logoختم نبوت

فاتح مرزائیت علامہ محمد محدث گھوٹوی رحمۃ اللہ علیہ

فاتح قادیانیت ، قاطع مرزائیت، عالم ربانی، سیف یزدانی ، واقف رموز عرفانی، بانی شیخ الجامعہ فرسٹ وائس چانسلر ، جامعہ عباسیہ (اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور) محقق علی الاطلاق ، فخر العلماء، سيد المحدثین ، شیخ الاسلام حضرت علامہ غلام محمد گھوٹوی کی ذات ستودہ صفات علمی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ کا نام آتے ہی اہل علم و ادب اور صاحبان تقویٰ کی گردنیں جھک جاتی ہیں۔ سینہ اُن کی یاد سے روشن اور ذہن اُن کی علمی خوشبو سے معطر ہو جاتا ہے۔ یقینا علم ان پہ ناز کرتا تھا وہ انسانیت کا زیور اور دھرتی کا فخر تھے۔

تاجدار گولڑہ انہیں دیکھ کر فرماتے تھے غلام محمد گھوٹوی قرآنی آیت

بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ و الجسم 1

کی عملی تفسیر ہے۔ بلند قد و کاٹھ کو علم کی رفعت نے اوج ثریا تک پہنچا دیا تھا۔ صرف ،نحو، اقلیدس ، فقہ، اصوليات فلکیات، نجوم الغرض وہ ہر فن اور ہر علم میں نہ صرف یدطولیٰ رکھتے تھے بلکہ گوہر یکتا تھے ۔ آپ قلب قانع کے حامل یادگار اسلاف تھے۔ محبت دنیا اور تمنائے جاہ و حشم سے بے نیازی آپ کی فطرت کا خاصہ تھی۔ آسمان علم کا درخشندہ ستارہ ہونے کے باوجود آپ نے اپنی علمیت کو کبھی دولت کمانے کا وسیلہ نہ بنایا۔

پیدائش:

مولانا غلام محمد گھوٹوی قدس سرہ موضع گمرالی کلاں نزد منگوال منڈی بہاؤالدین روڈ ضلع گجرات میں ۱۳۰۴ ھ مطابق ۱۸۸۵ ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کا نام چوہدری عبداللہ المعروف گہنہ خان اور جدا مجد کا نام چوہدری محمد خان المعروف چوغطہ خاں تھا۔

تعلیم:

قرآن پاک ناظرہ کی تعلیم حافظ محمد دین گنج شکری فاروقی ساکن ٹھیکریاں شریف ضلع گجرات سے حاصل کی جبکہ فارسی اور صرف ونحو کے مضامین حضرت مولانا محمد چراغ عباسی گنج شکری ساکن چکوڑی شریف ضلع گجرات سے پڑھے۔ ازاں بعد مولانا جمال الدین اعوان ساکن محمد پور گھوٹہ ضلع ملتان ، مولانا غلام حسین شور کوئی ساکن قاضی والا موضع تلیری ضلع مظفر گڑھ، مولانا نورالزمان ساکن چکی شیخ ضلع میانوالی اور مولانا غلام احمد حافظ آبادی صدرالمدرسین جامعہ نعمانیہ لاہور سے تحصیل علم کی۔ مدرسہ فیض عام کانپور انڈیا میں مولانا احمد حسن محدث کانپوری سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا فضل حق پر نسپل مدرسہ عالیہ رامپور سے درس نظامی مکمل کیا۔ دورہ حدیث شیخ الحدیث مولانا وزیر احمد رامپوری سے پڑھا اور سند حدیث حاصل کی۔ بخاری و مسلم حضرت پیرسید مہر علی شاہ گولڑوی سے سبقا سبقا پڑھیں علاوہ ازیں آپ نے فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ بھی اعلیٰ حضرت گولڑوی سے پڑھیں۔ طب کی تعلیم کے لئے حکیم وزیر الحسن رامپوری اور تجوید و قرآت کے لئے استاذ القراء عبد الرحمن جو نپوری گولڑوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے۔

تدریس:

مدرسہ عالیہ رامپور سے فراغت کے بعد ۱۹۰۷ ء میں آپ مدرسہ انوار العلوم رامپور میں صدر المدرسین مقرر ہوئے ۔ ۱۹۰۹ء میں اپنے استاد مولانا جمال الدین اعوان کی وصیت کے مطابق محمد پور گھوٹہ ضلع ملتان تشریف لے آئے اور ۱۹۲۵ء تک دارالعلوم گھوٹہ میں استاذ الاساتذہ تعینات رہے۔ آپ کی محنت و لگن سے اس مدرسہ کی شہرت چہار دانگ عالم میں پھیل گئی۔

بیعت:

حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی نے ۱۴ سال کی عمر میں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ مرشد طریقت کے فیضان سے تا عمر ریاست بہاولپور اور اُس کے گردو نواح میں قادیانیت کا بھر پور تعاقب جاری رکھا۔ اپنے شیخ طریقت سے والہانہ لگاؤ کی وجہ سے آپ پر آشوب لیے سفر کے باوجود اکثر گولڑہ شریف حاضری دیتے رہے۔ مرشد کریم بھی مادر مہربان سے زیادہ آپ پر نظر عنایت فرماتے۔ آپ سے بے پناہ محبت کی بدولت آپ کی خواہش پر مجدد گولڑہ نے متعدد بار سرزمین گھوٹہ پر قدم رنجہ فرما کر آپ کو شرف میزبانی سے مشرف فرمایا۔

تحریک پاکستان میں کردار:

آپ نے تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ انگریزی حکومت نے آپ کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کئے مگر عوامی دباؤ کے پیش نظر آپ کی گرفتاری نہ ہوئی ۔ آپ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان میں عملاً شریک رہے۔ اکابرین جمیعت علمائے ہند نے آپ سے ملاقات کر کے مسلم لیگ کی حمایت چھوڑنے اور تحریک پاکستان سے دستبردار ہونے پر اصرار کیا۔ مگر آپ نے اُن کا مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر کے مسلم لیگ و تحریک پاکستان کے ہر اول دستہ میں رہ کر اپنی کاوشیں جاری رکھیں۔

اسلامی یونیورسٹی میں کردار:

نواب آف بہاول پور سر صادق محمد خان خامس عباسی نے نظام ریاست سنبھالنے کے بعد ۱۹۲۴ء میں ریاست کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کے لئے جامع الازہر مصر کی طرز پر ایک عظیم الشان اسلامی یونیورسٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم حضرت علامہ غلام محمد گھوٹوی کو اس کا اولین شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) بنانے کا حکم نامہ جاری فرمایا۔ علاوہ ازیں ریاست بہاولپور میں آپ کو وزیر معارف اور شیخ الاسلام کا اعزازی رتبہ بھی حاصل تھا ۔ ۲۵ جون ۱۹۲۵ء کو آپ نے جامعہ عباسیہ بہاولپور کے افتتاح کے موقع پر تفسیر بیضاوی سے سورۃ البقرہ کی آیات:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً۪-وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ-فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 2

پر لیکچر دیا۔ تب سے ۲۸ فروری ۱۹۴۷ء تک آپ بطور شیخ الجامعہ انتظامی و تدریسی امور سر انجام دیتے رہے۔ ریاست بہاولپور میں واقع خانقاہوں اور عربی مدارس کی نگرانی امتحانات ، معائنہ اور ملازمین کی تعیناتی آپ کے سپر د تھا۔ آپ کی علمی و انتظامی خدمات کے اعتراف میں ۱۹۵۲ء میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے مرکزی ہال کا نام غلام محمد ہال رکھا گیا۔ آج بھی آپ کے نام کی خوبصورت تختی بال کی پیشانی کا جھومر ہے۔

زیارت حرمین:

آپ ۱۹۱۱ء، ۱۹۲۸ ، ۱۹۳۵ ء اور ۱۹۴۵ء میں چار دفعہ حج بیت اللہ اور زیارت روضہ رسول ﷺ سے مشرف ہوئے۔ 1911ء میں جب آپ پہلی دفعہ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے تو دورانِ قیام مدینہ منورہ خواب میں دیدار نبی ﷺ سے فیضیاب ہوئے اور تدریس حدیث پر مامور فرمائے گئے۔

شادی واولاد:

وسط ۱۹۱۸ء میں آپ کی شادی ہوئی ۔ اللہ تعالی نے آپ کو دو صاحبزادے شیخ الحدیث مفتی حافظ محمد عبدالحی الچیشتی القادری اور حافظ علامہ غلام احمد قادری عطا فرمائے ۔ دونوں صاحبزادگان آسمان علم کے تابندہ ستارے بن کر ابھرے۔

تالیف و تصنیف:

آپ قادر الکلام شاعر اور مصنف تھے۔ آپ کی اکثر تصنیفات و تالیفات درسیات پر مشتمل ہیں آپ کے قلم کی جولانی سے درج ذیل کتب ظہور میں آئیں:

(1) سوانح حیات حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی۔

(۲) معائنہ بلا شیب در مسئلہ علم غیب۔

(۳) ظفر الحق والصداقة على من اجاب العلم بالسفاهة

(۴) تکملہ فوائد رفعیہ (قیاسی و معنوی عوامل)۔

(۵) حمد اللہ شرح سلم پر افاضات ۔

(۶) حمد اللہ شرح مسلم پر درسی تقاریر۔

(۷) اشارات لابن سینا پر درسی تقاریر۔

(۸) آئین پاکستان کی اسلامی دفعات کے لئے سفارشات ۔

(۹) طلاق ایکٹ (ریاست بہاولپور) پر تفصیلی رپورٹ اور تجاویز ۔

(۱۰) صحیح بخاری کے تشریحی افاضات۔

(11) تفسیر بیضاوی کے تفسیری افاضات۔

(۱۲) تصوف شیخ اکبر محی الدین ابن عربی پر افاضات۔

(۱۳) عربی زبان کی وسعت و گہرائی اور گیرائی پر تحقیقی مقالہ۔

(۱۴) جوف الفراء ( کتاب نحو ) ۔

(۱۵) جلالین شریف پر نوٹس ۔

(۱۶) رساله در مسئلہ امتناع نظیر سرور عالم ﷺ

فاتح مرزائیت مولانا غلام محمد گھوٹوی ۲۷ ربیع الثانی ۱۳۶۶ ھ مطابق ۸ مارچ ۱۹۴۸ء بروز پیر بعد از نماز عشاء اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ نواب آف بہاول پور نے 9 مارچ کو آپ کے جنازہ پر ریاست میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا ۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ آپ کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔ آپ کے شاگرد اور دست راست ابوالعباس علامہ محمد صادق بہاولپوری کو آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا ۔ قبرستان ملوک شاہ ( عقب نور محل) بہاولپور میں آسودہ خاک ہیں۔ مزار سے ملحق مسجد و مدرسہ بھی قائم ہو چکا ہے ۔

رد قادیانیت:

استاذ العلماء شیخ الاسلام، بحر العلوم حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی نے نہ صرف علمی میدان میں فرق باطلہ کا رد فرمایا بلکہ عملی کاوشیں کر کے اسلام کی سربلندی اور کفر کی سرکوبی میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ فاتح قادیانیت حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے فیض صحبت کی بدولت فتنہ ضالہ قادیانیت کے رد و ابطال کی خاطر آپ نے اپنی جملہ صلاحیتیں صرف کر دیں۔ قادیانی دجل و فریب کے خلاف ایمانی غیرت آپ کی رگ رگ میں خون بن کر دوڑتی تھی۔ آپ کو یہ ملکہ حاصل تھا کہ آپ قرآن کریم کی ہر آیت مبارکہ سے ختم نبوت ثابت کر سکتے تھے اور یہ علمی استعداد بارگاہ نبوت ملی کہ تم سے عطا ہوئی تھی۔ دیگر خدمات جلیلہ کے ساتھ ساتھ مشہور عالم ” مقدمہ مرزائیہ بہاولپور کی پیروی کے سلسلہ میں آپ کی کاوشیں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔

مناظرہ ہر یا ضلع گجرات میں صدر مناظرہ:

۱۸ اور ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو موضع ہر یا ضلع گجرات میں مفتی غلام مرتضی میانوی اور جلال الدین شمس قادیانی کے مابین حیات ووفات عیسی یا پر مناظرہ ہوا۔ اہلِ اسلام کی طرف سے شیخ الاسلام علامہ غلام محمد محدث گھوٹوی صدر مناظرہ قرار پائے۔ اس مناظرہ میں مفتی غلام مرتضی میانوی کے علم لدنی کی برکت سے مسلمانوں کو زبردست فتح اور قادیانیوں کو شکست فاش ہوئی۔ بعد از مناظرہ شیخ الاسلام علامہ غلام محدث گھوٹوی نے مناظرہ پر اپنے تاثرات یوں قلمبند فرمائے:

احقر بحیثیت صدر جماعت اسلامیہ مناظرہ منعقدہ موضع ہر یا ضلع گجرات بتاریخ ۱۸ ،۱۹ اکتوبر ۱۹۲۴ ء ظاہر کرتا ہے کہ جماعت اسلامیہ کی طرف سے ہمارے ملک کے مشہور فاضل مفتی غلام مرتضی صاحب ساکن میانی ضلع شاه پور مناظر تھے۔ قادیانی جماعت کے مناظر جلال الدین صاحب شمس مولوی فاضل تھے جن کا اس سے زیادہ کچھ پتہ نہیں۔ اس مناظرہ کے متعلق میری رائے یہ ہے:

1۔ انعقاد مجلس مناظرہ کے متعلق مفتی صاحب کے مساعی جمیلہ قابل شکریہ ہیں۔ یہ مفتی صاحب کا ہی اثر تھا کہ جس مناظرہ کی ذمہ داری بڑے بڑے افسر نہ لے سکے اس کا ذمہ دار مفتی صاحب کا ایک معتقد ہو گیا۔ مفتی صاحب نے بڑی کوشش کی کہ مناظرہ ضرور ہو ، تا کہ قادیانی جماعت کو بغض نکالنے کا موقعہ دیا جائے اور ان کے خیالات کا پورا قلع قمع کر دیا جائے۔ گو قادیانی جماعت نے بے حد کوشش کی کہ مناظرہ نہ ہو سکے مگر مفتی صاحب کی تدابیر نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ اگر قادیانی جماعت حق شناس ہوتی تو اس کو مفتی صاحب کا شکر یہ ادا کرنا چاہئے تھا۔

2۔ مفتی صاحب نے ہر دو دن کے اجلاسوں میں اپنے اخلاق جمیلہ کا وہ ثبوت دیا کہ ہر کہ ومہ نے آفریں آفریں کہی۔ باوجود یکہ فریق مخالف کا مناظر نہایت بد خو تھا اور دونوں اجلاسوں کے غیر مہذبانہ الفاظ جو مفتی صاحب کی ذات کے متعلق اس نے استعمال کئے جمع کئے جائیں تو کافی تعداد ہو جائے۔ مگر مفتی صاحب نے اپنی کوہ وقاری نسبی و جبلی شرافت کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن الفاظ کو غیر مسموع تصور کیا۔ میرے خیال میں فی زمانہ ایک مولوی صاحب کے لئے یہ حلم و بردباری تقریباً محال ہے۔

3۔ قادیانی مناظر نے گو حضرت مسیح علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق حسب عادت فرقہ ہذا نہایت ناشائستہ الفاظ استعمال کئے ۔ مثلاً کہا کہ مسیح( علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام) کو کلا کا کلہ واپس نہیں آنے دیتا۔ جس کا مطلب بیان کرنا بھی کفر ہے۔ اور بزرگوں کی اہانت کے کلمات سننے سے ہر مسلمان کو جوش آجاتا ہے۔ مفتی صاحب بھی جوش میں آئے اور مناسب تھا کہ جھوٹے مسیح کو بھی کلہ ٹھوکتے مگر آپ نے مرزا صاحب کے متعلق نہایت عزت کے الفاظ استعمال کئے جو کسی مسلمان کو نہ بھاتے تھے۔

4۔ قادیانی مناظر نے دو دفعہ قرآن کریم کو سخت غلط پڑھا۔ ایک تو آیتءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ ....... الآية کو اور دوسرےمَا كَانَ لِبَشَرٍ ..... الآية کو جس کی وجہ سے میدان مناظرہ میں سخت ابتری پھیل گئی۔ اس واسطے کہ قرآن مجید کو غلط پڑھنا سخت قبیح ہے اور پھر عوام کے نزدیک تو یہ بالکل اقبح ہے۔ میں نے دیکھا کہ عوام مفتی صاحب اور احقر کے سکوت کو بے محل قرار دے کر فساد پر آمادہ ہیں۔ چنانچہ حافظ غلام محمد صاحب ساکن میانہ گوندل کا نام نامی مجھے یاد ہے اور ان کی وہ جھنجھلاہٹ والی شکل یاد ہے جس سے باور ہوتا تھا کہ قادیانی مناظر کو شاید نگل جائیں گے۔ مگر مفتی صاحب نے لوگوں کو سخت منع کیا اور فرمایا کہ ہماری طرف سے کوئی حرکت بھی نہ ہو۔ گو با محل بھی ہو۔ اس واسطے کہ ذمہ دار اس کا میں ہوں اور شریف اپنی ذمہ داری کو نبھایا کرتا ہے۔

5۔ قادیانی مناظر کے سارے مناظرہ کے اجلاسوں کے بے قاعد گیاں یعنی خلاف ورزیاں شرائط مقررہ فریقین ۴۹ ہیں اور مفتی صاحب نے ایک جگہ بھی شرط کی پابندی کو نہیں چھوڑا۔ اگر تطویل کا خوف نہ ہوتا تو میں ایک ایک کو علیحدہ علیحدہ لکھتا۔

6۔ مفتی صاحب کی ہر دلیل تحقیقی و الزامی تقریب تام سے مزین تھی۔ مگر قادیانی مناظر بالکل تقریب کے قریب نہ جاتا۔

7۔ مفتی صاحب اپنا بیان تقریری و تحریری بڑے آرام اور نرمی سے سناتے تھے اور سامعین پر مفتی صاحب کی تقریر اپنا سکہ جماتی تھی۔ مگر قادیانی مناظر کی تقریر کامل تنفیر کا موجب ہوتی تھی۔ بلکہ بعض تو اُٹھ کر چلے جاتے تھے۔

8۔ قادیانی جماعت نے مفتی صاحب پہ پہرہ لگا دیا کہ کسی سے مدد نہ لے سکیں۔ جب ہم نے بھی قادیانی مناظر کے متعلق ایسا انتظام کرنا چاہا تو مفتی صاحب نے روک دیا اور فرمایا کہ جس سے مدد لیں روکو نہیں۔چنانچہ ایک دبلے پتلے عینک دار، قادیانی مناظر کی کاپی کی اصلاح کرتے رہے اور مفتی صاحب کے علمی اعتماد نے انہیں اپنے ارمان نکالنے دیئے ۔ مگر ہوا وہی جو منظور ایزدی تھا۔

9۔ جب پہلے دن کا اجلاس ختم ہوا تو اسلامی جماعت کو خیال آیا کہ مجمع کثیر ہے اور فرصت کو ہاتھ سے نہ کھونا چاہئے اور سلسلہ تبلیغ شروع کرنا چاہئے۔ تا کہ عوام آریہ وغیرہ کے خیالات سے متاثر نہ ہوں۔ چنانچہ اس کا اعلان کیا گیا مگر قادیانی مناظر معہ قادیانی جماعت نہایت ناراض ہوئے۔ اور کہا کہ اگر تبلیغ وغیرہ کا ارادہ ہے تو ہم کو گوارہ نہیں۔ پس ہم جاتے ہیں لہذا تبلیغ کا سلسلہ روکا گیا۔

10۔ قادیانی جماعت نے پہلے دن ایک صدر مقرر کیا اور دوسرے دن دوسرا صدر مقرر کیا تا کہ کسی طرح سے مسلمان لوگ ہماری مخالفت کریں۔ اور ہم دوسرے دن کا مناظرہ کئے بغیر نکل جائیں۔ احقر صدر اسلامی جماعت بار بار وقت کی پابندی کی تلقین کرتا تھا۔ مگر صدر قادیانی جماعت فرماتے تھے کہ ابھی وقت نہیں ہوا۔ اتفاقاً احقر کہہ بیٹھا کہ آپ کی گھڑی مجدد ہے یعنی نئی ہے جس پر قادیانی جماعت بگڑ گئی اور بڑے اصرار سے روبراہ ہوئے جس سے ان کی غرض یہ تھی کہ بہانہ کر کے نکل چلیں۔

فتلك عشرة كاملة ولدينا مذيد

اس سے ناظرین اندازہ لگا لیں کہ کون مفتوح ہوا اور کون فاتح۔

آخر میں آپ فرماتے ہیں۔

میرا دل اس وقت یہ گواہی دیتا تھا کہ اگر مفتی صاحب کی تقریر مرزا قادیانی خود بھی سنتا تو مسلمان ہو جاتا۔ مگر ہدایت مقدر نہ تھی۔ 3

احقر غلام محمد ساکن گھوٹہ ضلع ملتان

فتح یاب مناظرہ سے فراغت کے بعد شیخ الاسلام واپس گھوٹہ آنے کی بجائے گولڑہ شریف جا پہنچے اور مناظرہ کی ساری کارر وائی اور تفصیلات اپنے اور مفتی غلام مرتضی میانوی کے شیخ طریقت حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے گوش گذار فرمائیں ۔ کارروائی سن کر مجد و گولڑہ بہت خوش ہوئے اور مفتی صاحب کو شاباش دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ۲۲ اکتوبر ۱۹۲۴ ء کو ایک مبارکبادی خط اُن کی خدمت میں ارسال فرمایا۔4

فاتح مناظرہ مفتی غلام مرتضی میانوی نے " الظفر الرحماني في كسف القادیانی“ کے عنوان سے اس مناظرہ کی رود در قم فرمائی تو جابجا شیخ الاسلام محدث گھوٹوی کا ذکر خیر شامل فرمایا۔

مولانا ظہور احمد بگوی کے نام تہنیتی خط :

حضرت علامہ مولانا ظهور احمد بگوی بھیروی داخلی، حضرت شیخ الاسلام اللہ کے ولی دوست، قریبی ساتھی اور یک جان دو قالب قسم کے ہم مسلک تھے۔ آپ نے تحفظ عقائد اسلام کے لئے انجمن حزب الانصار بھیرہ قائم فرمائی اور رسالہ شمس الاسلام بھیرہ کا اجرا فرمایا۔ ماہ ستمبر ۱۹۳۲ء میں ضلع شاہ پور / سرگودھا میں قادیانی مبلغین نے یلغار کردی تو مولانا ظہور احمد بگوی نے مناظرین و علمائے اسلام کی ایک جماعت لے کر شہر شہر قریہ قریہ اُن کا تعاقب کیا۔ مسلم قادیانی مناظرات ہوئے اور قادیانیت کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملی۔ قادیانیت اپنے نام نہاد مبلغین کے ساتھ روسیاہ ہو کر ضلع بدر ہوئی ۔ مناظروں کی روداد مولانا ظہور احمد بگوری کی سربراہی میں اہل اسلام کی کامرانی کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ جب حضرت شیخ الاسلام مولانا غلام محمد گھوٹوی کو حضرت مولانا ظہور احمد بگوی کی مساعی جمیلہ کا علم ہوا تو آپ نے ان کی خدمت میں تہنیتی خط ارسال فرمایا۔ آپ نے لکھا:

از بہاول پور، مهر منزل، محلہ گنج

۳۰ ستمبر ۱۹۳۲ء

السلام عليكم ورحمة الله و بركاته ، مزاج گرامی!

این کار از تو آید و مردان چنین کنند

مکرمی و عظمی جناب مولانا ظہور احمد صاحب دام مسجد کم

آپ کی مساعی جمیلہ جو طائفہ طاغیہ قادیانی کے برخلاف آپ نے مبذول فرمائی ہیں، اخباروں میں پڑھ کر نہایت خوشی ہوئی ۔ بالخصوص جو علمی تعاقب جناب نے اس جماعت کا کیا اور کہیں بھی انہیں اطمینان سے بیٹھنے نہ دیا۔ یہ کام اپنی نظیر آپ ہے۔ اس قسم کی کوششیں ہی اس جماعت کو نیچا دکھا سکتی ہیں۔ الحمد للہ اس کامیابی پر میں جناب کو دلی مبارک باد عرض کرتا ہوں۔ قبول فرما کر متشکر فرمائیں۔ والسلام

غلام محمد گھوٹوی

حال ساکن بہاول پور 5


  • 1 البقرۃ،247/2
  • 2 البقرۃ،21،22//2
  • 3 الظفر الرحما نی فی کسف القادیانی ،ص:166تا 169،عقیدہ ختم نبوت ،ج:8،ص:180تا 182
  • 4 شخصیت وافکار شیخ الاسلام محدث گھوٹوی ،ص:166
  • 5 تذکار بگویہ ،ص:681،682

Netsol OnlinePowered by