logoختم نبوت

حیات و نزول عیسی علیہ السلام کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ

حیات حضرت سیدنا عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں ہم اہل اسلام اہلسنت جماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے پیارے نبی جناب حضرت سیدنا عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر ان کے جسد عنصری کے ساتھ اٹھایا اور یہود کے مکر و فریب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کو محفوظ فرمایا۔ اور قرب قیامت حضرت سید نا عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام دین اسلام کی نصرت اور مدد کے لیے دنیا میں نزول فرمائیں گے۔ حضرت سید نا عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں آکر نکاح فرمائیں گے۔ ان کے بچے ہوں گے اور پھر ان کا وصال باکمال ہوگا ۔ حضور انور ﷺ کے روضہ اقدس میں جو ایک قبر کی جگہ بچی ہے وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بنا کر حضور اکرم ﷺ کے روضہ مقدسہ میں دفن کیا جائے گا۔ اس مسئلے کی کچھ تین صورتیں ہیں :

مسئلہ اولى:

یہ کہ نہ وہ قتل کیے گئے نہ سولی دیئے گئے بلکہ اُن کے رب ذو الجلال نے انہیں مکر یہود و عنود سے صاف سلامت بچا کر آسمان پر اٹھا لیا اور اُن کی صورت دوسرے پرڈ پر ڈال دی کہ یہود ملاعنہ نے اُن کے دھوکے میں اُسے سولی دی یہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ قطعیہ ، یقینیہ ، ایمانیہ پہلی قسم کے مسائل یعنی ضروریات دین سے ہے جس کا منکر یقیناً کافر اس کی دلیل قطعی رب العزة جل جلالہ کا ارشاد ہے:

وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًا وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰه وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰـكِنْ شُبِّهَ لَهُم وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْه مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْه وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِه وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا 1

اور ہم نے یہود پر لعنت کی بسبب اُن کے کفر کرنے اور مریم پر بڑا بہتان اٹھانے اور اُن کے اس کہنے کے کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسی بن مریم خدا کے رسول کو اور انہوں نے نہ اُسے قتل کیا نہ اُسے سولی دی بلکہ اُس کی صورت کا دوسرا بنا دیا گیا اُن کے لیے اور بے شک وہ جو اُس کے بارے میں مختلف ہوئے ( کہ کسی نے کہا اس کا چہرہ تو عیسیٰ کا سا ہے مگر بدن عیسی کا سانہیں یہ وہ نہیں کسی نے کہا نہیں بلکہ وہی ہیں ) البتہ اس سے شک میں ہیں انہیں خود بھی اُس کے قتل کا یقین نہیں مگر یہی گمان کے پیچھے ہو لینا اور بالیقین انہوں نے اُسے قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے اُسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے اور نہیں اہل کتاب سے کوئی مگر یہ کہ ضرور ایمان لانے والا ہے۔ عیسی پر اُس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن عیسیٰ اُن پر گواہی دے گا۔

اس مسئلے میں مخالف یہود و نصاری ہیں اور مذہب نیچری کا قیاس چاہتا ہے کہ وہ بھی مخالف ہوں یہود تو خلاف کیا ہی چاہیں اور یہ ساختہ نیچر کی سمجھ سے دور ہے کہ آدمی سلامت آسمان پر اٹھا لیا جائے اور اُس کی صورت کا دوسرا بن جائے اس کے دھوکے میں سولی پائے مگر ختم الہی کا ثمرہ کہ نصاری بھی اُس عبد اللہ ورسول علیہ السلام کو معاذ اللہ ، اللہ و ابن اللہ مان کر پھر باتباع یہود اُسی کے قائل ہوئے کہ دشمنوں نے انہیں سولی دیدی قتل کیا نہ اُن کی خدائی چلی نہ بیٹے ہونے نے کام دیا طرفہ ( یہ کہ ان کا ) خدا (ایسا) جسے آدمی سولی دیں۔ ولا حول ولاقوة الا بالله العلى العظيم ۔

مسئله ثانیہ :

دوسرا مسئلہ یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمانوں پر اب زندہ موجود ہیں۔ اور قرب قیامت دنیا میں تشریف لائیں گے اور دنیا میں آکر دین اسلام کی نصرت اور مدد فرمائیں گے۔ شادی کریں گے ، ان کے بچے ہوں گے۔ حضرت عیسی علیہ السلام اسلام کا نظام نافذ فرمائیں گے۔ اور ان کے دور میں دین اسلام کا غلبہ ہوگا۔ اور حضرت عیسی علیہ السلام جب اپنا کام مکمل کر چکے ہوں گے پھر آپ کا وصال با کمال ہو گا تو آپ علیہ السلام کو حضور اکرم ﷺ کے روضہ اطہر میں دفن کیا جائے گا۔ اس کو نزول عیسی علیہ السلام کا مسئلہ کہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ضروریات اہلسنت کا ہے۔جس کا منکر گمراہ خاسر بد مذہب ہے اس کی دلیل احادیث متواترہ اور واجماع اہل حق ہے۔

ابو حیان اندلسی فرماتے ہے کہ :

واجيعت الامة على ما تضمنه الحديث المتواتر من ان عيسى في السماء حيى وانه ينزل في آخر الزمان، فيقتل الخنزير ويكسر الصليب ويقتل الدجال 2
حدیث متواتر کے اس مضمون پر اُمت کا اجماع ہو چکا ہے کہ حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہ آخری زمانے میں نازل ہوں گے، خنزیر کو قتل کریں گے ، صلیب کو توڑیں گے اور دجال قتل کریں گئے۔

حافظ ، اسماعیل بن عمر ، ابن کثیر الدمشقی رحمۃ اللہ علیہ (۷۷۴،۵۷۰۰ھ) لکھتے ہیں کہ:

فهده احاديث متواترة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من رواية ابي هريرة، وابن مسعود، وعثمان بن ابی العاص، وابی امامة، والنواس بن سمعان، وعبد الله بن عمرو بن العاص،ومجمع بن جارية، وابي سريحة، وحذيفة بن أسيد رضى الله عنهم، وفيها دلالة على صفة نزوله ومكانه من انه بالشام بل بدمشق عند المنارة الشرقية وان ذلك يكون عند اقامة صلاة الصبح ، 3

یہ متواتر احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا ابو هريرة ، سیدنا عبد الله بن مسعود سیدنا عثمان بن ابو العاص سیدنا ابوامامه، سیدنا نواس بن سمعان، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ، سید نا مجمع بن جاریہ ، سید نا ابو سریحہ اور سید نا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہیں ۔ ان احادیث میں حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کے اترنے کی کیفیت اور جگہ کا بیان ہوا ہے۔ آپ علیہ السلام شام، بلکہ دمشق مشرقی منارہ کے پاس اتریں گے۔ یہ معاملہ نماز صبح کی اقامت کے قریب ہوگا۔

اس مؤقف پر کچھ احادیث :

(1)والذي نفسي بيده ليوشكن ان ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلاً فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى الايقبله احد حتى يكون السجدة الواحد خير امن الدنيا وما فيها ثم يقول ابو هريرة فاقرؤ ا ان شئتم وان من اهل الكتب الاليؤمنن به قبل موته ،4

قسم اُس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک ضرور نزدیک آتا ہے کہ ابن مریم تم میں حاکم عادل ہو کر اتریں پس صلیب کو توڑ کریں اور خنزیر کو قتل کریں اور جزیہ کو موقوف کر دیں گے۔ (یعنی کافر سے سوا اسلام کے کچھ قبول نہ فرمائیں گے ) اور مال کی کثرت ہو گی یہاں تک کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا یہاں تک کہ ایک سجدہ تمام دنیا اور اُس کی سب چیزوں سے بہتر ہوگا۔ یہ حدیث بیان کر کے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے تم چاہو تو اس کی تصدیق قرآن مجید میں دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عیسی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی موت سے پہلے سب اہل کتاب اُن پر ایمان لے آئیں گے۔

(2)يأتي بالشام مدينة بفلسطين بباب لد فينزل عيسى عليه الصلوة والسلام فيقتله ويمكث عيسى في الارض اربعين سنة اماما عدلا وحكما مقسطًا ،5

وہ(دجال ) ملک شام میں شہر فلسطین دروازہ شہرلد کو جائے گا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام اتر کر اسے قتل کریں گے عیسی علیہ الصلوۃ والسلام زمین میں چالیس برس رہیں گے امام عادل و حاکم منصف ہو کر۔

(3)يخرج الدجال في امتي فيمكث اربعين، فيبعث الله عيسى ابن مريم فيطلبه فيهلكه ، 6

دجال میری اُمت میں نکلے گا ایک چلہ ٹھہرے گا پھر اللہ عز وجل عیسی بن مریم کو بھیجے گا وہ اُسے ڈھونڈ کر قتل کریں گے۔

(4)لیس بینی و بینه یعنی عیسی علیه السلام نبی وانه نازل فاذا رأيتموه فاعرفوه رجل موبوع الى الحمرة والبياض بين مُمَصَّرتين كأن راسه يقطروان لم يصبه بلل، فيقاتل الناس على الاسلام فيدق الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويهلك الله في زمانه الملل كلها الا الاسلام ويهلك المسيح الدجال فيمكث في الارض اربعين سنة ثم يتوفى فيصلى عليه المسلمون ،7

میرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بیچ میں کوئی نبی نہیں اور بے شک وہ اترنے والے ہیں جب تم انہیں دیکھنا پہچان لینا وہ میانہ قد میں رنگ سرخ و سپید دو کپڑے زرد رنگ کے پہنے ہوئے گویا اُن کے بالوں سے پانی ٹپک رہا ہے اگر چہ انہیں تری نہ پہنچی ہو وہ اسلام پر کافروں سے جہاد فرمائیں گے صلیب توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے جزیہ اٹھا دیں گے اُن کے زمانہ میں اللہ عز وجل اسلام کے سوا سب مذہبوں کو فنا کر دے گا وہ مسیح جال کو ہلاک کریں گے دنیا میں چالیس برس رہ کر وفات پائیں گے مسلمان اُنکے جنازے کی نماز پڑھیں گے۔

اس مسئلہ میں کثیر احادیث ہے ،حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان صا حب نے اس مسئلہ پر الصارم الربانی علی اسراف القادیانی میں ترتالیس احادیث لکھی ہے وہاں دیکھی جاسکتی ہے ۔

بالجملہ یہ مسئلہ قطعیہ یقینیہ عقائد اہل سنت و جماعت سے ہے جس طرح اس کا راساً منکر گمراہ بالیقین یو نہیں اس کا بدلنے والا اور نزول عیسی بن مریم رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کسی زید و عمرو کے خروج پر ڈھالنے والا بھی ضال مضل بد دین ہے ۔

مسئلہ ثالثہ:

حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات :

اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ وہ اب زندہ ہیں یہ بھی مسائل قسم ثانی سے ہے جس میں خلاف نہ کرے گا مگر گمراہ کیونکہ اہلسنت کے نزدیک تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بحیات حقیقی زندہ ہیں ، اُن کی موت صرف تصدیق وعدہ الہیہ کے لیے ایک آن کو ہوتی ہے پھر ہمیشہ حیات حقیقی ابدی ہے ائمہ کرام نے اس مسئلہ کو محقق فرما دیا ہے۔

دوسرے یہ کہ اب تک اُن پر موت طاری نہ ہوئی زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیے گئے اور بعد نزول دنیا میں سالہا سال تشریف رکھ کر اتمام نصرت اسلام وفات پائیں گے یہ مسئلہ کہ موت طاری نہیں ہوئی یہ فروعی مسئلہ ہے اس کی دلیل صرف یہی کافی ہے کہ:

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ8

کوئی کتابی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ایمان نہ لائے ۔

اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر کتابی ضرور ایمان لانے والا ہے عیسیٰ پر ان کی موت سے پہلے اور وہ ۔ وہ کتابی ہیں جو اُس وقت اُن کے زمانے میں ہوں گے تو سارے جہان میں صرف ایک دین اسلام ہوگا ۔

تصریحات ائمہ کرام و مفسرین عظام و علمائے اعلام :

امام جلال الملۃ والدین سیوطی تفسیر جلالین میں فرماتے ہیں:

اني متوفيك قابضك ورافعك الى من الدنيا من غير موت ،9
یعنی اللہ عز وجل نے عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا میں تجھے اپنے پاس لے لوں گا اور دنیا سے بغیر موت دیئے اٹھالوں گا۔

تفسیر فتوحات الہیہ میں ہے:

انه رفع الى السماء ثم يتوفى بعد ذلك بعد نزوله الى الارض وحكمه بشريعة محمد صلى الله عليه وسلم 10

وہ آسمان پر اٹھا لیے گئے اور اُس کے بعد زمین پر اتر کر شریعت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حکم کر کے وفات پائیں گے۔

امام ابو السعود تفسیر ارشاد العقل السلیم میں لکھتے ہے کہ:

الصحيح أن الله تعالى رفعه من غير وفاة ولا نوم كما قال الحسن و ابن زيد وهو اختيار الطبرى وهو الصحيح عن ابن عباس رضى الله تعالى عنهما 11

صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ بیدار اٹھالیا نہ ان کا انتقال ہوا نہ اس وقت سوتے تھے جیسا کہ امام حسن و ابن زید نے تصریح فرمائی اور اسی کو امام طبری نے اختیار کیا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی صحیحروایت یہی ہے۔

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:

القول الصحيح بانه رفع وهو حيى 12

صحیح قول یہ ہے کہ وہ زندہ اٹھا لیے گئے ۔

توضیح:

یہ ہے کہ آسمانوں پر اٹھائے جانے سے پہلے ان پر وعدہ الہیہ کے لیے موت آئی تھی یا نہیں۔اس میں دو موقف ہیں۔ ایک ہے جمہور اہل سنت کا اور ایک ہے بعض علماء کا موقف ۔

جمہور اہل سنت:

جمہور اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا ہے۔ انہیں موت نہیں دی گئی۔

جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

اما رفع عيسى فاتفق اصحاب الاخبار والتفسير على انه رفعه ببدنه حيا وانما اختلفوا هل مات قبل ان يرفع او نام 13

یعنی تمام محدثین اور مفسرین اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسی بدن کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اختلاف صرف اس بارے میں ہے کہ رفع الی السماء سے پہلے کچھ دیر کے لئے موت طاری ہوئی ۔ یا حالت نوم میں اٹھائے گئے۔ لہذا جمہور کا مؤقف یہ ہے کہ رفع سے پہلے موت طاری نہیں ہوئی ۔

خلاصہ بحث:

جناب عیسٰی علیہ السلام کے حوالے سے تین مسئلے۔ ایک یہ کہ انہیں قتل نہیں کیا گیا ۔ انہیں سولی نہیں دی گئی۔ اللہ نے یہودیوں کے مکر سے ان کو بچا کر ہے۔ آسمانوں پر نوں پر اٹھا لیا۔ یہ ضروریات دین کا دین کا مسئلہ ہے۔ اس کا منکر کافر و مرتد . دوسرا مسئلہ ہے کہ قرب قیامت عیسی علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اس کو نزول مسیح کا مسئلہ کہتے ہیں۔ یہ ضروریات اہل سنت کا مسئلہ ہے۔ اس کا منکر گمراہ اور بد دین ہے۔ تیسر اعقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو جب اٹھایا گیا تو کیا ان پر تصدیق وعدہ الہی کے لیے موت آئی تھی کہ نہیں تو جمہور کا یہ موقف ہے کہ اللہ نے موت نہیں دی۔ لیکن یہ بھی بات یاد رکھیں کہ ان کی موت وحیات کا عقیدہ ضروریات دین کا عقیدہ نہیں ۔ یہ ضروریات اہل سنت کا عقیدہ بھی نہیں

فتاوی رضویہ شریف میں امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ " قادیانی صد ہا وجہ سے منکر ضروریات دین تھا اور اس کے پس ماندے حیات و وفات سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بحث چھیڑتے ہیں جو ایک فروعی مسئلہ خود مسلمانوں میں ایک نوع کا اختلافی مسئلہ ہے۔ جس کا اقرار یا انکار کفر تو در کنار ملال بھی نہیں"۔ 14

ایسے ہی امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

أما رفع عيسى فاتفق اصحاب الاخبار والتفسير على انه رفعه ببدنه حيا . وانما اختلفوا هل مات قبل ان يرفع او نام 15

یعنی تمام محدثین اور مفسرین اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسی بدن کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اختلاف صرف اس بارے میں ہے کہ رفع الی السماء سے پہلے کچھ دیر کے لئے موت طاری ہوئی ۔ یا حالت نوم میں اٹھائے گئے۔

نزول حضرت عیسی علیہ السلام اہل سنت کا اجماعی عقیدہ ہے نہ ہر گز وفات مسیح ۔

قرآن مجید سے اتنا ثابت اور مسلمان کا ایمان کہ سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام یہود و عنود کے مکرو کیود سے بیچ کر آسمان پر تشریف لے گئے رہا یہ کہ تشریف لے جانے سے پہلے زمین پر ان کی روح قبض کی گئی اور جسم یہیں چھوڑ کر صرف روح آسمان پر اٹھائی گئی اس کا آیت میں کہیں ذکر نہیں یہ دعوی زائد ہے جو مدعی ہو ثبوت پیش کرے ورنہ قبول بے ثبوت محض مردود ہے۔

قادیانیوں کا دجل:

تو حیات و وفات مسیح کا مسئلہ نہ تو ضروریات دین کا مسئلہ ہے اور نہ ضروریات اہل سنت کا مسئلہ ہے۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام کا قتل نہ کیا جانا ، سولی نہ دیا جانا ، یہ ضروریات دین کا عقیدہ ہے۔ ان کے نزول کا عقیدہ ، یہ ضروریات اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ جو اس عقیدہ کا منکر ہے اہل سنت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور نزول سے پہلے عیسی علیہ السلام پر موت طاری ہونے کا عقیدہ نہ ضروریات دین کا عقیدہ ہے نہ ضروریات اہلسنت کا۔ جب یہ مسئلہ ہی فروعی ہے تو مرزا کے ان کفریات کو پس پشت ڈال کر جو اس نے اللہ کریم کی توہین کی انبیاء کرام کو گالیاں دیں۔ جناب عیسی علیہ السلام اور دیگر انبیاء کے معجزات کا انکار کیا۔ سیدہ طیبہ طاہرہ حضرت مریم رضی اللہ عنہا پر تہمت زنا لگائی۔ اور اسی طرح جناب عیسیٰ علیہ السلام کو گندی سری گالیاں دیا۔ اور دیگر کفریات کو پس پشت ڈال کر اُن کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات پر کیوں بات کریں ۔ ہم مرزائیوں کے ساتھ مناظرہ کریں گے۔ ان سے بحث و مباحثہ کریں گے۔ ان کے ساتھ باقاعدہ میدان مناظرہ میں نکلنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن کس مسئلہ میں؟ اس مسئلہ میں کہ اپنے مرزا کو سچا ثابت کرو۔ ہم یہ ثابت کریں گے کہ مرزا دجال تھا۔ کذاب تھا۔ مرزا کے دجل وکفر پر بات ہوگی۔ ایسا دجال نبی تو دور کی بات ہے ایک صحیح العقیدہ مسلمان بھی نہیں ہو سکتا۔

(الصارم الربانی علی اسراف القادیانی بزیادۃ از مولانا حامد رضا خاں صاحب )


  • 1 النساء ،4/156تا159
  • 2 ابو حیان اندلسی: التفسير البحر المحیط جلد :3، ص:173
  • 3 ابن کثیر ،ج:2،ص:423
  • 4 بخاری ،کتاب احادیث الانبیاء ،باب نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام ،رقم :3448،ص:581
  • 5 مسند امام احمد بن حنبل ،ج:13،ص:435،رقم :24348
  • 6 مسلم ،کتاب الفتن واشراط الساعۃ ،باب فی خروج الدجال ومکثہ فی الارض ،رقم:7381،ص:1274
  • 7 سنن ابو داؤد ،کتاب الملاحم ،باب خروج الدجال ،رقم :4324،ص:853
  • 8 النساء ،159/4
  • 9 تفسیر جلالین ،تحت آیت 55 سورۃ آل عمران ،ص:50
  • 10 حاشیۃ الجمل علی تفسیر الجلالین ،ج:1،ص:425
  • 11 تفسیر ارشاد العقل السلیم ،ج:2،ص:51،52
  • 12 عمدۃ القاری ،ج:15،ص:308
  • 13 تلخیص الحبیر ،ج:3،ص:426،روایت نمبر :1607
  • 14 فتاوی رضویہ ج:15 ،ص:612،613
  • 15 تلخیص الحبیر ،ج:3،ص:426،روایت نمبر :1607

Netsol OnlinePowered by