logoختم نبوت

قادیانی اکابر ۔۔۔ حکیم نور الدین بھیروی

مرزاغلام احمد قادیانی کے انتقال کے بعد ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء میں حکیم نورالدین بھیروی جماعت احمد یہ کے خلیفہ بنائے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ عہدہ انہیں یوں ہی نہیں مل گیا، بلکہ یہ علامتی طور پر صاف اشارہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے زمانہ حیات میں بھی حکیم نورالدین صاحب کو اعتماد کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ بہت سارے جماعتی معاملات میں ان کی رائے حتمی سمجھی جاتی تھی۔


ابتدائی حالات:


حکیم نورالدین بھیروی کی بیان کردہ روایت کے مطابق ، ان کی پیدائش ۱۸۴۱ء کے قریب ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم ماں سے حاصل کی اور قرآن کریم، نیز پنجابی زبان میں فقہ کی بعض کتابیں پڑھیں اور سنیں۔ پھر لاہور میں نشی محمد قاسم کشمیری سے فارسی کے اسباق پڑھے۔ مرزا امام بھیروی سے خوش خطی سیکھنے کی کوشش کی لیکن کوئی خاص دلچسپی پیدا نہ ہوئی ۔ یہ دونوں اساتذہ شیعہ تھے ، تاہم ان سے کوئی دینی مباحثات نہ ہوئے ، ہاں کسی قدر شیعہ مذہب سے واقفیت ضرور ہوگئی۔

۱۸۷۲ء میں وطن واپس آئے اور میاں حاجی شرف الدین سے فارسی پڑھی اور اپنے بھائی سلطان احمد سے عربی پڑھنی شروع کی ۔ اسی درمیان کلکتہ کے تاجر کتب ان کے گھر آ کر ٹھہرے۔ انہوں نے ترجمہ قرآن سے دلچسپی پیدا کرادی ۔ کچھ دنوں بعد ایک تاجر مبئی سے آئے اور انہوں نے تقویۃ الایمان اور مشارق الانوار پڑھنے کی رغبت دلائی۔ حکیم صاحب کہتے ہیں کہ انہیں اردو زبان بہت پسند تھی، لہذا دونوں کتا بیں خوب غور سے پڑھیں۔

۱۸۸۵ء میں راولپنڈی کے نارمل اسکول میں ملازمت شروع کی ۔ یہاں وہ کچھ کتابیں پڑھاتے اور کچھ وقت نکال کر حساب ، جغرافیہ اور اقلیدس پڑھتے ۔

ساتھ ہی تقسیم کسور مرکب کے لیے شیخ غلام نبی ہیڈ ماسٹرلون میانی سے رابطہ کیا اور اس کے سیکھتے ہی بقول ان کے ، مبادی الحساب کے چاروں حصص پڑھانے میں ، وہ اپنے استاذ سے بھی آگے نکل گئے ۔ اقلیدس کے لیے منشی نہال چند ساکن ضلع شاہ پور کو منتخب کیا۔ اس کے بعد انہوں نے تحصیلی امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور پنڈ دادن خان کے ہیڈ ماسٹر بنا دیے گئے ۔ اسی درمیان عربی تعلیم جزوی طور پر دوبارہ شروع کر دی اور جب چار سالوں بعد نوکری ختم ہوگئی ، تو والد صاحب کے حکم پر عربی تعلیم کی تکمیل کی جانب متوجہ ہوئے ۔ کچھ عرصہ مولوی احمد الدین صاحب سے عربی پڑھی، پھرلاہور میں حکم محمد بخش اور دوسرے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ اس کے بعد رام پور روہیل کھنڈ چلے آئے۔

رام پور کے زمانہ قیام میں تعلیمی پیش رفت کی تفصیلات بتاتے ہوئے حکیم نورالدین بھیروی کہتے ہیں:

رام پور میں مشکوۃ میں نے حسن شاہ صاحب سے پڑھی۔ شرح وقایہ مولوی عزیز اللہ صاحب افغان سے اور اصول الشاشی اور میبذی مولوی ارشاد حسین صاحب سے متنبی مفتی سعد اللہ صاحب سے، صدری وغیرہ مولوی عبد العلی صاحب سے ، ملا حسن حافظ سعد اللہ ر ڑیان ملک پنجاب سے پڑھی۔ 1

زیادہ محنت مشقت اور راتوں کو جاگنے کی وجہ سے حکیم نورالدین بھیروی بیمار پڑ گئے اور مراد آباد ہوتے ہوئے بغرض علاج لکھنو آئے ۔ یہاں حکیم علی حسین سے طب کی کتابیں پڑھیں اور مولوی فضل اللہ فرنگی محلی سے ملاحسن اور حمد اللہ کے کچھ اسباق پڑھے۔ طب پڑھنے کے زمانہ میں مفتی سعد اللہ صاحب سے متنبی کے اسباق پڑھے۔ لکھنو میں دو سالوں تک رہنے کے بعد، انہوں نے حکیم صاحب سے عربی اور حدیث کی تعلیم مکمل کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ انہوں نے میرٹھ اور دہلی جانے کا مشورہ دیا۔ تاہم وہاں پہنچ کر حصول علم کی کوئی سبیل نہ نکل سکی ، اس لیے بھو پال چلے آئے۔

رئیسہ بھوپال کی علماء نوازی کی وجہ سے اس زمانے میں بھو پال بہت بڑا علمی مرکز بن گیا تھا۔ تشنگان علوم و معرفت دور دور سے کھنچے چلے آتے تھے ۔ بھوپال میں منشی جمال الدین خاں صاحب مدار المہام کے یہاں قیام رہا۔ یہاں مولوی عبدالقیوم صاحب سے بخاری اور ہدایہ پڑھیں ۔ حدیث مسلسل بالا ولیت مفتی صاحب سے سنی ، جسے انہوں نے محمد بن ناصر حضرمی سے روایت کی ہے۔ 2

بھوپال سے حکیم نورالدین حرمین شریفین کے سفر پر نکل پڑے ۔ مکہ معظمہ میں شیخ محمد خزرجی سے ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ اور شیخ سید حسین سے صحیح مسلم اور مولوی رحمت اللہ صاحب سے موطا پڑھا۔ درس کے درمیان اپنے اساتذہ سے بعض معاملات میں بحث و مباحثہ بھی کرتے رہتے تھے اور اپنی بات کو باوزن بنانے کے لیے عقلی ونقلی دلائل بھی پیش کرتے۔

اسی دوران شاہ عبد الغنی مجددی مکہ معظمہ آئے۔ حکیم نورالدین صاحب ان سے بہت متاثر ہوئے ۔ گاہے بگاہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مجلسی گفتگو سے فیض یاب ہوتے ۔ ایک دن انہوں نے شاہ صاحب سے مدینہ منورہ کے سفر کی اجازت چاہی۔ حکیم نورالدین صاحب کے روانہ ہونے کے کچھ دنوں بعد شاہ مجددی بھی مدینہ منورہ آگئے ۔ اس طرح یہاں بھی ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ عقیدت و محبت بہت بڑھ گئی ، تو شاہ عبد الغنی مجددی کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور چھ ماہ تک انہیں کی تربیت میں گزارے۔


طبابت و ملازمت:


حرمین شریفین سے ممبئی اور وہاں سے دہلی ہوتے ہوئے اپنے وطن واپس ہوئے۔ کچھ دنوں بعد منشی جمال الدین صاحب مدار المہام کے کہنے پر بھوپال آگئے ۔ انہوں نے کچھ ماہانہ اپنے پاس سے اور کچھ سرکار سے متعین کروا کے حکیم نورالدین صاحب کو طبابت سے منسلک کر دیا۔ اس طرح روز و شب بڑے آرام سے گزرنے لگے۔

کچھ عرصہ بعد وہاں سے دوبارہ بھیرہ آگئے اور یہاں ایک مطب شروع کر دیا۔ طبابت میں ان کی شہرت دور دور تک پھیلنے لگی۔ کچھ دنوں بعد جموں کے وزیر اعظم دیوان کر پارام کا گزر پنڈ دادن خان سے ہوا۔ دیوان صاحب اور پڑوسی لالہ متھر دار کے ماموں بخشی صاحب نے سرکار جموں سے حکیم صاحب کا ذکر کیا۔ اسی دوران بقول حکیم نورالدین صاحب، انہوں نے خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ اور انہوں نے فرمایا کہ تم کشمیر دیکھنا چاہتے ہو، میں نے کہا ، ہاں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے اور میں پیچھے پیچھے تھا۔

اس طرح حکیم نورالدین بھیروی ریاست جموں آگئے اور کرایہ کے ایک مکان میں رہنے لگے۔ یہاں مریضوں کا علاج جاری رکھا، بلکہ بعض بظاہر لا علاج مرض میں کامیابی کی وجہ سے ان کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔

مہا راجہ کشمیر کے طبیب خاص مقرر ہوئے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے مہاراجہ سے نہایت ہی قربت حاصل کر لی تھی۔ اس کا اظہار ان کی ایک خود نوشت سے خوب واضح ہے ۔

مہا راجہ کشمیر بار ہا سر در بار تمام درباریوں کو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ تم سب اپنی اپنی غرض کو آکر میرے پاس جمع ہو گئے ہو اور میری خوشامد کرتے ہو، لیکن صرف ایک ہی شخص ( میری طرف اشارہ) ہے، جس کو میں نے اپنی غرض کو بلایا ہے اور مجھ کو اس کی خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ 3

جموں اور بھیرہ آنے جانے کے درمیان سیالکوٹ میں مرزا غلام احمد قادیانی سے ملاقات ہوتی تھی۔ بقیہ حالات اسی مناسبت سے بعد میں تحریر کیے جائیں گے۔

آپ نے حکیم نورالدین بھیروی کی ابتدائی زندگی، حصول علم اور ملازمت کے حوالے سے کسی قدر واقفیت حاصل کر لی ہے۔ اب آئیے ، ان کے شب و روز کی روشنی میں شخصیت کا تجزیاتی مطالعہ کر لیتے ہیں، تاکہ ان کے اطوار و عادات، مذاق فطرت اور طبعی رجحانات پوری طرح اجالے میں آجائیں۔


گستاخانہ جرات:


لکھنو میں حکیم علی حسین سے اپنی ملاقات کا تذکرہ حکیم نورالدین بھیروی نہایت ہی دلچسپی سے کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ حکیم علی حسین کے دولت کدہ پر گئے اور سلام کرنے کے بعد سامنے بچھی ہوئی چاندنی پر روزانو بیٹھ گئے ۔ ایک صاحب جو محفل میں موجود تھے ، کہنے لگے کہ آپ کسی مہذب ملک سے تشریف لائے ہیں؟

حکیم نورالدین نے جس لب ولہجہ میں جواب دیا ، وہ اس قدر اہانت آمیز اور گستاخانہ ہے کہ میرے لیے اسے نقل کرنا نہایت ہی دشوار ہے، لیکن کیا کروں کہ یہ کتاب قادیانیت کی اصلیت ظاہر کرنے کے لیے ہی لکھی گئی ہے۔ اس لیے آپ کے ذوق سلیم سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ و نقل کفر کفر نہ باشد کے خانے میں رکھ کر کسی طرح اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال ہی لیجیے۔

کرد میں نے نیم نگاہی کے ساتھ اپنی جوانی کی ترنگ میں اس کو یہ جواب دیا کہ یہ بے تکلفیاں اور السلام علیکم کی بے تکلف آواز وادی غیر ذی زرع کے امی اور بکریوں کے چرواہے کی تعلیم کا نتیجہ ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ “ 4

اسی طرح حکیم نور الدین نے حساب و جغرافیہ کے استاذ سے کسب فیض کے لیے جو جملہ استعمال کیا ہے، وہ ادب واحترام سے نہایت ہی گرا ہوا ہے۔ خود انہیں کے الفاظ میں سماعت کیجیے۔

حساب اور جغرافیہ پڑھنے کے لیے میں نے ایک آدمی نو کر رکھ لیا اور بجائے اس ذہاب وایاب کے، جو مدرسہ کے جانے میں ہوتا تھا، میرا وقت اقلیدس اور حساب اور جغرافیہ کے لیے مفت بچ جاتا تھا۔ 5

دوسری مرتبہ حرمین شریفین میں حاضری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مکہ معظمہ میں میں جہاں رہتا تھا، میری عادت تھی کہ و ہیں احرام باندھ کر عمرہ ادا کر لیا کرتا تھا۔ جن کے گھر میں رہتا تھا ، وہ ایک بوڑھے شخص مخدوم کہلاتے تھے ، انہوں نے میری اس حرکت کو بار بار دیکھ کر کہا کہ آپ تنعیم سے کیوں احرام نہیں باندھتے ؟ میں نے کہا کہ میں طالب علم آدمی ہوں ، میرے پاس اتنا وقت کہاں ہے ۔ آنے جانے میں چھ سات میل کا سفر ہے اور پھر بلا ضرورت اور بیہودہ بات ہے۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ والے مکہ سے احرام باندھ سکتے ہیں۔ اس پر وہ بڑے گھبرائے اور کہنے لگے کہ آپ تمام شہر کے خلاف کرتے ہیں۔ میں نے کہا تمام وہ شہر کے خلاف تو نہیں، البتہ گدھے والوں کے خلاف کرتا ہوں ، جن کے کرایہ میں کی ہوتی ہے۔6

نظریات و خیالات:

حکیم نورالدین بھیروی کو مولوی اسماعیل صاحب شہید سے نہایت ہی عقیدت و محبت تھی۔ اور یہ کسی حد تک تھی ، اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے، جسے وہ خود بیان کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ رام پور میں اکثر مولوی اسماعیل شہید کے بارے میں گفتگو ہوتی اور جب بحث و مباحثہ میں تیزی آتی تو میں ان کا بھر پور دفاع کرتا۔ ایک مرتبہ میرے استاذ مولوی ارشاد حسین نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی مولوی اسماعیل شہید سے ملاقات کی ہے ۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ میں نے اب تک ملاقات نہیں کی ہے۔ مولوی ارشاد حسین کہنے لگے کہ ہم تو ان سے علم میں کہیں زیادہ آگے ہیں۔ بھیروی کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ آپ ان سے علم میں زیادہ سہی لیکن یہی تو کشش ہے کہ میں ان کے مقابلہ میں آپ کو یا کسی کو نہیں سمجھتا۔ 7

اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ جناب نے تقویۃ الایمان نہایت ہی دلچسپی سے پڑھی۔ اور قرآن پاک کے ترجمہ پڑھنے کی رغبت کسی اور نے نہیں، بلکہ سید احمد صاحب کے مجاہدین سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کتب نے دلائی، ج حکیم نور الدین بھیروی کے گھر ٹھہرے تھے۔

اسی طرح طالب علمی کے زمانہ میں بھوپال جانے کے تذکرہ کے ضمن میں خصوصیت کے ساتھ بیان کیا کہ جب وہ گوالیار پہنچے تو وہاں پر مولانا سید احمد صاحب بریلوی کے کسی مخلص سےملاقات ہوئی۔ 8

متذکرہ شواہد و بینات سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ حکیم نورالدین صاحب ذہنی، فکری اور فطری طور پر علمائے دیو بند سے نہایت ہی قریب رہے ہیں۔



اخلاقیات:



حکیم نورالدین بھیروی حالات زندگی بیان کرتے ہوئے ، اپنی بڑائی ہانکنے سے نہ چوکے، بلکہ جب بھی بات نکلی ، انہوں نے خوب بڑھا چڑھا کر اپنے لیے توصیفی کلمات کہے۔

مثال کے طور پر لکھنو کے قیام کے دوران جب انہوں نے رام پور جانے کا ارادہ کیا ، تو حکیم علی حسین صاحب بھی نواب رام پور کی خواہش پر ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے ۔

اس پر حکیم نورالدین صاحب اپنے بارے میں کہتے ہیں:

غرض ہماری ولایت کا وہاں سکہ بیٹھ گیا۔ 9

اسی طرح نحوی مباحثہ میں اپنے استاذ سے ملنے والی تائید کو فخر سے بیان کرتے ہیں۔

یہ سوال عبد الرحمن میں جو جامی کا حاشیہ ہے، لکھا ہے اور اس میں اس سوال کے دو جواب دیتے ہیں ، پھر وہ دونوں جواب بھی سنائے ، مگر وہ جواب بہت ہی کمزور تھے ، جن کے متعلق مولوی صاحب نے خود فرمایا کہ یہ بہت کمزور ہیں اور آپ کا جواب بہت صحیح ہے۔ 10

اسی طرح بھوپال کے مدار المهام منشی جمال الدین خاں کے درس میں اپنے علمی رعب جمانے کا تذکرہ بھی بڑے مزے لے کر سناتے ہیں۔

دو ایک روز میں بھی درس میں چلا گیا۔ وہاں یہ سبق تھا

وَإِذَا لَقُو الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ 11

میں نے کہا کیا اجازت ہے کہ ہم لوگ کچھ سوال بھی کریں ؟ منشی صاحب نے فرمایا بخوشی ۔ میں نے کہا یہاں بھی منافقوں کا ذکر ہے اور نرم لفظ بولا ہے ۔ یعنی

بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ 12

اور اس سورت کی ابتدا میں بھی جہاں انہیں کا ذکر ہے، وہاں بڑا تیز لفظ ہے۔

إِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطينهم 13

اس نرمی اور کشتی کی وجہ کیا ہو گی ؟ منشی صاحب نے فرمایا کہ تم جانتے ہو؟ میں نے کہا، میرے خیال میں ایک بات آتی ہے کہ مدینہ منورہ میں دو قسم کے منافق تھے ، ایک اہل کتاب اور ایک مشرک ۔ اہل کتاب کے لیے نرم یعنی "بعضهم کا نرم لفظ اور مشرکین کے لیے سخت الى شيطينهم بولا ہے۔ منشی صاحب من کر اپنی مسند پر سیدھے کھڑے ہو گئے اور میرے پاس چلے آئے ۔ مجھ سے کہا کہ آپ وہاں بیٹھیں اور میں بھی اب قرآن شریف پڑھوں گا۔ قدرت الہی ، ہم وہاں ایک ہی لفظ پر قرآن کریم کے مدرس بن گئے ۔14

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکیم نورالدین صاحب میں فطری طور پر عاجزی وفروتنی نہ تھی، بلکہ وہ اپنے آپ کو سب سے بلند ثابت کرنے سے کبھی نہ چوکتے ۔ ایک مرتبہ طالب علموں کے درمیان مباحثہ ہوا کہ اہل کمال اپنا کمال کسی کو بتاتے ہیں یا نہیں ؟ حکیم صاحب کہتے تھے کہ اہل کمال تو اپنا کمال سکھانے کے لیے بے قرار رہتے ہیں، مگر کوئی سیکھنے والا ہی نہیں ملتا، جب کہ دوسرے طلبہ کہتے تھے کہ سکھنے والے تو بہت ہیں، مگر اہل کمال اپنے کمال سے کسی کو آشناہی نہیں کرنا چاہتے ۔ مباحثہ میں کوئی شکست تسلیم کرنے کو تیارہی نہ تھا، بالآخر سی کو حکم بنانے پر اتفاق ہوا۔ سبھوں نے کہا کہ یہاں امیر شاہ صاحب بہت بڑے عامل ہیں۔ ان کے پاس چلتے ہیں ۔ سب ان کے دولت کدے پر پہنچے اور سامنے بچھی چٹائی پر بیٹھ گئے ، جب کہ شاہ صاحب لکڑی کے تخت پر تکیہ لگائے لیٹے تھے ۔ آگے کی روداد خود حکیم صاحب کی زبانی سنیے۔

چونکہ مجھ کو زمین پر بیٹھنے کی قطعا عادت نہ تھی اور اب بھی مجھے بڑی نفرت ہوتی ہے، میں سامنے کی ایک کچی دیوار کے پاس کھڑا رہا۔ جب سب بیٹھ گئے تو امیر شاہ صاحب نے بڑی حقارت سے کہا او ملوا کس طرح آئے ۔ میں نے عرض کیا کہ ایک مقدمہ ہے، جس میں یہ سب لوگ مدعی اور میں مدعا علیہ ہوں یا میں مدعی ہوں اور یہ سب مدعا علیہ ہیں ۔ آپ سے فیصلہ چاہتے ہیں ، تب انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم کھڑے کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا کہ چٹائی بہت چھوٹی ہے، جو ہمارے اعزاز کے قابل طالب علم تھے ، وہ بیٹھ گئے ، اب کوئی جگہ نہیں ، اس لیے میں کھڑا ہوں ۔

انہوں نے فرمایا کہ تم ہمارے پاس آجاؤ۔ میں فورا تخت پر ان کے پاس جا بیٹھا۔ طالب علموں کا تو اسی وقت فیر فیصلہ ہو گیا مگر انہوں نے مقدمہ سن کر صاف لفظوں میں مجھ سے کہا کہ تم سچے ہو اور یہ سب غلطی پر ہیں ۔ 15

اسی طرح مکہ معظمہ میں اپنے استاذ شیخ محمد خزرجی سے ہونے والے مباحثہ کا تذکرہ بھی کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ میں ابوداؤد پڑھ رہا تھا کہ اعتکاف کے مسئلہ میں حدیث سے معلوم ہوتا تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر انسان مختلف ہو جائے ۔ انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ تم حاشیہ پڑھو، یہ حدیث بہت مشکل ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حدیث تو بہت آسان ہے۔ آپ کا حکم ہے ، اس لیے میں دیکھ لیتا ہوں ۔ انہوں نے کہا بہت مشکل ہے، کیونکہ اکیس تاریخ کی صبح کو بیٹھیں تو ممکن ہے کہ اکیسویں شب لیلۃ القدر ہو ۔ اگر اس لحاظ سے عصر کو بیٹھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ معاشی کی غلطی ہے۔ میرے خیال میں بیس کی صبح کو بیٹھے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا یہ تو اجماع کے خلاف ہے۔ میں نے کہا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال آپ پڑھیں ، یہ اجماع محض دعاوی تک محدود ہیں۔ 16

جیب میں پیسے نہ ہوں ، پھر بھی سیر ہو کر کھانے کی جرات صاف بتارہی ہے کہ انسان، دکان دار کو فریب دینے اور پریشان کرنے میں بڑا ہی فنکار ہے۔

اس پس منظر میں حکیم نور الدین صاحب کا اعتراف جرم ساعت کیجیے۔

جب اس باروچی کی دکان کے سامنے سے گزرا تو اس نے کہا کہ کھانا کھالو۔ میں نے کتا ہیں اور اسباب اس کی دکان پر رکھ کر بلا تکلف خوب کھانا کھا لیا۔ میرے دل میں تھا کہ پیسے تو پاس ہیں نہیں، مگر آخر تمام اسباب آٹھ آنہ کا بھی نہ ہوگا؟ 17

پراگندہ ذہنیت:

خود بیان کرتے ہیں کہ رام پور کے زمانہ قیام میں میرا ایک ساتھی پڑھنے میں مست دکھائی دینے لگا، تو میں نے وجہ پوچھی ۔ اس نے بتایا کہ مجھے فلاں لڑکے سے عشق ہو گیا ہے اور بغیر اسے دیکھے سکون نہیں ملتا۔ حکیم نورالدین صاحب کہتے ہیں کہ میں اپنے ساتھی کو لے کر اس لڑکے کے پاس گیا اور صاف لفظوں میں بتایا کہ میرا یہ دوست آپ سے عشق کرتا ہے اور عدم ملاقات کی صورت میں پڑھائی نہیں ہو پاتی ۔ اس لیے میں سفارش کرتا ہوں کہ آپ روزانہ شام سے مغرب تک اسے اپنی دکان میں بیٹھنے کی اجازت دے دیں۔ لڑکے نے میری گزارش قبول کر لی۔

اس واقعہ کے بعد حکیم نورالدین بھیروی، جو تبصرہ کرتے ہیں، وہ انہیں کی زبانی سنیے: اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ فی اللہ کوئی کام کرتا ہے ، خدائے تعالیٰ اس میں ضروربرکت دیتا ہے۔ 18

العیاذ باللہ، ہو سکے تو دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ضمیر سے پوچھیے کہ دونوجوان لڑکوں کے در میان عشق و معاشقہ میں حکیم نورالدین بھیروی تعاون کر رہے ہیں اور اسے اللہ رب العزت کے لیے ہونے والا عمل قرار دے رہے ہیں!

اگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے آسمانی عذاب قیامت تک کے لیے مؤخر نہ ہو گیا ہوتا تو ہم خدائے ذوالجال کی بارگاہ میں ہونے والی گستاخی کے بھیا تک عواقب اپنے ماتھے کی آنکھ سے مشاہدہ کر لیتے۔

مکہ معظمہ میں جس گھر میں قیام تھا، وہ ایک ضعیف العمر بزرگ کا تھا، جس کی بیوی نہایت حسین و جمیل اور کم عمر تھی ۔ اب آگے کا قصہ خود انہیں کی زبانی سنیے؛

مخدوم صاحب بہت ضعیف العمر آدمی تھے اور ان کی بیوی بے نظیر حسین اور بہت کم عمر تھی لیکن وہ اپنے ہاتھ سے کاغذ گھوٹ کر پیسے کما کر اپنے خاوند کے لیے نہایت ہی نرم غذا بنایا کرتی تھی۔ میں اس خدمت کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا۔ ایک دن میں نے تنہائی میں اس سے کہا کہ تم کو اپنے حسن کی خبر بھی ہے؟ اس نے کہا، خوب خبر ہے اور میں اپنی اس خبر کی شہادت بھی دے سکتی ہوں اور وہ شہادت یہ ہے کہ مکہ کی تمام عورتوں کو دیکھ لو، یہ اپنے رخساروں پر ایک داغ بناتی ہیں اور مجھ کو دیکھو میرے چہرہ پر کوئی داغ نہیں اور سارے شہر میں ایسی میں ہی ایک عورت ہوں ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ میں اپنے حسن کو پہچانتی ہوں ۔ جب عورتوں نے مجھ کو بہت مجبور کیا تو میں نے اپنے بالوں کے نیچے گردن پر داغ بنائے ۔ چنانچہ اس نے اپنے بال اٹھا کر مجھے دکھائے۔ میں نے کہا اب دوسرا سوال یہ ہے کہ مخدوم صاحب کی تم اس قدر خدمت کرتی ہو کہ میں دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں ۔ یہ نہایت ضعیف العمر آدمی ہیں اور تم نو عمر ہو ۔ کہنے لگی کہ اگر یہ ضعیف العمر نہ ہوتے تو میں کیوں کاغذ گھوٹتی۔19

قادیانی جماعت کے سب سے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین بھیروی کی خود گفت رو داد آپ نے سماعت کر لی ہے۔ یہاں کئی باتیں قابل توجہ ہیں:

1۔ جناب دوسرے کی بیوی تاڑ رہے ہیں۔

2 ۔ اور وہ بھی حرمین شریفین کی مقدس سرزمین پر۔

3۔ پھر اس کے حسن و جمال کا ذکر بھی مزے لے لے کر رہے ہیں اور عمر کی پیمائش بھی اس کے شوہر نامدار کے تقابل میں ہو رہی ہے۔

4۔ بات دیکھنے پر ہی بس نہ ہوئی، بلکہ اس سے گفتگو کا موقع بھی نکال ہی لیا۔

5۔ اور وہ بھی تنہائی میں۔

6۔ اشارے کنائے میں میاں بیوی کے پوشیدہ تعلقات پر بھی بات ہو رہی ہے۔

7۔ نوعمر خاتون اپنے بال اٹھا کر گردن کے نیچے بنے داغ بھی دکھا رہی ہے اور جناب خوب محظوظ ہو رہے ہیں ۔

8۔ خاتون سے اس کے حسن و جمال پر بات بھی ہو رہی ہے اور انداز بھی عام نہیں ہے، بلکہ ایک دیوانہ عشق و محبت کے لہجے میں۔

9۔ اور سب سے بڑھ کر ایک وفاشعار بیوی کو شوہر کے خلاف بھڑکانے کی سازش۔

10۔ پھر اپنے شاگروں سے یہ شرمناک داستان خود ہی بیان کر رہے ہیں۔

خصوصی نکات سامنے ہیں۔ میں مزید کچھ کہنے کے بجائے فیصلہ آپ کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں، تاہم مودبانہ عرض یہ ہے کہ غیر جانبداری کے تقاضے بہر کیف سلامت رہیں۔

اسی طرح واپسی حج کے دوران ایک شادی شادہ جوڑے سے حکیم نورالدین صاحب کہتے ہیں کہ میں تو خشکی کے راستے جلد وطن پہنچ جاؤں گا، اس لیے تم اپنے گھر والوں کے لیے کوئی پیغام ہو، تو دے دو۔ یہ سنتے ہی نو عمر خاتون نے جو کچھ کہا اور کیا، وہ حکیم صاحب کی زبانی سنیے۔

دو وہ عورت سر سے کپڑا اتار کر میرے پاؤں پر گر پڑی اور کہا کہ صرف آپ کی مہربانی یہ ہے کہ ہمارا پتہ اس ملک میں کسی کو نہ دیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں ایک شریف عورت ہوں ۔ کم عمری میں بیوہ ہوگئی اور ہمارے یہاں بوجہ شرافت کے، بیوہ کا نکاح نہیں کرتے اور یہ بزرگ پیری مریدی کرتے ہیں ۔ ہمارے پڑوس میں ان کے مرید رہتے ہیں، میں نے ان سے مخفی طور پر نکاح کر لیا ہے، جس کی خبر ہمارے گھر والوں کو نہیں۔ اس طرح مجھ کو گیارہ دفعہ اسقاط کرانا پڑا، پھر بھی میرے جوش جوانی کے ایسے تھے ۔20

مجھے خاتون کی سرگذشت سن کر انتہائی افسوس ہے، تاہم حکیم نورالدین صاحب نے جس طرح بازاری لب ولہجے میں میاں بیوی کے تعلقات کے نتیجے میں اسقاط حمل کا ذکر کیا ہے اور پھر جوش جوانی جیسی تراکیب استعمال کی ہے ، اس کی توقع کسی بھی مہذب متقی اور پر ہیز گار شخص سے نہیں کی جاسکتی ہے، چہ جائے کہ ظاہری تام جھام اور رکھ رکھاؤ سے ذی استعداد عالم دین ہونے کا ثبوت فراہم کرنے والے!

اپنے وطن بھیرہ میں ایک بیوہ کے حسن میں گرفتار ہونے اور اس سے شادی کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جناب خود بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں اپنے ایک فوت شدہ دوست کو دیکھا کہ وہ بیمار ہے۔ میں نے پوچھا کہ مرنے کے بعد بھی تم بیمار کیسے؟ اس نے ایک لڑکی کو بازو سے پکڑ کر مجھے دکھایا کہ دنیا میں مجھے اس سے عشق تھا، اسی لیے مبتلائے عذاب ہوں ۔ آگے کی بات خود حکیم نورالدین صاحب کی زبانی سینے؟

ہمارے شہر میں ایک محلہ ہے، وہاں کی عورتیں کسی قدر خدو خال میں اچھی ہوتی ہیں اور ان لوگوں میں پردہ کا رواج بھی نہیں ، گو مسلمان ہیں ۔ اس محلہ کی عورتیں ایک روز کسی شادی میں جاتی تھیں۔ میں بھی اتفاق سے اس طرف سے گزرا۔ ان کو دیکھ کر مجھ کو یقین ہوا کہ اس وقت محلہ کی سب عورتیں ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ مائیو! دیوار کے ساتھ مل کر ایک صف تو بناؤ۔ میرے بزرگوں کی وجاہت ایسی تھی کہ انہوں نے میری بات مان لی اور سڑک کے کنارے سب ایک صف میں کھڑی ہو گئیں۔ ان میں بعینہ وہی لڑکی ، جو میں نے رویا میں دیکھی تھی، نظر آئی ، جو ابھی کنواری ہی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ اس کو میرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ بعض دوسری عورتوں نے اس کو دھکیل کر میری طرف بھیج دیا۔ “ 22

یہ درست ہے کہ خواب کسی کے قبضہ واختیار میں نہیں ، اس لیے کسی لڑکی کو خواب میں دیکھنے یا نہ دیکھنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، تاہم یہ کیسی عجیب و غریب بات ہے کہ جناب محلہ کی عورتیں نہ صرف تاڑیں، بلکہ ایک کنواری لڑکی کو علیحدہ کر کے قریب بلائیں۔ اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس واقعہ کو مزے لے لے کر دوسروں کو سنا ئیں بھی !

اور سینے کہ جناب کسی زمانے میں ایک عیسائی عورت پر فریفتہ ہو گئے تھے ۔ یہ دلچسپ اعتراف خود انہیں کی زبانی سنیے۔

میں ایک مرتبہ ایک عیسائی عورت سے شادی کرنے لگا تھا، لیکن صرف پردہ کے مشکلات کے باعث باز رہا۔ “23

شرمناک کردار پر دلالت کرنے والے یہی کوئی دو چار واقعات نہیں ہیں، بلکہ مجھے یقین ہے کہ امعان نظر سے حکیم نورالدین بھیروی کے شب وروز کا جائزہ، اندر اور باہر دونوں جہتوں سے، لیا جائے تو یہ فہرست مزید لمبی ہوسکتی ہے۔

سوچتا ہوں تو دماغ پھٹنے لگتا ہے کہ بظاہر شہرت یافتہ حکیم اور عالم دین سمجھے جانے والے، اندر سے کن قدر پراگندہ ذہنیت کے مالک ہیں .... اور اس سے زیادہ حیرت و استعجاب تو ان لوگوں کی فہم و فراست پر ہے، جو انہیں برگزیدہ خلیفہ وقت تسلیم کرتے ہیں!


مرزا قادیانی سے قربت:


اشارہ یہ بات گزر چکی ہے کہ حکیم نورالدین بھیروی جموں میں مقیم تھے اور مرزاغلام احمد قادیانی سیالکوٹ میں بغرض ملازمت موجود تھے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکیم صاحب جموں آتے جاتے سیالکوٹ سے گزرتے رہے ہوں گے، جہاں ان کی ملاقات مرزا غلام احمد قادیانی سے ہوئی، جو رفتہ رفتہ دوستی اور دلی قربت میں تبدیل ہو گئی۔

دونوں کی ایک دوسرے سے قربت کی دوسری وجوہات کے علاوہ ، جو وجہ سب سے زیادہ مؤثر لگتی ہے، وہ ہے طبعی میلان ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ دونوں اسلاف کرام پر جارحانہ تنقید سے نہیں چوکتے تھے ، بلکہ اپنی جدا گانہ رائے کے اظہار میں بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے تھے، نیز غیر مسلموں کے ساتھ بحث و مباحثہ اور مناظرہ و مجادلہ کے حوالے سے دونوں کے درمیان حد درجہ یگانگت پائی جاتی تھی۔

مرزا قادیانی اپنے دوست حکیم نورالدین بھیروی کے بارے میں لکھتے ہیں:

میں رات دن خدائے تعالیٰ کے حضور چلاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے رب، میرا کون ناصر و مددگار ہے ۔ میں تنہا ہوں اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور فضائے آسمانی میری دعاؤں سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور رب العلمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطافرما دیا.. اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے۔ 24

اسی طرح حکیم نور الدین بھیروی کی مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ عقیدت و محبت اور الفت و شیفتگی سمجھنے کے لیے یہ خط پڑھیے۔

مولانا، مرشدنا ، اما منا السلام علیکم و بركاتہ

عالی جناب ، میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زماں سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے، وہ مطالب حاصل کروں ۔ اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا ر ہوں یا اگر حکم ہوتو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں ۔ میں آپ کی راہ میں قربان ہوں، میرا جو کچھ ہے، میرا نہیں ہے ، آپ کا ہے۔

حضرت پیرو مرشد ! میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں قربان ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں، تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنی خدمت بجالاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کردوں ۔

حضرت پیر و مرشد ! نابکار شرم سار عرض کرتا ہے ، اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے ۔ میرا منشا ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ مجھ پر ڈال دیا جائے ، پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو ، وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو۔ مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ دعا فرمائیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو ۔ 25

مرزاغلام احمد قادیانی اپنی خواب گاہ کی باتیں بھی حکیم نورالدین سے کر لیتے تھے۔

خط کا یہ اقتباس خصوصیت کے ساتھ پڑھیے۔

ایک مرض مجھے نہایت خوفناک تھی کہ صحبت کے وقت لیٹنے کی حالت میں نعوظ بکلی جاتا رہتا تھا ۔ شاید قلت حرارت غریزی اس کا موجب تھی ۔ وہ عارضہ بالکل جاتا رہا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ دو احرارت غریزی کو بھی مفید ہے اور منی کو بھی غلیظ کرتی ہے۔ غرض میں نے تو اس میں آثار نمایاں پائے ہیں۔ 26

متذكرة الذکر دونوں افراد کے درمیان تعلقات گہرے ہوتے گئے ، یہاں تک کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کرنا چاہا تو باضابطہ خط لکھ کر حکیم نورالدین بھیروی سے مشورہ کیا ، جس کے جواب میں جو کچھ مشورے رہے ہوں ، اس کے جواب الجواب میں لکھے گئے مرزا قادیانی کے خط کا یہ اقتباس حیرت و استعجاب سے پڑھیے۔

جو کچھ آں مخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعوی ظاہر کیا جائے ، تو اس میں حرج کیا ہے؟ در حقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں ، یہ بننا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کر لیوے لیکن ہم ابتلا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے ۔ خدا تعالی نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلا ہی کو رکھا ہے، جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے، احسب الناس ان يتركوا ان يقولوا أمنا وهم لا يفتنون - 27

توجہ رہے کہ جناب مسیح موعود بنائے جانے کی بات نہیں کر رہے ہیں، بلکہ بنے کی بات کر رہے ہیں ۔ اے کاش ان کے معتقدین بھی ان کی یہی حیثیت تسلیم کر لیتے تو یقین کیجیے کہ ہمیں نہ کوئی کتاب لکھنے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی صدائے احتجاجات بلند کرنے کی حاجت ہوتی ، اس لیے کہ سارے اختلافات کی بنیاد ہی یہ ہے کہ وہ بنائے گئے تھے یا خود بنے تھے۔

بہر کیف ، حکیم نورالدین نے مرزا غلام احمد قادیانی سے درخواست کی تھی کہ جب بھی بیعت کریں، تو سب سے پہلے مجھے موقع دیں۔

... تو ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت مولوی صاحب نے سب سے پہلے بیعت کی برکت حاصل کی اور آپ کی درخواست پر حضور نے اپنے قلم سے بیعت کے الفاظ لکھ کر دیے ۔ 28

تا ہم ، اب بھی حکیم نور الدین صاحب بسلسلہ ملازمت جموں میں ہی مقیم تھے۔ ۱۸۹۳ء یا ۱۸۹۳ء میں ارباب اقتدار کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے اور انہیں ملازمت چھوڑنی پڑی۔ کچھ عرصہ اپنے وطن بھیرہ میں رہے اور طبابت سے تعلق برقرار رکھا، پھر مستقل طور پر قادیان میں رہائش پذیر ہوئے اور ساری عمر تحریک قادیانیت کے لیے وقف کر دی۔

مرزاغلام احمد قادیانی کی موت کے بعد ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء میں وہ جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ بنائے گئے ۔ آثار و قرائن سے محسوس ہوتا ہے کہ حکیم نورالدین صاحب کی خلافت بہت دنوں تک پر سکون نہ رہی، بلکہ جلد ہی ان کے بارے میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ احمد یہ بلڈ نگ لاہور کی مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

اب سوال ہوتا ہے کہ خلافت حق کس کا ہے؟ ایک میرا نہایت ہی پیارا محمود ہے ، جو میرے آقا اور محسن کا بیٹا ہے ، پھر دامادی کے لحاظ سے نواب محمد علی خاں کو کہہ دیں ، پھر خسر کی حیثیت سے ناصر نواب صاحب کا حق ہے یا ام المؤمنین کا حق ہے، جو حضرت صاحب کی بیوی ہیں ۔ یہی لوگ ہیں ، جو خلافت کے حق دار ہو سکتے ہیں، مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جو لوگ خلافت کے متعلق بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا حق کسی اور نے لے لیا، وہ اتنا نہیں سوچتے کہ یہ سب کے سب میرے فرماں بردار اور وفادار ہیں.....29

نخوت و غرور کے نشے میں ڈوبے ہوئے یہ جملے ملاحظہ فرمائیے۔

میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا ہی نے خلیفہ بنایا ہے. پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے ، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے ۔ پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اس کے چھوڑ دینے پر تھو کتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا ء کو مجھ سے چھین لے۔ 30

ایک اور موقع پر دھمکی آمیز لب ولہجہ میں کہتے ہیں:

نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے ۔ میں جب مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا ، جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا۔ تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کیے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو۔ مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے ۔ اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں، جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے۔ 31

آپ محسوس کر رہے ہیں کہ حکیم نورالدین ۱۹۰۸ء میں خلیفہ بنائے گئے اور مندرجہ بالا خطاب ۱۹۱۲ء میں کر رہے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جماعت میں صرف تین چار سالوں کے اندر انتشار و افتراق کی چنگاری سلگ پڑی۔

بہر کیف ، حکیم نورالدین بھیروی نے کسی طرح اپنی ذمہ داریاں پوری کیں ۔ اسی دوران اوائل 1911ء میں گھوڑے سے گر پڑے جب کہ عمر ستر سال کے قریب تھی۔ سر پر سخت چوٹ لگی اور بہت خون بہہ گیا ، جس کی وجہ سے تین سالوں تک یہ بیماری کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی۔ 32

جب زندگی کے آثار معدوم ہونے لگے ، تو حکیم نورالدین بھیروی نے ۴ مارچ ۱۹۱۴ء میں ایک وصیت لکھوائی ، جس کا یہ حصہ پڑھیے۔

میرے چھوٹے بچے ہیں۔ میرے گھر مال نہیں ، ان کا اللہ حافظ ہے۔ ان کی پرورش یتامی اور مساکین کے حساب سے نہ ہو۔ کچھ قرض حسنہ جمع کیا جائے ۔ لائق لڑکے ادا کریں یا کتب جائیداد وقف علی الاولاد ہو.....33

جب کہ ان کے معتقدین کہتے ہیں کہ حکیم نور الدین صاحب نے ساری عمر تو کل علی اللہ کے سہارے گزاری ہے۔

آپ کا خدا سے ایسا ذاتی تعلق تھا کہ آپ کی ہر ضرورت پوری کرنے کا خدا انتظام کر دیتا اور اس بارہ میں آپ کی زندگی میں اتنے واقعات آئے ، جن کا شمار نامکن نہیں ، تو مشکل ضرور ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میری آمدنی کا راز خدا نے کسی کو بتانے کی اجازت نہیں دی ۔ 34

کسے خبر نہیں کہ امانت میں خیانت کرنا نہایت ہی بری خصلت ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ان کے چاہنے والے متذکرہ قابل مذمت حرکت کو بھی تعریف ، توصیف کے غلاف میں بڑے سلیقے سے لپیٹ کر قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو سنیے۔

. اسی طرح کشمیری دوست نے چار سو روپیہ بطور امانت دیے ۔ چند دن بعد اس کا تار آ گیا کہ مجھے روپیے کی ضرورت ہے۔ حضرت خلیفہ المسیح الاول اس وقت اپنے ہسپتال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ وقت کے بعد شاہ پور کے دو ہندور میں آئے اور ایک تھیلی میں پھل اور چار سور و پیہ نذرانہ پیش کیا۔ 35

دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ واقعہ کے راوی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موصوف نے وہ امانت خرچ کردی ، تاہم جب صاحب امانت نے تار بھیجا کہ انہیں روپیے کی ضرورت ہے، تو حکیم نور الدین کے غیبی تصرفات کے نتیجے میں ایک ہندو رئیس نے اسی قدر روپئے نذر کر دیے، جتنے بطور امانت رکھائے گئے تھے۔

بہر کیف ، اسی درمیان جنوری ۱۹۱۴ء میں پیشاب کے لیے اٹھے تو گر پڑے ۔۳ ۱ / مارچ کو حالت نازک ہوگئی اور انتقال کر گئے ۔36

(ماخوذ ۔۔۔ قادیانیت ایک تنقیدی مطالعہ ۔۔۔از ڈاکٹر غلام زرقانی قادری )


  • 1 مرقاة اليقين، ص: ۷۸
  • 2 مرقاة اليقين، ص: 94
  • 3 مرقاة اليقين، ص: 242
  • 4 مرقاة اليقين، ص: 78
  • 5 مرقاة اليقين، ص: 67
  • 6 مرقاة اليقين، ص: 119
  • 7 مرقاة اليقين، ص: 76
  • 8 مرقاة اليقين، ص: 87
  • 9 مرقاة اليقين، ص: 81
  • 10 مرقاة اليقين، ص: 71
  • 11 البقرۃ ،77/2
  • 12 البقرۃ ،77/2
  • 13 البقرۃ ،15/2
  • 14 مرقاة اليقين، ص: 92
  • 15 مرقاة اليقين، ص: 85
  • 16 مرقاة اليقين، ص: 103،104
  • 17 مرقاة اليقين، ص: 90
  • 18 مرقاة اليقين، ص: 73
  • 19 مرقاة اليقين، ص: 119،120
  • 20 مرقاة اليقين، ص: 121
  • 21 مرقاة اليقين، ص: 149
  • 22 مرقاة اليقين، ص: 220
  • 23 مرقاة اليقين، ص: 191
  • 24 آئینہ کمالات، مندرجہ روحانی خزائن، ج ۵، ص: ۵۸۱-۵۸۴
  • 25 مرقاة اليقين، ص: 27،28
  • 26 مکتوبات احمد، ج:۲، ص: ۲۰، مکتوب نمبر : ۱۰
  • 27 مکتوبات احمد، ج:5، ص: 85
  • 28 سوانح حضرت خلیفہ المسیح الاول ، ص: ۱۹
  • 29 بدر، ج: ۱۲، نمبر :۱، مورخہ ۴ جولائی ۱۹۱۲ ء، ص:۷،۶
  • 30 بدر، ج:۱۲، نمبر:۱، مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۱۲ء، ص: ۷،۶
  • 31 بدر،جلد : ۱۲، نمبر : ۲، مورخه ا ا جولائی ۱۹۱۳ء
  • 32 سوانح حضرت خلیفہ المسیح الاول، ص: ۲۷، ۳۱
  • 33 سوانح حضرت خلیفہ المسیح الاول، ص: 30، 31
  • 34 سوانح حضرت خلیفہ المسیح الاول، ص: 33
  • 35 سوانح حضرت خلیفہ المسیح الاول، ص: 34
  • 36 سوانح حضرت خلیفہ المسیح الاول، ص: 31

Netsol OnlinePowered by