلمیہ بیروت، ج 4، ص 283
  • 92 انعام: 124/6
  • 93 فتاوی رضویہ ، ج15، ص 673-672
  • 94 تبیان القرآن، ج9، ص 484-483
  • 95 صحیح البخاری، کتاب التعبير ، باب مبشرات، قدیمی کتب خانہ کراچی ، ج 2، ص 1035 ،موطا امام مالک، ماجاء فی الرؤیا، میر محمد کتب خانہ، کراچی، ص 724، وسنن ابن ماجه ، ابواب التعبير الرؤيا، باب الرؤيا الصالحة يرابا المسلم ۔ ۔ الخ، ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، ص 286
  • 96 مسند احمد بن حنبل، حدیث ام کر زرضی اللہ عنہا، المکتب الاسلامی بیروت، ج 6، ص 381۔ المعجم الكبير ، رقم حديث: 3051، المكتبة الفيصلية بیروت، ج 3، ص179
  • 97 بہار شریعت ، حصہ اول، عقائد متعلقہ نبوت، عقیدہ نمبر : ۱۴، ج 1، ص 37 - مکتبۃ المدینہ ، کراچی

Netsol OnlinePowered by