بسم اﷲ الرحمن الرحیم
از پیلی بھیت مسؤلہ شاہ میر خاں قادری رضوی ۳ محرم الحرام ۱۳۴۰ھ
اعلیٰ حضرت مدظلکم العالی، السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، اس میں شک نہیں آپ کی خدمت میں بہت سے جواب طلب خطوط موجود ہوں گے لیکن عریضہ ہذا بحالت اشد ضرورت ارسالِ خدمت ہے امید کہ بواپسی جواب سے شرف بخشا جائے۔
(۱) آیت کریمہ:
وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ 1
(اور اﷲ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں بناتے اور وہ خود بنائے ہوئے ہیں، مردے ہیں زندہ نہیں، اور انہیں خبر نہیں لوگ کب اٹھائے جائیں گے۔ ت)
یہ ظاہر کرتی ہے کہ ماسوا اﷲ تعالیٰ کے جس کسی کو خدا کہا جاتا ہے وہ خالق نہ ہونے اور مخلوق ہونے کے علاوہ مردہ ہے زندہ نہیں۔ بنا بریں عیسٰی علیہ السلام کو بھی جبکہ نصارٰی خدا کہتے ہیں تو کیوں نہ ان کو مردہ تسلیم کیا جائے اور کیوں ان کو آسمان پر زندہ مانا جائے؟
(۲) صاحبِ بخاری بروایت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ارقام فرماتے ہیں۔ (منقول از مشارق الانوار، حدیث: ۱۱۱۸)
لَعَنَ اﷲ الْیھوْدَ وَالنَّصَارٰي اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیائِھِمْ مَسٰجِدَ 2
اﷲ تعالیٰ یہود ونصارٰی پر لعنت فرمائے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔ (ت)
اس سے ظاہر ہے کہ نبیِ یہود حضرت موسٰی ونبیِ نصارٰی حضرت عیسٰی علٰی نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام کی قبریں پوجی جاتی تھیں۔
حسب ارشادباری [font :]
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْیءٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اﷲِ وَالرَّسُوْل 3
(پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اﷲ و رسول کے حضور رجوع کرو۔ ت)
آیاتِ الہٰیہ، احادیث نبویہ ثبوتِ مماتِ عیسٰی میں موجود ہوتے ہوئے کیونکر ان کو زندہ مان لیا جائے؟
میں ہوں حضور کا ادنٰی خادم شاہ میر خاں قادری رضوی غفرلہ ربّہ ساکن پیلی بھیت ۳ محرم الحرام ۱۳۴۰ھ
نَحْمَدُ ہ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِه الْکَرِیم
(۱) قبلِ جواب ایک امر ضروری کہ اس سوال وجواب سے ہزار درجہ اہم ہے، معلوم کرنا لازم، بے دینوں کی بڑی راہِ فرار یہ ہے کہ انکار کریں ضروریاتِ دین کا، اور بحث چاہیں کسی ہلکے مسئلے میں جس میں کچھ گنجائش دست وپا زدن ہو۔
قادیانی صدہا وجہ سے منکر ضروریاتِ دین تھا اور اس کے پس ماندے حیات و وفاتِ سیدنا عیسٰی رسول اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ صلوات اﷲ وتسلیمات اﷲ کی بحث چھیڑتے ہیں، جو ایک فرعی مسئلہ خود مسلمانوں میں ایک نوع کا اختلافی مسئلہ ہے جس کا اقرار یا انکار کفر تو درکنار ضلال بھی نہیں (فائدہ نمبر ۴ میں آئے گا کہ نزول حضرت عیسٰی اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے) نہ ہرگز وفاتِ مسیح ان مرتدین کو مفید، فرض کر دم کہ رب عزوجل نے ان کو اس وقت وفات ہی دی، پھر اس سے انکا نزول کیونکر ممتنع ہوگیا؟ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی موت محض ایک آن کو تصدیق وعدہ الہٰیہ کے لئے ہوتی ہے، پھر وہ ویسے ہی حیاتِ حقیقی دنیاوی و جسمانی سے زندہ ہوتے ہیں جیسے اس سے پہلے تھے، زندہ کا دوبارہ تشریف لانا کیا دشوار؟ رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:
اَلْاَنْبِیاءُ اَحْیَاء فِیْ قُبُوْرِھِمْ یصلُّوْنَ 4
انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں، نماز پڑھتے ہیں۔
(۲) معاذاﷲ کوئی گمراہ بددین یہی مانے کہ ان کی وفات اوروں کی طرح ہے جب بھی ان کا دوبارہ تشریف لانا کیوں محال ہوگیا؟ وعدہ
وَحَرَام عَلٰی قَرْیَة اَھْلَکْنٰھَا اَنَّھُمْ لَا یرجِعُوْنَ 5
(اور حرام ہے اس بستی پر جسے ہم نے ہلاک کردیا کہ پھر لوٹ کر آئیں۔ت)
ایک شہر کے لئے ہے، بعض افراد کا بعد موت دنیا میں پھر آنا خود قرآن کریم سے ثابت ہے جیسے سیدنا عزیر علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
قال اﷲ تعالیٰ:
فَاَ مَاتَه ُاﷲُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ 6
(تو اﷲ نے اسے مردہ رکھا سو برس، پھر زندہ کردیا۔ ت)
چاروں طائرانِ خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام،
قال اﷲ تعالیٰ:
ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی كُلِّ جَبَلٍ مِنْھُنَّ جُزْءً ا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یاتِیَنکَ سَعْیا 7
(پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے، پھر انہیں بلا، وہ تیرے پاس چلے آئیں گے دوڑتے ہوئے۔ت)
ہاں مشرکین ملاعنہ منکرین بعث اسے محال جانتے ہیں اور دربارہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام قادیانی بھی اس قادر مطلق عزّ جلالہ کو معاذاﷲ صراحۃً عاجز مانتا اور دافع البلاء کے صفحہ ۳۴ پر یوں کفر بکتا ہے:
خدا ایسے شخص کو پھر دنیا میں نہیں لا سکتا جس کے پہلے فتنے ہی نے دنیا کو تباہ کردیا ہے۔ 8
مشرک وقادیانی دونوں کے رد میں اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
اَفَعَیینَا بِا لْخَلْقِ الْاَوَّلِ ، بَلْ ھُمْ فیِ لَبِسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِید 9
(تو کیا ہم پہلی بار بنا کر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہہ میں ہیں۔ت)
جب صادق ومصدوق ﷺ نے ان کے نزول کی خبر دی اور وہ اپنی حقیقت پر ممکن و داخل زیر قدر ت و جائز، تو انکار نہ کرے گا مگر گمراہ۔
(۳) اگر وہ حکم افراد کو بھی عام مانا جائے تو موت بعدِ استیفائے اجل کے لئے ہے، اس سے پہلے اگر کسی وجہ خاص سے اماتت ہو تو مانع اعادت نہیں بلکہ استیفائے اجل کے لئے ضرور اور ہزاروں کے لئے ثابت ہے،
قال اﷲ تعالیٰ:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِین خَرَجُوْا مِنْ دِیارِھِمْ وَھُمْ اُلُوف حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اﷲ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیاھُمْ 10
(اے محبوب! کیا تم نے نہ دیکھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، تو اﷲ نے ان سے فرمایا مرجاؤ، پھر انہیں زندہ فرمادیا۔ت)
قتادہ نے کہا:
اَمَا تَھُمْ عُقُوْبَة ثُمَّ بُعِثُوْا لِیتوَفَّوْا مُدَّة اٰجَا لِھِمْ وَلَوْ جَآءَ تْ اٰجَا لُھُمْ مَا بُعِثُوْا۔ (معناً) 11
(اﷲ تعالیٰ نے ان کو سزا کے طور پر موت دی پھر زندہ کر دئیے گئے تاکہ اپنی مقررہ عمر کو پورا کریں، اگر ان کی مقررہ عمر پوری ہوجاتی تو دوبارہ نہ اٹھائے جاتے۔ ت)
(۴) اس وقت حیات و وفاتِ حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مسئلہ قدیم سے مختلف چلا آتا ہے مگر آخر زمانے میں ان کے تشریف لانے اور دجّال لعین کو قتل فرمانے میں کسی کو کلام نہیں، یہ بلا شبہ اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے تو وفات مسیح نے قادیانی کو کیا فائدہ دیا اور مغل بچہ، عیسٰی رسول اﷲ بے باپ سے پیدا ابن مریم کیونکر ہوسکا؟ قادیانی اس اختلاف کو پیش کرتے ہیں، کہیں اس کا بھی ثبوت رکھتے ہیں کہ اس پنجابی کے ابتداع فی الدین سے پہلے مسلمانوں کا یہ اعتقاد تھا کہ عیسٰی آپ تو نہ اتریں گے کوئی ان کا مثیل پیدا ہوگا، اسے نزول عیسٰی فرمایا گیا اور اس کو ابن مریم کہا گیا؟ اور جب یہ عام مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف ہے تو آیت:
یتبِعْ غَیر سَبِیل الْمُؤْمِنِین نُوَلِّه مَا تَوَلّی وَنُصْلِه جَھَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا12
(مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کرینگے اور کیا ہی بُری جگہ پلٹنے کی۔ت)
کا حکم صاف ہے۔
(۵) مسیح سے مثیل مسیح مراد لینا تحریف نصوص ہے کہ عادتِ یہود ہے، بے دینی کی بڑی ڈھال یہی ہے کہ نصوص کے معنی بدل دیں ۔
یحُرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه13
(اﷲ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدل دیتے ہیں۔ت)
ایسی تاویل گھڑنی نصوصِ شریعت سے استہزاء اور احکام وارشادات کو درہم برہم کر دینا ہے، جس جگہ جس شی کا ذکر آیا، کہہ سکتے ہیں وہ شی خود مراد نہیں اس کا مثیل مقصود ہے، کیا یہ اس کی نظیر نہیں جو اباحیّہ مُلا عِنہ کہا کرتے ہیں کہ نماز و روزہ فرض ہے نہ شراب و زنا حرام بلکہ وہ کچھ اچھے لوگوں کے نام ہیں جن سے محبت کا ہمیں حکم دیا گیا اور یہ کچھ بدوں کے جن سے عداوت کا۔
(۶) بفرضِ باطل اینہم برعلم اس سے قادیان کا مرتد، رسول اﷲ کا مثیل کیونکر بن بیٹھا؟ کیا اس کے کفر، اس کے کذب، اس کی وقاحتیں، اس کی فضیحتیں، اس کی خباثتیں، اس کی ناپاکیاں، اس کی بیباکیاں کہ عالم آشکار ہیں، چھپ سکیں گی؟ اور جہان میں کوئی عقل و دین والا ابلیس کو جبریل کا مثیل مان لے گا؟ اس کے خرو ارِہزار ہا کفریات سے مُشتے نمونہ، رسائل السوء والعقاب علی المسیح الکذاب و قہر الدیان علٰی مرتدٍ بقادیان و نور الفرقان و باب العقائد والکلام وغیرہا میں ملا حظہ ہوں کہ یہ نبیوں کی علانیہ تکذیب کرنے والا، یہ رسولوں کو فحش گالیاں دینے والا، یہ قرآن مجید کو طرح طرح رد کرنے والا، مسلمان بھی ہونا محال، نہ کہ رسول اﷲ کی مثال، قادیانیوں کی چالاکی کہ اپنے مسیلمہ کے نامسلم ہونے سے یوں گریز کرتے اور اس کے ان صریح ملعون کفروں کی بحث چھوڑ کر حیات و وفات مسیح کا مسئلہ چھیڑتے ہیں۔
(۷) مسیح رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشہور اوصافِ جلیلہ اور وہ کہ قرآن عظیم نے بیان کئے، یہ تھے کہ اﷲ عزّوجل نے ان کو بے باپ کے کنواری بتول کے پیٹ سے پیدا کیا نشانی سارے جہان کے لئے:
قَالَتْ اَنّٰی یکوْنُ لِیْ غُلٰم وَّلَمْ یمسَسنِی بَشَر وَّلَمْ اَکُ بَغِیا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَین وَّ لِنَجْعَلَه اٰیة لِّلنَّا سِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَكانَ اَمْرَاً مَّقْضِیا 3
بولی میرے لڑکا کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہ لگایا، نہ میں بدکار ہوں، کہا یونہی ہے، تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے اور اس لئے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ امر ٹھہر چکا ہے۔(ت)
انہوں نے پیدا ہوتے ہی کلام فرمایا:
فَنَا دٰھا مِنْ تَحْتِها اَلاَّ تحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا( الآیة)14
تو اس کے نیچے والے نے اسے آواز دی کہ تو غم نہ کر، تیرے رب نے تیرے نیچے نہر بہادی ہے۔
عَلَى قِرَاءَةِ ’’مِنْ تَحْتِها‘‘ بِالفَتْحِ فِيهِمَا، وَتَفْسِيرِهِ بِالمَسِيحِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ (معناً) 15
اس قرأ ت پر جس میں مَنْ کی میم مفتوح اور تَحْتَہَا کی دوسری تاء مفتوح ہے اور اس کی تفسیر حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کی گئی ہے۔
انہوں نے گہوارے میں لوگوں کو ہدایت فرمائی۔
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا 16
لوگوں سے باتیں کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں۔ (ت)
انہیں ماں کے پیٹ یا گود میں کتاب عطا ہوئی، نبوت دی گئی،
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا 17
بچہ نے فرمایا میں ہوں اﷲ کا بندہ، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔
وہ جہاں تشریف لے جائیں برکتیں ان کے قدم کے ساتھ رکھی گئیں۔
وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ 18
اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں۔ (ت)
برخلاف کفرِطاغیہ قادیان کہ کہتا ہے جس کے پہلے فتنے ہی نے دنیا کو تباہ کر دیا۔
انہیں اپنے غیبوں پر مسلّط کیا،
عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖ اَحَدًااِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ 19
غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔(ت)
جس کا ایک نمونہ یہ تھا کہ لوگ جو کچھ کھاتے اگرچہ سات کوٹھڑیوں میں چُھپ کر،اور جو کچھ گھروں میں ذخیرہ رکھتے اگرچہ سات تہ خانوں کے اندر، وہ سب ان پر آئینہ تھا۔
وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِكُمْ 20
اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ (ت)
انہیں تورات مقدس کے بعض احکام کا ناسخ کیا،
وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ لِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَیْكُمْ 21
اور تصدیق کرتا آیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی اور اس لئے کہ حلال کروں تمہارے لئے کچھ وہ چیزیں جو تم پر حرام تھیں۔ (ت)
انہیں قدرت دی کہ مادر زاد اندھے اور لا علاج برص کو شفا دیتے،
وَ تُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ 22
اور تو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے شفا دیتا۔ (ت)
انہیں قدرت دی کہ مردے زندہ کرتے،
وَ اِذْ تُخْرِ جُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْ 23
وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ 24
اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے زندہ نکالتا۔ اور میں مردے جِلاتا ہوں اﷲ کے حکم سے۔ (ت)
ان پر اپنے وصفِ خالقیت کا پر تو ڈالا کہ مٹی سے پرند کی صورت خلق فرماتے اور اپنی پھونک سے اس میں جان ڈالتے کہ اُڑتا چلا جاتا،
وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ 25
اور جب تو مٹی سے پرند کی سی مورت میرے حکم سے بناتا پھراس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا۔(ت)
ظاہر ہے کہ قادیانی میں ان میں سے کچھ نہ تھا پھر وہ کیونکر مثیل مسیح ہوگیا؟
اخیر کی چار یعنی مادر زاد اندھے اور ابرص کو شفاء دینا، مردے جِلانا، مٹی کی مورت میں پھونک سے جان ڈال دینا، یہ قادیانی کے دل میں بھی کھٹکے کہ اگر کوئی پوچھ بیٹھا کہ تو مثیل مسیح بنتا ہے ان میں سے کچھ کر دکھا اور وہ اپنا حال خوب جانتا تھا کہ سخت جھوٹا ملوم ہے اور الٰہی برکات سے پورا محروم، لہٰذا اس کی یوں پیش بندی کی کہ قرآن عظیم کو پسِ پشت پھینک کر رسول اﷲ کے روشن معجزوں کو پاؤں تلے مل کر صاف کہہ دیا کہ معجزے نہ تھے مسمریزم کے شعبدے تھے، میں ایسی باتیں مکروہ نہ جانتا تو کر دکھاتا، وہی ملاعنہ مشرکین کا طریقہ اپنے عجز پریوں پردہ ڈالنا کہ:
لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَاۤ 26
اگر ہم چاہتے تو ایسا کلام کہتے۔
ہم چاہتے تو اس قرآن کا مثل تصنیف کر دیتے ہم خود ہی ایسا نہیں کرتے، أَلَا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الكَافِرِينَ
قادیانی خَذَ لَہُ اﷲ کے ازالہ اوہام ص ۳،۴،۵ و نوٹ آخر میں ۱۵۱ تا آخر صفحہ ۱۶۲ ملاحظہ ہوں جہاں اس نے پیٹ بھر کر یہ کفر بکے ہیں یا ان کی تلخیص رسالہ قہر الدیان ص ۱۰ تا ۱۵ مطالعہ ہوں، یہاں دو چار صرف بطور نمونہ منقول:
ملعون ازالہ ص ۳:
احیاءِ جسمانی کچھ چیز نہیں۔27
ملعون ازالہ ص ۴:
کیا تالاب کا قصّہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا۔28
ملعون ازالہ ص ۱۵۱ :
شعبدہ بازی اور دراصل بے سود، عوام کو فریفتہ کرنے والے مسیح اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس تک نجاری کرتے رہے، بڑھئی کا کام درحقیقت ایسا ہے جس میں کلوں کے ایجاد میں عقل تیز ہوجاتی ہے، بعض چڑیاں کل کے ذریعہ سے پرواز کرتی ہیں، بمبئی کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں، یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے اعجاز مسمریزمی بطور لہو و لعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں، سلبِ امراض مسمریزم کی شاخ ہے ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جو اس سے سلبِ امراض کرتے ہیں، مبروص ان کی توجہ سے اچھے ہوتے ہیں، مسیح مسمریزم میں کمال رکھتے تھے،یہ قدر کے لائق نہیں، یہ عاجز اس کو مکروہ قابل نفرت نہ سمجھتا تو ان عجوبہ نمائیوں میں ابن مریم سے کم نہ رہتا، اس عمل کا ایک نہایت بُرا خاصہ ہے جو اپنے تئیں اس میں ڈالے روحانی تاثیروں میں بہت ضعیف اورنکّما ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسیح جسمانی بیماریوں کو اس عمل (مسمریزم) سے اچھا کرتے، مگر ہدایت توحید اور دینی استقامتوں کے دلوں میں قائم کرنے میں ان کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے، ان پرندوں میں صرف جھوٹی حیات، جھوٹی جھلک نمودار ہوجاتی تھی، مسیح کے معجزات اس تالاب کی وجہ سے بے رونق بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے پہلے مظہرِ عجائبات تھا، بہرحال یہ معجزہ صرف ایک کھیل تھا جیسے سامری کا گوسالہ۔29
مسلمانو! دیکھا، ان ملعون کلمات میں وہ کون سی گالی ہے جو رسول اﷲ کو نہ دی اور وہ کونسی تکذیب ہے جو آیاتِ قرآن کی نہ کی، اتنے ہی جملوں میں تینتیس(۳۳) کفر ہیں۔
بہرحال یہ تو ثابت ہوا کہ یہ مرتد مثیل مسیح نہیں،مسلمانوں کے نزدیک یوں کہ وہ نبی مرسل اولواالعزم صاحب معجزات وآیات بینات، اور یہ مردود و مطرود و مرتد وموردِ آفات، اور خود اس کے نزدیک یوں کہ معاذاﷲ وہ شعبدہ باز بھانمتی مسمریزمی تھے، روحانی تاثیروں میں ضعیف نکمّے اوریہ ڈال کا ٹوٹا مقدس مہذب برگزیدہ ہادی، اَلَالَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ خبردار! ظالموں پر خدا کی لعنت۔(ت)
ہاں ایک صورت ہے، اس نے اپنے زعمِ ملعون میں مسیح کے یہ اوصاف گنے،
دافع البلاء ص ۴:
مسیح کی راستبازی اپنے زمانے میں دوسروں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحیٰ کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ (یحیٰ) شراب نہ پیتا تھا، کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ نے اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی، اسی وجہ سے خدا نے یحیٰ کا نام حصور رکھا مسیح نہ رکھا کہ ایسے قصے اس نام کے رکھے سے مانع تھے۔30
ضمیمہ انجام آتھم ص ۷:
آپ (یعنی عیسٰی) کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے (یعنی عیسٰی بھی ایسوں ہی کی اولاد تھے) ورنہ کوئی پرہیزگار ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگائے، زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے، اپنے بال اس کے پیروں پر ملے، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔ 31
ص۶:
حق یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا۔ 32
ص۷:
آپ کے ہاتھ میں سوا مکروفریب کے کچھ نہ تھا، آپ کا خاندان بھی نہایت ناپاک ہے، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا۔33
یہ پچاس کفر ہوئے۔
نیز اسی رسالہ ملعونہ میں ص ۴ سے ۸ تک بحیلہ باطلہ مناظرہ خود ہی جلے دل کے پھپھولے پھوڑے، اﷲ عزوجل کے سچے رسو ل مسیح عیسٰی بن مریم کو نادان، شریر، مکار، بدعقل، زنا نے خیال والا، فحش گو، بدزبان، کٹیل، جھوٹا،چور، علمی عملی قوت میں بہت کچاّ، خلل دماغ والا، گندی گالیاں دینے والا، بدقسمت، نرافریبی، پیروِشیطان وغیرہ وغیرہ خطاب اس قادیانی دجّال نے دئیے اور اس کے تین کفر اوپر گزرے کہ اﷲ مسیح کو دوبارہ نہیں لا سکتا، مسیح فتنہ تھا، مسیح کے فتنے نے تباہ کر دیا۔ یہ سب ستر کفر ہوئے اور ہزاروں ستر کی گنتی کیا، غرض تیس سے اوپر اوصاف اس دجّال مرتد نے اپنے مزعوم مسیح میں بتائے، اگر قادیانی خود اپنے لئے ان میں سے دس وصف بھی قبول کرلے کہ یہ شخص یعنی یہی قادیانی بدچلن، بدمعاش، فریبی، مکار، زنانے خیال والا، کٹیل بھی جھوٹا، چور، گندی گالیوں والا، ابلیس کا چیلہ، کنجریوں کی اولاد، کسبیوں کا جنا ہے، زنا کے خون سے بنا ہے، تو ہم بھی اس کی مان لیں گے کہ یہ ضرور مثیل مسیح ہے مگر کون سے مسیح کا؟ اسی مسیح قبیح کا جو اس کا موہوم ومزعوم ہے، اَلَا لَعْنَۃُاللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
مسلمانو! یہ سات فائدے محفوظ رکھئے، کیسا آفتاب سے زیادہ روشن ہوا کہ قادیانیوں کا مسئلہ وفات وحیاتِ مسیح چھیڑنا کیسا ابلیسی مکر، کیسی عبث بحث، کیسی تضییع وقت، کیسا قادیانی کے صریح کفروں کی بحث سے جان چھڑانا اور فضول زق زق میں وقت گنوانا ہے!
اس کے بعد ہمیں حق تھا کہ ان ناپاک وبے اصل و پا،در ہوا شبہوں کی طرف التفات بھی نہ کرتے جو انہوں نے حیاتِ رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام پر پیش کئے، ایسی مہمل عیاریوں کیادیوں کا بہتر جواب یہی تھا کہ ہشت پہلے قادیانی کے کفر اٹھاؤ یا اسے کافر مان کر توبہ کرو، اسلام لاؤ، اس کے بعد یہ فرعی مسئلہ بھی پوچھ لینا مگر ہم ان مرتدین سے قطع نظر کر کے اپنے دوست سائل سُنّی المذہب سے جوابِ شبہہات گزارش کرتے ہیں، وَبِاﷲِ التَّوْفِیق
(کریمہ)
وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ( ا لاٰیة)34
یہ شبہہ مرتدانِ حال نے کافرانِ ماضی سے ترکہ میں پایا ہے، جب آیہ کریمہ:
اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 35
نازل ہوئی کہ بیشک تم اور جوکچھ تم اﷲ کے سوا پوجتے ہو سب دوزخ کے ایندھن ہو تمہیں اس میں جانا ہے۔ مشرکین نے کہا کہ ملائکہ اور عیسٰی اور عزیر بھی تو اﷲ کے سوا پوجے جاتے ہیں، اس پر رب عزوجل نے ان جھگڑالو کا فروں کو قرآن کریم کی مراد بتائی کہ آیت بتوں کے حق میں ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰي اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا 36
بیشک وہ جن کے لئے ہمارا بھلائی کا وعدہ ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں وہ اس کی بھنک تک نہ سنیں گے۔
قرآن کریم نے خود اپنا محاورہ بتایا جب بھی مرتدوں نے وہی راگ گایا۔ ابوداؤد کتاب الناسخ والمنسوخ میں اور فریابی عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم طبرانی و ابن مردویہ اور حاکم مع تصحیح مستدرک میں حضرت عبداﷲ بن عباس سے راوی:
لَمَّا نَزَلَتْ أَنتُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ الْمَلَائِكَةُ وَعِيسَى وَعُزَيْرٌ يُعْبَدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَنَزَلَتْ (إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحَسَنَةُ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ) 37
جب یہ آیت نازل ہوئی۔اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ (الاٰیۃ)تو مشرکین نے کہا ملائکہ، حضرت عیسٰی اور حضرت عزیر کو بھی اﷲ تعالیٰ کے سوا پوجا جاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی ان الذین سبقت (الاٰیۃ) بیشک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔
یدعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ یقینا مشرکین ہیں اور قرآنِ عظیم نے اہل کتاب کو مشرکین سے جدا کیا، ان کے احکام ان سے جدا رکھے، ان کی عورتوں سے نکاح صحیح ہے مشرکہ سے باطل، اِن کا ذبیحہ حلال ہوجائے گا، اُن کا مردار،
قال تعالیٰ:
لَمْ یَكُنِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ مُنْفَكِّیْنَ حَتّٰى تَاْتِیَهُمُ الْبَیِّنَةُ 38
(کتابی کافر اور مشرک اپنا دین چھوڑنے کو نہ تھے جب تک ان کے پاس دلیل نہ آئے۔ ت)
قال تعالیٰ:
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا اُولٰٓىٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ 39
بیشک جتنے کافر ہیں کتابی اور مشرک سب جہنم کی آگ میں ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے، وہی تمام مخلوق سے بدتر ہیں(ت)
قال اﷲ تعالیٰ:
مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ 40
(وہ جو کافر ہیں کتابی یا مشرک، وہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھلائی اترے تمہارے رب کے پاس سے۔ت)
قال اﷲ تعالیٰ:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّا نَصٰرٰى 41
ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور ضرور تم مسلمانوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان کو پاؤ گے جنہوں نے کہا کہ بیشک ہم نصارٰی ہیں (ت)
قال اﷲ تعالیٰ:
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَ طَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ 42
آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے اور پارسا عورتیں مسلمان اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی۔(ت)
وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ 43
اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں۔ (ت)
جب قرآن عظیم ’’ید عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ میں نصارٰی کو داخل نہیں فرماتا اس ’’اَلَّذِین‘‘میں مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کیونکر داخل ہوسکیں گے؟
سورت مکیہ ہے اور سوائے عاصم، قُراءِ سبعہ کی قرأت ’’تَدْعُوْنَ ‘‘ بہ تائے خطاب،تو بُت پرست ہی مراد ہیں اور ’’ اَلَّذِین یدعُونَ اَصْنَامٌ ‘‘ (جنہیں وہ پوجتے ہیں وہ بُت ہیں۔ت)
خود آیہ کریمہ طرح طرح دلیل ناطق کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء عموماً اور حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والتسلیم خصوصاً مراد نہیں، جہاں فرمایا
اَمْوَات غَیْر ُاَحْیَاءٍ 44
مردے ہیں زندہ نہیں۔ (ت)
اموات سے متبادریہ ہوتا ہے کہ پہلے زندہ تھے پھر موت لاحق ہوئی لہٰذا ارشاد ہوا ’’غَیر اَحْیاءٍ‘‘ یہ وہ مردے ہیں کہ نہ اب تک زندہ ہیں نہ کبھی تھے نرِے جماد ہیں، یہ بتوں ہی پر صادق ہے،
تفسیر ارشاد العقل السلیم میں ہے:
حَیۡثُ كانَ بَعضُ الأَمْواتِ مِمّا یَعْتَرِیهِ الحَیاةُ سابِقًا أَو لاحِقًا كأَجْسادِ الحَیَوانِ وَالنُّطَفِ الَّتِی یُنْشِئُها اللهُ تَعالى حَیَوانًا، احْتَرَزَ عَنْ ذٰلِکَ فَقِیلَ: غَیْرَ أَحْیاءٍ، أَي لا یَعْتَرِیها الحَیاةُ أَصْلًا، فَهِیَ أَمْواتٌ عَلَى الإِطْلاقِ45
بعض اموات وہ تھے جنہیں زندگی حاصل تھی جیسے مردہ حیوان کا جسم، اور بعض وہ ہیں جنہیں زندگی ملنے والی ہے مثلاً نطفہ جسے اﷲ تعالیٰ مستقبل میں حیوان بنائے گا اس لئے ایسے اموات سے احتراز کیا اور فرمایا غیر احیاء یعنی یہ وہ اموات ہیں جنہیں زندگانی (ماضی یا مستقبل میں) بالکل حاصل نہیں لہٰذا یہ علی الاطلاق اموات ہیں۔
رب عزوجل فرماتا ہے:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ 46
خبردار! شہیدوں کو ہرگز مردہ نہ جا نیو بلکہ وہ اپنے رب کے یہاں زندہ ہیں، روزی پاتے ہیں، اﷲ نے جو اپنے فضل سے دیا اس پر خوش ہیں۔
اور فرماتا ہے:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ 47
جو اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں تمہیں خبر نہیں۔
محال ہے کہ شہید کو تو مردہ کہنا حرام، مردہ سمجھنا حرام اور انبیاء معاذ اﷲ مردے کہے سمجھے جائیں، یقیناً قطعاً ایماناً وہ ’’اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ‘‘ زندہ ہیں مردے نہیں۔(ت) ہیں نہ کہ عیاذًا باﷲ’’اموات غَیر اَحْیاءٍ‘‘ (مردے ہیں زندہ نہیں۔ت) جس وعدہ الٰہیہ کی تصدیق کے لئے ان کو عروضِ موت ایک آن کے لئے لازم ہے قطعاً شہداء کو بھی لازم ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ 48
(ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ت)
پھر جب یہ ’’اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ‘‘ ہیں وہ یقیناً ان سے لاکھوں درجے زائد’’اَحْیاء غَیر اَمْوَاتٍ‘‘ ہیں نہ کہ ’’اَمْوات غَیر اَحْیاءٍ‘‘
آیہ کریمہ میں ’’وَھُمْ قَدْ خُلِقُوْا‘‘ بصیغہ ماضی نہیں بلکہ
وَھُمْ یخلَقُوْنَ 49
بصیغہ مضارع ہے کہ دلیل تجدّد واستمرار ہو یعنی بنائے گھڑے جاتے ہیں اور نئے نئے بنائے گھڑے جائیں گے، یہ یقینا بُت ہیں۔
آیہ کریمہ میں ان سے کسی چیز کی خلق کا سلبِ کُلّی فرمایا کہ:
لاَیخلُقُوْنَ شَیئاً 50
(وہ کوئی چیز نہیں بناتے۔ت)
اور قرآن عظیم نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بعض اشیاء کی خلق ثابت فرمائی،
واِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّین کَھَیئَة الطَّیر 51
(اور جب تو مٹی سے پرند کی مورت بناتا)
اور ایجاب جزئیِ نقیض سلبِ کُلیّ ہے تو عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر صادق نہیں، نامناسب سے قطع نظر ہو تو اَمْوَات قضیہ مطلقہ عامہ ہے یا دائمہ بر تقدیر ثانی یقینا انس وجن وملک سے کوئی مراد نہیں ہوسکتا کہ ان کیلئے حیات بالفعل ثابت ہے نہ کہ ازل سے ابد تک دائم موت، برتقدیر اوّل قضیہ کا اتنا مفاد کہ کسی نہ کسی زمانے میں ان کو موت عارض ہو، یہ ضرور عیسٰی وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام سب کے لئے ثابت، بیشک ایک وقت وہ آئے گا کہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پائیں گے اور روز قیامت ملائکہ کو بھی موت ہے، اس سے یہ کب ثابت ہوا کہ موت ہوچکی، ورنہ ’’ید عُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ ‘‘ میں ملائکہ بھی داخل ہیں، لازم کہ وہ بھی مر چکے ہوں، اور یہ باطل ہے۔
تفسیر انوار التنزیل میں ہے:
(اَمْوَات)حالاً او ماٰلاً غیر احیاءٍ بالذَّاتِ لیتناول كلَّ معبودٍ52
(مردے حال میں یا آئندہ غیر زندے بالذات تاکہ ہر معبود کو شامل ہو۔ت)
تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے:
فالمرادُ مالا حَيَاةَ لَهُ سواءٌ كانَ لَهُ حَيَاةٌ ثمَّ ماتَ عَزيرٍ أو سيَموتُ كَعِيسَى والملائكةِ عليهم السلام أوليسَ من شأنِهِ الحياة كالأصنامِ 53
یعنی ان اموات سے عام مراد ہے خواہ اس میں حیات کی قابلیت ہی نہ ہو جیسے بت، یا حیات تھی اور موت عارض ہوئی جیسے عزیر، یا آئندہ عارض ہونے والی ہے جیسے عیسٰی وملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔
منکرین دیکھیں کہ ان کا شبہہ ہر پہلو پر مردود ہے، وﷲ الحمد ۔
لَعَنَ اﷲُ الْیھوْدَ وَالنَّصَارٰي 54
اﷲ تعالیٰ یہود ونصاری پر لعنت فرمائے۔
وَالْمِرْزَائِیة لَعَنَھُمْ لَعْنًا كَبِیراً
(میں کہتا ہوں کہ مرزائیوں پر بھی بڑی لعنت ہو)
اَنْبِیائِھِمْ55 میں اضافت استغراق کے لئے نہیں کہ موسٰی سے یحیٰ علیہما الصلوٰۃ والسلام تک ہر نبی کی قبر کو یہود ونصارٰی سب نے مسجد کر لیا ہو، یہ یقیناً غلط ہے، جس طرح وَقَتْلِھِمُ الْاَنْبِیاء بِغَیر حَقٍّ3 (انہوں نے انبیاء کو ناحق شہید کیا۔ ت) میں اضافت ولام کوئی استغراق کا نہیں کہ نہ سب قاتل اور نہ سب انبیاء شہید کئے،
قال اﷲ تعالیٰ:
فَفَرِیْقًا كَذَّبتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ 56
(انبیاء کے ایک گروہ کو تم نے جھٹلایا اور ایک گروہ کو قتل کرتے ہو۔ت)
اور جب استغراق نہیں تو بعض میں مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا داخل کر لینا ادّعائے باطل ومردود ہے، یہود کے سب انبیاء نصارٰی کے بھی انبیاء تھے، یہود ونصاریٰ کا ان میں بعض قبورِ کریمہ کو (مسجد بنا لینا) صدقِ حدیث کے لئے بس اور اس سے زیادہ مرتدین کی ہوس۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں یہ اشکال ذکر کر کے کہ نصارٰی کے انبیاء کہاں ہیں، ان کے تو صرف ایک عیسٰی نبی تھے ان کی قبر نہیں، ایک جواب یہی دیا جو بتوفیقہ تعالیٰ ہم نے ذکر کیا کہ:
أَوِ الْمُرَادُ بِالِاتِّخَاذِ أَعَمُّ مِنْ أَنْ يَكُونَ ابْتِدَاعًا أَوِ اتِّبَاعًا فَالْيَهُودُ ابْتَدَعَتْ وَالنَّصَارَى اتَّبَعُوا، وَلَا رَيْبَ أَنَّ النَّصَارَى تَعَظَّمَ قُبُورَ كَثِيرٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ تَعَظِّمُهُمُ الْيَهُودُ 57
انبیاء کی قبروں کو مسجد بنانا عام ہے کہ ابتداً ہو یا کسی کی پیروی میں، یہودیوں نے ابتداء کی اور عیسائیوں نے پیروی کی، اور اس میں شک نہیں کہ نصاریٰ بہت سے ان انبیاء کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں جن کی یہودی تعظیم کرتے ہیں۔
امام حافظ الشان (ابن حجر) نے دوسرا جواب یہ دیا کہ اس روایت میں اقتصار واقع ہوا، واقع یہ ہے کہ یہود اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد کرتے اور نصاریٰ اپنے صالحین کی قبروں کو، ولہٰذا صحیح بخاری حدیث ابو ہریرہ میں دربارہ قبور انبیاء تنہا یہود کا نام ہے:
إِنَّ رُسُلَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ 58
فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے ا ﷲ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک فرمائے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا۔
اور صحیح بخاری حدیث اُم سلمہ میں جہاں تنہا نصاریٰ کا ذکر تھا صرف صالحین کا ذکر فرمایا، انبیاء کا نام نہ لیا کہ:
قال رسولُ الله ﷺ: أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ العَبْدُ الصَّالِحُ أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَىٰ قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ59
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: نصاریٰ وہ قوم ہے کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصویریں بناتے۔
اور صحیح مسلم حدیث جندب میں یہود ونصاریٰ دونوں کو عام تھا، انبیاء وصالحین کو جمع فرمایا کہ:
سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: الْأَوَّلُونَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ60
میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیتے تھے۔ ہمیشہ جمع طرق سے معنی حدیث کا ایضاح ہوتا ہے۔
چالاکی بھی سمجھئے! یہ فقط قبرِ عیسٰی ثابت کرنا نہیں بلکہ اس میں بہت اہم راز مضمر ہے، قادیانی مدعیِ نبوت تھا اور سخت جھوٹا کذاب جس کے سفید چمکتے ہوئے جھوٹ وہ محمدی والے نکاح، اور انبیاء کے چاند والے بیٹے قادیان و قادیانیہ کے محفوظ از طاعون رہنے کی پیشین گوئیاں وغیرہا ہیں، اور ہر عاقل جانتا ہے کہ نبوت اور جھوٹ کا اجتماع محال، اس سے قادیانی کا سارا گھر ہر عاقل کے نزدیک گھروندا ہوگیا اس لئے فکر ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو معاذ اﷲ جھوٹا ثابت کریں کہ قادیانی کذاب کی نبوت بھی بن پڑے، اس کا علاج خود قادیانی نے اپنے ازالہ اوہام ص ۶۲۹ پر یہ کیا کہ ایک زمانے میں چار سو نبیوں کی پیشگوئی غلط ہوئی اور وہ جھوٹے، یہ اس مرتدکے اکٹھے چار سو کفر کہ ہر نبی کی تکذیب کفر ہے، بلکہ کروڑوں کفر ہیں کہ ایک نبی کی تکذیب تمام انبیاء اﷲ کی تکذیب ہے،
قال اﷲ تعالیٰ:
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ نِ الْمُرْسَلِیْنَ 61
(نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ ت)
تو اس نے چار سو ہر نبی کی تکذیب کی، اگر انبیاء ایک لاکھ (عہ 1)چوبیس ہزار ہیں تو قادیانی کے چار کروڑ چھیانوے لاکھ کفر، اور اگر دو لاکھ(عہ 2) چوبیس ہزار ہیں تو یہ اس کے آٹھ کروڑ چھیانوے لاکھ کفر ہیں، اور اب ان مرزائیوں نے خود یا اسی سے سیکھ کر اندارج کفر میں اور ترقی معکوس کر کے اسفل سافلین پہنچنا چاہا کہ معاذاﷲ معاذاﷲ سید المرسلین محمد رسول اﷲ ﷺ وعلیہم اجمعین کا جھوٹ ثابت کریں، اس حدیث کے یہ معنے گھڑے کہ نصارٰی نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قبر کو مسجد کر لیا، یہ صریح سپید جھوٹ ہے، نصارٰی ہر گز مسیح کی قبر ہی نہیں مانتے اسے مسجد کر لینا تو دوسرا درجہ ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ دیکھو مصطفی ﷺ ( کے دشمنوں) نے (خاک بدہنِ ملعونان) کیسی صریح جھوٹی خبر دی پھر اگر ہمارا قادیانی نبی جھوٹ کے پھنکے اڑاتا تھا تو کیا ہوا قادیانی مرتدین کا اگر یہ مطلب نہیں تو جلد بتائیں کہ نصارٰی مسیح علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قبر کب مانتے ہیں، کہاں بتاتے ہیں، کس کس نصرانی نے اس قبر کو مسجد کر لیا جس کا مصطفی ﷺ نے ذکر کیا، اس مسجد کا روئے زمین پر کہیں پتا ہے؟ ان نصرانیوں کا دنیا کے پردے پر کہیں نشان ہے؟ اور جب یہ نہ بتا سکو اور ہرگز نہ بتا سکو گے تو اقرار کر و کہ تم نے محمد رسول اﷲ ﷺ کے ذمّے معاذاﷲ دروغ گوئی کا الزام لگانے کو حدیث کے یہ معنی گھڑے اور:
(حاشیہ)
(عہ 1)کما رواہ احمد وابن حبان والحاکم والبیھقی وغیر ھم عن ابی ذرو ھٰؤلاء وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما ۱۲ منہ غفرلہ (م)62ترجمہ:جیسا کہ احمدابن حبان، حاکم، بیہقی وغیر ہم نے ابو ذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے نیز انہوں نے اور ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابی امامہ سے روایت کیا ۱۲ منہ غفرلہ۔ت)
(عہ 2)کما فی روایۃ علٰی ما فی شرح عقائد النسفی للتفتازانی قال خاتم الحفاظ لم اقف علیھا ۱۲ منہ غفرلہ (م)63 ترجمہ:جیسا کہ دوسری روایت میں ہے جس کو علامہ تفتازانی نے شرح عقائد نسفی میں ذکر فرمایا، خاتم الحفاظ نے فرمایا میں اس پر واقف نہیں ہوا ۱۲ منہ )
(حاشیہ ختم شد )
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا 64
بیشک جو ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر اﷲ کی لعنت دنیا اور آخرت میں اور اﷲ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(ت)
کی گہرائی میں پڑے الا لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین ، کیوں، حدیث سے موت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر استدلال کا مزا چکّھا؟
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ 65
مار ایسی ہوتی ہے اور بیشک آخرت کی مار سب سے بڑی، کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے۔(ت)
(واﷲ تعالیٰ اعلم)
کتبہ العبد المذنب احمد رضا البریلوی عفی عنہ بمحمد ن المصطفٰی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم