خلیفہ اول حکیم نورالدین بھیروی کے انتقال کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے، مرزا بشیر الدین محمود جماعت احمد یہ کے دوسرے خلیفہ بنائے گئے ۔
یہ وہی صاحبزادے ہیں ، جن کے بارے میں جماعت احمد یہ کا دعوی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی پیش گوئی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ پیش گوئیوں کے باب میں نا قابل انکار دلائل و شواہد اور زمینی حقائق و معلومات کی روشنی میں اپنے ماتھے کی آنکھ سے دیکھا ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود پیش گوئی کے مصداق نہیں ہیں۔
سب سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ اس باب سے مطلوب یہ نہیں ہے کہ خلفائے قادیانیت کی تفصیلی سوانح حیات آپ کے سامنے پیش کروں ، بلکہ مدعائے سخن صرف اس قدر ہے ، بانی قادیانیت کے ساتھ ساتھ ، ان کے بعد زمام اہتمام سنبھالنے والوں کے شب وروز کے در پردہ پہلوؤں سے بھی کسی قدر واقفیت حاصل ہو جائے ، تاکہ یہ امر آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہو جائے کہ ابتداء سے لے کر انتہاء تک جماعت احمدی کن کی سر پرستی میں زندہ ہے، نیز یہ راز بھی طشت از بام ہو جائے کہ احمدی جماعت جنہیں فضل و شرف ، عقیدت و محبت اور اعزاز واکرام کی نگاہوں سے دیکھتی ہے، وہ حقائق و معلومات کے آئینے میں کس قدر پاک طینت اور پیکر شرافت و نجابت ہیں۔
مرزا بشیر الدین محمود کی ولادت ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو قادیان میں ہوئی ۔ ان کی والدہ سیدہ نصرت جہاں بیگم دہلی کے ایک مشہور سید گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اس خاندان کی ہندوستان میں سکونت کی تاریخ حضرت خواجہ سید میر محمد ناصر سے شروع ہوتی ہے، جن کا زمانہ ستر ہویں صدی عیسویبتایا جاتا ہے۔1
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فطری طور پر مرزا بشیر الدین محمود ضدی تھے ۔ اس پس منظر میں ایک واقعہ سماعت کیجیے، جسے حاضر باش مولانا عبدالکریم نے بیان کیا ہے۔
آدھی رات کا وقت تھا، جو میں جاگا اور مجھے محمود کے رونے اور حضرت ( غلام احمد قادیانی) کے ادھر اُدھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی ۔ حضرت اسے گود میں لیے پھرتے تھے اور وہ کسی طرح چپ نہیں ہوتا تھا۔ آخر آپ نے کہا: دیکھو محمود! وہ کیسا تارا ہے؟ بچہ نے نئے مشغلہ کی طرف دیکھا اور ذرا چپ ہو کر پھر وہی رونا اور چلانا اور یہ کہنا شروع کر دیا ابا تارے جانا (یعنی ابا میں ستارے پر جاؤں گا . ہم نے ایک راہ نکالی تھی ، اس نے اس میں بھی اپنی ضد کی راہ نکال لی۔ آخر بچه رو تا رو تا خود ہی جب تھک گیا ، چپ ہو گیا ۔ “2
بات بنانے اور جھوٹ بولنے کے فن میں ماہر نہ ہوتے ، تو حیرت بھی ہوتی اور تشویش بھی، تا ہم توقع کے عین مطابق مرزا بشیر الدین محمود صغر سنی سے ہی جھوٹ بولنے میں اپنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتے رہے۔ یقین نہیں آتا تو یہ واقعہ سماعت کیجیے۔
ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے ، اس لیے جمعہ کے لیے مسجد میں نہ جاسکے۔ میں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں، تاہم میں جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد کو آ رہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا۔ اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت یاد نہیں رہ سکتی تھی، مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے۔ محمد بخش ان کا نام ہے۔ میں نے ان سے پوچھا : آپ واپس آرہے ہیں، کیا نماز ہوگئی ہے؟ انہوں نے کہا: آدمی بہت ہیں ، مسجد میں جگہ نہیں تھی ، میں واپس آگیا۔ میں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔ حضرت ، صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے ؟ جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا۔ آپ یہ سن کر خاموش ہو گئے ۔“3
خیال رہے کہ عمر بہت چھوٹی نہیں ہے، بلکہ قریب البلوغ ہے ۔ یعنی اس عمر میں بچے صدق اور کذب کے درمیان بہ آسانی تمیز کر سکتے ہیں۔ اور پھر دور جانے کی ضرورت کیا ہے، جناب کو خود ہی احساس ہے کہ انہوں نے کذب بیانی کی ہے۔
" مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے، دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جھوٹ بولا ۔ “4
اب ہوا یہ کہ مولوی عبد الکریم صاحب جمعہ کی نماز پڑھ کر مرزا قادیانی کی مزاج پرسی کے لیے آئے ، تو انہوں نے مسجد میں غیر متوقع بھیٹر کے حوالے سے پوچھ لیا۔ مولوی عبدالکریم نے بھی تصدیق کر دی کہ آج خلاف توقع بہت بھیڑ تھی۔ اس کے بعد مرزا بشیر محمود کے تاثرات سنیے؛
میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی۔ خدا نے میری بریت کے لیے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی تصدیق کرادی کہ فی الواقعہ اس دن غیر معمولی طور پر لوگ آئے تھے۔ بہر حال، یہ ایک واقعہ ہے، جس کا آج تک میرے قلب پر گہرا اثر ہے۔ “ 5
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کذب بیانی پر تو انہیں شرمندہ ہونا چاہیے ، لیکن مولوی عبد الکریم کے ذریعہ اپنی کذب بیانی کی تائید ہو جانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر رہے ہیں اور سیاق و سباق صاف بتا رہے ہیں کہ یہ صرف اس لیے کہ اپنی کرامت کسی طرح تسلیم کرائی جاسکے۔
مرزا بشیر الدین محمود " مجموعہ امراض تھے۔
بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے، مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا، پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی ۔ ریڈ آئیوڈ آف مرکزی کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی ۔ اسی طرح گلے پر بھی اس کی مالش کی جاتی تھی ، کیونکہ خنازیر کی بھی شکایت تھی۔ غرض آنکھوں میں گرے، جگر کی خرابی عظم طحال کی شکایت اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا ، جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا ۔ “6
جناب بڑے ہی رنگین مزاج تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب یورپ گئے ، تو سائنسی ایجادات اور مادی ترقی کے نت نئے جلوے دیکھ کر طبیعت سیر نہ ہوئی ۔ چند دنوں تک اپنے عقیدت مند کا لحاظ کرتے رہے، تاہم جب دیرینہ خواہشات کی تکمیل پوری ہونے کے آثار کسی حد تک مسدود ہوتے دکھائی دیے، تو آداب و اخلاقیات کے سارے تقاضے بالائے طاق رکھ کر صاف صاف لفظوں میں اظہار مدعا کر ہی دیا۔
جام لبالب سے چھلکتی ہوئی بے قراری خود انہیں کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
دو جب میں ولایت گیا، تو مجھے خصوصیت سے خیال تھا کہ یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ بھی دیکھوں ، مگر قیام انگلستان کے دوران میں مجھے اس کا موقعہ نہ ملا۔ واپسی پر جب ہم فرانس آئے ، تو میں نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے ، جو میرے ساتھ تھے، کہا کہ مجھے کوئی ایسی جگہ دکھا ئیں، جہاں یورپین سوسائٹی عریانی سے نظر آئے ۔ “‘7
اظہار حسرت و افسوس کے کلمات پر غور کیجیے ۔ لوگ اچھی چیزیں دیکھنے کی آرزو کرتے ہیں، تاہم یہاں نہاں خانہ دل میں عریانیت ونگائیت دیکھنے کی آرزو مچل رہی ہے۔
چنانچہ چودھری صاحب اپنے امام و مقتدی کو لے کر چلے ۔ آگے کی روداد سنیے۔
وہ بھی فرانس سے واقف تو نہ تھے، مگر مجھے ایک اوپیرا میں لے گئے ، جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ او پیر سنیما کو کہتے ہیں۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ یہ اعلیٰ سوسائٹی کی جگہ ہے، جسے دیکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے ۔ میری نظر چونکہ کمزور ہے، اس لیے دور کی چیز اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے جود دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ سینکڑوں عورتیں بیٹھی ہیں۔ میں نے چودھری صاحب سے کہا: کیا یہ ینگی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ تنگی نہیں، بلکہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں مگر باوجود اس کے وہ نگی معلوم ہوتی تھیں ۔ تو یہ بھی ایک لباس ہے ۔
اسی طرح ان لوگوں کے شام کی دعوتوں کے گاؤن ہوتے ہیں ۔ نام تو اس کا بھی لباس ہے، مگر اس میں سے جسم کا ہر حصہ بالکل ننگا نظر آتا ہے۔ “ 8
خیال رہے کہ متذکرہ واقعہ مرزا بشیر الدین محمود کے مسند خلافت پر براجمان ہو جانے کے بعد کا ہے، اس لیے اسے کسی بھی صورت میں لڑکپن کی شرارت کے ضمن میں نہیں رکھا جا سکتا۔
یہ تو رہی ایک بات ، دوسری بات یہ کہ چند پہلو میری سمجھ سے باہر ہیں؟
” جب میں ولایت گیا، تو مجھے خصوصیت سے خیال تھا کہ یورپین سوسائٹی کا عیب والا " جب میں ولایت ؟حصہ بھی دیکھوں ... “
دو میری نظر چونکہ کمزور ہے، اس لیے دور کی چیز اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا “
دو . باوجود اس کے وہ تنگی معلوم ہوتی تھیں۔“
دو مگر اس میں سے جسم کا ہر حصہ بالکل ننگا نظر آتا ہے ۔ “
یہ سارے جملے بیک وقت کہے گئے ہیں، تاہم آپس میں متناقض مفہوم رکھتے ہیں۔
جناب کی نگاہ کمزور ہے ، لیکن اس کے باوجو عریانیت و ننگا ئیت دیکھنے کی آرزو ہے ۔ ہے نا عجیب و غریب بات کہ دور سے کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا، پھر بھی دیکھنے کی خواہش ہے۔ یا تو پھر یہ کہیے کہ جناب سارے فاصلے پرے رکھ کر نہایت ہی قریب سے کچھ دیکھنا چاہ رہے تھے!
آپ اسے سمجھیں یا نہ سمجھیں، لیکن علمائے نفسیات خوب جانتے ہیں کہ ایک ہی سانس میں متضاد با تیں زیر لب اسی وقت آتی ہیں ، جب انسان کچھ چھپانا بھی چاہے اور کچھ ظاہر کرنا بھی چاہے۔ یہاں وہ مغربی حسن و جمال سے تو خوب محظوظ ہو رہے تھے لیکن بار بار استفسار کر کے اپنے عقیدت مند کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کچھ دیکھ نہیں رہے ہیں ، جب کہ غیر ارادی طور پر دیکھنے کی تفصیلات نہایت ہی باریک بینی سے بیان بھی کر گئے ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے جاننے میں سب کچھ چھپانے کی کوشش کرتے رہے لیکن قدرت خداوندی نے اصلیت ظاہر کرنے کے لیے بعض پہلو بے نقاب کر ہی دیے۔
اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت کے حوالے سے مرزا بشیر الدین محمود خود بیان کرتے ہیں:
بچپن میں میری آنکھوں میں سخت نگرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف نکروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی ... چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے۔ میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں ، مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دو چارفٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو، جو میرا پہچانا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں ، لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو، تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آسکتی حضرت مسیح موعود نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی ۔ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے ، کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے۔ “9
سلسلہ کلام دراز کرتے ہوئے کہتے ہیں :
لڑکوں کو سمجھانے کے لیے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے، لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے، کیوں کہ جتنی دور بورڈ تھا، اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی اور پھر زیادہ دیر تک بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا، کیوں کہ نظر تھک جاتی ۔ اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھتا تھا، کبھی جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا۔ ... مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود کسی قدر ناراض ہوں ، لیکن حضرت مسیح موعود نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا ۔ اس سے ہم نے آٹے دال کی دکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے ۔ حساب اسے آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کون سا حساب سیکھا تھا۔ “ 10
اسے کہتے ہیں حسن تربیت ! ظاہر ہے کہ جب باپ ہی مدرسہ نہ جانے پر اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کرے تو بچہ کیوں کر پابندی سے مدرسہ جائے ۔ لہذا جناب نے رفتہ رفتہ مدرسہ جانا ہی ترک کر دیا۔
میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسے میں جانا ہی چھوڑ دیا۔ کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی ۔ ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہوگا۔ “ 11جی ہمیں خوب اندازہ ہے اور اعتراف کرتے ہیں کہ جناب نے درست فرمایا ہے۔
پڑھنے کے حوالے سے اعتراف حقیقت سماعت کر لینے کے بعد، آئیے ذرا لکھنے کی صلاحیت کے بارے میں بھی سراغ لگا ہی لیتے ہیں؟
میں اب بھی بہت بد خط ہوں ، مگر اس زمانہ میں تو میرا اتنا بد خط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ میں نے کیا لکھا۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگا ئیں میں نے کیا لکھا ہے، مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا۔ 12
بہر کیف، لکھنے پڑھنے میں بشیر الدین محمود کی لیاقت پر نگاہ ڈالنے کے بعد، ذرا یہ بھی تو معلوم کیجیے کہ جناب کی انتہائی تعلیم کہاں تک ہوئی تھی۔
خلیفہ اول ہمیشہ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں تمہاری صحت ایسی نہیں کہ تم خود پڑھ سکو،میرے پاس آجایا کرو۔ میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سنتے رہا کرو۔ چنانچہ انہوں نے زور دے دے کر پہلے قرآن پڑھایا اور پھر بخاری پڑھادی ۔ یہ نہیں کہ آپ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا ہو، بلکہ آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کرتے جاتے۔ کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے ، ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے چلے جاتے ۔ آپ نے تین مہینہ میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا تھا۔ غرض میں نے آپ سے طب بھی پڑھی اور قرآن کریم کی تفسیر بھی۔ قرآن کریم کی تفسیر آپ نے دو مہینے میں ختم کرا دی ۔ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور کبھی نصف پارہ اور کبھی پوراپارہ ترجمہ سے پڑھ کر سنا دیتے ۔ کسی کسی آیت کی تفسیر بھی کر دیتے ۔ اسی طرح بخاری آپ نے دو تین مہینے میں ختم کر دی .... چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ غرض یہ میری علمیت تھی ۔ “13
مرزا بشیر الدین محمود کے زور خطابت اور طرز نگارش کی تعریف میں جماعت احمد یہ آسمان وزمین کے قلابے ملا دیتی ہے۔ مرزا طاہر نے اپنی کتاب میں رشحات قلم کے نمونے کے عنوان سے ان کی تحریر کے بعض اقتباسات نقل کیے ہیں، جو تشحیذ الاذہان میں شائع ہوئے تھے۔ یہ حصہ پڑھیے:
دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا ، مگر خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ اے روئے زمین کے رہنے والو! جن کے کانوں تک میری آواز پہنچ سکتی ہے یا جن کی آنکھیں میری تحریر کو دیکھ سکتی ہیں ، میں تمہیں اس نیکی کی طرف بلاتا ہوں ، جس کے پھیلانے کا ذمہ خود خدا نے اٹھایا ہے اور تم جانتے ہو جس کام کو چاہتا ہے ، پورا کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کا سد راہ بن سکے۔ اس نے دنیا کا اختلاف دور کرنے کے لیے اپنے بندوں میں سے ایک شخص کو چنا اور عرب کے ریگستان میں سے ایک ایسا درخت نکالا ، جس کے سایہ کے نیچے ہر گوشے کے لوگوں نے کروڑوں کی تعداد میں آرام پایا۔ وہ وجود باوجود گم نامی کے کنج انزوا سے نکل کر شہرت کے اعلیٰ مقام پر پہنچا اور وہ علوم رتبہ حاصل کیا کہ سورج کی طرح اس پر بھی نظر نہیں ٹک سکتی ۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے تیرہ سو برس کے بعد ایک اور شخص کو اس کے خادموں میں سے چنا اور چاہا کہ اس کے ہاتھوں دنیا کو ہدایت دے، چنانچہ وہ بھی پچیس یا چھبیس برس تک دنیا کو اسی کے خالق کی طرف بلا کر چلا گیا .....14
یہ وہ تحریر ہے ، جس کے اسلوب بیان اور طرز نگارش کی تعریف میں احمدی جماعت کے نمک خواروں کی زبان نہیں تھکتی۔
اردوئے معلیٰ کی ایک جھلک ان کے تحریر کردہ خط میں بھی دیکھ لیجیے، جسے انہوں نے مصر سے جدہ جاتے ہوئے ۲ نومبر ۱۹۱۳ء میں لکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہ خیر و عافیت جدہ پہنچ گئے۔ کل جس وقت اترا ہوں، گو میرا بدن بہت گرم تھا اور سخت سردرد ہو رہی تھی لیکن چونکہ مصری جہاز کے مسافروں کو دیکھا نہیں جاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی اور بغیر کسی مزاحمت کے گزر گئے ۔ میرا خیال تھا کہ میر صاحب اس وقت تک پہنچ گئے ہوں گے لیکن معلوم ہوا کہ وہ اب تک نہیں پہنچے، کیونکہ ان کا جہاز ابھی دو دن تک آئے گا ۔ بہت خفیف کسی کھانی ہے اور حرارت کی معلوم ہوتی ہے، چونکہ ٹمپر پھر نہیں لیا ، اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ واقع میں بھی ہے یا معدہ کے نقص سے معلوم ہوتی ہے ۔
سر درد روزانہ ہو جاتی ہے، کبھی پیٹ میں درد ہو جاتی ہے، شاید اختلاف غذا کی وجہ سے ہے۔ “15
توجہ دیجیئے درد ہو جاتی ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ بار بار ۔ نیز چونکہ مصری جہاز کے مسافروں کو دیکھا نہیں جاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی اور بغیر مزاحمت کے گزر گئے، میں مفہوم سمجھ سے باہر ہے ۔ بغیر مزاحمت کے کیا گزر گئے ، یہ بھی ظاہر نہیں ہے۔ ان کا جہاز بھی دو دن تک آئے گا کے بجائے دودنوں کے اندر آئے گا ہونا چاہیے۔
مرزا بشیر الدین محمود شاعری بھی کرتے تھے نمونہ کے لیے چند اشعار سماعت کیجیے؛
یا الہی ! رحم کر اپنا کہ میں بیمار ہوں
دل سے تنگ آیا ہوں اپنی جان سے بے زار ہوں
کرم خاکی ہوں نہیں رکھتا کوئی پرواہ میری
دشمنوں پر بھی گراں ہوں دوستوں پر بار ہوں
صبر و تمکیں تو الگ، دل تک نہیں باقی
رہا راہ الفت میں لٹا ایسا کہ اب نادار ہوں16
متذکرہ بالا اشعار میں وزن شعری سے لے کر ترکیب الفاظ میں بھی خامیاں ہیں اور کہیں کہیں مفہوم کے ساتھ ساتھ معنی بھی گنجلک ہو گیا ہے۔
1۔ پہلے مصرعہ میں رحم کر اپنا سے کوئی جدید مفہوم ظاہر نہیں ہو رہا ہے ، بلکہ یہ ترکیب ہی بے معنی سی ہوگئی ہے۔ یہاں رحم کر مجھ پر ہوتا تو کہیں بہتر تھا۔
2۔ تیسرے مصرعہ میں پرواہ کی کہ وزن سے گر گئی ہے، جو شعر وسخن کی دنیا میں بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے۔
3۔ پانچویں مصرعہ میں دل تک نہیں باقی رہا ہے۔ دل کا باقی رہنا کوئی محاورہ نہیں ہے، بلکہ یہ ترکیب ہی غیر ادبی ہے۔
4۔ چھٹے مصرعہ میں نادار مذکور ہے ، جب کہ نادار عام طور پر کسی اور اسم کے ساتھ مل کر مستعمل ہوتا ہے، جیسے غریب و نادار ۔ اس لیے یہ ترکیب غیر ادبی سبھی جائے گی۔
کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق اپنی مرضی طے کرنی چاہیے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود اپنی مرضی کے مطابق آیات قرآنیہ کے مفاہیم طے کرتے تھے۔ نمونہ کے طور پر یہ اقتباس پڑھیے۔
میں نے بتایا تھا کہيُزَكِّيهِمْ کے معنوں میں ابھارنا اور بڑھانا بھی داخل ہے اور اس کے مفہوم میں قومی ترقی داخل ہے اور اس ترقی میں علمی ترقی بھی شامل ہے اور اس میں انگریزی مدرسه، اشاعت اسلام و غیر هما امور آ جاتے ہیں۔ “17
شریعت اسلامیہ انگریزی اسکول کھولنے کی ممانعت نہیں کرتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انگریزی اسکول کھولنے کی اہمیت پر قرآنی آیت تو ڑ مروڑ کر منسلک کر دی جائے ۔ آپ امہات تفاسیر اٹھا کر دیکھ لیں ، سب یہ کہتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ یہاں متذکرہ لفظ سے تزکیہ نفس اور کفر سے طہارت مراد ہے۔ 18
امام قرطبی لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا نے فرمايا
يطهرهم من دنس الکفر و الذنوب19
اور شیخ ابن جریح اور شیخ مقاتل کہتے ہیں
یاخذ زكاة اموالهم20
خلافت کے حوالے سے ویسے تو خلیفہ اول کی حیات میں ہی مرزائیوں میں اختلافات شروع ہو گئے تھے، تاہم ان کی موت کے بات حالات مزید بگڑ گئے ۔ اس پس منظر میں گھر کی بات خود گھر والوں کی زبانی سماعت کیجیے۔
.... ادھر منکرین خلافت کا یہ حال تھا کہ وصال کی خبر سنتے ہی مختلف جماعتوں میں کارندے دوڑا دیے تا کہ تمام جماعتوں میں فوری طور پر ایک ایسا رسالہ تقسیم کر دیا جائے ، جو انکار خلافت سے متعلق پرو پیگنڈے پر مشتمل تھا اور جو پہلے ہی سے تصنیف اور طبع ہو کر اس انتظار میں پڑا تھا کہ جوں ہی حضرت خلیفہ اسیح کا وصال ہو، پہلے سے مقرر کردہ کارکنان ان رسالوں کو لے اڑیں اور تمام جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔ “ 21
اس رسالہ کے مرکزی موضوع کے حوالے سے لکھتے ہیں:
یہ رسالہ ہیں اکیس صفحات کا تھا ، جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ جماعت میں خلافت کے نظام کی ضرورت نہیں، بلکہ انجمن کا انتظام ہی کافی ہے، البتہ غیر احمدیوں سے بیعت لینے کی غرض سے اور حضرت خلیفہ اول کی وصیت کے احترام میں کسی شخص کو بطور امیر مقرر کیا جاسکتا ہے ، مگر یہ شخص جماعت یا صدرانجمن کا مطاع نہیں ہوگا ، بلکہ اس کی امارت محدود اور مشروط ہو گی ۔ 22
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اختلافات نہایت ہی شدت اختیار کر گئے ۔ ۲۱ مارچ ۱۹۱۴ء میں ایک اشتہار شائع کر کے مرزا بشیر الدین محمود اظہار تشویش و برہمی کرتے ہیں:
میرا دل اس تفرقہ کو دیکھ کر اندر ہی اندر گھلا جاتا ہے اور میں اپنی جان کو کھلتا ہوا دیکھتا ہوں ، رات اور دن میں غم و رنج سے ہم صحبت ہوں ۔ اس لیے نہیں کہ تمہاری اطاعت کا میں شائق ہوں، بلکہ اس لیے کہ جماعت میں کسی طرح اتحاد پیدا ہو جائے ۔ "23
آگے چل کر دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں:
اب کون ہے جو مجھے خلافت سے معزول کر سکے ۔ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور خدا تعالیٰ اپنے انتخاب میں غلطی نہیں کر سکتا، اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہو سکتی اور اگر سب کے سب خدا نخواستہ مجھے ترک کر دیں، تو بھی خلافت میں فرق نہیں آسکتا۔ جیسے نبی اکیلا بھی نبی ہوتا ہے، اسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے۔ “ 24
مرزا بشیر الدین محمود ابتداء سے ہی جنسی بے راہ روی کے الزامات کے نرغے میں رہے اور اخیر عمر تک وقفہ وقفہ سے مصدقہ اطلاعات آتی رہی ہیں۔ خیال رہے کہ یہ باتیں صرف غیروں نے نہیں کی ہیں، بلکہ حاضر باش خواتین و احباب اور جماعت کے بہی خواہوں نے بھی کی ہیں۔ یقین نہیں آتا، تو خود نوشت پڑھیے:
" مجھے آپ کے خط کو پڑھ کر جو صدمہ ہوا ، اسے تو خدا ہی جانتا ہے، لیکن وہ صدمہ کوئی نیا نہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس قسم کے الزامات لگائے جانے کا عادی ہوں اور جب سے ہوش سنبھالا ہے، غیروں کے ہاتھوں سے نہیں، بلکہ اپنے دوستوں ہی کے ہاتھوں سے وہ کچھ دیکھا اور ان زبانوں سے وہ کچھ سنا کہ اگر یہ خط اکیلا آتا اور اس کے سوا اور میں کوئی آواز نہ سنتا تو میں بالکل خاموش رہتا لیکن آج پانچ سال کے قریب عرصہ ہونے کو آیا ہے کہ اس قسم کے اعتراضاتسنتا آرہا ہوں ، لیکن پہلے تو افواها ان اعتراضات کا علم ہوتا تھا اور اب کچھ مدت سے تحریرا بھی یہ الزامات مجھ پر قائم کیے جانے لگے ہیں اور صرف مجھی تک بس نہیں بلکہ ٹریکٹوں کے ذریعہ یہ خیال تمام جماعت احمد یہ میں پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔... 25
سب سے پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کی حیات میں مرزا بشیر الدین محمود پر جنسی دست درازی پر لگے الزامات کی تحقیق ہوئی۔
ان پر جنسی بے اعتدالی کا سب سے پہلا الزام ۱۹۰۵ء میں لگا اور ان کے والد مرز اغلام احمد نے اس کی تحقیقات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی مقرر کردی، جس نے الزام ثابت ہو جانے کے با وجود چار گواہوں کا سہارا لے کر شبہ کا فائدہ دے کر ملزم کو بچایا۔ عبد الرب برہم خان ۱۳۳۵ے پیپلز کالونی فیصل آباد کا حلفیہ بیان ہے کہ اس کمیٹی کے ایک رکن مولوی محمد علی لاہوری سے انہوں نے اس بارہ میں استفسار کیا، تو مولوی صاحب نے بتایا کہ الزام تو ثابت ہو چکا تھا، مگر ہم نے ملزم کو Benefit of Doubt دے کر چھوڑ دیا ۔26
ایک وفاردار غلام کے ارسال کیے گئے عریضہ کا یہ حصہ چشم حیرت سے پڑھیے۔
میرے پیارے آقا ، اس قسم کے الزامات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے ، چنانچہ عبد العزیز نو مسلم کی لڑکی کا واقعہ ، مستریوں کی لڑکی اور لڑکے کا گندا چھالنا، پھر زینب اور حلیمہ کا واقعہ ، پھر والدہ عبد السلام کا واقعہ ، اسی طرح محمودہ اور عائشہ کا واقعہ اور اسی قسم کے اور کئی واقعات جو حضور سے پوشیدہ نہیں ہیں اور وقتا فوقتا حضور کو بدنام کرنے کے الزام لگائے جارہے ہیں ۔ اب اس قسم کے الزام حد سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اس کے متعلق حضور نے ۶ راگست ۱۹۳۷ء کے خطبے میں بھی ذکر فرمایا تھا۔ باقی رہا یہ سوال کہ ہمارے علماء چار گواہوں کی شرط پیش کرتے ہیں ، ہمارے مخالف کے پاس تو بیسیوں گواہ پیش کرنے کا دعوی ہے ۔ پس اس قسم کے دلائل عوام الناس کے لیے بجائے تسلی کے پٹھو کر کا موجب بن رہے ہیں۔۔۔ خادم عبد الرحیم مہاجر ، 27
مرزا بشیر الدین محمود کی رائے تھی کہ جماعت احمدی سے وصولی گئی زکواۃ خلیفہ وقت کے براہ راست تصرف میں ہونی چاہیے۔ ایک موقع پر خود کہتے ہیں۔
حضرت خلیفہ مسیح کی خدمت میں بھی یہ تجویز میں نے پیش کی تھی۔ کسی کے ذریعہ سے میں نے انہیں کہلا بھیجا تھا کہ زکوۃ خلیفہ کے پاس آنی چاہیے۔ “28
اور زکواۃ اپنے تصرف میں لانے کے پس پردہ مقاصد سے نقاب الٹتے ہوئے ان کے ایک چاہنے والے کہتے ہیں:
ہم اپنے قطعی اور یقینی علم کی بنا پر جانتے ہیں کہ خلیفہ صاحب کی بہت سی بدکاریوں کا موجب یہ طریق عمل ہوا ہے۔ وہ زکواۃ کے روپیہ سے ان عورتوں اور لڑکیوں کی مالی امداد کرتے ہیں، جن سے بدکاری کرتے اور کرواتے ہیں۔ “ 29
اب ذرا کھل کر جماعت احمدی کے نمک خواروں کی شہادتیں سماعت کر لیں ، جن سے آفتاب نیم روز کی طرح مرزا بشیر الدین محمود کے خلوت کدے میں ہونے والی رنگ رلیاں پوری طرح اجالے میں آجاتی ہیں ، تاہم خیال رہے کہ چشم دید واقعات نہایت ہی شرمناک اور ذلت آمیز ہیں۔
اس لیے باوجود کثرت شہادت کے، میں صرف بطور نمونہ یہاں دو چار ہی پر بس کروں گا، تا کہ میری تحریر کا وقار بھی سلامت رہے اور قارئین کرام کا ذوق لطیف بھی مجروح نہ ہو۔
ظاہر ہے کہ خلوت کدہ کے راز سے دویا تین ہی افراد واقف ہوتے ہیں ؛ حرکت کرنے والا ، جس کے ساتھ حرکت کی جائے اور بسا اوقات معین و مددگار ۔ یہاں ہم ایک ایسے ہی معین و مددگار کی روایت سنتے ہیں ، جو ایک دو مرتبہ نہیں ، بلکہ دسیوں مرتبہ مرزا بشیر الدین محمود کے حجرہ استراحت کے مشکوک حالات کا عینی شاہد ہے۔
میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر ، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو جبار و قہار ہے، جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی اور مردود کا کام ہے، حسب ذیل شہادت دیتا ہوں۔
میں ۱۹۳۳ء سے لے کر ۱۹۳۶ء تک مرزا گل محمد صاحب رئیس قادیان کے گھر میں رہا۔
اس دوران میں کئی مرتبہ ایک عورت مسماۃ عزیزہ بیگم صاحبہ کے خطوط خفیہ طریقہ سے ان ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کہ ان خطوں کا کسی سے بھی ذکر نہ کرنا، خلیفہ محمود کے پاس لے جاتا رہا۔ خلیفہ مذکور بھی اس طریقہ سے اور ہدایت بالا کو دہراتے ہوئے جواب دیتا رہا۔ خطوط انگریزی میں تھے۔
اس کے علاوہ اس عورت کو رات کے دس بجے بیرونی راستہ سے لے جاتا رہا، جب کہ اس کا خاوند کہیں باہر ہوتا ۔ عورت غیر معمولی بناؤ سنگھار کر کے خلیفہ کے دفتر میں آتی تھی۔ میں بموجب ہدایت اسے گھنٹہ یا دو گھنٹہ بعد لے آتا تھا۔
ان واقعات کے علاوہ بعض اور واقعات سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خلیفہ صاحب کا چال چلن خراب ہے اور میں ہر وقت ان سے مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ “ 30
( حافظ عبد السلام، پسر حافظ سلطان حامد خان استاد میاں ناصر احمد )توجہ رہے کہ شیخ عبد الرحمن مصری قادیانی کو جماعت کے لیے نہایت ہی فعال و متحرک رکن رہنے کی وجہ سے نہایت ہی عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا، تاہم مرز محمود کی حرکتیں سامنے آنے کے بعد انہوں نے جماعت چھوڑ دی۔
اب آئیے ، ان کے بیٹے کی آپ بیتی سنتے ہیں۔
مصری عبدالرحمن صاحب کے بڑے لڑکے حافظ بشیر احمد نے میرے ساتھ ہاتھ میں قرآن شریف لے کر یہ لفظ کہئے خدا تعالیٰ مجھے پارا پارا کر دے اگر میں جھوٹ بولتا ہوں کہ موجودہ خلیفہ صاحب نے میرے ساتھ بد فعلی کی ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر یہ واقعہ لکھ رہا ہوں ۔ “ 31
ایک عقیدت مند اپنے ہر کام سے پہلے خلیفہ وقت سے اجازت لیتے تھے۔ ایک دن انہوں نے اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو رقعہ دے کر مرزا بشیر الدین محمود کے خلوت کدہ میں بھیج دیا۔ آگے کی شرمناک داستان خود بچی کی زبانی سنیے:
... چند دن بعد مجھے پھر ایک رقعہ لے کر جانا پڑا۔ اس وقت بھی وہی لڑکی میرے ہمراہ تھی۔ جوں ہی ہم دونوں میاں صاحب کی نشست گاہ میں پہنچیں ، تو اس لڑکی کو کسی نے پیچھے سے آواز دی۔ میں اکیلی رہ گئی۔ میں نے رقعہ پیش کیا اور جواب کے لیے عرض کیا، مگر انہوں نے فرمایا کہ میں تم کو جواب دے دوں گا مگر گھر اؤ مت ۔ باہر ایک دو آدمی میرا انتظار کر رہے ہیں ، ان سے مل آؤں۔ مجھے یہ کہہ کر اس کمرے کے باہر کی طرف چلے گئے اور چند منٹ بعد پیچھے کے تمام کمروں کو قفل لگا کر اندر داخل ہوئے اور اس کا بھی باہر والا دروازہ بند کر دیا اور چٹنیاں لگا دیں ۔ جس کمرے میں میں تھی وہ اندر کا چوتھا کمرہ تھا۔ میں یہ حالت دیکھ کر سخت گھبرائی اور طرح طرح کے خیال دل میں آنے لگے۔ آخر میاں صاحب نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کی اور مجھ سے برافعل کروانے کو کہا۔ میں نے انکار کیا۔ آخرز بر دستی انہوں نے مجھے پلنگ پر گرا کر میری عزت برباد کر دی۔۔ 32
یہ ایک وفاشعار اور جانثار احمدی کی لخت جگر کی آپ بیتی ہے ۔ باپ کو خانوادہ احمدیت سے اس قدر عقیدت و محبت ہے کہ خلیفہ وقت سے اجازت لیے بغیر ایک قدم بڑھانے کو بھی اپنے لیے گناہ تصور کرتا ہے، تاہم ہوس کی چوکھٹ پر سر تسلیم خم کرنے والا درندہ، مذہبی تقدس کی آڑ میں ایک نوخیز بچی کا دامن عصمت تار تار کر رہا ہے، اور نہ احساس شرمندگی ہے، نہ خوف خدا ہے اور نہ جماعت احمدیہ کے درمیان ذلت و رسوائی کی فکر دامن گیر ہے۔
(ماخوذ ۔۔۔ قادیانیت ایک تنقیدی مطالعہ ۔۔۔از ڈاکٹر غلام زرقانی قادری )