logoختم نبوت

السوء والعقاب علی المسیح الکذاب ۔۔۔از۔۔۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ

استفتاء:

مسئلہ 78از امر تسر، کڑہ گر باسنگھ،کوچہ ٹنڈ ا شاہ، مرسلہ جناب مولانا مولوی محمد عبدالغنی صاحب واعظ 21 ربیع الآخر شریف 1320ھ

باسمہٖ سبحانہ مستفتی نے ظاہر کیا کہ ایک شخص نے درآنحا لیکہ مسلمان تھا ایک مسلمہ سے نکاح کیا، زوجین ایک عرصہ تک باہم معاشرت کرتے رہے، اولاد بھی ہوئی، اب کسی قدر عرصہ سے شخص مذکور مرزاقادیانی کے مریدوں میں منسلک ہو کر صبغِ عقائد کفریہ مرزائیہ سے مصطبغ ہو کرعلٰی رؤس الاشہاد ضروریاتِ دین سے انکار کرتا رہتا ہے، سو مطلوب عن الاظہار یہ ہے کہ شخص مذکور شرعاً مرتد ہوچکا اور اس کی منکوحہ اس کی زوجیت سے علٰیحدہ ہوچکی اور منکوحہ مذکورہ کا کل مہر معجل، مؤجل مرتد مذکور کے ذمّہ ہے، اولادِ صغار اپنے والد مرتد کی ولایت سے نکل چکی یا نہ؟ ۔ بینوا توجروا(بیان کر کے اجر حاصل کیجئے۔ ت)


الجواب:

ٱلْـحَمْدُ لِلّٰهِ وَحْدَهُ، وَٱلصَّلٰوةُ وَٱلسَّلَامُ عَلَىٰ مَنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ، وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ ٱلْمُكَرَّمِينَ عِنْدَهُ، رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ ٱلشَّيَاطِينِ، وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ
(تمام تعریفیں اﷲ وحدہ لا شریک کے لئے ہیں، اور صلوٰۃ وسلام اس ذات پر جس کے بعد نبی نہیں ہے اور اس کی آل و اصحاب پر جو عزّت و کرامت والے ہیں، اے رب!میں تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان کی کھلی بدگوئیوں سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں انکے حاضر ہونے سے۔ ت)


اﷲ عزوجل د ین حق پر استقامت عطا فرمائے اور ہر ضلال و وبال ونکال سے بچائے، قادیانی مرزا کا اپنے آپ کو مسیح و مثل مسیح کہنا تو شہرہ آفاق ہے اور بحکم آنکہ ع

عیب می جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو
(شراب کے تمام عیب بیان کئے اب اس کے ہنر بھی بیان کر۔ت)


فقیر کو بھی اس دعوٰی سے اتفاق ہے، مرزا کے مسیح و مثل مسیح ہونے میں اصلاً شک نہیں مگر لا واﷲ نہ مسیح کلمۃ اﷲ علیہ صلوٰۃ اﷲ بلکہ مسیح دجّال علیہ اللّعن و النّکال، پہلے اس ادعائے کاذب کی نسبت سہارن پور سے سوال آیا تھا جس کا ایک مبسوط جواب ولد اعز فاضل نوجوان مولوی حامد رضا خاں محمد حفظہ اﷲ تعالیٰ نے لکھا اور بنام تاریخی ’’الصّارم الربانی علٰی اسراف القادیانی‘‘ مسمّٰی کیا۔ یہ رسالہ حامِی سنن، ماحِی فتن، ندوہ شکن، ندوی فگن، مکر منا قاضی عبدا لوحید صاحب حنفی فردوسی صین عن الفتن نے اپنے رسالہ مبارکہ تحفہ حنفیہ میں کہ عظیم آباد سے ماہوار شائع ہوتا ہے طبع فرمادیا، بحمد اﷲ تعالیٰ اس شہر میں مرزا کا فتنہ نہ آیا، اور اﷲ عزوجل قادر ہے کہ کبھی نہ لائے، اس کی تحریرات یہاں نہیں ملتیں، مجیب ہفتم نے جو اقوال ملعونہ اس کی کتابوں سے بہ نشان صفحات نقل کئے مثیل مسیح ہونے کے ادعا کو شناعت و نجاست میں ان سے کچھ نسبت نہیں ان میں صاف صاف انکار ضروریاتِ دین اور بوجوہ کثیرہ کفر وارتداد مبین ہے فقیر ان میں سے بعض کی اجمالی تفصیل کرے۔


کفر اوّل:

مرزا کا ایک رسالہ ہے جس کا نام ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ ہے ،اس کے صفحہ 673 پر لکھتا ہے:

میں احمد ہوں جو آیت’’مُبَشِّرًا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘میں مراد ہے ۔ 1


آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا مسیح ربّانی عیسٰی بن مریم روح اﷲ علیہما الصلوٰۃ والسلام کلمۃ اﷲ علیہ صلوٰۃ اﷲ نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ مجھے اﷲ عزوجل نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے توریت کی تصدیق کرتا اور اس رسول کی خوشخبری سناتا جو میرے بعد تشریف لانے والا ہے جس کا نام پاک احمد ہے ۔ ازالہ کے قول ملعون مذکور میں صراحتًا ادّعا ہوا کہ وہ رسول پاک جن کی جلوہ افروزی کا مژدہ حضرت مسیح لائے معاذ اﷲ مرزا قادیانی ہے۔


کفر دوم:

توضیح مرام طبع ثانی صفحہ ۹ پر لکھتا ہے کہ:

میں محدث (عہ)ہوں اور محدث بھی ایک معنی میں نبی ہوتا ہے۔2
حاشیہ

(عہ): لا الٰہ الا اﷲ لقد کذب عدوّ اﷲ ایھا المسلمون (اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، دشمن خدا نے جھوٹ بولا اے مسلمانو!۔ ت) سید المحدثین عمر فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ ہیں کہ انہیں کے واسطے حدیث محدثین آئی۔ انہیں کے صدقے میں ہم نے اس پر اطلاع پائی کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:قد کان فیما مضی قبلکم من الامم اناس محدثون فان یکن فی امتی منھم احد فانہ عمر بن الخطاب رواہ احمد والبخاری عن ابی ھریرۃ واحمد ومسلم والترمذی والنسائی عن ام المؤمنین الصدیقۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما3 یعنی اگلی امتوں میں کچھ لوگ محدث ہوتے تھے یعنی فراست صادقہ والہام حق والے، اگر میری امت میں ان میں سے کوئی ہوگا تووہ ضرور عمر بن خطاب ہے رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (اسے احمد اور بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اور احمد،مسلم،ترمذی اور نسائی نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا۔ ت)

فاروق اعظم نے نبوت کے کوئی معنی نہ پائے صرف ارشاد فرمایا: لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب رواہ احمد والترمذی والحاکم عن عقبۃ بن عامر والطبرانی فی الکبیر عن عصمۃ بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنھما3 یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوسکتا تو عمر ہوتا، (اسے احمد و ترمذی اور حاکم نے عقبہ بن عامر سے اور طبرانی نے کبیر میں عصمۃ بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے،ت)

مگر پنجاب کا محدث حادث کہ حقیقۃً نہ محدث ہے نہ محدث ، یہ ضرور ایک معنی پر نبی ہوگیا الا لعنۃ اﷲ علی الکٰذبین (خبردار، جھوٹوں پر خدا کی لعنت۔ ت) والعیاذ باﷲ رب العٰلمین

حاشیہ ختم شد

کفر سوم:

دافع البلاء مطبوعہ ریاض ہند صفحہ 9 پر لکھتا ہے:

''سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔"4

کفر چہارم:

مجیب پنجم نے نقل کیا، ونیز میگو ید کہ :

خدائے تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام امتی بھی رکھا ہے اور نبی بھی،


ان اقوال خبیثہ میں۔ اولاً کلامِ الٰہی کے معنی میں صریح تحریف کی کہ معاذ اﷲ آیت کریمہ میں یہ شخص مراد ہے نہ کہ حضور ﷺ۔


ثانیاً:

نبی اﷲ و رسول اﷲ وکلمۃ اﷲ عیسٰیروح اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر افتراء کیا وہ اس کی بشارت دینے کو اپنا تشریف لانا بیان فرماتے تھے۔


ثالثاً :

اﷲ عزوجل پر افتراء کیا کہ اس نے عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس شخص کی بشارت دینے کے لئے بھیجا، اور اﷲ عزوجل فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ 5
بیشک جو لوگ اﷲ عزوجل پر جھوٹ بہتان اٹھاتے ہیں فلاح نہ پائیں گے۔

اور فرماتا ہے:

اِنَّمَا یَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ6
ایسے افتراء وہی باندھتے ہیں جو بے ایمان کافر ہیں۔


رابعاً:

اپنی گھڑی ہوئی کتاب براہین غلامیہ کو اﷲ عزوجل کا کلام ٹھہرایا کہ خدائے تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں یوں فرمایا، اور اﷲ عزوجل فرماتا ہے:

فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ 3
خرابی ہے ان کے لئے جو اپنے ہاتھوں کتاب لکھیں پھر کہہ دیں یہ اﷲ کے پاس سے ہے تاکہ اس کے بدلے کچھ ذلیل قیمت حاصل کریں، سو خرابی ہے ان کے لئے ان کے لکھے ہاتھوں سے اور خرابی ہے ان کے لئے اس کمائی سے۔


ان سب سے قطع نظر ان کلمات ملعونہ میں صراحۃً اپنے لئے نبوت و رسالت کا ادعائے قبیحہ ہے اور وہ باجماعِ قطعی کفر صریح ہے، فقیر نے رسالہ جزاء اﷲ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ1317ھ خاص اسی مسئلے میں لکھا اور اس میں آیت قرآن عظیم اور ایک سو دس (110) حدیثوں اور تیس (30) نصوں کو جلوہ دیا، اور ثابت کیا کہ محمد رسول اﷲ ﷺ کو خاتم النبیین ماننا، ان کے زمانہ میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقینا قطعاًمحال و باطل جاننا فرض اجل وجزءِ ایقان ہے ۔

وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّنْ 7
(ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ ت)

نص قطعی قرآن ہے اس کا منکر، نہ منکر بلکہ شک کرنے والا، نہ شاک کہ ادنٰی ضعیف احتمال خفیف سے تو ہم خلاف رکھنے والا قطعاً اجماعاً کافر ملعون مخلد فی النیران ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے اس عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی، کافر ہونے میں شک و تردّد کو راہ دے وہ بھی کافر ہیں، الکفر جلی الکفران ہے،

قول دوم وسوم میں شائد وہ یااس کے اذناب آج کل کے بعض شیاطین سے سیکھ کر تاویل کی آڑلیں کہ یہاں نبی ورسول سے معنی لغوی مراد ہیں یعنی خبردار یا خبر دہندہ اور فرستادہ مگر یہ محض ہوس ہے۔


اوّلاً:

صریح لفظ میں تاویل نہیں سنی جاتی، فتاوٰی خلاصہ و فصول عمادیہ و جامع الفصولین وفتاوٰی ہندیہ وغیرہا میں ہے:

وَاللَّفْظُ لِلْعِمَادِيِّ: لَوْ قَالَ أَنَا رَسُولُ ٱللّٰهِ، أَوْ قَالَ بِٱلْفَارِسِيَّةِ: مَن پِيغَمْبَرَمْ، يُرِيدُ بِهِ: مَن پِيغَامْ مِي بَرَمْ، يُكْفُرْ8
یعنی اگر کوئی اپنے آپ کو اﷲ کا رسول کہے یا بزبان فارسی کہے میں پیغمبر ہوں اور مراد یہ لے کہ میں کسی کا پیغام پہنچانے والا ایلچی ہوں کافر ہوجائے گا۔


امام قاضی عیاض کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی ﷺ میں فرماتے ہیں:

قَالَ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ صَاحِبُ سَحْنُونٍ رَحِمَهُمَا ٱللّٰهُ تَعَالَىٰ فِي رَجُلٍ قِيلَ لَهُ: لَا وَحَقِّ رَسُولِ ٱللّٰهِ، فَقَالَ: فَعَلَ ٱللّٰهُ بِرَسُولِ ٱللّٰهِ كَذَا – وَذَكَرَ كَلَامًا قَبِيحًا –، فَقِيلَ لَهُ: مَا تَقُولُ يَا عَدُوَّ ٱللّٰهِ فِي حَقِّ رَسُولِ ٱللّٰهِ؟ فَقَالَ لَهُ أَشَدَّ مِنْ كَلَامِهِ ٱلْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ بِرَسُولِ ٱللّٰهِ ٱلْعَقْرَبَ. فَقَالَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ لِلَّذِي سَأَلَهُ: أِشْهَندْ عَلَيْهِ، وَأَنَا شَرِيكُكَ – يُرِيدُ فِي قَتْلِهِ وَثَوَابِ ذٰلِكَ –. قَالَ حَبِيبُ بْنُ ٱلرَّبِيعِ: لِأَنَّ ٱدِّعَاءَ ٱلتَّأْوِيلِ فِي لَفْظٍ صَرِيحٍ لَا يُقْبَلُ 9
یعنی امام احمد بن ابی سلیمان تلمیذ و رفیق امام سحنون رحمہما اﷲ تعالیٰ سے ایک مرد ک کی نسبت کسی نے پوچھا کہ اس سے کہا گیا تھا رسول کے حق کی قسم اس نے کہا اﷲ رسول اﷲ کے ساتھ ایسا ایسا کرے اور ایک بدکلام ذکر کیا کہا گیا اے دشمن خدا! تو رسول اﷲ کے بارے میں کیا بکتا ہے تو اس سے بھی سخت تر لفظ بکا پھر بولا میں نے تورسول اﷲ سے بِچّھو مراد لیا تھا۔ امام احمد بن ابی سلیمان نے مستفتی سے فرمایا تم اس پر گواہ ہو جاؤ اور اسے سزائے موت دلانے اور اس پر جو ثواب ملے گا اس میں میں تمہارا شریک ہوں، (یعنی تم حاکم شرع کے حضور اس پر شہادت دو اور میں بھی سعی کروں گا کہ ہم تم دونوں بحکم حاکم اسے سزائے موت دلانے کا ثوابِ عظیم پائیں) امام حبیب بن ربیع نے فرمایا یہ اس لئے کہ کھلے لفظ میں تاویل کا دعوٰی مسموع نہیں ہوتا۔


مولانا علی قاری شرح شفاء میں فرماتے ہیں:

ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا أَرَدْتُ بِرَسُولِ ٱللّٰهِ ٱلْعَقْرَبَ، فَإِنَّهُ أُرْسِلَ مِنْ عِنْدِ ٱلْحَقِّ وَسُلِّطَ عَلَى ٱلْخَلْقِ، تَأْوِيلًا لِلرِّسَالَةِ ٱلْعُرْفِيَّةِ بِٱلْإِرَادَةِ ٱللُّغَوِيَّةِ، وَهُوَ مَرْدُودٌ عِنْدَ ٱلْقَوَاعِدِ ٱلشَّرْعِيَّةِ10
یعنی وہ جو اس مردک نے کہا کہ میں نے بچّھو مراد لیا، اس طر ح اس نے رسالت عرفی کو معنی لغوی کی طرف ڈھالا کہ بچّھو کو بھی خدا ہی نے بھیجا اور خلق پر مسلّط کیا ہے، اور ایسی تاویل قواعدِ شرع کے نزدیک مردود ہے۔


علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں:

هٰذَا حَقِيقَةُ مَعْنَى ٱلْإِرْسَالِ، وَهٰذَا مِمَّا لَا شَكَّ فِي مَعْنَاهُ، وَإِنْكَارُهُ مُكَابَرَةٌ، لٰكِنَّهُ لَا يُقْبَلُ مِنْ قَائِلِهِ، وَٱدِّعَاؤُهُ أَنَّهُ مُرَادُهُ لِبُعْدِهِ غَايَةَ ٱلْبُعْدِ، وَصَرْفُ ٱلْلَّفْظِ عَنْ ظَاهِرِهِ لَا يُقْبَلُ، كَمَا لَوْ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ، قَالَ: أَرَدْتُ مَحْلُولَةً غَيْرَ مَرْبُوطَةٍ، لَا يُلْتَفَتُ لِمِثْلِهِ، وَيُعَدُّ هَذَيَانًا (ـ مُلْتَقَطًا) 11
یعنی یہ لغوی معنی جن کی طرف اس نے ڈھالا ضرور بلا شک حقیقی معنی ہیں اس کا انکار ہٹ دھرمی ہے بایں ہمہ قائل کا ادعا مقبول نہیں کہ اس نے یہ معنی لغوی مراد لئے تھے، اس لئے کہ یہ تاویل نہایت دور ازکار ہے اور لفظ کا اس کے معنی ظاہر سے پھیرنا مسموع نہیں ہوتا جیسے کوئی اپنی عورت کو کہے تو طالق ہے اور کہے میں نے تو یہ مراد لیا تھا کہ تو کھلی ہوئی ہے بندھی نہیں ہے ( کہ لغت میں طالق کشادہ کو کہتے ہیں) تو ایسی تاویل کی طرف التفات نہ ہوگا اور اسے ہذیان سمجھا جائے گا۔


ثانیا:

وہ بالیقین ان الفاظ کو اپنے لئے مدح و فضل جانتا ہے ، نہ ایک ایسی بات کہ :

دندان تو جملہ در دہانند چشمان تو زیر ابرو انند
(تیرے تمام دانت منہ میں ہیں، تیری آنکھیں ابرو کے نیچے ہیں۔ ت)


کوئی عاقل بلکہ نیم پاگل بھی ایسی بات کو جو ہر انسان ہر بھنگی چمار بلکہ ہر جانور بلکہ ہر کافر مرتد میں موجود ہو محلِ مدح میں ذکر نہ کریگا نہ اس میں اپنے لئے فضل وشرف جانے گا بھلا کہیں براہین غلامیہ میں یہ بھی لکھا کہ سچا خدا وہی ہے جس نے مرزا کی ناک میں دو (2) نتھنے رکھے، مرزا کے کان میں دو(2) گھونگے بنائے، یا خدا نے براہین احمدیہ میں لکھا ہے کہ اس عاجز کی ناک ہونٹوں سے اوپر اور بھوؤں کے نیچے ہے، کیا ایسی بات لکھنے والا پورا مجنون پکا پاگل نہ کہلایا جائے گا۔ اور شک نہیں کہ وہ معنی لغوی یعنی کسی چیز کی خبر رکھنا یا دینا یا بھیجا ہوا ہونا، ان مثالوں سے بھی زیادہ عام ہیں بہت جانوروں کے ناک کان بھویں اصلاً نہیں ہوتیں مگر خدا کے بھیجے ہوئے وہ بھی ہیں ، اﷲ نے انہیں عدم سے وجود نر کی پیٹھ سے مادہ کے پیٹ سے دنیا کے میدان میں بھیجا جس طرح اس مرد ک خبیث نے بچّھو کو رسول بمعنی لغوی بنایا۔


مولوی معنوی قدس سرہ القوی مثنوی شریف میں فرماتے ہیں:

کل یوم ھو فی شان بخواں مرورابیکار و بے فعلے مداں
(روزانہ اﷲ تعالیٰ اپنی شان میں، پڑھ اس کو بیکار اور بے عمل ذات نہ سمجھ۔ت)
2۔ کمتریں کارش کہ ہر روز ست آں کُوسہ لشکر روانہ میکند
(اس کا معمولی کام ہر روز یہ ہوتا ہے کہ روزانہ تین لشکر روانہ فرماتا ہے۔ت)
3۔ لشکر ے زاصلاب سوئے امہات بہرآں تا دررحم روید نبات
(ایک لشکر پشتوں سے امہات کی طرف،تاکہ عورتوں کے رحموں میں پیدائش ظاہر فرمائے۔ت)
4۔ لشکرے زار حام سوئے خاکدان تاز نر ومادہ پر گرددجہاں
(ایک لشکر ماؤں کے رحموں سے زمین کی طرف، تاکہ نر و مادہ سے جہان کو پُر فرمائے۔ت)
5۔ لشکرے از خاکداں سوئے اجل تابہ بیند ہر کسے حسنِ عمل12
(ایک لشکر دنیا سے موت کی جانب تاکہ ہر ایک اپنے عمل کی جزا کو دیکھے۔ت)


حق عزوجل فرماتا ہے:

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِ عَ وَ الدَّمَ13
ہم نے فرعونیوں پر بھیجے طوفان اور ٹڈیاں اور جُوئیں اور مینڈکیں اور خون۔


کیا مرزا ایسی ہی رسالت پر فخر رکھتا ہے جسے ٹڈی اور مینڈک اور جُوں اور کتے اور سؤر سب کو شامل مانے گا، ہر جانور بلکہ ہر حجر و شجر بہت سے علوم سے خبردار ہے اور ایک دوسرے کو خبر دینا بھی صحاح احادیث سے ثابت،


حضرت مولوی قدس سرہ المعنوی ان کی طرف سے فرماتے ہیں:

ما سمیعیم وبصیریم وخوشیم باشما نامحرماں ما خامشیم 14
ہم آپس میں سننے،دیکھنے والے اور خوش ہیں، تم نامحرموں کے سامنے ہم خاموش ہیں۔


اﷲ عزوجل فرماتا ہے:

وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰـكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ 15
کوئی چیز ایسی نہیں جو اﷲ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو مگر ان کی تسبیح تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔


حدیث میں ہے رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:

مَا مِن ْشَيءٍ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ إلا كفرةُ أو فَسَقةُ الجنِّ والإنسِ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْكَبِيرِ عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ، وَصَحَّحَهُ خَاتِمُ الحُفَّاظِ 16
کوئی چیز ایسی نہیں جو مجھے اﷲ کا رسول نہ جانتی ہو سوا کافر جن اور آدمیوں کے۔(طبرانی نے کبیر میں یعلٰی بن مرہ سے روایت کیا اور خاتم الحفاظ نے اسے صحیح کہا۔ت)


حق سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍ بِنبَاٍ یَّقِیْنٍ 17
کچھ دیر ٹھہر کر ہد ہد بارگاہ سلیمانی میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے ایک بات وہ معلوم ہوئی ہے جس پر حضور کو اطلاع نہیں اور میں خدمت عالی میں ملک سبا سے ایک یقینی خبر لے کر حاضر ہوا ہوں۔


حدیث میں رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:

ما مِنْ صَباحٍ وَلَا رَواحٍ إِلَّا وَبِقاعُ الأَرْضِ يُنادي بَعْضُها بَعْضًا: يا جارَةُ، هَلْ مَرَّ بِكِ اليَوْمَ عَبْدٌ صالِحٌ صَلَّى عَلَيْكِ أَوْ ذَكَرَ اللهَ؟ فَإِنْ قالَتْ: نَعَمْ، رَأَتْ أَنَّ لَها بِذَلِكَ فَضْلًا. رَواهُ الطَّبَرانيُّ فِي الأوسط وَأبو نُعَيْمٍ فِي الحِلْيَة عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ تَعالى عَنْهُ 18
کوئی صبح اور شام ایسی نہیں ہوتی کہ زمین کے ٹکڑے ایک دوسرے کو پکار کر نہ کہتے ہوں کہ اے ہمسائے! آج تجھ پر کوئی نیک بندہ گزرا جس نے تجھ پر نماز پڑھی یا ذکر الہٰی کیا، اگر وہ ٹکڑا جواب دیتا ہے کہ ہاں تو وہ پوچھنے والا ٹکڑا اعتقاد کرتا ہے کہ اسے مجھ پر فضیلت ہے۔ (اسے طبرانی نے اوسط میں اور ابونعیم نے حلیہ میں حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔ت)


تو خبر رکھنا، خبر دینا سب کچھ ثابت ہے۔ کیا مرزا ہر اینٹ پتھر،ہر بت پرست کافر، ہر ریچھ بندر، ہر کتے سؤر کو بھی اپنی طرح نبی ورسول کہے گا؟ ہرگز نہیں، تو صاف روشن ہوا کہ معنی لغوی ہر گز مراد نہیں بلکہ یقیناً وہی شرعی وعرفی رسالت ونبوت مقصود اور کفر وارتداد یقینی قطعی موجود۔

وبعبارۃ اخری معنی کے چار ہی قسم ہیں، لغوی، شرعی، عرفی، عام یا خاص، یہاں عرف عام تو بعینہٖ وہی معنی شرعی ہے جس پر کفر قطعاً حاصل، اور ارادہ لغوی کا ادعاء یقیناً باطل، اب یہی رہا کہ فریب دہی عوام کو یوں کہہ دے کہ میں نے اپنی خاص اصطلاح میں نبی و رسول کے معنی اور رکھے ہیں جن میں مجھے سگ و خوک سے امتیاز بھی ہے اور حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے وصفِ نبوت میں اشتراک بھی نہیں، مگر حاش ﷲ! ایسا باطل ادعاء اصلاً شرعاً عقلاً عرفاً کسی طرح بادشتر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا، ایسی جگہ لغت وشرع وعرف عام سب سے الگ اپنی نئی اصطلاح کا مدعی ہونا قابل قبول ہو تو کبھی کسی کافر کی کسی سخت سے سخت بات پر گرفت نہ ہوسکے کوئی مجر م کسی معظم کی کیسی ہی شدید توہین کر کے مجرم نہ ٹھہرسکے کہ ہر ایک کو اختیار ہے اپنی کسی اصطلاح خاص کا دعوٰی کردے جس میں کفرو توہین کچھ نہ ہو، کیا زید کہہ سکتا ہے خدا دو ہیں جب اس پر اعتراض ہو کہہ دے میری اصطلاح میں ایک کو دو کہتے ہیں، کیا عمرو جنگل میں سؤر کو بھاگتا دیکھ کر کہہ سکتا ہے وہ قادیانی بھاگا جاتا ہے، جب کوئی مرزائی گرفت چاہے کہہ دے میری مراد وہ نہیں جو آپ سمجھے میری اصطلاح میں ہر بھگوڑے یا جنگلی کو قادیانی کہتے ہیں، اگر کہئے کوئی مناسبت بھی ہے تو جواب دے کہ اصطلاح میں مناسبت شرط نہیں لا مشاحۃ فی الاصطلاح(اصطلاح میں کوئی اعتراض نہیں) آخر سب جگہ منقول ہی ہونا کیا ضرور، لفظ مرتجل بھی ہوتا ہے جس میں معنی اوّل سے مناسبت اصلاً منظور نہیں، معہذا قادی بمعنی جلدی کنندہ ہے یا جنگل سے آنے والا۔

قاموس میں ہے:

قَدَّتْ قادِيَّةٌ، جاءَ قَوْمٌ قَدًا، قَحَموا مِنَ البادِيَةِ، والفَرَسُ قَدْيانًا أَسْرَعَ19
قوم جلدی میں آئی، قدت قادیۃ کا ایک معنی قدت من البادیۃ یا قدت الفرس جنگل سے آیا، یا گھوڑے کو تیز کیا۔


قادیان اس کی جمع اور قادیانی اس کی طرف منسوب یعنی جلدی کرنے والوں یا جنگل سے آنے والوں کا ایک، اس مناسبت سے میری اصطلاح میں ہر بھگوڑے جنگلی کا نام قادیانی ہوا، کیا زید کی وہ تقریر کسی مسلمان یا عمرو کی یہ توجیہ کسی مرزائی کو مقبول ہوسکتی ہے، حاشا وکلّا کوئی عاقل ایسی بناوٹوں کو نہ مانے گا بلکہ اسی پر کیا موقوف، یوں اصطلاح خاص کا ادعاء مسموع ہوجائے تو دین و دنیا کے تمام کارخانے درہم برہم ہوں، عورتیں شوہروں کے پاس سے نکل کر جس سے چاہیں نکاح کرلیں کہ ہم نے تو ایجاب وقبول نہ کیا تھا، اجازت لیتے وقت ہاں کہاتھا، ہماری اصطلاح (ہاں) بمعنی (ہوں) یعنی کلمہ جزر وانکار ہے، لوگ بیع نامے لکھ کر رجسٹری کر اکر جائدادیں چھین لیں کہ ہم نے تو بیع نہ کی تھی بیچنا لکھا تھا، ہماری اصطلاح میں عاریت یا اجارے کو بیچنا کہتے ہیں الٰی غیر ذٰلک من فسادات لا تحصٰی (ایسے بہت سے فسادات ہوں گے۔ت) تو ایسی جھوٹی تاویل والا خود اپنے معاملات میں اسے نہ مانے گا، کیا مسلمانوں کو زن ومال اﷲ ورسول (جل جلالہ و ﷺ) سے زیادہ پیارے ہیں کہ جو رو اور جائداد کے باب میں تاویل سنیں اور اﷲ و رسول کے معاملے میں ایسی ناپاک بناوٹیں قبول کرلیں لا الٰہ الا اﷲ مسلمان ہر گز ایسے مردود بہانوں پر التفات بھی نہ کریں گے انہیں اﷲ و رسول اپنی جان اور تمام جہان سے زیادہ عزیز ہیں و ﷲ الحمد جل جلالہ و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود ان کا رب جل وعلا قرآن عظیم میں ایسے بیہودہ عذروں کا دربار جلا چکا ہے،

فرماتا ہے:

لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ 20
ان سے کہہ دو بہانے نہ بناؤ بیشک تم کافر ہوچکے ایمان کے بعد۔ والعیاذ باﷲ تعالیٰ رب العالمین۔


ثالثاً:

کفر چہارم میں امتی و نبی کا مقابلہ صاف اسی معنی شرعی وعرفی کی تعیین کررہا ہے۔


رابعاً:

کفر اول میں تو کسی جھوٹے ادعائے تاویل کی بھی گنجائش نہیں، آیت میں قطعاً معنی شرعی ہی مراد ہیں نہ کہ لغوی، نہ اس شخص کی کوئی اصطلاح خاص، اور اسی کو اس نے اپنے نفس کے لئے مانا تو قطعاً یقینا بمعنی شرعی ہی اپنے نبی اﷲ ورسول اﷲ ہونے کا مدعی اور

وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِينَ 21
(ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیو ں میں پچھلے۔ت)


کا منکر اور باجماع قطعی جمیع امت مرحومہ مرتدو کافر ہوا، سچ فرمایا سچے خدا کے سچے رسول سچے خاتم النّبیین محمد مصطفی ﷺ نے کہ عنقریب میرے بعد آئیں گے۔

ثَلاثونَ دَجَّالونَ كَذَّابونَ، كُلُّهُم يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ 22
تیس (۳۰) دجال کذاب کہ ہر ایک اپنے کو نبی کہے گا


وَأَنَا خاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي 23
حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں


اٰمنت اٰمنت صلی اﷲ تعالیٰ علیک وسلم
میں ایمان لایا میں ایمان لایا، اﷲ تعالیٰ آپ پر صلوٰۃ و سلام نازل فرمائے۔ت)

اسی لئے فقیر نے عرض کیا تھا کہ مرزا ضرور مثیل مسیح ہے صَدَق بلکہ مسیح دجّال کا کہ ایسے مدعیوں کو یہ لقب خود بارگاہ رسالت سے عطا ہواوالعیاذ باﷲ رب العٰلمین۔


کفر پنجم:

دافع البلاء ص ۱۰ پر حضرت مسیح علیہ السلام سے اپنی برتری کا اظہار کیا ہے۔ 24


کفر ششم:

اسی رسالے کے صفحہ ۱۷ پر لکھا ہے:

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ 25


کفر ہفتم:

اشتہار معیار الاخیار میں لکھا ہے :

میں بعض نبیوں سے بھی افضل ہوں۔ 26


یہ ادعاء بھی باجماعِ قطعی کفر وارتداد یقینی ہیں، فقیر نے اپنے فتوی مسمّٰی بہ ردّالرفضۃ میں شفاء شریف امام قاضی عیاض و روضہ امام نووی وارشاد الساری امام قسطلانی وشرح عقائد نسفی و شرح مقاصد امام تفتازانی واعلام امام ابن حجر مکی ومنح الروض علامہ قاری وطریقہ محمدیہ علامہ برکوی وحدیقہ ندیہ مولٰی نابلسی وغیرہا کتب کثیرہ کے نصوص سے ثابت کیا ہے کہ باجماعِ مسلمین کوئی ولی کوئی غوث کوئی صدیق بھی کسی نبی سے افضل نہیں ہوسکتا، جو ایسا کہے قطعاً اجماعاً کافر ملحد ہے،

ازاں جملہ شرح صحیح بخاری شریف میں ہے:

النَّبِيُّ أَفْضَلُ مِنَ الوَلِيِّ، وَهُوَ أَمْرٌ مَقْطُوعٌ بِهِ، وَالقَائِلُ بِخِلَافِهِ كافِرٌ، كَأَنَّهُ مَعْلُومٌ مِنَ الشَّرْعِ بِالضَّرُورَةِ 27
یعنی ہر نبی ہر ولی سے افضل ہے اور یہ امر یقینی ہے اور اس کے خلاف کہنے والا کافر ہے کہ یہ ضروریاتِ دین سے ہے۔


کفر ہفتم:

میں ایسے ایک لطیف تاویل کی گنجائش تھی کہ یہ لفظ (نبیوں) بتقدیم نون نہیں بلکہ (بنیوں) بہ تقدیم با ہے یعنی بھنگی درکنار کہ خود ان کے تو لال گرو کا بھائی ہوں ان سے تو افضل ہوا ہی چاہوں میں تو بعض بنیوں سے بھی افضل ہوں کہ انہوں نے صرف آٹے دال میں ڈنڈی ماری اور یہاں وہ ہتھ پھیری کی بیسیوں کا دین ہی اڑ گیا، مگر افسوس کہ دیگر تصریحات نے اس تاویل کی جگہ نہ رکھی۔


کفر ہشتم:

ازالہ صفحہ ۳۰۹ پر حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزات کو جن کا ذکر خدا وند تعالیٰ بطور احسان فرماتا ہے مسمریزم لکھ کر کہتا ہے:

اگر میں اس قسم کے معجزات کو مکروہ نہ جانتا تو ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ 28


یہ کفر متعدد کفروں کا خمیرہ ہے معجزات کو مسمریزم کہنا ایک کفر کہ اس تقدیر پر وہ معجزہ نہ ہوئے بلکہ معاذ اﷲ ایک کسبی کرشمے ٹھہرے، اگلے کافروں نے بھی ایسا ہی کہا تھا۔

اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَ عَلٰى وَ الِدَتِكَۘ اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَ اِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْئةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ وَ اِذْ تُخْرِ جُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْ وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَا اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ 29
جب فرمایا اﷲ سبحانہ نے اے مریم کے بیٹے! یاد کر میری نعمتیں اپنے اوپر اور اپنی ماں پر جب میں نے پاک روح سے تجھے قوت بخشی لوگوں سے باتیں کرتا پالنے میں اور پکی عمر کا ہو کر اور جب میں نے تجھے سکھایا لکھنا اور علم کی تحقیقی باتیں اور توریت اور انجیل اور جب تو بناتا مٹی سے پرند کی سی شکل میری پروانگی سے پھر تو اس میں پھونکتا تو وہ پرند ہوجاتی میرے حکم سے اور تو چنگا کرتا مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میری اجازت سے، اور جب تو قبروں سے جیتا نکالتا مردوں کو میرے اذن سے اور جب میں نے یہود کو تجھ سے روکا جب تو ان کے پاس یہ روشن معجزے لے کر آیا تو ان میں کے کافر بولے یہ تو نہیں مگر کھلا جادو۔


مسمریزم بتایا یا جادو کہا، بات ایک ہی ہوئی یعنی الٰہی معجزے نہیں کسبی ڈھکوسلے ہیں، ایسے ہی منکروں کے خیال ضلال کو حضرت مسیح کلمۃ اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علی سیّدہ وعلیہ وسلم نے بار بار بتا کید رد فرمادیا تھا اپنے معجزات مذکورہ ارشاد کرنے سے پہلے فرمایا:

اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْئةِ الطَّیْرِ ( الآیة)30
میں تمہارے پاس رب کی طرف سے معجزے لایا کہ میں مٹی سے پرند بناتا اورپھونک مار کر اسے جِلاتا اور اندھے اور بدن بگڑے کو شفا دیتا اور خدا کے حکم سے مردے جِلاتا اور جو کچھ گھر سے کھا کر آؤ اور جو کچھ گھر میں اٹھا رکھو وہ سب تمہیں بتاتا ہوں۔


اور اس کے بعد فرمایا:

اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ31
بیشک ان میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان لاؤ۔


پھر مکرر فرمایا:

جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ 32
میں تمہارے رب کے پاس سے معجزہ لایا ہوں تو خدا سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔


مگر جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے رب کی نہ مانے وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی کیوں ماننے لگا، یہاں تو اسے صاف گنجائش ہے کہ اپنی بڑائی سبھی کرتے ہیں ع

کس نہ گوید کہ دروغ من ترش ست
(کو ئی نہیں کہتا کہ میرا جھوٹ ترش ہے۔ ت)


پھر ان معجزات کو مکروہ جاننا دوسرا کفریہ کہ کراہت اگر اس بنا پر ہے کہ وہ فی نفسہٖ مذموم کام تھے جب تو کفر ظاہر ہے۔


قال اﷲ تعالیٰ:

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ 33
یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی۔


اور اسی فضیلت کے بیان میں ارشاد ہوا:

وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ 34
اورہم نے عیسٰی بن مریم کو معجزے دئے اور جبرئیل سے اس کی تائید فرمائی۔


اور اگر اس بنا پر ہے کہ وہ کام اگرچہ فضیلت کے تھے مگر میرے منصب اعلٰی کے لائق نہیں تو یہ وہی نبی پر اپنی تفضیل ہے ہر طرح کفر وارتداد قطعی سے مفر نہیں، پھر ان کلمات شیطانیہ میں مسیح کلمۃ اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علٰی سیّدہ وعلیہ وسلم کی تحقیر تیسرا کفر ہے اور ایسی ہی تحقیر اس کلام ملعون کفر ششم میں تھی اور سب سے بڑھ کر اس کفرنہم میں ہے کہ ازالہ صفحہ ۱۶۱ پر حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت لکھا

بوجہ مسمریزم کے عمل کرنے کے تنویر باطن اور توحید اور دینی استقامت میں کم درجے پر بلکہ قریب ناکام رہے۔ 35


انا ﷲ وانّا الیہ راجعون، الا لعنۃ اﷲ علٰی اعداء انبیاء اﷲ وصلی اﷲ تعالیٰ علٰی انبیائہ وبارک وسلم
(ہم اﷲ کی ملکیت اور ہم اس کی طرف ہی لوٹنے والے ہیں، انبیاء اﷲ کے دشمنوں پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت، اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں اس کے انبیاء علیہم السلام پر اور برکتیں اور سلام۔ ت)


ہر نبی کی تحقیر مطلقاً کفر قطعی ہے جس کی تفصیل سے شفاء شریف وشروحِ شفاء وسیف مسلول امام تقی الملۃ والدین سبکی وروضہ امام نووی و وجیز امام کردری و اعلام امام حجر مکّی وغیر ہا تصانیف ائمہ کرام کے دفتر گونج رہے ہیں نہ کہ نبی بھی کون نبی مرسل نہ کہ مرسل بھی کیسا مرسل اولوالعزم نہ کہ تحقیر بھی کتنی کہ مسمریزم کے سبب نور باطن نہ نور باطن بلکہ دینی استقامت نہ دینی استقامت بلکہ نفس توحید میں کم درجہ بلکہ ناکام رہے اس ملعون قول لعن اﷲ قائلہ وقابلہ (اسے کہنے والے اور قبول کرنے والے پر اﷲ کی لعنت) نے اولوالعزمی ورسالت و نبوت درکنار اس عبداﷲ و کلمۃ اﷲ و روح اﷲ علیہ وصلوٰۃ اﷲ وسلام وتحیات اﷲ کے نفس ایمان میں کلام کردیا اس کا جواب ہمارے ہاتھ میں کیا ہے سوا اس کے کہ:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا 36
بیشک جو لوگ ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر اﷲنے لعنت کی دنیا وآخرت میں اور ان کے لئے تیار کر رکھا ہے ذلّت کا عذاب۔


کفر دہم:

ازالہ صفحہ ۶۲۹ پر لکھتا ہے:

ایک زمانے میں چار سو نبیوں کی پیشگوئی غلط (عہ) ہوئی اور وہ جھوٹے۔36

حاشیہ

(عہ)(یہ اس کی پیش بندی ہے کہ یہ کذّاب اپنی بڑ میں ہمیشہ پیشگوئیاں ہانکتا رہتا ہے اور بعنایت الٰہی وہ آئے دن جھوٹی پڑا کرتی ہیں تو یہاں یہ بتانا چاہتا ہے کہ پیشگوئی غلط پڑی کچھ شان نبوت کے خلاف نہیں معاذ اﷲ اگلے انبیاء میں بھی ایسا ہوتا ہے۔(اینہم برعلم)ہوئی اور وہ جھوٹے)۔

حاشیہ ختم شد


یہ صراحۃً انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسّلام کی تکذیب ہے عام اقوام کفار لعنہم اﷲ کا کفر حضرت عزت عزّ جلالہ نے یوں ہی تو بیان فرمایا:

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ﹰالْمُرْسَلِیْنَ37
كَذَّبَتْ عَادُ ان ِلْمُرْسَلِیْنَ38
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ39
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ ﹰالْمُرْسَلِیْنَ40
كَذَّبَ اَصْحٰبُ الا یْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ41
(نوح کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا، عاد نے رسولوں کو جھٹلایا، ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا، لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا، بَن والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ ت)


ائمہ کرام فرماتے ہیں، جو نبی پر اس کی لائی ہوئی بات میں کذب جائز ہی مانے اگرچہ وقوع نہ جانے باجماع کفر ہے نہ کہ معاذ اﷲ چارسو انبیاء کا اپنے اخبار بالغیب میں کہ و ہ ضرور اﷲ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔واقع میں جھوٹا ہوجانا،


شفا شریف میں ہے:

مَنْ دانَ بالوَحْدانِيَّةِ وَصِحَّةِ النُّبُوَّةِ، وَنُبُوَّةِ نَبِيِّنا صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ جَوَّزَ عَلَى الأَنْبِياءِ الكَذِبَ فِيمَا أَتَوْا بِهِ، ادَّعَى في ذَلِكَ المَصْلَحَةَ بِزَعْمِهِ أَوْ لَمْ يَدَّعِهَا، فَهُوَ كافِرٌ بِإِجْماعٍ 42
یعنی جو اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت نبوّت کی حقانیت ہمارے نبی ﷺ کی نبوت کا اعتقاد رکھتا ہو بایں ہمہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر انکی باتوں میں کذب جائز مانے خواہ بزعمِ خود اس میں کسی مصلحت کا ادعا کرے یا نہ کرے ہر طرح بالاتفاق کافر ہے۔


ظالم نے چار سو کہہ کر گمان کیا کہ اس نے باقی انبیاء کو تکذیب سے بچالیا حالانکہ یہی آیتیں جو ابھی تلاوت کی گئی ہیں شہادت دے رہی ہیں کہ اس نے آدم نبی اﷲ سے محمد رسول اﷲ تک تمام انبیائے کرام علیہم افضل الصلوٰۃ والسلام کو کاذب کہہ دیا کہ ایک رسول کی تکذیب تمام مرسلین کی تکذیب ہے۔

دیکھو قوم نوح وہود وصالح ولوط و شعیب علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک ہی نبی کی تکذیب کی تھی مگر قرآن نے فرمایا: قوم نوح نے سب رسولوں کی تکذیب کی، عاد نے کل پیغمبروں کو جھٹلایا، ثمود نے جمیع انبیاء کو کاذب کہا، قوم لوط نے تمام رسل کو جھوٹا بتایا، ایکہ والوں نے سارے نبیوں کو دروغ گو کہا، یونہی واﷲ اس قائل نے نہ صرف چار سو بلکہ جملہ انبیاء و مرسلین کو کذاب مانا۔


فَلَعَنَ اللهُ مَنْ كَذَّبَ أَحَدًا مِنْ أَنْبِيَائِهِ، وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَى أَنْبِيَائِهِ وَرُسُلِهِ وَالمُؤْمِنِينَ بِهِم أَجْمَعِينَ، وَجَعَلَنَا مِنْهُمْ، وَحَشَرَنَا فِيهِم، وَأَدْخَلَنَا مَعَهُمْ دَارَ النَّعِيمِ بِجَاهِهِمْ عِنْدَهُ، وَبِرَحْمَتِهِ بِهِمْ وَرَحْمَتِهِمْ بِنَا، إِنَّهُ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ
(اﷲ تعالیٰ کے کسی نبی کو جھوٹا کہنے والے پر اﷲتعالیٰ کی لعنت اور اﷲ تعالیٰ اپنے انبیاء ورسولوں پر اور ان کے وسیلہ سے تمام مومنین پر رحمت فرمائے اور ہمیں ان میں بنائے، ان کے ساتھ حشر اور ان کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے، ان کی اپنے ہاں وجاہت اور ان پر اپنی رحمت اور انکی ہم پر رحمت کے سبب وہ برحق بڑا رحیم و رحمٰن ہے سب حمدیں اﷲ تعالیٰ کے لئے جو سب جہانوں کا رب ہے۔ت)


طبرانی معجم کبیر میں وَبَر حنفی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:

إِنِّي أَشْهَدُ عَدَدَ تُرَابِ الدُّنْيَا أَنَّ مُسَيْلِمَةَ كَذَّابٌ 43
بیشک میں ذرّہ ہائے خاک تمام دنیا کے برابر گواہیاں دیتا ہوں کہ مسیلمہ (جس نے زمانہ اقدس میں ادعائے نبوت کیا تھا) کذاب ہے۔


وَأَنَا أَشْهَدُ مَعَكَ يَا رَسُولَ اللهِ 44
(یا رسول اللہ! میں بھی آپ کے ساتھ گواہی دیتا ہوں)


اور محمد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ عالم پناہ کا یہ ادنٰی کتا بعدد دانہائے ریگ و ستا رہا ئے آسمان گواہی دیتا ہے اور میرے ساتھ تمام ملائکہ سمٰوٰت وارض وحاملانِ عرش گواہ ہیں اور خو د عرش عظیم کا مالک گواہ ہے


وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا 45
(اور اﷲ کافی ہے گواہ۔ت)


کہ ان اقوال مذکورہ کا قائل بیباک کافر مرتد ناپاک ہے۔

اگر یہ (عہ) اقوال مرزا کی تحریروں میں اسی طرح ہیں تو واﷲ واللہ وہ یقینا کافر اور جو اس کے ان اقوال یا ان کے امثال پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ کہے وہ بھی کافر، ندوہ مخذولہ اور اس کے اراکین کہ صرف طوطے کی طرح کلمہ گوئی پر مدارِ اسلام رکھتے اور تمام بددینوں گمراہوں کو حق پر جانتے، خدا کو سب سے یکساں راضی مانتے، سب مسلمانوں پر مذہب سے لادعوے دینا لازم کرتے ہیں جیسا کہ ندوہ کی رو داد اوّل و دوم ورسالہ اتفاق وغیرہا میں مصرح ہے ان اقوال پر بھی اپنا وہی قاعدہ ملعونہ مجرد کلمہ گوئی نیچریت کا اعلٰی نمونہ جاری رکھیں اس کی تکفیر میں چون وچرا کریں تووہ بھی کافر، وہ اراکین بھی کفار، مرزا کے پیرو اگرچہ خود ان اقوال انجس الابوال کے معتقد نہ بھی ہوں مگر جب کہ صریح کفر و کھلے ارتداد دیکھتے سنتے پھر مرزا کو امام و پیشوا و مقبول خدا کہتے ہیں قطعاً یقینا سب مرتد ہیں سب مستحقِ نار۔

حاشیہ


(عہ)(یہ اقوال دوسرے کے منقول تھے اس فتوے کے بعد مرزا کی بعض نئی تحریریں خود نظر سے گزریں جن میں قطعی کفر بھرے ہیں بلاشبہہ وہ یقینا کافر مرتد ہے۱۲۔)


حاشیہ ختم شد

شفاء شریف میں ہے:

نُكَفِّرُ مَنْ لَمْ يُكَفِّرْ مَنْ دانَ بِغَيْرِ مِلَّةِ المُسْلِمِينَ مِنَ المِلَلِ، أَوْ وَقَفَ فِيهِمْ، أَوْ شَكَّ 46
یعنی ہم ہر اس شخص کو کافر کہتے ہیں جوکافر کو کافر نہ کہے یا اسکی تکفیر میں توقف کرے یا شک رکھے۔


شفاء شریف نیز فتاوٰی بزازیہ و دررو غرر و فتاوٰی خیریہ و درمختار و مجمع الانہر و غیر ہا میں ہے:

مَنْ شَكَّ فِي كُفْرِهِ وَعَذَابِهِ فَقَدْ كَفَرَ 47
جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے یقینا خود کافر ہے۔(ت)


اور جو شخص باوصف کلمہ گوئی وادعائے اسلام، کفر کرے وہ کافروں کی سب سے بدتر قسم مرتد کے حکم میں ہے، ہدایہ و درمختار وعالمگیری و غرر و ملتقی الابحر ومجمع الانہر وغیر ہا میں ہے:

صَاحِبُ الهَوَى إِنْ كَانَ یَكْفُرُ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ المُرْتَدِّ 48
(بدعتی اگر کفر کرے تو وہ مرتد کے حکم میں ہے۔ت)


فتاوٰی ظہیریہ وطریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ وبرجندی شرح نقایہ وفتاوٰی ہندیہ میں ہے:

هٰؤُلَاءِ القَوْمُ خَرَجُوا عَنْ مِلَّةِ الإِسْلَامِ، وَأَحْكَامُهُمْ أَحْكَامُ المُرْتَدِّينَ 49
یہ لوگ دین اسلام سے خارج ہیں اور انکے احکام بعینہٖ مرتدین کے احکام ہیں۔


اور شوہر کے کفر کرتے ہی عورت نکاح سے فوراً نکل جاتی ہے، اب اگر بے اسلام لائے اپنے اس قول و مذہب سے بغیر توبہ کئے یا بعد اسلام و توبہ عورت سے بغیر نکاح جدید کئے اس سے قربت کرے زنائے محض ہو جو اولاد ہو یقینا ولدالزنا ہو، یہ احکام سب ظاہر اور تمام کتب میں دائر و سائر ہیں۔

فِي الدُّرِّ المُخْتَارِ عَنْ غُنْيَةِ ذَوِي الأَحْكَامِ: ما يَكُونُ كُفْرًا اتِّفَاقًا يُبْطِلُ العَمَلَ وَالنِّكَاحَ، وَأَوْلادُهُ أَوْلادُ زِنًى 50
درمختار میں غنیۃ ذوی الاحکام سے منقول ہے جو بالاتفاق کفر ہو وہ عمل، نکاح کوباطل کردیتا ہے اسکی اولاد ولد الزنا ہے۔


اور عورت کا کل مہر اس کے ذمّہ عائد ہونے میں بھی شک نہیں جب کہ خلوت صحیحہ ہوچکی ہو کہ ارتداد کسی دَین کو ساقط نہیں کرتا۔

فِي التَّنْوِيرِ: وارِثُ كَسْبِ إِسْلَامِهِ وارِثُهُ المُسْلِمُ بَعْدَ قَضَاءِ دَيْنِ إِسْلَامِهِ، وَكَسْبُ رِدَّتِهِ فِي بَعْدِ قَضَاءِ دَيْنِ رِدَّتِهِ 51
تنویر میں ہے قرضہ کی ادائیگی کے بعد اس کے اسلامی وقت کی کمائی کا وارث مسلمان ہے اور اس کے ارتدادی دور کی کمائی بیت المال میں جمع ہوگی۔


اور معجل تو فی الحال آپ ہی واجب الادا ہے، رہا مؤجل، وہ ہنوز اپنی اجل پر رہے گا، مگر یہ کہ مرتد بحال ارتداد ہی مرجائے یا دارالحرب کو چلا جائے اور حاکم شرع حکم فرمادے کہ وہ دارالحرب سے ملحق ہوگیا اس وقت مؤجل بھی فی الحال واجب الادا ہوجائے گا اگرچہ اجل موعود میں دس بیس برس باقی ہوں۔

فِي الدُّرِّ: إِنْ حَكَمَ القَاضِي بِلِحَاقِهِ، حَلَّ دَيْنُهُ. فِي رَدِّ المُحْتَارِ: لِأَنَّهُ بِاللِّحَاقِ صَارَ مِنْ أَهْلِ الحَرْبِ، وَهُمْ أَمْوَاتٌ فِي حَقِّ أَحْكَامِ الإِسْلَامِ، فَصَارَ كَالمَوْتِ، إِلَّا أَنَّهُ لَا يَسْتَقِرُّ لِحَاقُهُ إِلَّا بِالقَضَاءِ، لِاحْتِمَالِ العَوْدِ، وَإِذَا تَقَرَّرَ مَوْتُهُ ثَبَتَتِ الأَحْكَامُ المُتَعَلِّقَةُ بِهِ كَمَا ذَكَرَنَهر 52
(درمختار میں ہے کہ اگر قاضی نے مرتد کو دارالحرب سے ملحق ہونے کا فیصلہ دے دیا تو اس کا دَین لوگوں کو حلال ہے، ردالمحتار میں ہے کیونکہ دارالحرب سے لاحق ہونے پر حربی ہوگیا اور حربی اسلام کے احکام میں مردوں کی طرح ہوتے ہیں مگر اس کا طوق قاضی کے فیصلہ پر دائمی قرار پائے گا کیونکہ قبل ازیں اس کے واپس دارالاسلام آنے کا احتمال ہے، تو جب اس کی موت ثابت ہوگئی تو موت سے متعلقہ تمام احکام نافذ ہوجائیں گے جیسا کہ نہر نے ذکر کیا۔ ت)


اولاد صغار ضرور اس کے قبضے سے نکال لی جائے گی،

حَذَرًا عَلَى دِينِهِم، أَلَا تَرَى أَنَّهُمْ صَرَّحُوا بِنَزْعِ الوَلَدِ مِنَ الأُمِّ الشَّفِيقَةِ المُسْلِمَةِ إِنْ كانَتْ فاسِقَةً، وَالوَلَدُ يَعْقِلُ، يُخْشَى عَلَيْهِ التَّخَلُّقُ بِسِيرِهَا الذِّمِّيَّةِ، فَما ظَنُّكَ بِالأَبِ المُرْتَدِّ، وَالعِياذُ بِاللهِ تَعالى؟ قالَ في رَدِّ المُحْتار: الفاجِرَةُ بِمَنْزِلَةِ الكِتابِيَّةِ، فَإِنَّ الوَلَدَ يَبْقَى عِندَها إِلى أَنْ يَعْقِلَ الأَدْيانَ، كَما سَيَأْتي، خَوْفًا عَلَيْهِ مِنْ تَعَلُّمِهِ مِنْها ما تَفْعَلُهُ، فَكَذَا الفاجِرَةُ، إلخ 53
نابالغ بچوں کے دین کے خطرے کی وجہ سے، کیا آپ نے نہ دیکھا کہ فقہاء نے مسلمان شفیق ماں اگر فاسقہ ہو تو اس سے بچے کو الگ کرنے کی تصریح کی ہے بچے کے سمجھدار ہونے پر اس کی ماں کے بُرے اخلاق سے متاثر ہونے کے خوف کی وجہ سے، تو مرتد باپ کے بارے میں تیرا کیا گمان ہوگا، والعیاذ باﷲ تعالیٰ، ردالمحتار میں فرمایا کہ فاجر عورت اہلِ کتاب عورت کے حکم میں ہے کہ اس کے پاس بچہ صرف اس وقت تک رہے گا جب تک دین سمجھنے نہ پائے جیسا کہ بیان ہوگا، اس خوف سے کہ کہیں بچہ اس کے اعمال سے متاثر نہ ہوجائے، تو فاجرہ عورت کا بھی یہی حکم ہے الخ


وَأَنْتَ تَعْلَمُ: الوَلَدُ لَا يَحْضُنُهُ الأَبُ إِلَّا بَعْدَ ما بَلَغَ سَبْعًا أَوْ تِسْعًا، وَذَلِكَ عُمُرُ العَقْلِ قَطْعًا، فَيَحْرُمُ الدَّفْعُ إِلَيْهِ، وَيَجِبُ النَّزْعُ مِنْهُ. وَإِنَّما أَحْوَجَنَا إِلَى هَذَا لِأَنَّ المُلْكَ لَيْسَ بِيَدِ الإِسْلَامِ، وَإِلَّا(عہ) فَالسُّلْطَانُ أَيْنَ يُبْقِي المُرْتَدَّ حَتَّى يُبْحَثَ عَنْ حِضَانَتِهِ؟ أَلَا تَرَى إِلَى قَوْلِهِم: لَا حِضَانَةَ لِمُرْتَدَّةٍ لِأَنَّهَا تُضْرَبُ وَتُحْبَسُ كَالْيَوْمِ، فَأَيْنَ تَتَفَرَّغُ لِلْحِضَانَةِ؟ فَإِذَا كَانَ هَذَا فِي المَحْبُوسِ، فَمَا ظَنُّكَ بِالمَقْتُولِ؟ وَلَكِنْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ العَلِيِّ العَظِيمِ
اور تجھے علم ہے کہ والد بچے کو سات یا نو سال کے بعد ہی اپنی پرورش میں لیتا ہے اور یہ سمجھ کی عمر ہے لہٰذا بچے کو اس کے سپرد کرنا حرام ہے اور اس سے الگ کرلینا ضروری ہے اور ہم نے یہ ضرورت اس لئے محسوس کی کہ یہ ملک مسلمان کے اختیار میں نہیں ورنہ اسلامی حکمران مرتد کو کب چھوڑے گا کہ مرتد کی پرورش کا مسئلہ زیر بحث آئے، آپ نے غور نہیں کیا کہ فقہاء کا ارشاد ہے کہ مرتدہ کو حق پرورش نہیں ہے کیونکہ وہ قید میں سزا یافتہ ہوگی جیسا کہ آج ہے لہٰذا وہ پرورش کرنے کی فرصت کہاں پاسکتی ہے تو یہ حکم قیدی کے متعلق ہے تو مقتول مرتد کے متعلق تیرا کیا گمان ہوسکتا ہے، لیکن ہم اﷲ تعالیٰ کا مال اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الاّ باﷲ العلی العظیم۔ت
حاشیہ

(عہ)فَإِنَّ سُلطانَ الإِسلامِ مَأْمورٌ بِقَتْلِهِ، لَا يَجوزُ لَهُ إِبْقاؤُهُ بَعْدَ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ۱۲ منه

کیونکہ اسلامی حکمران کو مرتد کے قتل کا حکم ہے تو اسے جائز نہیں کہ مرتد کو تین دن کے بعد باقی رکھے۔ ۱۲ منہ

حاشیہ ختم شد


مگران کے نفس یا مال میں بدعوے ولایت اس کے تصرفات موقوف رہیں گے اگر پھر اسلام لے آیا اور اس مذہب ملعون سے توبہ کی تووہ تصرف سب صحیح ہوجائیں گے اور اگر مرتد ہی مرگیا یا دارالحرب کو چلا گیا تو باطل ہوجائیں گے،


في الدُّرِّ المُختارِ: يَبْطُلُ منهُ اتِّفاقًا ما يَعْتَمِدُ المِلَّةَ، وهي خمسٌ: النِّكاحُ، والذَّبيحَةُ، والصَّيدُ، والشَّهادَةُ، والإرْثُ. ويَتَوَقَّفُ منهُ اتِّفاقًا ما يَعْتَمِدُ المُساواةَ، وهو المُفَاوَضَةُ، أو وِلايَةٌ مُتَعَدِّيَةٌ، وهو التَّصَرُّفُ على وَلَدِهِ الصَّغيرِ، إن أسْلَمَ نَفَذَ، وإن هَلَكَ أو لَحِقَ بدارِ الحَرْبِ وحُكِمَ بلِحاقِهِ بَطَلَ. اهـ مُخْتَصَرًا 54
(درمختار میں ہے مرتد کے وہ تمام امور بالاتفاق باطل ہیں جن کا تعلق دین سے ہو اور وہ پانچ امور ہیں: نکاح، ذبیحہ،شکار، گواہی اور وراثت، اور وہ امور بالاتفاق موقوف قرار پائیں گے جو مساوات عمل مثلاً لین دین اور کسی پر ولایت اور یہ نابالغ اولاد کے بارے میں تصرفات ہیں، اگر وہ دوبارہ مسلمان ہوگیا تو موقوف امور نافذ ہوجائیں گے، اور اگر وہ ارتداد میں مرگیا یا دارالحرب پہنچ گیا اور قاضی نے اس کے طوق کا فیصلہ دے دیا تو وہ امور باطل ہوجائیں گے، اھ مختصراً،


نَسْأَلُ اللهَ الثَّبَاتَ عَلَى الإِيمَانِ، وَحَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الوَكِيلُ، وَعَلَيْهِ التُّكْلانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ العَلِيِّ العَظِيمِ، وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَى سَيِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ، آمِينَ، وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ
ہم اﷲ تعالیٰ سے ایمان پر ثابت قدمی کے لئے دعا گو ہیں، ہمیں اﷲ تعالیٰ کافی ہے اور وہ اچھا وکیل ہے اور اس پر ہی بھروسا ہے، لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم، وصلی اﷲتعالیٰ علٰی سیدنا ومولانا محمد وآلہٖ وصحبہٖ اجمعین، آمین۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔ت)


محمد وصی احمد

ناصر دین

عبدہ المذنب احمد رضا البریلوي عبدالمصطفٰی احمد رضا خاں عفی عنه بمحمدن المصطفٰی النبی الامیّ صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلّم

محمدی سُنّی حنفی قادری عبد المصطفی احمد رضاخاں


  • 1 توضیح المرام مطبوعہ ریاض الہند امرتسر،ص: 16
  • 2 توضیح المرام مطبوعہ ریاض الہند امرتسر،ص: 9
  • 3 صحیح البخاری مناقب عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۲۱،جامع الترمذی مناقب عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ امین کمپنی مکتبہ رشیدیہ دہلی ۲/ ۲۱۰
  • 3 صحیح البخاری مناقب عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۲۰،المستدرک للحاکم معرفتہ الصحابۃ دارالفکر،بیروت ۳/ ۸۵،جامع الترمذی مناقب عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۰۹
  • 3 البقرۃ ،2/ 79
  • 4 دافع البلاء مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان ص: 26
  • 5 النحل:16/ 116
  • 6 النحل :16/ 116
  • 7 الاحزاب، 33/ 40
  • 8 فتاوٰی ہندیۃ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۶۳
  • 9 الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی القسم الرابع الباب الاول مطبع شرکۃ صحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۲/ ۲۰۹
  • 10 شرح الشفاء لملّا علی قاری مع نسیم الریاض الباب الاول دارالفکر بیروت ۴/ ۳۴۳
  • 11 نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض الباب الاول دارالفکربیروت، ۴/ ۳۴۳
  • 12 المثنوی المعنوی قصہ آنکس کہ دریا رے بکوفت گفت الخ نورانی کتب خانہ پشاور، دفتر اول ص: ۷۹
  • 13 الاعراف، 7/ 133
  • 14 المثنوی المعنوی حکایت مارگیرے کہ اژدہائے افسردہ الخ نورانی کتب خانہ پشاور دفتر سوم ص: ۲۷
  • 15 بنی اسرائیل، 17/ 44
  • 16 المعجم الکبیر حدیث ۶۷۲ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۲۲/ ۲۶۲،الجامع الصغیر حدیث ۸۰۴۸ دارالکتب العلمیہ بیروت الجزء الثانی ص ۴۹۲
  • 17 النمل، 27/ 22
  • 18 المعجم الاوسط حدیث ۵۶۶ مکتبہ المعارف الریاض ۱/ ۳۳۶
  • 19 القاموس المحیط باب الواؤ فصل القاف مصطفی البابی مصر ۴/ ۳۷۹
  • 20 توبہ، 9/ 66
  • 21 الاحزاب ، 33/ 40
  • 22 جامع ترمذی ابواب الفتن باب لاتقوم الساعۃ الخ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/ ۴۵مسند احمد بن حنبل دارالفکر بیروت ۵/ ۳۹۶
  • 23 جامع ترمذی ابواب الفتن باب لاتقوم الساعۃ الخ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/ ۴۵مسند احمد بن حنبل دارالفکر بیروت ۵/ ۳۹۶
  • 24 دافع البلاء ضیاء الاسلام قادیان ص :۳۰
  • 25 دافع البلاء ضیاء الاسلام قادیان ص:۳۰
  • 26 اشتہار معیار الاخیار
  • 27 ارشاد الساری شرح صحیح البخاری کتاب العلم باب ما یستحب للعالم الخ دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۲۱۴
  • 28 ازالہ اوہام، ریاض الہند امرتسر،بھارت، ص ۱۱۶
  • 29 المائدۃ ، 5/ 110
  • 30 آل عمران، 3/ 49
  • 31 آل عمران، 3/ 49
  • 32 آل عمران، 3/ 49
  • 33 البقرۃ، 2/ 253
  • 34 البقرۃ، 2/ 87
  • 35 ازالہ اوہام ریاض الہند امرتسر،بھارت ص ۱۱۶
  • 36 الاحزاب، 33/ 57
  • 36 ازالہ اوہام ریاض الہند امرتسر،بھارت ص :629
  • 37 الشعراء، 26/ 105
  • 38 الشعراء، 26/ 123
  • 39 الشعراء، 26/ 141
  • 40 الشعراء، 26/ 160
  • 41 الشعراء، 26/ 176
  • 42 الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی فصل فی بیان ما ھو من المقالات مکتبہ شرکۃ صحافیہ فی بلاد العثمانیہ ۲/ ۲۶۹
  • 43 المعجم الکبیر حدیث ۴۱۲ از و بربن مشہر الحنفی المکتبہ الفیصلیہ بیروت ۲۲/ ۱۵۴
  • 44 المعجم الکبیر حدیث ۴۱۲ از و بربن مشہر الحنفی المکتبہ الفیصلیہ بیروت ۲۲/ ۱۵۴
  • 45 الفتح، 48/ 28
  • 46 الشفا بتعریف حقوق المصطفٰی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فصل فی بیان ماھو من المقالات مکتبہ شرکۃ صحافیہ فی البلاد والعثمانیہ ۲/ ۲۵
  • 47 درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی، ۱/ ۳۵۶
  • 48 درمختار فصل فی وصایا الذمی وغیرہ مطبع مجتبائی دہلی، ۲/ ۳۳۳
  • 49 فتاوٰی ہندیہ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۶۴
  • 50 درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹
  • 51 درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹
  • 52 درمختار باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹،ردالمحتار باب المرتد داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۰۰
  • 53 ردالمحتار باب الحضانۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۶۳۴
  • 54 درمختار، باب المرتد، مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹

Netsol OnlinePowered by