logoختم نبوت

تابعین عظام کی آراء کی روشنی میں حیات و نزول کا عقیدہ

حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق ملت اسلامیہ کا واضح مؤقف ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے جس میں کسی قسم کا شبہ نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام حیات ہے اور قرب قیامت زمین پر تشریف آوری فرمائینگے اور نبی ﷺ نے جوجو امور ذکر فرمائے ان تمام کی تکمیل کے فرمائینگے یہی عقیدہ امت نے اپنایا یہاں کچھ تابعین عظام کا موقف لکھا جارہا ہے تاکہ واضح ہو کہ وہ بھی اپنی کتب میں یہی لکھتے چلے آئیں یہ کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے :

امام اعظم ابو حنیفہ کا عقیدہ:

امام اعظم نعمان بن ثابت فرماتے ہے کہ:

خروج الدجال وياجوج وماجوج وطلوع الشمس من مغربها ونزول عيسى عليه السلام من السماء وباقي علامات يوم القيمة على ما وردت به الاخبار الصحيحة حق كائن 1

يعنى دجال اور یا جوج و ماجوج کا نکلنا اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور باقی تمام قیامت کی علامتیں جو کہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہیں۔ بالکل حق ہیں اور وہ یقینا ہونے والی ہیں۔

یہ وہ امام ہیں جن کی تقلید کا مرزا قادیانی دم بھرتے ہیں اور ان کی فراست اور فہم کو باقی اماموں سے بڑھ کر مانتے ہیں۔

مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ:

امام اعظم اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم و فراست اورفہم وروایت میں آئمہ باقی ثلاثہ سے افضل اور اعلیٰ تھے اور ان کی خداداد قوت اور قدرت فیصلہ ادقوت اور قدرت فیصلہ بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت و عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن کے سمجھنے میں ایک دست گاہ تھی۔ 2

اس سے کئی باتیں ثابت ہوئیں۔

آپ کی علمی ثقافت اور فہم و فراست باقی تین اماموں سے بڑھ کر تھیں۔

آپ کو ثبوت اور عدم ثبوت میں کافی امتیاز تھا۔

آپ مجتہد مطلق تھے۔

آپ کو معارف قرآنیہ میں ایک کامل دست گاہ تھی۔

جو آپ کا مذہب تھا وہی باقی اماموں کا مذہب تھا۔ کیونکہ ائمہ کرام کا عقیدہ کا معاملہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

پس نتیجہ صاف ہے کہ چاروں اماموں کا مذہب یہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ابھی تک اسی جسم سے زندہ ہیں اور قبل از قیامت اتریں گے۔

امام محمد بن ادریس الشافعی کا عقیدہ:

امام محمد بن ادریس الشافعی ! آپ کا یہی مذہب ہے کہ حضرت عیسی ملیہ اسلام ابھی تک حیات ہیں۔ اس لئے کہ آپ سے اعلیٰ یعنی امام اعظم کا مذہب یہی ہے ۔ دوسرا اس لئے کہ یہ امام اعظم کے شاگردوں کے شاگرد ہے کہ امام شافعی امام محمد سے پڑھتے رہیں ۔تیسرا اس لئے کہ اگر اس عقیدہ میں یہ مخالف ہوتے تو ضرور امام اعظم کی مخالفت کرتے اور بالخصوص جبکہ ایک امر اعتقادی ہو تو کسی طرح سکوت جائز نہیں ۔ پس اختلاف نہ کرنا زبردست دلیل ہے کہ اس عقیدہ میں سب امام اعظم کے ساتھ متحد ہیں ۔

امام مالک کا عقیدہ:

امام مالک کا بھی عقیدہ وہی ہے جو دوسرےاماموں کا ہے اور جو اہل مدینہ کا عقیدہ تھا ۔

امام مالک کے مقلدین آج دنیا میں کثیر تعداد میں موجود ہے اور رفع ونزول کے قائل ہیں۔

ایک عبارت جو ان کی طرف منسوب ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ:

" في العتبیة قال مالك بين ان الناس قيام يستمعون الاقامة الصلوة فتغشاهم غمامة فاذا عيسى قد نزل 3

یعنی عتبیہ میں ہے کہ امام مالک نے فرمایا کہ لوگ اس حالت میں کھڑے ہوں گے۔ اقامت نماز سنتے ہوں گے کہ اچانک ان کو ایک بادل ڈھانک لے گا۔ پس حضرت عیسی علیہ السلام یقینا اس وقت اتریں گے۔

امام مالک کے متعلق قادیانی اعتراض:

قادیانی حضرات امام مالک کی طرف ایک عبارت منسوب کرتے ہے کہ وہ حیات عیسی علیہ السلام کے قائل نہیں تھے:

وفی العتیبة قال مالک مات عیسی 4
عتبیہ میں ہے کہ امام مالک نے فرمایا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے ۔

تو اس کے متعدد جوابات ہیں:

جواب(1):

قادیانی جن کتابوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں یعنی مجمع البحار اور اکمال اکمال المعلم میں یہ بات لکھی ہے۔ تو دراصل اکمال اکمال المعلم اور مجمع البحار کے مصنف نے یہ بات ایک اور کتاب " العتبية " سے نقل کی ہے۔ جیسا کہ عبارت میں بھی یہ بات لکھی ہے۔

اور " العتبية " امام مالک کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کتاب کے مصنف کا نام "محمد عتبی قرطبی " ہے۔ جن کی وفات 255 ہجری میں ہوئی۔

اس کے علاوہ امام مالک سے منسوب اس قول کی کوئی سند نہیں بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ مالک سے مراد امام مالک ہیں یا کوئی اور مالک ہے۔ پس جب کسی قول کی کوئی سند بھی موجود نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جس کی طرف قول منسوب کیا جا رہا ہے۔ اس سے وہی شخص مراد ہے یا کوئی اور مراد ہے لہذا اس عقیدے کے مسئلے کو ایک مجھول روایت سے ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔تو امام مالک پر وفات سید نا عیسی کا قائل ہونے کا الزام لگانا سراسر بد دیانتی ہے۔

جواب(2):

قادیانی امام ابی کی کتاب " اکمال اکمال المعلم " کا جو حوالہ پیش کرتے ہیں۔ اس کی پوری عبارت پیش نہیں کرتے بلکہ صرف ایک جملہ نقل کر دیتے ہیں۔

آیئے پوری عبارت دیکھتے ہیں تاکہ قادیانیوں کا دجل پوری طرح ظاہر ہو جائے۔ کتاب کے مصنف نے اس جگہ باب باندھا ہے۔

بَابُ نُزُولِ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ

سید نا عیسی کے نازل ہونے کے بارے میں باب

آگے پوری عبارت یہ ہے۔

الأكْثَرُ أَنَّهُ لَمْ يَمُتْ بَلْ رَفَعَ، وَفِي الْعَتَبِيَّةِ قَالَ مَالِكَ مَاتَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ثَلَاثُ وَ ثَلَاثِينَ سَنَةً (اِبْنُ رُشْدٍ) يَعْنِي بِمَوْتِهِ خُرُوجَهُ مِنْ عَالَمِ الْأَرْضِ إِلَى عَالَمِ السَّمَاءِ قَالَ وَ يَحْتَمِلُ أَنَّهُ مَاتَ حَقِيقَةً وَ يَحْيَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ إِذَا لَا بُدَّ مِنْ نُزُوْلِهِ لِتَوَاتُرِ الْأَحَادِيْثِ بِذَلِك 5
اکثریت کا یہ عقیدہ ہے کہ ان (سید نا عیسی) پر موت نہیں آئی بلکہ ان کو اٹھا لیا گیا۔ " عتبیہ " میں ہے کہ مالک نے کہا کہ 33 سال کی عمر میں عیسی فوت ہو گئے ۔ امام ابن رشد نے کہا ہے کہ یہاں موت سے مراد ان (سید نا عیسی ) کا زمین سے نکل کر آسمان پر جانا ہے۔ یا اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقت میں فوت ہو گئے ہوں۔ لیکن آخری زمانہ میں دوبارہ زندہ ہوں گے ۔ کیونکہ متواتر احادیث بتاتی ہیں کہ انہوں نے ضرور نازل ہونا ہے۔“

یہاں اس عبارت میں امام مالک سے منسوب قول کی وضاحت پوری طرح موجود ہے۔ کہ اس قول سے مراد یہ ہے کہ سید نا عیسی زمین سے آسمان پر چلے گئے ۔ اور دوسری بات کہ بالفرض اگر اس قول سے مراد حقیقی موت بھی لیا جائے تو پھر بھی سید نا عیسی قرب قیامت زندہ ہو کر زمین پر ضرور تشریف لائیں گے کیونکہ اس بارے میں متواتر احادیث موجود ہیں۔

لیجئے پوری عبارت سے قادیانی دجل کی عمارت پوری طرح زمین بوس ہو گئی ۔

جواب(3):

اسی کتاب " اکمال اکمال المعلم " میں امام مالک کا ایک قول یہ بھی نقل کیا گیا ہے۔

وَفِي الْعَتَبِيَّةِ قَالَ مَالِكَ بَيْنَمَا النَّاسُ قِيَامُ يَسْتَصِفُوْنَ لِإِقَامَةِ الصَّلُوةِ فَتَغَشَّاهِمْ غَمَامَةٌ فَإِذَا عِيسَى قَدْ نَزَلَ
عتبیہ میں ہے کہ مالک نے کہا کہ اس دوران لوگ نماز کے لئے صفیں بنارہے ہوں گے کہ یکایک ان پر ایک بدلی چھا جائے گی۔ اور اچانک عیسی نازل ہو جائیں گے۔ 6

اس میں امام مالک کا عقیدہ کتنا واضح ہے کہ آپ نزول کا ذکر کررہے ہے اور نزول اور حیات لازم و ملزوم ہے کہ جب نزول ہوگا تو زندہ بھی ہے لہذا امام مالک رفع ونزول کے قائل ہیں کیونکہ ا صل بحث آپ کے نزول کی ہی ہیں حیات و وفات کا مسئلہ نزول یا عدم نزول کی تمھید ہے کیونکہ جو لوگ حیات کے قائل ہیں وہ ان کے نزول ہی کی خاطر قائل ہیں اور جو لوگ وفات کے منکر ہیں ان کی اصل دلچسپی بھی انکار نزول سے ہی وابستہ ہے۔

اکمال اکمال المعلم میں امام مالک کا یہ قول بھی نقل کیا ہے ۔

جواب(4):

اگر اس قول کی کوئی سند معتبرہ بھی ہوتی اور امام مالک کی طرف اس قول کی سند میں صدق بھی ہوتا پھر امام مالک وفات کے قائل ثابت نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ :

مات کے معنی لغت میں نام (نیند)بھی ہے۔7
موت کے معنی نیند اور بے ہوشی کے بھی ہیں۔8

تو اب اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نیند یا بے ہوشی کی حالت میں آسمان پر اتھائیں گئے۔

جواب(5):

عتیبہ میں ہی امام مالک کی تصریح کے مطابق صحابہ کرام کو حضرت عیسی کی تشریف آوری پر اس قدر وثوق تھا کہ وہ نوجوانوں کو ان کی خدمت میں سلام پیش کرنے کی وصیت کیا کرتے تھے کیا امام مالک صحابہ کے خلاف عقیدہ رکھینگے۔ ذکر ہے کہ:

وفی العتیبة كان ابو ھریرة یلقی الفتی الی الشاب فیقول یا این اخی انک عسی ان تلقی عیسی بن مریم فاقواہ منی السلام 9

جواب(6):

امام مالک کے مقلدین آج بھی دنیا میں کثیر تعداد میں موجود ہے اور رفع ونزول کے قائل ہیں اگر امام مالک کا وفات کا عقیدہ تھا تو مقلدین کا حیات کا کیوں ہیں اس سے پتا لگا کہ مقلدین کا وہی عقیدہ ہے جو امام مالک کا ہے۔

امام ااحمد بن حنبل کا عقیدہ :

امام احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی (م242ھ) کی کتاب مسند چھ ضخیم جلدوں میں اُمت کے سامنے موجود ہے، جس میں بہت سی جگہ نزول عیسی علیہ السلام کا عقیدہ درج ہے۔

مسند امام احمد بن حنبل سے ایک روایت :

يأتي بالشام مدينة بفلسطين بباب لد فينزل عيسى عليه الصلوة والسلام فيقتله ويمكث عيسى في الارض اربعين سنة اماما عدلا وحكما مقسطًا 10

وہ(دجال ) ملک شام میں شہر فلسطین دروازہ شہرلد کو جائے گا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام اتر کر اسے قتل کریں گے عیسی علیہ الصلوۃ والسلام زمین میں چالیس برس رہیں گے امام عادل و حاکم منصف ہو کر۔

امام حسن بصری کا عقیدہ:

خرج ابن جرير حسن بصرى وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمن به قبل موته قال قبل موت عيسى والله انه حى الان عند الله ولكن اذا نزل آمن به اجمعون 1

یعنی آپ فرماتے ہیں۔ قبل موتہ کی ضمیر حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف ہے اور وہ اللہ کی قسم ابھی تک آسمان پر زندہ ہیں۔ لیکن جس وقت اتریں گے سب کے سب آپ پر ایمان لائیں گے۔

امام مجاہد بن جبیر کا عقیدہ:

اخرج عبد بن حميد وابن جرير وابن المنذر عن مجاهد في قوله تعالى شبه لهم قال صلبوا غير عيسى ورفع الله اليه عيسى حيا 11

یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور ان کے علاوہ غیر کو صلیب پر دیا گیا۔

امام قتادہ کا عقیدہ:

اخرج ابن جرير ومنع الله ذبيه ورفعه اليه 12

یعنی حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھا لیا۔

عطاء ابن ابی رباح کا عقیدہ:

قال عطاء اذا نزل عيسى الى الارض لا يبقى يهودى ولا نصراني الا امن بعيسى 13

یعنی جب عیسی علیہ السلام زمین پر اتریں گے تو کوئی یہودی اور نصرانی نہ ہوگا کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان نہ لائے۔

امام جعفر، امام باقر امام زین العابدین کا عقیدہ:

اخرج عن جعفر الصادق عن ابيه محمد باقر عن جده امام حسین ابی زین العابدين قال قال رسول الله الا الله كيف تهلك امة أنا أولها والمهدى وسطها والمسيح آخرها 14

یعنی کیونکر ہلاک ہو سکتی ہے وہ امت جس کے اول میں ہوں اور درمیان مہدی اور آخر میں مسیح علیہ السلام ۔

حسین بن الفضل کا عقیدہ:

قول الحسين بن الفضل ان المراد بقوله وكهلاً بعد ان ينزل من آخر الزمان ويكلم الناس ويقتل الدجال 15

یعنی مراد اللہ تعالیٰ کے اس قول یعنی کہلا سے یہ ہے کہ آخیر زمانہ میں عیسی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔ لوگوں سے کلام کریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔


  • 1 فقہ اکبر ،ص:16
  • 1 فتح الباری ، ج :13 ص:281، عمدۃ القاری ج :7، ص :352، در منشور ج :2 ص :241
  • 2 ازالہ اوہام ج :2 ص :530،531، خزائن ج:3 ص:535
  • 3 اکمال اکمال المعلم ج:1 ص: 266
  • 4 مجمع البحار الاانوار ص:286،اکمال الاکمال المعلم ج :1 ص :265 باب نزول عیسی بن مریم
  • 5 اکمال اکمال المعلم ج:1 ص: 265
  • 6 اکمال اکمال المعلم ج: 1 ص:266
  • 7 ازالہ اوہام حصہ دوم ص:942،روحانی خزائن ج :3ص:445
  • 8 ازالہ اوہام ص: 942،روحانی خزائن ج:3 ص:620
  • 9 اکمال اکمال المعلم ج :1ص:265
  • 10 مسند امام احمد بن حنبل ،ج:13،ص:435،رقم :24348
  • 11 در منثور ج :2 ص :238
  • 12 در منثور ج :2ص:238
  • 13 تفسیر فتوحات الہیہ ج:1ص :535
  • 14 مشکوۃ المصابح ص:461
  • 15 تفسیر خازن جلد:1ص :244 تفسیر کبیر ج :2 ص :456

Netsol OnlinePowered by