قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ تمہیں اگر علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھو تو ہم اب علمائے کرام کے دامن میں پیش ہوتے ہے اور ان کا جو عقیدہ ہے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں اس کو ملاحظہ کرتےہے چونکہ مشہور ہے کہ البرکۃ مع اکابرکم کہ برکت تمہارے بڑوں میں ہیں تو ہم بھی بڑوں والا عقیدہ رکھتے ہیں اور چونکہ ہم انہیں انعام یافتہ سمجھتے ہے اور ان کے پیچھے چلنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہے اس کے بالمقابل قادیانیوں کا جو عقیدہ ہے وہ امت میں کسی کا مؤقف نہیں چہ جائیکہ بزرگان دین کا عقیدہ ہو ۔اب ملاحظہ فرمائے:
1 اللہ عز وجل عیسی رابا سمان برداشت 1
یعنی آپ کو اللہ تعالی نے آسمان پر اٹھا لیا۔
2۔ فرود آید عیسی از آسمان بر زمین 2
یعنی عیسی علیہ السلام آسمان سے زمین پر اتریں گے۔
3۔ بہ تحقیق ثابت شده است با حادیث صحیحہ کہ عیسی علیه السلام فرودی آید از آسمان بر زمین و می باشد تابع دین محمد ﷺ حکم می کند بشریعت آنحضرت ۔ 3
یعنی صحیح حدیثوں سے البتہ ثابت ہوا کہ آپ آسمان سے زمین پر اتریں گے اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ حکم فرمائیں گے۔
4۔ سوگند بخدائے تعالیٰ کہ بقاء ذات من دروست قدرت اوست هر آئینه نزد یک است که فرود آید از آسمان در دین وملت شما عینی پسر مریم علیها السلام ۔ 4
یعنی قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ ضرور بضر ور عیسی علیہ السلام آسمان سے زمین میں اتریں گے۔
و اما رفع عيسى فاتفق اصحاب الاخبار والتفسير على انه رفع ببدنه حيا5
یعنی اہل تفسیر اور احادیث کا اتفاق ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ اسی جسم سے اٹھائے گئے۔ کس قدر صاف تصریح ہے کہ فریقین کا اتفاق ہے کہ آپ کو بمعہ جسم زندہ اٹھایا گیا۔
1۔ ان عيسى يقتل الدجال بعد ان ينزل من السماء 6
یعنی عیسی علیہ السلام آسمان سے اتر کر دجال کو قتل کریں گے۔
2۔ ان عیسیٰ دعا الله لما راى صفة محمد وامته ان يجعله منهم استجاب الله دعاه وابقى حتى ينزل في اخر الزمان ويجدد امر الاسلام 7
یعنی عیسی علیہ السلام نے جب کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کی امت کی انجیل وغیرہ میں صفت دیکھی تو یہ خواہش کی کہ مجھے بھی آپ کی امت بنا دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور زندہ باقی رکھا۔ یہاں تک کہ آپ اخیر زمانہ میں اتریں گے اور امر اسلام کی تجدید فرمائیں گے۔
ینزل عیسیٰ من السماء الى الارض 8
یعنی آپ زمین پر آسمان سے اتریں گے۔
فلما توفيتني أي بالرفع الى السماء 9
یعنی جب کہ تو نے مجھے زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔
1۔ ينزل من السماء منارة المسجد دمشق 10
یعنی آپ آسمان سے منارہ مشرقی پر اتریں گے۔
2۔ان عيسى رفع به الى السماء11
یعنی آپ کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔
1۔حدیث معراج میں فرماتے ہیں ۔ دخل اذا بعيسى بجسده عينه فانه لم يمت الى الان بل رفعه . الله الى هذه السماء 12
یعنی جس وقت آپ داخل ہوئے تو عیسی علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ایسی صورت میں ہوئی کہ آپ بعینہ بجسمہ موجود تھے۔ اس لئے کہ آپ ابھی تک فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا ہے۔
2۔ وینزل عیسیٰ ابن مريم بالمنارة البيضاء بشرقي دمشق 13
یعنی عیسی علیہ السلام مناره شرقی دمشق پر اتریں گے۔
نیز از ضلالت ایشان یعنی نصاری یکی آنست که جزم میکنند که حضرت عیسی علیه السلام مقتول شده است وفى الواقع واقعه غايت اشتباه واقع شده بود رفع بر آسمان را قتل گمان کردند و کابرا عن اکابر همان غلط روایت نمود 14
یعنی نصاری کی ایک یہ بھی جہالت ہے کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ مقتول ہوئے اور اسی غلط بات کو اپنے بڑوں سے روایت کرتے آئے۔ حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے آسمان پر اٹھا لیا ہے۔
والحق ان المسيح رفع بجسده الى السماء والايمان بذالك واجب قال الله تعالى بل رفعه الله اليه 15
یعنی حق یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بجسد و آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔
والصحيح ان الله رفع عيسى من غير موت 16
یعنی صحیح ہے کہ آپ کو بلا موت زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے۔
فبعث الله عيسى بن مريم اى بدله من السماء حاكماً بشريعتنا 17
یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ مبعوث فرمائے گا۔ یعنی آپ کو آسمان سے بدل کر ہماری شریعت کا امام حاکم بنائے گا۔
حضرت عیسی علیہ السلام مرقع رکھتے تھے۔ جس کو وہ آسمان پر لے گئے۔ کس قدر واضح ہے کہ رفع جسمی ہے۔ کیونکہ گوڈری رکھنا روح کا کام نہیں۔ 18
قال القاضي نزول عيسى وقتل الدجال حق وصحيح عند اهل السنة والجماعة بالاحاديث الصحيحة 19
یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کا اترنا اور دجال کو قتل کرنا احادیث صحیحہ کی رو سے اہل سنت و الجماعت کے نزدیک بالکل حق ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام ابھی زندہ ہیں۔ جب یہود میں دجال پیدا ہو گا تب اسی جہاں میں آکر اس کو ماریں گے۔ 20
بوقت رات ملائکہ حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر لے گئے تھے اور آپ آسمان پر زندہ ہیں۔ 21
فرفع الى السماء من تلك الروزغة22
یعنی آپ کو اس روشن دان سے اوپر اٹھا لیا گیا۔
ان المهدی الأكبر الذي يخرج في آخر الزمان وان عيسى يكون صاحبه ويصلى خلفه 23
یعنی مہدی اکبر وہ ہیں جو کہ آخیر زمانہ میں ظہور فرمائیں گے اور عیسی علیہ السلام آپ کے ساتھی ہوں گے اور آپ کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے۔
قال ابو القاسم الاندلسي لاشك أن عيسى في السماء وهوحی 24
یعنی اس میں شک نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ موجود ہیں۔
جسم خاک از عشق بر افلاک اند بایت کریمه که در سورة النساء درشان عیسی علیہ السلام بل رفعه الله الیه یعنی برداشت اولا بسوئے خود 25
یعنی احضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنی طرف اٹھا لیا۔
قال الامام المناوي في جواهر العقدين وفي مسلم خروج الدجال فيبعث الله عيسى فيقتله ويهلكه 26
یعنی دجال نکلے گا اور عیسی علیہ السلام آکر اس کو قتل کریں گے۔
أن جبرائيل ينزل على عيسى بعد نزول عيسى من السماء 24
یعنی جب عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے تو جبرائیل آپ پر آیا کریں گے۔
يقتل عيسى الدجال في الشام بالمنارة البيضاء ويقتل الدجال 25
یعنی آپ شام میں منارہ شرقی پر اتریں گے اور و جال کو قتل کریں گے۔
اولها خروج المهدي وانه يأتي في اخر الزمان من ولد فاطمة يعلاء الارض عدلا كما ملئت ظلماً وانه يقاتل الروم وينزل عيسى ويصلى خلفه 26
مختصر ا یعنی پہلی علامت قیامت یہ ہے کہ اخیر زمانہ میں مہدی علیہ السلام حضرت فاطمہ کی اولاد سے تشریف لا لائیں گے اور زمین کو جس طرح کہ وہ ظلم وستم سے پر ہوگئی۔ عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور آپ روم سے مقابلہ کریں گے اور عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور امام مہدی کے پیچھے نماز ادافرمائیں گے۔
عشق عیسی را بگردوں میجر در یافتہ ادریس جنت از صمد 27
یعنی آپ کو عشق خداوندی آسمان پر لے گیا اور اور ادریس علیہ السلام کو الہ العالمین سے جنت ملی ۔
و التاسع رفع الله عز وجل عيسى بن مريم الى السماء 28
یعنی آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔
ثم تنبه بقول وكان الله عزيزاً حكيماً على ان في قدرته سهلاً 29
یعنی آپ کا اٹھانا اور زندہ آسمان پر لے جانا ہماری قدرت میں کوئی مشکل نہیں۔
ان الاخبار تواترت برفع عيسى حيا وانه في السماء حى وانه منزل ويقتل الدجال 30
یعنی احادیث متواترہ سے ثابت ہوا ہے کہ آپ آسمان پر زندہ ہیں اور آپ اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔
اى قبضتنی ورفعتني اليل الى السماء 31
یعنی تو نے مجھے آسمان پر اٹھالیا ۔
قال خاتمۃ مما یلحق بباب الامامۃ بحث خروج المھدی ونزول عیسى ﷺ وهما من اشراط الساعۃ وقد وردت فی هذا الباب اخبار صحاح وان كانت آحادا ویشبہ ان یكون حدیث خروج الدجال متواتر المعنی اما خروج المهدی31
باب امامت کے ملحقات کے بارے میں خاتمہ، ظہور امام مہدی اور نزول عیسیٰ کی بحث یہ دونوں قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں اگر چہ وہ خبر واحد ہیں، اور اس بات کے قریب اور مشابہ ہیں کہ خروج دجال کی حدیث متواتر المعنی ہے۔
آپ اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں: قیامت کی علامتیں جن کی خبر مخبر صادق ﷺ نے دی ہے سب حق ہیں۔ ان میں کسی قسم کا خلاف نہیں بعض نادان گمان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اہل ہند میں سے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا وہی مہدی موعود ہے تو ان کے گمان میں مہدی گزر چکا ہے اور فوت ہو گیا ہے، اس کی قبر کا پتہ دیتے ہیں کہ فرا میں ہے۔احادیث صحیحہ جو حد شہرت بلکہ تواتر تک پہنچ چکی ہیں، ان لوگوں کی تکذیب کرتی ہیں۔31
ان الله تعالى رفع عیسیٰ الی السماء 32
یعنی آپ کو اللہ تعالی نے آسمان پر اٹھا لیا۔
و اما تواتر احادیث المهدی والدجال والمسیح فلیس بموضع ریبۃ عند اهل العلم بالحديث 33
امام مہدی، دجال اور حضرت عیسیٰ کی احادیث کا تواتر علمائے حدیث کے نزدیک شک وشبہ سے پاک ہے۔
قد كثرت الاقوال فی المهدی حتى قيل لا مهدی الا عیسى، والصواب الذی علیہ اهل الحق ان المهدی غیر عیسى وانہ یخرج قبل نزول عیسى علیہ السلام، وقد كثرت بخروجہ الروایات حتى بلغت حد التواتر المعنوی وشاع ذلك بین علماء السنۃ حتى عد من معتقداتهم31
امام مہدی کے بارے میں کثیر اقوال ہیں، یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ عیسیٰ کے سوا کوئی مہدی نہیں، اور درست مذہب جس پر اہل حق ہیں یہ ہے کہ امام مہدی حضرت عیسیٰ کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت ہیں جو حضرت عیسیٰ کے نزول سے پہلے ظاہر ہوں گے۔ ان کے ظہور کے بارے میں اس قدر کثیر روایتیں ہیں جو تواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور ان کا ظہور علمائے اہل سنت کے درمیان اس قدر عام ہے کہ عقائد میں شمار کیا گیا۔
والحاصل ان الاحادیث الواردة فی المهدی المنتظر متواترة وكذا الواردة فی الدجال وفی نزول سیدنا عیسى ابن مريم علیھما السلام 31
حاصل کلام یہ کہ امام مہدی منتظر کے بارے میں وارد احادیث متواتر ہیں، یوں ہی دجال اور حضرت عیسیٰ کے نزول کے بارے میں وارد احادیث متواتر ہیں۔
یہ کہ نہ وہ قتل کیے گئے نہ سولی دیئے گئے بلکہ اُن کے رب ذو الجلال نے انہیں مکر یہود و عنود سے صاف سلامت بچا کر آسمان پر اٹھا لیا اور اُن کی صورت دوسرے پرڈ پر ڈال دی کہ یہود ملاعنہ نے اُن کے دھوکے میں اُسے سولی دی یہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ قطعیہ ، یقینیہ ، ایمانیہ پہلی قسم کے مسائل یعنی ضروریات دین سے ہے جس کا منکر یقیناً کافر 34
اس جناب رفعت قباب ( سید نا عیسیٰ علیہ الصلوة والسلام) کا قرب قیامت آسمان سے اترنا دنیا میں دوبارہ تشریف فرما کر اس عہد کے مطابق جو اللہ عزوجل نے تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے لیا دین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنا یہ مسئلہ قسم ثانی یعنی ضروریات مذہب اہل سنت و جماعت سے ہے جس کا منکر گمراہ خاسر بد مذہب فاجر ۔ 35