logoختم نبوت

حیات و نزول عیسی علیہ السلام پر قرآن سے آیات مبارکہ

1وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًا وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰه وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰـكِنْ شُبِّهَ لَهُم وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْه مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْه وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِه وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا 1

اور ہم نے یہود پر لعنت کی بسبب اُن کے کفر کرنے اور مریم پر بڑا بہتان اٹھانے اور اُن کے اس کہنے کے کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسی بن مریم خدا کے رسول کو اور انہوں نے نہ اُسے قتل کیا نہ اُسے سولی دی بلکہ اُس کی صورت کا دوسرا بنا دیا گیا اُن کے لیے اور بے شک وہ جو اُس کے بارے میں مختلف ہوئے ( کہ کسی نے کہا اس کا چہرہ تو عیسیٰ کا سا ہے مگر بدن عیسی کا سانہیں یہ وہ نہیں کسی نے کہا نہیں بلکہ وہی ہیں ) البتہ اس سے شک میں ہیں انہیں خود بھی اُس کے قتل کا یقین نہیں مگر یہی گمان کے پیچھے ہو لینا اور بالیقین انہوں نے اُسے قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے اُسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے اور نہیں اہل کتاب سے کوئی مگر یہ کہ ضرور ایمان لانے والا ہے۔ عیسی پر اُس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن عیسیٰ اُن پر گواہی دے گا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ہر یہودی اور عیسائی اور وہ افراد جو غیرِ خداکی عبادت کرتے ہوں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے حتّٰی کہ اس وقت ایک ہی دین ، دینِ اسلام ہو گا۔ اور یہ اس وقت ہو گا کہ جب آخری زمانے میں آپ علیہ السلام آسمان سے زمین پر نزول فرمائیں گے۔ اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعتِ محمدیہ ﷺکے مطابق حکم کریں گے اور دینِ محمدی کے اماموں میں سے ایک امام کی حیثیت میں ہوں گے اور عیسائیوں نے ان کے متعلق جو گمان باندھ رکھے ہیں انہیں باطل فرمائیں گے، دینِ محمدی کی اشاعت کریں گے اوراس وقت یہود و نصارٰی کو یا تو اسلام قبول کرنا ہو گا یا قتل کر ڈالے جائیں گے، جزیہ قبول کرنے کا حکم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نزول کرنے کے وقت تک ہے۔ 2

اس قول سے معلوم ہوا کہ ابھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات واقع نہیں ہوئی کیونکہ آپ علیہ السلام کی وفات سے پہلے سارے اہلِ کتاب آپ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے۔ حالانکہ ابھی یہودی آپ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قریبِ قیامت زمین پر تشریف لائیں گے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام کی اس آمد پر سارے یہودی آپ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے اس طرح کہ سب آپ علیہ السلام کے اللہ عزوجل کا بندہ اور اللہ عزوجل کی طرف سے ایک کلمہ ہونے کا اقرار کر کے مسلمان ہو جائیں گے۔

یکون علھہم شھیدا
وہ ان پر گواہ ہوں گے۔

یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن یہود یوں پر تو یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے آپ علیہ السلام کی تکذیب کی اور آپ علیہ السلام کے حق میں زبانِ طعن دراز کی اور نصارٰی پر یہ گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے آپ علیہ السلام کو رب ٹھہرایا اور خدا عزوجل کا شریک جانا جبکہ اہلِ کتاب میں سے جو لوگ ایمان لے آئیں گے ان کے ایمان کی بھی آپ علیہ السلام شہادت دیں گے۔

اس آیت کی تشریح درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكُنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثُمَّ، يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا3
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسی ابن مریم تمھارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے ۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے ، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے ۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجده دنیا و مافیہا سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابو ہریرہ نے کہا کہ اگر تمھارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو۔
وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدً

”اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسی کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے ۔ “

آیت کی تشریح میں امام زمحشری لکھتے ہیں :

وہ سید نا عیسی قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اور وہ جب اتریں گے تو اس کے بعد دجال کو قتل کریں گے ۔ اور خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑ دیں گے ۔ 4

مزید فرماتے ہے کہ:

اور کہا گیا ہے کہ اس کی ضمیر سید نا عیسی کی طرف راجع ہے اور (اس کا مطلب یہ ہے کہ) جب وہ قرب قیامت آسمان سے نازل ہوں گے تو اہل کتاب میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچے گا جو سید نا عیسی پر ایمان نہ لے آئے ۔ اور سید نا عیسی زمین پر چالیس سال رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی۔ 5

علامہ ابن جریر طبری فرماتے ہے کہ:

اہل کتاب حضرت عیسی کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔ اللہ کی قسم اس وقت وہ اللہ تعالی کے ہاں زندہ ہیں۔ لیکن جب وہ آسمان سے اتریں گے تو سب لوگ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔“ 6

مذکورہ آیات حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے سلسلہ میں بہت ہی واضح اور صاف طور پر تمام شکوک و شبہات کو دور کرتی ہیں ، کہ نہ تو ان کو قتل کیا گیا نہ سولی پر چڑھایا گیا اور یہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ اللہ رب العزت نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان پر اٹھا لیا اور ایک دوسرے شخص کو حضرت عیسی علیہ سلام کا شبیہ اور ہم شکل بنادیا اور حضرت عیسی علیہ سلام سمجھ کر اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا ، اور اسی وجہ سے یہود بے بہبود کو اشتباہ ہوا۔ جب قرآن مجید ہم کو عیسی علیہ سلام کے سلسلہ میں یہ عقیدہ دیتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ اور حضرت خاتم النبیین صلی السلام کی مانیں یا کسی یہودی یا قادیانی کی، ایمان اللہ پر لائے ہیں اور اس کے نبی خاتم پر، پھر یہودی یا قادیانی کی کیا حیثیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف آسمان میں اٹھا لیا۔ امام رازی نے

وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ

کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حضرت عیسی کے ساتھ خاص خصوصیت تھی کہ انہیں کے نفخہ و پھونک سے پیدا ہوئے ، انہیں کی تربیت میں رہے اور وہی ان کو آسمان پر چڑھا کر لے گئے ۔7

2وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖۚ-وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا 8

کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لے آئے گااور قیامت کے دن وہ (عیسیٰ) ان پر گواہ ہوں گے۔

ماقبل کی آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لینے کا ذکر تھا، تو اب طبعی طور پر سوال ہوتا ہے کہ رفع الی السماء کے بعد اب کیا ہوگا ، اس آیت میں اس کا جواب ہے کہ اس وقت وہ تو آسمان میں زندہ ہیں مگر قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے، اور اس وقت تمام اہل کتاب ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے، اور جو ان کے قتل یا موت کے مدعی ہیں ان کو اپنی آنکھوں سے زندہ سلامت دیکھ کر اپنی غلطی ؟ پر ذلیل و نادم ہوں گے۔ دوسرے پہلی دلیل والی آیت میں اہل کتاب یہود کے کفر اور عداوت کا ذکر تھا، اور آسمان پر اٹھا لینے کا ذکر تھا۔ اس آیت میں نزول عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے اور آسمان سے اترنے کے بعد اہل کتاب کے ایمان اور نبوت عیسیٰ علیہ السلام کے تصدیق کا ذکر ہے؛ کیوں کہ اللہ رب العزت ہی خبر دے رہے ہیں کہ عیسیٰ علیہ سلام کے آسمان سے اترنے کے بعد کوئی اہل کتاب میں سے باقی نہیں رہے گا، جو عیسی علیہ السلام کی موت طبعی سے پہلے ان کی نبوت ورسالت پر ضرور بالضرور ایمان لے آئے گا، الغرض رفع الی السماء سے پہلے تکذیب اور عداوت تھی ، نزول کے بعد تصدیق و محبت ہوگی اور قیامت کے دن عیسی علیہ السلام تصدیق یا تکذیب کی شہادت دیں گے۔ حاصل کلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں ، قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور ان کی وفات طبعی سے پہلے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے اس کے بعد حضرت عیسی ابن مریم علیہا السلام کی وفات ہوگی اور حضور خاتم النبیین سلایا الہام کے روضہ اقدس میں مدفون ہوں گے۔

3وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ9

اور کافروں نے مکر کیا ا ور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہےیاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسٰی میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا- اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤگے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔

اس آیت میں حق جل مجدہ نے یہودیوں کی بری تدبیر جو خفیہ طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑ کر قتل کرنے کی تھی ، اس کو منجانب اللہ نا کام اور نامراد کر کے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ سلام کی حفاظت اور مکمل عصمت وحراست کی ایسی حکیمانہ غیبی تدبیر کی جو یہودیوں کے وہم وگمان سے بھی بالا تر اور برتر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو حضرت عیسی علیہ سلام کا ہم شکل بناد یا یہودی جب گھر میں داخل ہوئے تو اس ہم شکل کو عیسی سمجھ کر قتل کر دیا اور سولی پر چڑھا دیا۔ جب کہ حق تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ سلام کو پہلے ہی آسمان پر اپنی عظیم قدرت وقوت سے اٹھالیا تھا ، اور سچ یہی ہے کہ اللہ تعالی تمام مخلوق سے بہتر و برتر تدبیر والے ہیں، کیا مخلوق کی تدبیر اللہ رب العزت کی تدبیر کا مقابلہ کر سکتی ہے؟

الغرض عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد جو ان کے قتل یا سولی کے سلسلہ میں اختلاف تھا اس کا فیصلہ فرمادیں گے کہ یہود کا نظریہ غلط تھا اور یہود کا گمان باطل ہو جائے گا کہ ہم نے عیسی مسیح کو قتل کر دیا۔ اور نصاری کا بھی عیسی علیہ اسلام کے سلسلہ میں جو عقیدہ تھا کہ وہ اللہ یا اللہ کے بیٹے ہیں ، یہ بھی باطل ہو جائے گا، اور روز روشن کی طرح یہ واضح وصاف ہو جائے گا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسی جسد عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے، اور اسی جسم کے ساتھ آسمان سے اترے ہیں۔

4 اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰٓىٕكَةً فِی الْاَرْضِ یَخْلُفُوْنَ وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ وَ لَا یَصُدَّنَّكُمُ الشَّیْطٰنُۚ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ10

عیسیٰ تونہیں ہے مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایاہے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ایک عجیب نمونہ بنایا۔اور اگر ہم چاہتے تو زمین میں تمہارے بدلے فرشتے بسادیتے۔اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرنا۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔اور ہرگز شیطان تمہیں نہ روکے بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے قیامت کے قریب نازل ہونے کو قیامت کی ایک علامت بتلایا ہے اور حق تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اور بطور خاص جو اللہ ورسول پر اور حضرت خاتم النبیینﷺ پر ایمان لانے والوں کو تاکید و ہدایت فرمائی ہے کہ تم لوگ ذرہ برابر بھی عیسی علیہ السلام کے قیامت کے قریب آسمان سے اترنے میں شک و شبہ اور تر درد نہ کرو؛ کیوں کہ حق تعالی جل مجدہ کو معلوم تھا کہ گمراہ و باطل فرقہ وجود میں آئے گا، اور یہود بے بہبود کی پیروی میں جو یقینی اور حتمی بات اللہ تعالیٰ نے فرمادی اس میں بھی شک و شبہ پیدا کر کے قادیانی و مرزائی بن کر راه نجات و ہدایت کو کھو دے گا ، چھوڑ دے گا ، اس لئے پھر پر زور تاکید کی کہ دیکھو حضرت محمد خاتم النبینﷺ ہی کی اتباع و پیروی کرنا، میرے آخری نبی جو کہیں اس کو ماننا ، خاتم النبیین ﷺجو عیسی علیہ السلام کے آسمان سے آنے کے سلسلہ میں فرمائیں اس کو ماننا، اس پر عقیدہ کو مستحکم اور مضبوط رکھنا اس کو مغفرت و نجات کا ذریعہ جانا اور مانا کہ حضور خاتم النبیینﷺ کی اتباع اور پیروی ہی صراط مستقیم کی راہ اور ضمانت ہے، خاتم النبیینﷺکی عیسی السلام کے آسمان سے اترنے کی بات سے انحراف اور منھ موڑنا اور شک و شبہ اور کسی بھی ادنی تردد کو جگہ دینا، مثیل مسیح یا عیسی ابن مریم کے علاوہ کسی دوسرے کو عیسی ماننا، یا عیسی ابن مریم کے آسمان سے اتر نے میں شک و شبہ رکھنا، سنو اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ وہ شیطان ہے جو تم کو راہ نجات اور حق و صواب، اور صراط مستقیم سے ہٹا رہا ہے اور دور کر رہا ہے۔ لہذا اس کی پیروی نہ کرنا ، وہ شیطان بشکل انسان ہے، اور تم کو معلوم ہے کہ شیطان تمہاراکھلا دشمن ہے۔ علامہ ابن کثیرفرماتے ہیں:

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ للسَّاعَةِ 11

سے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہونا مراد ہے، اور یہی رائے حضرت عبداللہ بن عباس علی الهند ، حضرت ابو ہریرہ ، مجاہد، ابو العالیہ ، ابو مالک ، عکرمہ ، حسن بصری، قتاده ،ضحاک وغیرہ کا بھی ہے۔ جیسا کہ آیت

وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ 12

ۚ اور احادیث متواترہ سے حضرت عیسی ابن مریم علی السلام کا نزول یعنی آسمان سے آنا قبل قیامت ثابت اور محقق ہے۔ 13( ) ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ جو شخص حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کو قیامت کی علامت نہ سمجھے وہ شیطان ہے، تم کو سیدھے راستے سے روکنا چاہتا ہے، اور تمہارا کھلا دشمن ہے اس کے کہنے میں ہر گز نہیں آنا۔


5اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْه اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ14

اور یاد کرو جب فرشتوں نے مریم سے کہا اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح عیسٰی مریم کا بیٹا رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا۔

حضرت مسیح علیہ السلام کے نسب پر جو خبیث باطن طعن کریں گے، یا اللہ کو یا کسی انسان کو جھوٹ موٹ ان کا باپ بتلائیں گے، یا خلاف واقع ان کو مصلوب یا مقتول کہیں گے، یا بحالت زندگی مردہ کہیں گے یا الوہیت یا ابنیت وغیرہ کے باطل عقائد کے مشرکانہ تعلیم ان کی طرف منسو کریں گے، اس طرح تمام الزامات سے حق تعالیٰ دنیا اور آخرت میں علانیہ بری ظاہر کر کے ان کی وجاہت و نزاہت کا عَلَى رُوسِ الْأَشْهَادِ اظہار فرمائے گا، جو وجاہت ان کو ولادت و بعثت کے بعد دنیا میں حاصل ہوگی ، اس کی پوری پوری تکمیل نزول کے بعد ہو گی جیسا کہ اہل اسلام کا اجماعی عقیدہ ہے۔

الغرض عیسی ابن مریم علیہ السلام نے اپنی اور والدہ دونوں کی طہارت ، نزاہت کی وضاحت کے ساتھ اپنی نبوت ورسالت کا بھی اعلان کر دیا ، اور لوگوں کو قیامت تک کے لئے آگاہ کر دیا کہ میں مبارک اور مسعود ہوں ۔

دوسری وجاہت کا ظہور اس طرح ہوا کہ جب دشمنوں نے پکڑنے اور قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے زندہ اور صحیح و سالم با عزت و کرامت برکت والے کو برکت والی جگہ آسمان پر اٹھالیا، اور دشمن نامراد ہو گئے ، اور دیکھتے رہ گئے۔

اور تیسری مرتبہ وجاہت کی بھر پور تکمیل اور زمین کی کفر و یہودیت کی نجاست و غلاظت سے تطہیر کا عمل ظاہر ہوگا، ان شاء اللہ ، حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کے بعد کہ جو یہود و نصاری اہل کتاب یا دین اسلام کے علاوہ جو بھی باطل اور بددین ہوگا یا تو اسلام لے آئے گا تو وہ زندہ رہنے کا حقدار ہوگا ، بقیہ تمام ادیان کا حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام صفایا کرا دیں گے، اور غیر اسلام کسی دین کو قبول ہی نہیں کریں گے، اور یہ تمام اہل اسلام کا بنیادی اور اجماعی و قطعی عقیدہ ہے۔

6وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ٘-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ15

اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کیاور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی ۔

اور ہم نے عیسی ابن مریم علیہ السلام کو کھلے کھلے دلائل عطا فرمائے اور ہم نے ان کی تائید روح القدس یعنی جبرئیل علیہ السلام سے فرمائی ، حضرت عیسی علیہ السلام معاصی سے معصوم اور پاک تھے، پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ولادت کے وقت شیطان کے چھونے اور مس یعنی ہاتھ لگنے سے پاک رکھا۔ بخاری شریف حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی شما السلام نے ارشاد فرمایا: جو بچہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں پیدا ہوتا ہے، اسے ولادت کے وقت شیطان چھوتا ہے، سوائے مریم اور اس کے فرزند ( عیسی ) کے کہ دونوں شیطان کے مس چھونے سے محفوظ رہے،16 اللہ اکبر حضرت عیسی علیہ سلام میں طہارت و پاکی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ مردوں کی پشت اور حیض والے رحم سے محفوظ رہے تھے۔ روح القدس سے تائید کی صورت

وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ17

اور خاص طور پر روح القدس یعنی جبرئیل امین سے ان کو قوت دی جو ہر وقت اُن کے ساتھ رہتے تھے ، اور دشمنوں سے ان کی حفاظت کرتے تھے، ولادت سے لے کر رُفع إلى السماء کے وقت تک جبرئیل علیہ السلام آپ کے محافظ رہے اور اس کے آثار و ثمرات وانوارات و تجلیات اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے ۔

جب اللہ رب العزت عیسی ابن مریم کو کلمتہ اللہ ، روح اللہ ، آیۃ اللہ ، بتلا رہے ہیں اور مزید

وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ18

فرما کر یقین کی قوت کو مستحکم کر رہے ہیں ، کہ جس کی نصرت و تائید ہر وقت جبرئیل امین جو سردار ملائکتہ ہیں، ان سے ہو رہی ہے کیا ذرہ برابر بھی ممکن ہے کہ دشمن ان کو گزند و تکلیف پہنچادے، اور فرمادیا نہ ان کو قتل کیا گیا نہ سولی دی گئی ؛ بلکہ اللہ نے روح اللہ کو آسمان پر اٹھا لیا، پھر شک و شبہ کرنا یہ بے ایمان ہونے کی دلیل ہے کہ اللہ ہی کی نہیں مانتا ہے، تو وہ پھر ہماری کب مانے گا ، اور پھرنور علی نور آسمان سے اترنے اور پھر اترنے کے بعد جو حضرت عیسیٰ روح اللہ کا تطہیر کا عمل ہے وہ تو ابھی پورا ہونا باقی ہے۔

7وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّة 19

اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے۔

اس آیت کریمہ میں اصلا تو جواب ہے ان لوگوں کے اعتراض کا جو نبی و رسول کو شادی پیاد اور بیوی بچوں والا ہونے کو خلاف نبوت ورسالت جانتے تھے، جب کہ اللہ رب العزت کی یہی سنت وعادت رہی ہے کہ وہ اپنے انبیاء ورسل کو صاحب اہل و عیال بنا کر پوری دنیا کے انسانوں کا نمونہ واسوہ بناتا ہے؛ کیوں کہ انبیاء ورسل انسانوں کی رشد و ہدایت کے لئے بھیجے جاتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ بھی انسانوں میں سے ہی ہوں ؛ تا کہ انسانوں کو تمام حوائج بشریہ اور تعلقات معاشرت کا ربانی نظام اور احکام سے باخبر کر سکیں، اور حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ سے پہلے جو رسول ہوئے وہ بھی اہل و عیال کی نعمت سے نوازے گئے ، تو پھر ہمارے حضرت خاتم النبینﷺ پر انگلی کیوں اٹھارہے ہو، نظام عالم یوں ہی چلتا آیا ہے۔ یہ انسانوں پر اللہ تعالی کا بڑا فضل و کرم ہے کہ ان ہی میں سے ایک نبی اور رسول بھیج دیتا ہے، جو انسانی کمزوری اور حاجتوں اور ضرورتوں اور زندگی کے تمام تقاضوں کو پورا کر کے رشد و ہدایت کی صحیح رہنمائی کر کے امت کو رہبانیت و تجرد کی جگہ ربانیت اور للہیت کی راہ گامزن کر کے ولایت کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیتا ہے، اور ہمارے حضرت خاتم النبیین ﷺ کی خلوت و جلوت قیامت تک کے لئے مشعل رشد و ہدایت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اصل کی طرف رجوع حضرت عیسی ابن مریم بھی اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے رسولوں میں ایک رسول ہیں، یہود بے بہبود نے دشمنی و عناد کی راہ اختیار کی اور روح اللہ کلمتہ اللہ کے قتل کی ناپاک سازش چلائی، اللہ رب العزت نے اپنی کامل قدرت اور تدبیر سے آسمان پر زندہ اٹھالیا، اور یہود نامراد ہو گئے، جو وَجِيها في الدُّنْیا تھا، وہ آج بھی وجاہت کے ساتھ آسمان میں زندہ ہے اور وقت موعود پر اللہ تعالی آسمان سے اتاریں گے، اور تمام اہل کتاب ایمان لائیں گے پھر زمین کو بد عقیدگی اور غیر اسلامی زندگی سے پاک وصاف کر دیا جائے گا، اور آیت وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ( النساء: ۱۵۹) بتلا رہی ہے اور اگلی تفصیل ہمارے حضرت خاتم النبیین ﷺنے بتلایا کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام تشریف لانے کے بعد کیا کیا امور انجام دیں گے یہاں سورۃ الرعد کی آیت نمبر 38 میں اللہ تعالی نے اطلاع دی ہے کہ حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ سے پہلے جو رسول ہوئے ، اللہ تعالی نے ان کو اہل و عیال عطا کیا ۔

نبی ﷺ سے پہلے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام رسول تھے، جو آسمان سے اللہ تعالی کے علم کے مطابق تشریف لائیں گے، اور پھر جو امور ان سے متعلق ہیں، انجام دیں گے، ان میں سے شادی کرنا اور ذریت کا ہونا حضرت خاتم النبیین صلی السلام کی خبر صادق سے پتہ چلتا ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُوْلِدُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوْتُ فَيُدْفِنُ مَعِي فِي قَبْرِ فَأَقُوْمُ وَعِيْسَيَ بْنُ مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ 20
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الا السلام نے ارشاد فرمایا: آئندہ زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے (اس سے صاف ہے کہ حضرت عیسیٰ اس سے پیشتر زمین پر نہ تھے؛ بلکہ زمین کے بالمقابل آسمان پر تھے ) اور شادی کریں گے، اور ان سے اولاد ہوگی اور زمین میں پیتالیس سال قیام کریں گے، یعنی زندہ رہیں گے، پھر ان کی طبعی وفات ہوگی ، تو وہ میرے قریب مدفون ہوں گے، قیامت کے دن میں مسیح بن مریم علیہ السلام کے ساتھ اور ابو بکر بن الیمن وعمر رضی المنمنہ کے درمیان قبر سے اٹھوں گا ۔


8 وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِؕ-قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْۗ-بِحَقٍّ ﳳ-اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَه عْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِك اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْۚ وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِم وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ 21

اور جب اللہ فرمائے گا: اے مریم کے بیٹے عیسیٰ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو؟ تووہ عرض کریں گے: (اے اللہ !) تو پاک ہے۔ میرے لئے ہرگز جائز نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی توتجھے ضرور معلوم ہوتی۔تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔ بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔ میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہا ر ا بھی رب ہے اور میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھااور تو ہرشے پر گواہ ہے۔

اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفعتِ جسمانی ثابت ہوتی ہے، جس کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور دوبارہ نازل ہوں گے جس کی تشریح ہمیں دوسرے دلائل سے ملتی ہے جو قرآن پاک اور متعدد احادیث میں بیان کی گئی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع کے بعد نزول ہوگا لہذا رفع اور نزول لازم و ملزوم ہوگئے ۔

آیت میں اللہ تعالیٰ کا حضرت عیسی علیہ السلام سے سوال کا ذکر ہے کہ اے عیسی ابن مریم تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ رب العزت کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو۔

حضرت عیسی علی السلام کا جواب:

اس وقت وہ کہیں گے کہ آپ پاک ہیں ( اس سے کہ آپ کا کوئی شریک ہو ) مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر ( بالفرض ) میں نے کہا ہو تو آپ اس کو ضرور جانتے ہیں؟ کیوں کہ اے اللہ تو میرے دل کی بات بھی جانتا ہیں ، اور تو ہی علام الغیوب ہیں، پھر ایسی حالات میں میں مدعی الوہیت کیسے ہو سکتا ہوں، الغرض میں نے ان سے ایسا ہر گز نہیں کہا، میں نے تو صرف وہ ہی بات کہی تھی ، جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا یعنی یہ کہ تم اللہ کی پرستش کرو جو کہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی اور جب تک میں ان میں رہا اس وقت تک میں ان کی حالت دیکھتا رہا لیکن اس وقت تک کسی نے ایسے کفریہ عقیدہ کو ظاہر نہ کیا تھا؟ تاکہ میں اس کی اصلاح کرتا پھر جب کہ آپ نے مجھے آسمان پر بلا کر بالکل اپنے قبضہ میں لے لیا تو میری نگرانی ختم ہو گئی اور اس وقت صرف آپ ان کے نگراں تھے اور آپ ہر چیز کی پوری خبر رکھتے ہیں ۔

حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت با سعادت سے آسمان پر اٹھائے جانے تک نصاری میں عقیدہ کا فساد تو آیا نہیں تھا جس کی وضاحت بارگاہ رب العزت میں وہ کر دیں گے اور وہ اس کے مکلف بھی تھے، گویا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات زندگی کے تین حصے ہیں

(1)

ایک حصہ ولادت با سعادت سے آسمان پر اٹھائے جانے تک کی ہے یہ زندگی ان کی تیس سال کی عمر سے زائد اور ۳۵ سال سے کم ہے الغرض اس زندگی میں وہ توحید کی کی دعوت اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے ماننے والوں کو مضبوطی کے ساتھ رکھا، اور ان کی قوم بھی اپنے نبی عیسی ابن مریم علیہ السلام کے دیئے ہوئے عقیدہ توحید پر جمی رہی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام منجانب اللہ اسی کے مکلف ہی تھے۔

(2)

دوسری حیات و زندگی حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی آسمان پر اٹھائے جانے کے زمانہ سے آسمان سے اترنے کے زمانہ اور حیات و زندگی کا عرصہ و زمانہ ہے۔ قرآن مجید میں جو سوال بروز قیامت ان سے ہوگا جس کا تذکرہ مذکورہ آیت میں ہے یہ اسی حیات و زندگی کے عرصہ وزمانہ کا ہے۔

(3)

حضرت عیسی علی السلام کی حیات و زندگی مبارک و میمون کا تیسرا حصہ وہ ہے، جو آسمان سے اترنے اور نزول کے بعد برکت و رحمت کے ظہور کا ہوگا ، اسی برکت و رحمت کے ظہور اور کفر و شرک کی نجاست اور یہودیت و نصرانیت کی خباثت و غلاظت کی تطہیر کے لئے تو ان کو آسمان سے حق و صداقت کی تکمیل کے لئے بھیجا جائے گا ، اس سے عیسی علیہ السلام کی حیات اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ وہ مدت جو آسمان میں زندہ رہنے کی تھی اسی مدت میں نصرانیوں نے بدعقیدگی سے عیسی اور ان کی ماں کو الوہیت کا مقام دیا تھا ،، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ تھے، اور آسمان پر تھے، آسمان پر بلائے جانے سے پہلے نصاری بھی شرک الوہیت و ربوبیت میں نہ پھنسے تھے، کہ بذات خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان میں موجود زندہ سلامت تھے، تو عقیدہ بھی سلامت تھا، بد عقیدگی نصرانیوں میں الوہیت و ربوبیت کی آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد سے نزول واترنے کی مدت میں ہے، اور اسی مدت میں وہ آسمان پر زندہ ہیں ، یہی ہمارا اور پورے اہل اسلام کا اجماعی عقیدہ ہے۔


  • 1 النساء ،156،159/4
  • 2 بغوی، النساء، تحت الآیۃ: 159،1 / 397، خازن، النساء، تحت الآیۃ:159، ۱ /448-449، صاوی، النساء، تحت الآیۃ: 159، 1 / 456، ملتقطاً
  • 3 بخاری حدیث نمبر 3448 ، باب نزول عیسی بن مریم
  • 4 تفسير الكشاف سورة الزخرف آیت نمبر: 61
  • 5 تفسير الكشاف سورة النساء آیت نمبر :159
  • 6 تفسیر طبری تفسیر سورة النساء آیت نمبر :159
  • 7 تفسیر کبیر ،ج:،ص:4361
  • 8 النساء ،159/4
  • 9 آل عمران ،54،55/3
  • 10 الزخرف ،62،59/43
  • 11 الزخرف ،61/3
  • 12 النساء ،159/4
  • 13 تفسیر ابن کثیر : ج:9،ص:146
  • 14 آل عمران ،45/3
  • 15 آل عمران ،45/3
  • 16 مسند احمد، جلد :2 ص:233
  • 17 آل عمران ،45/3
  • 18 آل عمران ،45/3
  • 19 الرعد،38/13
  • 20 کنز العمال ،حدیث نمبر: 38669
  • 21 المائدۃ ،116،117/5

Netsol OnlinePowered by