اللہ تبارک وتعالی نے قرآن پاک کا نزول فرمایا پھر اس کی حفاظت کا بھی وعدہ فرمایا جس طرح قرآن پاک کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن پاک کے معانی کی حفاظت بھی فرمائی ہے اور ایسے لوگوں کو پیدا کیا جنہوں نے اسلام کی معنوی حفاظت فرمائی جس طرح محدثین ہیں اللہ تعالی نے ان کے ذریعہ نبی ﷺ کی احادیث کو محفوظ فرمایا تو انہوں نے احادیث نقل کیں جس سے ہم نے قرآن پاک کی تشریحات کو سمجھا تو محدثین کرام اپنی کتابوں میں وہ احادیث لاتے ہے جو ان کے نزدیک سب سے صحیح ہوتی ہے تو انہیں محدثین نے حضرت عیسی علیہ السلام کے حیات و نزول کے متعلق احادیث کو لکھا ہے:
قال قال رسول الله الله والذي نفسي بيده ليوشكن ان ينزل فيكم ابن مريم حكماً عدلاً مقسطاً فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الحرب ويفيض المال حتى لا يقبل احد وتكون السجدة والواحدة خيراً من الدنيا وما فيها ثم فيقول أبو هريرة فاقروا ان شتم وان من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته1
اخرج البخاري في تاريخه عن عبد الله بن سلام قال يدفن عيسى مع رسول الله ﷺ وابي بكر وعمر ويكون قبره رابعاً 2
دونوں حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ حضرت عیسی بن مریم ضرور تم میں حاکم و عادل بن کر آئیں گے۔ پس سولی کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور لڑائی کو بند کریں گے اور مال کو اس قدر بہائیں گے کہ کوئی قبول نہ کرے گا اور ایک سجدہ دنیا و فیہا سے بہتر شمار ہوگا۔ پھر ابو ہریرہ نے فرمایا کہ تمہیں شک ہو تو یہ آیت وان من اهل الكتاب “ پڑھ لو اور حضرت عیسی علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے مقبرہ میں آپ اور ابی بکر و عمر کے ساتھ دفن کئے جائیں گے اور آپ کی چوتھی قبر ہوگی۔
یہ وہی بخاری ہے۔ جس کو مرزا قادیانی قرآن مجید کے بعد اصح الكتب مانتے ہیں۔ اس میں قرآن مجید کی رو سے مسیح علیہ السلام کی حیات اور نزول ، مدینہ ثابت ہے اور یہ بھی کہ مدینہ منورہ میں فوت ہو کر آنحضرت ﷺ کے روضہ مطہرہ میں مدفون ہوں گے۔ نہ یہ کہ کشمیر اور قادیان میں۔
یہی ہے امام بخاری کا مذہب ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں سے اس عقیدہ کے اظہار کے لئے باب ہیں اسی عنوان سے شروع کیا ہے۔ ( باب نزول عیسی بن مریم ) اور یہی وجہ ہے کہ آپ کا چونکہ مذہب یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام زندہ اٹھالئے گئے اور قبل از قیامت بعینہ اتریں گے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ امام بخاری بھی سید نا عیسی کی وفات کے قائل ہیں کیونکہ انہوں نے بخاری شریف میں حضرت ابو بکر صدیق کا خطبہ نقل کیا ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق نے یہ آیت پڑھی تھی :
وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ 3
حضرت محمد ﷺ صرف رسول ہی ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت میں حضور ﷺ سے پہلے تمام رسولوں کے فوت ہونے کا ذکر موجود ہے۔ اور تمام رسولوں میں سیدنا عیسی بھی شامل ہیں ۔ اور امام بخاری نے اس کو اپنی کتاب بخاری شریف میں نقل کیا ہے لہذا امام بخاری بھی سید نا عیسی کی وفات کے قائل ہیں۔
قادیانیوں کے اس باطل اعتراض کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔ اس آیت میں حضور ﷺ سے پہلے رسولوں کے گزرنے کا ذکر موجود ہے ان کی وفات کا ذکر موجود نہیں ہے۔
جیسا کہ خود مرزا صاحب نے
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ 4
کا ترجمہ یوں لکھا ہے:
وہ صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں ۔5
س کے علاوہ قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین نے اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے:
اور محمد تو ایک رسول ہے۔ پہلے اس کے بہت رسول ہو چکے ۔ 6
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کے لکھنے سے امام بخاری کیسے وفات عیسی کے قائل بن سکتے ہیں جبکہ اس آیت میں دور دور تک بھی سید نا عیسی کی وفات کا نام و نشان نہیں ہے۔
قادیانی امام بخاری پر دوسرا اعتراض یہ کرتے ہے کہ امام بخاری بھی وفات عیسی علیہ السلام کے قائل تھے کیونکہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کو نقل کیا جس میں متوفیک کا معنی ممیتک کیا ہے ۔ دیکھو:(بخاری ابواب التفسیر ج 3 ص83 تفسیر سورہ مائدہ اور نساء)
قادیانی اگر سچے ہے تو حضرت ابن عباس سے منسوب کوئی ایک روایت دکھا دیں جس میں آپ نے فرمایا ہو کہ سیدنا عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت دنیا میں واپس تشریف نہیں لائینگے۔
تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے ایک روایت منقول ہے جس میں حضرت عیسی علیہ السلام کے اسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہے:
فَأُلْقِيَ عَلَيْهِ شَبَهُ عِيسَى وَرُفِعَ عِيسَى مِنْ رَوْزَنَةِ بَيْتِي إِلَى السَّمَاءِ 7
عیسیٰ علیہ السلام کا ظاہری شبہ ڈال دیا گیا، اور حضرت عیسیٰ کو گھر کی ایک کھڑکی یا روزن سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔
اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے
وهذا اسناد صحیح الی ابن عباس 8
اس کی سند ابن عباس تک صحیح ہے۔
لہذا اس سے معلوم ہوگیا کہ قادیانیوں کا اعتراض نہیں بلکہ افتراء ہے۔
امام بخاری نے جو ابن عباس کا قول ذکر کیا ہے وہ بلا سند ذکر ہے لہذا اس کا اعتبار نہیں ہے۔
امام بخاری نے بخاری شریف میں نزول عیسی کا تو باب قائم کیا ہے اور اس میں روایت ذکر کی ہے لیکن وفات عیسی کا کوئی باب قائم نہیں کیا لہذا اس سے امام بخاری کے عقیدے کی وضاحت ہوگئی کہ آپ وفات کے نہیں بلکہ حیات عیسی کے قائل تھے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ، تَابَعَهُ عُقَيْلُ وَالْأَوْزَاعِيُّ9
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تمھارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسی ابن مریم تم میں اتریں گے ( تم نماز پڑھ رہے ہو گے ) اور تمھارا امام تم ہی میں سے ہو گا ۔ “ اس روایت کی متابعت عقیل اور اوزاعی نے کی۔
قال قال رسول الله الله والذي نفسي بيده ليوشكن ان ينزل فيكم ابن مريم حكماً عدلاً مقسطاً فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الحرب ويفيض المال حتى لا يقبل احد وتكون السجدة والواحدة خيراً من الدنيا وما فيها ثم فيقول أبو هريرة فاقروا ان شتم وان من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته 10
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسی ابن مریم تمھارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے ۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے ، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے ۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ « دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابو ہریرہ نے کہا کہ اگر تمھارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو « وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا » ”اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسی کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے ۔ “
عن نواس بن سمعان ان المسيح ينزل عند منارة البيضاء شرقی دمشق 11
یعنی عیسی علیہ السلام جامع دمشقی کے مشرقی منارہ پر اتریں گے۔
عن نواس ان المسيح ينزل عند المنارة البيضاء دمشق12
یعنی آپ مشرقی منارہ پر اتریں گے۔
عن ابي هريرة عن النبي قال ليس نبی بینی و بینه ای عیسی وانه ینزل 13
آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے اور عیسی علیہ السلام کے ما بین کوئی نبی نہیں اور وہ اتر نے والے ہیں۔
عن الثوبان عن النبي قال قال رسول الله اعصابتان من امتى اخرهم الله من النار عصابة تغزوا الهند وعصابة تكون مع عيسى بن مريم 14
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے دو جماعتوں کو اللہ تعالی نے دوزخ سے دور کیا ہے۔ ایک ہند سے جہاد کرے گی اور دوسری عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہوگی ( اور کفار سے لڑائی کرے گی )
اخرج ابوداؤد طيالسي في مسنده عن ابي هريرة عن النبي قال لم يسلط على الدجال الاعيسى بن مريم 15
یعنی بجز بیٹی علیہ السلام کے اور کوئی دجال کو قتل نہیں کرے گا۔
اخرج عبد الرزاق عن قتادة وانه لعلم للساعة قال نزول عيسى عليه السلام للساعة16
یعنی عیسی علیہ السلام کا اتر نا علامات قیامت میں سے ہے۔
تفسیر در منثور میں مذکور ہے کہ یہ (مفسرین) محدثین حضرت ابن عباس سے آیت وانه لعلم للساعة " کی تفسیر کرتے ہیں کہ قیامت کے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام کا اتر تا نشانی قیامت سے ہے۔17
اخرج اسحق بن بشير وابن العساكر عن ابن عباس عن النبي فيعند ذالك ينزل اخي عیسی ابن مریم من السماء18
یعنی اس وقت عیسی ابن مریم آسمان سے اتریں گے۔
اخرج ديلمي عن انس قال كان بطعام عيسى الباقلا حتى رفعه20
یعنی عیسی علیہ السلام کا طعام باقلا تھا اور اسی حالت پر ان کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔
عن ابي هريرة قـ رسول اللهﷺ كيف انتم اذ ينزل ابن مريم من السماء فيكم وأمامكم منكم21
یعنی تمہارا کیا حال ہوگا ؟ جس وقت ابن مریم آسمان سے تم میں اتریں گے اور تمہارا امام تم سے ہوگا۔