بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم حامدا ومصلیا ومسلما
اما بعد بست وپنجم ماہ ربیع الاول ۱۳۲۶ھ شب سہ شنبہ کو مولوی سجاد حسین ومولوی مبارک حسین صاحب مدرسین مدرسہ اسلامیہ بہار کے وطلبا تعلیم دادہ وعظ میں فرماتے تھے کہ خاتم النبیین میں ”النبیین“ پر الف لام عہد خارجی کا ہے، جب دوسرے روز مسجد چوک میں مولوی ابراہیم صاحب نے (جوبالفعل مدرسہ فیض رسول میں پڑھتے ہیں) اثنائے وعظ میں آیہ کریمہ:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِينَ1
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ (ت)
تلاوت کرکے بیان کیا کہ النبیین میں جو لفظ النبیین مضاف الیہ واقع ہوا ہے اس لفظ پر الف لام استغراق کا ہے بایں معنی کہ سوائے حضور پر نور ﷺ کے کوئی نبی نہ آپ کے زمانہ میں ہو اور نہ بعد آپ کے قیامت تک کوئی نبی ہو نبوت آپ پر ختم ہوگئی آپ کل نبیوں کے خاتم ہیں، بعد وعظ مولوی ابراہیم صاحب کے راحت حسین طالب علم مدرسہ اسلامیہ بہار کے مجاور درگاہ نے باعانت بعض معاون روپوش بڑے دعوے کے ساتھ مولوی ابراہیم صاحب کی تقریر مذکور کی تردید کی اور صاف لفظوں میں کہا کہ لفظ ’’النبیین‘‘ پر الف لام استغراق کا نہیں ہے بلکہ عہد خارجی کا ہے، چونکہ یہ مسئلہ عقائد ہے لہٰذا اس کے متعلق چند مسائل نمبر وار لکھ کر اہل حق سے گزارش ہے کہ بنظرِ احقاق ہر مسئلہ کا جواب باصواب بحوالہ کتب تحریر فرما دیں تاکہ اہل اسلام گمراہی وبدعقیدگی سے بچیں:
(1) راحت حسین مذکور کا کہنا کہ ”النبیین“ پر الف لام عہد خارجی کا ہے استغراق کا نہیں۔ یہ قول صحیح اور موافق مذہب منصور اہل سنت وجماعت کے ہے یا موافق فرقہ ضالہ زیدیہ کے؟
(2) نفی استغراق سے آیت کریمہ کا کیا مفہوم ہوگا؟
(3) برتقدیر صحت نفی استغراق اس آیہ سے اہل سنت کا عقیدہ کہ حضور پر نور ﷺ کل انبیاء کے خاتم ہیں، ثابت ہوتا ہے کہ نہیں اور اہل سنت اس آیہ کو مثبت خاتمیت کاملہ سمجھتے ہیں یا نہیں؟
(4) اگر آیت مثبت کلیت نہیں ہوگی تو پھر کس آیت سے کلیت ثابت ہوگی اور جب دوسری آیت مثبت کلیت نہیں تو اہل سنت کے اس عقیدے کا ثبوت دلیل قطعی سے ہرگز نہ ہوگا۔
(5) جس کا عقیدہ ہو کہ حضور پر نور ﷺ کل انبیاء کے خاتم نہیں ہیں، اس کے پیچھے اہلسنت کو نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
(6) اس باطل عقیدے کے لوگوں کی تعظیم وتوقیر کرنی اور ان کو سلام کرنا جائز ہوگا یا ممنوع؟
(7) کیا سنی حنفی کو جائز ہے کہ جو شخص حضور پر نور ﷺ کو کل انبیاء کا خاتم نہ سمجھے اس سے دینی علوم پڑھیں یا اپنی اولاد کو علم دین پڑھنے کے واسطے ان کے پاس بھیجیں۔(فقط المستفتی محمد عبداﷲ )
توضیح ص:۱۰۰میں ہے:
اَلأَصْلُُ أَيْ الرَّاجِحُ هو العَهْدُ الخارِجِيُّ لأنَّهُ حقيقةُ التعيينِ وكمالُ التمييزِ 2
اصل یعنی راجح عہد خارجی ہی کا ہے اس لئے عہد خارجی حقیقت تعیین اور کمال تمیز ہے۔
پس جب عہد خارجی سے معنی درست ہو تو استغراق وغیرہ معتبر نہ ہوگا۔
نور الانوار صفحہ ۸۱ میں ہے:
یَسْقُطُ اعتِبَارُ الجَمعِیَّةِ إِذَا دَخَلَت عَلَی الجَمعِ 3
جب لام تعریف جمع پر داخل ہو تو اعتبار جمعیت ساقط ہو جاتا ہے۔ 3
پس نبیین کہ صیغہ جمع ہے، جب اس پر الف لام تعریف داخل ہوا تو نبیین سے معنی جمعیت ساقط ہوگیا اور جب معنی جمعیت ساقط ہو گیا تو الف لام استغراق کا ماننا صحیح نہیں ہو سکتا۔
یہ امر مسلم ہے کہ مضاف مضاف الیہ کا غیر ہوتا ہے پس جب فرد واحد اس کل کے طرف مضاف ہو جس میں وہ داخل ہے تو وہ کل من حیث ہو کل ہونے کے کل، باقی نہ رہے گا بلکہ کلیت اس کی ٹوٹ جائے گی، اور جب کلیت اس کی باقی نہ رہی تو بعضیت ثابت ہوگئی اور یہی معنی ہے عہد کا، اور اگر اس فرد مضاف کو ہم اس کل کے شمول میں رکھیں توتقدم الشئی علی نفسہ لازم آتا ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ وجود مضاف الیہ مقدم ہوتا ہے وجود مضاف پر، پس ان دلائل سے ثابت ہوا کہ النبیین میں الف لام عہد خارجی کا ماننا چاہیے۔
از بہار شریف محلہ قلعہ مدرسہ فیض رسول مرسلہ مولوی ابو طاہر نبی بخش صاحب ۱۸ ربیع الاول شریف ۱۳۲۶ھ
حضور پر نور خاتم النبیین سید المرسلین ﷺ کا خاتم یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاء ومرسلین بلا تاویل وبلا تخصیص ہونا ضروریات دین سے ہے جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنیٰ شک وشبہ کو بھی راہ دے کافر مرتد ملعون ہے، آیت کریمہ:
وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِينَ 4
(لیکن آپ اﷲ کے رسول اور انبیاء کے خاتم ہیں۔ ت)
وحدیث متواتر :
لَا نَبِيَّ بَعْدِي5
(میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ت)
سے تمام امت مرحومہ نے سلفاً وخلفاً یہی معنی سمجھے کہ حضور اقدس ﷺ بلا تخصیص تمام انبیاء میں آخر نبی ہوئے حضور کے ساتھ یا حضور کے بعد قیام قیامت تک کسی کو نبوت ملنی محال ہے۔ فتاویٰ یتیمۃ الدہر واشباہ والنظائر وفتاویٰ عالمگیریہ وغیرہا میں ہے:
إِذَا لَمْ يَعْرِفِ الرَّجُلُ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ آخِرُ ٱلْأَنْبِيَاءِ، فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ لِأَنَّهُ مِنَ ٱلضَّرُورِيَّاتِ6
جو شخص یہ نہ جانے کہ محمد ﷺ تمام انبیاء میں سب سے پچھلے نبی ہیں وہ مسلمان نہیں کہ حضور کا آخر الانبیاء ہونا ضروریات دین سے ہے۔ (ت)
شفاء شریف امام قاضی عیاض میں ہے:
كذٰلِکَ یَکْفُرُ مَنْ ادَّعٰی نُبُوَّةَ اَحَدٍ مَعَ نَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَسَلَّمَ اَوْ بَعْدَہٗ۔ اِلٰی قَوْلِه: فَهؤُلَاءِ كلُّهمْ كفَّارٌ مُكذِّبُوْنَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ، اَخْبَرَ اَنَّه خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، وَلَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ، وَاَخْبَرَ عَنِ اللّٰه تَعَالٰی اَنَّه خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، وَاَنَّه اُرْسِلَ كافَّة لِلنَّاسِ، وَأَجْمَعَتِ الْاُمَّة عَلٰی حَمْلِ اَ نَّ هذَا الْکَلَامَ عَلٰی ظَاهرِه، وَاَنَّ مَفْهوْمَه الْمُرَادَ بِه دُوْنَ تَأْوِیْلٍ وَلَا تَخْصِیْصٍ، فَلَا شَکَّ فِیْ كفْرِ هؤُلَاءِ الطَّوَائِفِ كلِّها قَطْعًا، اِجْمَاعًا وَسَمْعًا7
یعنی جو ہمارے نبی ﷺ کے زمانہ میں خواہ حضور کے بعد کسی کی نبوت کا ادعا کرے کافر ہے (اس قول تک) یہ سب نبی ﷺ کی تکذیب کرنے والے ہیں کہ نبی ﷺ نے خبردی کہ خاتم النبیین ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں اور اﷲ تعالیٰ کی جانب سے یہ خبر دی کہ حضور خاتم النبیین ہیں اور ان کی رسالت تمام لوگوں کو عام ہے اور امت نے اجماع کیا ہے کہ یہ آیات واحادیث اپنے ظاہر پر ہیں جو کچھ ان سے مفہوم ہوتا ہے وہی خدا ورسول کی مراد ہے نہ ان میں کوئی تاویل ہے نہ کچھ تخصیص تو جو لوگ اس کا خلاف کریں وہ بحکم اجماع امت وبحکم قرآن وحدیث سب یقیناً کافر ہیں۔
امام حجۃ الاسلام غزالی قدس سرہ العالی کتاب الاقتصاد میں فرماتے ہیں:
إِنَّ الأُمَّةَ فَهِمَتْ هٰذَا اللَّفْظَ أَنَّهُ أَفْهَمَ عَدَمَ نَبِيٍّ بَعْدَهُ أَبَدًا، وَعَدَمَ رَسُولٍ بَعْدَهُ أَبَدًا، وَأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ تَأْوِيلٌ وَلَا تَخْصِيصٌ، وَمَنْ أَوَّلَهُ بِتَخْصِيصٍ، فَكَلَامُهُ مِنْ أَنْوَاعِ الْهَذَيَانِ، لَا يَمْنَعُ الْحُكْمَ بِتَكْفِيرِهِ، لِأَنَّهُ مُكَذِّبٌ لِهٰذَا النَّصِّ الَّذِي أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى أَنَّهُ غَيْرُ مُؤَوَّلٍ وَلَا مَخْصُوصٍ 8
یعنی تمام امت مرحومہ نے لفظ خاتم النبیین سے یہی سمجھا ہے وہ بتاتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے بعد کبھی کوئی نبی نہ ہوگا حضور ﷺ کے بعد کوئی رسول نہ ہوگا اور تمام امت نے یہی مانا ہے کہ اس میں اصلاً کوئی تاویل یا تخصیص نہیں تو جو شخص لفظ خاتم النبیین میں النبیین کو اپنے عموم واستغراق پر نہ مانے بلکہ اسے کسی تخصیص کی طرف پھیرے اس کی بات مجنون کی بک یا سرسامی کی بہک ہے اسے کافر کہنے سے کچھ ممانعت نہیں کہ اس نے نص قرآنی کو جھٹلایا جس کے بارے میں امت کا اجماع ہے کہ اس میں نہ کوئی تاویل ہے نہ تخصیص۔
عارف باﷲ سیدی عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی شرح الفرائد میں فرماتے ہیں:
تَجْوِیْزُ نَبِیٍّ مَعَ نَبِیِّنَا صَلَّی اللهُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوْ بَعْدَهٗ یَسْتَلْزِمُ تَکْذِیْبَ الْقُرْاٰنِ، إِذْ قَدْ نَصَّ عَلٰی أَنَّهٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَآخِرُ الْمُرْسَلِیْنَ، وَفِی السُّنَّةِ: أَنَا الْعَاقِبُ، لَا نَبِیَّ بَعْدِي، وَأَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلٰی إِبْقَاءِ هٰذَا الْکَلَامِ عَلٰی ظَاهِرِهِ، وَهٰذِهِ إِحْدٰي الْمَسَائِلِ الْمَشْهُوْرَةِ الَّتِیْ کَفَّرْنَا بِهَا الْفَلَاسِفَةَ، لَعَنَهُمُ اللهُ تَعَالٰی9
ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ یا بعد کسی کو نبوت ملنی جائز ماننا تکذیب قرآن کو مستلزم ہے کہ قرآن عظیم تصریح فرما چکا ہے کہ حضور اقدس ﷺ خاتم النبیین وآخر المرسلین ہیں اور حدیث میں فرمایا: میں پچھلا نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور تمام امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر ہے یعنی عموم واستغراق بلا تاویل وتخصیص اور یہ ان مشہور مسئلوں سے ہے جن کے سبب ہم اہل اسلام نے کافر کہا فلاسفہ کو، اﷲ تعالیٰ ان پر لعنت کرے۔
امام علامہ شہاب الدین فضل اﷲ بن حسین تورپشتی حنفی کتاب المعتمد فی المعتقد میں فرماتے ہیں:
بحمدہ اﷲ تعالیٰ ایں مسئلہ درمیان اسلامیان روشن ترازاں ست کہ آں را بکشف وبیان حاجت افتد، خدائے تعالیٰ خبردار کہ بعد ازوے ﷺ نبی دیگر نباشد ومنکر ایں مسئلہ کسے تواند بود کہ اصلاً در نبوت او ﷺ معتقد نباشد کہ اگر برسالت او معترف بودے وے را در ہرچہ ازاں خبردار صادق دانستے وبہماں جہتہاکہ از طریق تواتر رسالت او بیش مادرست شدہ ایں نیز درست شد کہ وے ﷺ باز پسیں پیغمبران ست در زمان او وتاقیامت بعد ازوے ہیچ نبی نباشد وہرکہ دریں بہ شک ست دراں نیز بہ شک ست ونہ آں کس کہ گوید کہ بعد اووے نبی دیگر بودیا ہست یا خواہد بودآں کس نیز کہ گوید کہ امکان دارد کہ باشد کافرست اینست شرط در ستی ایمان بخاتم انبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ10
بحمداﷲ تعالیٰ یہ مسئلہ اہلِ اسلام کے ہاں اتنا واضح اور آشکار ہے کہ اسے بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں، اﷲ تعالیٰ نے خود اطلاع فرما دی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، اگر کوئی شخص اس کا منکر ہے تو وہ تو اصلاً آپ کی نبوت کا معتقد نہیں کیونکہ اگر آپ کی رسالت کو تسلیم کرتا تو جو کچھ آپ نے بتایا ہے اس کو حق جانتا جس طرح آپ کی رسالت ونبوت تواتر سے ثابت ہے اسی طرح یہ بھی تواتر سے ثابت ہے کہ حضور تمام انبیاء کے آخر میں تشریف لائے ہیں اور اب تا قیامت آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جس کو اس بارے میں شک ہے اسے پہلی بات کے بارے میں شک ہوگا صرف وہی شخص کافر نہیں جو یہ کہے کہ آپ کے بعد نبی تھا یا ہے یا ہوگا بلکہ وہ بھی کافر ہے جو آپ کے بعد کسی نبی کی آمد کو ممکن تصور کرے، خاتم الانبیاء ﷺ پر ایمان درست ہونے کی شرط ہی یہ ہے۔ (ت)
بالجملہ آیت کریمہ :
وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِينَ 11
مثل حدیث متواتر:
لا نَبِيَّ بَعْدِي 12
قطعاً عام اور اس میں مراد استغراق تام اور اس میں کسی قسم کی تاویل وتخصیص نہ ہونے پر اجماعِ امت خیر الانام ﷺ، یہ ضروریات دین سے ہے اور ضروریاتِ دین میں کوئی تاویل یا اس کے عموم میں کچھ قیل وقال اصلاً مسموع نہیں، جیسے آج کل دجال قادیانی بک رہا ہے کہ ’’خاتم النبیین سے ختم نبوت شریعت جدیدہ مراد ہے اگر حضور کے بعد کوئی نبی اسی شریعت مطہرہ کا مروج وتابع ہوکر آئے کچھ حرج نہیں‘‘ اور وہ خبیث اس سے اپنی نبوت جمانا چاہتا ہے، یا ایک اور دجال نے کہا تھا کہ ’’تقدم 13
تاخر زمانی میں کچھ فضیلت نہیں خاتم بمعنی آخر لینا خیال جہال ہے بلکہ خاتم النبیین بمعنی نبی بالذات ہے۔
اور اسی مضمون ملعون کو دجال اول نے یوں 14ادا کیا کہ:
’’خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین ہے۔‘‘
ایک اور مرتد نے لکھا (عہ):
’’خاتم النبیین15 ہونا حضرت رسالت ﷺ کا بہ نسبت اس سلسلہ محدودہ کے ہے نہ بہ نسبت جمیع سلاسل عوالم کے، پس اور مخلوقات کا اور زمینوں میں نبی ہونا ہرگز منافی خاتم النبیین کے نہیں جموع محلے باللام امثال اس مقام پر مخصوص ہوتی ہیں۔‘‘
چند اور خبیثوں نے لکھا کہ:
’’الف لام 16خاتم النبیین میں جائز ہے کہ عہد کے لئے ہو اور برتقدیر تسلیم استغراق جائز ہے کہ استغراق عرفی کے لئے ہو اور برتقدیر حقیقی جائز ہے کہ مخصوص البعض ہو اور بھی عام کے قطعی ہونے میں بڑا اختلاف ہے کہ اکثر علماء ظنی ہونے کے قائل ہیں‘‘
ان شیاطین سے بڑھ کر اور بعض ابلیسیوں نے لکھا کہ(عہ: )
’’اہل اسلام 17کے بعض فرقے ختم نبوت کے ہی قائل نہیں اور بعض قائل ختم نبوت تشریعی کے ہیں نہ مطلق نبوت کے۔‘‘
اِلیٰ غَیْرِ ذٰلِکَ مِنَ الْکُفْرِیّاتِ الْمَلْعُوْنَة وَالِارْتِدَادَاتِ الْمَشْحُوْنَة بِنَجَاسَاتِ إِبْلِیْسَ وَقَاذُوْرَاتِ التَّدْلِیْسِ، لَعَنَ اللّٰہُ قَائِلَھَا، وَقَاتَلَ اللّٰه قَابِلَيھَا
دیگر کفریات ملعونہ اور ارتدادات جو ابلیس کی نجاستوں اور جھوٹ کی پلیدیوں کو متضمن ہے اﷲ تعالیٰ کی اس کے قائل پر لعنت ہو اور اسے قبول کرنیوالے کو اﷲ تعالیٰ برباد فرمائے۔ (ت)
یہ سب تاویل رکیک ہیں یا عموم واستغراق ’’النبیین‘‘ میں تشویش وتشکیک سب کفر صریح وارتداد قبیح، اﷲ ورسول نے مطلقاً نفی نبوت تازہ فرمائی، شریعت جدیدہ وغیرہا کی کوئی قید کہیں نہ لگائی اور صراحۃً خاتم بمعنی آخر بتایا، متواتر حدیثوں میں اس کا بیان آیا اور صحابہ کرام سے اب تک تمام امت مرحومہ نے اسی معنی ظاہر ومتبادر وعموم استغراق حقیقی تام پر اجماع کیا اور اسی بنا پر سلفاً وخلفاً ائمہ مذاہب نے نبی ﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کو کافر کہا، کتبِ احادیث وتفسیر عقائد وفقہ ان کے بیانوں سے گونج رہی ہیں، فقیرغفرلہ المولی القدیرنے اپنی کتابجزاء اﷲ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ۱۳۱۷ھ میں اس مطلب ایمانی پر صحاح وسنن ومسانید ومعاجیم وجوامع سے ایک سو بیس حدیثیں اور تکفیر منکر کہ ارشادات ائمہ وعلمائے قدیم وحدیث وکتب عقائد واصول فقہ وحدیث سے تیس نصوص ذکر کئے وﷲ الحمد۔ تو یہاں عموم واستغراق کے انکار خواہ کسی تاویل وتبدیل کا اظہار نہیں کرسکتا مگر کھلا کافر، خدا کا دشمن قرآن کا منکر، مردود وملعون، خائب وخاسر، والعیاذ باﷲ العزیز القادر، ایسی تشکیکیں تو وہ اشقیاء، رب العٰلمین میں بھی کرسکتے ہیں کہ جائز ہے لام عہد کے لئے ہو یا استغراق عرفی کے لئے یا عام مخصوص منہ البعض یا عالمین سے مراد عالمین زمانہ کقولہ تعالیٰ
وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ 18
اور میں نے تم کو جہاں والوں پر فضیلت دی۔ ت
اور سب کچھ سہی پھر عام قطعی تو نہیں خدا کا پروردگار جمیع عالم ہونا یقینی کہاں مگر الحمد ﷲ مسلمان نہ ان ملعون ناپاک وساوس کو رب العالمین میں سنیں نہ ان خبیث گندے وساوس کو خاتم النبیین میں،
اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِیْنَ 19
ارے ظالموں پرخدا کی لعنت،
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا20
بیشک جو ایذا دیتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول کو ان پر اﷲ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اﷲ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے(ت)
یہ طائفہ خائفہ خارجیہ جن سے سوال ہے اگر معلوم ہو کہ حضور پر نور خاتم الانبیاء ومرسلین ﷺ کے خاتم ہونے کو صرف بعض انبیاء سے مخصوص کرتا ہے حضور اقدس ﷺ کے روز بعثت سے جب یا اب کبھی کسی زمانے میں کوئی نبوت، اگرچہ ایک ہی، اگرچہ غیر تشریعی، اگرچہ کسی اور طبقہ زمین، یا کنج آسمان میں اگرچہ کسی اور نوع غیر انسانی میں واقع مانتا، یا باوصف اعتقاد عدم وقوع محض بطور احتمال شرعی وامکان وقوعی جائز جانتا یہ بھی سہی مگر جائز ومحتمل ماننے والوں کو مسلمان کہتا یا طوائف ملعونہ مذکورہ، خواہ ان کے کبراء یا نظراء کی تکفیر سے باز رہتا ہے، تو ان سب صورتوں میں یہ طائفہ خائفہ خود بھی قطعا یقینا اجماعاً ضرورۃً مثل طوائف مذکورہ قادیانیہ وقاسمیہ وامیریہ ونذیریہ وامثالہم لعنہم اﷲ تعالیٰ کافر ومرتد ملعون ابد ہے۔
قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ 21
(اﷲ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ ت)
کہ ضروریات دین کا جس طرح انکار کفر ہے یونہی ان میں شک وشبہہ اور احتمال خلاف، ماننا بھی کفر ہے یونہی ان کے منکر یا ان میں شاک کو مسلمان کہنا اسے کافر نہ جاننا بھی کفر ہے۔
بحر الکلام امام نسفی وغیرہ میں ہے:
مَنْ قَالَ بَعْدَ نَبِيِّنَا نَبِي يَكْفُرُ لِأَنَّهُ أَنْكَرَ النَّصَّ، وَكَذٰلِكَ لَوْ شَكَّ فِيهِ22
جو شخص یہ کہے کہ ہمارے نبی کے بعد نبی آسکتا ہے وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نص قطعی کا انکار کیا، اسی طرح وہ شخص جس نے اس کے بارے میں شک کیا۔(ت)
در مختار وبزازیہ ومجمع الانہر وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:
مَن شَكَّ فِي كُفْرِهِ وَعَذَابِهِ فَقَدْ كَفَرَ 23
جس نے اس کے کفر وعذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہے۔ (ت)
ان لعنتی اقوال، نجس تراز ابوال، کے رد میں اواخر صدی گزشتہ میں بکثرت رسائل ومسائل علمائے عرب وعجم طبع ہوچکے اور وہ ناپاک فتنے غار مذلت میں گر کر قعرِ جہنم کو پہنچے والحمد ﷲ رب العالمین۔ اس طائفہ جدیدہ کو اگر طوائف طریدہ کی حمایت سوجھے گی تو اﷲ واحد قہار کا لشکر جرار، اسے بھی اس کی سزائے کردار پہنچانے کو موجود ہے۔
قال تعالیٰ
اَلَمْ نُهْلِكِ الْاَوَّلِیْنَ ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْاٰخِرِیْنَ كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ 24
کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہ فرمایا، پھر پچھلوں کو ان کے پیچھے پہنچائیں گے، مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی کرتے ہیں، اس دن کو جھٹلانے والوں کی خرابی ہے۔ (ت)
اور اگر اس طائفہ جدیدہ کی نسبت وہ تجویز واحتمال نبوت یا عدم تکفیر منکران ختم نبوت، معلوم نہ بھی ہو، نہ اس کا خلاف ثابت ہو تو اس کا آیہ کریمہ میں افادہ استغراق سے انکار اور ارادہ بعض پر اصرار کیا اسے حکم کفر سے بچالے گا کہ وہ صراحۃً آیہ کریمہ کا اس تفسیر قطعی یقینی اجماعی ایمانی کا منکر ومبطل ہے جو خود حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمائی اور جس پر تمام امت مرحومہ نے اجماع کیا اور بنقل متواتر ضروریاتِ دین سے ہوکر ہم تک آئی، مثلاً کوئی شخص کہے کہ شراب کی حرمت قرآن عظیم سے ثابت نہیں ائمہ دین فرماتے ہیں وہ کافر ہوگیا اگرچہ اس کے کلام میں حرمت خمر کا انکار نہ تھا، نہ تحریم خمر کا ثبوت صرف قرآن عظیم پر موقوف کہ اس کی تحریم میں احادیث متواتر بھی موجود، اور کچھ نہ ہو تو خود اس کی حرمت ضروریات دین سے ہے اور ضروریات دین خصوص نصوص کے محتاج نہیں رہتے۔
امام اجل ابو زکریا نووی کتاب الروضہ پھر امام ابن حجر مکی اعلام بقواطع الاسلام میں فرماتے ہیں:
إِذَا جَحَدَ مُجْمَعًا عَلَيْهِ يُعْلَمُ مِنْ دِينِ الْإِسْلَامِ ضَرُورَةً، سَوَاءٌ كَانَ فِيهِ نَصٌّ أَوْ لَا، فَإِنَّ جَحْدَهُ يَكُونُ كُفْرً ا مُلْتَقَطًا25
جب کسی نے ایسی بات کا انکار کیا جس کا ضروریات دین اسلام میں سے ہونا متفق علیہ معلوم ہے خواہ اس میں نص ہو یا نہ ہو تو اس کا انکار کفر ہے اھ ملتقطا۔ (ت)
بعینہٖ یہی حالت یہاں بھی ہے کہ اگرچہ بعثت محمد رسول اﷲ ﷺ سے ہمیشہ کے لئے دروازہ نبوت بند ہوجانا اور اس وقت سے ہمیشہ تک، کبھی کسی وقت کسی جگہ کسی صنف میں کسی طرح کی نبوت نہ ہوسکنا کچھ اس آیہ کریمہ ہی پر موقوف نہیں بلکہ اس کے ثبوت میں قاہر وباہر، متوار ومتظافر، متکاثر ومتواتر حدیثیں موجود اور کچھ نہ ہو تو بحمد اﷲ تعالیٰ مسئلہ خود ضروریات دین سے ہے مگر آیت کے معنی متواتر، مجمع علیہ،قطعی ضروری کا انکار، اس پر کفر ثابت کرے گا اگرچہ اس کے کلام میں صراحۃً نفسِ مسئلہ کا انکار نہیں،
منح الروض الازہر شرح فقہ اکبر سیدنا امام اعظم میں ہے:
لَوْ قَالَ: حُرْمَةُ الْخَمْرِ لَا تَثْبُتُ بِالْقُرْآنِ، كَفَرَ، أَيْ: لِأَنَّهُ عَارَضَ نَصَّ الْقُرْآنِ، وَأَنْكَرَ تَفْسِيرَ أَهْلِ الْفُرْقَانِ 26
اگر کسی نے کہا شراب کی حرمت قرآن سے ثابت نہیں تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے نص قرآنی کے ساتھ معارضہ کیا اور اہل فرقان کی تفسیر کا انکار کیا۔ (ت)
فتاویٰ تتمہ میں ہے:
مَنْ أَنْكَرَ حُرْمَةَ الْخَمْرِ فِي الْقُرْآنِ 27
جس نے قرآن کے حوالے سے حرمت شراب کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔ (ت)
اعلام امام مکی میں ہمارے علماء سے کلمات کفر بالاتفاق میں نقل کیا:
أَوْ قَالَ: لَمْ تَثْبُتْ حُرْمَةُ الْخَمْرِ فِي الْقُرْآنِ، كَفَرَ 28
یا اس نے کہا قرآن میں حرمت شراب کا ثبوت نہیں ہے۔ (ت)
پھر خود فرمایا:
كَفَرَ زَاعَمَ أَنَّهُ لَا نَصَّ فِي الْقُرْآنِ عَلَى تَحْرِيمِ الْخَمْرِ ظَاهِرٌ، لِأَنَّهُ مُسْتَلْزِمٌ لِتَكْذِيبِ الْقُرْآنِ النَّاصِّ فِي غَيْرِ مَا آيَةٍ عَلَى تَحْرِيمِ الْخَمْرِفَإِنْ قُلْتَ: غَايَةُ مَا فِيهِ أَنَّهُ كَذِبٌ، وَهُوَ لَا يَقْتَضِي الْكُفْرَ،قُلْتُ: مَمْنُوعٌ، لِأَنَّهُ كَذِبٌ يَسْتَلْزِمُ إِنْكَارَ النَّصِّ الْمُجْمَعِ عَلَيْهِ، الْمَعْلُومِ مِنَ الدِّينِ بِالضَّرُورَةِ 29
جس نے کہا تحریم شراب پر قرآن میں کوئی نص نہیں اس کا کافر ہونا نہایت ہی واضح ہے کیونکہ اس کا یہ قول قرآن کی تکذیب کر رہا ہے قرآن نے متعدد جگہ پر شراب کے حرام ہونے پر تصریح کی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ یہ صرف اتنا تقاضا کرتا ہے کہ یہ جھوٹ ہو کفر کا تقاضا نہیں کرتا میں کہوں گا یہ بات درست نہیں کیونکہ اس کا یہ قول اس نص قرآنی کے انکار کو مستلزم ہے جس سے ایسا حکم ثابت ہو رہا ہے جو متفق طور پر ضروریات دین میں سے ہے۔ (ت)
تو اگر چہ یہ طائفہ آیہ کریمہ میں استغراق کے انکار سے ختم تام نبوت پر دلائل قطعیہ سے مسلمانوں کا ہاتھ خالی نہیں کرسکتا، مگر اپنا ہاتھ ایمان سے خالی کر گیا، ہاں اگر ارباب طائفہ صراحۃً ایمان لائیں کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں خواہ حضور کے بعد، کبھی کسی جگہ کسی طرح کی کوئی نبوت کسی کو نہیں مل سکتی، حضور کے خاتم النبیین وآخر الانبیاء والمرسلین ہونے میں اصلاً کوئی تخصیص تاویل تقیید تحویل نہیں اور ان تمام مطالب کو نصوص قطعیہ واجماع یقینی وضروریات دین سے ثابت یقیناً مانیں ان تمام طوائف ملعونہ مذکورہ ان کے اکابر کو صاف صاف کافر مرتد کہیں، صرف بزعم خود اپنی نحوی ومنطقی جہالتوں، بطالتوں، کج فہمیوں کے باعث آیہ کریمہ میں لام عہد لیں اور استغراق نا مستقیم سمجھیں تو اگرچہ بوجہ انکار تفسیر متواتر اجماعی قطعی اسلوب فقہی اس پر اب بھی لزوم کفر مانے مگر از انجا کہ اس نے اعتقاد صحیح کی تصریح اور کبرائے منکرین کی تکفیر صریح کردی اس کی تکفیر سے زبان روکنا ہی مسلک تحقیق واحتیاط ہوگا،
امام مکی بعد عبارت مذکورہ فرماتے ہیں:
ومن ثمّ يَتَّجِهُ أَنَّهُ لَوْ قَالَ: الخمرُ حرامٌ، وليسَ في القرآنِ نَصٌّ علَى تَحريمِه، لَمْ يَكْفُرْ، لِأَنَّهُ الآنَ مَحضُ كَذِبٍ، وهو لا كُفْرَ بهِ 30
اسی وجہ سے یہ توجیہ کی جاتی ہے کہ اگر کوئی کہتا ہے شراب تو حرام ہے لیکن قرآن میں اس کی تحریم پر نص نہیں تو وہ کافر نہ ہوگا اس لیے کہ اب وہ محض جھوٹ بول رہا ہے اور اس سے وہ کافر نہ ہوگا۔ اھ (ت)
وباﷲ التوفیق(میں کہتا ہوں اور توفیق اﷲ تعالیٰ سے ہے۔ ت) اس تقدیر اخیر پر بھی اس قدر میں شک نہیں کہ یہ طائفہ خائفہ یار ومعین، مرتدین وکافرین وبازیچہ کنندہ کلام رب العالمین، ومکذب تفسیر حضور سید المرسلین ومخالف اجماع جمیع مسلمین وسخت بدعقل وگمراہ وبددین ہے۔
تو ظاہر ہی ہے کہ نفی استغراق وتجویز عہد میں یہ ان کفار کا ہم زبان ہوا بلکہ ان خبیثوں نے تو بطور احتمال ہی کہا تھا ’’جائز ہے کہ عہد کے لئے ہو‘‘ اور اس نے بزعم خود عہد کے لئے ہونا واجب مانا اور استغراق کو باطل ومردود جانا۔
اس لئے کہ قرآن عظیم میں حضرات انبیائے کرام کا ذکر پاک بہت وجوہ مختلفہ سے وارد: (۱) فرداً فرداً خواہ بتصریح اسماء یہ صرف چھبیس کے لئے ہے: آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، اسحق، اسمٰعیل، لوط، یوسف، ایوب، شعیب، موسیٰ، ہارون، الیاس، الیسع، ذوالکفل، داؤد، سلیمان، عزیر، یونس، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وعلیہم وبارک وسلم
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ (اشمویل) 31
(ان کو ان کے نبی (شمویل) نے کہا
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ (یوشع)32
اور یاد کرو جب موسی نے اپنے خادم سے کہا ۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ 33
تو پایا حضرت موسیٰ اور یوشع نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ حضرت خضر علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ ت)
(۲) مثل قولہ تعالیٰ:
قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا34
(اے مسلمانو!) تم کہو: ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے
(الٰی قولہ تعالیٰ)
وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ35
اور جو باقی انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا۔ ہم ایمان لانے میں ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے۔
( وقال تعالیٰ)
وَ لٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ، 36
بلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے ۔
( وقال تعالیٰ)
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ 37
یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پرفضیلت عطا فرمائی ۔
( وقال تعالیٰ)
كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫ 38
سب اللہ پراور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ۔
( وقال تعالیٰ)
لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهم 39
ہم ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے ۔
( وقال تعالیٰ)
وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ 40
اور جو کچھ ملا موسیٰ اور عیسی اور انبیاء کو ان کے رب سے ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے ۔( وقال تعالیٰ)
فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِيقِينَ 41
تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین ۔(وقال تعالیٰ)
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّ قُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أُولَئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمُ اجُورَهُمْ 42
اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہ کیا انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا۔( وقال تعالیٰ)
فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ 43
تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر( وقال تعالیٰ)
لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلوةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكُوةَ وَامَنْتُمْ رُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ 44
اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اُن کی تعظیم کرو( وقال تعالیٰ)
يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أَجِبْتُمْ 45
جس دن الله جمع فرمائے گار سولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملا ۔
( وقال تعالیٰ)
وَمَانُرْ سِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ 46
اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے۔( وقال تعالیٰ)
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْتَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ 47
تو بے شک ضرور ہمیں پوچھنا ہے ان سے جن کے پاس رسول گئے اور بے شک ضرور ہمیں پوچھنا ہے۔( وقال تعالیٰ)
لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ48
بے شک ہمارے رب کے رسول حق لائے۔( قَالَ تَعَالَى عَنِ الكافرين)
قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَلْ لَنَا مِنْ شُفَعَاءَ 49
بے شک ہمارے رب کے رسول حق لائے تھے تو ہیں کوئی جو ہماری شفاعت کریں ۔( وقال تعالیٰ)
ثُمَّ نُنَجِّى رُسُلَنَا وَ الَّذِينَ آمَنُوا 50
پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے( وقال تعالیٰ)
وَاتَّخَذُوا ايتي وَرُسُلِي هُزُوًا 51
اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کی ہنسی بنائی ۔( وقال تعالیٰ)
أُولَئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِينَ52
یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتانے والوں میں سے ۔( وقال تعالیٰ)
إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَى الْمُرْسَلُونَ53
بے شک میرے حضور رسولوں کو خوف نہیں ہوتا ۔
( وقال تعالیٰ)
وَإِذَا خَذْنَا مِنَ النَّبِيِّنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَ مِنْ نُوحٍ 54
اور اے محبوب یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح۔( وقال تعالیٰ)
هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ 55
ت یہ ہے وہ جس کا رحمٰن نے وعدہ دیا تھا اور رسولوں نے حق فرمایا ۔( وقال تعالیٰ)
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ56
اور بے شک ہمارا کلام گزر چکا ہے ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لیے ۔( قَالَ تَعَالَى عَنِ الكافرين)
وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ 57
اور سلام ہے پیغمبروں پر۔( وقال تعالیٰ)
وَجايِّ ءَ بِالنَّبِيِّنَ وَالشُّهَدَ آءِ 58
اور لائے جائیں گے انبیاء اور یہ نبی اور اُس کی اُمت کہ اُن پر گواہ ہوں گے۔( وقال تعالیٰ)
إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا 59
بے شک ضرور ہم اپنے رسولوں کی مدد کریں گے اور ایمان والوں کی ۔( وقال تعالیٰ)
الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِيقُونَ60
وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائیں وہی ہیں کامل سچے ۔( وقال تعالیٰ)
أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِه61
تیار ہوئی ہے ان کے لیے جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے۔( وقال تعالیٰ)
لَقَدْ أَرْ سَلْنَارُ سُلَنَا بِالْبَيِّنَتِ 62
بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا ۔( وقال تعالیٰ)
كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلى 63
اللہ لکھ چکا کہ ضرور میں غالب آؤں گا اور میرے رسول۔
(وقَالَ تَعَالَى)
وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِتَتْ لِأَيِّ يَوْمٍ أَجِلَتْ 64
اور جب رسولوں کا وقت آئے کس دن کے لیے ٹھہرائے گئے تھے۔الی غیر ذلک من آيات كثيرة
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَی 65
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے اور سب شہر کے ساکن تھے ۔(وقَالَ تَعَالَى)
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ 66
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے کھانا کھاتے۔( قَالَ تَعَالَى عَنِ الكافرين)
سُنَّةَ اللهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورَ ا الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِ سلتِ اللهِ 67
الله کا دستور چلا آرہا ہے ان میں جو پہلے گزر چکے اور اللہ کا کام مقرر تقدیر ہے وہ جو اللہ کے پیام پہنچاتے۔( وقال تعالیٰ)
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَ إِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ 68
اور بے شک وحی کی گئی تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف۔(وقَالَ تَعَالَى)
مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ 69
تم سے نہ فرمایا جائے گا مگر وہی جو تم سے اگلے رسولوں کو فرمایا گیا۔(وقَالَ تَعَالَى)
كَذلِكَ يُوْحِيَ إِلَيْكَ وَ إِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ70
یونہی وحی فرماتا ہے تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف اللہ عزت و حکمت والا ۔(وقَالَ تَعَالَى)
وَسُلْ مَنْ أَرْ سَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنا71
اور اُن سے پوچھو جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔
و غیر ذلک۔
مِثْلُ قَوْلِهِ تَعَالَى :
مَنْ كَانَ عَدُوٌّ اللَّهِ وَمَلَيْكَتِهِ وَرُسُلِهِ72
جو کوئی دشمن ہو اللہ اوراس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں کا۔قَوْلِهِ تَعَالَى :
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِايَتِ اللهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقِّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرُهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ 73
وہ جو اللہ کی آیتوں سے منکر ہوتے اور پیغمبروں کو ناحق شہید کرتے اور انصاف کا حکم کرنے والوں کو قد قتل کرتے ہیں انہیں خوشخبری دو درد ناک عذاب کی۔(وقَالَ تَعَالَى)
وَلَا يَأْمُرَ كُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَئِكَةَ وَالنَّبِينَ اربابا 74
اور نہ تمہیں یہ حکم دے گا کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا ٹھہر الووقَوْلُهُ تَعَالَى:
وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللهِ وَ مَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَّلًا بَعِيدًا 75
اور جو نہ مانے اللہ اور اس کے فرشتوں اور کتابوں اور رسولوں اور قیامت کو تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا ۔(وقَوْلُهُ تَعَالَى:)
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِالى قوله تعالى
أُولَئِكَ هُمُ الْكُفِرُونَ حَقًّا 76
وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کر دیں الى قوله تعالى یہی ہیں ٹھیک ٹھیک کا فر وغیرہ ۔
وَلَقَدْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتٰبَ وَقَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ 77
اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے۔وقَالَ تَعَالَى فى بنى اسرائيل :
وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَتِ78
اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے۔
وقَالَ تَعَالَى فى التوراة :
يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُو ا لِلَّذِينَ هَادُوا79
اس کےمطابق یہود کو حکم دیتے تھے ہمارے فرماں بردار نبی ۔وقَالَ تَعَالى بعد ما ذكر نو حاثم رسولا آخر :
ثُمَّ أَرْ سَلْنَارُ سُلَنَا تَتَرَا80
پھر ہم نےاپنے رسول بھیجے ایک پیچھے دوسر ا ۔ثُمَّ قَالَ :
ثُمَّ أَرْ سَلْنَا مُوسَی 81
پھر ہم نے موسیٰ کو بھیجا ۔وقَال تَعَالَى:
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْ حَيْنَا إِلى نُوحٍ وَالنَّبِيِّنَ مِنْ بَعْدِهِ 82
بے شک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی ۔
فالمراد من بعده هو دو موسى عليهم الصلوة والسلام
(وقَال تَعَالَى:)
فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَعِقَةً مِثْلَ صَعِقَةِ عَادٍ وَ ثَمُودَ إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ 83
تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑک سے جیسی کڑک عاداور شہود پر آئی تھی جب رسول اُن کے آگے پیچھے پھرتے تھے۔
وقَالَ تَعَالَى بَعدَ ذِكرِ نوح و ابراهيم :
ثُمَّ قَفَيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا 84
پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے۔
قَالَ يقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ 85
بولا اے میری قوم بھیجے ہوؤں کی پیروی کرو۔
تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَا ئِهَا وَلَقَدْ جَاتُهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَتِ86
نوح، هود، صالح، لوط اور شعیب عَلَيْهِمُ الصَّلاةُ وَالسَّلام کی قوم کا ذکر کرنے کے بعد : یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لے کر آئے۔ (ت)
مِثْلُ قَوْلِه تعالى:
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا أَصْحبَ الْقَرْيَةِ اذْجَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ87
اور ان سے مثال بیان کرو اس شہر والوں کی جب اُن کے پاس فرستادے آئے۔وقَال تَعَالَى:
سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَ قَتْلَهُمُ الأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقِّ 88
اب ہم لکھ رکھیں گےان کا کہا اور انبیاء کو ان کا ناحق شہید کرنا ۔وغیر ذلک
اگر آیہ کریمہ :
وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيِّنَ89
ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔
میں لام عہد خارجی کے لئے ہو جیسا کہ یہ طائفہ خارجیہ گمان کرتا ہے اور وہ یہاں نہیں مگر ذکری، اور ذکر کو دیکھ کر کہ اتنے وجوہ مختلفہ پر ہے اور ان میں صرف ایک وجہ وہ ہے جو بداہۃً کلام کریم میں مراد ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی، یعنی وجہ سوم کہ جب انبیاء موصوف بوصف قبلیت ومفید بقید سبقت لے گئے یعنی وہ انبیاء جو حضور اقدس ﷺ سے پہلے ہیں تو اب حضور کو ان کا خاتم ان کا آخر ان سے زمانے میں متأخر کہنا محض لغو وفضول کلام مہمل ومعطل ومغسول ہوگا جس حاصل حمل اولیٰ بدیہی مثل زید زید سے زائد نہ ہوگا کہ جب ان کو حضور سے اگلا کہہ دیا حضور کا ان سے پچھلا ہونا آپ ہی معلوم ہوا۔
اسے بالخصوص مقصود بالافادہ رکھنا قرآن عظیم تو قرآن عظیم اصلاً کسی عاقل انسان کے کلام کے لائق نہیں، نہ کہ وہ بھی مقام مدح میں کہ:
چشمانِ تو زیر ابروانند
دندانِ تو جملہ در دہانند
(تمہاری آنکھیں زیر ابرو ہیں اور دانت منہ کے اندر ہیں)
سے بھی بدتر حالت میں ہے کہ شعر نے کسی افادہ کی عبث تکرار نہ کی اور بات جو کہی وہ بھی واقعی تعریف کی تھی۔
اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ 90
(اچھی صورت۔ ت)
سے بعض اوضاع کا بیان ہے اسے مقام مدح میں یوں مہمل جانا گیا ہے کہ ایک عام مشترک بات کا ذکر کیا ہے بخلاف اس معنی کے کہ اس میں صراحۃً عبث موجود اور معنی مدح بھی مفقود، اور پھر عموم واشتراک بھی نقد وقت کہ ہر شے اپنے اگلے سے پچھلی ہوتی ہے غرض یہ وجہ تو یوں مندفع ہو جائے گی کہ اصلاً محلِ افادہ وصالح ارادہ نہیں، اور اس طائفہ خارجیہ کے طور پر وجہ دوم کو بھی نامحتمل مان لیجئے پھر بھی اول وچہارم وپنجم سب محتمل رہیں گی اور پنجم میں خود وجوہ کثیر ہیں، کہیں ”من بعد موسیٰ“، کہیں ”من بعد نوح“، کہیں انبیائے اسرائیل، کہیں”من بعد ھود وموسیٰ“”من بعد موسیٰ“، کہیں صرف انبیائے عاد ثمود، کہیں انبیائے قوم نوح وعاد وثمود، کہیں”من بعد ابراہیم قوم لوط ومدین“وغیر ذلک،بہر حال ذکر وجوہ کثیرہ مختلفہ پر آیا ہے اور یہاں کوئی قرینہ وبینہ نہیں کہ ان میں ایک وجہ کی تعیین کرے تو معلوم نہیں ہوسکتا کہ کون سے مذکور کی طرف اشارہ ہوا، پھر عہد کہاں رہا، سرے سے عہد کا مبنیٰ ہی کہ تعین ہے منہدم ہوگیا کہ اختلاف وتنوع مطلقاً منافی تعین، نہ کہ اتنا کثیر، پھر عہدیت کیونکر ممکن۔
جب کہ اتنی وجوہ کثیرہ محتمل اور قرآن عظیم نے کوئی وجہ بیان نہ فرمائی، حدیث کا بیان صحیح تو وہی عموم واستغراق ہے کہ :
لَا نَبِيَّ بَعْدِي 91
(میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ت)کما سیأتی
اس تقدیر پر جب اشارہ ذکر استغراق کی طرف ٹھہرا عہد واستغراق کا حاصل ایک ہوگیا اور وہی احاطہ تامہ کہ معتقد اہل اسلام تھا ۔ظاہر ہوا مگر یہ اس طائفے کو منظور نہیں لا جرم آیت کہ بر تقدیر عہدیت مجمل تھی بے بیان رہی اور وہی منقطع ہوکر متشابہات سے ہوگئی، اب رسول اﷲ ﷺ کو خاتم النبیین کہنا محض اقرار لفظ بے فہم معنی رہ گیا جس کی مراد کچھ معلوم نہیں، کوئی کافر خود زمانہ اقدس حضور پر نور ﷺ میں کتنے ہی انبیاء مانے، حضور کے بعد ہر قرن وطبقہ وشہر وقریہ میں ہزار ہزار اشخاص کو نبی جانے خود اپنے آپ کو رسول اﷲ کہے، اپنے استاذوں کو مرسلین اولو العزم بتائے، آیہ کریمہ اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی کہ آیت کے معنی ہی معلوم نہیں جس سے حجت قائم ہوسکے، کیا کوئی مسلمان ایسا خیال کرے گا، حاشا وکلا۔
میں تکثر وتزاحم معانی پر کیوں بنا کروں، سوائے استغراق کوئی معنی لے لیجئے سب پر یہی آش درکاسہ رہے گی کہ پچھلی جھوٹی کاذبہ ملعونہ نبوتوں کا در آیت بند نہ کرسکے گی، معنی اول یعنی افراد مخصوصہ معینہ مراد لئے تو نبی ﷺ انہیں معدود انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے خاتم ٹھہرے جن کا نام یا ذکر معین علی وجہ الابہام قرآن مجید میں آگیا ہے جن کا شمار تیس چالیس نبی تک بھی نہ پہنچے گا، یونہی برتقدیر معنی پنجم یعنی جماعات خاصہ خاص اپنی جماعت کے خاتم ٹھہریں گے، باقی جماعات صادقہ سابقہ کے لئے بھی خاتمیت ثابت نہ ہوگی، چہ جائے جماعات کاذبہ آئندہ اور معنی سوم میں صاف تخصیص انبیائے سابقین کے بھی ہو جائے گی کہ جو نبی پہلے گزر چکے ان کے خاتم ہیں تو پچھلوں کی کیا بندش ہوئی بلکہ پیچھے اور آئے تو وہ ان کے بھی خاتم ہوں گے، رہے معنی چہارم جنسی اس میں جمیع مراد لینا اس طائفہ کو منظور نہیں ورنہ وہی ختم الشیئ لنفسہ لازم آئے ، لاجرم مطلقاً کسی ایک فرد کے اختتام سے بھی خاتمیت صادق مانے گا کہ صدق علی الجنس کے لئے ایک فرد پر صدق کا ہے تو یہ سب معانی سے اخس وارذل ہوا اور حاصل وہی ٹھہرا کہ آیت بہر نہج فقط ایک دو یا چند یا کل گزشتہ پیغمبروں کی نسبت صرف اتنا تاریخی واقعہ بتاتی ہے کہ ان کا زمانہ ان کے زمانے سے پہلے تھا، اس سے زیادہ آئندہ نبوتوں کا وہ کچھ نہیں بگاڑسکتی، نہ ان سے اصلاً بحث کرتی ہے، طوائف ملعونہ مہدویہ وقادیانیہ وامیریہ ونذیریہ ونانوتویہ وامثالہم لعنہم اﷲ تعالیٰ کا یہی تو مقصود تھا، وہ اس طائفہ خارجیہ نے جی کھو ل کر اٰمنا بہ کرلیا
وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اَي مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ 92
(اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ ت)
اصل بات یہ ہے کہ معانی قطعیہ جو تمام مسلمین میں ضروریات دین سے ہوں جب ان پر نصوص قطعیہ پیش نہ کئے جائیں تو مسلمانوں کو احمق بنا لینا اور معتقدات اسلام کو مخیلات93 عوام ٹھہرا دینا ایسے خبثا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور نصوص میں احادیث پر نہ عام لوگوں کی نظر نہ ان کے جمع طرق وادراک تواتر پر دسترس، وہاں ایک ہش میں کام نکل جاتا ہے کہ یہ باب عقائد ہے، اس میں بخاری ومسلم 94 کی بھی صحیح احادیثیں مردود ہیں، ہاں ایسی جگہ ان ہے کے اندھوں کی کچھ کو ر د بتی ہے تو قرآن عظیم سے بغرض تلبیس عوام، برائے95 نام اسلام کا ادعا ہوکر، قرآن پر صراحۃً انکار کا ٹٹو خردرگل ہے، لہٰذا وہاں تحریف معنوی کے چال چلتے اور کلام اﷲ کو الٹتے بدلتے ہیں کہ جب آیت سے مسلمانوں کو ہاتھ خالی کرلیں پھر گونہ وحی شیطانی کا رستہ کھل جائے گا ۔
وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ 96
اور اﷲ کو اپنا نور پورا کرنا ہے اگرچہ برا مانیں کافر۔ ت
یعنی اس طائفہ کا مکذب تفسیر حضور سید المرسلین ﷺ ہونا وہ ہر ادنی خادم حدیث پر روشن یہاں اجمالی دو حرف ذکر کریں، صحیح مسلم شریف ومسند امام احمد وسنن ابو داؤد وجامع ترمذی وسنن ابن ماجہ وغیرہا میں ثوبان سے ہے رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي 97
بیشک میری امت دعوت میں یا میری امت کے زمانے میں تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
امام احمد مسند اور طبرانی معجم کبیر اور ضیائے مقدسی صحیح مختارہ میں حذیفہ سے راوی، رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:
فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ وَدَجَّالُونَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُونَ، مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ، وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي98
میری امت دعوت میں ستائیس دجال کذاب ہونگے ان میں چار عورتیں ہوں گی حالانکہ بیشک میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ترمذی وتفسیر ابن ابی حاتم وتفسیر ابن مردویہ میں جابر سے ہے، رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:
مَثَلِي وَمَثَلُ الأَنْبِيَاءِ كَمَثَلِ رَجُلٍ ابْتَنَى دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فَكَانَ مَنْ دَخَلَهَا فَنَظَرَ إِلَيْهَا قَالَ: مَا أَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ اللَّبِنَةِ، فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ، فَخُتِمَ بِيَ الأَنْبِيَاءُ99
میری اور نبیوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک مکان پورا کامل اور خوبصورت بنایا مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی تو جو اس گھر میں جاکر دیکھتا کہتا یہ مکان کس قدر خوب ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ کہ وہ خالی ہے تو اس اینٹ کی جگہ میں ہوا مجھ سے انبیاء ختم کر دئے گئے۔
صحیح مسلم ومسند احمد ابو سعید خدری سے ہے، رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:
مَثَلِي وَمَثَلُ النَّبِيِّينَ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَتَمَّهَا إِلَّا لَبِنَةً وَاحِدَةً، فَجِئْتُ أَنَا فَأَتْمَمْتُ تِلْكَ اللَّبِنَةَ 100
میری اور سابقہ انبیاء کی مثل اس شخص کی مانند ہے جس نے سارا مکان پورا بنایا سوا ایک اینٹ کے، تو میں تشریف فرما ہوا اور وہ اینٹ میں نے پوری کی۔
مسند احمد وصحیح ترمذی میں بافادہ تصحیح ابی بن کعب سے ہے، رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں:
مَثَلِي فِي النَّبِيِّينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَحْسَنَهَا وَأَكْمَلَهَا وَأَجْمَلَهَا، وَتَرَكَ فِيهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ لَمْ يَضَعْهَا، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِالْبُنْيَانِ وَيُعْجَبُونَ مِنْهُ، وَيَقُولُونَ: لَوْ تُمَّ مَوْضِعُ هَذِهِ اللَّبِنَةِ، فَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ101
پیغمبروں میں میری مثال ایسی ہے کہ کسی نے ایک مکان خوبصورت وکامل وخوشنما بنایا اور ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی وہ نہ رکھی لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی وخوشنمائی سے تعجب کرتے اور تمنا کرتے کسی طرح اس اینٹ کی جگہ پوری ہو جاتی تو انبیاء میں اس اینٹ کی جگہ میں ہوں۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن النسائی وتفسیر ابن مردویہ میں ابو ہریرہ سے ہے، رسول اﷲ ﷺ نے یہی مثل بیان کر کے ارشاد فرمایا:
فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ 102
تو میں وہ اینٹ ہوں اور خاتم النبیین ہوں، صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اجمعین وبارک وسلم ۔
چہارم کا بیان اوپر گزرا، پنجم سے طائفہ کی گمراہی بھی واضح ہوچکی کہ تفسیر رسول اﷲ ﷺ کا رد کرنے والا اجماعی قطعی امت مرحومہ کا خلاف کرنے والا سوا گمراہ بددین کے کون ہوگا۔
قوله
مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا103
ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے، اور کیا ہی بری جگہ ہے پلٹنے کی۔ (ت)
رہی بدعقلی وہ اس کے ان شبہات واہیات، خرافات، مزخرفات کی ایک ایک ادا سے ٹپک رہی ہے جو اس نے اثبات ادعائے باطل ’’عہد خارجی‘‘ کے لئے پیش کئے اہلِ علم کے سامنے ایسے مہملات کیا قابل التفات، مگر حفظ عوام وازالہ اوہام کے لئے چند حروف مجمل کا ذکر مناسب واﷲ الھادی وولی الایادی (اور اﷲ تعالیٰ ہی ہدایت دینے والا اور طاقتوں کا مالک ہے۔ ت)
شبہ اولیٰ میں اس طائفہ نے عبارت توضیح کی طرف محض غلط نسبت کی حالانکہ توضیح میں اس عبارت کا نشان نہیں بلکہ وہ اسکے حاشیہ تلویح کی ہے،
اولاً اگر یہ مدعیان عقل اسی اپنی ہی نقل کی ہوئی عبارت کو سمجھتے اور قرآن عظیم میں انبیاء کے وجوہ ذکر کو دیکھتے تو یقین کرتے کہ آیت کریمہ:
وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِينَ 104
(اور لیکن آپ اﷲ کے رسول اور انبیاء میں سے آخری ہیں۔ ت)
میں لام عہد خارجی کے لئے ہونا محال ہے کہ بوجہ تنوع وجوہ ذکر وعدم اولیت وترجیح جس کا بیان مشرحاً گزرا، کمال تمیز جدا سرے سے کسی وجہ معین کا امتیاز ہی نہ رہا تو یہی عبارت شاہد ہے کہ یہاں ’’عہد خارجی‘‘ ناممکن، کاش مکر کے لئے بھی کچھ عقل ہوتی اصلی تو اس کی جگہ توضیح ہی کی گول عبارت
العَهْدُ هُوَ الأَصْلُ، ثُمَّ الاسْتِغْرَاقُ، ثُمَّ تَعْرِيفُ الطَّبِيعَةِ 105
(عہد اصلی ہے پھر استغراق اور پھر جنس۔ ت)
کی نقل ہوتی کہ خود نفس عبارت تو ان کی جہالت وسفاہت پر شہادت نہ دیتی اگر چہ اس سے دو ہی سطر پہلے اسی توضیح میں متن تنقیح کی عبارت:
وَلَا بَعْضُ الأَفْرَادِ لِعَدَمِ الأَوْلَوِيَّةِ 106
(اور نہ بعض افراد کیونکہ اولیٰ نہیں۔ ت)
اس کی صفراشکنی کو بس ہوتی مگر یہ کیونکر کھلتا کہ طائفہ حائفہ کو دوست ودشمن میں تمیز نہیں صریح مضر کو نافع سمجھتا ہے لہٰذا نام تو لیا توضیح کا اور برائے بد قسمتی عبارت نقل کر دی تلویح کی، جس میں صاف صریح ان عقلاء کی تسفیہ اور ان کے وہم کاسد کی تقبیح تھی،ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم
توضیح کا مطلب سمجھنا تو بڑی بات، خود اپنی ہی لکھا نہ سمجھا کہ جب عہد خارجی سے معنی درست ہو تو استغراق وغیرہ معتبر نہ ہوگا۔ ہم اوپر واضح کر آئے کہ عہد خارجی مزعوم طائفہ خارجیہ سے معنی درست نہیں ہوسکتے، آیہ کریمہ قطعاً آئندہ نبوتوں کا دروازہ بند فرماتی ہے، رسول اﷲ ﷺ نے یہی معنی اس کے بیان فرمائے، تمام امت نے سلفاً وخلفاً اس کے یہی معنی سمجھے اور اس عہد خارجی پر آیت کو اس سے کچھ مس نہیں رہتا تو واجب ہے کہ استغراق مراد ہو، اسی تلویح میں اسی عبارت منقولہ طائفہ کے متصل ہے،
ثُمَّ الاسْتِغْرَاقُ، إِلَى أَنْ قَالَ: فَالاسْتِغْرَاقُ هُوَ الْمَفْهُومُ مِنَ الإِطْلَاقِ حَيْثُ لَا عَهْدَ فِي الْخَارِجِ، خُصُوصًا فِي الْجَمْعِ، إِلَى قَوْلِهِ: هَذَا مَا عَلَيْهِ الْمُحَقِّقُونَ107
پھر استغراق (تا) اطلاق سے استغراق مفہوم ہوتا ہے جہاں عہد خارجی نہ ہو خصوصاً جمع میں (تا) محققین کی یہی رائے ہے۔ (ت)
بہت اچھا اگر فرض کریں کہ لام عہد خارجی کے لئے ہے تو اس سے بھی قطعاً یقیناً استغراق ہی ثابت ہوگا کہ وجوہ خمسہ سے اول وسوم وپنجم کا بطلان تو دلائل قاہرہ سے اوپر ثابت ہو لیا اور واضح ہو چکا کہ خود جن سے کلام الٰہی کا اولاً واصالۃً خطاب تھا یعنی حضور پر نور سید یوم النشور ﷺ، انہوں نے ہرگز اس آیت سے صرف بعض افراد معینہ یا کسی جماعت خاصہ کو نہ سمجھا اب نہ رہیں، مگر وجہ دوم وچہارم یعنی وہ جو قرآن عظیم میں بروجہ اکثر واوفر ذکر انبیاء بروجہ عموم واستغراق تام ہے اسی وجہ معہود کی طرف لام النبیین مشیر ہے تو اس عہد کا حاصل بحمد اﷲ تعالیٰ وہی استغراق کامل جو مسلمانوں کا عقیدہ ایمانیہ ہے یا ذکر جنسی کی طرف اشارہ ہے اور ختم کا حاصل نفی معیت وبعدیت ہے، جیسے اولویت بمعنی نفی معیت وقبلیت تعریفات علامہ سید شریف قدس سرہ الشریف میں ہے:
الأَوَّلُ فَرْدٌ لَا يَكُونُ غَيْرُهُ مِنْ جِنْسِهِ سَابِقًا عَلَيْهِ وَلَا مُقَارِنًا لَهُ108
اول فرد ہے کیونکہ اس کا کوئی ہم جنس اس سے پہلے نہیں اور نہ اس کے ساتھ متصل ہے۔ (ت)
حدیث شریف میں ہے:
أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ، وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ،رواه مسلم في صحيحه، والترمذي، وأحمد، وابن أبي شيبة وغيرهم عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه عن النبي ﷺ109
وَلِلْبَيْهَقِيِّ فِي الأَسْمَاءِ وَالصِّفَاتِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله تعالى عنها عن النَّبِي ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الكَلِمَاتِ:اللَّهُمَّ أَنْتَ الأَوَّلُ فَلا شَيْءَ قَبْلَكَ، وَأَنْتَ الآخِرُ فَلا شَيْءَ بَعْدَكَ 110
تو اول ہے تجھ سے پہلے کوئی شی نہیں، اور تو آخر میں ہے تیرے بعد کوئی شی نہیں، اسے مسلم نے اپنی صحیح میں، ترمذی، امام احمد اور ابن ابی شیبہ وغیرہم نے حضرت ابو ہریرہ سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ امام بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ام سلمہ سے کہ آپ ﷺ ان کلمات کے ساتھ دعا فرمایا کرتے، اے اﷲ! تو اول ہے تجھ سے پہلے کوئی شی نہیں اور تو آخر ہے تیرے بعد کوئی شی نہیں۔ (ت)
تو خاتم النبیین کا حاصل ہمارے حضور پر نور ﷺ کے ساتھ اور بعد جنس نبی کی نفی ہوئی اور جنس کی نفی عرفاً ولغۃً وشرعاً افراد ہی سے ہوتی ہے ولہٰذا لائے نفی جنس صیغ عموم سے ہے جیسے لا رجل فی الدار ولہذا لا الٰہ الا اﷲہر غیر خدا سے نفی الوہیت کرتا ہے، یوں بھی استغراق ہی ثابت ہوا، وﷲ الحمد ۔
(نامکمل دستیاب ہوا)