بسم الله الرحمن الرحیم
مسئلہ: از سر ساوہ ضلع سہارن پور مرسلہ یعقوب علی خان کلاک پولیس ۱۵ رمضان المبارک ۱۳۱۵
قبلہ و کعبہ ام مدظلہ بعد آداب فدویانہ کے معروض خدمت کے اس قصبہ سر ساوہ میں ایک شخص جو اپنے آپ کو نائب مسیح، یعنی مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود کا خلیفہ بتلاتا ہے رہتا ہے۔ پرسوں اُس نے ایک عبارت پیش کی جس کا مضمون ذیل میں تحریر کرتا ہوں ایک دوسرے صاحب نے وہی عبارت مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو بھیجی ہے مگر میں خدمت والا میں پیش کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ بہت جلد جواب سے مشرف ہوں گا اور در صورت تاخیر کے کئی مسلمانوں کا ایمان جاتا رہے گا اور وہ اپنی راہ پر لے آئے زیادہ آداب !
ایک مدت سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات وحیات میں ہر جگہ گفتگو ہوتی ہے اور اس میں دو گروہ ہیں ایک وہ گروہ ہے جو مدعی حیات ہے اور ایک وہ گروہ ہے جو منکر حیات ہے اور ان دونوں فریق کی طرف سے کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
اب میں آپ کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ ان دونوں فریق میں سے کون حق پر ہے؟ بس اس بارے میں ایک آیت قطعی الدلالۃ اور صریحۃ الدلالہ یا کوئی حدیث مرفوع متصل اس مضمون کی عنایت فرمائیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام بجسده العنصری ذیحیات جسمانی آسمان پر اٹھا لیے گئے ہیں اور کسی وقت میں بعد حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہﷺ آسمان سے رجوع کریں گے اور اس دوبارہ رجوع میں وہ نبی نہ رہیں گے اور وہ نبوت یا رسالت سے خود مستعفی ہوں گے یا اُن کو خدا تعالیٰ اس عہدہ جلیلہ سے معزول کر کے اُمتی بنادے گا ؟ تو پہلے تو کوئی آیت بشروط متذکرہ بالا ہونی چاہیے اور بعد اس کے کوئی حدیث ، تا کہ ہم اس حالت تذبذب سے بچیں اور جو آیت ہو اُس میں لفظ حیات ہو خواہ کسی صیغے سے ہو۔ یہاں کئی صاحب ایسے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر گفتگو کرتے ہیں اور متوفيك وفلما توفيتنی دو آیت پیش کرتے ہیں اور ان دونوں آیتوں کا ترجمہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم و ابن عباس سے پیش کرتے ہیں اور سند میں صحیح بخاری اور اجتہاد بخاری موجو موجود کرتے ہیں۔
اب آپ ان آیتوں کے ترجمے جو کسی صحابی یارسول اللہ ﷺسے منقول ہوں اور صحیح بخاری میں موجود ہوں عنایت فرمائیے اور دونوں طرف روایتیں ہر قسم کی موجود ہیں ہم کو صرف قرآن شریف سے ثبوت چاہیے جس کے تواتر کے برابر کوئی تو اتر نہیں ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت امام مہدی اور دجال کا ہونا قرآن شریف میں ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس آیت اور نہیں ہے تو وجہ فقط ۔بینوا توجروا
فتوی
بسم الله الرحمن الرحیم
ان الذين كذبوا بايتنا واستكبروا عنها لا تفتح لهم ابواب السماء الحمد الله الذي خلق عبده و ابن امته عیسی بن مریم رسول الله بكلمة منه وجعله فى البدء مبشرا برسول ياتي من بعده اسمه احمد وفى الختم ناصرًا لملة اماما من امته نائبا عنه صلى الله تعالى عليه وعلى سائر انبيائه وكل محبوب لديه وعلينا بهم الى يوم الدین امین امین یا رب العلمين قال الفقير محمدن المدعو بحامد رضا القادري البريلوى غفر له الله تعالى له واور ده من مناهل المنى كل موردروى
برادران مسلمین حفظكم الله تعالی عن شرور المفسدین حفظ ناموس و حفظ جسم و حفظ مال میں سب مومن و کافر ہمیشہ ساعی و سر گرم رہتے ہیں، اللہ عز وجل کو یاد کر کے اپنے وقت عزیز کا ایک حصہ اپنے حفظ دین میں بھی صرف کیجئے کہ یہ سب سے اہم ہے یعنی بگوش ہوش یہ چند کلمے سن لیجئے اور انہیں میزان عقل و انصاف میں تول کر حق و ناحق کی تمیز کیجئے فضل الہی عزوجل سے امید واثق ہے کہ دم کے دم میں صبح حق تجلی فرمائیگی اور شب ضلالت کی ظلمت دھواں ہو کر اُڑ جائے گی۔
مخالفین! اگر بر سر انصاف آئیں فهو المراد ورنہ آپ تو بعنایت الہی راہ حق پر ثابت قدم ہو جائیں گے ۔ وباللہ التوفیق میں پیش از جواب چند مقدمات نافعہ ذکر کرتا ہوں جن سے بعد نہ تعالیٰ حق واضح ہو اور صواب لائح:
والله المعين وبه نستعينمسلمانو! میں پہلے تمہیں ایک سہل پہچان گمراہوں کی بتاتا ہوں جو خود قرآن مجید وحدیث حمید میں ارشاد ہوئی ۔ اللہ عز وجل نے قرآن عظیم اُتارا:
تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ1
کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔
جس میں ہر چیز کا روشن بیان تو کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن میں نہ ہو مگر ساتھ ہی فرمادیا۔
وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَلِمُونَ 2
اس کی سمجھ نہیں مگر عالموں کو ۔
اس لیے فرماتا ہے:
فَسْتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 3
علم والوں سے پوچھو اگر تم نہ جانتے ہو۔
اور پھر یہی نہیں کہ علم والے آپ سے آپ کتاب اللہ کے سمجھ لینے پر قادر ہوں نہیں بلکہ اس کے متصل ہی فرما دیا:
وَانْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِم 4
اے نبی ہم نے یہ قرآن تیری طرف اس لیے اتارا کہ لوگوں سے (اس کی) شرح بیان فرمادے اس چیز کی جو ان کی طرف اتار دی گئی۔
اللہ ! اللہ ! قرآن عظیم کے لطائف ونکات منتہی نہ ہوں گے، ان دو آیتوں کے اتصال سے رب العلمین نے ترتیب وار سلسلہ فہم کلام الہی کا منتظم فرما دیا کہ: اے جاہلو ! تم کلامی علماء کی طرف رجوع کرو اور اسے عالمو ! تم ہمارے رسول کا کلام دیکھو تو ہمارا کلام سمجھ میں آئے غرض ہم پر تقلید ائمہ واجب فرمادی اور آئمہ پر تقلید رسول اور رسول پر تقلید قرآن۔
والله الحجة البالغة والحمد لله رب العلمين
اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے حجت بالغہ ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے حمد ہے جو رب العالمین ہے۔
امام عارف بالله عبد الوہاب شعرانی قدس سره الربانی نے کتاب مستطاب ميزان الشريعة الكبری “ میں اس معنی کو جا بجا تفصیل تام بیان فرمایا از اں جملہ فرماتے ہیں:
لولا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم فصل بشريعة ما اجمل في القرآن بقى على اجماله كما ان لائمه المجتهدين لولم يفصلواما اجمل فى السنة لبقيت السنة على اجمالها وهكذا الى عصر نا هذا 1
پس اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شریعت سے مجملات قرآن عظیم کی تفصیل نہ فرماتے تو قرآن یوں ہی مجمل رہتا اور اگر ائمہ مجتہدین مجملات حدیث کی تفصیل نہ کرتے تو حدیث یوں ہی مجمل رہتی اور اسی طرح ہمارے اس زمانے تک کہ اگر کلام ائمہ کی علمائے ما بعد شرح نہ فرماتے تو ہم اسے سمجھنے کی لیاقت نہ رکھتے۔
تو یہ سلسلہ ہدایت رب العزۃ کا قائم فرمایا ہوا ہے جو اسے توڑنا چاہے وہ ہدایت نہیں چاہتا بلکہ صریح ضلالت کی راہ چل رہا ہے اسی لیے قرآن عظیم کی نسبت ارشاد فرمایا:
يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا 5
اللہ تعالی اسی قرآن سے بہتروں کو گمراہ کرتا اور بہتروں کو سیدھی راہ عطا فرماتا ہے۔
جو سلسلے سے چلتے ہیں بفضلہ تعالی ہدایت پاتے ہیں او جو سلسلہ توڑ کر اپنی ناقص اوندھی سمجھ کے بھرو سے قرآن عظیم سے بذات خود مطلب نکالنا چاہتے ہیں چاہ ضلالت میں گرتے ہیں،
اسی لیے امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سیاتى ناس يجاد لو نكم بشبهات القرآن مخذوهم بالسنن فان اصحاب السنن اعلم بكتاب الله
قریب ہے کہ کچھ لوگ آئیں گے جو تم سے قرآن عظیم کے مشتبہ کلمات سے جھگڑیں گے تم انہیں حدیثوں سے پکڑو کہ حدیث والے قرآن کو خوب جانتے ہیں۔
رواہ الدارمي 6ونصر المقدسي في الحجة واللا لكائي في السنة 7وابن عبد البر في العلم8وابن زمنين في أصول السنة والدار قطني والا صبهاني في الحجة وابن النجار
دارمی نے اور نصر مقدسی نے الحجہ میں اور لالکائی نے السنہ میں السنہ میں اور اور ابن عبدالبر نے ” العلم میں اور ابن زمنین نے "اصول السنة". دار قطنی اور اصبھانی نے ”الحجہ میں اور ابن نجار نے اس حدیث پاک کو روایت کیا (فاروقی )
اسی لیے امام سفیان بن عینیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
الحديث مضلة الا الفقهاء 9
حدیث گمراہ کر دینے والی ہے مگر ائمہ مجتہدین کو تو وجہ وہی ہے کہ قرآن مجمل ہے جس کی توضیح حدیث نے فرمائی اور حدیث مجمل ہے جس کی تشریح ائمہ مجتہدین نے کر دکھائی تو جو ائمہ کا دامن چھوڑ کر خود قرآن وحدیث سے اخذ کرنا چاہے بہکے گا ، گرے گا اور جو حدیث چھوڑ کر قرآن مجید سے لینا چاہے وادی ضلالت میں پیاسا مرے گا تو خوب کان کھول کر سن لو اور لوح دل پر نقش کر رکھو کہ جسے کہتا سنو ہم اماموں کا قول نہیں جانتے ہمیں تو قرآن وحدیث چاہیے جان لو یہ گمراہ ہے اور جسے کہتا سنو کہ ہم حدیث نہیں جانتے ہمیں صرف قرآن درکار ہے سمجھ لو کہ یہ بددین ، دین خدا کا بدخواہ ہے،
پہلا فرقہ قرآن عظیم کی پہلی آیت:
فَسْتَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ 10
یعنی اے لوگو! علم والوں سے پوچھو۔
کا مخالف مستکبر
اور دوسرا طائفہ قرآن عظیم کی دوسری آیت:
لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِم 11
یعنی لوگوں کو اس کی شرح بیان فرمادیں جو ان کی طرف اترا کا منکر ہے۔
رسول اللہﷺنے پہلے فرقہ مخذولہ کا رداس حدیث میں فرمایا کہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں:
الاسألو اذلم يعلمو افانما شفاء العى السؤال رواه ابوداؤد عن جابر بن عبد الله رضی الله عنه 12
کیوں نہ پوچھا جب نہ جانتے تھے کہ تھکنے کی دوا تو پوچھنا ہے۔
اور دوسرے طائفہ ملعونہ کا رد اُس حدیث میں فرمایا کہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم )ارشاد فرماتے ہیں:
الااني اوتيت القرآن ومثله معه الايو شك رجل شبعان على اريكته يقول عليكم بهذا القرآن فما و جدتم فيه من حلال فاحلوه وما وجد تم فيه من حرام فحرموه وان ما حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم كما حرم الله رواه الأئمة احمد13 والدارمی 14 وابو داؤد 15 والترمذى16 وابن ماجه 17عن المقدام بن معد يكرب ونحوه عندهم ماخلا الدارمي وعند البيهقي في الدلائل18 عن ابي رافع وعندابي داؤد عن العرباض بن سارية رضى الله تعالى عنهم
سن لو مجھے قرآن عطا ہوا اور قرآن کے ساتھ اس کا مثل خبر دار نزدیک ہے کہ کوئی پیٹ بھرا اپنے تخت پر پڑا کہے یہی قرآن لیے رہو اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو حرام پاؤ اسے حرام جانو حالانکہ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی وہ اُسی کے مثل ہے جو اللہ نے حرام فرمائی۔ (یعنی اس حدیث پاک کو امام احمد امام دارمی امام ابوداؤ د امام ترندی اور امام ابن ماجہ حضرت مقدام ابن معدیکرب سے روایت کیا اور ایسے ہی ان کے نزدیک سوائے دارمی کے اور امام بیہقی کے نزدیک لائل میں حضرت ابو رافع سے اور ابو دادو کے نزدیک حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔( فاروقی )
رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق اس زمانہ فساد میں ایک تو پیٹ بھرے بے فکرے نیچری حضرات تھے جنہوں نے حدیثوں کو یکسر ردی کر دیا اور بزور زبان صرف قرآن عظیم پر دارو مدار رکھا حالانکہ واللہ وہ قرآن کے دشمن اور قرآن اُن کا دشمن وہ قرآن کو بدلنا چاہتے ہیں اور مراد الہی کے خلاف اپنی ہوائے نفس کے موافق اُس کے معنی گھڑنا ، اب دوسرے یہ حضرات نئے فیشن کے مسیحی اس انوکھی آن والے پیدا ہوئے کہ ہم کو صرف قرآن شریف سے ثبوت چاہیے جس کے تواتر کے برابر کوئی تو اتر نہیں ہے تو بات کیا ہے کہ یہ دونوں گمراہ طائفے دل میں خوب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں ان کا ٹھکانہ نہیں حضور (ﷺ ) کی روشن حدیثیں ان کے مردود خیالات کے صاف پرزے پارچے بکھیر رہی ہیں۔ اسی لیے اپنی بگڑتی بنانے کو پہلے ہی دروازہ بند کرتے ہیں کہ ہمیں صرف قرآن شریف سے ثبوت چاہیے جس میں عوام بیچاروں کے سامنے اپنے سے لگتے لگا لینے کی گنجائش ہو۔
مسلمانو ! تم ان گمراہوں کی ایک نہ سنو اور جب تمہیں قرآن میں شبہ ڈالیں تم حدیث کی پناہ لو اگر اس میں این و آں نکالیں تو ائمہ کا دامن پکڑو اس تیسرے درجے پر آ کر حق و باطل صاف کھل جائے گا اور ان گمراہوں کا اڑایا ہوا سارا غبار حق کے برستے ہوئے بادلوں سے دُھل جائے گا اس وقت یہ ضال مضل طائفے بھاگتے نظر آئیں گے:
كَانَهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ 19
گویا وہ بھڑ کے ہوئے گدھے ہوں کے شیر سے بھاگے ہوں، کنز الایمان
اول تو حدیثوں ہی کے آگے انہیں کچھ نہ بنے گی صاف منکر ہو بیٹھیں گے اور وہاں کچھ چون و چرا کی تو ارشادات ائمہ معافی حدیث کو ایسا روشن کر دیں گے کہ پھر انہیں یہی کہتے بن آئے گی کہ ہم حدیث کو نہیں جانتے یا ہم اماموں کو نہیں مانتے اس وقت معلوم ہو جائے گا کہ ان کا امام ابلیس لعین ہے جو انہیں لیے پھرتا ہے اور قرآن وحدیث وائمہ کے ارشادات پر نہیں جمتے دیتا و لا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم
یہ نفیس و جلیل فائدہ ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھو کہ ہر جگہ کام آئے گا اور باذن اللہ تعالیٰ ہزاروں گمراہیوں سے بچائے گا کیف لا وانه من زواهر جواهر افادات سيدنا الوالد العلام مقدم المحققين الاعلام مدظه العالي الى يوم القيام في كتابه المستطاب البارقة الشارقة على مارقة المشارقة والحمد لله رب العلمين یعنی کیوں نہیں کہ وہسیدنا والد العلام مقدام المحققين الاعلام مدخله العالی الی یوم القیام کے افادات کے جواھر کی کلیوں میں سے ہے جو ان کی کتابمستطاب البارقة الشارقة على مارقة المشارقة میں ہے اور اللہ ہی کے لیے حمد ہے جو سارے جہان کا رب ہے ( فاروقی )
مانی ہوئی باتیں چار قسم کی ہوتی ہیں :۔
ضروریات دین جن کا منکر کا فران کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی قطعیات الدلالات واضحة الافادات سے ہوتا ہے جن میں نہ شبہے کو گنجائش نہ تاویل کو راہ ۔
ضروریات مذہب اہل سنت و جماعت جن کا منکر گمراہ بد مذہب ان کا ثبوت بھی ۔ دلیل قطعی سے ہوتا ہے اگر چہ باحتمال تاویل باب تکفیر مسدود ہو۔
ثابتات محکمہ جن کا منکر بعد وضوح امر خاطی و آئم قرار پاتا ہے ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی جب کہ اس کا مفادا اکبر رائے ہو کہ جانب خلاف کو مطروح و مضحل کر دے یہاں حدیث آحاد صحیح یا حسن کافی اور قول سواد اعظم و جمہور علماء سند وافی فان ید الله على الجماعة20
ظنیات محتملہ جن کے منکر کو صرف مخطی کہا جائے ان کے لیے ایسی دلیل ظنی بھی کافی جس نے جانب خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو۔ ہر بات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے جو فرق مراتب نہ کرے اور ایک مرتبے کی بات کو اس سے اعلیٰ درجے کی دلیل مانگے جاہل بے وقوف ہے یا مکار فیلسوف ع
ہر سخن وقتے و ہر نکته مقامی دارد
گر فرق مراتب نکنی زند یقی
اور بالخصوص قرآن عظیم بلکہ حدیث ہی میں تصریح صریح ہونے کی تو اصلاً ضرورت نہیں حتی کہ مرتبہ اعلیٰ اعنی ضروریات دین میں بھی بہت باتیں ضروریات دین سے ہیں جن کا منکر یقیناً کا فرمگر بالتصریح ان کا ذکر آیات واحادیث میں نہیں۔
مثلاً باری عز وجل کا جہل محال ہونا قرآن و حدیث میں اللہ عز وجل کے علم واحاطہ علم کالاکھ جگہ ذکر ہے مگر امکان و امتناع کی بحث کہیں نہیں پھر کیا جو شخص کہے کہ ” واقع میں تو بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے، عالم الغیب والشہادۃ ہے، کوئی ذرہ اس کے علم سے چھپا نہیں مگر ممکن ہے کہ جاہل ہو جائے“۔
تو کیا وہ کافر نہ ہو گا ؟ کہ اس امکان کا سلب صریح قرآن میں مذکور نہیں حاش لله ضرور کافر ہے اور جو اُسے کافر نہ کہے خود کا فر تو جب ضروریات دین ہی کے ہر جزئیہ کی تصریح صریح قرآن وحدیث میں ضرور نہیں تو اُن سے اتر کر اور کسی درجے کی بات پر یہ مڑ چڑا پن کہ ہمیں تو قرآن ہی میں دکھاؤ ورنہ ہم نہ مانیں گے نری جہالت ہے یا صریحضلالت ۔
اس کی نظیر یوں سمجھنا چاہئے کہ کوئی کہے کہ فلاں بیگ کا باپ قوم کا مرزا تھا زید کہے اس کا ثبوت کیا ہے؟ ہمیں قرآن میں لکھا دکھا دو کہ مرزا تھا ورنہ ہم نہ مانیں گے کہ قرآن کے تواتر کے برابر کوئی تو اتر نہیں ہے ایسے سفیہ کو مجنون سے بہتر اور کیا لقب دیا جا سکتا ہے؟
شرع میں نسب شہروت تسامع سے ثابت ہو جاتا ہے۔
بالخصوص قرآن مجید ہی میں تصریح کیا ضرور کیا کہا جائے کہ حضرت سیدنا یحییٰ علیہ الصلوة والسلام نے انتقال فرمایا زید کہے میں نہیں مانتا ہمیں خاص قرآن میں دکھا دو کہ اُن کی رحلت ہو چکی۔
سَلَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوت 21
سلامتی ہے اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا ۔ کنز الایمان
فرمایا ہے: مات یحیی کہیں نہیں آیا تو اُس احمق سے یہی کہا جائے گا کہ قرآن مجید میں بالتصریح کتنے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی موت وحیات کا ذکر فرمایا ہے جو خاص یحییٰ و عیسیٰ علیہا الصلوٰۃ والسلام کے انتقال و زندگی کا ذکر ضرور ہوتا بلکہ قرآن مجید نے تو انبیاء ہی گنتی کے گنائے اور باقی کو فرمادیا:
وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ 22
اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا۔ (کنز الایمان )
بہت انبیاء وہ ہیں جن کا ذکر ہی ہم نے تمہارے سامنے نہ کیا تو عاقل کے نزدیک جس طرح ہزاروں انبیاء کا اصلاً تذکرہ نہ ہونے سے اُن کی نبوت معاذ اللہ باطل نہیں ٹھہر سکتی یونہی موت یکی یا حیات عیسی علیہ السلام کا ذکر نہ فرمانے سے اُن کی موت اور ان کی حیات بے ثبوت نہیں ہوسکتی، عقل و انصاف ہو تو بات تو اتنے ہی فقرے میں تمام ہو گئی اور جنون و تعصب کا علاج میرے پاس نہیں۔
جو شخص کسی بات کا مدعی ہو اُس کا بار ثبوت اُسی کے ذمے ہوتا ہے آپ اپنے دعوے کا ثبوت نہ دے اور دوسرے سے الٹا ثبوت مانگتا پھرے وہ پاگل و مجنون کہلاتا ہے یا مکار پرفتون .وهذا طاهر جدا
جو جس بات کا مدعی ہو اُس سے اُس دعوے کے متعلق بحث کی جائے گی خارج از بحث بات کہ ثابت ہو تو اُسے مفید نہیں نہ ثابت ہو تو اُس کے خصم کو مصر نہیں ایسی بات میں اُس کا بحث چھیڑ نا وہی جان بچانا اور مکر کی چال کھیلنا اور عوام نا واقفوں کے آگے اپنے فریب کا ٹھیلنا ہوتا ہے۔
مثلاً زید مدعی ہو کہ میں قطب وقت ہوں اپنی قطبیت کا تو کچھ ثبوت نہ دے اور بحث اس میں چھیڑ دے کہ اس زمانے کے جو قطب تھے اُن کا انتقال ہو گیا اُس عیار سے یہی کہا جائے گا کہ اگر اُن کا انتقال ثابت بھی ہو جائے تو تیرے دعوے کا کیا ثبوت اور تجھے کیا نافع تیرے خصم کو کیا مصر ہو گیا اُن کے انتقال سے یہ ضرور ہے کہ تو ہی قطب ہو جائے تو اپنے دعوے کا ثبوت دے ورنہ گریبان ذلت میں منہ ڈال کر الگ بیٹھ۔
کسی نبی کا انتقال دوبارہ دنیا میں اُس کی تشریف آوری کو محال نہیں کر سکتا، اللہ عز و جل قرآن عظیم میں فرماتا ہے:۔
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنِّي يُحْيِ هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهُ وَ انْظُرُ إِلَى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 23
یا اُس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر اور وہ گری ہوئی تھی اپنی چھتوں پر بولا کہاں جلائے گا اسے اللہ بعد اس کی موت کے سوا سے موت دی اللہ نے سو برس پھر اُسے زندہ کیا اور فرمایا یہاں کتنا ٹھہر ابولا میں ٹھہرا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ فرمایا بلکہ تو یہاں ٹھہرا سو برس اب دیکھ اپنے کھانے اور پینے کو (جو دو روز میں بگڑ جانے کی چیز تھے وہ اب تک ) نہ بگڑے اور دیکھ اپنے گدھے کو (جس کی ہڈیاں تک گل گئیں) اور تاکہ ہم تجھے نشانی بنائیں لوگوں کے لیے (کہ اللہ تعالیٰ یوں مردوں کو جلاتا ہے ) اور دیکھ اُن ہڈیوں کو کہ ہم کیونکر انہیں اٹھاتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ سب اُس کے لیے ظاہر ہو گیا ( اور اُس کی آنکھوں کے سامنے ہم نے اُس کے گدھے کی گلی ہوئی ہڈیوں کو درست فرما کر گوشت پہنا کر زندہ کر دیا ) بولا میں جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔اس کے بعد رب جل وعلا نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قصہ ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے عرض کی مجھے دکھا دے تو کیونکر مردے جلائے گا۔ حکم ہوا چار پرندے اپنے اوپر بلالے پھر انہیں ذبح کر کے متفرق پہاڑوں پر اُن کے اجزا رکھ دے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا
اُن کے پر اور خون اور گوشت قیمہ قیمہ کر کے سب خلط ملط کیے اور اُس مجموع مخلوط کے حصے کر کے متفرق پہاڑوں پر رکھے، حکم ہوا اب انہیں بلا تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیچ میں کھڑے ہو کر آواز دی، ملاحظہ فرمایا کہ ہر جانور کے گوشت پوست، پروں کا ریزہ ریزہ ہر پہاڑ سے اڑ کر ہوا میں باہم ملتا اور پورا پرندہ بن کر زندہ ہو کر ان کے پاس دوڑتا آرہا ہے۔
تو جب پرندہ چرند مر کر دنیا میں پھر پلٹے اور عزیر یا ارمیا علیہا الصلوٰۃ والسلام سو برس موت کے بعد دنیا میں پھر تشریف لا کر ہادی خلق ہوئے تو اگر سید نا عیسیٰ علیہ السلام نے بالفرض انتقال بھی فرمایا ہو تو یہ اُن کے دوبارہ تشریف لانے اور ہدایت فرمانے کا کیا مانع ہو سکتا ہے یہاں مسلمانوں سے کلام ہے جو اپنے رب کو قادر مطلق مانتے اور اُس کے کلام کو حق یقینی جانتے ہیں نیچری ملحدوں کا ذکر نہیں جن کا معبود اُن کے زعم میں نیچر کی زنجیروں میں جکڑا ہے کہ اُن کی ساختہ نیچر کے خلاف دم نہیں مار سکتا جو بات اُن کی ناقص عقل ، معمولی قیاس سے باہر ہے کیا مجال کہ اُن کا خدا کر سکے اُن کے نزدیک قرآن مجید کے ایسے ارشادات معاذ اللہ سب بناوٹ کی کہانیاں ہیں کہ گڑھ گڑھ کرمن سمجھوتے کو بنائی گئی ہیں:
سُبْحْنَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا كَبِيرًا 24
اسے پاکی اور برتری ان کی باتوں سے بڑی برتری ،( کنز الایمان )
قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنِّي يُؤْفَكُونَ 25
کہاں اوندھے جاتے ہیں، کنز الایمان
بَلْ لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ 26
بلکہ اللہ نے اُن پر لعنت کی اُن کے کفر کے سبب تو اُن میں تھوڑےایمان لاتے ہیں، کنز الایمان
وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ 27
اور اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔کنز الایمان
اب فقیر غفر لہ المولى القدير ا ن مقدمات خمس سے منکرین شمس کے حواس خمسہ درست کر کے بتوفیق اللہ تعالیٰ جانب جواب عطف عنان اور چند تنبیہوں میں حق واضح کو ظاہر و بیان کرتا ہے۔
سید نا عیسی بن مریم رسول الله و کلمتہ اللہ و روح اللہ صلی اللہ تعالی علی نبینا الکریم و علیہ وسائر الاغبياء و بارک وسلم کے بارے میں یہاں تین مسئلے ہیں۔
یہ کہ نہ وہ قتل کیے گئے نہ سولی دیئے گئے بلکہ ان کے رب جل وعلا نے انہیں مگر یہود ر و عنود سے صاف سلامت بچا کر آسمان پر اٹھا لیا اور اُن کی صورت دوسرے پر ڈال دی کہ یہود ملاعنہ نے اُن کے دھوکے میں اُسے سولی دی یہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ قطعیہ ، یقینیہ ، ایمانیہ پہلی قسم کے مسائل یعنی ضروریات دین سے ہے جس کا منکر یقیناً کافر اس کی دلیل قطعی رب العزة جل جلالہ کا ارشاد ہے:
وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا وَإِنْ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا 28
اور ہم نے یہود پر لعنت کی بسبب اُن کے کفر کرنے اور مریم پر بڑا بہتان اٹھانے اور اُن کے اس کہنے کے کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسی بن مریم خدا کے رسول کو اور انہوں نے نہ اُسے قتل کیا نہ اُسے سولی دی بلکہ اُس کی صورت کا دوسرا بنا دیا گیا اُن کے لیے اور بے شک وہ جو اُس کے بارے میں مختلف ہوئے ( کہ کسی نے کہا اس کا چہرہ تو عیسی کا سا ہے مگر بدن عیسی کا سانہیں یہ وہ نہیں کسی نے کہا نہیں بلکہ وہی ہیں ) البتہ اس سے شک میں ہیں۔انہیں خود بھی اُس کے قتل کا یقین نہیں مگر یہی گمان کے پیچھے ہو لینا اور بالیقین انہوں نے اُسے قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے اُسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے اور نہیں اہل کتاب سے کوئی مگر یہ کہ ضرور ایمان لانے والا ہے۔ عیسی پر اُس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن عیسیٰ اُن پر گواہی دے گا۔
اس مسئلے میں مخالف یہود و نصاری ہیں اور مذہب نیچری کا قیاس چاہتا ہے کہ وہ بھی مخالف ہوں یہود تو خلاف کیا ہی چاہیں اور یہ ساختہ نیچر کی سمجھ سے دور ہے کہ آدمی سلامت آسمان پر اٹھا لیا جائے اور اُس کی صورت کا دوسرا بن جائے اس کے دھوکے میں سولی پائے مگر ختم الہی کا ثمرہ کہ نصاری بھی اُس عبد اللہ و رسول علیہ السلام کو معاذ اللہ ، اللہ و ابن اللہ مان کر پھر باتباع یہود اُسی کے قائل ہوئے کہ دشمنوں نے انہیں سولی دیدی قتل کیا نہ اُن کی خدائی چلی نہ بیٹے ہونے نے کام دیا طرفہ ( یہ کہ ان کا ) خدا (ایسا ) جسے آدمی سولی دیں۔ ولا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم
اس جناب رفعت قباب ( سید نا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قرب قیامت آسمان سے اترنا دنیا میں دوبارہ تشریف فرما کر اس عہد کے مطابق جو اللہ عزوجل نے تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے لیا دین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنا یہ مسئلہ قسم ثانی یعنی ضروریات مذہب اہل سنت و جماعت سے ہے جس کا منکر گمراہ خاسر بد مذہب فاجر اس کی دلیل احادیث متواترہ واجماع اہل حق ہے ۔
ہم یہاں بعض احادیث ذکر کرتے ہیں:
واجيعت الامة على ما تضمنه الحديث المتواتر من ان عيسى في السماء حيى وانه ينزل في آخر الزمان، فيقتل الخنزير ويكسر الصليب ويقتل الدجال 23
حدیث متواتر کے اس مضمون پر اُمت کا اجماع ہو چکا ہے کہ حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہ آخری زمانے میں نازل ہوں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے ، صلیب کو توڑیں گے اور دجال قتل کریں گئے۔
حافظ ، اسماعیل بن عمر ، ابن کثیر الدمشقی رحمۃ اللہ علیہ (۵۷۰۰ ۷۷۴ھ) لکھتے ہیں کہ:
فهده احاديث متواترة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من رواية ابي هريرة، وابن مسعود، وعثمان بن ابی العاص، وابی امامة، والنواس بن سمعان، وعبد الله بن عمرو بن العاص، ومجمع بن جارية، وابي سريحة، وحذيفة بن أسيد رضى الله عنهم، وفيها دلالة على صفة نزوله ومكانه من انه بالشام بل بدمشق عند المنارة الشرقية وان ذلك يكون عند اقامة صلاة الصبح 29
یہ متواتر احادیث نبی کریمﷺ سے سیدنا ابو هريرة ، سیدنا عبد الله بن مسعود سیدنا عثمان بن ابو العاص سیدنا ابوامامه، سیدنا نواس بن سمعان، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ، سید نا مجمع بن جاریہ، سید نا ابو سریحہ اور سید نا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہیں۔
ان احادیث میں حضرت سید نا عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کی کیفیت اور جگہ کا بیان ہوا ہے۔ آپ علیہ السلام شام، بلکہ دمشق مشرقی منارہ کے پاس اتریں گے۔ یہ معاملہ نماز صبح کی اقامت کے قریب ہوگا۔
شارح شمائل ترمذی، علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ (۹۵۲، ۱۰۳۱ھ) تحریر فرماتے ہیں:
واما عيسى عليه الصلوة والسلام فقدا جمعوا على نزوله نبيالكنه بشريعة بنينا صلى الله عليه وسلم30
سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بحیثیت نبی نازل ہونے پر سارے مسلمانوں کا اجماع ہے البتہ آپ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کے ساتھ تشریف لائیں گے۔ ( نقشبندی)
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ( مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
1كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ 31
کیسا حال ہو گا تمہارا جب تم میں ابن مریم نزول کریں اور تمہار امام تمہیں میں سے ہوگا۔(یعنی اس وقت کی تمہاری خوشی اور تمہارا فخر بیان سے باہر ہے کہ روح اللہ تم میں اتریں تم میں رہیں تمہارے معین و یا در بنیں اور تمہارے امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں۔)
نیز صحیحین وجامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں انہیں سے (مروی )ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہے :
2 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ، حَكَمًا عَدْلًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيُفِيضَ الْمَالَ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ:﴿وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ﴾ ، 32
قسم اُس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک ضرور نزدیک آتا ہے کہ ابن مریم تم میں حاکم عادل ہو کر اتریں پس صلیب کو توڑ کریں اور خنزیر کو قتل کریں اور جزیہ کو موقوف کر دیں گے۔ اور مال کی کثرت ہو گی یہاں تک کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا یہاں تک کہ ایک سجدہ تمام دنیا اور اُس کی سب چیزوں سے بہتر ہوگا۔ یہ حدیث بیان کر کے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے تم چاہو تو اس کی تصدیق قرآن مجید میں دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عیسی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی موت سے پہلے سب اہل کتاب اُن پر ایمان لے آئیں گے۔
صحیح مسلم میں انہیں سے (مروی )ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہے :
3عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشُ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ فَإِذَا تَصَافُوا قَالَتْ الرُّومُ خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ لَا وَاللَّهِ لَا تُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا فَيُقَاتِلُونَهُمْ فَيَنْهَزِمُ ثُلُثُ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ إِذْ صَاحَ فِيهِمْ الشَّيْطَانُ إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ فَيَخْرُجُونَ وَذَلِكَ بَاطِلُ فَإِذَا جَاءُوا الشَّأْمَ خَرَجَ 33
قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کے رومی نصاری اعماق یا دابق میں اتریں (کہ ملک شام کے دو موضع ہیں ) اُن کی طرف مدینہ طیبہ سے ایک لشکر جائے گا جو اُس دن بهترین اہل زمین سے ہوں گئے جب دونوں لشکر مقابل ہوں گے رومی کہیں گے ہمیں ہمارے ہم قوموں سے لڑ لینے دو جو ہم میں سے قید ہو کر تمہاری طرف گئے ( اور مسلمان ہو گئے ) ہیں مسلمان کہیں گے نہیں واللہ ! ہم اپنے بھائیوں کو تمہارے مقابلے میں تنہا نہ چھوڑیں گے پھر ان سے لڑائی ہوگی لشکر اسلام سے ایک تہائی بھاگ جائیں گے اللہ تعالی کبھی انہیں تو بہ نصیب نہ کرے گا اور ایک تہائی مارے جائیں گے۔ وہ اللہ کے نزدیک بہترین شہداء ہوں گے اور ایک تہائی کو فتح ملے گی یہ کبھی فتنے میں نہ پڑیں گے پھر یہ مسلمان قسطنطنیہ کو ( کہ اس سے پہلے نصاری کے قبضے میں آچکا ہو گا ) فتح کریں گے وہ عظیمتیں تقسیم ہی کرتے ہوں گے اپنی تلواریں درختان زیتون پر ٹکا دی ہوں گی کہ ناگاہ شیطان پکار دے گا کہ تمہارے گھروں میں دجال آگیا مسلمان پلٹیں گے اور یہ خبر جھوٹی ہو گی جب شام میں آئیں گے دجال نکل آئے گا۔
فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَرُّونَ الصُّفُوفَ إِذْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ﷺ فَأَمَّهُمْ فَإِذَا رَآهُ عَدُوٌّ اللَّهِ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ 34
اس دوران میں جب وہ جنگ کے لیے تیاری کر رہے ہوں گے ۔ صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی اس وقت حضرت عیسی بن مریم اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے پھر جب اللہ کا دشمن ( دجال ) ان کو دیکھے گا تو اس طرح پچھلے گا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے اگر وہ (حضرت عیسی) اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہلاک ہو جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے ان (حضرت عیسی) کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور لوگوں کو ان کے ہتھیار پر اس کا خون دکھائے گا۔
نیز صحیح مسلم وسنن ابی داؤد وجامع ترمذی وسنن نسائی وسنن ابن ماجہ میں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے ( مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: 4بے شک قیامت نہ آئے گی جب تک تم اُس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو ازاں جملہ ایک دھواں اور دجال اور دابتہ الارض اور آفتاب کا مغرب سے طلوع کرنا اور عیسیٰ بن مریم کا اترنا اور یا جوج و ماجوج کا نکلنا۔35مسند امام احمد وصحیح مسلم میں حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے ( مروی) ہے رسول اللہ ﷺ نے دجال کے ذکر میں فرمایا :
5عَنْ عَائِشَةَيَأْتِي بِالشَّامِ مَدِينَةً بِفِلَسْطِينَ، بِبَابِ لُدٍّ،فَيَنْزِلُ عِيسَىٰ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَيَقْتُلُهُ،وَيَمْكُثُ عِيسَىٰ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، إِمَامًا عَدْلًا، وَحَكَمًا مُقْسِطًا 36
وہ(دجال ) ملک شام میں شہر فلسطین دروازہ شہرلد کو جائے گا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام اتر کر اسے قتل کریں گے عیسی علیہ الصلوۃ والسلام زمین میں چالیس برس رہیں گے امام عادل و حاکم منصف ہو کر۔
نیز مسند وصحیح مذکورین میں حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہاسے( مروی) ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
6 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ،فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ،فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا،فَيَقُولُ: لَا، إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ، تَكْرِمَةَ اللَّهِ تَعَالَى لِهٰذِهِ الْأُمَّةِ 37
ہمیشہ میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قتال کرتا قیامت تک غالب رہے گا پس عیسی بن مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام اتریں گے امیر المؤمنین اُن سے کہے گا آئیے ہمیں نماز پڑھائیے وہ فرمائیں گے نہ تم میں بعض بعض پر سردار ہیں بسبب اس امت کی بزرگی کے اللہ تعالی کی طرف سے۔
7نیز مسند احمد و صحیح مسلم جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں مطولاً اور سنن ابی داؤد میں مختصر ا حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے رسول اللہﷺ نے دجال لعین کا ذکر فرمایا کہ وہ شام و عراق کے درمیان سے نکلے گا چالیس دن رہے گا۔ پہلا دن ایک سال کا ہوگا اور دوسرا ایک مہینے کا تیسرا ایک ہفتہ کا باقی دن جیسے ہوتے ہیں اس قدر جلد ایک شہر سے دوسرے میں پہنچے گا۔
جیسے بادل کو ہوا اڑائے لیے جاتی ہو جو اُسے مانیں گے اُن کے لیے بادل کا حکم دے گا برسنے لگے گا زمین کو حکم دے گا کھیتی، جم اٹھے گی ، جو نہ مانیں گے اُن کے پاس سے چلا جائے گا اُن پر قحط ہو جائے گا تہی دست رہ جائیں گے، ویرانے پر کھڑا ہو کر کہے گا اپنے خزانے نکال ۔ خزانے نکل کر شہد کی مکھیوں کی طرح اُس کے پیچھے ہو لیں گے پھر ایک جوان گٹھے ہوئے جسم کو بلا کر تلوار سے دو ٹکڑے کرے گا دونوں ٹکڑے ایک نشانہ تیر کے فاصلے سے رکھ کر مقتول کو آواز دے گا وہ زندہ ہو کر چلا آئے گا دجال لعین اس پر بہت خوش ہو گا ہنسے گا۔38
فبينما هو كذلك اذ بعث الله المسيح عيسى بن مريم عليه الصلوة والسلام فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق بين مهرو دتین واضعا كفيه على اجنحة ملكين اذاطأ طأراسه قطر واذا رفعه تحدر منه جمان كاللؤلؤ فلا يحل لكافر يجدريح نفسه الامات ونفسه ينتهى حيث ينتهى طرفه فيطلبه حتى يدر كه بباب لد فيقتله 39
دجال لعین اسی حال میں ہوگا کہ اللہ عز وجل مسیح عیسی بن مریم علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجے گا وہ دمشق کے مشرقی جانب منارہ سپید کے پاس نزول فرمائیں گے دو کپڑے درس وزعفران سے رنگے ہوئے پہنے دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے جب اپنا سر جھکا ئیں گے بالوں سے پانی ٹیکنے لگے گا اور جب سر اٹھا ئیں گے موتی سے جھڑنے لگیں کسی کافر کو حلال نہیں کہ ان کے سانس کی خوشبو پائے اور مر نہ جائے اور اُن کا سانس وہاں تک پہنچے گا جہاں تک اُن کی نگاہ پہنچے گی وہ دجال لعین کو تلاش کر کے بیت المقدس کے قریب جو شہر لہ ہے اُس کے دروازے کے پاس اُسے قتل فرمائیں گے۔
اس کے بعد سید عالم ﷺنے اُن کے زمانے میں جو یا جوج و ماجوج کا نکلنا پھر اُس کا ہلاک ہونا بیان فرمایا پھر اُن کے زمانے میں برکت کی افراط یہاں تک کہ انا ر اتنے اتنے بڑے پیدا ہوں گے کہ ایک انار سے ایک جماعت کا پیٹ بھرے گا چھلکے کے سایہ میں ایک جماعت آجائے گی ایک اونٹنی کا دودھ آدمیوں کے گروہوں کو کافی ہوگا ایک گائے کے دودھ سے ایک قبیلے ایک بکری کے دودھ سے ایک قبیلے کی شاخ کا پیٹ بھر جائے گا۔
نیز مسند احمد وصحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے (مروی )ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہے :
8 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنه قَالَ: يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي، فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ، فَيَبْعَثُ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ 40
حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ سے ( مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دجال میری اُمت میں نکلے گا ایک چلہ ٹھہرے گا پھر اللہ عز وجل عیسی بن مریم کو بھیجے گا وہ اُسے ڈھونڈ کر قتل کریں گے۔
9 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِي عِيسَى، وَإِنَّهُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ رَجُلٌ مَرْبُوعٌ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ بَيْنَ مُمَصَّرَتَيْنِ كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ، فَيُقَاتِلُ النَّاسَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ وَيُهْلِكُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يُتَوَفَّى فَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ 41
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بیچ میں کوئی نبی نہیں اور بے شک وہ اترنے والے ہیں جب تم انہیں دیکھنا پہچان لینا وہ میانہ قد میں رنگ سرخ و سپید دو کپڑے زرد رنگ کے پہنے ہوئے گویا اُن کے بالوں سے پانی ٹپک رہا ہے اگر چہ انہیں تری نہ پہنچی ہو وہ اسلام پر کافروں سے جہاد فرمائیں گے صلیب توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے جزیہ اٹھا دیں گے اُن کے زمانہ میں اللہ عز وجل اسلام کے سوا سب مذہبوں کو فنا کر دے گا وہ مسیحدجال کو ہلاک کریں گے دنیا میں چالیس برس رہ کر وفات پائیں گے مسلمان اُنکے جنازے کی نماز پڑھیں گے۔
10 مُجَمِّعَ ابْنَ جَارِيَةَ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَقْتُلُ ابْنُ مَرْيَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ 42
حضرت مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںعیسی علیہ السلام دجال کو باب لد پر قتل کرینگے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے اور اس باب میں حدیثیں وارد ہیں حضرت عمران بن حصین و نافع بن عتبه وابو برزه و حذیفہ بن اسید و ابوهريرة و كيسان و عثمان بن ابی العاص و جابر وابو امامہ و ابن مسعود و عبد الله بن عمر و وسمرہ بن جندب ونواس بن سمعان، وعمر و بن عوف و حذیفہ بن ایمان سے رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔ 43
سنن ابن ماجه و صحیح ابن خزیمه و مستدرک حاکم و صحیح مختارہ میں حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے حدیث طویل جلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالتفصیل عجائب احوال اعورد جال اعاذنا اللہ تعالی منہ بیان فرمائے پھر فرمایا اہل عرب اُس زمانے میں سب کے سب بیت المقدس میں ہوں گے اور ان کا امام ایک مرد صالح ہوگا (یعنی حضرت امام مہدی)
11فبينما اما مهم قد تقدم يصلى بهم الصبح اذنزل عليهم عيسى بن مريم الصبح 44
اس اثناء میں کہ ان کا امام نماز صبح پڑھانے کو بڑے گانا گاہ عیسی بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام وقت صبح نزول فرمائیں گے۔
مسلمانوں کا امام اُلٹے قدموں پھرے گا کہ عیسی امامت کریں عیسی اپنا ہاتھ اس کی پشت پر رکھ کر کہیں گے آگے بڑھو نماز پڑھاؤ کہ تکبیر تمہارے ہی لیے ہوئی تھی اُن کا امام نماز پڑھائے گا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام سلام پھیر کر دروازہ کھلوائیں گے اُس طرف دجال ہوگا جس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہتھیار بند ہونگے جب دجال کی نظر عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پڑے گی پانی میں نمک کی طرح گلنے لگے گا بھاگے گا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمائیں گے میرے پاس تجھ پر ایک وار ہے جس سے تو بیچ کر جا نہیں سکتا پھر شہر لد کے شرقی دروازے پر اسے قتل فرمائیں گے اس کے بعد یہود کے قتل وغیرہ کے احوال ارشاد ہوئے۔
نیز سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے شب اسراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام سے ملے با ہم قیامت کا چرچا ہوا انبیاء پہلے ابراہیم علیہ السلام سے اس کا حال پوچھا، انہیں خبر نہ تھی موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا انہیں بھی معلوم نہ تھا انہوں نے عیسی علیہ السلام پر رکھا عیسی علیہ السلام نے فرمایا قیامت جس وقت آ کر گرے گی اُسے تو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہاں اس کے گرنے سے پہلے کے باب میں مجھے رب العزۃ نے ایک اطلاع دی ہے پھر خروج دجال ذکر کے فرمایا:
12فانزل قتله 45
میں اُتر کر اسے قتل کروں گا پھر یا جوج و ماجوج نکلیں گے میری دعا سے ہلاک ہوں گے۔
فعهد الى : متى كان ذلك ، كانت الساعة من الناس، كالحامل التي لا يدرى اهلها متى تفجؤهم بولاد ها 46
یعنی مجھے رب العزة نے اطلاع دی ہے کہ جب یہ سب ہولے گا تو اُس وقت قیامت کا حال لوگوں پر ایسا ہو گا جیسے کوئی عورت پورے دنوں پیٹ سے ہو گھر والے نہیں جانتے کہ کس وقت اس کے بچہ ہو پڑے۔
امام احمد مسند اور طبرانی معجم کبیر اور رویانی مسند اور ضیاء صحیح مختارہ میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے ذکر دجال بیان کر کے فرمایا:
13ثم يجى عيسى ابن مريم عليه السلام من قبل المغرب مصدقا بمحمد صلى الله تعالى عليه وسلم، وعلى ملته فيقتل الدجال، ثم انما هو قيام الساعة 47
اس کے بعد عیسی بن مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام جانب مغرب سے آئیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے ہوئے اور انہیں کی ملت پر بس دجال کو قتل کریں گے پھر آگے قیامت ہی قائم ہونا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد ذکر دجال فرمایا:
14يلبث فيكم ماشاء الله ثم ينزل عيسى بن مريم مصدقا بمحمد على ملته اماماً مهديا وحكما عدلاً فيقتل الدجال 48
ترجمہ: وہ تم میں رہے گا جب تک اللہ چاہے پھر عیسی بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اتریں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتے حضور کی ملت پر امام راہ پائے ہوئے اور حاکم عدل کرنے والے وہ دجال کو قتل کریں گے۔
مسند احمد و صحیح ابن خزیمہ و مسند ابی یعلی و مستدرک حاکم و مختارہ مقدسی میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث طویل ذکر دجال میں فرمایا : مسلمان ملک شام میں ایک پہاڑ کی طرف بھاگ جائیں گے وہ وہاں جا کر ان کا حصار کرے گا اور سخت مشقت و بلا میں ڈالے گا۔ 49
15ثم ينزل عيسى ابن مريم فينادى من السحر فيقول يايها الناس ما يمنعكم ان تخرجوا الى الكذباب الخبيث فيقولون هذا رجل جنى فينطلقون فاذاهم بعيسى ابن مريم عليه الصلوة والسلام 50
اس کے بعد عیسی علیہ الصلواۃ والسلام اتریں گے پچھلی رات مسلمانوں کو پکاریں گے لوگو اس کذاب خبیث کے مقابلے کو کیوں نہیں نکلتے مسلمان کہیں گے یہ کوئی مرد زندہ ہے ( یعنی گمان میں یہ ہوگا کہ جتنے مسلمان یہاں محصور ہیں ان کے سوا کوئی باقی نہ بچا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز سن کرکہیں گے یہ مردزندہ ہے ) جواب دیں گے دیکھیں تو وہ عیسی ہیں علیہ الصلوۃ والسلام اس کے بعد نماز صبح میں امام مسلمین کی امامت پھر دجال لعین کے قتل کا ذکر فرمایا:
نعیم بن حماد کتاب الفتن میں حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے راوی ہے :
16قلت يا رسول الله الدجال قبل او عيسى بن مريم قال الدجال ثم عيسى بن مريم ۔ الحديث 51
میں نے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) پہلے دجال نکلے گایا عیسی بن مریم فرمایا جال پھر عیسی بن مریم (علیہ الصلوۃ السلام )
طبرانی کبیر میں اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
17ينزل عيسى بن مريم عند المنارة البيضاء شرقي دمشق52
عیسی بن مریم دمشق کی شرقی جانب منارہ سپید کے پاس نزول فرمائیں گے۔
مستدرک حاکم میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
18ليهبطن عيسى بن مريم حكما عدلا و اماما مقسطا وليسلكن فجا حاجا او معتمر اوليأتين قبرى حتى يسلم على ولا ردن عليه53
خدا کی قسم ضرور عیسی بن مریم حاکم امام عادل ہو کر اتریں ۔ اور ضرور شارع عام کے رستے رستے حج یا عمرے کو جائیں گے اور ضرور میرے سلام کے لیے میرے مزار اقدس پر حاضر آئیں گے اور ضرور میں اُن کے ، سلام کا جواب دوں گا ،صلی اللہ تعالى عليك وعليه وعلى جميع اخوانكما من الانبياء والمرسلين والك والهم وبارك وسلم
صحیح ابن خزیمہ و مستدرک حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
19سيدرك رجلان من امتى عيسى بن مريم ، ويشهدان قتال الدجال 54
عنقریب میری اُمت سے دو مرد عیسی بن مریم کا زمانہ پائیں گے اور دجال سے قتال میں حاضر ہوں گے۔
ظاہراً امت سے مراد اُمت موجودہ زمانہ رسالت ہے علیہ افضل الصلوة والتحيةورنہ اُمتِ حضور سے تو لاکھوں مردو زمانه كلمة الله عليه صلوات اللہ پائیں گے اور قتال لعین دجال میں حاضر ہوں گے اس تقدیر پر وہ دونوں مرد سیدنا الیاس وسید نا خضر علیہا الصلوٰۃ والسلام ہیں کہ اب تک زندہ ہیں اور اس وقت تک زندہ رہیں گے۔
كما ورد في حديث افاده سيدنا الوالد المحقق دام ظله على هامش التيسير شرح الجامع الصغير<ترجمہ: جیسا کہ وارد ہے ہمارے سردار والد محقق دام ظلہ کے افادات کی اس گفتگو میں جو تیسیر شرح جامع صغیر کے ہامش پر موجودہ ہے، فاروقی>undefined
امام حکیم ترمذی نوادر الاصول اور حاکم مستدرک میں حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
20لن يخزى الله تعالى امة انا اولها و عيسى بن مريم اخرها55
اللہ عز وجل ہرگز رسوا نہ فرمائے گا اُس امت کو جس کا اوّل میں ہوں اور آخر عیسی بن مریم علیہما الصلوۃ والسلام۔
ابوداؤد طیاسی حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
21لم يسلط على الدجال الاعيسى بن مريم 56
دجال لعین کے قتل پر کسی کو قدرت نہ دی گئی سوا عیسی بن مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام کے
مسند احمد و سنن نسانی و صحیح مختار میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
22عصابتان من امتى احرزهما الله تعالى من النار عصابة تغزو الهند وعصابة تكون مع عيسى بن مريم 57
میری اُمت کے دو گروہوں کو اللہ عز وجل نے ناز سے محفوظ رکھا ہے ایک گروہ وہ جو کفار ہند پر جہاد کرے گا اور دوسرا وہ جو عیسی بن مریم علیہا الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہوگا۔
ابو نعیم حلیہ اور ابو سعید نقاش فوائد العراقیین میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
23طوبى لعيش بعد المسيح : يؤذن للسماء في القطر، في يؤذن للارض في النبات حتى لو بذرت حبك على الصفالنبت وحتى يمر الرجل على الاسد فلايضره، ويطأ على الحية فلا تضره، ولا تشاح ولا تحاسد ولا تباغض 58
یعنی خوشی اور شادمانی ہے اس عیش کے لیے جو بعد نزول عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام ہوگا آسمان کو اذن ہو گا کہ بر سے اور زمین کو حکم ہوگا کہ اُگے یہاں تک کہ اگر تو اپنا دانہ پتھر کی چٹان پر ڈال دے تو وہ بھی جم اٹھے گا اور یہاں تک کہ آدمی شیر پر گزرے گا اور وہ اُسے نقصان نہ پہنچائے گا اور سانپ پر پاؤں رکھ دے گا اور وہ اُسے مضرت نہ دے گا نہ آپس میں مال کالا بچ رہے گا نہ حسد کینہفی التيسير شرح الجامع الصغير طوبي لعيش بعد المسيح اى بعد نزول عيسى عليه الصلوة والسلام الى الارض في آخر الزمان
مسند الفردوس میں انہیں سے (مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
24ينزل عيسى بن مريم على ثمانمائة رجل واربع مائة امرأة خيار من على الارض الحديث59
عیسی بن مریم ایسے آٹھ سو مردوں اور چار سو عورتوں پر آسمان سے نزول فرمائیں گے جو تمام روئے زمین پر سب سے بہتر ہوں گے
امام رازی و ابن عساکر بطریق عبد الرحمن بن ایوب بن نافع بن کیسان عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہ راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
25ينزل عيسى بن مريم عند باب دمشق عند المنارة البيضاء لست ساعات من النهار فى ثوبين ممشوقين كا نما يخدر من راسه اللؤلؤ 60
عیسی بن مریم علیہما الصلوة والسلام دروازہ دمشق کے نزدیک سپید منارے کے پاس چھ گھڑی دن چڑھے دور نگین کپڑے پہنے اتریں گے گویا ان کے بالوں سے موتی جھڑتے ہیں۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
26اني الارجوان طال بی عمران القى عیسى بن مريم فان عجل بی موت فمن لقيه منكم فليقرأه منى السلام 61
میں امید کرتا ہوں کہ اگر میری عمر دراز ہوئی تو عیسی بن مریم سے ملوں اور اگر میرا دنیا سے تشریف لے جانا جلد ہو جائے تو تم میں جو انہیں پائے اُن کو میر اسلام پہنچائے۔
ابن الجوزی کتاب الوفا میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
27ينزل عيسى بن مريم الى الارض فيتزوج ويولدله ويمكث خمسا واربعين سنة ثم يموت فيدفن معى في قبرى فاقول انا وعيسى بن مريم من قبر واحد بين ابی بکر و عمر 62
عیسی بن مریم علیهما الصلوة والسلام زمین پر اتریں گے یہاں شادی کریں گے اُن کے اولاد ہوگی پینتالیس برس رہیں گے اس کے بعد اُن کی وفات ہوگی میرے ساتھ میرے مقبرہ پاک میں دفن ہوں گے روز قیامت میں اور وہ ایک ہی مقبرے سے اس طرح اٹھیں گے کہ ابو بکر و عمر ہم دونوں کے داہنے بائیں ہوں گے رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔
بغوی شرح السنۃ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث طویل ابن صیاد میں راوی ( جس پر دجال ہونے کا شبہ کیا جاتا تھا) امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے اجازت دیجئے کہ اسے قتل کر دوں فرمایا :
28ان يكن هو فلست صاحبه انما صاحبه عيسى بن مريم والا63
يكن هو فليس لك ان تقتل رجلا من اهل العهد 64
اگر یہ دجال ہے تو اُس کے قاتل تم نہیں دجال کے قاتل تو عیسی بن مریم ہوں گے اور اگر چہ وہ نہیں تو تمہیں نہیں پہنچتا کہ کسی ذمی کو قتل کرو۔
ابن جریر حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
29اول الآيات الدجال ونزول عيسى وياجوج وماجوج يسيرون الى خراب الدنيا حتى يأتوابيت المقدس وعيسى والمسلمون بجبل طور سينين فيوحى الله الى عيسى ان احرز عبادى بالطور وما يلي ايلة ثم ان عيسى يرفع يديه الى السماء ويؤمن المسلمون فيبعث عليهم دابة يقال لها النغف تدخل في مناخر هم فيصبحون موتى هذا مختصر 65
قیامت کی بڑی نشانیوں میں پہلی نشانی دجال نکلنا اور عیسی بن مریم کا اتر نا اور یا جوج و ماجوج کا پھیلنا ( وہ گروہ کے گروہ ہیں ہر گروہ میں چار لاکھ گروہ ان میں کا مرد نہیں مرتا جب تک خاص اپنے نطفے سے ہزار شخص نہ دیکھ لے ہیں بنی آدم سے ) وہ دنیا ویران کرنے چلیں گے ( دجلہ و فرات و بحیرہ طبریہ کو پی جائیں گے ) یہاں تک بیت المقدس تک پہنچیں گے اور عیسیٰ علیہ الصلوة والسلام واہل اسلام اس دن کوہ طور سینا میں ہوں گے اللہ عز وجل عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی بھیجے گا کہ میرے بندوں کو طور اور ایلہ کے قریب محفوظ جگہ میں رکھ پھر عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہاتھ اٹھا کر دعا کریں گے اور مسلمان آمین کہیں گے اللہ عز و جل یا جوج و ماجوج پر ایک کیڑا بھیجے گا نغف“ نام وہ اُن کے نتھنوں میں گھس جائے گا صبح سب مرے پڑے ہوں گے۔
حاکم و ابن عساکر تاریخ اور ابو نعیم کتاب اخبار المھدی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
30كيف تهلك أمة أنا في أوّلها وعيسى ابن مريم اخرها والمهدى من أهل بيتي في وسطها 66
کیوں کر ہلاک ہو وہ اُمت جس کی ابتداء میں ہوں اور انتہا میں عیسی بن مریم اور بیچ میں میرے اہل بیت سے مہدی۔
نیز اسی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
31منا الذي يصلى عیسی بن مریم خلفه 67
میرے اہل بیت میں وہ شخص ہے جس کے پیچھے عیسی بن مریم نماز پڑھیں گے۔
ابو نعیم حلیۃ الاولیاء میں حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
32ياعم النبي (صلى الله عليه وسلم) ان الله ابتداء الاسلام بی و سيختمه بغلام من ولدك وهو الذى يتقدم عيسى بن مريم 68
اے نبی کے چچا بے شک اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ابتداء مجھ سے کی ہے اور اسے ختم تیری اولاد سے ایک لڑکے پر کرے گا وہی جس کے پیچھے عیسی بن مریم نماز پڑھیں گے۔
حضرت امام مہدی کی نسبت متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ وہ عترت رسالت و بنی فاطمہ سے ہیں اور متعدد احادیث ان کا علاقہ ، نسب حضرت عباس عم مکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بتایا گیا اور اس میں کچھ بعد نہیں وہ نسبا سید حسنی ہوں گے اور مادری رشتوں میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اتصال رکھیں گے جیسے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے رافضیوں کے رد میں فرمایا کہ کیا کوئی شخص اپنے باپ کو بھی بُرا کہتا ہے ابو بکر صدیق دوبارہ میرے باپ ہوئے یعنی دو طرح سے میرا نسب مادری حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
اسحق بن بشیر و ابن عساکر حدیث طویل ذکر دجال میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
33فعند ذلك ينزل أخى عيسى بن مريم من السماء على جبل أفيق اماما هاديا وحكما عادلا عليه برنس له مربوع الخلق أصلت سبط الشعر بيده حرية يقتل الدجال، فاذاقتل الدجال، تضع الحرب أوزارها فكان السلم، فيلقى الرجل الأسد فلا يهيجه، ويأ خذا لحية فلا تضره، وتنبت الأرض كنبا تها على عهدادم ويؤمن به أهل الأرض ويكون الناس أهل ملة واحدة 69
یعنی جب دجال نکلے گا اور سب سے پہلے ستر ہزار یہودی طیلسان پوش اُس کے ساتھ ہو لیں گے اور لوگ اس کے سبب بلائے عظیم میں ہوں گے مسلمان سمٹ کر بیت المقدس میں جمع ہوں گے اس وقت میرے بھائی عیسی بن مریم علیہما الصلاة والسلام آسمان سے کوہ افیق پر اتریں گے امام راہ نما و حاکم عادل ہو کر ایک اونچی ٹوپی پہنے میانہ قد کشادہ پیشانی موی سر سیدھے ہاتھ نیزہ جس سے دجال کو قتل کریں گے اُس وقت لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے گی اور سب جہان میں امن و امان ہو جائے گی آدمی شیر سے ملے تو وہ جوش میں نہ آئے گا اور سانپ کو پکڑلے تو وہ نقصان نہ پہنچائے گا کھیتیاں اس رنگ پر آگیں کی جیسے زمانہ آدم علیہ الصلوۃ والسلام میں اُگا کرتی تھیں تمام اہل زمین اُن پر ایمان لے آئیں گے اور سارے جہان میں صرف ایک دین اسلام ہوگا۔
ابن النجار انہیں سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
34 إذا سكن بنوك السواد ولبسوا السواد وكان شيعتهم اهل خراسان لم يزل هذا الأمر فيهم حتى يدفعوه الى عيسى بن مريم 70
جب تمہاری اولاد دیہات میں بسے اور سیاہ لباس پہنے اور اُن کے گروہ اہل خراسان ہوں جب سے خلافت ہمیشہ اُن میں رہے گی یہاں تک کہ وہ اُسے عیسی بن مریم کو سپرد کریں گے۔
ابن عساکر ام المومنین صدیقہ رضی اللہ عنہا سے راوی میں نے عرض کی یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں حضور کے پہلو میں دفن کی جاؤں فرمایا :
35واني لي بذلك الموضع ما فيه الأموضع قبرى و قبرابي بكر و عمر و عیسی بن مریم 71
بھلا اس کی اجازت میں کیوں کر دوں وہاں تو صرف میری قبر کی جگہ ہے اور ابو بکر و عمر و عیسی بن مریم کی علیہم الصلوۃ والسلام ۔
ابونعیم کتاب الفتن میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :۔
36المحاصرون بيت المقدس اذذاك مائة الف امرأة واثنان وعشرون الفاً مقاتلون اذغشيتهم ضبابة من غمام اذتنكشف عنهم مع الصبح فاذا عيسى بين ظهرانيهم 72
اس وقت بیت المقدس میں ایک لاکھ عورتیں اور بائیس ہزار مرد جنگی محصور ہوں گے ناگاہ ایک ابر کی گھٹا اُن پر چھائے گی صبح ہوتے کھلے گی تو دیکھیں گے کہ عیسیٰ اُن میں تشریف فرما ہیں۔
مسند ابی یعلی میں حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
37والذي نفسی بیده لینزلن عیسیٰ بن مريم ثم لئن قام على قبرى فقال يا محمد لاجيبنه 73
قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک عیسی بن مریم اتریں گے پھر اگر میری قبر پر کھڑے ہو کر مجھے پکاریں تو ضرور میں انہیں جواب دوں گا۔
ابو نعیم حلیہ میں عروہ بن روئیم سے مرسلا راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
38 خير هذه الامة اولها واخر ها فيهم رسول الله صلى الله عليه وسلم واخرها فيهم عيسى بن مريم الحديث 74
اس اُمت کے بہتر اول و آخر کے لوگ ہیں اول کے لوگوں میں رسول و اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز روز ہیں اور آخر کے لوگوں میں عیسی بن مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام تشریف فرما ہوں گے۔
جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے (مروی) ہے:
39 مكتوب فى التورئة صفة محمد صلى الله عليه وسلم عيسى ابن مريم يدفن معه 75
رب العزة تبارک و تعالیٰ نے تو رات مقدس میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت میں ارشاد فرمایا ہے کہ عیسی اُن کے پاس دفن کیے جائیں گے علیہا الصلوٰۃ والسلامفي المرقاة اى ومكتوب فيها ايضاً ان عيسى يدفن معه قال الطيبي هذا هو المكتوب في التورئة
ابن عساکر حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے راوی
40يهبط المسيح بن مريم فيصلي الصلوات، ويجمع الجمع ويذيد فى الحلال، كأني به تجدبه رواحله ببطن الروحاء حاجا أو معتمرا 76
عیسی بن مریم اتریں گے نمازیں پڑھیں گے جمعے قائم کریں گے مال حلال کی افراط کر دیں گے میں انہیں دیکھ رہا ہوں ان کی سواریاں انہیں تیز لیے جاتی ہیں بطن وادی روحا میں حج یا عمرے کے لیے۔
وہی حضرت ترجمان القرآن رضی اللہ عنہ سے راوی:
41لا تقوم الساعة حتى ينزل عيسى ابن مريم على ذروة أفيق بيده حربة، يقتل الدجال77
قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ عیسی بن مریم علیہ الصلوۃ والسلام کوہ افیق کی چوٹی پر نزول فرمائیں ہاتھ میں نیزہ لیے جس سے دجال کو قتل کریں گے۔
وہی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی:
42ان المسيح ابن مريم خارج قبل يوم القيمة ويستغن به الناس عن من سواه 78
بے شک مسیح بن مریم علیہما الصلوۃ والسلام قیامت سے پہلے ظہور فرمائیں گے آدمیوں کو ان کے سبب اور سب سے بے نیازی چاہیے یہ امر بمعنی اختیار ہے زمانہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام میں نہ کوئی قاضی ہوگا نہ کوئی مفتی نہ کوئی بادشاہ انہیں کی طرف سے کاموں میں رجوع ہوگی۔
وہی حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث طویل ذکر مغیبات آئندہ میں راوی کی چنین و چناں ہوگا پھر مسلمان قسطنطنیہ و رومیہ کو فتح کریں گے پھر دجال نکلے گا اور اس کے زمانہ میں قحط شدید ہوگا۔
43فبينما هم كذالك اذسمعوا صوتا من السماء : البشر وافقد أتاكم الغوث، قال : فيقولون: نزول عیسیٰ ابن مریم قال: فيستبشرون ويستبشر بهم ويقولون: صل ياروح الله فيقول ان الله اكرم هذه الأمة فلا ينبغى لأحد أن يؤمهم الا منهم قال: فيصلى أمير المومنين بالناس قال : ويصلى عيسى خلفه 79
لوگ اسی ضیق و پریشانی میں ہوں گے ناگاہ آسمان سے ایک آواز سنیں گے خوش ہو کہ فریا درس تمہارے پارے آیا مسلمان کہیں گے عیسی بن مریم ( عليهما الصلوة والسلام ) اُترے خوشیاں کریں گے اور عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام انہیں دیکھ کر خوش ہوں گے مسلمان عرض کریں گے یا روحاللہ نماز پڑھائیے فرمائیں گے اللہ عز وجل نے اس اُمت کو عزت دی ہے۔ اس کا امام اسی میں سے چاہیے امیر المومنین نماز پڑھائیں گے اور عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن کے پیچھے نماز پڑھیں گے سلام پھیر کر اپنا نیزہ لے کر دجال کے پاس جا کر فرمائیں گے ٹھہراے دجال اے کذاب، جب وہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھے گا اور اُن کی آواز پہچانے گا ایسا گلنے لگے گا جیسے آگ میں رانگ یا دھوپ میں چربی اگر روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے ٹھہر نہ فرما دیا ہوتا تو گل کرفنا ہو جاتا پس عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام اُس کی چھاتی پر نیزہ مار کر واصل جہنم کریں گے پھر اُس کے لشکر کو کہ یہود و منافقین ہوں گے قتل فرمائیں گے صلیب توڑیں گے خنزیر کو نیست و نابود کریں گے اب لڑائی موقوف اور امن چین کے دن آئیں گے یہاں تک کہ بھیڑیئے کے پہلو میں بکری بیٹھے گی اور وہ آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے گا بچے سانپ سے کھیلیں گے وہ نہ کاٹے گا ساری زمین عدل سے بھر جائے گی۔
پھر خروج یا جوج و ماجوج اور ان کی فناوغیرہ کا حال بیان کر کے فرمایا:
ويقبض عيسى ابن مریم ووليه المسلمون وغسلوه و حنطوه و كفنوه وصلوا عليه وحفروا له ودفنوه الحديث 80
ان سب وقائع کے بعد عیسی بن مریم علیہ الصلوۃ والسلام وفات پائیں گے۔ مسلمان ان کی تجہیز کریں گے نہلائیں گے خوشبولگا ئیں گے کفن دیں گے نماز پڑھیں گے قبر کھود کر دفن کریں گے۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
یہ سر دست بے قصد استیعاب تینتالیس حدیثیں ہیں جن میں ایک چہل حدیث پوری حضور پرنورسید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔
ثمانية وثلثون نصا واثنان او ثلثة حكما اما عبد الله بن عمرو فكثير اما ياخذ عن الاوائلیعنی اڑتیس حدیثیں نص کے ایک اعتبار سے ہوئیں اور دو یا تین حکم کے اعتبار سے، بہر حال عبد اللہ ابن عمر و تو وہ زیادہ لے لیتے ہیں اوائل سے،(فاروقی)
اور ایک حدیث میں تو کلام اللہ تو رات مقدس کا ارشاد ہے اور خود قرآن عظیم میں بھی اس کا اشعار موجود۔
قال الله عز وجل :وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا 81الى قوله تعالى: وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ 82
بے شک مریم کا بیٹا ہے قیامت کا یعنی ان کے نزول سے معلوم ہو جائے گا کہ قیامت اب آئی۔
حضرت ابوہریرة وحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی قرآت ہے۔
وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ 83
بے شک ابن مریم نشانی ہیں قیامت کے لیے۔
معالم التنزیل میں ہے:
.(وانه) یعنى عيسى عليه السلام لعلم للساعة) يعني نزوله من أشراط الساعة يعلم به قربها، وقرأ ابن عباس وأبو هريرة وقتادة ، انه لعلم للساعة) بفتح اللام والعين أى أمارة وعلامة 84
یعنی حضرت عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام قیامت کے لیے علم ہیں یعنی ان کا نزول قیامت کی نشانیوں میں سے ہے اس سے جان لیا جائے گا کہ قیامت قریب تر ہے اور ابن عباس ، ابوھریرہ اور قتادہ رضی اللہ عنہ نے اسے انه لعلم للساعة پڑھا یعنی بے شک وہ قیامت کے لیے نشانی ہیں، لام اور عین کے زبر کے ساتھ یعنی ان کا نزول قرب قیامت کی امارتو علامت ہے (فاروقی )
مدارک التنزیل میں ہے۔
وانه لعلم للساعة وأن عيسى عليه الصلوة والسلام مما يعلم به مجنى الساعة وقرأ ابن عباس رضى الله تعالى عنهما لعلم للساعة وهو العلامة أى وان نزوله لعلم للساعة 85
یعنی بے شک عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام قیامت کے لیے علامت ہیں جس سے جان لیا جائے گا کہ اب قیامت آنے والی ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انه لعلم للساعة . پڑھا یعنی ان کا نزول قرب قیامت کی علامت ہے۔ (فاروقی )
امام جلال الدین محلی تفسیر جلالین میں فرماتے ہیں:
(وانه) أى عيسى (لعلم للساعة) تعلم بنزوله86
یعنی بے شک حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کے لیے علم ہیں جو ان کے نزول سے پہچان لی جائے گی ۔ (فاروقی )
بالجملہ یہ مسئلہ قطعیہ یقینیہ عقائد اہل سنت و جماعت سے ہے جس طرح اس کا راستا منکر گمراہ بالیقین یو نہیں اس کا بدلنے والا اور نزول عیسی بن مریم رسول اللہ علیہ الصلوة والسلام کو کسی زید و عمرو کے خروج پر ڈھالنے والا بھی ضال مضل بد دین کہ ارشادات حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں نے تکذیب کی وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَتَى مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ87
سید نا روح الله صلوات الله تعالى وسلامه علیه کی حیات !
اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ وہ اب زندہ ہیں یہ بھی مسائل قسم ثانی سے ہے جس میں خلاف نہ کرے گا مگر گمراہ کہ اہلسنت کے نزدیک تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بحیات حقیقی زندہ ہیں ، اُن کی موت صرف تصدیق وعدہ الہیہ کے لیے ایک آن کو ہوتی ہے پھر ہمیشہ حیات حقیقی ابدی ہے ائمہ کرام نے اس مسئلہ کو حق فرما دیا ہے۔
وقد فصلها سيدنا الوالد المحقق دام ظله في كتابه سلطنتة المصطفى في ملكوت كل الورى
یعنی سید نا الوالد امحقق دام ظلہ نے اپنی کتاب سلطنة المصطفى في ملكوت كل الورى “‘ میں اس کی تفصیل فرمائی، (فاروقی )
دوسرے یہ کہ اب تک اُن پر موت طاری نہ ہوئی زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیے گئے اور بعد نزول دنیا میں سالہا سال تشریف رکھ کر اتمام نصرت اسلام وفات پائیں گے یہ مسائل قسمیں اخیرمیں سے ہے اس کے ثبوت کو اولاً اسی قدر کافی و وافی که رب جل و عطا نے فرمایا:
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ 88
کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے ۔
جس کی غیر حضرت ابوھریرة رضی اللہ عنہ صحابی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزری مخالف نے اپنی جہالت سے صرف صحیح بخاری کی تخصیص کی تھی یہ تفسیر نہ صرف اُس میں بلکہ صحیح بخاری و مسلم دونوں میں موجود شرح مشکوۃ شریف للعلامۃ الطیبی میں ہے:
استدل بالاية على نزول عيسى عليه الصلوة والسلام في اخر الزمان مصداقاً للحديث وتحره أن الضمير ين في به وقبل موته لعيسى والمعنى: (وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ) بعيسى قبل موت عيسى وهم أهل الكتاب الذين يكونون في زمان نزوله، فتكون الملة واحدة وهي ملة الاسلام
خلاصہ یہ کہ حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ اس آیت سے تصدیق حدیث کے نزول عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر استدلال فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہر کتابی عیسی کی موت سے پہلے ضرور اس پر ایمان لانے والا ہے اور وہ یہود و نصاری ہیں جو بعد نزول عیسی علیہ الصلوة والسلام أن کے زمانہ میں ہوں گے تو تمام روئے زمین پر صرف ایک دین ہوگا۔ دین الاسلام بس۔ نقله عنه الملا على القاري في المرقاة89
یہی تفسیر بسند صحیح دوسرے صحابی جلیل الشان، ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے جن سے صحیح بخاری میں قول موت منقول ہونے کا مخالف نے ادعا کیا تھا، صحیح بخاری وارشاد الساری میں ہے:
ثم يقول أبو هريرة) بالا سناد السابق، مستد لا على نزول عیسى في آخر الزمان تصديقاً للحديث: (واقرؤا ان شئتم: (وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ) بعيسى (قبل موته) أى وان من أهل الكتب أحدا الاليؤ منن بعیسی قبل موت عیسیٰ وهم أهل الكتاب الذين يكونون في زمانه فتكون الملة واحدة وهى ملة الاسلام وبهذا جزم ابن عباس (رضی الله تعالى عنهما فيما رواه ابن جرير من طريق سعيد بن جبير عنه باسناد صحيح 90
یعنی اس حدیث کو روایت کر کے ابو ھریرة رضی اللہ عنہ آخر زمانے میں عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول پر دلیل لانے حدیث کی تصدیق قرآن مجید سے بتانے کے لیے فرماتے تم چاہو تو یہ آیت پڑھو:وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ الآية91
اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر کتابی ضرور ایمان لانے والا ہے عیسی پر ان کی موت سے پہلے اور وہ۔ وہ کتابی ہیں جو اُس وقت اُن کے زمانے میں ہوں گے تو سارے جہان میں صرف ایک دین اسلام ہو گا اور اسی پر جزم کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اُس حدیث میں جو اُن سے ابن جریر نے اُن کے شاگرد رشید سعید بن جبیر کے واسطے سے بسند صحیح روایت کی انتہی ۔
اور یہی تفسیر امام حسن بصری سے مروی ہوئیکما سیاتی انشاء اللہ تعالی
تصریحات کثیرہ ائمہ کرام و مفسرین عظام و علمائے اعلام امام جلال الملۃ والدین سیوطی تفسیر جلالین میں فرماتے ہیں:۔
اني متوفيك قابضك ورافعك الى من الدنيا من غير موت92ترجمہ:
یعنی اللہ عز و جل نے عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا میں تجھے اپنے پاس لے لوں گا اور دنیا سے بغیر موت دیئے اٹھالوں گا۔
تفسیر امام ابوالبقا عکبری میں ہے:
انه رفع الى السماء ثم يتوفى بعد ذلكترجمہ:
عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام آسمان پر اٹھا لیے گئے ہیں اور اُس کے بعد وفات دیئے جائیں گے۔
تفسیر سمین و تفسیر فتوحات الہیہ میں ہے:
.انه رفع الى السماء ثم يتوفى بعد ذلك بعد نزوله الى الارض وحكمه بشريعة محمد صلى الله عليه وسلم93
وہ آسمان پر اٹھا لیے گئے اور اُس کے بعد زمین پر اتر کر شریعت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حکم کر کے وفات پائیں گے۔
امام بغوی تفسیر معالم التنزیل میں فرماتے ہیں:
قال الحسن والكلبى وابن جريج: اني قابضك ورافعك في الدنيا الى من غير موت 94
یعنی امام حسن بصری نے (کہ اجلہ ائمہ تابعین و تلامذه امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ہیں) اور محمد بن سائب کلبی اور امام عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج نے کہ اجلہ وا کا بر ائمہ تبع تابعین سے اور حسب روایت ائمہ تابعین سے ہیں آیہ کریمہ کی تفسیر کی کہ اے عیسی میں تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا بغیر اس کے کہ تیرے جسم کو موت لاحق ہو۔
امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
قد ثبت الدليل أنه حيى وورد الخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم : أنه سينزل ويقتل الدجال ثم انه تعالى يتوفاه بعد ذلك95
دلیل سے ثابت ہو چکا ہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں اور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث آئی ہے کہ وہ عنقریب اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے پھر اس کے بعد اللہ عز وجل انہیں وفات دے گا۔
اسی میں ہے:
(150)التوفى أخذا الشيء وافيا، ولما علم الله ان من الناس من يخطر بباله أن رفعه الله هو روحه لاجسده ذكر هذا الكلام ليدل أنه عليه الصلوة والسلام رفع بتمامه الى السماء بروحه و بجسده 96
توفی کہتے ہیں کسی چیز کے پورا لے لینے کو جبکہ اللہ عز وجل کے علم میں تھا کہ کچھ لوگوں کو یہ و ہم گزرے گا کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح آسمان پر گئی نہ بدن لہذا یہ کلام فرمایا جس سے معلوم ہو کہ وہ تمام و کمال مع روح و بدن آسمان پر اٹھا لیے گئے۔
تغير عناية القاضي وكفاية الراضي للعلامة شهاب الدين الخفاجي میں ہے:
سبق انه عليه الصلوة والسلام لم يصلب ولم يمت
او پر گزرا کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نہ سولی دیئے گئے نہ انتقال فرمایا۔
امام بدر الدین محمود عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
و كذاروى من طريق أبى رجاء عن الحسن قال : قبل موت عيسى: والله انه لحيى ولكن اذا نزل امنوابه أجمعون وذهب اليه اكثر أهل العلم، یعنی آيه كريمه وان من اهل الكتب الآيه97
کی جو تفسیر حضرت سیدنا ابوھریرة رضی اللہ عنہ نے فرمائی امام حسن بصری سے بطریق ابی رجاء مروی ہوئی کہ انہوں نے فرمایا معنی آیت یہ ہیں کہ تمام کتابی موسیٰ علیہ الصلوة والسلام سے پہلے اُن پر ایمان لانے والے ہیں اور فرمایا خدا کی قسم عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے۔
امام شمس الدین ابو عبد الله محمد ذہبی نے تجرید الصحابہ اور امام تاج الدین سبکی نے کتاب القواعد اور امام ابن حجر عسقلابی نے اصابہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ہمارے نبی اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں میں شمار کیا کہ وہ شب معراج حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے بہرہ اندوز ہوئے ظاہر ہے کہ ان کی تخصیص اسی بنا پر ہے کہ انہیں یہ دولت قبل طریان موت نصیب ہوئی ورنہ شب معراج حضور کی زیارت کسی نبی نے نہ کی امام سبکی نے اس مضمون کو ایک چیستاں میں ادافرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے وہ کون ساجوان ہے جو باتفاق تمام جہان کے حضرت افضل الصحابه صدیق اکبر و فاروق اعظم و عثمان غنی و علی مرتضی رضی اللہ عنہ عنہم اجمعین سب سے افضل ہے یعنی سید نا عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام۔
اصابه في تمييز الصحابہ میں ہے:
عيسى المسيح ابن مريم الصديقة رسول الله وكلمته ألقا ها الى مريم . ذكره الذهبي في التجريد، مستدركا على من قبله فقال: عيسى ابن مریم رسول الله أى النبي صلى الله عليه وسلم ليلة الاسراء وسلم عليه، فهو نبي وصحابي، وهو آخر من يموت من الصحابة وألغزه القاضي تاج الدين السبكي في قصيدته في آخر القواعدله فقال: 98
من باتفاق جميع الخلق افضل من
خير الصحاب أبي بكر ومن عمر
ومن على ومن عثمن وهو فتى
من امة المصطفى المختار من مضر
یعنی مسیح ابن مریم اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کا کلمہ ہیں جنہیں اس نے حضرت مریم کی طرف القا فرمایا، اسے امام ذہبی نے ” تجرید الصحابہ میں اپنے اگلوں سے استدراک کرتے ہوئے ذکر کیا تو فرمایا: اللہ کے رسول عیسی بن مریم نے شب معراج میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو وہ نبی اور صحابی ہیں اور وہ ایسے صحابی ہیں جن کا وصال سارے صحابہ کے بعد ہو گا اور قاضی تاج الدین سبکی نے اسے اپنے قصیدے میں رکھا جو کہ کتاب القواعد کے اواخر میں ہے کہ: وہ کون سا جوان ہے جو باتفاق تمام جہاں افضل الصحابہ ابوبکر و عمر عثمان وعلی رضی اللہ عنہ سے بھی افضل ہےوہ جوان امت مصطفیٰ کے قبیلہ مصر سے ہے ( فاروقی )
امام ذہبی کی اس عبارت میں یہ بھی تصریح ہے کہ عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے صحابی ہیں جن کا انتقال سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ہو گا یہاں ایسے صحابی ہیں جن کا انتقال سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ہو گا یہاں کلمات ائمہ دین و علماء معتمدین کی کثرت اس حد پر نہیں کہ ان کی احاطه و استیعاب کی طمع ہو سکے اور اہل حق کے لیے اس قدر بھی کافی اور مخالف متصرف کہ اپنی ناقص عقل کے آگے ائمہ کو کچھ نہیں گنتے ان کے لیے ہزار دفتر ناوانی لہذا اسی قدر پر بس کریں۔
یہی قول جمہور ہے اور قول جمہور ہی معتمد و منصور ا بھی شرح صحیح بخاری شریف سے گزرا
ذهب اليه اكثر اهل العلم 99
یعنی اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے۔
یہی قول صح و مرجح اور قول صحیح کا مقابل ساقط معتبر، امام قرطبی صاحب مفہم شرح صحیح مسلم پھر علامۃ الوجود امام ابو السعود تفسیر ارشاد العقل السلیم میں فرماتے ہیں:
الصحيح أن الله تعالى رفعه من غير وفاة ولا نوم كما قال الحسن و ابن زيد وهو اختيار الطبرى وهو الصحيح عن ابن عباس رضى الله تعالى عنهما 100
صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ بیدار اٹھالیا نہ ان کا انتقال ہوا نہ اس وقت سوتے تھے جیسا کہ امام حسن و ابن زید نے تصریح فرمائی اور اسی کو امام طبری نے اختیار کیا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی صحیح روایت یہی ہے۔
عمدة القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:
القول الصحيح بانه رفع وهو حيى 101
صحیح قول یہ ہے کہ وہ زندہ اٹھا لیے گئے۔
یہ تو بالیقین ثابت ہے کہ دنیا میں عنقریب نزول فرمانے والے ہیں اور اس کے بعد وفات پانا قطعاً ضر ور تو اگر آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے بھی وفات ہوئی ہوتی تو دوبارہ ان کی موت لازم آئے گی کیونکر امید کی جائے کہ اللہ عز وجل اپنے ایسے محبوب جمیل ایسے رسول عظیم و جلیل پر ( کہ ان پانچ مرسلین اولی العزم صلوات اللہ تعالی و سلامه علیہم سے ہیں جو باقی تمام انبیاء و مرسلین و خلق اللہ اجمعین سے افضل اور زیادہ محبوب رب عز وجل ہیں ) دو بار مصیبت مرگ بھیجے گا جب حضور پرنورسید یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال شریف ہوا اور امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اُس سخت صدمے کی دہشت میں تلوار کھینچ کر کہنے لگے خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال نہ فرمایا اور انتقال نہ فرمائیں گے یہاں تک کہ منافقوں کی زبانیں اور ہاتھ پاؤں کاٹیں اور اُن کے قتل کا حکم دیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نعش اقدس پر حاضر ہوئے جھک کر روئے انور پر بوسہ دیا پھر روئے اور عرض کی۔
بأبي أنت وامى والله لا يجمع الله عليك موتتين، أما الموتة التي كتبت عليك فقد متها 102
میرے ماں باپ حضور پر قربان خدا کی قسم اللہ تعالیٰ حضور پر دو موتیں جمع نہ فرمائے گا وہ جو مقدر تھی ہو چکی۔
بابی انت و امی طبت حياً وميتاً، والله الذي نفسي بيده لا يذيقك الله الموتتين ابداً 103
میرے ماں باپ حضور پر قربان حضور کی زندگی میں بھی پاکیزہ اور بعد انتقال بھی پاکیزہ قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ کبھی حضور کو دو موتیں نہ چکھائے گا۔
رواہ البخاری والنسائی وابن ماجة عن ام المؤمنين الصديقة رضى الله تعالى عنها.بینوا توجروا
تو ایسی بات جب تک نص صریح سے ثابت نہ ہو انبیاء اللہ خصوصاً ایسے رسول جلیل کے حق میں ہرگز نہ مانی جائے گی خصوصا روح اللہ عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام جن کی دعا یہ تھی کہ الہی اگر تو یہ پیالہ یعنی جام مرگ کسی سے پھیرنے والا ہے تو مجھ سے پھیر دے بارگاہ عزت میں رسول اللہ کی جو عزت ہے اس پر ایمان لانے والا بے دلیل صریح واضحالتصریح کے کیوں کر مان سکتا ہے کہ وہ یہ دعا کریں اور رب عز وجل اس کے بدلے اُن پر موت پر موت نازل فرمائے یہ ہرگز قابل قبول نہیں انصاف کیجئے۔ تو ایک یہی دلیل ان کے زندہ اٹھا لیے جانے پر کافی و وافی ہے۔ وبالله التوفيق۔بینوا توجروا
قرآن مجید سے اتنا ثابت اور مسلمان کا ایمان کہ سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام یہود و عنود کے مکرو کیود سے بیچ کر آسمان پر تشریف لے گئے رہا یہ کہ تشریف لے جانے سے پہلے زمین پر ان کی روح قبض کی گئی اور جسم یہیں چھوڑ کر صرف روح آسمان پر اٹھائی گئی اس کا آیت میں کہیں ذکر نہیں یہ دعوئی زائد ہے جو مدعی ہو ثبوت پیش کرے ورنہ قبول بے ثبوت محض مردود ہے۔ مخالف نے جو کچھ ثبوت میں پیش کیا سب بے ہودہ ہے۔ وہ یا تو نرا افتر اس اس کے اپنے دل کا اختراع ہے یا مطلب سے محض بیگانہ جس میں مقصود کی بو بھی نہیں یا مراد میں غیر نص جو مدعی کے لیے ہر گز بکار آمد و کافی نہیں۔
سب کا بیان سینے !
تو اس کا وہ کہنا ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تفسیر میں ثابت فرمایا کہ عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام بعد قبض روح آسمان پر اٹھائے گئے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا پر کہ انہوں نے ایسا فرمایا حالانکہ ہم ابھی ثابت کر آئے کہ اُن سے بسند صحیح اس کا خلاف ثابت ہے وہ اسی کے قائل ہیں کہ عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے ابھی وفات نہ پائی اُن کی موت سے پہلے یہود و نصاری اُن پر ایمان لائیں گے۔ امام قرطبی سے گزرا کہ یہی روایت ابن عباس سے صحیح ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
صحیح بخاری شریف پر کہ اُس میں یہ تفسیر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ابن عباس سے مروی ہے حالانکہ اس میں بروایت حضرت ابن عباس صرف اس قدر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انكم محشورون وان ناسأ يو خذ بهم ذات الشمال فأقول كما قال العبد الصالح: (وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ) إِلَى قَوْلِهِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ)104
یعنی تمہارا حشر ہوگا اور کچھ لوگ بائیں طرف یعنی معاذ اللہ جانب جہنم لے جائے جائیں گے میں وہ عرض کروں گا جو بندہ صالح عیسی بن مریم نے عرض کیا کہ میں اُن پر گواہ تھا جب تک اُن میں موجود رہا جب تو نے مجھے وفات دی تو ہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے اگر تو انہیں عذاب کرنے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو ہی ہے غالب حکمت والا۔
اس حدیث میں مدعی کے اُس دعوئی کا کہاں پتا ہے کہ آسمان پر جانے سے پہلے وفات ہوئی اور صرف روح اٹھائی گئی اور بے گانہ و بے علاقہ اس آئیہ کریمہ
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ105
کا ذکر ہے یہاں اگر وفات بمعنی موت ہو بھی تو یہ روز قیامت کا مکالمہ ہے۔ رب العزة جلالہ فرماتا ہے:
يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَا ذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ انْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَةَ وَالْإِنْجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطَّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِاذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُوْنُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِاذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَى بِاذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي : قَالُوْا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ بِعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنتُمْ مُّؤْمِنِينَ قَالُوْا نُرِيدُ أَنْ نَاكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُوْنَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّهِدِينَ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا انْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُوْنُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنْكَ وَارْزُقْنَا وَانْتَ خَيْرُ الرَّزِقِينَ قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَنْ يَكْفُرُ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُةَ أَحَدًا مِّنَ الْعَلَمِينَ وَإِذْ قَالَ اللَّهُ بِعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَ أُمِّيَ الْهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَ رَبَّكُمْ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْ شَهِيدٌ إِنْ تُعَذِّبُهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ قَالَ اللَّهُ هَذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّدِقِينَ صِدْقُهُم106
جسدن جمع فرمائے گا اللہ تعالیٰ رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملا بولے ہمیں کچھ خبر نہیں بے شک تو ہی خوب جانتا ہے سب چھپی باتیں جب فرمایا، اللہ نے اسے عیسیٰ مریم کے بیٹے یاد کر میرے احسان اپنے اوپر ( پھر احسانات گنا کر فرمایا) اور جب فرمایا اللہ نے اے عیسیٰ مریم کے بیٹے کیا تو نے کہہ دیا تھا لوگوں سے کہ بنا لو مجھے اور میری ماں کو دو خدا اللہ کے سوابولا پاکی ہے۔ تجھے مجھے روانہیں کہ وہ کہوں جو مجھے نہیں پہنچتا اگر میں نے کہا تو تجھے خوب معلوم ہوگا تو جانتا ہے۔ جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے بے شک تو ہی خوب جانتا ہے سب چھپی باتیں میں نے نہ کہا ان سے مگر وہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ پو جو اللہ کو جو مالک ہے میرا اور تمہارا اور میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں تھا جب تو نے مجھے وفات دی تو ہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے فرمایا اللہ نے یہ دن ہے جس میں نفع دے گا بچوں کو ان کا سچ۔
اوّل سے آخر تک یہ ساری گفتگو روز قیامت کی ہے کس نے کہا کہ عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام کبھی وفات پائیں گے ہی نہیں کہ روز قیامت بھی اپنی وفات کا ذکر نہ کر سکیں شاید جاہل یہاں قَالَ اللهُ اور قَالَ سُجُنگ میں ماضی کے صیغے دیکھ کر سمجھا کہ یہ تو گزری ہوئی باتیں ہیں اور قیامت کا دن ابھی نہ گزرا حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ کلام فصیح میں آئندہ بات کو جو یقینی ہونے والی ہے ہزار جگہ ماضی کے صیغے سے تعبیر کرتے ہیں یعنی وہ ایسی یقینی الوقوع ہے کہ گویا واقع ہوئی۔
قرآن مجید میں بکثرت ایسے محاورات ہیں سورہ اعراف میں دیکھئے۔
وَ نَادَى أَصْحَبُ الْجَنَّةِ أَصْحَبَ النَّارِ 107
جنتوں نے دوزخیوں کو پکارا کہ ہم نے تو پا لیا جو وعدہ دیا ہمیں ہمارے رب نے سچا کیا تم نے بھی پایا جو تمہیں وعدہ دیا تھا سچا۔
قَالُو انْعَمَ108
وہ بولے ہاں کو لے ہاں
فَاذَنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ109
تو ندا کی ان میں ایک ندا دینے والے نے کہ خدا کی پھٹکا ر ستم گاروں پر
وَنَادَوْا أَصْحَبَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلَّمٌ عَلَيْكُم 110
اعراف والے پکارے جنت والوں کو سلام تم پر
وَ نَادَى أَصْحَبُ الْأَعْرَافِ رِجَالًا يَعْرِفُونَهُمْ بِسِيمَهُم111
اور اعراف والے پکارے دوزخیوں کو ان کے علامت سے پہچان کر۔
وَنَادَى أَصْحَبُ النَّارِ أَصْحَبَ الْجَنَّةِ112
اور دوزخی پکارے جنتیوں کو کہ ہمیں اپنے پانی وغیرہ سے کچھ دو۔
قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَفِرِينَ113
بولے اللہ نے یہ نعمتیں کافروں پر حرام کی ہیں۔
اس طرح سورہ صافات میں :۔
فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ114
تو اُن میں ایک نے دوسرے کی طرف منہ کیا پوچھتے ہو ۔
الآیات اور سورہ ص میں :
قَالُوا بَلْ أَنْتُمْ لَا مَرْحَباً بِكُم سے إِنَّ ذَلِكَ لَحَقِّ تَخَاصُمُ أَهْلِ النَّارِ115
وہ کہیں گے ان کو کھلی جگہ نہ ملیو آگ میں تو اُن کو جانا ہی ہے وہاں بھی تنگ جگہ میں رہیں تابع بولے بلکہ تمہیں کھلی جگہ نہ ملیں یہ مصیبت تم ہمارے آگے لائے تو کیا ہی برا ٹھکانہ وہ بولے اے ؟ ہمارے رب جو یہ مصیبت ہمارے آگے لایا اسے آگ میں دو نا عذاب بڑھا اور بولے ہمیں کیا ہوا ہم ان مردوں کو نہیں دیکھتے جنہیں برا سمجھتے تھے کیا ہم نے انہیں ہنسی بنالیا یا آنکھیں ان کی طرف سے پھر گئیں، بے شک یہ ضرور حق ہے درزخیوں کا باہم جھگڑا ۔
تک دوزخ میں دوزخیوں کا باہم جھگڑا اور سورہ زمر میں :
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ الله سے وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا الأيه116
اور صور پھونکا جائے گا تو بے ہوش ہو جائیں گے جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں مگر جسے اللہ چاہے پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گا جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے اور زمین جگمگا اٹھے گی اپنے رب کے نور سے اور رکھی جائے گی کتاب اور لائے جائیں گے انبیاء اور یہ نبی اور اُس کی اُمت کے اُن پر گواہ ہوں گے اور لوگوں میں سچا فیصلہ فرمادیا جائے گا اور اُن پر ظلم نہ ہوگا اور ہر جان کو اس کا کیا بھر پور دیا جائے گا اور اسے خوب معلوم ہے جو وہ کرتے تھے اور کافر جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے گروہ گروہ یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کے ملنے سے ڈراتے تھے کہیں گے کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کا فروں پر ٹھیک اتر ا فر مایا جائے گا داخل ہو جہنم کے دروازوں میں اس میں ہمیشہ رہنے تو کیا ہی برا ٹھکانہ متکبروں کا اور جو اپنے رب سے ڈرتے تھے اُن سواریاں گروہ گروہ جنت کی طرف چلائی جائیں گی یہاں تک کے جب وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے اور اس کے داروغہ اُن سے کہیں گے سلام تم پر تم خوب رہے تو جنت میں جاؤ ہمیشہ رہنے اور کہیں گے سب خوبیاں اللہ کو جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیا۔
یہ تک تمام وقائع روز قیامت صیغہ ہائے ماضی میں ارشاد ہوئے ہیں اور خود اسی آیت میں دیکھئے جس دن جمع کرے گا اللہ رسولوں کو پھر فرمائے گا تم نے کیا جواب پایا بولے ہمیں کچھ علم نہیں۔ یہاں بھی ان کا جواب بصیغہ ماضی ارشاد فرمایا اور نا کافی و نا مثبت آیہ کریمہ:۔
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا 117
یاد کرو جب اللہ نے فرمایا : اے عیسی میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کر دوں گا۔
سے استدلال جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ جب فرمایا اللہ نے اسے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا اور اپنی طرف اٹھا لینے والا اور کافروں سے دور کر دینے والا ہوں اولا حرف واو ترتیب کے لیے نہیں کہ اس میں جو پہلے مذکور ہو اس کا پہلے ہی واقع ہونا ضرور ہو تو آیت سے صرف اتنا سمجھا گیا کہ وفات و رفع و تطہیر سب کچھ ہونے والے ہیں اور یہ بلا شبہ حق ہے یہ کہاں سے مفہوم ہوا کہ رفع سے پہلے وفات ہولے گی۔
تفسیر امام عکبری میں ہے:
مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى كلاهما للمستقبل والتقدير رافعك الى ومتوفيك لانه رفع الى السماء ثم يتوفى بعد ذلك
یعنی یہ دونوں کلمے مستقبل کیلئے ہیں اور رَافِعُكَ إِلَى مُتَوَفِّيكَ “ مقدر یعنی تمہیں اپنی طرف اٹھالوں گا اور تمہیں وفات دوں ا اور تمہیں وفات دوں گا اس لیے کہ انہیں بیضاوی آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا پھر اس کے بعد ان کی وفات ہوگی، (فاروقی)
تفسیر سمین و تفسیر جمل و تفسیر مدارک و تفسیر کشاف و تفسیروتفسير ارشاد العقل میں ہے:
واللفظ للنسنی او مميتك في وقتك بعد النزول من السماء ورافعك الآن اذالو اولا توجب الترتيب اذالو اولا توجب الترتيب118
یعنی یہ الفاظ سفی کے ہیں یا تمہیں موت دوں گا تمہاری موت کے وقت میں آسمان سے اتارنے کے بعد اور اس وقت میں تمہیں اٹھا لیتا ہوں اس لیے کہ واؤ ترتیب کو واجب نہیں نہیں کرتا ، (فاروقی )
تفسیر کبیر میں ہے:۔
فالاية تدل على أنه تعالى يفعل به هذه الأفعال، فأما كيف يفعل ومتى يفعل، فالأ مرفيه موقوف على الدليل، وقد ثبت الدليل أنه حي 119
یعنی آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ یہ افعال کرتا ہے تو رہا یہ کہ کسی طرح کرتا ہے اور کب کرتا ہے اور کب ہوتا ہے؟ تو یہ معاملہ دلیل پر موقوف ہے اور دلیل اس بات پر قائم ہو چکی ہے کہ وہ زندہ ہے۔ (فاروقی )
توفی خوامخواہ معنی موت میں نص نہیں تو فی کہتے ہیں تسلم وقبض اور پورا لے لینے کو کبیر کی عبارت او پر گزری کہ معنی یہ ہیں کہ مع جسم و روح تمام و کمال اٹھالوں گا۔
تفسیر جلالین سے گزرا
متوفيك قابضك ورافعك من غير موت 120
یعنی اللہ نے عیسی سے فرمایا میں تجھے اپنے پاس لے لوں گا اور بغیر موت دیئے اٹھاؤں گا ۔
معالم التنزیل سے گزرا کہ حسن کلبی وابن جریج سے کہا:
انی قابضك ورافعك فى الدنيا الى من غير موت121
اے عیسیٰ میں تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا بغیر اس کے کہ تیرے جسم کو موت لاحق ہو ۔
اس میں ہے:
فعلى هذا للتوفى تأويلان أحمد هما انى رافعك الى وافيا لم ينا لوامنك شياء من قولهم توفيت من كذا وكذا وأستو فيه اذ أخذته تاماً، والاخر ، اني متسلمك، من قولهم توفيت منه كذا، أي : تسلمته 122
یعنی اس بناء پر توفی کی دو تاویلیں ہیں ان میں سے ایک یہ کہ میں تم کو مکمل سلامتی کے ساتھ اٹھالوں گا تو لوگ تمہارا کچھ نہ بگاڑ پائیں گئے ( جیسے ) اہل زبان کا قول کہ میں نے اسے ایسے ایسے لے لیا جبکہ اس کو پورا پورا لے لیا اور دوسری تاویل یہ ہے کہ میں تمہیں ان سے لے ھوں گا“ (جیسے ) اہل زبان کا قول کہ ”میں نے اس چیز کو ان سے حاصل کر لیا۔ (فاروقی)
کشاف وانوار التنزیل والی السعود و تفسیر نسفی میں ہے:
أو قابضك من الأرض من توفيت مالي 123
یعنی میں تجھے زمین سے اچک لوں گا ( جیسے ) اہل زبان کا قول کہ میرا مال اچک لیا گیا۔ (فاروقی)
خفاجی علی البیضاوی میں ہے:
ولذا فسر التوفى برفعه واخذه من الارض كما يقال توفيت المال اذا قبضته
یعنی اس لیے توفی“ کی تفسیر زمین سے اٹھا لیے جانے سے کی دو جیسے کہا جائے کہ ” میرا مال فوت ہو گیا جب اسے لے لیا جائے“۔ (فاروقی)
توفی بیمعنی استیفاء، اجل ہے یعنی تمہیں تمہاری عمر کامل تک پہنچاؤں گا اور ان کافروں کے قتل سے بچاؤں گا ان کا ارادہ پورا نہ ہوگا تم اپنی عمر مقرر تک پہنچ کر اپنی موت انتقال کرو گے۔
تفسیر سمین و تفسیر جمل و تفسیر مدارک تفسیر کشاف و تفسیر بیضاوی تفسیر ارشاد میں ہے:۔
انی مستوفى أجلك ومؤخرك وعاصملك من أن يقتلك الكفار الى أن تموت حتف أنفك 124
یعنی میں پورا کروں گا تمہارے اجل کو اور تمہیں مؤخر کروں گا اور میں تمہیں محفوظ رکھوں گا کفار کے قتل کرنے سے یہاں تک کہ تم اپنی طبعی موت پاؤ۔ (فاروقی)
تفسیر کبیر میں ہے:
أى متمم عمرك، فحينئذ أتو فاك فلا أتركهم حتى يقتلوك وهذا تأويل حسن 125
یعنی میں تمہاری عمر کو مکمل کروں گا تو اس وقت تمہیں وفات دوں گا میں نہیں چھوڑں گا ان کے لیے وہ کہ تمہیں قتل کر دیں اور یہ تاویل اچھی ہے۔ (فاروقی )
وفات بمعنی خواب خود قرآن عظیم میں موجود قال اللہ تعالیٰ :۔
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّكُمْ بِالَّيْلِ126
اللہ ہے جو تمہیں وفات دیتا ہے رات میں یعنی سلاتا ہے۔
وقال الله تعالى:
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَا 127
اللہ تعالی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جو نہ مرے انہیں ان کے سوتے ہیں۔
تو معنی یہ ہوئے کہ میں تمہیں سلاؤں گا اور سوتے میں آسمان پر اٹھالوں گا کہ اٹھائے جانے میں دہشت نہ لاحق ہو۔
یہی قول امام ربیع بن انس کا معالم میں ہے:
قال الربيع بن أنس : المراد المتوفى النوم، وكان عيسى قد نام فرفعه الله تعالى نائما الى السماء، ومعناه اني منيمك ورافعك الى128
یعنی ربیع ابن انس نے کہا کہ توفی سے مراد ” نوم“ ہے کہ عیسی علیہ السلام سوتے رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا اور اس کا معنی یہ ہے کہ میں تمہیں سلاؤں گا اور تمہیں اپنی طرف اٹھالوں گا۔ (فاروقی)
مدارک میں ہے:
اومتو في نفسك بالنوم ورافعك وانت نائم حتى لا يلحقك خوف وتستيقظ وانت في السماء امن مقرب129ترجمہ: ]
یعنی میں تمہیں لے لوں گا سوتے میں اور تمہیں اٹھالوں گا اس حال میں کہ تم سور ہے ہو گے تا کہ تمہیں خوف نہ ہو اور تم بیدار ہو اس حالت کہ آسمان میں مامون و مقرب ہو۔ (فاروقی )
کشاف وانوار وارشاد میں ہے:
أو متوفيك نائما، اذروى أنه رفع نانما 130
یعنی میں تمہیں خواب میں لے لوں گا اس لیے کہ: مروی ہے علیسی علیہ السلام سوتے میں اٹھا لیے گئے ۔ (فاروقی)
اور ان کے سوا آیت میں اور بھی بعض وجوہ کلمات علماء میں مذکور تو وفات کو بمعنی موت لینا اور اُسے قبل از رفع ٹھہرا دینا محض بے دلیل ہے جس کا آیت میں اصلاً پتا نہیں۔
بلکہ اگر خدا انصاف دے تو آیت تو اس مزعوم مخالف کا رد فرما رہی ہے ان کلمات کریمہ میں اپنے بندے عیسی روح علیہ الصلواۃ والسلام کو تین بشارتیں تھیں۔
(200)مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ 131.
اگر معنی آیت یہی ہوں کہ میں تمہیں موت دوں گا اور بعد میں تمہاری روح کو آسمان پر اٹھالوں گا تو اس میں سوا اس کے کہ انہیں موت کا پیغام دیا گیا اور کون سی بشارت تازہ ہے مرنے کے بعد ہر مسلمان کی روح آسمان پر بلند ہوتی اور کافروں سے نجات پاتی ہے۔
قال الله تعالی:
(201)إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِايْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ 132
بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور ان سے تکبر کیا ان کے لیے نہ کھولے جائیں گے دروازے آسمان کے۔
تو کافر کی روح آسمان پر نہیں جاتی ملائکہ عذاب جب لے کر جاتے ہیں درہائے آسمان بند کر لیے جاتے ہیں کہ یہاں اس نا پاک روح کی جگہ نہیں، بخلاف مومن کہ اُس کی روح بلند ہوتی اور زیر عرش اپنے رب جل و علا کو سجدہ کرتی ہے تو پچھلی باتیں ہر مسلمان کی روح کو حاصل ۔
آیت میں صرف خبر موت رہ گئی اور ہمارے طور پر ہر ایک بشارت عظیمہ مستقلہ ہے کہ میں تمہیں عمر کامل تک پہنچاؤں گا یہ کافر قتل نہ کر سکیں گے اور جیتے جی آسمان پر اٹھالوں گا اور کافروں سے ایسا دو رو پاک کردوں گا کہ عمر بھر کسی کا فر کو تم پر اصلاً دسترس نہ ہو گی جب دوبارہ دنیا میں آؤ گے یہ جو تمہیں قتل کرنا چاہتے ہیں تم خود انہیں قتل کرو گے اور انہیں کو نہیں بلکہ تمام کافروں سے سارے جہان کو پاک کر دو گے کہ ایک دین حق تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا اور تم تمام عالم میں اس کے مرجع و ماوی معہدا شروع کلام میں فرمایا ہے:
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَكِرِينَ إِذْ قَالَ اللَّهُ يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ الآية133
یہاں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ : کافروں نے عیسی کے ساتھ مکر کیا انہیں قتل کرنا چاہا اور اللہ عز وجل نے انہیں ان کے مکر کا بدلہ دیا کہ ان کا مکر الٹا انہیں پر پڑا جب فرمایا اللہ تعالیٰ نے اسے عیسی ! میں تیرے ساتھ یہ یہ باتیں کرنے والا ہوں۔
اگر کچھ دشمن کسی بادشاہ ذوالاقتدار کے محبوب کو قتل کرنا چاہتے ہوں اور وہ اُسے بچائے تو بچانے کے معنی یہ ہوں گے کہ اسے سلامت نکال لیا جائے اور ان کا چاہانہ ہونے پائے یا یہ کہ ان کے قتل سے یوں محفوظ رکھے کہ خود موت دے دے ان کی مراد تو یوں بھی بھر آئی آخر جو کسی کا قتل چاہے اُس کو غرض یہی ہوتی ہے کہ جان سے جائے وہ حاصل ہو گیا ان کے ہاتھوں نہ سہی اللہ کے ہاتھ ( قدرت ) سے سہی بخلاف اس کے کہ انہیں ان کے قادر ذوالجلال والا کرام نے زندہ اپنے پاس اٹھا لیا کہ انہیں پھر بھیج کر ان خبیثوں کی شرارتیں انہیں کے دست مبارک سے نیست و نابو کرائے۔ تو یہ سچا بدلہ ان ملعونوں کے مکر کا ہے:
(203)وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَكِرِينَ 134
اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔
هكذا ينبغي التحقيق والله ولي التوفيق بینوا توجروا یعنی ایسی تحقیق ہونی چاہیے اور اللہ یہ توفیق دینے والا ہے۔
مسلمانو ! ان منکروں کا ظلم قابل غور ہے ہم سے تو محض بے ضابطہ وہ جبروتی تقاضے تھے کہ ثبوت حیات صرف قرآن سے دو آیت بھی قطعیۃ الدلالہ ہو حدیث ہو بھی تو خاص صحیح بخاری کی ہو حالانکہ از روئے قواعد علمیہ ہمارے ذمے ثبوت دینا ہی نہ تھا ہماری تقریرات سے روشن ہو چکا کہ مسئلے میں مخالفین مدعی ہیں اور بار ثبوت ذمہ مدعی ہوتا ہے تو ایک تو الٹا مطالبہ اور وہ بھی ایسی تنگ قیدوں سے جو عقلاً ونقلا کسی طرح لازم نہیں اور جب خودان مدعی صاحبوں کو ثبوت دینے کی نوبت آئی تو وہ گل کترے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتر احضرت عبداللہ بن عباس پر افتراصحیح بخاری شریف پر افتر محض بے گانہ واجنبی سے استناد نہ قرآن پر بس نہ قطعیت کی ہوس اور کیا نا انصافی کے سر پر سینگ ہوتے ہیں: ولا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم
ان نئے فیشن کے مسیحوں کا سچے مسیح رسول اللہ و کلمتہ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سوال کہ اس دوبارہ رجوع میں وہ نبی نہ رہیں گے اور وہ نبوت یا رسالت سے خود مستعفی ہوں گے یا اُن کو خدائے تعالیٰ اس عہدہ جلیلہ سے معزول کر کے امتی بنادے گا اگر از راہ نادانی ہے تو محض سفاہت و جہالت ور نه صریح شرارت و ضلالت۔
نہ وہ خود مستعفی ہوں گے نہ کوئی نبی نبوت سے استعفا دیتا ہے نہ اللہ عز وجل انہیں معزول فرمائے گا نہ کوئی نبی معزول کیا جاتا ہے وہ ضرور اللہ کے نبی ہیں اور ہمیشہ نبی رہیں گے اور ضرور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور ہمیشہ امتی رہیں گے یہ سفیبہ اپنی حماقت سے نبی ہونے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے میں باہم منافات سمجھا یہ اس کی جہالت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر رفیع سے غفلت ہے وہ نہیں جانتا کہ ایک عیسی روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام پر موقوف نہیں ابراہیم خلیل اللہ و موسیٰ کلیم اللہ ونوح نجی اللہ و آدم صفی اللہ و تمام انبیاء اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سب کے سب ہمارے نبی اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ حضور کا نام پاک نبی الانبیاء ہے۔
حدیث میں حضور نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لو كان موسى حياً ما وسعه الا اتباعی 135
اگر موسی زندہ ہوتے انہیں میری پیروی کے سوا کچھ گنجائش نہ ہوتی۔
رواه احمد والبيهقي في الشعب عن جابر بن عبد الله رضى الله تعالى عنهما
اور فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم :
والذي نفس محمد بيده لوبد ألكم موسى فاتبعتموه و ترکتمونى لضللتم عن سواء السبيل ولو كان حياو ادرك نبوتى لا تبعنی 136
قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان پاک ہے اگر موسیٰ تمہارے لیے ظاہر ہوں اور تم مجھے چھوڑ کر اُن کی پیروی کرو تو سیدھی راہ سے بہک جاؤ گے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو ضرور میرا اتباع کرتے۔
اس وقت تو رات شریف کا ذکر تھا لہذا موسیٰ علیہ السلام کا نام لیا ورنہ انہیں کی تخصیص نہیں سب انبیاء کے لیے یہی حکم ہے۔
یہ سفہا قرآن مجید کا نام تو لیتے اور حدیثوں سے منکر ہو کر فریب دہی عوام کے لیے صرف اس سے استناد کا پیام دیتے ہیں مگر استغفر اللہ قرآن کی انہیں ہوا بھی نہ لگی یہ منہ اور قرآن کا نام اگر قرآن عظیم کبھی سنا بھی ہوتا تو ایسے بے ہودہ سوال کا منہ نہ پڑتا اللہ عز و جل قرآن میں فرماتا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّنَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتَبٍ وَ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ءَ أَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ اِصْرِى قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَ أَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشَّهِدِينَ فَمَنْ تَوَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ 137
اور یاد کر جب اللہ نے عہد لیا سب پیغمبروں سے جب میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کروں پھر آئے تمہارے پاس ایک رسول تصدیق فرماتا ہوا اس کتاب کی جو تمہارے ساتھ ہے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے پیغمبر و کیا تم نے اس بات کا اقرار کیا اور اس عہد پر میرا ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو آپس میں ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں خود تمہارے ساتھ اس عہد کا گواہ ہوں تو جو اس کے بعد پھر جائے تو وہی لوگ بے حکم ہیں ۔
کیوں قرآن کا نام لینے والو! کیا یہ آیتیں قرآن میں نہ تھیں کیا اللہ عز وجل نے اس سخت تاکید شدید کے ساتھ سب انبیاء ومرسلین علیہم الصلوۃ والتسلیم سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان لانے کا عہد نہ کیا اس عہد سے ان سب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی نہ بنا دیا کیا اس عہد لیتے وقت انہوں نے نبوت سے استعفا کیا یا اللہ عز وجل نے انہیں معزول کر کے اُمتی کر دیا۔
اے سفیہو ! اس عہد عظیم پر حضرت روح اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اتریں گے اور با وصف نبوت ورسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی و ناصر دین ہو کر رہیں گے۔
آسمان ، نسبت بعرش آمد فرود
گرچه بس عالیست پیش خاک تود
اس آیت کریمہ کا نفیس جانزا بیان اگر دیکھنا چاہو تو سیدنا الوالد الحق دام ظلہ کی کتاب مستطاب تجلى اليقين بان نبينا سيد المرسلين ۱۳۰۵ھ کا مطالعہ کرو اور ہمارے نبی اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی الانبیاء ہونے پر ایمان لاؤ۔
گرچہ شیرین رہناں بادشاہ نند ولے
او سلیمان جهان است که خاتم با اوست
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیہم و بارک وسلم رہا اس کا سوال کہ کسی وقت آسمان سے رجوع کریں گے اس کا جواب وہی ہے کہ ما المسؤل عنها با علم من السائل
یعنی جس سے پوچھا گیا وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔
اتنا یقینی ہے کہ وہ مبارک وقت بہت قریب آ پہنچا ہے کہ وہ آفتاب ہدایت و کمال افق رحمت و جمال و قہر و جلال سے طلوع فرما کر اس زمین تیرہ تار پر تجلی فرمائے اور ایک جھلک میں تمام کفر بدعت، نصرانیت، یہودیت، شرک، مجوسیت، نیچریت، قادیانیت رفض خروج و غیر با اقسام ضلالت سب کا سویرا کر دے تمام جہان میں ایک دین اسلام ہو اور دین سلام میں صرف ایک مذہب اہل سنت باقی سب ته تریخ ولله الحجة الساميه مگر تعیین وقت کہ آج سے کے سال کے ماہ باقی ہیں نہ ہمیں بتائی گئی نہ ہم جان سکتے ہیں جس طرح قیامت کے آنے پر ہمارا ایمان ہے اس کا وقت معلوم نہیں۔
مسلمانو! اللہ عزوجل نے انسان کو جامع صفات ملکی و بیمی و شیطانی بنایا ہے جسے وہ ہدایت فرمائے صفات ملکی ظہور کرتے اور اسے بعض یا کل ملائکہ سے افضل کر دیتے ہیں کہ:
عبدى المؤمن احب الى من بعض ملائكتي 138
یعنی میرے نزدیک میرا مومن بندہ بعض فرشتوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
شریعت ان کی شعار ہوتی ہے اور تقویٰ ان کا وثار کہ:
لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ 139
جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں
تواضع و فروتنی ان کی شان جبلی اور تکبر وتعلی سے تنفر کی کہ:
ان الملئكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم 140
یعنی بے شک فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں۔
اور جس نے صفات بھیمی کی طرف رجوع کی بہائم دار لیل و نہار بطن و فرج خادم خوار اور فکر شہوات کا اسیر و گرفتار کہ
أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ 141
وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ
اور جس پر صفات شیطانیہ غالب آئیں تکبر و ترفع اس کا دین و آئین کہ:
أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ 142
منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا ۔
یہ ہر وقت طلب جاہ و شہرت میں مبتلا رہتے ہیں کہ کسی طرح وہ بات نکالی جائے جس سے آسمان تعلیٰ پر ٹوپی اچھالے دور دور نام مشہور ہو خاص و عام میں ذکر مذکور ہو اپنا گروہ الگ بنائیں وہ ہمارا غلام ہم اس کے امام کہلائیں ان میں جن کی ہمت پوری ترقی کرتی ہے وہ
أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى 143
میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں ۔
بولتے اور دعوے خدائی کی دکان کھولتے ہیں جیسے گزرے ہوؤں میں فرعون و نمرود و غیر هما مردود اور آنے والوں میں مسیح قادیانی کے سوا ایک اور مسیح خورنشین یعنی دجال لعین اور جوان سے کم درجہ ہمت رکھتے ہیں کذاب یمامہ و کذاب ثقیف و غیر هما خبیثوں کی طرح ادعای رسالت و نبوت پر تھکتے ہیں اور گھٹ کی ہمت والے کوئی مہدی موعود بنتا ہے کوئی غوث زمان کوئی مجتہد وقت کوئی چنین و چنان ہندوستان میں مدتوں سے اسلام بے سردار ہے اور دین بے یاور نفس امارہ کی آزادیاں کھلے بندوں رہنے کی شادیاں یہاں رنگ نہ لائیں تو کہاں ہزاروں مجتہد سینکڑوں ریفامر ، مقننان تہذیب، مشرعان نیچر کتنے ہی مہدی، کتنے مذہب گر حشرارت الارض کی طرح نکل پڑے اور خدا کی شان
كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ 144
یونہی اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور ہدایت فرماتا ہے جسے چاہے
جو کوئی کیسے ہی کھلے باطل صریح جھوٹ کا نشان باندھ کر آگے بڑھا کچھ عقل کے اندھے قسمت کے اندھے اس کے پیچھے ہو لیے آخر یہی آدمی تھے جو فرعون کو سجدہ کرتے یہی آدمی ہوں گے جو دجال کا ساتھ دیں گے ان صدیوں کے دورے میں مہدی تو کتنے ہی نکلے اور زمین کا پیوند ہوئے سنا جاتا ہے ایک صاحب کو پانچ پانیوں کے زور میں نئی ایج کی سوجھی کہ مہدی بننا پرانا ہو گیا اور نرا امتی بننے میں لطف ہی کیا لاؤ عیسی موعود بنیں اور ادعائے الہام کی بنیاد پر نبوت کی دیوار چنیں اور ادھر عیسائیوں کا زمانہ بنا ہوا ہے۔ اگر کہیں صلیب کے صدقے میں نصیب جاگا اور اُن کی سمجھ میں آگیا جب تو جنگل میں منگل ہے سولی کے دن گئے برے کی لے۔
شادی کا دنگل ہے یورپ و امریکا و بر ما وانڈ یا سب تخت اپنے ہی ہیں اپنے ہی بندے خداوند تاج وہی ہیں پاؤں : تاج و شہی ہیں پاؤں میں چاند تارے کا جو تا سر پر سورج کا تاج ہوگا باپ کو جیتے جی معزول کر کے بیٹے کا راج ہوگا اور ایسا نہ بھی ہوا تو چند گانٹھ کے پورے اندھے تو کہیں گئے ہی نہیں یوں بھی اپنا ایک گروہ الگ شہرت حاصل سرداری برقرار۔
اس خیال کے جمانے کو جہاں ہزاروں گل کھلائے صدہا جل کھیلے وہاں ایک ہلکا سا بیچ یہ بھی چلے کہ سید نا عیسیٰ علی نبینا الکریم وعلیہ الصلوٰۃ والتسلیم تو مر بھی گئے اب وہ کیا خاک اتریں گے اور کیا کریں دھریں گے جو کچھ ہیں ہمیں ذات شریف ہیں ہمیں آخری امید گاہ دین حنیف ہیں ہمیں قاتل خریر ہمیں قاطع یہود ہمیں کا سر صلیب ہمیں مسیح موعود گویا انہیں کی ماں کنواری انہیں کا باپ معدوم احادیث متواترہ میں انہیں کے آنے کی دھوم مگر یہ ان کی نری خام ہوس ہے او حیات و موت عیسوی میں ان کی گفتگو عبث ۔
ہم پوچھتے ہیں موت عیسوی منافی نزول ہے یا نہیں اگر نہیں اور بے شک نہیں جیسا کہ ہم مقدمہ خامسہ میں روشن کر آئے جب تو اس دعوے سے تمہیں کیا نفع ملا اور احادیث نزول کو اپنے اوپر ڈھالنے سے کیا کام چلا اور اگر بالفرض منافی جانیے تو یقیناً لازم کہ موت سے انکار کیجئے حیات ثابت مانیے کہ اگر موت ہوتی تو نزول نہ ہوتا مگر نزول یقینی کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات متواترہ اس کی دلیل قطعی مسلمان ہرگز کسی فریب دہندہ کی بناوٹ مان کر اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو معاذ اللہ غلط و باطل جاننے والے نہیں جو کوئی ان کے خلاف کہے اگر چہ زمین سے آسمان تک اڑے مسلمان اس کا ناپاک قول بدتر از بول اسی کے منہ پر مار کر الگ ہو جائیں گے اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پاک سے لپٹ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کا دامن نہ چھڑائے دنیا نہ آخرت میں، آمین آمین بجاہ عندك يا ارم الراحمين
اور بفرض باطل یہ سب کچھ سہی پھر آخر تمہاری مسیحیت کیوں کر ثابت ہوئی ثبوت دو اور اپنے دعوے کی غیرت کی آن ہے تو صرف قرآن سے دو۔
وہ دیکھو قرآن کی بارگاہ سے محروم پھرتے ہوا اچھا وہاں نہ ملا حدیث سے دو وہ دیکھو حدیث کی درگارہ سے خائب و خاسر پلٹتے ہو خیر یہاں بھی ٹھکانا نہ لگا تو کسی صحابی ہی کا ارشاد ، کسی تابعی ہی کا اثر کسی امام ہی کا قول کچھ تو پیش کرو کہ احادیث متواترہ میں مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نزول عیسی کی بشارت دی ہے اس سے مراد کوئی ہندی پنجابی ہے جہاں جہاں ابن مریم ارشاد ہے وہاں کسی پنجابن کا بچہ مغل زادہ مراد ہے اور جب ایسے بدیہی البطلان دعوؤں کا کہیں سے ثبوت نہ دے سکے ہر طرف سے ناامید ہر طرح سے باطل تو عوام کو چھلنے اور پینترے بدلنے اور ترچھے نکلنے اور الٹے اچھلنے سے کیا حاصل حضرت مسیح مع جسم و روح یا صرف روح سے بعد انتقال گئے یا جیتے جاگتے تمہیں کیا نفع اور تم پر سے ذلت بے ثبوتی کیونکر دفع تمہارا مطلب ہر طرح مفقود تمہارا دعا ہر طرحمردود پھر اس بے معنی بحث کو چھیڑ کر کیا سنبھا لو گے اور عیسیٰ کی وفات سے مغل کو مرسل پنجا بن کو مریم نطفے کو کلمۂ اول کو اکرم بیاہی کو کنواری، ادخال کو دم کیوں کر بنا لو گے؟ بالجملہ و ہی دو حرف کہ مقدمہ ثالثہ و رابعہ میں گزرے ان تمام جہالات فاحشہ کے رد میں کافی ووانی ہیں۔ ولله الحمد
بفرض باطل یہ بھی سہی کہ نزول عیسی سے مراد کسی مماثل عیسیٰ کا ظہور ہے مگر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا ہی تو ارشاد نہ فرمایا کہ نزول عیسیٰ ہوگا بلکہ اس سے پہلے وقائع ارشاد ہوئے ہیں کہ جب یہ واقع ہو لیں گے اس کے بعد نزول ہو گا اس کے مقارن بہت احوال و اوصاف بتائے گئے ہیں کہ اس طور پر اتریں گے یہ کیفیت ہوگی اس کے لاحق بہت حوادث و کوائن فرمائے گئے کہ اُن کے زمانے میں یہ یہ ہوگا آخر ان سب کا صادق آنا تو ضرور ہے۔
ہاتھ میں روم و شمام و تمام بلاد اسلام باستثنائے حرمین شریفین سب مسلمانوں کے ہا سے نکل جانا سلطان اسلام کا شہادت پانا تمام زمین کا فتنہ وفساد سے بھر جانے کے باعث اولیائے عالم کا مکہ معظمہ کوہجرت کر جانا وہاں حضرت امام آخر الزمان کا طواف کعبہ کرتے ہوئے ظہور فرمانا اولیائے کرام و سائر اہل اسلام کا ان کے ہاتھ پر بیعت کرنا نصاری کا وابق یا اعماق ملک شام میں لام باندھنا۔
ان کی طرف مدینہ طیبہ سے لشکر اسلام کا نہضت فرمانا نصاری کا اپنے ہم قوم و مسلموں سے لڑائی مانگتا۔ مسلمانوں کا انھیں اپنی پناہ میں لینا لشکر مسلمین کا تین حصے ہو انیا کا ہر فتح عظیم پانا فتح یاب حصے کا قسطنطنیہ کو نصاری سے چھینا ملحمہ کبری کا واقع وں کا تین روز اپنے خیموں سے قسم کھا کر نکلنا کہ فتح کرلیں گے یا شہید ہو جائیں گے اور شام تک سب کا شہید ہو جانا آخر میں نصرت الہی کا نزول فرمانا مسلمانوں کا فتح اجمل و اعظم پانا اتنے کافروں کا کھیت ہونا کہ پرندہ اگر ان کی لاشوں کے ایک کنارے سے اڑے تو دوسرے کنارے تک پہنچنے سے پہلے مرکز گر جائے مسلمانوں کا اموال غنیمت تقسیم کرتے میں ابلیس لعین کی زبان سے خروج دجال کی غلط خبر سن کر پلٹنا وہاں اس کا نشان نہ پانا پھر اس خبیث اعاذنا اللہ منہ کا ظہور کرنا بے شمار عجائب دکھانا مینہ برسانا کھیتی اُگا نازمین کو حکم دے کر خزانے نکلوانا خزانوں کا اس کے پیچھے ہو لینا سب سے پہلے ستر ہزار یہود طیلسان پوش کا اس کا فر پر ایمان لانا اس کا لشکر بنا دجال کا ایک جوان مسلمان کو تلوار سے دو ٹکڑے کر کے پھر زندہ کرنا اس کا اس پر فرمانا کہ اب مجھے اور بھی یقین ہو گیا کہ تو وہی کا نا کذاب ملعون ہے جس کے خروج کی ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی اگر کچھ کر سکتا ہے تو اب تو مجھے کچھ ضرر پہنچا پھر اس کا ان پر قدرت نپانا غائب و خاسر ہو کر رہ جانا چالیس روز میں اس ملعون کا حرمین طیبین کے سوا تمام جہان میں گشت لگانا اہل عرب کا سمٹ کر ملک شام میں جمع ہونا اس خبیث کا انہیں محاصرہ کرنا بائیں ہزار مرد جنگی اور ایک لاکھ عورتوں کا محصور ہونا، کیا تمہارے نکلنے سے پیشتر یہ سب وقائع واقع ہو لیے واللہ کہ صریح جھوٹے ہواب چلئے۔
ناگاہ اسی حالت میں قلعہ بند مسلمانوں کو آواز آنا کہ گھبراؤ نہیں فریا درس آپہنچا عیسی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا باب دمشق کے پاس دمشق الشام کے مشرقی جانب منارہ سپید کے نزدیک دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھ کے آسمان سے نزول فرمانا بے نہائے بالوں سے پانی ٹپکنا جب سر جھکا ئیں یا اٹھا ئیں موئے مبارک سے موتیوں کا جھڑنا یہاں تکبیر ہو چکی نماز قائم ہے۔ حضرت امام مہدی کا بامر عیسوی امامت فرمانا حضرت کا ان کے پیچھے نماز پڑھنا سلام پھیر کر دروازہ کھلوانا ، اس طرف ستر ہزار یہود مسلح کے ساتھ اس مسیح کذاب یک چشم کا ہونا مسیح صدیق صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی اس کا بدن گھلنا، بھا گنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اس کے تعاقب میں جانا ” باب لد کے پاس اسے قتل فرمانا، اس کا خون نا پاک اپنے نیزہ پاک پر دکھانا کیا تم پر یہ صفات صادق ہیں کیا تم سے یہ وقائع واقع ہوئے ؟ لا واللہ صریح جھوٹے ہو۔
سید نا موعود مسیح محمود صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علیہ کا صلیبیں توڑنا ، خنزیر کو قتل فرمانا ، جزیہ اٹھا دینا ، کافر سے اما الاسلام و اما السیف پر عمل فرمانا یعنی اسلام لاور نہ تلوار تمام کفار روئے زمین کا مسلمان یا مقتول ہونا یہود کو گن گن کر قتل فرمانا، پیڑوں پتھروں کا مسلمانوں سے کہنا اے مسلمان آیہ میرے پیچھے یہودی ہے سوا دین اسلام کے تمام مذاہب کا یکسر نیست و نابود ہو جانا روحا کے راستے سے حج یا عمرے کو جانا ، مزار اقدس سید اطہر صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہو کر سلام کرنا ، قبر انور سے جواب آنا اور ان کے زمانے میں ہر طرح کا امین چین ہونا ، لالچ، حسد، بغض کا دنیا سے اٹھ جانا ، شیر کے پہلو میں گائے کا چرنا ، بھیڑیے کی بغل میں بکری کا بیٹھنا، سانپ کو ہاتھوں میں لے کر بچوں کا کھیلنا کسی کا کسی کو ضررنہ پہنچانا آسمان کا اپنی برکتیں انڈیل دینا، زمین کا اپنی برکات اُگل دینا، پتھر کی چٹان پر دانہ بکھیر دو تو کھیتی ہو جانا ، اتنے اتنے بڑے اناروں کا پیدا ہونا چھلکے کے سایہ میں ایک جماعت کا آجانا ، ایک بکری کے دودھ سے ایک قوم کا پیٹ بھرنا ، روئے زمین پر کسی کا محتاج نہ ہونا، دینے والا اشرفیوں کے توڑے لیے پھرے کوئی قبول نہ کرے وغیرہ وغیرہ۔
کیا یہ تمہارے اس زمانہ پر شوروشین کے حالات ہیں کلا واللہ صریح جھوٹے ہو اسی طرح اور وقائع کثیرہ مثلاً یا جوج و ماجوج کا عہد عیسوی میں نکلنا دجلہ و فرات وغیر ہما دریا کے دریا پی کر بالکل سکھا دینا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بحکم الہی مسلمانوں کو کوہ طور کے پاس محفوظ جگہ رکھنا یا جوج و ماجوج کا دنیا خالی دیکھ کر آسمان پر تیر پھینکنا کہ زمین تو ہم نے خالی کر لی اب آسمان والوں کو ماریں اللہ تعالیٰ کا ان خبیثوں کے استدراج کے لیے تیروں کو آسمان سے خون آلودہ واپس فرمانا ان کا دیکھ کر خوش ہونا کودنا پھر عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے ان اشقیا پر بلائے نغف کا آنا سب کا یا پر بلائے نغف کا آنا سب کا ایک رات میں ہلاک ہو کر کر رہ جانا روئے زمین کا ان کی عفونت سے خراب ہونا ، دعائے عیسوی سے ایک سخت آندھی کا آکر ان کی لاشیں اڑا کر سمندر میں پھینک دینا عیسی و مسلمین کا کوہ طور سے نکلنا شہروں میں از سر نو آباد ہونا چالیس سال زمین میں امامت دین و حکومت عدل آئین فرما کروفات پانا ، حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک میں دفن ہونا ، (1) جب تم اپنی عمر جو لکھا کر آئے ہو پوری کر لو تو ان شاء اللہ العظیم سب مسلمان علانیہ دیکھ لیں گے کہ حضرت عزائیل علیہ السلام نے تمہیں تو گلا دبا کر تمہارے مقر اصلی کو پہنچایا اور ان باقی واقعوں سے بھی کوئی تم پر صادق نہ آیا پھر تم کیوں کر مماثل عیسی ومراد احادیث ہو سکتے ہو اگر کہیے ہم حدیثوں کو نہیں مانتے۔ جی یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ آپ منکر کلام رسول اللہ ہیں صلی اللہ علیہ وسلم مگر یہ تو فرمائیے کہ پھر آپ مسیح موعود کس بنا پر بنتے ہیں؟ کیا قرآن عظیم میں کوئی آیت صریح قطعی الدلالہ موجود ہے کہ عیسیٰ کا نزول موعود ہے؟ تو بتاؤ اور تو آخر یہ موعود موعود کہاں سے گارہے ہو؟ انہیں حدیثوں سے جب حدیثیں نہ مانو نہیں تو گے موعودی کا پھند نا کس گھر سے لاؤ گے؟۔
مگر بحمد اللہ :
ع شرم بادت از خدا و از رسول
کبھی ایسی زٹلیات پر کان نہ رکھیں گے کیا ممکن ہے کہ معاذ اللہ، معاذ اللہ وہ ارشادات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا جائیں اور ان کے منکر مخالف کو سچا۔
حاش اللہ اور پھر مخالف بھی وہ جو خود انہیں ارشادات کے سہارے اپنے خیالی پلاؤ پکاتا ہو تمہارے موعود بنے کو تو حدیثیں کچی مگر تطبیق اوصاف وقائع کے وقت جھوٹی
افَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتَبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَةِ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ 145
تو کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ کیا ہے مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہو اور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اور اللہ تمہارے کو تکوں کرتوتوں) سے بے خبر نہیں ،وقيل بعد اللقوم الظلمين . والحمد لله رب العلمين
اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ اور اللہ ہی کے لیے حمد ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
اب نہ رہا مگر سائل کا حضرت امام مہدی واعور دجال کی نسبت سوال بتوفیق اللہ تعالیٰ اس کے جواب لیجئے ۔
حضرت امام مہدی اور دجال کا ہونا قرآن شریف میں ہے یا نہیں
ہے اور بہت تفصیل سے
ہے تو اس کی آیت
ایک نہیں متعدد، دیکھو سورہ والنجم شریف آیت تیسری اور چوتھی ، سورۃ فتحشریف آخر آیت کا صدر ، سورة قلب القرآن مبارک کی پہلی چار آیتیں۔
وغير ذلك مواقع كثيره
دیکھو مقدمہ اولی۔
قادیانی کا نکلنا اس کا عیسی موعود ہونا قرآن شریف میں ہے یا نہیں اگر ہے تو اس کی آیت اور نہیں تو وجہ ۔
(216)كَذلِكَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ 146ترجمہ: کنز الایمان ]
مارا یسی ہوتی ہے اور بے شک آخرت کی مار سب سے بڑی کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے ،
الحمد لله کہ یہ مختصر جواب ۲۲ رمضان المبارک روز جان افروز دو شنبه ۱۳۱۵ھ کو حلہ پوش اختتام اور تاریخ الصارم الربانی علی اسراف القادیانی نام ہوا۔
وصلى الله تعالى على سيدنا ومولانا محمد واله و صحبه اجمعين وآخر دعوانا ان الحمد الله رب العلمين والله سبحنه وتعالى اعلم وعلمه جل مجده اتم واحكم كتبه محمد المعروف بحامد رضا البريلوى عفى عنه بمحمد المصطفى النبي الأمي صلى الله تعالى عليه وسلم