logoختم نبوت

عقیدہ ختم نبوت اور ہماری ذمہ داریاں ۔۔۔از۔۔۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل

انسان دو چیزوں سے عبارت ہے جنہیں جسم اور روح کا نام دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی کے قائم ہونے اور باقی رہنے کے لئے یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ چنانچہ جسم اپنی روح کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح روح کو بھی اپنے وجود کے لئے کسی جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے خالق کائنات نے انسانی جسم کی نشو و نما اور بقا کے لئے اپنی کائنات میں بیشمار اشیاء، غذائیں، مواد اور قوتیں پیدا کی ہیں جن سے استفادہ کر کے انسانی جسم اپنی زندگی قائم اور افادیت جاری رکھتا ہے۔ اس کائنات میں ان گنت اشیاء اور مواد بآسانی میسر ہیں جن کے استعمال سے انسانی جسم اپنے لئے قوت اور تقویت حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہ مادی اشیاء کرۂ ارض کے ہر حصے پر اس وقت تک میسر رہیں گی، جب تک آخری انسان اس کا ئنات میں موجود رہے گا۔

خالق کائنات نے جس طرح انسانی جسم کے لئے مادی وسائل فراہم کئے ہیں، اسی طرح اس نے انسانی روح کی بقاء اور نشوونما کے لئے روحانی وسائل بھی عطا کئے ہیں۔ ایسے وسائل میں انبیاء ورسل کی بعثت ، الہامی کتب کا نزول، فرشتوں کا انسانوں سے ہمکلام ہونا، انسانی ضمیر کی رہنمائی، غیبی قوتوں کی مدد اور انسان ذہن و قلب کو غیبی نصرت حاصل ہونا ایسے رُوحانی عوامل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ودیعت کئے اور یہ تمام عوامل و عناصر انسان کو سد احاصل رہیں گے اور ان کی ہدایات اور رہنمائی میں وہ ہمیشہ اپنی روحانی منازل طے کر تا رہے گا۔

ان روحانی عوامل میں نبوت ورسالت کو انتہائی اعلیٰ اور اہم مقام حاصل ہے کیونکہ نبوت ورسالت نے انسانی روحانی بالیدگی اور نشو و نما میں سب سے ارفع اور نمایاں کردار ادا کیا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نبوت ورسالت ہی خالق کائنات اور اشرف المخلوقات ”انسان“ کے مابین وہ واحد اور یکتا ذریعہ ہے جو ایک طرف اپنے خالق سے براہ راست احکام، ہدایات اور رہنمائی حاصل کرتا اور دوسری جانب یہ انبیاء ورسل ہی ہیں جو یہ ایزدی احکام انسانوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ اگر چہ انسانی رہنمائی کے اور بھی متعدد ذرائع موجود ہیں اور ان کی افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے لیکن نبوت ورسالت کی فوقیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف ان برگزیدہ ہستیوں کا انتخاب (عہ 1) خود فرماتا رہا ہے بلکہ وہ ان بلند پایہ شخصیات کو احکام، اوامر و نواہی اور ہدایات بھی خود ہی عطا کر تا رہا ہے ۔ نیز اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ یہ افراد نہ صرف ہر طرح کی انسانی کمزوریوں سے بالا تر ہوتے ہیں بلکہ اپنے کردار و عمل کے ذریعے سے وہ انسانوں کے لئے نمونہ عمل اور اُسوۂ حسنہ (عہ 2)بھی قرار پاتے ہیں۔

حاشیہ

(عہ 1)قرآن حکیم نے اس امر کی شہادت ان الفاظ میں دی ہےاللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ1کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ کس طرح رسالت عطا کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ کی رُو سے نبوت اور رسالت عطیہ ایزدی ہیں۔ کوئی بھی انسان نہ بذات خود اس اعلیٰ منصب پر فائز ہو سکتا ہے اور نہ ہی تمام انسان اکٹھے ہو کر کسی فرد کو منصب نبوت ورسالت پر فائز کر سکتے ہیں۔

(عہ 2)قرآن حکیم کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہ انبیاء ورسل ہی ہیں جو پیکر علم و عمل ہونے کی بدولت انسانوں کے لئے نمونہ عمل ( ROLE MODEL) اور اسوہ حسنہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے” قد كانت لَكُمْ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ "2 یقینا تمہارے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں میں کامل نمونہ ہے۔ اسی طرح قرآن حکیم نے ہمیں بتایا کہ " لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ "1 بیشک تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول کی ذات میں کامل نمونہ ہے۔

حاشیہ ختم شد
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف انسانی ہدایت اور رہنمائی کے لئے بہت سے انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے بلکہ انسانوں میں یہ عقیدہ بھی مضبوطی سے قائم ہے کہ انسانیت کا پہلا فرد حضرت آدم علیہ السلام نہ صرف انسانیت کا جد اعلیٰ ہے بلکہ وہی پہلے نبی بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کا مخاطب اول(عہ 1)ہونے کا یکتا مرتبہ بھی حاصل ہے۔ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہی ہیں کہ سب انسان جن کی اولاد ہیں۔ وہ نہ صرف انسانیت کے جد اعلیٰ ہیں بلکہ مسلمانوں کے عقیدے کی رو سے وہ پہلے نبی بھی ہیں اور معتبر روایات کے مطابق وہ پہلے انسان ہیں جن سے خالق کائنات نے براہِ راست خطاب فرمایا اور بعد میں یہ شرف و سعادت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فراہ امی وابی خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی علیہ نیم کو بھی حاصل ہوئی جن سے اللہ تعالیٰ شب معراج میں براہ راست مخاطب ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش، نبوت ، خطاب اور انسانوں کا جد امجد ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جو نہ صرف انسانی تخلیق کی خشت اول ہے ، کہ ان کی پشت سے اربوں انسانوں نے جنم لیا بلکہ ان کی تخلیق انسانی رشد و ہدایت کا ایک ایسا نکتہ آغاز بھی تھا جس کی کوکھ سے قریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں اور تین سو تیرہ رسولوں نے جنم لیا اور انسانوں کو ہدایت ورہنمائی فراہم کی اور یہ سلسلہ نبوت ور سالت صدیوں جاری رہا اور یکے بعد دیگرے انبیاء ورسل مبعوث ہوتے رہے۔
حاشیہ

(عہ 1)قرآن حکیم نے حضرت آدم علیہ السلام کو سورۃ البقرہ، آیت نمبر ۳۵ اور سورۃ الاعراف، آیت نمبر 19 میں ان الفاظ میں مخاطب کیا " وَقُلْنَا يَادَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ “3اے آدم تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں قیام کرو۔ غالباً انسانی نسل کو اللہ تعالیٰ کا براہ راست یہ پہلا خطاب ہے۔

حاشیہ ختم شد

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنا پیغام پہنچانے اور انہیں اپنے احکام اور اوامر و نواہی عطا کرنے کے لئے نہ صرف نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ نسل انسانی کی ہر قوم کو اپنا اپنا نبی بھی عطا کیا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ 4
اور ہر قوم کی طرف ایک رہنما (نبی) بھیجا گیا۔

نیز یہ بھی ارشاد الہی ہے :

وَإِن مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ 5
اور ایسی کوئی امت نہیں جس میں ڈرانے والا نہ آیا ہو۔

یہ دونوں آیات مبارکہ اس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالی نے اس کائنات کی تمام اقوام و ملک کی طرف اپنے انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے تا کہ انہیں درسِ ہدایت و عبرت حاصل ہو اور اُن کے پاس گمراہی اپنانے کی کوئی دلیل باقی نہ رہے جیسا کہ جہنم رسید ہونے والے انسانوں سے اتمام حجت کے بعد ہی انہیں جہنم میں داخل کیا گیا تھا۔(عہ 1)

حاشیہ

(عہ 1) قرآن مجید نے یہ تصور کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ گنہگار افراد کو جہنم رسید کرتے وقت اتمام حجت کے لئے ان سے خوشخبری دینے اور ڈرانے والوں کی آمد اور تبلیغ کے بارے میں پوچھا جائے گا، تو وہ اس امر کا اعتراف کریں گے ، کہ ہاں ہمارے پاس اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے انبیاء اور رسل آئے تھے۔ ہمیں انہوں نے دین کی تعلیم بھی دی تھی، مگر ہم نے ان کی باتوں پر عمل نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ اس مکالمہ سے ظاہر ہوتا ہے جو جہنم رسید ہونے والے افراد اور دوزخ کے داروغہ کے مابین قرآن مجید میں یوں نقل کیا گیا ہے :وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ لٰـكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ6

اور کافر جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے گروہ در گروہ۔ یہاں تک کہ جب وہ پہنچیں گے، تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے ، کہ کیا تم میں وہ رسول نہیں آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کے ملنے سے ڈراتے تھے۔ وہ کہیں گے کہ کیوں نہیں آئے لیکن کافروں پر عذاب کا قول بر حق ہے۔ یہ معاملہ انبیاء ورسل کی بعثت کا اقرار ہے۔

حاشیہ ختم شد

خالق کائنات نے صرف ایک بار ہی اپنے انبیاء اور رسل مبعوث نہیں فرمائے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تسلسل کے ساتھ اپنے انبیاء اور رسول انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اس کرہ ارض پر بھیجے۔

جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ 7
اللہ تعالیٰ نے خوش خبری دینے اور ڈرانے والے نبیوں کو بھیجا اور ان کے لئے اپنی کتاب اُتاری، تاکہ وہ لوگوں کی ان باتوں کا فیصلہ کریں جن میں وہ باہم اختلاف کرتے ہیں۔

جن انبیاء کرام کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے وہ سب بیک وقت یا ایک ہی قوم ، گروہ یا اُمت کی طرف مبعوث نہیں کئے گئے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ انسانی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اپنے برگزیدہ پیغمبروں اور رسولوں کو تسلسل کے ساتھ اس دنیا میں بھیجتا رہا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :

وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ 8
اور ان کے بعد ہم نے اپنے رسول بھیجے۔

مزید بر آں اس بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

ثُمَّ أَرْ سَلْنَا رُسُلَنَا تترا 9
پھر ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے۔

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت جاریہ رہی ہے، کہ وہ متواتر اپنے پیغمبر مبعوث کر تا رہا اور یہ پیغامبر اپنی اپنی مختلف اقوام کی طرف بھیجے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وقت میں کئی کئی پیغامبر اس کرہ ارض پر موجود ہوتے تھے ، جیسے حضرت یعقوب اور حضرت یوسف، حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل ، نیز حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام اپنے اپنے عہد میں بیک وقت اس کائنات میں موجود رہے اور ہم عصر بھی قرار پائے ۔ ان برگزیدہ ہستیوں کی اس کائنات میں آمد کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا ، جب اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ جزیرۃ العرب میں مبعوث ہوئے ۔ آپ رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیین ہیں۔

خالق کا ئنات نے جس طرح اپنے پیغامبر بڑی تعداد میں مبعوث فرمائے ، اسی طرح اس نے انسانی رہنمائی اور ہدایت کے لئے کتب اور صحیفے بھی نازل فرمائے جو نہ صرف اللہ تعالیٰ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے ہیں، بلکہ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغامبروں کو بھی ہم دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں جنہیں ہم نبی اور رسول کے منفر د ناموں سے جانتے ہیں۔ ان دونوں میں عمومی امتیاز یہ ہے کہ اگر چہ تمام رسول بیک وقت نبی بھی ہوتے ہیں ، تاہم رسولوں کو یہ خصوصیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ صاحب کتاب یا صاحب صحف ہوتے ہیں اور انہیں نئی شریعت بھی عطا کی جاتی ہے چنانچہ دینی ادب کی معتبر روایات کی رُو سے اس کائنات میں مبعوث ہونے والے رسولوں کی تعداد ۳۱۳ تک پہنچتی ہے۔

نبی اور رسول اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہوتے ہیں، ان سب کی صداقت اور حقانیت پر ایمان لانے کے تمام مسلمان پابند ہیں (عہ 1) ان میں سے کسی بھی نبی یار سول کی نبوت ورسالت کا انکار کرنے والا انسان مسلمان نہیں ہو تا کیونکہ تمام انبیاء ور سل اپنے اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کا پیغام لاتے رہے اور ہر مسلمان اس الہامی پیغام کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا پابند ہے۔ جبکہ دوسری جانب انبیاء ورسل اپنے اپنے وقت میں خالق کا ئنات کا شفا بخش پیغام انسانوں کو پہنچانتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کا انسانوں کے لئے پیغام مکمل نہیں ہوا، اس وقت تک یہ سلسلہ نبوت و رسالت بھی جاری رہا اور انبیاء ورسل مبعوث ہوتے رہے۔ یوں ہی اللہ تعالی نے اپنے سرمدی پیغام کی تکمیل کا اعلان فرمایا، تو اس کے ساتھ ہی یہ سلسلہ بھی مکمل ہوا۔ نیز نبوت و رسالت کا دروازہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔

حاشیہ

(عہ 1) سورۃ البقرہ، آیت نمبر ۲۳۹ کی طرف اشارہ ہے۔

حاشیہ ختم شد

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا 10
آج میں نے آپ کے لئے آپ کا دین مکمل کر دیا اور میں نے آپ پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔

اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ پروردگار جو احکام اور اوامر نواہی انسانوں کو پہچانا چاہتا تھا ، ان کی زندگیوں کو جس اسلوب میں ڈھالنا چاہتا تھا، انہیں زندگی گزارنے کا جو کامیاب نسخہ کیمیا عطا کرنا چاہتا ہے وہ سب کچھ انسانوں کو نہ صرف فکری اور نظری طور پر وصول ہو گیا ہے ، بلکہ ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا عملی نمونہ ( Practicle Role Model) بھی انسانوں کو نبیوں کی صورت میں موصول ہو چکا ہے۔ اس لئے اب نہ کسی نئے رسول کی ضرورت ہے اور نہ انسانوں کو کسی اور نبی کی حاجت ہے۔ کیونکہ خالق کا مکمل پیغام مخلوق کو حاصل ہوا اور اس پر عمل پیرا ہونے کا نمونہ بھی میسر ہوا۔

ایمان مفصل (عہ 1) کلمہ طیبہ(عہ 2)اور کلمہ شہادہ (عہ 3) کی رو سے ہر انسان اس امر کا پابند رہا ہے کہ وہ توحید ربانی کے ساتھ ساتھ عقیدہ رسالت پر بھی ایمان رکھے ۔

حاشیہ

(عہ 1) احادیث نبوی کی کتب میں ایمان مفصل کے یہ الفاظ ملتے ہیں : امنت بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر خيره وشره من الله تعالى والبعث بعد الموت میں ایمان لا یا اللہ تعالی پر ، اس کے فرشتوں پر، اس کی نازل کردہ کتب پر ، اس کے رسولوں پر ، آخرت کے دن پر ، اس پر کہ خیر وشر اللہ ہی کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے پر۔

(عہ 2)کلمہ توحید "لا اله الا الله محمد رسول اللہ مسلمانوں میں کلمہ طیبہ کے نام سے بھی معروف ہے یہی کلمہ مبارکہ زبان سے ادا کرنے ، دل سے اس کی تصدیق کرنے اور اس کے مطابق احکام پر عمل کرنے سے انسان سچاوار پکا مسلمان ہوتا ہے۔

(عہ 3)مسلمان جن چھ کلموں کا التزام کرتے ہیں۔ ان میں دوسرا کلمہ شہادت ہے اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبدہ ورسولہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔

حاشیہ ختم شد

سابقہ انبیاء ورسل کے پیروکار اپنے اپنے نبی اور رسول پر ایمان لانے کے پابند تھے جبکہ امت محمدیہ کے افراد تمام انبیاء ورسل پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ نیز دیگر امتوں کے برعکس امت محمد یہ اس امر کی بھی پابند ہے کہ وہ سب نبیوں اور رسولوں کو اللہ تعالی کے فرستادہ مانے وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت پر اس طرح پختہ عقیدہ اور یقین رکھے کہ آپ صلی اللہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کے بعد کوئی اور ظلی یا بروزی نبی اور رسول اس کائنات میں پیدا نہیں ہو گا کیونکہ آپ کی بعثت تمام انسانوں کی طرف ہوئی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے "

قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا 11
کہہ دیجئے اے انسانو! میں آپ سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔

اسی لئے جب تک آخری انسان اس کرہ ارض پر موجود رہے گا، آپ اس کے رسول ہیں اور ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے اب کوئی نیا نبی یار سول پیدا نہیں ہو گا اور نہ ہی مبعوث ہو گا۔

مسلمان جب کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں ، تو وہ بیک وقت توحید ورسالت دونوں کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور وہ ہمیشہ رہے گا، نہ اس کی کوئی ابتداء ہے نہ انتہا کیونکہ اس کلمہ طیبہ میں کوئی فعل (Verb) نہیں ہے جو حادث ہو اور زمانہ کی قید سے مقید ہو ۔ اسی طرح مسلمان جب محمد رسول اللہ ﷺ “ کہتے ہیں تو وہ یہ اقرار کرتے ہیں کہ محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اس کا منشاء یہ ہے کہ نہ ان کی رسالت منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی اور نبی یا رسول اب تک مبعوث ہوا ہے یا آئندہ ہو گا۔ اس لئے آپ کی نبوت ورسالت دائمی ہے خو ختم نبوت“ کی دلیل ہے۔ لہذا اس جملہ اسمیہ کا منشاء یہ بھی ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی الم رہبر انس و جاں کی نبوت ورسالت حادث نہیں بلکہ ابدی اور دائمی ہے اور اس کائنات کے ختم ہونے تک جاری اور قائم رہے گی۔ اس لئے مسلمانوں کا یہ غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کے اندر ختم نبوت کا عقیدہ مضمر ہے ۔ لہذا نہ آپ کی نبوت و رسالت ختم ہو گی نہ آپ کی شریعت منسوخ ہو گی اور نہ ہی قرآن مجید کے بعد کوئی اور الہامی کتاب نازل ہو گی۔ اس لئے آپ ہی خاتم النبیین ہیں اور آپ کی ہی نبوت و رسالت دائمی اور ابدی قائم رہنے والی ہے۔ ان فکری اور درایتی دلائل کے ساتھ ساتھ دینی ادب بھی ایسے شواہد و دلائل سے مالا مال ہے، جو اس امر کی ناقابلِ تردید شہادت دیتے ہیں ، کہ حضرت محمد رسول الله علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ ان کی نبوت و رسالت ہمیشہ قائم رہنے والی صفات رکھتی ہے ۔ اس لئے اب اس کائنات میں کوئی اور نبی یار سول پیدا نہیں ہو گا، بلکہ آپ ہی کا عطا کردہ نظام حیات قیامت تک نافذ العمل رہے گا۔

ان عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ بہت سے نقلی شواہد بھی موجود ہیں جو نہ صرف اس امر کی تائید کرتے ہیں، بلکہ وہ ختم نبوت کے موضوع پر شاہد عادل بھی ہیں۔ ان شواہد و براہین کو بیان کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہم اس دینی عقیدہ کی وضاحت کریں کہ ختم نبوت کیا ہے ؟ اور اس کے انسانی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

1۔ نبوت ورسالت ایک لازمی حقیقت ہے ، کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ہدایت ورہنمائی نیز اسے درس توحید دینے کے لئے بہت سے انبیاء کرام مبعوث فرمائے ۔ ان میں ۳۱۳ رسول بھی تھے جنہیں نئی شریعتیں اور الہامی کتب وصحف عطا کئے گئے ۔ لہذا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان تمام نبیوں اور رسولوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے برگزیدہ نبی اور رسول تسلیم کرے۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ تسلیم کرے۔ نیز ان کی حقیقی تعداد معلوم کئے بغیر ان کی تعلیمات کو اپنے اپنے وقت میں بر حق مانے اور ان کی ہر گز تکذیب نہ کرے۔

2۔ مسلمانوں کے عقیدے کی رو سے حضرت آدم علیہ السلام نہ صرف انسانیت کے جد اعلیٰ ہیں اور انہیں سے انسانی نسل کا آغاز ہوا، بلکہ وہ پہلے نبی بھی تھے جن سے اللہ تعالی نے براہ راست خطاب کیا اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یا آدم (یعنی وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ12 اے آدم اور آپ کی بیوی دونوں جنت میں قیام کر۔) کہہ کر ان سے خطاب کیا گیا۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک انبیاء اور رُسل انسانی رہنمائی کے لئے اس کائنات میں آتے رہے۔ یہ بات بھی عقیدہ مسلم کا حصہ ہے کہ اس کا ئنات میں ایک وقت میں ایک رسول مبعوث ہوتا تھا جبکہ بیک وقت کئی کئی نبی اس کا ئنات میں موجود رہے ہیں۔ وہ اپنے عہد کی کتاب اور شریعت کی تعلیمات اپنی اپنی قوم تک پہنچاتے رہے ہیں۔

3۔ نبوت ورسالت کے جس سلسلہ کا آغاز بالترتیب حضرت آدم اور حضرت نوح علیہما السلام سے ہوا تھا وہ سلسلہ نبوت ورسالت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک پہنچ کر تکمیل پذیر ہوا۔ جس کا مقصد و منشاء یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد اس کا ئنات میں کوئی نیا نبی یا نیا رسول مبعوث نہیں ہو گا ، نہ ہی کسی بھی انسان کا دعویٰ نبوت حقیقی ہو گا، بلکہ ایسے تمام افراد جھوٹے اور کذاب مدعیان نبوت ہوتے ہیں، چاہے وہ ظلی، بروزی یا کسی اور نوعیت کی نبوت کے دعویدار ہوں ، وہ سب جھوٹے شمار ہوں گے۔ نہ صرف ان کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی بلکہ وہ سب اسلامی تعلیمات کی رو سے مرتد قرار پا کر واجب القتل ہوں گے اور ایسے افراد کو ماننے والے اور ان کے پیروکار بھی دائرہ اسلام سے خارج اور غیر مسلم شمار ہوں گے۔

4۔عقیدہ ختم نبوت در حقیقت عقیده رسالت کالازمی حصہ ہے۔ اس لئے جو مسلمان عقیدہ توحید کے ساتھ ساتھ عقیدۂ رسالت پر یقین رکھتا ہے ، اس پر لازم ہے کہ وہ ختم نبوت پر غیر متزلزل یقین رکھے ، کہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول الله صلی علیم ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ کو اس فانی دنیا سے وصال کر کے اپنے مالک حقیقی اور رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ ان کے بعد اس کا ئنات میں نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہو گا اور نہ ہی کوئی رسول۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے عقیدہ کی رُو سے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہو کر آسمانوں سے اُتریں گے ، تو وہ بھی امت محمدیہ کے رُکن ہوں گے اور وہ دوبارہ نبی یار سول کی حیثیت سے اس کا ئنات میں نہیں آئیں گے۔

5۔ یہ امر بھی عقیدہ ختم نبوت کا لازمی حصہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کتب اور صحف اپنی شریعتوں کے نفاذ اور انسانی رہنمائی کے لئے نازل فرمائیں ان میں قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہے۔ قرآن مجید کے بعد کوئی صحیفہ آسمانی یا کتاب ربانی نازل نہیں ہوگی کیونکہ الہامی کتاب یا صحیفہ کسی رسول پر نازل ہو تا رہا ہے اب چونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نیا ر سول مبعوث نہیں ہو گا اس لئے نہ ہی قرآن مجید کے بعد کوئی نئی کتاب یا صحیفہ نازل ہو گا، بلکہ قرآن مجید آخری الہامی کتاب کی حیثیت سے سدا زندہ اور نافذ العمل رہے گا۔

6۔ اسلامی تعلیمات کی اساس (Foundation) قرآن مجید اور سنت نبوی پر تعمیر ہوتی ہے۔ قرآن مجید کا نزول آخری رسول پر ہوا اور آپ کے وصال کے ساتھ ہی سنت نبوی بھی تکمیل پذیر ہوئی ۔ آپ کے اس دنیا سے وصال کے بعد اسلام کے بنیادی مصادر میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ اس لئے قرآن مجید اور سنت نبوی کی تعلیمات اور ہدایات نہ صرف ابدی اور آخری ہیں، کہ ان میں کوئی کمی و بیشی یا تبدیلی نہیں ہو سکتی بلکہ یہی تعلیمات حتمی ، لازمی ، ابدی اور یقینی ہیں جن پر ایمان لانا اور جن پر عمل پیرا ہونا تمام مسلمانوں پر لازم ہے۔ چنانچہ ان تعلیمات کا جاننا اور ان پر عمل کرنا ہی مسلمانوں کے لئے ختم نبوت “ کے عقیدے کی تکمیل کی ضمانت ہے ۔ جو افراد مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں ، لیکن وہ قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے ، وہ اپنے عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں نئے سرے سے غورکریں کیونکہ عقیدہ ختم نبوت“ اپنے نبی ورسول کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا متقاضی ہے۔

7۔ اس امر کی وضاحت کرنا بھی مناسب ہو گا کہ توحید ورسالت پر ایمان لا کر ہی کوئی انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی انسان عقیدہ توحید پر یقین رکھتا ہو لیکن وہ عقیدہ رسالت سے انکار کرتا ہے ، تو وہ موحد تو ہو سکتا ہے لیکن وہ مسلمان قرار نہیں پائے گا۔ اسی طرح عقیدہ ختم نبوت“ یقیناً عقیدۂ رسالت کا جز و لا ینفک ( Integral Part) ہے۔ اس لئے جو انسان عقیدہ رسالت کا تو دعویدار ہے لیکن وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا تو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت سے انکار کرنے والا ہر فرد نہ صرف دائرہ اسلام سے خارج شمار ہوتا ہے، بلکہ ایسے افراد مسلم ریاستوں اور معاشروں میں بھی غیر مسلم اقلیت قرار پاتے ہیں جن کے اپنے حقوق اور اپنے فرائض ہوتے ہیں جو مسلمانوں سے جدا گانہ ہوتے ہیں۔

8۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ کسی نئی چیز ، قانون ، لائحہ عمل ، ضابطہ حیات یا عرف و عادت میں تبدیلی کی ضرورت اس وقت در پیش ہوتی ہے جب پہلی میسر سہولت سے انسانی ضرورتیں پوری نہیں ہوتی ہیں، انسانی زندگی کا پہیہ نہ چلتا ہو اور انسان اپنے مقاصد کی تکمیل نہ کر سکتا ہو ۔ ظاہر ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زمانی اور مکانی حالات و ضروریات سے بالا تر ہے اور وہ ہر عہد اور ہر جگہ کے انسان کی دینی ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، سماجی ، قانونی اور اخلاقی ضروریات کا کفیل ہے ۔ نہ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور نہ ہی تنسیخ و ترمیم درکار ہے ۔ کیونکہ اسلام جس طرح عہد رسالت میں فعال، قابلِ عمل، نافذ اور لا گو تھا، وہی اسلام آج بھی اپنے جاہ و جلال کے ساتھ نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے جو کمزوریاں اور مشکلات ظاہر کی جارہی ہیں، وہ اسلام کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی اپنی کمزوریاں اور نقائص معلوم ہوتے ہیں۔ اس لئے اسلام میں کسی قسم کی ترمیم و اضافہ کی ضرورت نہ آج ہے اور نہ ہی کل ہو گی۔ اس لئے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ عہد رسالت کے نظام کو ہی کما حقہ اپنایا جائے، اسی میں مسلمانوں کی کامیابی اور کامرانی کاراز پنہاں ہے۔ اسی لئے ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں میں سدا قائم رہے گا کیونکہ اسلام کے پوری طرح سے محفوظ اور قابلِ عمل ہونے کی بناء پر نہ کسی نئے نظام حیات کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی اور نبی یار سول کی حاجت ہے۔

9۔ اسلام ضابطہ حیات ہوتے ہوئے عقیدہ و عمل سے عبارت ہے ، کیونکہ نہ صرف عقیدہ و عمل کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، بلکہ عقیدہ عمل کے بغیر ادھورا اور عمل عقیدہ کے بغیر بے سود ہے ۔ اس لئے عقیدہ ختم نبوت“ اپنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جس صاحب لولاک صلی اللہ تم پر سلسلہ نبوت ورسالت تکمیل پذیر ہوا وہ نہ صرف مجسم پیکر عقیدہ و عمل تھے بلکہ ان کی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ اور ہر ہر حصہ انسانوں کے لئے خضر راہ اور مسلمانوں کے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے آخری پیغامبر خود پیکر عقیدہ و عمل تھے۔ انہوں نے انسانوں میں رہ کر زندگی بسر کی اور انہیں اپنا نمونہ عمل فراہم کیا۔ اس لئے وہ آج بھی کامل نمونہ ہیں اور خاتم الانبیاء ہونے کی حیثیت سے آج بھی پوری طرح لائق پیروی ہیں اور قابل تقلید ہیں کیونکہ ان کی اطاعت ہی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے۔( من يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله13 جس نے رسول کی پیروی کی اس نے در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔)

مندرجہ بالا سطور میں ہم نے حتی المقدر عقیدہ ختم نبوت“ کی حقیقت اور ماہیت بیان کرنے کی کوشش کی اور یہ حقیقت قوی دلائل سے واضح کی کہ عصر حاضر کے انسان کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے خصوصاً عقیدہ ختم نبوت“ کی ویسی ہی ضرورت ہے جیسی اس کی عہد رسالت میں حاجت تھی۔ نیز یہی عقیدہ مسلمانوں کے لئے مستقبل میں بھی مشعل راہ بنتا رہے گا۔ اس لئے ذیل کی سطور میں ہم عقیدہ ختم نبوت کے چند نقلی دلائل پیش کرتے ہیں :

قرآن مجید اسلامی تعلیمات کا پہلا اور مضبوط ترین مصد رو ماخذ ہے جو امر قرآن مجید میں بیان ہو ، وہ مسلمانوں کے لئے حرفِ آخر (Final Verdict) شمار ہوتا ہے ، اس پر من و عن عمل کیا جاتا ہے۔ اس امر پر نہ عمل کرنا کبھی معطل ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کمی بیشی یا ترمیم و اضافہ ہوتا ہے ۔

عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے قرآن مجید میں واضح رہنمائی موجود ہے ۔ یوں تو قرآن مجید کی متعدد آیات مبارکہ میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے۔ تاہم ہم اس جگہ قرآن مجید کی اس آیت کریمہ پر اعتماد کرتے ہیں جو اس عقیدہ کا بین ثبوت بھی ہے اور اس آیت کریمہ کی رُو سے مسلمانوں کا عہد رسالت سے لے کر آج تک اس امر پر اجماع (Consensus) بھی قائم ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا 14
تمہارے مردوں میں سے محمد (ﷺ) کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔

بعد اختتام پذیر اور مکمل ہوا۔ اس لئے ان کے بعد کوئی اور نبی یا رسول مبعوث نہیں ہو گا بلکہ حضرت محمد ﷺ اس قدر ارفع اور اعلیٰ ہستی ہیں کہ وہ خاتم الانبیاء والمرسلین ہونے کا تاج اپنے سر پر سجائے ہوئے ہیں جو نیر تاباں کی طرح سد اور خشاں رہے گا۔

اس آیت مبارکہ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات کے کئی پہلو اجاگر کئے گئے ہیں کہ :۔

(1) ان کا ذاتی اسم گرامی محمد ﷺ ہے جس کی معنوی خاصیت یہ ہے کہ وہ اس کائنات کی تمام مخلوقات سے عموماً اور انسانوں میں خصوصاً سب سے زیادہ تعریف کئے گئے ہیں اور انہیں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر بلند کیا ہے ۔ (سورۃ الم نشرح، آیت نمبر ۴ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ15 اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔ چنانچہ کلمہ طیبہ ، کلمہ شہادت اور اذان میں سدا آپ کا نام بلند ہو تا رہے گا۔)

(2) یہ وہی محمد ﷺ ہی ہیں، جن کی کوئی نرینہ اولاد (حیات) نہیں ہے جسے منصب نبوت منتقل ہو سکے ۔

(3) وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں کیونکہ ان پر نہ صرف قرآن مجید نازل ہوا بلکہ وہ نئی شریعت بھی لائے۔

(4) وہ خاتم الانبیاء ہیں کیونکہ آپ کی اس کائنات میں تشریف آوری کے بعد کوئی نیا رسول تو در کنار کوئی نیا نبی بھی مبعوث نہیں ہو گا جو رسول کے تابع ہوتا ہے۔ گویا اس آیت مبارکہ کے ذریعے سے نبوت ورسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا۔ نیز اس موضوع پر وقوع پذیر ہونے والے تمام امکانات اور خدشات کا بھی مکمل ازالہ کر دیا گیا ہے۔

قرآن حکیم کی تعبیر و تشریح کے لئے ہمیں سنت نبوی سے بھی خاطر خواہ مواد حاصل ہوتا ہے ۔ اس وسیع تر مواد میں سے چند جواہر پارے یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ سنت نبوی سے اس موضوع پر ہمیں جو مواد ملتا ہے وہ نہ صرف عقیدہ ختم نبوت کے متنوع پہلو اور مختلف زوایئے بیان کرتا ہے بلکہ وہ مواد قاری کو اس آیت کریمہ کے متنوع پہلوؤں سے بھی آگاہ کرتا ہے ۔ اس لئے ان وسیع تر معلومات کے منتخب جواہر پارے یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔


الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي 16
رسالت اور نبوت ختم ہو چکی ہیں، اس لئے میرے بعد اب نہ کوئی اور رسالت ہو گی اور نہ ہی کوئی اور نبوت ہو گی۔


عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ 17
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بنی اسرائیل کی اصلاح کی نگرانی انبیاء کرتے تھے جب ایک نبی گزر جاتا تو اس کے پیچھے دوسرا نبی آجاتا اور میرے بعد کوئی اور نبی نہیں ہے اور بڑی تعداد میں خلفاء ہوں گے۔


قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَّلُ ٱلۡأَنبِيَاءِ آدَمُ، وَآخِرُهُمۡ مُحَمَّدٌ 18
حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے نبی ہیں جبکہ محمدﷺسب سے آخری نبی ہیں۔


قَالَ رَسُولُ ٱللَّهِ صَلَّى ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَآ ءَاخِرُ ٱلۡأَنبِيَآءِ، وَأَنتُمۡ ءَاخِرُ ٱلۡأُمَمِ 19
آپ ﷺ نے فرمایا میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔


يَا أَيُّهَا ٱلنَّاسُ، إِنَّ رَبَّكُمۡ وَاحِدٞ، وَإِنَّ أَبَاكُمۡ وَاحِدٞ، وَدِينُكُمۡ وَاحِدٞ، وَلَا نَبِيَّ بَعۡدِي 20
اے لوگو ! تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے، تمہارا دین ایک ہے او رمیرے بعد کوئی اور نبی نہیں ہو گا۔


ان پنجگانہ ارشادات نبویہ میں سے ہر ایک میں سلسلہ نبوت ورسالت کی تکمیل اور اس کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جانے کی نوید سنائی گئی ہے اور مسلمانوں کو اس امر کی واضح الفاظ میں تعلیم دی گئی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی علی علم کی بعثت کے بعد نبوت ورسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا ہے اور آپ کے بعد انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اس کائنات میں نہ کوئی نیا نبی مبعوث ہو گا اور نہ کوئی نیا رسول بھیجا جائے گا۔ اس لئے اسلام آخری دین ہے اور مسلمان اس کائنات میں قائم ہونے والی آخری امت ہیں چونکہ پیغام رسالت بھی مکمل ہو چکا ہے اور دین اسلام بھی مکمل ہو چکا ہے۔(سورة آل عمران، آیت ۱۹ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ21 بے شک اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام ہی ہے۔)

جسے اللہ تعالی نے پسند کر کے اپنے بندوں سے قبول بھی فرمالیا ہے۔(سورة المائده، آیت ۳ وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا22 اور میں نے آپ کے لئے اسلام بطور دین پسند کیا۔)

اس لئے نہ کوئی نئی کتاب یا صحیفہ نازل ہو گا اور نہ ہی اب کوئی نئی شریعت نافذ ہو گی ۔ لہذا حضرت محمد رسول اللہ صلی علیم ہی اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں ، قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہے اور مسلمان ہی اس کائنات میں آخری امت ہیں لہذا اس کائنات میں صرف اسلام ہی ایسا واحد دین ہے ، جو پوری دنیا کے ادیان پر غالب آئے گا۔ ( سورة الفتح، آیت ۲۸هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ23اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق (اسلام) دے کر بھیجا، تا کہ یہ دین دیگر تمام ادیان پر غالب ہو۔)

بظاہر تو ختم نبوت“ کا تعلق ایمان بالرسالت سے ہے کہ ختم نبوت“ پر یقین و اعتماد کے بغیر عقیدۂ رسالت یقیناً نا مکمل اور ادھورا ہے۔ تاہم اسلامی عقائد کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ ختم نبوت“ کا عقیدہ ہی دین اسلام کی صداقت ، حقانیت اور تکمیل کا واحد ذریعہ ہے۔ کیونکہ عقیدہ ختم نبوت ہی اللہ تعالیٰ کی توحید کی تکمیل کا پیغامبر ہے۔ یہی عقیدہ وحدت نسل انسانی ، انسانی مساوات اور احترام آدمیت کا ضامن ہے ۔ اسی عقیدہ کے ذریعے سے ہی تو حید ربانی اور عظمت انسانی کے دونوں ستون قائم و دائم رہ سکتے ہیں، جو کرہ ارض کے قطبین کی طرح توحید ربانی اور انسانی عزت و وقار کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت“ نہ صرف مسلمانوں کے ایمان بالرسالت کی تکمیل کرتا ہے بلکہ یہی عقیدہ دنیا میں مدعیان نبوت کی تکذیب بھی کرتا ہے۔ چنانچہ اس عقیدہ کی رو سے نبوت محمدی ابدی اور دائمی ہے۔ شریعت محمدی تمام انسانوں کے لئے ابدی روح پرور اور شفا بخش پیغام ہے اور پیغام محمدی ہی انسانی فوز و فلاح کا ضامن ہے۔ نیز اسی عقیدہ پر عمل پیرا ہو کر قرآنی حکیم کے حکم " كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً “ پر عمل کرتے ہوئے پوری انسانیت کو تحفظ و بقا اور احترامیت کا درس دیا جا سکتا ہے۔ ان نقلی و عقلی دلائل کی روشنی میں عقیدہ ختم نبوت“ نہ صرف مسلمانوں کی وحدت وبقا کے تحفظ کے لئے ایک ناگزیر ضرورت ہے بلکہ یہی عقیدہ انسانوں کو اس حقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے کہ سلسلہ نبوت ورسالت کے اجراء کے سب مقاصد اور تسلسل کے تمام اسباب و علل مکمل ہو چکے لہذا آئندہ انسانیت کو کسی اور نبی یا رسول کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ جب ہم ماضی میں سلسلہ نبوت کے مسلسل جاری رہنے پر توجہ دیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے یہ اسباب تھے:۔

1۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب دنیا سے مفقود ہو چکی ہو۔

2۔ کتاب اللہ میں تحریف اور تبدیلی رونما ہو چکی ہو اور وہ قابل عمل نہ رہی ہو۔

3۔ جب کوئی حکم یا احکام کسی قوم و زمانہ کے ساتھ خاص ہونے کی بناء پر منسوخ ہو چکے ہوں اور قابلِ عمل نہ رہے ہوں۔

4۔شریعت الہی کی تکمیل نہ ہوئی ہو اور انسان کے لئے نئے احکام کا سلسلہ جاری رہنا ناگزیر ہو۔

5۔ اقوام کے لئے الگ الگ انبیاء ورسل مبعوث ہوئے ہوں اور پوری انسانیت کے داعی کی آمد متوقع اور ناگزیر ہو۔

6۔الہامی کتاب کی حفاظت کا الہامی میثاق موجود نہ ہو اور وہ ضائع ہو جائے یا اس کے احکام میں تحریف ہو چکی ہو۔

7۔ انسان کو ایسے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہو جن کا الہامی مداوا اور روحانی حل مطلوب ہو۔

8۔انسانیت کے پاس کوئی ایسا عملی نمونہ یا اسوۂ حسنہ موجود نہ ہو جو شرعی احکام کا عملی نمونہ اور اسلوب پیش کرتا ہو۔

یہ چند ناگزیر اسباب و علل ہوتے ہیں جو نئے رسول یا نئے نبی کی بعثت کا تقاضا کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ اسباب و علل انسانی تاریخ اور تاریخ نبوت ورسالت کا سنہری باب ہیں اور سارا الہامی ادب (REVEALED LITERATURE) ان سے پر ہے۔

ان اسباب و علل پر انفرادی و اجتماعی طور پر غور کیا جائے تو رحمۃ للعالمین ، خاتم الانبیاء والمرسلین سلام نہ صرف ان تمام امور کی تکمیل فرمانے والے ہیں اور ان کی ذات میں اور ان کی تعلیمات میں وہ سب اوصاف و کمالات اور تمام صلاحیتیں موجود ہیں کہ جن کی بدولت سب اسباب و علل کا انسانیت کو شافی اور وافی حل میسر آجائے۔ چنانچہ آپ پوری انسانیت کے لئے نبی اور رسول ہیں ۔ آپ کی تمام زندگی ، آپ کے اقوال وافعال ، آپ کے پسندیدہ اور منظور کردہ امور اور آپ کے اخلاق حسنہ محفوظ اور تمام کے تمام اسوۂ حسنہ بن کر پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ آپ پر نازل شدہ کتاب قرآن مجید نہ صرف اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کے لئے کتاب ہدایت ہے ۔ (سورۃ بنی اسرائیل، آیت ۹ ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ “ کی طرف اشارہ ہے۔) مزید بر آن شریعت محمدی انسانیت کو پیش آنے والے تمام امور میں رہنمائی اُصول عطا کرتی ہے۔

خاتم الانبیاء والمرسلین ﷺکی حیات مبارکہ کے عطا کر دہ اوامر و نواہی اور اعمال وافعال پوری طرح سے محفوظ ہونے کی بناء پر ایک جانب تو وہ قرآنی احکام کا عملی نمونہ ہیں تو دوسری طرف وہ سدا قابل عمل اور قابل تقلید نمونہ ہیں۔ نیز شریعت محمدی پوری انسانیت کو رہنمائی بھی عطا کرتی ہے اور اپنی ساخت و ماہیت میں بھی مکمل ہے۔ اس کے احکام مکمل اور ہر طرح کی تنسیخ و ترمیم سے بالاتر ہیں۔ نیز شریعت محمدی پوری انسانیت کے لئے ہمیشہ مشعل راہ ہے ۔ اس لئے عملی ، عقلی اور استدلالی طور پر انسانوں یا مسلمانوں کو کسی نئے نبی یا رسول کی ضرورت نہیں ہے۔

ختم نبوت کا ایک درخشاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی نبوت ورسالت تمام زمانوں، تمام مکانوں اور تمام انسانوں کے لئے ہے اور اس کی دی ہوئی شریعت انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ چنانچہ جنین (EMBRAYO) میں زندگی کا آغاز ہونے سے لے کر انسان کے مرنے کے بعد قبر میں جانے ، بلکہ مابعد الطبعیات امور تک کے احکام فراہم کرتی ہے ۔ مزید برآں جن امور ، معاملات ، حوادث ، مسائل اور زمان و مکان کا انسان کو ابھی تک ادراک بھی نہیں ہوا ہے ان کے بارے میں بھی اسلامی شریعت رہنمائی اور ہدایت فراہم کرتی ہے اور یہ ہدایت ورہنمائی اس کائنات کے آخری انسان کو بھی بعینہ میسر رہے گی۔ اس لئے نہ انسانوں کو اور نہ ہی مسلمانوں کو نئے نبی یا نئے رسول کی ضرورت ہے بلکہ انسانیت کی فلاح اور مسلمانوں کی بقاء اس امر میں مضمر ہے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت “ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، تاکہ ان کا ایمان مکمل رہے ، وہ ختم نبوت کے احکام اور فرائض کی بجا آوری کا حق ادا کریں اور عقیدہ ختم نبوت کے تقاضے پورے کریں تا کہ اس عظیم اسلامی عقیدے کو کوئی نہ نقصان پہنچا سکے اور نہ ہی کمزور کر کے اس میں کوئی رخنہ اندازی کر سکے۔ ختم نبوت کا عقیدہ نہ صرف قرآن مجید اور احادیث نبویہ سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے بلکہ عہد رسالت سے لے کر آج تک اس امر پر اُمت مسلمہ کا اجماع ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ختم نبوت پر پختہ عقیدہ اور کامل یقین رکھے اور جس طرح وہ دیگر عقائد کا اظہار کرتا ہے ویسے ہی وہ اپنے عقیدہ ختم نبوت کا بھی برملا اظہار کرتا رہے۔ اس امر پر بھی تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جو مسلمان ختم نبوت کا انکار کرتا ہے وہ مسلمان نہیں رہتا ، بلکہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ مزید بر آن جان بوجھ کر ایسا کرنے والا فرد مرتد ہونے کی وجہ سے مستوجب سزا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں مدعیان نبوت اور جھوٹے نبیوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے تلبیس ابلیس (تلبیس ابلیس ابن الجوزی، عبد الرحمان بن ابی الحسن کی تصنیف ہے جس میں متعدد جھوٹے مدعیان نبوت کے جھوٹ کی قلعی کھولی گئی ہے۔) جیسی کتب تصنیف کیں اور ان میں نہ صرف جھوٹے مدعیان نبوت کے باطل دعوؤں کو مضبوط دلائل سے باطل قرار دیا، بلکہ عقیدہ ختم نبوت“ کی حقیقت اور ماہیت سے بھی مسلمانوں کو روشناس کرایا۔ جبکہ مسلم ریاستوں نے جھوٹے مدعیان نبوت کا استیصال اور خاتمہ کیا۔

دنیا کے دیگر خطوں کی طرح بر صغیر میں بھی فتنہ انکار ختم نبوت نے جڑ پکڑی اور ملعون غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کے جھوٹے دعوے کا پر چار شروع کیا تو اس خطہ کے مسلمانوں اور علماء کرام نے اس جھوٹے دعوے کا علمی انداز میں مضبوط براہین اور دلائل کے ساتھ دندان شکن جواب دیا۔

چنانچہ پیر مہر علی شاہ، صاحبزادہ فیض الحسن آف آلو مہار اور مولانا عبد الستار خان نیازی جیسے جید علمائے کرام اور اس وقت کے کئی دانشوروں اور قلمکاروں نے ختم نبوت کا کامیابی سے بھر پور دفاع کیا اور جھوٹے مدعی نبوت اور اس کے پیروکاروں کو تقریر و تحریر ، مناظرہ اور بحث و مباحہ کے ہر میدان میں شکست دی ۔

اور لاہوریوں کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی تھی ، جس میں لاکھوں مسلمانوں نے علمی اور عملی طور پر حصہ لیا تھا، یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی مسلسل جاری رہا۔ نہ صرف علماء، دانشور ، مشائخ اور اساتذہ و طلبہ نے اس تحریک میں عملی طور پر حصہ لیا، بلکہ محراب و منبر اور دینی حلقے بھی عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ و آبیاری کرتے رہے۔ جبکہ مملکت خداداد پاکستان کے شہریوں نے بھی ختم نبوت کی تحریکوں ۱۹۵۳ء اور ۱۹۷۴ء میں بھر پور کردار ادا کیا۔

عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیوں کے خلاف ۹۷۴ باء کی عوامی تحریک اس قدر مضبوط ، بھر پور ، مسلسل اور مستحکم تھی کہ اس وقت کی حکومت بھی اس امر پر مجبور ہوئی کہ وہ قادیانیوں کا مسئلہ قومی اسمبلی میں لے کر جائے اور پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے۔ چنانچہ جب یہ بل پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو اس وقت ایک جانب اس موضوع پر تحریک زوروں پر تھی تو دوسری طرف تمام سیاسی جماعتیں اور دینی قوتیں اس بل کو منظور کروانے کے لئے سرگرم عمل تھیں۔ چنانچہ اراکین قومی اسمبلی مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا شاہ تراب الحق اور راجہ محمد ظفر الحق نے اس بل کی منظوری کے لئے اہم کردار ادا کیا اور ۱۹۷۴ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں قادیانیوں کو بالا اتفاق پاکستان کی غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ یہ ایک عظیم فیصلہ تھا جس کے نہ صرف بر صغیر میں ڈور رس نتائج مرتب ہوئے اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے کہ اس آئینی ترمیم سے نہ صرف بر صغیر میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا بلکہ اس فیصلے کی روشنی میں قادیانیوں کو تمام مسلم ریاستوں اور سب مسلم معاشروں میں بھی غیر مسلم کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اسی وجہ سے نہ صرف قادیانی، لاہوری اور مرزائی غیر مسلم قرار پائے بلکہ عقیدہ ختم نبوت کا بھی عملاً تحفظ کیا گیا جو پاکستان کے لئے ایک اعزاز ہے۔

ختم نبوت“ نہ صرف مسلمانوں کے بنیادی عقائد کا لازمی حصہ ہے ، بلکہ یہ عقیدہ تمام مسلمانوں کو باہمی اتحاد کی لڑی میں بھی پروتا ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کے تمام مسالک اور فرقے عقیدہ ختم نبوت کے قائل اور پیرو ہیں بلکہ وہ بطورِ مسلمان اس امر کا بھی مکمل ادراک اور مضبوط شعور رکھتے ہیں، کہ عقیدہ ختم نبوت کے کچھ حقوق اور کچھ فرائض ہیں ۔ آج مسلمان نہ صرف ختم نبوت“ کا تحفظ کرتے ہیں بلکہ وہ اس کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی بطیب خاطر اور بھر پور انداز میں ادا کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس لئے ہم سطور ذیل میں اس عقیدہ کی مسلمانوں پر عائد ہونے والی بعض ذمہ داریوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ان فرائض ، واجبات اور ذمہ داریوں کا مختصر خاکہ پیش کرنے سے پہلے ہم یہ وضاحت پیش کرنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ یہ ذمہ داریاں وقتی یا مقامی نہیں بلکہ دائمی اور عالمی ہیں۔ اسی طرح ان ذمہ داریوں کی بجا آوری تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ نیز ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی پوری عمر عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کرتار ہے اور اس ذمہ داری کی بجا آوری دامے، در ہمے اور علمی طریقے سے ادا کرتا ر ہے تا کہ اس کا ایمان کامل ہو اور اس عقیدے کو فروغ ملے۔

1۔ عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے سب سے اہم اور سب سے ضروری ذمہ داری یہ ہے کہ ہر مسلمان انفرادی طور پر اور پوری اُمتِ مسلمہ اجتماعی طور پر اپنا یہ عقیدہ مضبوط اور مستحکم رکھیں اور اس میں انفرادی او راجتماعی طور پر کوئی کمی، کمزوری یا نقص نہ آنے دیں کیونکہ اس عقیدہ میں معمولی سی خرابی سے بھی نہ صرف ہم اسلام جیسی قیمتی ترین متاع اور دولت ایمان سے محروم ہو جائیں گے ، جو اپنی جگہ بہت بڑا اور نا قابل تلافی نقصان ہے، بلکہ ہم امتِ مسلمہ کا بھی حصہ نہیں رہیں گے۔ اس کی رکنیت سے محروم ہو کر ہم مسلم ریاستوں اور مسلم معاشروں میں غیر مسلم اقلیت شمار ہونے لگتے ہیں جو نقصان کا آخری درجہ ہے۔

2۔ عقیدہ رسالت اور اس کا لازمی حصہ عقیدہ ختم نبوت“ صرف عقیدہ اور ایمان سے ہی عبارت نہیں ہو تا بلکہ یہ عقیدہ اس امر کا بھی متقاضی ہوتا ہے کہ ہم حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالی کا فرستادہ آخری نبی اور آخری رسول تسلیم کریں۔ ان کی عطا کردہ شریعت اسلامی کو مکمل ، دائمی اور ہر لحاظ سے قابل عمل تسلیم کرتے ہوئے ، اس کے فراہم کردہ احکام اور اوامر و نواہی پر من و عن عمل کریں کیونکہ مقاصد نبوت جس طرح الہامی احکام کی دعوت و تبلیغ کا تقاضا کرتے ہیں، اسی طرح وہ متعلقہ نبی یار سول کے فراہم کردہ احکام پر اس کے پیروکاروں سے ، سانچہ عمل میں ڈھالنے کے بھی متقاضی ہوتے ہیں۔ کیونکہ رسول اور نبی کے فراہم کردہ احکام کی پیروی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اتباع ہوتی ہے۔

3۔ ہر رسول کو نئی کتاب عطا کی جاتی ہے ۔ اس الہامی کتاب میں بیان کردہ امر نواہی کو شریعت کا نام دیا جاتا ہے، جو ہر رسول کے لئے جدا گانہ ہوتی ہے ۔ اس امر لئے ہر رسول اپنے پیروکاروں کو اپنی شریعت پر عمل کر کے اپنے عملی نمونہ کو بطورِ اسوہ حسنہ پیش کرتا رہا ہے ۔ اسی طرح قرآن مجید کتاب ہدایت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ سلم کی سنت مطہرہ مسلمانوں کے لئے عملی نمونہ ہیں۔ اس لئے یہ مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سنت نبوی پر پورا پورا عمل کریں، ورنہ ان کا عمل ناقص رہے گا اور انہیں اجر و ثواب بھی نہیں ملے گا۔

4۔مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید انسانی زندگی کے اُصول و قواعد عطا کرتا ہے۔ جبکہ اسوۂ حسنہ ان کی عملی تشریح و تعبیر ہے اس لئے عقیدہ ختم نبوت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ایسا کوئی عمل، قول یا فعل نہ بجالائیں، جس کی تائید قرآن و سنت سے نہ ہوتی ہو بصورت دیگر عقیدۂ ختم نبوت متزلزل ہو جائے گا۔

5۔لولاک (عہ 1) کا تاج سر پر سجائے حضرت محمد رسول الله ﷺ اشرف المخلوقات ، سب انسانوں کے سردار ہیں۔ وہ سید الانبیاء اور خاتم المرسلین بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بلند کیا، انہیں ہر طرح کے خطرات(عہ 2) سے محفوظ بنایا اور ان پر اپنا فضل عظیم (عہ 3) اس طرح فرمایا کہ انہیں اس کائنات کا معزز ترین فرد قرار دے کر مسلمانوں کو یہ حکم دیا:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِي وَلَا وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ 24
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نیچی کرو اس نبی کی آواز سے اور اس کے سامنے اس طرح چلا کر نہ بولو جیسے تم ایک دوسرے سے چلاتے ہو کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں۔
حاشیہ

(عہ 1)لولاك لما خلقت الأفلاك ایک طویل حدیث ہے جو اس امر کی عکاس ہے کہ اگر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت و بعثت نہ ہوتی تو یہ کائنات قائم نہ ہوتی۔ اگرچہ اس حدیث پر محدثین نے اعتراض وارد کتنے ہیں تاہم یہ امر واضح ہے کہ اس کائنات میں خاتم الانبیاء ﷺ ہی معزز ترین انسان ہیں۔ "بعد از خدا بزرگ توئی قصه مختصر "۔ انہیں کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ کائنات قائم ہوئی۔

(عہ 2)سورۃ المائدہ، آیت نمبر ۶۷ و اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ25 اور اللہ تعالیٰ لوگوں سے آپ کا تحفظ کرے گا۔ یہ آیت کریمہ اس امر کی ضمات دیتی ہے کہ خالق کائنات آپ کی عزت و ناموس کا محافظ ہے اور وہ یہ کام فرشتوں اور انسانوں کے ذریعے سے مکمل کرواتا ہے۔

(عہ 3)سورۃ النساء، آیت نمبر ۱۱۳ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا26 یہ آیت اس امر کی بین دلیل ہے کہ نبوت ، رسالت، ختم نبوت، الہامی کتاب کا وصول کرنا کسی انسان کا اپنا عمل نہیں ہے بلکہ یہ تمام نعمتیں اور سعاد تیں صرف اللہ تعالی ہی اپنے منتخب اور برگزیدہ بندوں کو عطا کرتا ہے۔

حاشیہ ختم شد

اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو نبی کریم ﷺسے گفتگو کے آداب اس طرح سکھائے جارہے ہیں کہ وہ اپنی آوازیں پست رکھیں اور آپ کی مجلس میں بیچ کر بلند آواز سے ہر گز نہ بولیں اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ اس امر پر اُمتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ جو حکم رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں موجود تھا ، وہ حکم آپ کے وصال کے بعد بھی اسی طرح موجود اور نافذالعمل رہتا ہے۔ اس لئے مسلمان آج بھی اس حکم کے پابند ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خاتم الانبیاء ﷺ کی سب انسانوں سے زیادہ تعظیم و توقیر ( سورۃ الاعراف، آیت ۱۵۷ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَةَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ27 وہ جو اس پر ایمان لائیں، اس کی تعظیم کریں، اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس پر نازل ہوا، وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔) کریں اور ان کی عزت و آبرو میں کسی طرح کی بھی کمی نہ آنے دیں۔

عصر حاضر میں اس محترم ترین ہستی کے مقام و مرتبہ اور قدر و منزلت کو گرانے اور گھٹانے کی مذموم کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ کہیں آپ کی ذات ستودہ صفات پر رکیک حملے کئے جارہے ہیں، کہیں آپ کی روح پرور تعلیمات کو جھٹلایا جا رہا ہے ، کہیں آپ کے خاکے بنائے جارہے ہیں، کہیں آپ کی ختم نبوت کا انکار کیا جارہا ہے ، کہیں آپ کے اقوال وافعال کو من مانے اور غلط معانی پہنائے جارہے ہیں اور آپ کی عزت و شرف کو کم کیا جا رہا ہے ۔ مزید بر آن آپ کی حیات مبارکہ کے نمایاں واقعات کو مشکوک بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ ان حالات میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ناموس رسالت کا پوری طرح سے تحفظ کریں ، بلکہ ان کی تعلیمات کو عام کر کے ان کی تو قیر و تکریم میں نمایاں اضافہ کریں۔

6۔ مسلمان تنظیموں کی عموماً اور مسلم دینی اداروں اور انجمنوں کی خصوصاً یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ناموس رسالت کا بھر پور طریقہ سے دفاع کریں۔ آج ہم غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کے دور سے گزر رہے ہیں۔ یہاں نہ صرف حکومتی کو تاہیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے بلکہ ان لغزشوں اور کوتاہیوں کا سد باب اور تدارک بھی کیا جاتا ہے۔ اس لئے غیر حکومتی مسلم اداروں کی یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ ذات رسالت، نبوی تعلیمات، دینی شعائر اور اسلامی شریعت کا دفاع بھی کریں ۔ آپ کی روح پرور اور انسان دوست تعلیمات کو بھی عام کریں۔ رحمتہ للعالمین ﷺ کے انسانیت پر احسانات کو اجاگر کریں اور ان میں انسانوں کے لئے مفید امور کی نشان ا دہی بھی کریں۔

7 ۔ دیگر مذاہب کے دینی رہنماؤں سے آگے بڑھ کر مسلم علماء، مشائخ ، مفکرین اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیماتِ نبوی کی صحیح اور ایسی تشریحات اور تعبیرات پیش کریں جو انسانی دکھوں کا مداوا کریں، جو انسانوں میں مساوات، بھائی چارے اور محبت و انسیت کو فروغ دیں۔ نیز ان طبقوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ علمی، نقلی اور عقلی انداز میں ان شبہات ، غلط فہمیوں اور فرضی تعبیرات کا ازالہ کریں جو خاتم الانبیاء ﷺ اور ان کی مثبت اور مفید تعلیمات کے حوالے سے چار دانگ عالم میں پھیلائی جارہی ہیں۔ غیر مسلم دنیا کے خدشات اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے ضروری ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے اور مذاہب میں عمدہ افہام و تفہیم پیدا کرنے کے لئے باہمی ”مکالمہ“ (DIALOGUE) کو فروغ دیا جائے تاکہ اسلام کی صداقت اور حقانیت آشکار ہو اور انسانوں میں باہمی آہنگی میں اضافہ ہو۔

8 ۔ اس کا ئنات میں آج فاصلے سمٹ رہے ہیں اور اس کا ئنات کے مستقبل کے معمار اس کا ئنات کو ایک عالمی قریہ “ (GLOBAL VILLAGE) قرار دینے میں حق بجانب ہیں ۔ اس لئے انسانی حقوق کے میدان میں کام کرنے والے افراد اور اداروں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ خاتم الانبیاء ﷺ کی ایسی تعلیمات عام کریں، جو نہ صرف انسانی حقوق کے تحفظ و بقاء کی ضامن ہیں بلکہ وہ انسانی فلاح و بہبود اور بھلائی کی ضامن بھی ہیں جو ایک طرف مسلمانوں کے مابین اتحاد کی داعی ہیں، تو دوسری جانب وہ انسانوں کو باہمی اتفاق واتحاد کی لڑی میں پروتی اور ان میں یکجہتی قائم کرتی ہیں۔

9۔ اسلامی ریاستوں اور اسلامی معاشروں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے، کہ وہ اپنی صفوں کا بغور جائزہ لیں اور اپنے حلقوں اور گردو پیش میں پائے جانے والے منکرین ختم نبوت کی نشاندہی کریں۔ انہیں ختم نبوت“ اور اس کی حقیقت و ماہیت سے آگاہ کریں۔ عقیدہ ختم نبوت“ کے مثبت اور مفید پہلو ان پر اجاگر کریں۔ انہیں حقیقی مسلمان بننے کی مؤثر انداز میں دعوت دیں۔ اگر وہ ختم نبوت“ کا عقیدہ اپنا لیں تو ان کا خیر مقدم اور حوصلہ افزائی کریں۔ نیز انہیں ختم نبوت“ کے حوالے سے مزید معلومات فراہم کریں، اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کریں اور ان تمام اصلاحی کوششوں کے باوجود اگر وہ اپنا عقیدہ تبدیل نہ کریں اور قادیانی عقائد و نظریات پر قائم رہیں تو وہ غیر مسلم ہیں۔ ان کے ساتھ غیر مسلموں والا سلوک روا رکھا جائے اور ان کی غیر مسلم حیثیت کو ہر گز نہ چھپایا جائے، بلکہ اس حقیقت سے اپنوں اور پرائیوں کو مطلع کیا جائے۔

10۔ عقیدہ ختم نبوت“ کے حوالے سے مسلمان حکومتوں اور مسلم معاشروں کے رہنماؤں پر بھی یہ عظیم ذمہ داری عقائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں، دائرہ کار اور معاشروں میں مردم شماری کرتے وقت منکرین ختم نبوت، مرزائیوں، قادیانیوں، احمدیوں اور لاہوریوں کی نشاندہی کریں۔ ان کے نام غیر مسلم اقلیت والے خانہ میں لکھیں اور ان کے اقلیت ہونے کے بارے میں سب مسلمانوں کو آگاہ کریں ۔

11۔ تمام مسلمانوں کی بطور امت مسلمہ یہ بھی اجتماعی ذمہ داری ہے ، کہ وہ چار دانگ عالم میں تمام انسانوں کو اس حقیقت سے روشناس کرائیں، کہ حضرت محمد رسول الله صلى علم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ ان کی تعلیمات پوری انسانیت کے لئے حتمی اور دائمی ہیں، انہیں پر عمل کر کے انسان اس کا ئنات میں کامیاب ہو سکتا ہے اور یہی تعلیمات انسانوں کو اخروی فوز و فلاح سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمام انسان اور مسلمان ختم نبوت“ کے عقیدے کو مضبوطی سے تھام لیں اوراس کی تعلیمات اور برکات سے بہرہ ور ہوں، کیونکہ ہر انفرادی اور اجتماعی امر کا قدر تی طور پر آغاز بھی ہوتا ہے اور اختتام بھی اور یہی اصول سلسلہ نبوت ورسالت پر بھی صادق آتا ہے۔

12۔ ہماری معلومات کی حد تک اسلامی تنظیم کا نفرنس ( Organization of Islamic Conference) نے ابھی تک کوئی ایسا لائحہ عمل یا قانون وضع نہیں کیا جو اس حقیقت کا آئینہ دار ہو ، کہ قادیانی غیر مسلم ہیں لہذا انہیں مسلم ریاستوں میں اقلیت شمار کیا جائے ۔ مردم شماری میں ان کے نام بھی غیر مسلم اقلیت والے خانہ میں تحریر کئے جائیں۔ ان حالات میں اس اسلامی تنظیم سے بجاطور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی تنظیم اور عقیدہ ختم نبوت کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے اس بارے میں ضروری قانون سازی کر کے مسلم ریاستوں میں نافذ کرائے اور مسلم معاشروں کو بھی اس قانون کا پابند بنائے۔

13۔ ناموس رسالت کے تحفظ کا جو قانون اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج ہے اس قانون کو نہ صرف مزید مضبوط اور بہتر بنایا جائے بلکہ ایسے ہی قوانین تمام عالمی اداروں سے بھی منظور کروا کر نافذ کئے جائیں۔ اس لئے تمام مقتدر مسلم قوتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ تمام ادیان و مذاہب کی مقدس شخصیات ( SACRED PERSONS) کی تکریم و تعظیم کے لئے عالمی سطح پر ایک قانون بنایا جائے، جسے اقوام متحدہ، یورپی یونین، افریقی یونین، اسلامی تنظیم کا نفرنس، عرب لیگ، آسیاں اور سارک جیسی عالمی تنظیموں کی تائید و حمایت حاصل ہو ۔ نیز ان بلند مرتبہ ہستیوں میں حضرت محمد رسول ﷺ اور ان کی ختم نبوت“ کو بھی شامل کیا جائے ، تاکہ انسانوں کے مابین زیادہ سے زیادہ آہنگی پروان چڑھے۔

مذکورہ بالا سطور میں ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ ان امور کی نشاندہی کی ہے کہ قانون قدرت کی رُو سے جس چیز کا آغاز ہوتا ہے اس کی انتہاء بھی ہوتی ہے۔

اسی قانون فطرت (LAW & NATURE) کی رُو سے حضرت آدم علیہ السلام سے جو سلسلہ نبوت شروع ہوا تھا ، وہ حضرت محمد رسول ﷺ پر مکمل ہوا۔ اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف اس عقیدہ ختم نبوت “ کو حرز جاں بنائے ، بلکہ وہ ہمیشہ اس عقیدہ پر کار بند رہے اور اس عقیدہ کے تحفظ و بقاء کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ نیز اس عقیدہ کا انکار کرنے والوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کے انسانی حقوق پورے کرتا رہے تا کہ انسانوں کی دینی ضرورتیں پوری ہوں۔ عقیدہ ختم نبوت“ عام ہو اور انسانی تعلقات بہتر ہوں۔


  • 1 الانعام،6/ 124
  • 1 الاحزاب،33/ 2
  • 2 الممتحنۃ ،60/ 4
  • 3 البقرۃ،2/ 35
  • 4 الرعد،13/ 7
  • 5 الفاطر،35/ 23
  • 6 الزمر ،39/ 7
  • 7 البقرۃ ،2/ 213
  • 8 البقرۃ ،2/ 87
  • 9 المؤمنون ،23/ 44
  • 10 المائدۃ ،5/ 3
  • 11 الاعراف ،7/ 158
  • 12 الاعراف،7/ 19
  • 13 النساء،4/ 80
  • 14 الاحزاب،33/ 40
  • 15 النساء،4/ 80
  • 16 سنن الترمذى، كتاب الرؤيا ، رقم الحديث 2373 ، 3 / 364
  • 17 صحیح البخاری ،کتاب الانبیاء، باب ذکر بنی اسرائیل، 4 / 144
  • 18 کنز العمال، ۱۲۰/۷
  • 19 سنن ابن ماجة، فتنة الدجال، حدیث : ٤٠٧٧ ، ٢/ ١٣٥٩
  • 20 کنز العمال، حدیث: ۳۲۱۱۱، ۲۱۱/۱۱
  • 21 آل عمران،3/ 19
  • 22 المائدۃ،5/ 3
  • 23 الفتح،48/ 28
  • 24 الحجرات،49/ 2
  • 25 المائدۃ،5/ 67
  • 26 النساء،4/ 113
  • 27 الاعراف،7/ 157

Netsol OnlinePowered by